قربانی اور تقویٰ

قربانی اور تقویٰ

قربانی کا مہینہ شروع ہونے کو ہے ۔
منڈی میں جانوروں کی بھرمار ہے۔
بعض گھروں میں بھی جانور آچکے ہیں۔
زیادہ تر جانور نہایت ہی خوبصورت اور فربہ ہیں
اور ایسے ہی جانوروں کی قربانیکرنا افضل ہے۔
یا
کم از کم قربانی ایسے جانور کی کی جائے جس میں ایسی کوئی نقص نہ ہو جیسے لنگڑا نہ ہو‘ کانانہ ہو‘سینگ ٹوٹا ہوانہ ہو اور کان کٹا ہوا یا چھیدا ہوا نہ ہو۔ اسی طرح جانور لاغر اور مریض بھی نہ ہو۔(جامع ترمذی : حدیث)

تمام نقائص سے پاک ذات باری تعالیٰ کے حضور بے عیب جانور کا نذرانہ ہی پیش کرنا چاہئے۔


اور بے شک ہم گھنٹوں منڈی کا چکر لگا کر قربا نی کیلئے ان نقائص سے پاک جانور خرید کر لاتے ہیں لیکن کبھی ایک منٹ کیلئے بھی اپنے دل کو ٹٹول کر نہیں دیکھتے کہ
ہمارا دل کتنا پاک ہے؟
اس دل میں تقویٰ کتنا ہے؟
اس دل میں اخلاص ہے یا دکھاوے کا جذبہ؟​

جبکہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانی کو نہیں بلکہ ہمارے دل کو دیکھتا ہے اور اُسےصرف ہمارا اخلاص اور تقویٰ مقصود ہے:

لَن يَنَالَ اللَّ۔هَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَ۔ٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ ۔۔۔۔۔ (٣٧) سورة الحج

’’ اللہ تعالٰی کو نہ اُن (قربانی) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، مگر اُسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘

ہم نقائص سے پاک جانور تو قربان کر دیتے ہیں لیکن نقائص سےپاک دل اپنے رب کے حضور پیش نہیں کرتے‘ جو ہمارے رب کو مطلوب ہے۔
ہم رب کے حضورلنگڑا جانور کی قربانی پیش نہیں کرتے لیکن صراط مستقیم پر چلتے ہوئے خود لنگڑا جاتےہیں‘ مسجد میں نماز کیلئے جانے میں ہم لنگڑے بن جاتے ہیں اور مسجد نہیں جاتےبلکہ ہم میں اکثرنماز بھی نہیں پڑھتے۔

ہم رب کےحضورکانا جانورکی قربانی پیش نہیں کرتے لیکن اپنی دنیاوی مطلب کیلئے دل کے اندھے پن میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ اللہ کی نافرمانی کرنے میں ہماری آنکھوں میں حیا نہیں رہتی‘ ہم اپنے آس پاس احکام الٰہی کی پامالی دیکھتے ہیں اور اندھوں کی طرح چل دیتے ہیں گویا کہ ہم اندھے جانور ہوں یا اس سے بھی بد تر ۔

ہم رب کےحضور ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی نہیں کرتے لیکن دین حق کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے سر پر نہیں اٹھاتے‘ ہمارے دماغ میں دین کو سمجھنے اور سمجھانے کا احساس بھی پیدا نہیں ہوتا گویا کہ ہم ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانورسے بھی بدتر ہوں۔

ہم رب کے حضور کان کٹے ہوئے یا سورخ کئے ہوئے جانور کی قربانی پیش نہیں کرتے لیکن خود آذان کے وقت بہرے ہوجاتے ہیں اور مسجد کی طرف ہمارے قدم نہیں اٹھتے‘ دین کی باتیں ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں گویا کہ ہمارے کان میں سوراخ ہوں۔

ہم رب کے حضور بیمار جانور کی قربانی پیش نہیں کرتے لیکن خود شرک و بدعات ‘نفاق و فرقہ پرستی وغیرہ کی بیماریوں میں پڑے رہتے ہیں اور رب کو چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں۔

ہم رب کے حضور لاغر اور کمزور جانور کی قربانی پیش نہیں کرتے لیکن اپنی دنیا وی معاملوں میں چاک و چوبند رہنے والے ‘ دین کا معاملہ آتے ہی نہایت ہی سست اور کمزور پڑجاتے ہیں‘ اللہ کے دین کی سر بلند کے لئے کا م کرنے کا جذبہ ہم میں کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے؟

ایسا اس لئے ہے کہ ہم سب قربانی کی اصل روح سے ہی واقف نہیں ہیں۔ آج مسلمانوں کی اکثریت کیلئے قربانی دکھاوا اور فخرجتانے کا ایک ذریعہ کے سوا کچھ اور نہیں حالانکہ سال میں صرف ایک بار اس قربانی کے ذریعے اسلام ایثار و قربانی کا ایسا درس دیتا ہے اور ایسا جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے جسے ہر مسلمان کو اپنی روح میں سما لینا اور زندگی کے ہر لمحے اور ہر معاملے میں برقرار رکھنا ضروری ہے تب ہی جاکر ایک مسلمان کے دل میں اللہ کو مطلوب تقویٰ پیدا ہو سکتا ہے۔

جس میں اللہ کو مطلوب تقویٰ ہوتا ہے وہ جذبۂ ایثار و قربانی سے سرشار ہو کر اپنا سب کچھ ‘اپنی محبوب ترین شے‘ یہاں تک کہ اپنی جان بھی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور اللہ کی رضا کیلئے خلق خدا کی خدمت میں اپنا قیمتی سے قیمتی مال و متاع بھی خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ یہی ایثار و قربانی اہل تقویٰ کے خاص اوصاف ہیں۔ اللہ ہماری قربانی کے ذریعے ہمارا یہی تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے۔

لَن يَنَالَ اللَّ۔هَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَ۔ٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ ۔۔۔۔۔ (٣٧) سورة الحج
’’ اللہ تعالٰی کو نہ اُن (قربانی) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، مگر اُسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘

لہذا ضروری ہےکہ ہم سب بے عیب جانوروں کی قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی عیوب سے پاک کریں تا کہ ہمارے دلوں میں ایثار و قربانی کی بلندیوں کو چھو لینے والا تقویٰ پیدا ہوجائے جوساری زندگی برقرار رہے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی ہماری اس تقویٰ کو دیکھ کر ہماری قربانیوں کو قبول کرلیں۔

ہم قربانی کرتے وقت جانور کے گلے میں چھری چلانے سے پہلے اللہ سے اسی ایثار و قربانی کا وعدہ کرتے ہیں:

اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلَااتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔“
”میں نے متوجہ کیا اپنے منہ کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہوکر، اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والوں میں سے، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے ہے، جو پالنے والا سارے جہان کا ہے۔“

لیکن ہر سال ہم سب قربانی کرتے ہیں اور ہر سال اپنے رب سے وعدہ (سمجھ کر یا بغیر سمجھے)کرتے ہیں لیکن وعدہ وفا نہیں کرتے۔
زندگی میں یہی وعدہ کرنے کا ایک اور موقع آرہا ہے‘ کاش اس بار یہ وعدہ کرنا وعدہ وفا کرنے کیلئے ہواور ہماری زندگی کو بدل دے۔
کاش اس بار قربانی کرنا ہمارے دلوں میں ایثار و قربانی کی بلندیوں کو چھو لینے والا تقویٰ پیدا کردے‘ جوہمارے رب کو مطلوب ہے۔
اور
ہم اپنے رب کے ہوجائیں‘
ہم اپنے رب کے قریب ہو جائیں‘
ہم اپنے رب کے طرف متوجہ ہو جائیں‘
ہم نفس و ہر طاغوت سے منہ موڑ کر صرف رب کیلئے اپنے آپ کو یکسو کرلیں‘
ہماری نماز‘ ہماری قربانی‘ اور ہمارا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کیلئے ہوجائے‘
اور ہماری قربانی قبول ہو جائے۔
 
Top