قصہ چہار درویش

پہلے درویش نے بیڑی کا کش لگایا اور آنکھیں موند کر گویا ہوا....:
صاحبو یہ فقیر پرتقصیر خاک در خاک کھرڑیانوالہ ضلع فیصل آباد کا ساکن ہے-بچپن سے ہی طبیعت ایڈونچر کی طرف مائل تھی چنانچہ شاہی سپاہ میں جا بھرتی ہوا اور ایک طویل عرصہ تک جنگ وجدل میں دشمن کو لوہے کے چنے چبوائے-زندگی بھر صحراؤں اور ویرانوں کی خاک چھان کر عازم ریٹائرمنٹ ہوا اور سرکار سے اڑھائی ہزار سکہ رائج الوقت کے لگ بھگ پنشن پائی - ذہن مائل بہ تجارت تھا چنانچہ کل جمع پونجی داؤ پر لگائی اور ایک آٹا پیسنے والی چکی لگا بیٹھا- لیکن افسوس بلبل ہزار داستان گلشن تقدیر میں یوں چہکا کہ جب بھی آٹا تولا جاتا ,دانوں سے کم نکلتا چنانچہ گھر کے آٹے سے سبسڈی دینی پڑتی- یوں رفتہ رفتہ گھر کا رزق خلاص ہوا اور بندہ فقیر قلاش ہوا -فکر معاش نے آن گھیرا تو چکی آدھی قیمت پر بیچ کر دارلسلطنت کا رخ کیا کہ کاخ امراہ بہتوں کی امان گاہ ہے - دارلسلطنت آکر ایک بھاری سفارش کے طفیل ریاض بحریہ میں کوتوالی کا کار نصیب ہوا,مشاہرہ 10 ہزار سکہ رائج الوقت بمعہ روٹی رہائش - فکر معاش تم چکا تھا اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ یکایک ایک دن ہنگامہ محشر بپا ہوا اور دارلسلطنت میں دھرنے کی آمد آمد ہوئی- بندہ پرتقصیر ایسے ہنگام سیاست سے ہمیشہ کوسوں دور بھاگتا تھا لیکن حالات سے آگاہی ضرور رکھتا - شہر بھر میں رنگیں ٹوپی والی رقاصاؤں اور ریشمی دوپٹے والے خواجہ سراؤں کا چرچا تھا-رات دیر تک اسپیکر سے آنے والی عطااللہ عیسی خیلوی کی کوک دل میں سوراخ سی کرتی طبیعت کہتی کہ اڑ کر اس ہنگامہ رقص و سرود میں جا پہنچوں لیکن صاحبو !! اپنی چٹی داڑھی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا سوچ کر لاحول پڑھتا اور سو جاتا-تماش بینوں کے ہاتھوں یہ بھی سنا کہ وہاں ایک پیر مرد کہ صورت سےمرد درویش معلوم پڑتے ہیں اور کلام وبیان میں جنکا طوطی بولتا ہے ایک لوہے کے تابوت میں زندہ دفن ہیں اور رات گئے ایسا وعظ وبیان کرتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا- طلب دیدار تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی لیکن کوتاہ قسمت کہ بندہ فکر معاش کے ہاتھوں مجبور تھا 12گھنٹے کی کوتوالی کے بعد بمشکل نیند پوری ہوتی-
ایک دن کہ تقدیر کا پتھر سات آسمان چیر کر میرے سر پر آن ٹھہرا اور دھرنے سے ایک ایلچی نے صدا لگائی کہ اس نورانی صفت بزرگ کو رات کےلیے سیکیورٹی گارڈز کی اشد ضرورت ہے تنخواہ من چاہی تھی ,سوچا دن کو نوکری کروں گا ,رات کو اوور ٹائم لگاؤں گا اور شربت دیدار بزرگ نورانی بونس میں رہے گا-چنانچہ گاہ گاہ جلسہ گاہ جا پہنچا - جاتے ہی ایک پیر مرد ملائم طبع نے قومی شناختی کارڈز احتیاطاً رکھ لیا کہ اس ہنگام میں کہیں کھو نہ جائیں- محفل تھی کہ چراغ باطن کو روشن کرنے والی تھی-خود کو کوسا کہ اس فضیلت سے آج تک محروم کیوں رہا -صبح ڈیوٹی کا وقت قریب آیا تو اسی مرد ملائم طبع کی تلاش میں نکلا جس نے کل شناختی کارڈ ضبط کیا تھا - تلاش وبسیار کے بعد پتا چلا کہ پیر نرم طبع تو مفقود ہیں البتہ ایک اور بزرگ کہ صورت جنکی مصطفی قریشی سے ملتی تھی تشریف فرما ہیں اور انکے ارد گرد ایک مجمع جمع ہے جو کہ شناختی کارڈ شناختی کارڈ کا واویلہ مچا رہا ہے -اور حکم ہے کہ کارڈز دھرنا ختم ہونے کے بعد ملیں گے- بہت منت سماجت کی کہ ڈیوٹی کا مسئلہ ہے مگر بزرگ مصطفی قریشی کا اصرار تھا کہ کم از کم چار دن ضرور ادھر رہو تاکہ باطن میں انقلاب کی شمع روشن ہوسکے- دل تو دوڑ لگانے کو چاہا لیکن بزرگ کے دائیں بائیں کھڑے ڈنڈا برداروں نے دوبارہ بیٹھنے پر مجبور کردیا-خدا خدا کرکے چار دن کی قید کاٹی اور منت ترلا کر کے واپس ریاض بحریہ پہنچا اور قصہ عدم حاضری من و عن سنایا جنانچہ بے عزت کر کے نوکری سے فوری برخواست کردیا گیا - اب نہ تو کوئی جگہ تھی نہ ہی ٹھکانہ چنانچہ جوتیاں چٹخاتا اسی بزرگ۔۔۔ صفت کے دھرنے میں آن بیٹھا اور آج تک انقلاب کی راہ تک رہا ہوں-------

۔۔۔۔۔۔
انجینئر ظفر اعوان
ساہیوال،پاکستان
حال مقیم دوہا قطر
 
دوسرا درویش سر کھجاتا اور سگریٹ میں چرس بھرتا ہوا یوں گویا ہوا !!
صاحبو یہ فقیر لاچار کہ ملک جسکا پنڈ دادنخان ضلع جہلم ہے ایک ماہ سے اس دھرنے میں موجود ہے- والد گرامی اس سیاہ کار کے محکمہ زراعت میں پٹواری تھے اور بندہ ان کی پہلی اور آخری اولاد- طبیعت شروع ہی سے لا ابالی تھی اورشعروادب کا ذوق پایا تھا چنانچہ گاہ گاہ والد گرامی سے چھتر پریڈ بھی کراتا رہا - والد گرامی کی پندونصاح اور ضرب و شلاق کے طفیل کالج کا منہ دیکھ ہی لیا- کالج کے پہلے ہی دن ایک حسینہ جانفزا، پری وش کہ حسن جس کا آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا تھا، پر نگاہ پڑی اور وہیں ہزار جان فدا ہو گیا- دل کا عالم ہی بدل گیا شب تھی کہ بستر پر لوٹتے اور کشور کمار کو سنتے گزرتی اور دن اس فتنہ حسن کے شوق دیدار میں بھٹکتے گزرتا- گاہ گاہ شام پگاہ اس عجوبہء حسن کے خیالوں میں غرق رہنے لگا۔

واقفان حال سے بس اتنا معلوم پڑا کہ یہ خزانہ حسن کہ نام جس کا غزالہ ہے, چوہدری عبدالشکور کلرک محکمہ انہار کے خاندان کی زینت و مالا ہے اور حفاظت اس زہرہ جبین کی ایک شیش ناگن کرتی ہیں جو رشتے میں اسکی خالہ ہے- مصاحبو !! عشق اپنے ساتھ رقیبان روسیاہ کی فوج لاتا ہے چنانچہ یہی ہوا اور چہار دانگ عالم سےکئی بٹ، رانے، ٹوانے اور جٹ اس زہرہ جبین کے عاشق ہونے کے دعویدار نکلے اور یہ فقیر تلملا کے رہ گیا- انہی دنوں اس بندہ مبتلا پر تقدیر یوں مہربان ہوئی کہ کالج کا سالانہ مشاعرہ برپا ہوا- اس عاشق نامراد نے مشاعرے کے لیے ایسی غزل لکھی کہ حال دل کھول کے رکھ دیا- اس رات کو عشق کا بخار 106 ڈگری پہ پہنچ چکا تھا -چنانچہ عاشقوں کا سو سالہ پرانہ مجرب نسخہ آزمایا اور طویل نامہ محبت لکھا-

ایک واقف حال کہ نام جس کا صادق حسین بٹ تھا بعوض 500 روپے بمعہ سگریٹ پانی یہ نامہ اس ماہ رخ تک پہنچانے پر راضی ہوا- اور اگلے دن دستی جواب بھی لا حاضر کیا- نامہء محبوب ہاتھ میں آیا تو خوشی ومسرت کا ٹھکانہ نہ رہا- نامہ تھا کہ جواب آں غزل اور محبت کا پیمان تھا - لگتا تھا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئ-آخر میں لکھا تھا کہ عشق کو آزمانا ہے تو اسلام آباد دھرنے میں جانا ہے -صادق بٹ نے یہ عقدہ کھولا کہ غزالہ تو کپتان کی نہ صرف پرانی فین ہے بلکہ کالج میں شوکت خانم کےعطیات بھی اکٹھے کرتی ہے- پہلی نظر میں تو معمولی سی شرط لگی کہ عشق کو سیاست سے کیا احوال اور عشق میں عطیہ بن جانا بھی باعث افتخارو استنباط ہے پھر والد گرامی کا خیال آیا جو 24 قیراط کے پٹواری تھے تو ماتھا ٹھنکا- چنانچہ رات کے اندھیرے میں اپنے ہی گھر نقب لگائی اور جو جمع پونجی ہاتھ لگی زاد سفر سمجھ کر قصد اسلام آباد کا کیا اور ڈی چوک آن دھمکا - گھر سے بہتیرے فون آئے کہ لوٹ آؤ معاف کردیں گے،, مگر وہ عشق ہی کیا جو پیچھے پلٹ کے دیکھے -15 دن خوب رقص کیا کہ عشق موذی ہمیشہ عاشقوں کو نچاتا ہے-

آخر ایک واقف حال کا فون آیا کہ اے خانما برباد ! تو انقلابی مجنوں بن کر اس ہنگام۔۔۔ خانہ میں بیٹھا ہے اور ادھر صادق بٹ تیری غزالہ کے ساتھ عقد کر کے گوجرانوالا میں ہنی مون منا رہا ہے -صاحبو یہ سننا تھا کہ چکرا کے کنٹینر کی داہنی جانب گرا - ہوش آئی تو معلوم پڑا کہ دھرنا سراسر ایک دھوکا تھا -رقیب روسیاہ صادق بٹ نے محض راستے کا پتھر ہٹانے اور مجھ سے چھٹکارہ پانے کے لیے جھوٹا محبت نامہ گھڑا- خود غزالہ کو لے اڑا اور مجھے تبدیلی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا کہ نہ جس کا سر ہے نہ پیر - میں یہاں آنسو گیس کے پیالے بھر بھر کے پیتا رہا اور وہ بدمعاش نون لیگ کا گلو بٹ میری دنیا ویران کر گیا --------واہ رے محبت ہائے رے جنون-----اب واپسی کے سارے راستے بند ہیں کہ والد گرامی قدر کٹر پٹواری ہیں اور یہ بندہ رو سیاہ گلے میں ترنگا ڈالے کئی بار ٹی وی کیمرے کے سامنے ناچ چکا ہے----کس منہ سے کس کس کو منہ دکھاؤں گا--- تو صاحبو کپتان کو تو شاید بنی گالا میں آسرا مل جائے اور شیخو کو نئی بھینس, لیکن یہ عاشق نامراد دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا-.....اتنا کہہ کر دوسرے درویش نے چرس کا گہرا سوٹا لگایا اور دھرنے میں والہانہ رقص کرنے لگا!!!
 

سید زبیر

محفلین
لاجواب ، لطف آگیا ۔ اس عاجز پر تقصیر کے پاس سوائے داد و دعا کے کچھ نہیں لہٰذا دونوں پیش خدمت ہیں ۔ سدا سکھی رہیں ۔
 
ان کے مخصوص سامع ہیں، سناتے رہیں ;)
مجھے باوثوق ذرایع سے خبر ملی ہے کہ کچھ ن لیگ کے پکے کارکن اور ووٹر بھی عمران کے جلسے و دھرنے میں شوق سے جاتے ہیں ، پوچھئے کیوں؟
جواب وہ کہتے ہیں کہ اس ہاں مزا ہی بہت آتا ہے۔ انہی گلوکاروں کے دیگر کنسرٹ تو بہت مہنگے ہوتے ہیں
 
مجھے باوثوق ذرایع سے خبر ملی ہے کہ کچھ ن لیگ کے پکے کارکن اور ووٹر بھی عمران کے جلسے و دھرنے میں شوق سے جاتے ہیں ، پوچھئے کیوں؟
جواب وہ کہتے ہیں کہ اس ہاں مزا ہی بہت آتا ہے۔ انہی گلوکاروں کے دیگر کنسرٹ تو بہت مہنگے ہوتے ہیں
ان مزوں نے ہی تو اب تک کام چُک کے رکھا ہوا ہے:battingeyelashes:
 
سیاسی کامیابی کے نئے نئے ہنر ;)
بلکل ایسا ہی ہے۔ لیکن یہ کامیابی کی طرف لے جانے والے راستہ نہیں۔
اصل جنگ قدامت پرستوں اور روشن خیالوں میں ہو رہی ہے، جبکہ پاکستانی عوام کی اکثریت اب بھی قدامت پرست ہے
 

زیک

مسافر
بلکل ایسا ہی ہے۔ لیکن یہ کامیابی کی طرف لے جانے والے راستہ نہیں۔
اصل جنگ قدامت پرستوں اور روشن خیالوں میں ہو رہی ہے، جبکہ پاکستانی عوام کی اکثریت اب بھی قدامت پرست ہے
ان پارٹیوں میں روشن خیال کون ہے؟ مجھے تو عمران اور تحریک انصاف کافی قدامت پسند لگتے ہیں
 
ان پارٹیوں میں روشن خیال کون ہے؟ مجھے تو عمران اور تحریک انصاف کافی قدامت پسند لگتے ہیں
عمران اور تحریک انصاف ہرگز قدامت پسند نہیں ہیں۔ عمران نے قدامت پسندی کا لبادہ اوڑھا تھا جو اب کافی حد تک اتر چکا ہے۔ خاص طور پر دھرنے کے انداز و اطوار سے
کیا کبھی آپ نے نوٹ کیا ہے کہ پاکستان میں خاندانی گانے بجانے والے اور شوبز کے اکثر لوگ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے حمایتی تھے اس کے بعد یہ مشرف کے دور میں مشرف کے حمایتی بن گئے اور اب یہ طبقہ عمران کا حمایتی ہے! اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عمران کو اپنا ہم خیال سمجھتا ہے اور اس کی حکومت کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے اور ظاہر ہے یہ طبقہ قدامت پسند نہیں ہے :)
دوسری طرف نواز کو مشرف ایک مرتبہ "کامپیکٹ طالبان" قرار دے چکا ہے۔ اور زرداری "مولوی نواز شریف" کہ چکا ہے اور خود نواز کا وزیر قانون ایک انٹرویو میں اسے "مذہبی رجحانات رکھنے " والا قرار دے چکا ہے۔
 
تیسرا درویش دو زانو ہو بیٹھا - جیب سے ایک نقرئی ڈبیاکہ جس پر زرنگار جڑے تھے , نکالی , اس سے ایک کامل چٹکی نسوار کی ڈالی اور ایک باریک پچکاری مار یوں گویا ہوا :
یہ سرگزشت مری ذرا کان دھر سنو
مجھ کو فلک نے کردیا زیروزبر سنو
اے یاران آوارہ گرد ! یہ فقیر آزاد منش ایک ماہ سے کچھ اوپر اس دھرنے میں موجود ہے -میری پیدائش اور ملک اس درویش کا میراں شاہ شمالی وزیرستان ہے- والد اس عاجز کا سرخیل مجاہد تھا - چنانچہ زار روس کی جنگ میں کام آیا- بہادر ایسا تھا کہ وقت شہادت بھی ایک سفید ریچھ کا ٹینٹوا اس کے دست فولاد میں تھا - باپ کے مرنے پر ترکے میں اس فقیر کے ایک پیوند لگا باغ امرود کا کہ جس پر سیب لگتے تھے، ایک کھیت اخروٹ کا اور ایک نقرئی ڈبیا نسوار کی گماشتوں میں ہاتھ آئی - جس میں سے نصف بیچ بٹا کے بندوبست ایک زوجہ کا کیا کہ کچھ خاطر جمع ہووے اور کسب اولاد کا ذریعہ بنے-اور باقی جو بچا اس سے قصد روزگار کا کیا کہ پیٹ کی آگ بہت ظالم ہے-
مصاحبو ! وطن کا احول کچھ نہ پوچھو.. یہاں کی بنجر زمین پر ملاں مذہب کا ہل چلاتے ہیں - فولادی اڑن طشتریاں کہ جنہیں ڈرون کہتے ہیں فلک سے نفرت کا بیج پھینکتی ہیں پھر جب طالبانی پودے اگتے ہیں تو ملاں اسے عصبیت کی کھاد دیتے ہیں- یوں کڑی محنت سے خود کش فصل پک کر تیار ہوتی ہے-اعلی قسم کی جنس ملک افغانستان بھیجی جاتی ہے تاکہ عالم کفر کے دانت کھٹے کیے جاویں اور جنت ابدی کا حصول ہو،, ادنی قسم کی خودرو بوٹیاں کہ جن پر ہندوستانی اسپرے کیا ہوتا ہے ملک خداداد پاکستان بھیجی جاتیں ہیں تاکہ بوقت ضرورت پھٹ کر خلق خدا کو تسکین پہنچاویں - کبھی کبھی یہ جڑی بوٹیاں اتنی کثیر ہو جاتی ہیں کہ ان کی سرکوبی کےلیے افواج پاکستان آ دھمکتی ہیں - تب ان کا احوال جو ہو سو ہو لیکن ہم جیسے فقیروں پر جو گزرتی ہے , بقول بھگت کبیر...
چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کو
اس سال چرخ فلک نے... عجب ستم یہ ڈھایا کہ دونوں فصلیں ایک ساتھ پک کر تیار ہوئیں ... فصل طالبانی اور فصل اخروٹ- یکبارگی جی میں ارادہ کیا کہ قبل اس کے کہ طالبان کا طوطی بولے اور افواج سرکاری ان پر فائر کھولے فصل اتار لی جائے مگر صد افسوس کہ تدبیر پر تقدیر غالب آئی اور فرمان امروز کوچ کا ملا چنانچہ ایک نگاہ تاسف فصل پر ڈالتا ، زوجہ طفلان گریہ زارکو سنبھالتا پہلے قافلے کے ساتھ ہی میران شاہ سے روانہ ہوا- احباب محفل سے اگلی منزل کی نسبت استفسار کیا تو معلوم پڑا کہ میر علی منزل گاہ ہے صوبہ جس کا "کے پی کے" ہے وہاں خٹک نامی ایک مرد صالح کی حکومت ہے - نظام اس مملکت کا کچھ یوں ہے کہ گاہ گاہ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں- کوتوال شہر خلق خدا کا صبح شام پانی بھرتے ہیں اور شاہراہوں پر جڑاؤ زرنگار پتھر نصب ہیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے- اشتیاق ہوا کہ جلد از جلد اس جنت ارضی کا دیدار پاویں تا کہ رنج سفر کا کچھ کم ہو وے اور طبیعت آرام پاوے -
قصہ کوتاہ کہ جب اس وطن پہنچا تو پتا چلا کہ نہ دودھ و شہد کی نہریں ہیں اور نہ ہی زرنگاری سڑکیں اور کوتوالی ہیں کہ خلق خدا کو بھیڑ بکریوں کی طرع ہانک رہے ہیں- بارے ایک خیمہ نصیب ہوا جس میں ہمراہ پانچ طفل صغیر اور زوجہ باپردہ ٹھکانہ کیا-
ایک دن جب یہ درویش واسطے نان نفقہ کے ایک لنگر کی طویل لائن میں کھڑا تھا.. ایک خواجہ سرا صورت منادی کو سنا کہ گلے میں جسکے تین رنگ کا دوپٹہ تھا اور صدا لگاتا تھا "چلو چلو اسلام آباد چلو"- قریب جاکر اصلاح احوال کی چاہی تو معلوم پڑا کہ ملک خداداد میں نواز شریف نامی ایک ظالم پادشاہ کا دور دورہ ہے کہ خلق جس کی اذیت کا شکار ہے- اس ظالم نے "کے پی کے" کی ساری بھینسوں کو بیچ کر اور شہد کی مکھیوں کو قید کر کے اس صوبہ کی دودھ اور شہد کی نہریں سکھا دی ہیں- اور یہاں کی سڑکوں سے سونے کی اینٹیں لوٹ کر فرنگیوں سے اپنے سر پر سونے کے بال لگوالئے ہیں -خود تو جڑاؤ محل میں رہتا ہے اور آئ ڈی پیز کو رہن کے واسطے خیمے بھیجتا ہے - سو یہی وقت جہاد ہے ہر مجاہدکو500 روپے سکہ رائج الوقت ملے گا- دریافت کیا کہ کرنا کیا ہوگا وہ گویا ہوا کہ ایک مرد صالح جو اس ظالم پادشاہ کا ازلی دشمن ہے اور نام کا کپتان ہے اس کا خطاب سننا ہوگا اور سمجھ آوے یا نہ آوے تالیاں بحرحال پیٹنی ہونگی- استفسار کیا کہ بال بچے کا کیا ہو گا - منادی بولا چھوٹا 250 بڑا 300 اشرفیاں نقد بمع تین وقت کا کھانا..صبح کو شربت چائے و حلوہء سوہن پستہ، دوپہر کو پلاؤ زردہ ران بکرے کا اور شام میں مرغ مسلم و نان قندھاری-
سننا اس منادی کا تھا کہ فقیر کھانے کا تھال وہیں چھوڑ خیمہ کی جانب بھاگا کہ احوال زوجہ کو بیان ہو اور تیاری سفر کی پکڑی جاوے-وہ اللہ کی بندی بھی جھٹ تیار ہوئی اور کپڑا لتا اور دیگر زاد راہ ہمراہ لیا- علی الصبح مرغ کی اذان کے ساتھ پہلا قافلہ پکڑ شام کو اسلام آباد آن پہنچا- کیا دیکھتا ہوں کہ خلق خدا کا ایک اژدھام ہے- جو بھانت بھانت کے نعرے لگاتا ہے- یوں ایک قید خانے سے نکل کر دوسرے زندان میں آن پھنسا- بارش ہوتی تو پیڑ کے نیچے پناہ لیتا- بھوک گھیرتی تو تلاش رزق میں نکلتا اور بعد از خرابیء بسیار کبھی تو دال ہمراہ نان خشک ملتا اور کبھی ابلے چاول- سو کبھی تو قبض ہو جاتی اور کبھی جلاب کا عارضہ آن لاحق ہوتا ہر روز یہ طلاع ملتی کہ ظالم پادشاہ نے 100 زردے کی دیگیں چھین کر بحق سرکار ضبط کر لی ہیں جونہی اس پادشاہ کا تختہ الٹے گا بمعہ سود واپس لی جاویں گی- رات کو جشن طرب شروع ہوتا اور زرق برق کنیزیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا رقص آزادی پیش کرتیں- زوجہ اس درویش کی چونکہ پردے دار فقیرنی تھی سر نہواڑے توبہ توبہ کر کے سو جاتی- رات دیر تک خطبات چلتے اور یہ درویش تالیاں بجا بجا کر حق اشرفیاں ادا کرتا- پھر چرس اور تاش کی محفلیں سجتیں- غرض کہ رات گئے تک ایک ہنگام برپا رہتا-
مصاحبو اسی طرح دن گزرتے گئے- ہر رات لوہے کے تابوت سے ایک خواجہ سرا صورت طویل قامت گلے میں سہہ رنگا ریشمی دوپٹہ پہنے , کہ اپنے تائیں کپتان کہتا تھا، باہر آتا- ایک لمبی تقریر کرتا اور آخر میں اعلان کرتا کہ کل اس ظالم پادشاہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جا وے گی--ایک دن کسی جاننے والے سے پوچھا کہ اس ظالم پادشاہ کی کیا خبر ہے- اس نے جواب دیا کہ ملک خداداد میں سیلاب کی آمد آمد ہے اور وہ ظالم صبح سے شام خلق خدا کے ساتھ جتا ہوا ہے- یہ سن کر جی ہی جی میں شرمندہ ہوا کہ یہ مسخرے تو شب بھر محو رقص رہتے ہیں اور وہ ظالم خلق خدا کی خدمت گاری میں جتا ہے- چنانچہ اگلے ہی دن اس محفل نشاط پر تین حرف بھیج کر نکلنے کا ارادہ کیا تو ڈنڈا برداروں نے آن گھیرا اور یہ کہہ کر دوبارہ بٹھا دیا کہ باہر اس ظالم پادشاہ کے کوتوالی سونگھتے پھرتے ہیں مبادہ پکڑے گئے تو پس زنداں چلے جاؤ گے بہتری اسی میں ہے کہ رات بھر ہمارے ساتھ ناچو......اور دن کو کسی جھاڑی کے نیچے ہو کر سوئے رہو....بس کچھ دن اور باقی ہیں- آزادی کا سورج طلوع ہونے کو ہے-
سو دوستو وہ دن اور آج کا دن اسی ہنگام ۔۔۔ خانہ میں پڑا ہوں..آزادی کا سورج تو اب قیامت کو طلوع ہوگا...فی الحال تو..رات بھر پی ٹی آئی نچاتی ہے ...اور دن کو بھوک!!!!!
لکڑی جل کوئلہ ہوئی کوئلہ جل بنی راکھ
ہم پاپی تو یوں جلے نہ کوئلہ بنے نہ راکھ

اتنا کہہ کر درویش زارو قطار رونے لگا
 
آخری تدوین:

سید زبیر

محفلین
انداز تحریر زبردست ہے ۔ بہت ہی عمدہ ۔ کسی نامی گرامی لکھاری کے ادبی شہپارے سے کم نہیں ۔ ادبی نمونہ ہے ہاں ساتھیوں کو شائد نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے اب چوتھے درویش کی کتھا سننی ہے ۔ خوش رہیں
 
تیسرا درویش تو نہایت بے باک ثابت ہوا۔ دھرنے کی کتھا سے لیکر کپتان کی صورت اور جنس کسی چیز پر پردہ نا رکھا ۔ راوی سے مؤدبانہ التماس ہے کہ درویش سوئم کی صورت و حلیہ کو پردے میں رکھا جائے کہ مبادا تیسرا درویش کسی نئی آفت میں جا پھنسے اور ظالم پادشاہ بھی اس مسکین کی حاجت روائی نا کرسکے کہ وہ پہلے ہی اپنے تاج و تخت کو بچانے کے لئے ہر گدھے و گھوڑے کو اپنا باپ بنانے کے لئے شب و روز ایک کئے ہوئے ہے۔
اس تحریر میں تو چھا گئے آپ
 

قیصرانی

لائبریرین
تیسرا درویش دو زانو ہو بیٹھا - جیب سے ایک نقرئی ڈبیاکہ جس پر زرنگار جڑے تھے , نکالی , اس سے ایک کامل چٹکی نسوار کی ڈالی اور ایک باریک پچکاری مار یوں گویا ہوا :
یہ سرگزشت مری ذرا کان دھر سنو
مجھ کو فلک نے کردیا زیروزبر سنو
اے یاران آوارہ گرد ! یہ فقیر آزاد منش ایک ماہ سے کچھ اوپر اس دھرنے میں موجود ہے -میری پیدائش اور ملک اس درویش کا میراں شاہ شمالی وزیرستان ہے- والد اس عاجز کا سرخیل مجاہد تھا - چنانچہ زار روس کی جنگ میں کام آیا- بہادر ایسا تھا کہ وقت شہادت بھی ایک سفید ریچھ کا ٹینٹوا اس کے دست فولاد میں تھا - باپ کے مرنے پر ترکے میں اس فقیر کے ایک پیوند لگا باغ امرود کا کہ جس پر سیب لگتے تھے، ایک کھیت اخروٹ کا اور ایک نقرئی ڈبیا نسوار کی گماشتوں میں ہاتھ آئی - جس میں سے نصف بیچ بٹا کے بندوبست ایک زوجہ کا کیا کہ کچھ خاطر جمع ہووے اور کسب اولاد کا ذریعہ بنے-اور باقی جو بچا اس سے قصد روزگار کا کیا کہ پیٹ کی آگ بہت ظالم ہے-
مصاحبو ! وطن کا احول کچھ نہ پوچھو.. یہاں کی بنجر زمین پر ملاں مذہب کا ہل چلاتے ہیں - فولادی اڑن طشتریاں کہ جنہیں ڈرون کہتے ہیں فلک سے نفرت کا بیج پھینکتی ہیں پھر جب طالبانی پودے اگتے ہیں تو ملاں اسے عصبیت کی کھاد دیتے ہیں- یوں کڑی محنت سے خود کش فصل پک کر تیار ہوتی ہے-اعلی قسم کی جنس ملک افغانستان بھیجی جاتی ہے تاکہ عالم کفر کے دانت کھٹے کیے جاویں اور جنت ابدی کا حصول ہو،, ادنی قسم کی خودرو بوٹیاں کہ جن پر ہندوستانی اسپرے کیا ہوتا ہے ملک خداداد پاکستان بھیجی جاتیں ہیں تاکہ بوقت ضرورت پھٹ کر خلق خدا کو تسکین پہنچاویں - کبھی کبھی یہ جڑی بوٹیاں اتنی کثیر ہو جاتی ہیں کہ ان کی سرکوبی کےلیے افواج پاکستان آ دھمکتی ہیں - تب ان کا احوال جو ہو سو ہو لیکن ہم جیسے فقیروں پر جو گزرتی ہے , بقول بھگت کبیر...
چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کو
اس سال چرخ فلک نے... عجب ستم یہ ڈھایا کہ دونوں فصلیں ایک ساتھ پک کر تیار ہوئیں ... فصل طالبانی اور فصل اخروٹ- یکبارگی جی میں ارادہ کیا کہ قبل اس کے کہ طالبان کا طوطی بولے اور افواج سرکاری ان پر فائر کھولے فصل اتار لی جائے مگر صد افسوس کہ تدبیر پر تقدیر غالب آئی اور فرمان امروز کوچ کا ملا چنانچہ ایک نگاہ تاسف فصل پر ڈالتا ، زوجہ طفلان گریہ زارکو سنبھالتا پہلے قافلے کے ساتھ ہی میران شاہ سے روانہ ہوا- احباب محفل سے اگلی منزل کی نسبت استفسار کیا تو معلوم پڑا کہ میر علی منزل گاہ ہے صوبہ جس کا "کے پی کے" ہے وہاں خٹک نامی ایک مرد صالح کی حکومت ہے - نظام اس مملکت کا کچھ یوں ہے کہ گاہ گاہ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں- کوتوال شہر خلق خدا کا صبح شام پانی بھرتے ہیں اور شاہراہوں پر جڑاؤ زرنگار پتھر نصب ہیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے- اشتیاق ہوا کہ جلد از جلد اس جنت ارضی کا دیدار پاویں تا کہ رنج سفر کا کچھ کم ہو وے اور طبیعت آرام پاوے -
قصہ کوتاہ کہ جب اس وطن پہنچا تو پتا چلا کہ نہ دودھ و شہد کی نہریں ہیں اور نہ ہی زرنگاری سڑکیں اور کوتوالی ہیں کہ خلق خدا کو بھیڑ بکریوں کی طرع ہانک رہے ہیں- بارے ایک خیمہ نصیب ہوا جس میں ہمراہ پانچ طفل صغیر اور زوجہ باپردہ ٹھکانہ کیا-
ایک دن جب یہ درویش واسطے نان نفقہ کے ایک لنگر کی طویل لائن میں کھڑا تھا.. ایک خواجہ سرا صورت منادی کو سنا کہ گلے میں جسکے تین رنگ کا دوپٹہ تھا اور صدا لگاتا تھا "چلو چلو اسلام آباد چلو"- قریب جاکر اصلاح احوال کی چاہی تو معلوم پڑا کہ ملک خداداد میں نواز شریف نامی ایک ظالم پادشاہ کا دور دورہ ہے کہ خلق جس کی اذیت کا شکار ہے- اس ظالم نے "کے پی کے" کی ساری بھینسوں کو بیچ کر اور شہد کی مکھیوں کو قید کر کے اس صوبہ کی دودھ اور شہد کی نہریں سکھا دی ہیں- اور یہاں کی سڑکوں سے سونے کی اینٹیں لوٹ کر فرنگیوں سے اپنے سر پر سونے کے بال لگوالئے ہیں -خود تو جڑاؤ محل میں رہتا ہے اور آئ ڈی پیز کو رہن کے واسطے خیمے بھیجتا ہے - سو یہی وقت جہاد ہے ہر مجاہدکو500 روپے سکہ رائج الوقت ملے گا- دریافت کیا کہ کرنا کیا ہوگا وہ گویا ہوا کہ ایک مرد صالح جو اس ظالم پادشاہ کا ازلی دشمن ہے اور نام کا کپتان ہے اس کا خطاب سننا ہوگا اور سمجھ آوے یا نہ آوے تالیاں بحرحال پیٹنی ہونگی- استفسار کیا کہ بال بچے کا کیا ہو گا - منادی بولا چھوٹا 250 بڑا 300 اشرفیاں نقد بمع تین وقت کا کھانا..صبح کو شربت چائے و حلوہء سوہن پستہ، دوپہر کو پلاؤ زردہ ران بکرے کا اور شام میں مرغ مسلم و نان قندھاری-
سننا اس منادی کا تھا کہ فقیر کھانے کا تھال وہیں چھوڑ خیمہ کی جانب بھاگا کہ احوال زوجہ کو بیان ہو اور تیاری سفر کی پکڑی جاوے-وہ اللہ کی بندی بھی جھٹ تیار ہوئی اور کپڑا لتا اور دیگر زاد راہ ہمراہ لیا- علی الصبح مرغ کی اذان کے ساتھ پہلا قافلہ پکڑ شام کو اسلام آباد آن پہنچا- کیا دیکھتا ہوں کہ خلق خدا کا ایک اژدھام ہے- جو بھانت بھانت کے نعرے لگاتا ہے- یوں ایک قید خانے سے نکل کر دوسرے زندان میں آن پھنسا- بارش ہوتی تو پیڑ کے نیچے پناہ لیتا- بھوک گھیرتی تو تلاش رزق میں نکلتا اور بعد از خرابیء بسیار کبھی تو دال ہمراہ نان خشک ملتا اور کبھی ابلے چاول- سو کبھی تو قبض ہو جاتی اور کبھی جلاب کا عارضہ آن لاحق ہوتا ہر روز یہ طلاع ملتی کہ ظالم پادشاہ نے 100 زردے کی دیگیں چھین کر بحق سرکار ضبط کر لی ہیں جونہی اس پادشاہ کا تختہ الٹے گا بمعہ سود واپس لی جاویں گی- رات کو جشن طرب شروع ہوتا اور زرق برق کنیزیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا رقص آزادی پیش کرتیں- زوجہ اس درویش کی چونکہ پردے دار فقیرنی تھی سر نہواڑے توبہ توبہ کر کے سو جاتی- رات دیر تک خطبات چلتے اور یہ درویش تالیاں بجا بجا کر حق اشرفیاں ادا کرتا- پھر چرس اور تاش کی محفلیں سجتیں- غرض کہ رات گئے تک ایک ہنگام برپا رہتا-
مصاحبو اسی طرح دن گزرتے گئے- ہر رات لوہے کے تابوت سے ایک خواجہ سرا صورت طویل قامت گلے میں سہہ رنگا ریشمی دوپٹہ پہنے , کہ اپنے تائیں کپتان کہتا تھا، باہر آتا- ایک لمبی تقریر کرتا اور آخر میں اعلان کرتا کہ کل اس ظالم پادشاہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جا وے گی--ایک دن کسی جاننے والے سے پوچھا کہ اس ظالم پادشاہ کی کیا خبر ہے- اس نے جواب دیا کہ ملک خداداد میں سیلاب کی آمد آمد ہے اور وہ ظالم صبح سے شام خلق خدا کے ساتھ جتا ہوا ہے- یہ سن کر جی ہی جی میں شرمندہ ہوا کہ یہ مسخرے تو شب بھر محو رقص رہتے ہیں اور وہ ظالم خلق خدا کی خدمت گاری میں جتا ہے- چنانچہ اگلے ہی دن اس محفل نشاط پر تین حرف بھیج کر نکلنے کا ارادہ کیا تو ڈنڈا برداروں نے آن گھیرا اور یہ کہہ کر دوبارہ بٹھا دیا کہ باہر اس ظالم پادشاہ کے کوتوالی سونگھتے پھرتے ہیں مبادہ پکڑے گئے تو پس زنداں چلے جاؤ گے بہتری اسی میں ہے کہ رات بھر ہمارے ساتھ ناچو......اور دن کو کسی جھاڑی کے نیچے ہو کر سوئے رہو....بس کچھ دن اور باقی ہیں- آزادی کا سورج طلوع ہونے کو ہے-
سو دوستو وہ دن اور آج کا دن اسی ہنگام ۔۔۔ خانہ میں پڑا ہوں..آزادی کا سورج تو اب قیامت کو طلوع ہوگا...فی الحال تو..رات بھر پی ٹی آئی نچاتی ہے ...اور دن کو بھوک!!!!!
لکڑی جل کوئلہ ہوئی کوئلہ جل بنی راکھ
ہم پاپی تو یوں جلے نہ کوئلہ بنے نہ راکھ

اتنا کہہ کر درویش زارو قطار رونے لگا
میں بھی سوچ رہا تھا کہ ابھی تک سیاست نہیں آئی، اور یہ پوسٹ آپ نے سیاست کی نظر کر کے سارا مزہ کرکرہ کر ڈالا
ویسے بائی وی دے، اگر کپتان کو خواجہ سرا فرما رہے ہیں تو پھر میرا خیال ہے کہ بات مزاح اور پسندیدہ تحریر سے آگے نکل جاتی ہے۔ دیکھئے اب خسرہ صفت نواز شریف پر تحریر کب آئے گی :)
 
میں بھی سوچ رہا تھا کہ ابھی تک سیاست نہیں آئی، اور یہ پوسٹ آپ نے سیاست کی نظر کر کے سارا مزہ کرکرہ کر ڈالا
ویسے بائی وی دے، اگر کپتان کو خواجہ سرا فرما رہے ہیں تو پھر میرا خیال ہے کہ بات مزاح اور پسندیدہ تحریر سے آگے نکل جاتی ہے۔ دیکھئے اب خسرہ صفت نواز شریف پر تحریر کب آئے گی :)
مجھے مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لی جیے کہ تحاریر 'پسندیدہ مزاحیہ تحریریں' والے زمرے میں ہیں۔ صاحب تحریر کا نام پہلے درویش کی سرگزشت کے اختتام پر موجود ہے۔
خواجہ سرا نہیں کہا گیا بلکہ مشابہ قرار دیا گیا ہے
ہر رات لوہے کے تابوت سے ایک خواجہ سرا صورت
 

زیک

مسافر
مجھے مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لی جیے کہ تحاریر 'پسندیدہ مزاحیہ تحریریں' والے زمرے میں ہیں۔ صاحب تحریر کا نام پہلے درویش کی سرگزشت کے اختتام پر موجود ہے۔
آخر کی بجائے (یا اس کے ساتھ ساتھ) اگر مصنگ کا نام اور ربط آغاز میں لکھ دیا جائے تو آسانی رہے اور میرے جیسے جو مکمل نہیں پڑھتے انہیں غلط فہمی نہ ہو۔
 
Top