قران کیا کہتا ہےِ؟

قرآان کیا کہتا ہےِ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم،
قرآن کریم اللہ تعالی کا آخری پیغام جو اس نے ہمارے رسول پرنور حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔
آپ یہاں مختلف عام فہم موضوعات کے بارے میں، قرآن کیا کہتا ہے، قرانی آیات اور انکے تراجم پڑھ سکیں گے۔

قران کی آیات کا حوالہ دینے میں کوئی نادانستہ غلطی ہو تو براہ کرم درست حوالہ دے کر تصحیح فرمادیں۔

میں نے یہ مضمون تسلسل سے لکھنےکے ارادے سے شروع کیا ہے۔ اگر آپ تنقید کرنا چاھیں تو یہاں نہ کیجئے بلکہ اس دھاگے میں کیجئے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=169645#post169645

ان ارٹیکلز پڑھ کر آپ کے کیا خیالات ہیں، منرجہ بالا لنک میں لکھئے، اگر آپ کو کچھ اچھا لگا تو فرمائیے اور اگر آپ کسی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو فرمائیے۔ تائید، تنقید، تعریف، پسند و ناپسند کے احساسات جان کر مجھے ان آرٹیکلز کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔ کہ مقصد اپنا محاسبہ اور حوالہ جات کی فراہمی ہے۔

والسلام،
فاروق سرور خان
 
قرآن کا طرز تخاطب

قرآن کریم کا انداز تخاطب عموماً مجموعی ہے۔ جب تمام عالم انسانیت کو مخاطب کیا جاتا ہے تو اس طرح - یہاں دیکھئے، اللہ تعالیٰ تمام لوگوں‌کو يايھا الناس یعنی تمام کے تمام لوگوں سے مخاطب ہے۔

[ayah]4:174[/ayah]
يايھا الناس قد جاءكم برھان من ربكم وانزلنا اليكم نورا مبينا
اے تمام لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم نےتمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے


اسی طرح، وہ لوگ جو ایمان لائے، یعنی اس ہدایت کی روشنی کو مان لیا، ان کو اس طرح مخاطب کیا جاتا ہے۔
[ayah]61:2[/ayah] يايھا الذين امنوا لم تقولون ما لا تفعلون
اے تمام ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو

اسی طرح جو لوگ اس ہدایت کو نہیں مانتے، ان کو اے تمام رد کرنے والوں‌ یعنی اے تمام کافرو سے مخاطب کیا جاتا ہے۔

[ayah]109:1 [/ayah]
قل يايھا الكافرون،
آپ فرما دیجئے: اے تمام کافرو!

اس طرح مخاطب کرنے کا مقصد یہ ہے قران کی تعلیمات، ہدایات، اصولوں تمام لوگوں کے لئے ہیں۔ اور انفرادی نیکیوں کی طرح اجتماعی نیکیوں کی قران کے نزدیک بڑی اھمیت ہے، گویا قرآن کریم کا ٹارگٹ تمام سوسائٹی ہے، صرف افراد نہیں۔

قرآن کریم فرماتا ہے کی مومنوں کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔ دیکھئے [ayah]42:38[/ayah]
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
 
مکمل اتحاد کی تلقین۔

گذشتہ سے پیوستہ:

اللہ تعالی ہم کو مکمل اتحاد کی تلقین فرماتے ہیں۔ بغور دیکھیں تو یہ ایک اجتماعی نیکی ہے۔ دیکھئے:


[ayah]3:103[/ayah]
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فاَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ اِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنقَذَكُم مِّنْھَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّہُ لَكُمْ آيَاتِہِ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُونَ (نوٹ درست عربی حروف کی لئے ویب اڈریس اوپر درج ہے)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ

اس آیت کے بہت سے اوصاف کی طرف علماء روشنی ڈال چکے ہیں، اصافی طور پر یہ کے بنیادی طور پر مسلمان فرقہ میں بٹے ضرور ہیں لیکن بغور دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کی یہ فرق صرف طریقہ عبادات تک محدود ہے۔ قران اور رسول کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے معاملے میں مسلمان بہت قریب ہیں اور قران کے بنیادی پیغام کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ قران کی آیات کا بنیادی مطلب بھی سب کے نزدیک ایک ہی ہے۔
متحدہ ہونے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا مطلب متحدہ طور سے ایک ایسے سیاسی اور سماجی ڈھانچہ کی تعمیر ہے جہاں قران کے بنیادی اصول قائم رہیں۔ کروڑوں افراد کو متحد کرنے کے لئے، بیعت یا عرف عام میں‌ایوان نمائندگان ( مجلس شوری) کا تصور قران میں موجود ہے۔ اس بیعت یا ووٹنگ کی مدد سے عام انسان اپنے نمائندے منتخب کرکے ایک اجتماعی اسمبلی بناسکتے ہیں۔ مسلمانوں‌میں یہ تصور بہت پہلے سے موجود ہے۔ یہاں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا مطلب ہم بہ آسانی یہ لے سکتے ہیں کہ اکثریت بھی قران کی اصولوں‌سے نہیں ہٹ سکتی اور ان اصولوں کو تبدیل یا ترک نہیں کر سکتی ہے،
 
عدل کے قیام کی ہدایت:

عدل کے قیام کی ہدایت:

اللہ تعالی ہم پرعدل کا قیام فرض کرتا ہے آپس میں بھی اور معاشرے میں بھی۔ دیکھئے [AYAH]4:58[/AYAH]

بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

عدل کرنے والوں کی ایک جماعت کی ضرورت، ایک مسلم معاشرے میں عدلیہ کانظام کے لئے دیکھئے [AYAH]7:181[/AYAH]
اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں

عدل کرنے کے وقت اپنی دشمنی اور نفرت اٹھا کر ایک طرف رکھ دو اور بے لاگ فیصلہ کرو۔ دیکھئے [AYAH]5:8[/AYAH]

اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے

رسولوں کے بھیجنھنے کا ایک بڑاا مقصد خود اللہ تعالی کے الفاظ میں، عدل کا قیام اور اسکی حفاظت (ہتھیاروں کی مدد سے واضح) ہے، دیکھئے [AYAH]57:25[/AYAH]

بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے

جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ نہیں کی ان کے ساتھ عدل اور انصاف کی تلقین کے لئے دیکھئے [AYAH]60:8[/AYAH]
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے

عدل و انصاف کرتے ہوئے، اپنی خواہشات کو ایک طرف رکھ دیجئے، یعنی ایسے قوانین نہیں بنائیے جس سے لوگوں کی حق تلفی ہو یا معاملے کے ہوجانے کے بعد قانون اپنی خواہش سے بنایا جائے۔ قران اسکو منع کرتا ہے۔ دیکھئے [AYAH]38:26[/AYAH]

اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ورنہ (یہ پیروی) تمہیں راہِ خدا سے بھٹکا دے گی، بے شک جو لوگ اﷲ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے

قرآن کریم عدل قائم کرنے کے اصول مکمل احتیاط سے اور مکمل تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ آپ http://www.openburhan.net/ پر عدل کا مصدر منتخب کرکے قرآن کریم میں درج عدل و انصاف کی مکمل باریکیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ جس میں معاشرے میں عدل سے لے کر، اولاد، یتیموں، مسکینوں اور کمزور لوگوں سے عدل تک کے مکمل قواعد بیان کئے گئے ہیں۔ 1400 سال پہلے اس قدر وسعت سے عدل کے اصولوں کو بیان کرنا، بذات خود قرآن کا ایک اعجاز ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان اصولوں نے بین الاقوامی قانون سازی اور عدل و انصاف کے تصورات کو جلا بخشی اور انسانی تاریخ ‌میں ایک عالمگیر کردار ادا کیا۔

والسلام۔
 
معاشرے میں سکون قلب، سلامتی، خوشی اور امن قائم کرنے کی دعا اورکوشش اور فساد کی ممانعت

اللہ تعالی معاشرے میں سکون قلب، سلامتی، خوشی اور امن قائم کرنے کی دعا اور کوششوں کا تذکرہ فرماتے ہیں اور فساد کی ممانعت فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ہر حکم ہم پر فرض ہے۔

امن و سکون و آباد ر ہنے کی دعا، نبیوں کی دعاؤں میں شامل ہے، دیکھئے :[ayah]14:37[/ayah]
اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں

مزید دیکھئے [ayah]2:126[/ayah]
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا: اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لئے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے

لہذا اللہ تعالی نے یہ طے کردیا ہے کہ ایمان (یعنی اس عالمگیر پیغام کو قبول کرنے اور ایمان لانے) سے امن مشروط ہے۔ دیکھئے [ayah]6:82[/ayah]

جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا انہی لوگوں کے لئے امن (یعنی اُخروی بے خوفی) ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں


قرآن کریم اللہ کی زمین میں فساد کرنے سے منع فرماتا ہے تاکہ معاشرے سے سکون قلب، سلامتی، خوشی اور امن نہ ختم ہوجائے۔ اللہ فساد کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ دیکھئے [ayah]2:27[/ayah]

(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

جو اللہ کے رسول سے پھر جاتا ہے، وہ فساد کرتا ہے۔ دیکھئے [ayah]2:205[/ayah]

اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور اﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتا

فساد کرنے والوں کے لئے اللہ حکم دیتا ہے کہ انکو ختم کردیا جائے۔ یقینا" یہ عمل "صاحب اختیار" لوگوں کے حکم سے ہونا چاہیے۔ دیکھئے [ayah]5:33[/ayah]

بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے

امن کے قیام پر زور اور فساد سے دور رہنے کی تاکید، کے اسکے بغیر اللہ کے برکت یعنی ترقی اور بڑھوتری و اضافہ ممکن نہیں۔ دیکھئے [ayah]7:56[/ayah]

اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے

قرآن، امن و امان، ذہنی و قلبی سکون، سلامتی اور خوشی کی تاکید کرتا ہے۔ یہ پیغام نبی کریم کی اسوہ حسنہ سے ثابت ہے، کہ اس کے بغیر اللہ کی برکت، ترقی، مالی اضافہ، روزگار اور فصل مشکل ہیں۔ قرآن کس طرح ہم کو ان اصولوں سے روشناس کرتا ہے جن سے اجتماعی خوشنودی و خوشی حاصل ہوتی ہے۔

والسلام
 
عوام کی فلاح و بہبود اور نظریاتی ریاست کا دفاع

عوام کی فلاح و بہبود اور نظریاتی ریاست کا دفاع

ہم ایک مسلم معاشرہ میں لوگوں سے کٹ کر نہیں رہ سکتے، قرآن ایک اجتماعی پیغام ہے اور اس کے احکامات کو معاشرہ اور سوسائٹی کے لئے سمجھنا ضروری ہے۔ ریاست میں عوام کی بھلائی یعنی ایک ویلفئیر اسٹیٹ کا قیام اور اس نظریاتی ریاست کا دفاع قرآن ہم پر فرض‌کرتا ہے۔ پہلے دیکھئے[AYAH]2:177[/AYAH]
میری کوشش اب تک یہ رہی ہے کہ صرف ترجمے کی مدد سے قرآن کے پیغام کو سمجھ لیا اور سمجھا دیا جائے۔ اس آیت کے ترجمے میں، میں ایسے خیالات کی وضاحت کروں گا، جو اس آیت کو انفرادی پیغام کے نکتہ نظر سے نہیں بلکہ اجتماعی نکتہ نظر سے پیدا ہوتے ہیں۔

[AYAH]2:177[/AYAH]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

اللہ تعالی اس آیت میں نیکی کی تعریف (Definition of righteousness) فرماتے ہیں درج ذیل اہم نکات قایم کرتے ہیں۔

1۔ ایمان
اصل نیکی تو یہ ہے کہ آپ سب
1۔ اﷲ پر اور
2۔ قیامت کے دن پر اور
3۔ فرشتوں پر اور
4۔ (اﷲ کی) کتاب پر اور
5۔ پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور

2۔ مال کا خرچ کرنا
اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کریں، اور

3۔ تماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی
نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور

4۔ وعدہ پورا کریں
جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور

5۔ صبر کریں
اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار (نیکو کار) ہیں۔

تمام قرآن فہم اس بات سے متفق ہیں کہ اللہ تعالی ایک بہترین کلام کرنے والے ہیں۔ اور نہ اپنے الفاظ کا ضیاع کرتے ہیں نہ ہی بے کار خیالات کا اظہار۔ یہاں غور فرمائیے کہ اللہ تعالی نے ایمان کے فوراَ بعد اور تماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے پہلے ہم پر مال کا خرچ کرنا ( اتی المال) فرض کیا ہے۔ بھر دیکھئے اور اس کی ترتیب بھی عنایت فرمائی ہے

2۔ مال کا ادا کرنا
اﷲ کی محبت میں مال ادا کرو
1۔قرابت داروں کو اور
2۔ یتیموں کو اور
3۔ المساکین ( وہ جو ساکن ہوں اور جو نہ مانگتے ہوں پھر بھی ضرورت مند ہوں یعنی Employees یعنی ملازمین ہوں) کو اور
4۔ ابن السبیل ( سڑک کے بیٹے یعنی ( Homeless ) کو اور
5. سایلیں یعنی سوال کرنے والے ضرورت مندوں کو اور
5۔ (غلاموں یا جنگی قیدیوں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کریں،

ذرا بغور دیکھئے، قران واضح طور پر ایک اجتماعی فریضہ ہم پر عاید کر رہا ہے۔ جو ایمان لانے کے بعد فوراَ فرض کیا گیا ہے۔ یہ اجتماعی فریضہ منتخب نمائندوں کی اولیں ذمہ داری ہے ہے اور باقی مسلمین اس فریضہ میں ٹیکس، زکوٰۃ اور صدقات دے کر شامل ہونگے۔

اس آیت کا ایک حصہ جو صبر کی ضمن میں ہے، وہ ہے جہاد یا جنگ کی صورت میں صبر کا حکم، اسکی مزید وضاحت ہم کو Defence of ideological State ، اس نظریاتی ریاست کا دفاع کے ساتھ اور عوام کی بھلائی اور خیرخواہی کے ساتھ [AYAH]9:60[/AYAH] میں ملتی ہے،

[AYAH]9:60[/AYAH]
بیشک صدقات (زکوٰۃ)
1۔ غریبوں اور محتاجوں [Establishment of a Welfare State to help the poor and needy ] اور
2۔ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں [For employees who adminster these funds ] اور
3۔ ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو
[For promotion of Islam تبلیغ و اشاعت ] اور
4۔ (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں
[To Free the prisoners of Wars and from slavery] اور
5۔ قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں[ To bring back the bankrupts back to business] اور
6۔ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) [Defence of the Ideological State] اور
7۔ مسافروں [ابن سبیل یعنی Son of Street or homeless people ] پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔
یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے.

قرآن، ہم کو اجتماعی طور پر، یعنی ریاست کو اور افراد کو، مال خرچ کرنے کے اہم نکات بتاتا ہے۔ اور ان کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ، ریاست پر، سوسائٹی پر، معاشرے پر اور افراد پر فرائض بن جاتے ہیں۔ ان فرائض کی بجا آوری ہم کو اجتماہی خوشحالی کی طرف لی جاتی ہے، ایک ایسی اجتماعی خوشحالی جو ترقی اور خوشی کا پیامبر ہے۔

قرآن اس نظریاتی فلاحی ریاست کے دفاع کی کوشش ( یعنی"جہد" کہ "جہاد" کا مصدر ہے) کو ٹیکسز، زکوۃ اور صدقات سے منسلک و مشروط کرتا ہے۔ اس طرح قران جہاں فلاحی ریاست کے قیام سے معاشرہ کی برائیوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ جس میں لوگ پیسہ یا کھانے کی کمی کی وجہ سے چوری و ڈاکہ زنی یا جسم فروشی سے احتراز کریں گے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب لوگوں کو کم از کم رزق کی فکر نہ رہے۔ یہ ہے قرآن کا اندرونی نظریہ جہاد۔

بیرونی جہاد کو بھی قرآن، ریاست کی آمدنی یعنی ٹیکسز، زکوۃ اور صدقات سے منسلک کرتا ہے۔ کہ قدیم دور میں یہ دفاع معمولی ہتھیاروں سے کیا جاتا تھا۔ جبکہ آج کی ضرورت، ریاست میں بہترین ذرائع نقل و حمل، بہترین سڑکیں، دفاع کا بہترین انفراسٹرکچر، کرہ ارض پر ٹیلی کمیونیکیشن سیٹیلائٹس، کہ، آپ کے جنگی بحری جہازوں، فضائی طیاروں میں ربط رہے اور آپ اس نظام کے خلاف کھڑے ہونے والے کیخلاف کرہ ارض پر کسی بھی جگہ اسٹرئیک کرسکیں تو اس کے لئے جدید ترین Accurate at all speed Global Position Sattelite System کی ضرورت ہے۔ اس دفاع کے لئے کام کرکے، درکار سرمایہ فراہم کرنا، مسلمین کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس نظریاتی و فلاحی ریاست کی ہر نظام کی تعمیر، ایسے دفاعی نکتہ نظر سے کی جائے کہ ایک مربوط دفاعی نظام جنم لے سکے جو اس فلاحی نظام کی حفاظت کا زمہ دار ہوا۔ یہ ہے وہ کوشش، جہد یا جہاد جس کی تلقین قران کرتا ہے۔

معمولی ہتھیار اٹھاکر غیر منظم بھاگ دوڑ کو قران نامنظور کرتا ہے اور فساد قرار دیتا ہے۔

ایک منظم دفاعی نظام کا قیام، جس میں ایک عام آدمی کوئی بھی دمہ داری قبول کر کے ایک عظیم دفاعی نظام کو سپورٹ فراہم کرتا ہے، جس سے ریاست کے منتخب افراد کے تحت ایک بہترین دفاعی نظام یا فوج تیار ہو، اور نظریاتی و فلاحی ریاست کی حفاظت کرے۔ اصل جہاد ہے۔ سب کا مشترکہ جہاد،

یہ دفاع یا جہاد اسی صورت ممکن ہے جب کرہ ارض‌پر ہر جگہ آپ کے اپنے ہزاروں ‌بحری جہاز، فضا میں آپ کے اپنے فضائی جہاز، دنیا پر آپ کا اپنا GPS سسٹم اور مواصلاتی نظام، ہو۔ اور یہ نظام مستعار لیا ہوا نہ ہو بلکہ اسکا ہر جزو آپ نے اپنی تعلیم و علم سے بنایا ہو۔ اسکا کاروباری نظام، اسکا مینوفیکچرنگ نظام، جس سے تمام اکوئپمنٹس، یمپونینٹس اور آلات بنتے ہو، آپ اس فلاحی ریاست اور اسکے دفاعی نظام کو قائم کیجئے جو قرآن کے احکامات و اصولوں کے مطابق ہو۔ تو بدلے میں اللہ آپ سے کیا وعدہ فرماتا ہے۔ دیکھئے اللہ کا وعدہ [AYAH]24:55[/AYAH] تمام ارض اللہ یعنی کرہ ارض پر حکومت و خلافت!

اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)، اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے

یہ کام آپ کو بڑا لگتا ہے؟ اللہ تعالی آپ کی ہمت افزائی فرماتا ہے۔ دیکھئے [AYAH]3:139[/AYAH]
اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو

یہ کوئی نیا وعدہ نہیں۔ یہ وعدہ تو اللہ تعالی نے زبور میں ہی کرلیا تھا [AYAH]21:105[/AYAH]

اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے

ہم کو اللہ تعالی اس وعدے (ایمان، نیکوکاری (جیسے کی البقرۃ آیت 177 میں درج ہے، فلاحی ریاست کا قیام اور اس کا دفاع ) کے لئے ارض اللہ میں تکمیل کا حکم دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کے وہ اپنا وعدہ ( یعنی ارض اللہ کی مکمل حکومت) آپ کو عطا کریں گے۔ دیکھئے [AYAH]2:40[/AYAH]

اے بنی اسرائیل (اولادِ یعقوب)! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور تم میرے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کرو میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔

[AYAH]24:55[/AYAH] سے واضح ہے کہ اب یہ وعدہ قرآن پر ایمان لانے والوں سے ہے اور اللہ کے اس وعدے کی تکمیل صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنا وعدہ پورا کرکے ایک فلاحی ریاست اور اسکا عظیم دفاعی نظام قائم کریں۔

[AYAH]8:60[/AYAH]
اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) اس (دفاعی تیاری) سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو اور ان کے سوا دوسروں کو بھی جن (کی چھپی دشمنی) کو تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے، اور تم جو کچھ (بھی) اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم سے ناانصافی نہ کی جائے گی

والسلام
 
سب انسان قابل اکرام واحترام ہیں

اللہ تعالی کے نزدیک تمام انسان لائق اکرام واحترام ہیں، دیکھئے [ayah]17:70[/ayah]

اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا

اللہ تعالی کا یہ فرمان، تمام انسانوں کو مساوی قرار دیتا ہے، کوئی کسی سے بڑا نہیں ہے۔ کسی قسم کی ذات پات اور امارت کسی کو کسی سے بڑا نہیں بناتی ہے۔ قانون کو ماننے میں اور کسی شخص کو برتر جاننے میں فرق ہے۔ قانون کی پابندی مسلمان کی بنیادی تعلیم ہے لیکن اللہ کے علاوہ کسی کی برتری نہیں مانتا۔ اس مد میں اللہ اپنے نبیوں‌کے درجات کا تعین ان الفاظ میں کرتا ہے۔

[ayah]2:136[/ayah]
(اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں

البتہ اللہ تعالی نیکی سے درجوں کا تعین کرتا ہے تاکہ لوگ اپنی امانت بلند درجات رکھنے والوں‌کو دے سکیں۔ دیکھئے [ayah]46:19[/ayah]
اور سب کے لئے ان (نیک و بد) اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کئے (جنت و دوزخ میں الگ الگ) درجات مقرر ہیں تاکہ (اﷲ) ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا

قران رنگ و زبان کو صرف اللہ کی نشانی قرار دیتا ہے، دیکھئے [ayah]30:22[/ayah]

اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں


قرآن کریم، صرف انفرادی برابری کی تلقین نہیں کرتا بلکہ قوموں میں کنٹریکٹ کرنے میں بھی برابری کا حکم دیتا ہے، دیکھئے [ayah]8:58[/ayah]

اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا

اسی بنیاد پر اللہ تعالی نے غلامی بہت خوبصورتی سے ختم کردی کہ اس سے بنی نوعِ آدم کا احترام متاثر ہوتا ہے۔ دیکھئے [ayah]24:33[/ayah]

اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو پروانہء آزادی (مکاتب) طلب کریں تو انہیں یہ مکاتب لکھ کے دے دو، اگر تم اس میں چھپی بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں(غلاموں کو) اس مال میں سے (جو تم کو اللہ نےعطا کیا ہے)، (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کریہہ بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہوں، اور جو شخص انہیں اس کریہہ بدکاری پر مجبور کرے گا تو اللہ ان (باندیوں) کے مجبور ہو جانے کے باعث بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

دنیا میں غلاموں کو آزادی کا پہلا سبق اور انسانوں کو مساوات کا پہلا سبق ہمیں قران کریم نے دیا۔ قران کریم معاشرے میں ایک ایسا انقلاب لے کر آیا جس سے بنی نوع انسان کو آزادی کے تصورات ملے۔
والسلام
 
اجتماعی معاشرہ میں قانون ساز اداروں کا قیام

اجتماعی معاشرہ میں قانون ساز اداروں کا قیام۔
Establishment of Legisilative Bodies

قرآن حکیم صرف انفرادی ہدایات و احکامات اور اصولوں پر ہی مبنی نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرہ کے لئے اجتماعی احکامات کا ایک واضح فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ جس میں قانون ساز ادارے کا قیام بھی شامل ہے۔ دیکھئے

[AYAH]3:104[/AYAH]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

عموما اس سے مراد یہ لی جاتی رہی ہے کہ کچھ لوگ جمع ہوکر کبھی کبھار تبلیغ کرلیں یا لوگوں کو نصیحت کردی جائے۔ لیکن ایک آرگنائیزڈ یعنی منظم معاشرے میں آپ اس طرح کی Hobby Style مشغولیت سے باقاعدہ قوانین کا کام نہیں لے سکتے ۔ لہذا اس کے لئے ایک منظم ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مومنین کے فیصلہ باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اس بنیادی اصول کو قران ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

[AYAH]42:38[/AYAH]
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

اس مجلس شوری کے نمائندوں کے انتخاب کے لئے قرآن یہ گائیڈ لائینز فراہم کرتا ہے۔ دیکھئے

[AYAH]46:19[/AYAH]
اور سب کے لئے ان (نیک و بد) اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کئے درجات مقرر ہیں تاکہ (اﷲ) ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا

ان نمائندوں کو اس دنیا میں اور اسلامی معاشرے میں مناسب درجات پر فائز کرنے کے لیے انکے اعمال سے انکے درجات کا تعین ہوتا ہے۔اور چننے والوں کو اللہ تعالی ہدایت کرتا ہے کہ آپ اپنا اعتماد یعنی ووٹ یا بیعت ان لوگوں کے حوالے کریں جو اس کے مستحق ہیں دیکھئے

[AYAH]4:58[/AYAH]
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (الامانات Your trust) انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان (امانات) کے اہل ہیں، اور جب تم ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

اس تمام پروسیس میں وہ لوگ جو آپ سے مختلف خیالات رکھتے ہیں ان کو آپ کیسے شامل کریں؟ دیکھئے اللہ کی ہدایت کہ اپنے رسول کو نرم خوئی سے سب سے مشاورت کا حکم دیتا ہے۔

[AYAH] 3:159[/AYAH]
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے

اللہ کے نزدیک عزت کا معیار پرہیزگاری ہے،
[AYAH]49:13[/AYAH]
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے

عمر کی پختگی کا معیار 40 سال، قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے
[AYAH]46:15[/AYAH]
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانہ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں

قرآن کریم ہم کو اللہ اور رسول کے ساتھ ان صاحب اختیار تمائندوں کے حکم کی تعمیل کا حکم دیتا ہے۔
[AYAH]4:59[/AYAH]
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے

یہود و نصاری کے لئے قانون کیاہو، اللہ تعالی نے یہود کو تورات اور نصاری کو انجیل عطا فرمائی تھی، اور اس وقت اان کے فیصلے اور قوانین تورات کے مظابق تھے، اب قرآن کے آجانے کے بعد، ان آیات کی مدد سے فیصلے کئے جائیں گے۔ اس ضمن میں درج ذیل آیات دیکھئے، ان آیات کے ترجمے کو دیکھتے ہوئے، دوسرے انگریزی ترجموں پر بھی دھیان دیجئے، کیونکہ یہاں اردو گرامر میں‌تھوڑا فرق نظر آتا ہے۔ دیکھئے

[AYAH]5:43[/AYAH]
اور یہ لوگ آپ سے کیوں کہتے ہیں کہ ہمارے فیصلے کرو جبکہ ان کے پاس تورات ہے۔ جس میں اللہ کی احکام موجود ہیں، پھر یہ اس کے بعد (بھی حق سے) رُوگردانی کرتے ہیں، اور وہ لوگ (بالکل) ایمان لانے والے نہیں ہیں

[AYAH]5:44[/AYAH]
بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کی فیصلے کرتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں

[AYAH]5:45[/AYAH]
اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں

[AYAH]5:47[/AYAH]
اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس ( موجودہ قرانی حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں

قانون سازی پر حرف آخر، یہ کتاب۔
[AYAH]5:48[/AYAH]
اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے

اس مد میں [AYAH]5:49[/AYAH اور [AYAH]5:50[/AYAH] بھی دیکھیں۔

[AYAH]5:50[/AYAH]
کیا یہ لوگ (زمانہ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے

قانون ساز اسمبلی، سینیٹ یا مجلس شوری کا قیام، تاریخ اسلام اور سنت رسول و صحابہ سے ثابت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی قریب کی حکومتوں میں ایسی کسی اسمبلی، پارلیمنٹ یا شوری کے کوئی آثار کیوں نہیں ملتے؟

صاحبو، دوستو، یہ ایک تلخ‌ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے قران کے اس جمہوری نظام کو ترک کردیا اور صفحوں کے صفحے ملوکیت یعنی بادشاہت پر لکھ ڈالے۔

آپ قومی دولت کا مکمل کنٹرول ایک شخص (یعنی بادشاہ ) کو دے دیجئے اور پھر اس دولتمند سے کہیئے کی بھائی اب تم یہ دولت چھوڑ کر چلے جاؤ تو کیا وہ یہ دولت چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں، لیکن جمہوری نظام میں منتظم اعلی یعنی صدر، پرائم منسٹر کو اپنا وقت پورا ہونے پر بہر صورت حکومت چھوڑ کر ہٹنا ہوتا ہے۔ اور عوام اس شخصیت کا انتخاب کرتے ہیں۔

زیادہ تر بادشاہ حکمران صرف دولت کے دلدادہ تھے اور عوام کی دولت کو صرف اپنا سمجھتے تھے، یہ دولت انہوں نے صرف اپنی اولادوں کو دی۔ حکومت صرف چھینی جاتی رہی وہ بھی صرف دولت اور کنٹرول کے لالچ میں۔ عموما اس عوام کی دولت کو عوام کی فلاح کے لئے خرچ نہیں کیا جاتا تھا۔ مدرسوں، اسکولوں، شفاخانوں- عوامی ذرائع آمدورفت کی جگہ صرف اپنی دولت کو محفوظ کرنے کے لئے قلعے اور محلات اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے انتظام، بادشاہوں کی ترجیحات رہی۔ ہندوستان میں گو اسلامی حکومت، کوئی کہتا ہے 600 سال رہی اور کوئی کہتا ہے 1000 سال، لیکن پاکستان وہندوستان میں مسلمانوں‌کی ان حکومتوں کی یادگار ، کتنی یونیورسٹیوں کے آثار ملتے ہیں؟ یا کتنے شفاخانوں کے آثار ملتے ہیں؟ یا عوام کی فلاح کے نشان کتنی سڑکیں ملتی ہیں؟

ان سوالوں کا جواب ایک فردِ واحد کی حکومت کے بجائے عوام کے نمائندوں کی حکومت میں چھپا ہے۔ مسلمانوں کے زوال کا راز اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ رسول کریم کی وفات کے بعد حکومت خاندانوں‌میں منتقل ہونے میں 100 سال بھی نہیں لگے۔ قرآن کے ان آسان اور سادہ احکامات کو مکمل طور پر چھپا دیا گیا اور عام کردیا گیا کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے۔ بنیادی مقصد یہ رہا کہ عوام اس عظیم کتاب کو روشنی نہ حاصل کریں اور اگر پڑھیں تو مکمل کنٹرول رہے ایسے حضرات کا جو بادشاہ کے طوہاَ و کرہاِ خیرخواہ ہوں کہ کنٹرول تو بادشاہ کا ہی ہوتا تھا، فرد واحد کی حکومت اور فردِ واحد کی قانون سازی۔ عموما بادشاہوں کا مقصد بڑے مفتی یا امام کے اپائنٹمنٹ سے مناسب سپورٹ حاصل کرنا ہوتا تھا، کہ حکم حاکم، مرگ مفاجات۔ جس نےمخالفت کی، اسے اڑا دیا گیا۔ چھوٹے امام یا مولویوں کا درجہ اِس مذہبی سٹرکچر کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتا تھا اور ارتقاء پاتا گیا۔ اللہ نے بہت مناسب موقع فراہم کیا ہے کہ ہمارے امام و مولوی حضرات اپنے علم کا استعمال کرکے قران حکیم کے احکامات پر مبنی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں ممدد اور معاون ہونے کا کردار ادا کریں اور اس جمہوری قانون سازی میں اپنا کردار ادا کریں۔ (تمام تر عزت کے ساتھ عرض ہے کہ) ان مولوی اور امام حضرات کو اب تک یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فرد واحد کی حکومت سے ان کو اللہ نے نجات دے دی ہے اور اب علم کےاستعمال کا قران کی تعلیمات کے مطابق وقت آگیا ہے۔ لہذا فرد واحد کی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ حضرات اسمبلیوں میں جاکر بہت مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ قران کسی مذہبی درجہ بندی کو فروغ نہیں دیتا، کسی بھی جگہ، نبیوں‌کے علاوہ، ایک فرد واحد کو قانون سازی کا مکمل حق نہیں دیتا۔ اور نبی کے درجے پر فائز خود اللہ تعالی فرماتا رہا ہے، یہ درجہ کسی طور خود سے اب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

کیا آپ آج یا ماضی کے کسی بھی بادشاہ یا ملکہ (جیسے برطانیہ اور ہالینڈ) کو قائل کرسکتے ہیں کہ وہ عوام کی دولت سے دستبردار ہو جائے اور اس بادشاہ کے بعد یہ دولت و حکومت عوام کے نمائندہ ایک قانون ساز ادارے کو منتقل کر دی جائے؟

والسلام
 
قوم کی دولت اور اس دولت کی روانی اور تقسیم

قران قوم کی دولت کے نظریے کو واضح کرتا ہے اور ایک مربوط ٹیکسیشن سسٹم کی بنیاد ڈالتا ہے۔ یہ بیت المال یا تریژری زکوۃ‌، صدقات اور ٹیکسز سے وجود میں آتی ہے۔ لفظ ذکو کے معنی ہیں بڑھوتری، بڑھانا To Grow ذکوہ کے قریب ترین معنے جو اس زمرے میں لئے جاسکتے ہیں وہ ہونگے To Grow the Economy یہ نظریہ کہ لوگ ٹیکسز کی مدد سے خود اپنی معیشیت بڑھا سکتے ہیں انتہائی جدید نظریہ ہے۔

دیکھئے
[AYAH]9:103[/AYAH]
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

مقصد اس قومی دولت کو زکوۃ، صدقات اور ٹیکسز میں وصول کرنے کا ایک تو فلاحی ریاست کا قیام اور اس کا دفاع ہے، اور دوسرے اس دولت کا معاشرے میں دوران و گردش ہے کہ دولت صرف امیر لوگوں کے درمیان نہ گھومتی رہے۔ اس طرح ریاست، اپنے ملازمیں کو تنخواہیں اور دفاعی پراجیکٹس شروع کرسکتی ہے۔ دیکھئے

[AYAH]59:7[/AYAH]
جو اللہ نے بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہیں اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں، (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔ اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے

قرآن حکیم، اپنے مال کو احتیاط سے استعمال کرنے اور اس کو بطر رشوت حاکموں اور ججوں کو نہ دینے کا حکم دیتا ہے۔

[AYAH]2:188[/AYAH]
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)

قرآن مختلف مدوں میں ٹیکس کی شرح مقرر کرتا ہے۔

[AYAH]8:41[/AYAH]
اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

اور اسلامی معاشرہ میں ان لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے جو ضرورت مند ہیں
[AYAH]2:273[/AYAH]
(خیرات) ان فقراءکا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بیشک اﷲ اسے خوب جانتا ہے

قرآن مسلمانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے کہ وہ اس ٹیکسز دیں۔
[AYAH]2:245[/AYAH]
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے

مزید دیکھئے کہ یہ حق فصل کٹنے پر ادا ہوگا۔
[AYAH]6:141[/AYAH]
اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کئے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

فلاح کی مد میں کس حد تک خرچ کیا جائے؟ یہ سوال رسول اللہ سے جب کیا گیا تو اس کا جواب اللہ کی طرف سے:
2:215
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، پس اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے

یتیموں کے مال انفرادی یا اجتماعی طور پر ہضم نہ کر جاو۔
[AYAH]4:2[/AYAH]
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بُری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے

اور اس معاشرے میں بیواوں کا ان کے مہر کی ادائیگی ہو۔

[AYAH]65:1[/AYAH]
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

اس عوام کی دولت کی گردش سے فراوانی اور ترقی حاصل کرنے کا طریقہ قرآن نے لازم ٹھیرایا تاکہ ایک مکمل فلاحی مملکت جہاں پر باشندہ کو مناسب روزگار مہیا ہو اور معاشرہ صحت مند رہے۔

[AYAH]13:11[/AYAH]
(ہر) انسان کے لئے یکے بعد دیگرے آنے والے (فرشتے) ہیں جو اس کے آگے اور اس کے پیچھے اﷲ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں، اور جب اﷲ کسی قوم کے ساتھ (اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے) عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے مقابلہ میں کوئی مددگار ہوتا ہے
والسلام
 
مسلم معاشرہ میں مکمل شخصی آزادی

مسلم معاشرہ میں مکمل شخصی آزادی

قرانِ حکیم کا نزول اور نبوتِ رسالت مآب کا دور تاریخ کے ایسے موقع پر شروع ہوا جب کہ غلامی کی بیماری دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئی تھی۔ قرآن نے نہ صرف شخصی آزادی کا تصور ایک مکمل آئین کی صورت میں پیش کیا، بلکہ اس مسئلہ کا بتدریج حل بھی پیش کیا۔ یہ قرآن کا انوکھا انداز ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی خرافات کا حل فوری ممکن نہیں ہے، لہذا اس کا بتدریج حل ہماری سوچوں کو ارتقاء کی بتدریج منازل سے گذار کر پیدا کرتا ہے۔ جب ہماری سوچوں کا ارتقاء مکمل ہوجاتا ہے تو لوگوں کی اکثریت اس معاملہ کے، جسے قران خراب قرار دے چکا ہے، مخالف ہوجاتی ہے اور پھر اس اکثریت کواس میں موجود بھلائی نظر آنی شروع ہوجاتی ہے۔ اس طرح معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

معاشرے میں مکمل طور پر شخصی آزادی کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ غلامی اور غلاموں‌کی آزادانہ خرید وفروخت تھی۔ قرآن نے اس معاشرتی کریہہ بیماری کو کس طرح شناخت کیا اور اس کا علاج کس طرح کیا۔ یہ سوشل سائنٹسٹس کے لئے ایک ہمہ جہت مثال ہے۔

غلامی کی کریہہ بیماری کی شناخت اور اس کا بتدریج علاج:
1۔ عورتوں کی غلامی اور ان غلام عورتوں اور شادی شدہ عورتوں کے حقوق کے فرق کی شناخت اور غلام عورتوں کے حقوق کی آزاد اور شادی شدہ عورتوں کے حقوق کی طرف ‌تبدیلی تاکہ غلام عورتوں اور ان کی اولادوں کو آزاد اور شادی شدہ عورتوں اور انکی اولادوں جیسے حقوق چار دیواری اور معاشرہ دونوں میں حاصل ہو جائیں۔

2۔ غلام مردوں کے حقوق کی آزاد مردوں کے حقوق میں تبدیلی۔
3۔ انسانوں کو غلامی سے نجات کا مکمل حکم۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح قران مکمل شخصی آزادی کے تصورات پیش کرتا ہے اور مسلم معاشرے اور اس کے نتیجے میں دنیا سے غلامی کا خاتمہ کرتا ہے۔

اللہ تعالی غلامی کا یک لخت خاتمہ آسان بنادیتے ہیں کہ وہ لوگ جو غلام ہیں اور آزادی چاہیں، ان کو پروانہ آزادی لکھ کر دے دیں۔ دیکھئے

[ayah]24:33[/ayah]
اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو پروانہ آزادی کو خواہش کریں تو انہیں پروانہ آزادی لکھ کردے دو اگر تم اس میں موجود بھلائی(کے بارے میں) جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے (کر رخصت) کرو، (وہ مال) جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کریہہ بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں (باندیوں کو) اس کریہہ بدکاری پر مجبور کرے گا تو اللہ ان (باندیوں) کے مجبور ہو جانے کی وجہ سے (ان کو) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

سورۃ النور کا یہ حکم نور سے بھرپور ہے۔ اللہ تعالی جانتے ہیں کے غلاموں کے پاس نہ کوئی اثاثہ ہے اور نہ ہی کوئی ہنر۔ لہذا اس حکم اس انداز میں پیش کیا گیا کہ جو آزادی چاہے اسے مل جائے اور جو غلامی میں ہو وہ مجبور نہ ہو۔

ایسی عورتوں کو جو غلامی میں‌ تھیں، قران، شادی شدہ عورتوں کے مساوی اس خوبصورتی سے کرتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ان کی اولاد مکمل حقوق کی مالک ہو۔ اس مقصد کے لئے 'مملوکہ' مرد و حضرات کے لئے 'ملکت ایمانکم' کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ کہ ایک 'ملکت ایمانکم' باندی۔ ایک شادی شدہ عورت جیسے حقوق پانے کے بعد ایک عام باعزت اور مکمل شخصی آزادی کی حامل شخصیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

ان حقوق کی مثال دیکھئے، ملکت ایمانکم سے ان کے مالکوں سے شادی کا حکم۔ تاکہ وہ آزاد ہو جائیں۔ ان کے مہر بھی آزاد عورتوں کے طرح‌مقرر کرنے کی ہدایت تاکہ معاشرہ میں شخصی آزادی کی راہ ہموار ہو۔

[ayah]4:25[/ayah]
اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے


ان سابقہ 'ملکت ایمانکم' سے مساوی سلوک کرنے کا حکم تاکہ معاشرہ کا ہر فرد مساوی حقوق کا حامل ہو۔ جو لوگ مساوی سلوک نہیں کرتے، ان کو قران متکبر قرار دیتا ہے۔ اور مغرور و متکبر کو ناپسند فرماتا ہے۔

[ayah]4:36[/ayah]
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو

اسلامی معاشرہ میں مساوات اور مکمل شخصی آزادی کے نفاذ کے لئے زیر دستوًًں کے ساتھ ایسی اوچھی حرکات کی ممانعت، جن سے لوگوں پر بنیادی ضرورت پوری نہ ہونے کے باعث دباؤ پڑے۔

[AYAH]16:71[/AYAH]
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں

معاشرہ میں مکمل شخصی آزادی کے لئے 'ملکت ایمانکم' کی آپ کو اللہ کے دئے ہوئے مال میں شراکت کی مد میں: (اس مد میں آپ مزید انگریزی تراجم بھی دیکھ لیں)

[AYAH]30:28[/AYAH]
اُس نے تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ کیا جو (لونڈی، غلام) تمہاری مِلک میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے شراکت دار ہیں، کہ تم (سب) اس (ملکیت) میں برابر ہو جاؤ۔ (مزید یہ کہ کیا) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے (نہیں) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں (کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے)


اس طرح اللہ تعالی قران حکیم کے ذریعے اور اس کے رسول کی سنت سے غلامی جیسی کریہہ بیماری کا معاشرے سے خاتمہ کرکے مکمل شخصی آزادی قائم کرتے ہیں۔ وقت گواہ ہے کے ان احکامات اور ان جیسے مزید احکامات جنہیں آپ قرآن میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں، کی مدد سے، دنیا میں‌عام طور پر اور اسلامی معاشرہ سے خاص طور پر غلامی کا خاتمہ ہوا۔ اور مکمل شخصی آزادی کے نظریہ کو حمایت حاصل ہوئی۔

ولسلام۔
 
معاشرے میں خواتین و حضرات مساوی مقام

معاشرے میں خواتین و حضرات کے مساوی حقوق و مساوی درجہ

قرآن حکیم، عورتوں‌اور مردوں کو معاشرے میں مساوی درجہ دیتا ہے۔ اور آپس میں مل جل کر شان بہ شانہ رفیق و مدگار بن کر کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور پیش گوئی کرتا ہے کہ ایسی رفاقت پر مبنی معاونت آخرت میں پر نور ثابت ہوگی۔ آئیے دیکھتے ہیں۔

[ayah]33:35[/ayah]
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے

سبحان اللہ!

اور مردوں اور عورتوں کو ایک پائیدار اور معیاری معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک دوسرے کا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے کہ وہ ایک اسلامی نظام سے آراستہ معاشرے کے قیام میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہوں۔

[ayah]9:71[/ayah]
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

قرآن کی ہر آیت ایک قانون ہے اور مسلمان پر فرض‌ ہے۔ جو لوگ ان آیات کو جھٹلا کر مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہونے پر تکلیف دیتے ہیں ان کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔

[ayah]33:58[/ayah]
اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا

اور جو لوگ رفیق و مددگار مردوں اور عورتوں پر لگائے گئے بہتان کو سن کر اس کو کھلا بہتان قرار نہیں دیتےتو اس طرح مخاطب کرتا ہے

[ayah]24:12[/ayah]
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا (جھوٹ پر مبنی) بہتان ہے

خدا خود گواہی دیتا ہے کہ مومن مرد و عورتیں، معاشرے میں اپنے کام کی بناء پر اور فلاحی مملکت کے نظام کے کام میں اس آپسی رفاقت اور مددگاری کے باعث آخرت میں کس صورت ہوں گے۔

[ayah]57:12[/ayah]
(اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے

[ayah]4:124[/ayah]
اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے

اللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت:
[ayah]3:195[/ayah]
پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے

مرد و عورت کو نیکی کا بدلہ برابر عطا ہوگا۔
[ayah]40:40[/ayah]
جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا

جنت میں بھی مرد و عورت مساوی حق سے داخل ہونگے کوئی حق تل۔فی مرد یا عورت ہونے کے ناطے نہ ہوگی۔
[ayah]4:124[/ayah]
اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گی

ایک فلاحی ریاست کے قیام کا تصور عورتوں اور مردوں کی مساوی شمولیت کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس مساوی شمولیت کے نتیجے میں اللہ تعالی جس معاشرے کی تخلیق فرما رہے ہیں، اس میں شامل مردوں اور عورتوں سے اس کام کے اجر کا وعد فرماتے ہیں، جو کام ان کو [AYAH] 9:71 [/AYAH] میں ‌سونپا ہے۔

[AYAH]9:72[/AYAH]
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہے

قران حکیم اس طرح مساوی طور پر مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا رفیق مددگار بن کر کام کرنے کی ہدایت کرتا ہے، تاکہ معاشرے میں استحکام پیدا ہو۔ جب یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس سے اخلاقی برائیاں پھیلنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے، تو اللہ تعالی وعدہ فرماتے ہیں کے تم آخرت میں‌دیکھ لینا کہ ان کے کئے ہوئے کام اور نیکیوں کا نور انکے اگے، اور دائیں چل رہا ہوگا۔ ہم خود دیکھ چکے ہیں کہ خواتین کے میدان عمل میں آنے سے معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا خاتمہ ہوا اور ہوتا ہے۔

ایک تعلیم یافتہ عورت، معاشرہ میں ماں کا کردار ادا کرتی ہے اور اپنے بچوں کی بہترین تعلیم کا سبب بنتی ہے۔ مسلم معاشرہ اور اس کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والی فلاحی مملکت کی تشکیل تعلیم یافتہ ماؤں کے بغیر ناممکن ہے۔ آپ بہ آسانی معاشرے میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی تعلیم و تربیت میں ماں، کیا کردار ادا کرتی ہے۔ آپ آج خواتین کو تعلیم سے محروم کردیجئے، صرف 25 سال کے عرصے میں کوئی بھی معاشرہ، تعلیمی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو کر دور جاہلیت میں واپس چلا جائے گا۔

معاشرہ میں عورتوں کے مساوی حقوق کی تعلیم قرانِ کریم کا ایک بہت ہی بڑا اعجاز ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ جس وقت یہ احکامات نازل ہوئے، عورتوں‌ کے معاشرے میں کوئی حقوق نہیں تھے، قرآن حکیم نے ذہنی ارتقاء کی عمل کو تیز کیا اور خیالات کو وہ جلا بخشی کہ آج ہمارے تعلیم یافتہ خواتین وحضرات کو مساوی حقوق کے اہمیت کا اندازہ ہے۔ اس سلسلے میں مزید کوشش درکار ہے

[AYAH]53:39[/AYAH]
اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔

ولسلام۔
 
اسلامی معاشرہ میں زندگی، آزادی اور ملکیت کی حفاظت

اسلامی معاشرہ میں زندگی، آزادی اور ملکیت کی حفاظت

ایک اسلامی فلاحی ریاست، ایک اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہوتی ہے، جو کسی فرد واحد کی حکومت نہیں بلکہ ایک مسلمانوں کی نمایندہ، منتخب انسٹی ٹیوشن کی صورت قانون ساز اداروں، عدلیہ، انتظامیہ اور ان اداروں اور ریاست کی حفاظت کے لئے قائم ایک مظبوط و مربوط دفاعی نظام پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان اداروں کا مشترکہ مقصد اس معاشرہ میں زندگی کی حفاظت، مکمل شخصی آزادی اور بنا کسی فرق کے ملکیت کی حفاظت ہے۔ قران ان اصولوں کو اس طرح بیان کرتا ہے۔

زندگی کی حفاظت، فرد واحد کی زندگی، ملت کی زندگی،
فرد واحد کی موت، ملت کی موت
[ayah]5:32[/ayah]
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں

مکمل آزادی :دین میں کوئی زبردستی نہیں، اس ہدیت کے آجانے کے بعد۔
[ayah]2:256[/ayah]
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے

ملکیت کی حفاظت:
[AYAH]4:29[/AYAH]
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے

[AYAH]24:27[/AYAH]
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو


[ayah]2:188[/ayah]
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)

[ayah]9:34[/ayah]
اے ایمان والو! بیشک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دینِ حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کئے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں

کمزور و یتیم کے مال کی حفاظت:
[ayah][6:152[/ayah]
اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو، اور اﷲ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو

ملکیت کی شناخت اور اس دنیوی ضروریات کا احترام
[ayah]3:14[/ayah]
لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے

اللہ تعالی قران حکیم کے ذریعے ہم کو زندگی، آزادی اور ملکیت کی حفاظت اور احترام کی اجتماعی ذمہ داری سونپتا ہے۔ دور جاہلیت میں اس احترام کی کمی کی وجہ سے بے شمار مسائل نے جنم لیا۔ معاشرے میں امن و امان کے لئے یہ اعلی سبق قرآن کا اعجاز ہے۔

والسلام،
 
اسلامی معاشرے میں تولنے اور ناپنے کے معیار کی اجتماعی ذمہ داری

اسلامی معاشرے میں تولنے اور ناپنے کی اجتماعی ذمہ داری

اللہ تعالی ہم کو قران حکیم میں، ایمانداری سے تولنے، ناپنے اور ان کے واضح اور ریگولیٹڈ معیار مقرر کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں۔

دیکھئے [AYAH]83:1[/AYAH] تا [AYAH]83:5[/AYAH]
[AYAH]83:1[/AYAH] بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے
[AYAH]83:2[/AYAH] یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں
[AYAH]83:3[/AYAH] اور جب انہیں (خود) ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں
[AYAH]83:4[/AYAH] کیا یہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ وہ (مرنے کے بعد دوبارہ) اٹھائے جائیں گے
[AYAH]83:5[/AYAH] ایک بڑے سخت دن کے لئے

یہی پیغام ہم کو [AYAH]6:152[/AYAH] میں‌ ملتا ہے
[AYAH]6:152[/AYAH] اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو، اور اﷲ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو

اللہ تعالی قران حکیم میں "میزان" یعنی ترازو کو اسلامی معاشرہ میں عدل و انصاف کے نشان کے طور پھی استعمال فرماتے ہیں اور انصاف سے تولنے اور ناپنے کے لئے بھی۔

دیکھئے [AYAH] 55:7[/AYAH] تا [AYAH]55:9[/AYAH]
[AYAH]55:7[/AYAH] اور اسی نے آسمان کو بلند کر رکھا ہے اور (اسی نے عدل کے لئے) ترازو قائم کر رکھی ہے
[AYAH]55:8[/AYAH] تاکہ تم انصاف کرنے میں بے اعتدالی نہ کرو
[AYAH]55:9[/AYAH] اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو

یہی پیغام اللہ تعالی نے اس سے پہلے والے قوموں کو بھی دیا تھا۔ دیکھئے
[AYAH]11:84[/AYAH] اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام کو بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے

اللہ کے قانون پر مشتمل تمام معاشروں کے لئے یہی پیغام رہا ہے۔
[AYAH]11:85[/AYAH] اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو

اسلامی معاشرے یا اسلامی نظام کی یہ ذمے داری ہے کی وہ ایسے طریقے وضع کرے جو ناپنے کے معیاری پیمانہ اور تولنے کے معیاری ترازو اور طریقے فراہم کرے۔ اور اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کرے۔

[AYAH]17:35[/AYAH] اور ناپ پورا رکھا کرو جب (بھی) تم (کوئی چیز) ناپو اور (جب تولنے لگو تو) سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ (دیانت داری) بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے (بھی) خوب تر ہے

[AYAH]26:181[/AYAH] تم پیمانہ پورا بھرا کرو اور (لوگوں کے حقوق کو) نقصان پہنچانے والے نہ بنو
[AYAH]26:182[/AYAH] اور سیدھی ترازو سے تولا کرو
[AYAH]26:183[/AYAH] اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو
[AYAH]26:184[/AYAH] اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تم کو اور پہلی امتوں کو پیدا فرمایا

اللہ تعالی نے یہ حکم قران کریم کے ذریعے صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں‌ہے بھیجا۔ اللہ تعالی کا حکم پچھلی قوموں کے لئے بھی تھا دیکھئے
[AYAH]57:25[/AYAH] بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے


یہ قران کریم کا ایک مزید اعجاز ہے کہ یہ مسلم معاشرے سے فسادات کی جڑوں‌کا خاتمہ کرتا ہے، اور ہماری عملی زندگی کے ان پہلوؤں پر مکمل اصول فراہم کرتا ہے تاکہ ہم ایک عظیم فلاحی ریاست اسلامی نظام کی بنیاد پر قائم کرسکیں، اس نظام سے برکت یعنی اضافہ اور بڑھوتری حاصل ہوتی ہے، دوسری قومیں جن سے آپ تجارت کرتے ہیں، ناپ اور تول کے معیاری ہونے کے باعث آپ پر اعتماد کرتی ہیں اور اس طرح آپ کی مصنوعات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ایماندادی اور معیاری پیمانوں‌سے تولنے سے معاشرے میں امن و استحکام پیدا ہوتا ہے۔ یہی اسلامی نظام ہے، یہی شریعت ہے کہ قرآن کے ان درج کردہ اصولوں پر مبنی قوانین بنائے جائیں۔

اور ناپ پورا رکھا کرو جب (بھی) تم (کوئی چیز) ناپو اور (جب تولنے لگو تو) سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ (دیانت داری) بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے (بھی) خوب تر ہے

والسلام،
 
معاشرے کی ذمہ داری، دینار و قنطار کی حفاظت

معاشرے کی ذمہ داری، دینار و قنطار کی حفاظت

اللہ تعالی ہماری توجہ اس بات پر دلاتے ہیں کہ ایک فلاحی ریاست میں دینار و قنطار کی حفاظت کے قوانین کی ضرورت ہے دیکھئے

[ayah]3:75[/ayah] اور اہلِ کتاب میں ایسے بھی ہیں کہ اگر آپ اس کے پاس مال کا ڈھیر امانت رکھ دیں تو وہ آپ کو لوٹا دے گا اور انہی میں ایسے بھی ہیں کہ اگر اس کے پاس ایک دینار امانت رکھ دیں تو آپ کو وہ بھی نہیں لوٹائے گا سوائے اس کے کہ آپ اس کے سر پر کھڑے رہیں، یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں، اور اﷲ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور انہیں خود (بھی) معلوم ہے

تاکہ کوئی سِکوں اور سیکیوریٹیز کے معاملے میں دھوکہ نہ دے سکے۔ اجتماعی قانون ساز ادارے باہمی مشاورت سے اس بارے میں قوانین بنا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ معصوم لوگوں کو علم نہ رکھنے اور ناواقفیت کی بنا پر دھوکہ دیتے ہیں اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ان معصوموں کو علم ہونا چاہیے تھا۔ یہ دولت تو انہوں نے اپنے کم علمی اور بیوقفی سے گنوائی ہے، ان معصوموں کو پتہ ہونا چاہیے تھا، گو کہ یہ لوگ صریح دھوکہ دیتے ہیں لیکن کہتے یہ ہیں کہ ہم کیا کریں کہ کوئی کم علمی کے باعث اور ناجانتے ہوئے دھوکہ کھا گیا، اس کا مؤاخذہ اللہ تعالی تھوڑی لیں گے۔ اللہ تعالی اس طرف ہماری توجہ دلاتے ہیں تاکہ ہم اسلامی فلاحی ریاست کے نظام میں ضرورت کے مطابق قوانین باہم مشاورت سے بنا سکیں

والسلام،
 
علوم زندگانی کے ترقی اور ترویج

علوم زندگانی کی ترقی اور ترویج

اللہ تعالی ہماری اجتماعی توجہ اس طرف دلاتا ہے کہ ہم تمام علوم زندگانی، علوم دینوی و مذہبی، سائینس، آرٹس، فقہ (قران سےقانون سازی)، انجینئرنگ، سماجی علوم (سوشل سائینسز)، معاشیات( اکنامکس)، تجارت(ٹریڈنگ)، شہریات (سوکس) کی معاشرے میں ترویج (پروموشن) کریں اور ان علوم کی ترقی پر زور دیں۔ قرآن یہ ذمے داری معاشرے پر عائد کرتاہے کہ اس ترقی اور ترویج کے لئے مناسب قوانین بنائے جائیں تاکہ دارلعلوم یعنی یونیورسٹیز کا قیام عمل میں آئے۔ اس مقصد کے لئے اس عظیم موقعہ، کہ جس کا انتظار و اہتمام ابتدائے آفرینش سے تھا, جب آیا تو اللہ تعالی نے جس پہلی وحی کا اہتمام کیا، اور جس پہلی آیت کا اہتمام کیا، اور اس کے لئے جس پہلے لفظ کا اہتمام کیا وہ ہے "اقرا" Read or Learn

[AYAH]96:1[/AYAH] اقْرَا بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
پڑھئے، اپنے رب کے نام سے، جس نے (ہر چیز کو) تخلیق کیا

علم کی اہمیت پر اس سے زیادہ زور کیا ممکن ہے، کہ واضح کردیا کہ اہل علم کے سوا کئی سمجھتا ہی نہیں؟
[AYAH]29:43[/AYAH] اور یہ مثالیں ہیں ہم انہیں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے بیان کرتے ہیں، اور انہیں اہلِ علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتا

اور لفظ اقرا کے مصدر" قرا " سے اس کتاب کا نام " قرآن " رکھا۔ کہ یہ قرآن علم و نور کا سرچشمہ اللہ تعالی کے علم کا سرچشمہ ہے۔

[AYAH]27:6[/AYAH] اور بیشک آپ کو (یہ) قرآن بڑے حکمت والے، علم والے (رب) کی طرف سے سکھایا جا رہا ہے


لفظ علم اور اس سے بننے والے الفاظ قرآن میں 851 مرتبہ استعمال ہوئے ہیں، ان تمام آیات و اس چھوٹے سے آرٹیکل میں ممکن نہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے علم میں اضافے کی دعا کی ہدائت فرماتے ہیں۔ جب ہم سب کو علم میں اضافے کی ہدایت فرماتے ہیں تو یہ واضح ہے کی یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ علم کے حصول کو نافذ کرے کے لئے اسلامی نظام کی مربی و خادم حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مناسب قوانین اس مد میں بنائے اور علم ککی ترقی، ترویج اور حصول کے لئے مناسب اقدامات کرے، دیکھئے

[AYAH]20:114[/AYAH] پس اللہ بلند شان والا ہے وہی بادشاہِ حقیقی ہے، اور آپ قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کریں قبل اس کے کہ اس کی وحی آپ پر پوری اتر جائے، اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے

علم حاصل کرنے کا ثواب، کسی بھی دولت سے زیادہ ہے۔
[AYAH]28:80[/AYAH] اور (دوسری طرف) وہ لوگ جنہیں علمِ (حق) دیا گیا تھا بول اٹھے: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے (اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو، مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا

پرہیز گاری، تعلیم اور ریسرچ یعنی سچ ڈھونڈنے میں پنہاں ہے
[AYAH]39:33[/AYAH] اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیں

علم والوں کی گواہی اللہ کے عالم اور معبود ہونے کی:
[AYAH]3:18[/AYAH] اﷲ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے

قرآن حکیم، بذات خود سائنسی علوم سے بھرپور ہے، اس بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بنیادی احکامات علم کے حصول کی اہمیت کی ہدایت کرتے ہیں تاکہ اسلامی نظام کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والا معاشرہ، ریاست، سوسائٹی علم کی کمی سے انحطاط کا شکار نہ ہوجائے۔

والسلام،
 
اسلامی فلاحی معاشرہ میں اقلیتی مذاہب کی آزادی

اسلامی فلاحی معاشرہ میں اقلیتی مذاہب کی آزادی

اسلامی فلاحی معاشرہ کے استحکام کے بعد اور مستقل استحکام کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اقلیتی مذاہب ایک مسلم معاشرہ میں موجود رہیں گے۔ ان اقلیتی مذاہب کو اپنی رسومات کی آزادی دینا اسلامی معاشرہ کے لئے کئی وجوہات سے ضروری ہے۔ اقلیتی مذاہب کے پیروکار مسلم معاشرہ سے سبق حاصل کرتے ہیں اور پھر انہی قواعد و ضوابط پر عمل کرتے ہیں جو مسلم معاشرہ کی اساس ہے۔ دوسری طرف غیر مسلم معاشروں کے افراد مسلم معاشرہ میں ہونے والے نرم سلوک کی بناء پر مسلمانوں سے بہتر سلوک روا رکھتے ہیں۔

قران دین میں زبردستی کا قائل نہیں:
[AYAH]2:256[/AYAH] دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے


قران ایمان لانے کے لئے آپ کو مناسب موقع دیتا ہے۔ اور مندرجہ بالاء پیغام دوبارہ دیتا ہے:
[AYAH]18:29[/AYAH] اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے

اللہ تعالی فرماتے ہیں‌کے وہ خانقاہوں گرجوں کلیسوں اور مسجدوں کی حفاظت فرماتے ہیں جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔
[AYAH]22:40[/AYAH]
(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔

قرآن رنگ و نسل کے فرق کو اہمیت نہیں دیتا:
[AYAH]30:22[/AYAH] اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں

قرآن ہم کو دوسری قوموں پر ہنسنے اور ان کا مذاق اڑانے سے منع فرماتا ہے۔ اس طرح قران قوم یعنی Ethnicity کی بنیاد پر لوگوں کو استحصال یعنی Discrimination سے منع فرماتا ہے۔
[AYAH]49:11[/AYAH] اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں

اللہ تعالی، قرآن میں رسول پاک (ص) کو حکم دیتا ہے کہ وضاحت فرمادیں کے تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین:
[AYAH]109:4[/AYAH] اور نہ میں ان کی عبادت کرتا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو
[AYAH]109:5[/AYAH] اور نہ تم اس کی عبادت کرو جس کی میں عبادت کرتا ہوں
[AYAH]109:6[/AYAH] تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین

قران اس طرح مسلم معاشرہ میں اقلیتی مذہبی آزادی قائم کرتا ہے تاکہ مسلم معاشرہ استحکام پذیر رہے۔ اس طرح مسلم حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مناسب قانون سازی ان اصولوں پر اقلیتی بہبود کے لئے کرے۔

والسلام
 
شخصی جائیداد کا تقدس اور حفاظت

شخصی جائیداد کا تقدس اور حفاظت

اسلامی فلاحی ریاست کا تصور، اس ریاست میں آپ کی پراپرٹی کی مناسب حفاظت اور اس کے تقدس کے بناٌ ناممکن ہے۔ قرآن اس مال و جائیداد کو مقدس قرار دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ ایک دوسرے کی جائیداد میں داخل تک نہ ہو۔ اس طرح قران ان عالمگیر اصولوں کا تعین کرتا ہے جو اسلامی نظام میں قانون سازی کی اساس ہیں۔

[AYAH]24:27[/AYAH] اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو

قرآن شخصی آزادی اور جائیداد کی حفاظت اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کے مسلمہ اصول فراہم کرتا ہے تاکہ مناسب قوانین ان اصولوں کے مطابق بنائے جاسکیں۔
[AYAH]24:28[/AYAH] پھر اگر آپ لوگ ان (گھروں) میں کسی شخص کو موجود نہ پائیں تو آپ لوگ ان کے اندر مت جایا کرو یہاں تک کہ آپ لوگوں کو (اس بات کی) اجازت دی جائے اور اگرآپ لوگوں سے کہا جائے کہ واپس چلے جائیے تو آپ لوگ واپس پلٹ جایا کیجئے، یہ آپ لوگوں کے حق میں بڑی پاکیزہ بات ہے، اور اللہ ان کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے

البتہ جن جائیدادوں کا کوئی مالک نہیں، ان کو عوام کے فائدے کے لئے مناسب قوانین بنانے کے لئے قرآن قانون ساز اداروں کو اصول فراہم کرتا ہے اور اسے آسان بناتا ہے۔
[AYAH]24:29[/AYAH] اس میں آپ لوگوں پر گناہ نہیں کہ آپ لوگ ان مکانات (و عمارات) میں جو کسی کی مستقل رہائش گاہ نہیں ہیں، چلے جائیں (کہ) ان میں آپ سب کو فائدہ اٹھانے کا حق (حاصل) ہے، اور اللہ ان (سب باتوں) کو جانتا ہے جوآپ سب لوگ ظاہر کرتے ہیں اور جو آپ سب لوگ چھپاتے ہیں۔

قرآن ان نام نہاد علما اور رھبانوں کی شناخت کرتا ہے جو لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں اور قانون ساز اداروں کے لئے اصول مرتب کرتا ہے کہ وہ مناسب قوانین اس سلسلے میں بنائیں:

[AYAH]9:34[/AYAH] اے ایمان والو! بیشک اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال و جائیداد ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دینِ حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کئے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں

آپ سب کی جائیداد کو قرآن اہمیت دیتا ہے اور اسلامی نمائندہ حکومت کو ان لوگوں کو Recognise کرنے کے لئے مناسب قوانین بنانے کا اصول بیان کرتا ہے۔
[AYAH]8:72[/AYAH] بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مال و جائیداد اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے (مگر) انہوں نے (اللہ کے لئے) گھر بار نہ چھوڑے تو تمہیں ان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین (کے معاملات) میں اپ لوگوں سے مدد چاہیں تو آپ لوگوں پر (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں (مدد نہ کرنا) کہ آپ لوگوں اور ان کے درمیان (صلح و امن کا) معاہدہ ہو، اور اللہ ان کاموں کو جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے

قراں مال و جائیداد کو چپکے چپکے آپس میں کھانے سے منع فرماتا ہے اور مناسب اصولوں کا اسلامی معاشرہ کے لئے تعین کرکے اسلامی نظام کے مزید بنیادی اصول فراہم کرتا ہے۔
[AYAH] 4:29[/AYAH] اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کے مال و جائیداد آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے

اس طرح قران آپ کی جائیداد کو اہمیت دیتا ہے، اس کو محفوظ رکھنے کے اصول بیان کرتا ہے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو اپنے جائیداد کو اللہ کی راہ میں استعمال کرتے ہیں، مناسب انعام و اکرام سے نوازنے کے اصول بیان کرتا ہے تاکہ مسلم فلاحی ریاست اور اسلامی نظام مناسب قوانین اس مد میں بنانے پر توجہ دیں۔

والسلام
 
عوام کو ملازمت دینے کا تصور

عوام کو ملازمت دینے کا تصور

قران، عوام کو ملازمت دینے کا تصور پیش کرتا ہے اور ایملایمنٹ، ایمپلائی اور ایمپلائر یعنی ملازمت، ملازم اور ملازمت فراہم کرنے والے کی وضاحت کرتا ہے۔
[ayah]43:32[/ayah] کیا آپ کے رب کی رحمتِ (نبوّت) کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں کہ وہ مزدور رکھیں، (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں (یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمتِ نبوت کا حق دار ہی نہ سمجھو)، اور آپ کے رب کی رحمت اس (دولت) سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے (اور گھمنڈ کرتے) ہیں

قران یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کوشش کے بناء کسے بھی ہدف کا حصول ممکن نہیں:
[ayah]53:39[/ayah] اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی۔

قرآن محنت و مشقت کی قیمت مال و زر کے مساوی ٹھیراتا ہے:
[ayah]9:79[/ayah] جو لوگ برضا و رغبت خیرات دینے والے مومنوں پر (ان کے) صدقات میں (ریاکاری و مجبوری کا) الزام لگاتے ہیں اور ان (نادار مسلمانوں) پر بھی (عیب لگاتے ہیں) جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے سو یہ (ان کے جذبہء اِنفاق کا بھی) مذاق اڑاتے ہیں، اللہ انہیں ان کے تمسخر کی سزا دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

قرآن فراغت کے بعد بھی محنت کا حکم دیتا ہے:
[ayah]94:7[/ayah] پس جب آپفارغ ہوں تو محنت فرمایا کریں۔

اس طرح قرآن عوام کی محنت، مزدوری اور اس کے معاوضہ یعنی ملازم، ملازمت اور ملازمت عطا کرنے کے عالمی اصول متعین کرتا ہے،

والسلام
 
کیا تمام یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنا منع ہے؟

اکمل زیدی نے کہا:
ٹھیک ہے پھر عمل کریں . . . ۔
۔ اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
Surah Maidah 51​
برادر محترم اکمل زیدی۔​
آپ نے ایک ایسے نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے بارے میں تفصیل پیش کرنا ضروری ہے۔ میں آیات پیش کرتا ہوں ، آپ انصاف کیجئے۔​

آئیے دیکھتے ہیں پھر اخذ کریں گے کہ اللہ تعالی کیا فرما رہے ہیں اور بناء سیاق وسباق کے یہ ترجمہ مناسب ہے یا نہیں ؟​

معاملہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے تھے رسول اکرم کے پاس آئے کہ رسول اکرم ان کے درمیان قضیے کا فیصلہ فرمادیں۔ اس پر سورۃ المائیدہ کی جو آیات نازل ہوئیں، ان میں سے ہم آیات 48 تا 51 دیکھتے ہیں ۔​

اللہ تعالی تلقین فرمارہے ہیں کہ جو کتاب رسول اکرم صلعم پر نازل کی اس کی پیروی کی جائے ، گو کہ کچھ اور شریعت بھی مقرر کی گئی ہیں۔ آزمائش یہ ہے کہ نیکیوں میں انسان سبقت لے جائے۔​
سورۃ المائیدہ - آیت 48​
پھر نازل کی ہم نے تم پر (اے نبی) یہ کتاب حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو موجود ہے اس سے پہلے الکتاب میں سے اور نگہبان ہے اس کی سو فیصلے کرو تم اُن کے درمیان اس کے مطابق جو نازل کیا اللہ نے اور مت پیروی کرو اُن کی خواہشات کی، (منہ موڑ کر) اس سے جو آگیا ہے تمہارے پاس حق۔ ہر ایک کے لیے تم میں سے مقّرر کی ہے ہم نے شریعت اور راستہ اور اگر چاہتا اللہ تو بنادیتا تم کو ایک ہی اُمّت لیکن (یہ اس لیے کیا) کہ آزمائے تم کو ان احکام کے بارے میں جو اس نے تم کو دیے ہیں سو تم سبقت لے جاؤ نیکیوں میں۔ اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے تم سب کو پھر آگاہ کرے گا وہ تم کو اِن اُمور سے جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔

آیت نمبر 49 -​
اور فیصلہ کیا کرو اُن کے معاملات کا اس کے مطابق جو نازل کیا ہے اللہ نے اور نہ پیروی کرنا اُن کی خواہشات کی اور محتاط رہنا کہ مبادا یہ لوگ تم کو فتنے میں مبتلا کردیں (اور منحرف کردیں) کسی ایسے حُکم سے جو نازل کیا ہے اللہ نے تم پر۔ پھر اگر وہ منہ موڑ جائیں تو جان لو کہ چاہتا ہے اللہ کہ مُبتلائے مصیبت کرے اُن کو پاداش میں ان کے بعض گناہوں کی۔ اور بے شک انسانوں میں سے اکثر نافرمان ہیں۔

آیت نمبر 50
تو کیا پھر یہ لوگ زمانۂ جاہلیّت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ کون بہتر ہے اللہ سے فیصلہ کرنے والا اُن لوگوں کے نزدیک جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔

اب دیکھئے آیت نمبر 51۔ اس آیت میں رسول اکرم کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ "یہود نصاریٰ " سے "اخذ" نا کریں ۔ کہ یہ "یہود و نصاریٰ" اس معاملے میں جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ ان کا اپنا "اخذ کردہ " ہے ۔ یہ آپس میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں اس "اخذ شدہ " کے بارے میں کہ یہ آپس میں دوست ہیں۔ میں نے آپ کے لئے عربی متن اور اردو ترجمہ دونوں لکھ دیے ہیں ۔ امید ہے بردر محترم آپ کو آسانی ہوگی اور آپ انصاف کرسکیں گے کہ اس آیت کو بہت سے مذہبی سیاسی بازیگر اپنے فائیدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

آیت نمبر 51 -

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اے ایمان والو " ان یہود اور ان نصاریٰ" سے اخذ نہیں کرو کہ یہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو

یہاں غور کرنے والے الفاظ ہیں الیھود ، النصاریٰ اور لا تتخذو ۔

"ال" اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی خاص والے شخص یا اشخاص کی طرف اشارہ ہو۔
یہود کے معانی ہے ہدایت یافتہ اور نصاری کے معانی ہیں مدد کرنے والا۔ اور لا تتخذو کے معانی ہیں آپ اخذ نہیں کیجئے۔

بنیادی بات یہاں یہ ہے کہ قانون ان مخصوص یہود و نصاریٰ کی اخذ کردہ تورات کی تعبیر و تفسیر سے نا کیا جائے کہ یہ خاص یہود اور یہ خاص نصاریٰ مصر تھے کہ ان کے درمیان ان کے اخذ کردہ قانون اور ان کی تفسیر کردہ اللہ کے قانون سے فیصلہ کیا جائے۔ ان کا اصرار تھا کہ تورات اللہ کا حکم ہے اور قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے لہذا کیا وجہ ہے کہ " ان یہود اور ان نصاریٰ " کے درمیان فیصلہ ان کی تعبیر کے مطابق نا کیا جائے۔ یہ حقیقت آیات 41 سے 47 میں بیان کردی گئی ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے رسول اکرم کو حکم دیا کہ وہ ان یہود اور ان نصاریٰ سے اخذ نا کریں۔ کہ یہ گروپ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو بھی ان سے خیالات و نظریات ہموار کرے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔

آپ آیات 41 تا 48 کا مطالعہ بھی فرمائیے۔ تو آپ کو اندازاہ ہوگا کہ معاملہ یہ ہے کہ
یہ مخصوص گروہ رسول اکرم کے پاس اس لئے آیا تھا کہ ان سے توریت سے فیصلہ کروایا جائے ، اس کی دلیل ان لوگوں کے پاس یہ تھی کہ قرآن کریم توریت اور انجیل کو توثیق کرتا ہے ۔لہذا ان کے "اخذ کردہ " فیصلے کو قبول کیا جائے۔

امید ہے آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ تمام کے تمام یہود اور نصاری سے دوستی رکھنے یا نا رکھنے کی بات اس آیت میں نہیں ہورہی ہے بلکہ اللہ تعالی رسول اکرم کو قرآن کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں اور ان مفسرین کے اخذ کردہ بیان اور فیصلے سے اور اس گروپ سے ملاپ کرکے اپنے نظریات ان کے نظریات سے ملانے سے منع فرمارہے ہیں۔

والسلام
 
Top