قرآن پر عمل

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
قرآنِ کریم کی ایک ایک آیت
کو لے کر اس پر عمل کرنے کے
خوش گوار کامیاب تجربات
 

شمشاد

لائبریرین
انقلاب بالقرآن اور اس کے تقاضے

قرآن سے استفادے کا درست طریقہ

خواتین کے منفرد تجربات

قرآن کے مطابق زندگی
 

شمشاد

لائبریرین
قارئین سے گزراش ہے کہ اس اردو رسم الخط میں قرآنی آیات اور احادیث پر مکمل اعراب لگانا ممکن نہیں اس لیے صحیح تلفظ کے لیے دیئے گئے حوالہ سے تلاوت فرمائیں۔ شکریہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ترتیب

۔۔۔ پیش لفظ

۔۔۔ انقلاب بالقرآن اور اس کے تقاضے

۔۔۔ قرآن سے استفادے کا درست طریقہ

۔۔۔ خواتین کے منفرد تجربات

۔۔۔ قرآن کے مطابق زندگی
 

شمشاد

لائبریرین
انقلاب بالقرآن اور اس کے تقاضے

۔۔۔ قرآن ایک عظیم معجزہ
۔۔۔ تبدیلی کی کیفیت
۔۔۔ قرآن کی قوتِ تاثیر
۔۔۔ قرآنی تبدیلی کا نمونہ
۔۔۔ قرآن مجید پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
۔۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قرآن سے تعلق
۔۔۔ قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن سے استفادے کا درست طریقہ

۔۔۔ قرآن مجید سے دلچسپی
۔۔۔ مناسب جگہ
۔۔۔ موزوں وقت
۔۔۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا
۔۔۔ توجہ سے مطالعہ کرنا
۔۔۔ سرِ تسلیم خم
۔۔۔ ہدف - معانی
۔۔۔ آیات کو بار بار پڑھنا
 

شمشاد

لائبریرین
خواتین کے منفرد تجربات

۔۔۔ گھر میں چیخنا چلانا
۔۔۔ نماز فجر کے لیے بیدار ہونا
۔۔۔ طلاق کی دھمکی
۔۔۔ لڑنا، جھگڑنا اور ناراضی
۔۔۔ نفرت و کدورت
۔۔۔ تسبیح
۔۔۔ ٹی وی اور دیواروں کی تسبیح
۔۔۔ تسبیح کی برکت سے کبیرہ گناہ چھوڑ دینا
۔۔۔ بچوں پر اثرات
۔۔۔ والدین سے حسنِ سلوک
۔۔۔ عامل کے بجائے اللہ
۔۔۔ والدین میں تبدیلی
۔۔۔ ایک بہن کا عجیب تجربہ
۔۔۔ والدین سے محبت کا اظہار
۔۔۔ بھائی کا والدین سے حسنِ کلام
۔۔۔ میراث
۔۔۔ زیورات کی تقسیم
۔۔۔ دوسرا تجربہ
۔۔۔ بروقت تقسیم
۔۔۔ نفسیاتی کیفیت کا شکار نوجوان
۔۔۔ مزاروں پر دعائیں
۔۔۔ صدقہ مصیبت کو ٹال دیتا ہے
۔۔۔ حاجات اللہ پوری کرتا ہے
۔۔۔ جن نکالنا
۔۔۔ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں
۔۔۔ اولاد کے لیے دعا
 

شمشاد

لائبریرین
پیش لفظ

بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ یہ دور خواتین کا کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ مغرب اور اسلام کی تہذیبی کش مکش میں بھی ان کے مقام و منصب کو طے کرنے کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ ہمارے معاشروں میں انہیں ان کا مقام دلانے کی سرکاری اور غیر سرکاری کوششیں تھی کچھ زیادہ ہی نمایاں ہیں۔ اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ احیائے دین کے لیے جو کوشش ہو رہی ہے اس میں بھی سرگرمی سے تعاون کرنے والوں میں خواتین ہی آگے ہیں۔ نو مسلموں کی داستانیں پڑھیں تو اس میں بھی خواتین ہی زیادہ نظر آتی ہیں۔

قرآن جو دعوت پیش کرتا ہے اس پر عمل میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں اور عالم اسلام کے دوسرے ممالک میں رجوع الی القرآن کی ایک تحریک برپا ہے۔ ادارے قائم ہو رہے ہیں، فہم قرآن کے لیے مختلف طرح کے کورس اور نصابات تجویز کیے جا رہے ہیں۔ درس قرآن کے 10، 10 روز کے سلسلے جاری ہیں۔ جن میں ہزارہا مرد و خواتین شرکت کر رہے ہیں۔ بعض حضرات و خواتین کے نام اس حوالے سے معروف ہو گئے ہیں۔

اسی سلسلے میں کویت کے رسالہ “ المجتمع “ میں ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا۔ اس میں محترمہ سمیہ رمضان نے اپنے حلقہ درس کا حال لکھا ہے۔ قرآن کی محض تبلیغ پر اکتفا نہ کیا بلکہ ہر دفعہ ایک آیت کا انتخاب کر کے شرکا نے اس پر عمل بھی کیا اور اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ عربی میں بہت اچھی اور مفید چیزیں نظر پڑتی ہیں لیکن ہمارے کسی ادارے کے پاس ترجمے کا کوئی نظم نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف عربی بلکہ دوسری زبانوں کی مفید چیزوں سلے اردو جاننے والے محروم ہیں۔ حسنِ اتفاق سے ہمارے رفیق محمد ظہیر الدین بھٹی کو یہ سلسلہ پسند آیا اور اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس کا ترجمہ کر ڈالا۔

منشورات اسے شائع کر رہا ہے۔ آپ خود دیکھیں گے کہ اس میں 14 موضوعات کے تحت جو تجربات بیان کیئے گئے ہیں، ان میں قرآن پر عمل کے فوائد و ثمرات دو اور دو چار کی طرح واضح ہو کر سامنے آتے ہیں، بنیادی عقائد درست ہوتے ہیں، نیز یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں خواتین کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں۔ یقیناً ہماری خواتین اس میں بہت کچھ رہنمائی پائیں گی۔ لیکن اصل فائدے کی بات تو یہ ہو گی کہ وہ حلقہ ہائے درس قرآن قائم کر کے اس انداز کو اختیار کر کے عمل کی کوشش کریں۔

خواتین کے حوالے سے اس کتاب کی اشاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہے۔ مرد عموماً خواتین سے متعلق چیزوں کو زیادہ دلچسپی اور شوق سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمل بالقرآن کی مشق کریں گے۔ درس گاہوں میں مقیم طلبہ و طالبات کے لیے زیادہ موقع ہے کہ وہ یہ مشق کریں اور اس پیغام کو اپنے گھرانوں اور خاندانوں میں لے جائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
انقلاب بالقرآن اور اس کے تقاضے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

من قرء حرفاً من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ والحسنۃ بعشر امثالھا، لا اقول الم حرف الم حرف و لکن الف حرف و لام حرف و میم حرف۔ (یہ حدیث حسن ہے۔ اسے ترمذی نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔)۔

“ جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے۔“

اس حدیث سے یہ غلط مفہوم لیا گیا ہے کہ تلاوت بلا سوچے سمجھے کی جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے تب بھی اجر و ثواب ملتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے کی توضیح و تشریح کرتی ہیں اسی طرح حدیث کی وضاحت قرآنی آیات اور دیگر احادیث سے ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے تو تدبر پر زور دیا ہے۔“ افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا (محمد 24:47)“ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا (ان کے) دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔“ احادیث میں بھی قرات اور عمل دونوں کو یکجا بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ من قرء القرآن و عمل بما فیہ البس والداہ تاجاء یوم القیامۃ۔۔۔۔“ جس نے قرآن پڑھا اور جو کچھ قرآن میں ہے اس پر عمل کیا اس کے ماں باپ کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا۔“ (احمد، ابو داؤد)

اگر قرآن خوانی کا واحد مقصد حصولِ اجر و ثواب ہے تو پھر اور بہت سے ایسے وظائف و کلمات ہیں جنہیں پڑھ کر ہم کہیں زیادہ مقدار میں ثواب کما سکتے ہیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، “ جو بازار میں جائے اور یہ پڑھ لے، لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت و ھو حی لا یموت بیدہ الخیر و ھو علی کل شیء قدیر۔ تو اسے دس لاکھ نیکیاں ملیں گی اور اس کے دس لاکھ گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔“ ( الجامع الصغیر)۔

ان سطور کا مقصد قرآن مجید کی قرات پر ملنے والے اجر و ثواب کی شان کو کم کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ مسلمان قرآن حکیم کے بارے میں اپنا عملی رویہ تبدیل کریں۔ قرآن مجید کی حقیقی قدر و قیمت اور برکت اس کے معانی میں مضمر ہے۔ لفظ تو معنی کے ادراک کا محض ایک ذریعہ ہوا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “ جس نے ایک حرف پڑھا اس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔“ کا ہدف اجر و ثواب بتا کر امت مسلمہ کو قرآن سے جڑے رہنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ مسلمان کسی جگہ بیٹھ کر محض الفاظ پڑھ ڈالے اور مفہوم و مطلب نہ سمجھے۔ اگر کسی طالب علم کا والد اسے یہ کہتا ہے کہ بیٹا پڑھو، تو اس کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ بیٹا محض الفاظ پڑھ لے اور سبق کو نہ سمجھے۔

اگر ہم نزول قرآن کے اعلٰی مقصد کو سامنے رکھیں اور پھر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کو اس کے ساتھ مربوط کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ثواب بتا کر ترغیب دینے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان قرآن کو ہمیشہ پڑھتے رہیں۔ اس قرآن سے ہدایت پائیں اور اپنے تمام اخلاقی و روحانی امراض سے شفا حاصل کریں۔ قرآنی خطاب کے معنی و مقصود کو سمجھے بغیر اس کا ثواب کی خاطر پڑھ لینا بہت کم پر قناعت کر لینا ہے۔ اصل مقصد تو عمل ہے اور عمل کی نوبت سمجھنے کے بعد آیا کرتی ہے۔

ایک خدا ترس خاتون نے ایک بچی کو اپنے گھر میں رکھا۔ اس بچی کے ماں باپ غریب تھے جو اس کے اخراجات پورا کرنے سے قاصر تھے۔ اس خاتون نے بچی کو اپنے گھر میں ہر طرح سے آرام سے رکھا۔ گھر میں خدمت کے لیے خادمہ پہلے سے موجود تھی۔ بچی کو پوشاک، خوراک اور تعلیم سبھی سہولتیں میسر تھیں، وہ لکھ پڑھ گئی، بڑی ہو گئی تو خاتون نے پہلی خادمہ کو فارغ کر دیا اور صبح سویرے نئی خادمہ کو سب کام ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیئے۔ بچوں کو نہلانا، کپڑے استری کرنا، گھر کی صفائی ستھرائی اور کھانا پکانا وغیرہ۔ امیر عورت یہ کاغذ‌ دے کر مطمئن ہو گئی۔ جب وہ دوپہر کے وقت گھر واپس آئی تو دیکھا کہ نئی نوکرانی نے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ بلا کر پوچھا تو جواب ملا کہ میں نے آپ کی تحریر کو بڑے احترام سے چوما ہے اور اسے بار بار پڑھتی رہی ہوں حتٰی کہ یہ تحریر مجھے زبانی یاد ہو چکی ہے۔ یہ جواب سن کر امیر خاتون کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ کیا وہ اس جواب پر اس نوکرانی کو تنخواہ، پوشاک، خوراک اور رہائیش مہیا کرئے گی یا ناراض ہو کر اسے گھر سے باہر نکال دے گی؟ کیا ہم مسلمانوں کا قرآن مجید کے ساتھ طرزِ عمل اس نوکرانی جیسا نہیں ہے؟ ہم قرآنی آیات پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ کیا اس صورت میں ہم اللہ تعالٰی کے انعامات کے مستحق قرار پا سکتے ہیں؟

قرآن مجید تو آیات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ فرمایا ہے “ كِتَابٌ اَنزَلْنَہُ اِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِہِ وَلِيَتَذَكَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ۔ (ص 29:38 ) “ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔“ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن العاص سے فرمایا کہ تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم نہ کرو۔ اپنے اس ارشاد کی علت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرمائی “ لا یفقھہ من یقرؤہ اقل من ثلاث (الجامع الصغیر)“ تین دنوں سے کم میں قرآن شریف پڑھنے والا اسے نہ سمجھ سکے گا۔“ ہم میں سے ہر شخص جس کلام کو سنتا یا پڑھتا ہے اسے سمجھنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس قاعدہ کا اطلاق قرآن حکیم پر کیوں نہیں کرتے؟ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ “ یہ معلوم ہے کہ ہر کلام کے معنی کو سمجھنا ہی اس کا مقصود ہوا کرتا ہے، محض اس کے الفاظ پڑھنا مطلوب نہیں ہوا کرتا۔ پس قرآن اس بات کا زیادہ حق دار ہے اور اس لائق ہے کہ اسے سمجھا جائے۔ “ (مقدمہ اصولِ ابن تیمیہ، ص 75)۔ الاستاذ حسن الھضیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ “ تلاوت میں انسان کی قرات کی مقدار کا اعتبار نہیں ہے۔ اصل اعتبار تو اس کے سمجھنے کی مقدار کا ہے۔ قرآن مجید، معانی سے مجرد ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر محض بطور برکت نازل نہیں ہوا بلکہ قرآن کی برکت اس پر عمل کرنے میں اور اسے زندگی کا دستور بنانے میں ہے۔ قرآن چلنے والوں کے لیے راہیں روشن کرتا ہے، لٰہذا ہمارا فرض ہے کہ جب ہم قرآن مجید پڑھیں تو تلاوت سے ہمارا مقصد ان معانی کو جاننا ہو، جو مراد ہیں۔ اس کے لیے قرآنی آیات میں تدبر کرنا ہو گا، انہیں سمجھنا ہو گا اور ان پر عمل کرنا ہو گا۔“ (مقالات الاسلامیین فی رمضان محمد موسٰی الشریف، ص 426)۔

قرآن کریم کی آیت افلا یتدبرون القران، ولو کان من عند غیر اللہ لوجدُوا فیہِ اختلافاً کثیراً (النساء 82:4)۔ “ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا۔“ کی تفسیر میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں۔ “ یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے تا کہ قرآن کے معنی معلوم ہو سکیں۔“ ( الجامع لا حکام القرآن للقرطبی۔ ج5، ص 187)۔

تدبر قرآن اگرچہ پڑھنے اور سننے والے پر واجب ہے مگر یہ بھی خود غایت نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کریم کے عظیم معجزاتی عمل کے لیے ایک ذریعہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن ایک عظیم معجزہ

تمام مسلمان یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کے لیے آنے والا ایک عظیم معجزہ ہے۔ مگر یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس معجزے میں وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے یہ تمام سابقہ معجزوں پر سبقت لے گیا ہے؟ بعض اہلِ علم کا خیال ہے کہ قرآن کا اعجاز اس کے اسلوبِ بیان اور بلاغت میں ہے اور قرآن نے اس کا چیلنج بھی دیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیونکہ قرآن ہر زمان و مکان کے لیے موزوں و مناسب ہے، اس لیے معجزہ ہے۔ قرآنِ کریم کے یہ سب وجوہِ اعجاز ہیں مگر قرآن کریم کا سب سے بڑا اعجاز اس کی انسانوں کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت ہے۔ ہر انسان کو بدل ڈالنا تا کہ وہ ایک نئی قسم کا انسان بن جائے۔ اللہ کی معرفت رکھنے والا، عبادت گزار، اپنے تمام امور و حالات میں اللہ کی اطاعت کرنے والا۔
 

شمشاد

لائبریرین
تبدیلی کی کیفیت

قرآن جو تبدیلی پیدا کرتا ہے اس کا آغاز دل میں قرآنی نور کے داخل ہونے سے ہوتا ہے۔ یہ نور دل میں گناہوں، غفلتوں اور خواہش کی پیروی سے جنم لینے والی تاریکی کو دور کرتا ہے۔ دل میں نور دھیرے دھیرے بڑھتا چلا جاتا ہے اور دل کے تمام احساسات میں روشنی اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یوں قرآن سمجھنے سے صاحبِ قرآن ایک نئی زندگی سے متعارف ہو جاتا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے “ او من کان میتا فاحیینہ و جعلنا لہ نورًا یمشیٰ بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمٰت لیس بخارج منھا (الانعام 122:6) “ ترجمہ “ کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے، اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو؟“ معلوم ہوا کہ قرآن ایک روح ہے جو دل میں جا کر اسے زندہ کر دیتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے “ و کذلک او حینا الیک روحا من امرنا، ما کنت تدری ما الکتٰبُ ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ من نشاہ من عبادنا، (الشوریٰ 52:42)۔ اور اسی طرح اے نبی! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔“ جونہی دل میں روح جاگزین ہو جاتی ہے تو دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتا ہے، خواہشات اور حبِ دنیا دل سے نکل جاتی ہے اور اس کا واضح اثر انسان کے طرزِ عمل پر پڑتا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا تھا کہ افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ، (الزمر 22:39) “ اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے۔۔۔۔“ میں شرح صدر سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ اذا دخل النور القلب انشرح والفتح، قلنا یا رسول اللہ وما علامۃ ذلک قال الا نابۃ الی دار الخلود، والتجا فی عن دار الغرور، والاستعداد للموت قبل نزولہ (الحاکم، البیہقی فی الزہد) “ جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو دل کِھل اور کُھل جاتا ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کی کیا علامت ہے؟ فرمایا ہمیشہ کے گھر کی طرف رغبت و رجوع اور دنیا سے بے رخی و بے توجہی اور موت آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری۔“
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن کی قوتِ تاثیر

ارشادِ الٰہی ہے “ ولو ان قُراناً سُیرت بہِ الجبالُ او قطِعت بہِ الارضُ او کُلِم بہِ الموتٰی، بل للہِ الامرُ جمِیعًا، (الرعد 31:13) “ اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“ یقیناً قرآن مجید کی تاثیر ہمارے تخیل سے بھی بہت زیادہ قوی ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس کی مثال یوں فرمائی بیان فرمائی ہے “ لو انزلنا ھٰذا القرآن علٰی جبل لرایتہُ خاشعا مُتصدِعا من خشیۃِ اللہِ، و تِلک الامثال نضربھا للناس لعلھُم یتفکرون، (الحشر 31:59) اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی حالت پر غور کریں۔“ علامہ قرطبی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں، “ اگر پہاڑوں کو عقل دی جاتی اور پھر اس قرآن کے ذریعے ان سے خطاب کیا جاتا تو پہاڑ قرآنی مواعظ کے سامنے جھک جاتے اور اپنی سختی و مضبوطی کے باوجود انہیں ہم خوفِ خدا سے پھٹا ہوا دیکھتے۔“ (الجامع لا حکام القرآن، ج18، ص30)۔

اس مثال سے واضح ہے کہ قرآن مجید اپنی قوتِ تاثیر کی وجہ سے ہر ایک پر حجت ہے، لٰہذا اس شخص کا دعویٰ غلط ہے جو کہتا ہے کہ وہ قرآن سمجھنے کا اہل نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآنی تبدیلی کا نمونہ

ہر وہ شخص جو قرآن کریم کا کتابِ ہدایت و شفا کے طور پر خیر مقدم کرتا ہے اور قرآن مجید کے ساتھ اس کا طرزِ عمل حقیقی ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں قرآن انقلاب پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ قرآنی تبدیلی کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی ہیں۔ وہ اسلام سے پہلے جاہلیت کی انتہا پر تھے مگر قرآن کی کٹھالی سے نکلے تو ایسے انسان تھے جن پر انسانیت آج تک فخر کرتی ہے۔

اس کتابِ عظیم میں انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کی قوت و تاثیر اور استعداد کس قدر ہے، اس کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے؟ کون یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک قوم جو صحرا میں رہتی ہو، غریب ہو، ننگے پاؤں ہو، لباس کا اہتمام نہ ہو، علم و دانش سے تہی ہو، اپنے زمانے کی سپر پاورز میں اس کا شمار نہ ہو، اس قوم کو بدلنے کے لیے قرآن آتا ہے تا کہ اس کی تشکیل جدید کرئے، اسے زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی تک پہنچا دے، اس قوم کے دلوں کو اللہ سے جوڑ دے تا کہ اس قوم کی غایت و مقصد صرف اللہ ہی بن جائے۔ قرآن مجید نے یہ تبدیلی چند برسوں میں کر دی اور ثابت کر دیا کہ اس بنیادی تبدیلی کے لیے ایک مختصر عرصہ کافی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہوا؟ دراصل قرآن کریم کے ذریعے تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ قوم اس تغیر کے لیے امادہ ہو۔ “ ان اللہ لا یُغیر ما بقومِ حتٰی یُغیِرُو ما بِانفُسِھِم (الرعد 11:13)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔“ چند ہی سالوں کے بعد اس صحرا کے قلب سے ایک نئی قوت ابھری جس نے روم و فارس کی عظیم و قدیم سلطنتوں کو مٹا کے رکھ دیا اور عزت و ذلت کے پیمانے بدل دیئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن مجید پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں قرآن کے ذریعے جو بنیادی تبدیلی آئی اس کا سبب ان کا قرآن سے تعلق تھا۔ وہ قرآن کی قدروقیمت سے آگاہ تھے اور اس کے مقصدِ نزول کو خوب سمجھے ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں ان کے لیے نمونہ و اسوہ ان کے استاد و معلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تو زندگی کا محور ہی قرآن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سورت کو ترتیل سے پڑھا کرتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات اپنی نماز تہجد میں اس ایک آیت کو ہی دہراتے رہے : اِن تُعذِبُھم فاِنھم عِبادک، واِن تغفرِ لھم فاِنک انت العزیز الحکیم (المائدۃ 118:5)۔ “ اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی قوتِ تاثیر سے کس قدر اثر لیتے تھے، اس کا کچھ اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہو سکتا ہے “ مجھے سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا۔“ (الجامع الصغیر)۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پر عمل کرنے میں مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کے ترجمان تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بجا فرمایا تھا “ کان خلقہ القرآن۔“ قرآن آپ کا خلق و کردار تھا۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ کتاب کی شکل میں قرآن پڑھنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بھی مطالعہ کریں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ متحرک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، افعال و اقوال سب قرآن کی عملی شکل ہیں۔ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا تھا، اس لیے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس پر عمل کرتے تھے۔ قوانین قرآنی کی پیروی سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ مجبوراً نہیں بلکہ بطیبِ خاطر کرتے تھے۔ قرآن کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مقدس میں پیوست تھی۔ قرآن کی پیروی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑکتا تھا۔ اتباع قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کا مرکز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی حکم کی تعمیل کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے تزکیہ نفس اور ہمت عالیہ کو خوب کام میں لاتے۔ آئیے یہاں پر ہم چند مثالیں دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس شان کے ساتھ قرآن کے ہر حکم کی تعمیل فرمایا کرتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگون سے الگ تھلگ رہ رہے تھے اور غارِ حرا میں جا کر تخلیہ و تفکر کے دن گزار رہے تھے۔ جب وحی سے سرفراز ہوئے اور قریبی رشتہ داروں اور پھر تمام انسانوں کو ڈرانے اور ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا حکم ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشہ نشینی اور عزلت کی زندگی فوراً چھوڑ دی اور اپنے آپ کو دعوت الی اللہ کے لیے وقف کر دیا۔ مکہ کی برتر قوت اور قبائل کی سخت گیری کی قطعاً پروا نہ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی کو دعوت کا عملِ مسلسل بنا دیا۔ نہ اکتائے، نہ تھکے اور آخری سانس تک اس میں مصروف رہے۔

قرآن شریف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر و ثبات کو حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کافروں کی مخالفتوں، طائف میں جاہلوں کے تشدد اور مدینہ میں یہودیوں اور منافقوں کی سازشوں کے سامنے صبر س ثبات کا ایک پہاڑ معلوم ہوتے تھے۔

مدینہ میں جہاد کا حکم ملا تو مدنی زندگی جہاد میں ڈھل گئی۔ غزوات، سرایا، جنگ و صلح، جنگی مہمیں، لشکر کشی اور فتوحات یہ سب کیا تھا؟ قرآنی حکم کی تعمیل ہی تو تھی۔

قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان حالوں کی مدد کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے لے کر بھی حاجت مندوں کی مدد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقر و فاقہ کا اندیشہ نہ کرتے تھے، بند و تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخاوت فرمایا کرتے تھے۔

قرآن حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عہد کی پابندی کا حکم دیا تو کیفیت یہ تھی دشمن تک بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر یقین کرتے تھے۔

قرآن نے عفو و درگزر کے لیے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سخت ذاتی دشمنوں تک کو معاف کر دیا اور کبھی ذاتی انتقام نہیں لیا۔

قرآن نے رحم کرنے کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں پر اتنے مہربان تھے جتنی ایک ماں اپنے چھوٹے بچے پر، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔

قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عدل و انصاف سے کام لینے کے لیے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل پر حیرت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ہوا کرتی تھی۔

قرآن اگر کسی مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعے اور معاملے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ واقعہ عین الیقین سے زیادہ لائق اعتماد ٹھہرتا۔

قرآن مجید نے انبیائے کرام کے واقعات بیان کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا : “ اُولئک الذین ھدی اللہ فبھدٰھُم اقتدِہ، (الانعام 90:6) - اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستے پر تم چلو۔“ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انبیا کی ان تمام صفات کو اپنا لیا جنکی قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے تحسین فرمائی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اپنی دعوت پر استقامت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی محبت اور عزم، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اخلاص اور صلابت، حضرت عیسٰی علیہ السلام کا زہد اور نرم دلی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اپنے رب کے حکم کے سامنے اطاعت و تسلیم، حضرت داؤد علیہ السلام کی اطاعت و حمد الٰہی، حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت و دانائی اور شکر، حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت و احسان اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر۔

سب انبیائے کرام کو توحید پر کاربند رہنے اور عقیدہ توحید کی تبلیغ کا حکم ملا تھا مگر جس شان کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں توحید کا ڈنکا بجایا، اپنی امت کو توحید کی اہمیت سے آگاہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی، حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے ظاہری و باطنی پہلو سے اپنی اُمت کو خبردار کیا اور شرک جلی و خفی کا ہر دروازہ بند کر دیا۔

قرآن مجید نے حکم دیا : “ بلِ اللہ فاعبدو کن من الشٰکرین (الزمر 66:39) - لٰہذا، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت و شکر میں رات دن گزار دیتے۔ رات کو آرام کرنے کے بعد جب بیدار ہوتے تو حمد و شکر کے کلمات زبان سے ادا فرماتے اور پھر پورا دن ہر ہر موقعہ پر حمد و شکر بجا لاتے۔کھانا کھانے کے بعد، دودھ اور پانی پینے کے بعد، لباس پہننے کے بعد، آئینہ دیکھنے کے بعد، پہلی رات کا چاند دیکھنے کے بعد، وضو کرنے کے بعد، وضو کرنے کے دوران، قضائے حاجت کے لیے جانے سے پہلے اور اس کے بعد، کسی کی بیمار پرسی کرتے وقت، نیا پھل کھاتے ہوئے، غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کو کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حمد و شکر بجا نہ لاتے۔ رات کو سوتے تو بہت سی دعائیں اور کلمات حمد و شکر ادا کر کے سوتے۔

قرآن مجید نے حکم دیا : “ و کلوا واشربو ولا تسرِ فوا (الاعراف 31:7) - اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراف سے بچنے کی تلقین فرمائی، فرمایا “ ہم ایسے لوگ ہیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھاتے نہیں اور ابھی بھوک باقی ہوتی ہے کہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے فرمایا کرتے تھے، “ پانی کے استعمال میں بھی حد سے تجاوز ہوتا ہے۔ اس لیے پانی میں بھی اسراف نہ کرو، اگرچہ تم بہتے دریا پر ہی ہو۔“

قرآن ہم کو پانی کی نعمت کے بارے میں کہتا ہے، “ لو نشاءُ فعلناہ اُجاجا فلو لا تشکرون (الواقعۃ 70:56) ۔ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے “ الحمد للہ الذی جعلہ عذبا فراتا برحمتہ ولو یشاء لجعلہ اجاجاً بذنوبنا“ “اللہ کے لیے حمد و شکر ہے جس نے اپنی رحمت سے پانی کو شیریں اور بہت میٹھا بنا دیا اور اگر وہ چاہتا تو ہمارے (انسانوں کے) گناہوں کی وجہ سے اسے سخت کھاری و تلخ بنا دیتا۔“

قرآن کہتا ہے : “فسبح بحمدِ ربک و کُن من السٰجدین (الحجر 98:15) اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ۔“ نیر ایک جگہ فرمایا : “ اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور ان کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔“ اس قرآنی حکم کی تعمیل میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک ہر وقت ذکرِ الٰہی سے تر رہتی تھی، سورج نکلنے سے پہلے، سورج نکلنے کے بعد، اذان کے ساتھ ساتھ، اذان کے بعد، نماز سے پہلے، نماز میں اور نماز کے بعد، رات اور دن کے ہر مناسب موقعہ پر، گویا کہ پورا دن، رات کا بڑا حصہ تکبیر، تسبیح، تحمید، تہلیل، استغفار اور دعا میں گزرتا تھا۔

اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا : یٰایھا المزمل۔ قُم الیل اِلا قلیلا۔ نصفہ اوِانقص منہ قلیلا۔ او زد علیہ و رتل القرآن ترتیلا۔ (المزمل 1:73-4) - اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس کچھ زیادہ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔“ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شب زندہ دار رہتے، نماز میں کھڑے ہو کر اپنے پروردگار سے سرگوشی کرتے رہتے، حتٰی کہ اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سوج جاتے اور آرام کے مشورے پر فرمایا کرتے ؛ “ افلا اکون عبدًا شکورا۔ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“

ہم ان چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی قرآن کی اتباع تھی۔ یہ تھے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہمارے لیے مثال اور نمونہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن عمل، دعوت، جہاد، فیصلے کرنے، بیان، خطاب، ذکر، عبادت اور رہنمائی میں بسر ہوتا۔ رات تہجد، دُعا، مناجات، اپنے خالق و مالک سے سرگوشی میں گزر جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنی پوری زندگی کے ماہ و سال گزار دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل اور طریق کار میں تبدیلی نہ آئی۔ یہ تھے ہمارے آقا، ہمارے رسول، ہمارے رہنما، ہمارے قائد، جن پر قرآن اترتا تھا۔

۔۔۔ سب سے بہتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سمجھا۔
۔۔۔ سب سے بہتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی قرآن میں تدبر کیا۔
۔۔۔ سب سے بہتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو واضح کیا۔
۔۔۔ سب سے بڑھ کر قرآن کی تعلیم دینے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔
۔۔۔ سب سے بڑھ کر قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔

اس لیے قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کے لیے اسوہء حسنہ ٹھہرایا اور قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا خوب فرمایا :

“ اِن اللہ و ملٰئکتہُ یُصلُون علی النبی، یٰایُھا الذین اٰمنُوا صلُوا علیہِ و سلِمُوا تسلِیما۔(الاحزاب 56:33) - اللہ اور اس کے ملائکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔“
 

شمشاد

لائبریرین
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا قرآن سے تعلق

قرآن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو قرآن سے کس قدر شیفتگی تھی اور وہ قرآن سے کس حد تک متاثر تھے، اس کا اندازہ کچھ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ غزوہ ذات الرقاع میں عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دونوں کی باری باری پہرہ دینے کی ڈیوٹی تھی تا کہ رات کے وقت کوئی دشمن مسلمانوں کے لشکر پر حملہ نہ کرئے۔ حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ رات کے پہلے حصے میں سو جائیں، میں پہرہ دوں گا۔ جب حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نے پہرہ دیتے ہوئے دیکھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں تو انہوں نے نماز پڑھنی شروع کر دی، اتنے میں ایک مشرک آیا اور اس نے تیر مارا۔ حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نماز کے دوران ہی تیر کھینچ کر نکال دیا اور نماز میں مصروف رہے، مشرک نے دوسرا تیر مارا، حضرت عباد بن بشیر رضی اللہ عنہ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے، انہوں نے کھینچ کر تیر نکال دیا، مشرک نے تیسرا تیر مارا تو انہوں نے تیر نکالا اور تلاوت ختم کی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جگایا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ نے مجھے پہلا تیر لگنے پر ہی جگا دیا ہوتا، فرمایا میں نماز میں ایک سورت پڑھ رہا تھا، اس لیے میں نے سورت مکمل کیئے بغیر نماز ختم کرنا مناسب نہ جانا۔ مگر جب دشمن نے بار بار تیر اندازی کی تو میں نے نماز ختم کر کے آپ کو جگا دیا۔ اللہ کی قسم، اگر مجھے اندیشہ نہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جس جگہ پہرہ دینے کے لیے متعین فرمایا ہے، اسے خطرہ لاحق ہے تو میں سورت پڑھتا ہی رہتا، یا یہ سورت مکمل ہو جاتی یا اسی میں میری جان چلی جاتی۔ (السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام)۔

قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی میں پوشیدہ ہے۔ قرآن اپنے پڑھنے والوں میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے، ان کی عقل کی تشکیل نو کرتا ہے، انکے قلوب میں نئی روح پھونک دیتا ہے، ان کے نفس کی ایسی تربیت کر دیتا ہے کہ قرآن کا مطالعہ کرنے والے اللہ کی صفات کے عالم، اخلاص و بصیرت سے اس کی عبادت کرنے والے اور اللہ تعالٰی کے احکام و قوانین کی پابندی کرنے والے ہو جاتے ہیں۔ انسانوں میں قرآن کریم کے ذریعے ہونے والی یہ تبدیلی صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب اس کا تدبر سے مطالعہ کیا جائے اور ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے۔ قرآن کے الفاظ کو محض زبان سے پڑھ لینے سے نہ تبدیلی آتی ہے نہ یہ فوائد و ثمرات ہوتے ہیں۔ قرآن پڑھنے والے ہزار بار بھی کیوں نہ ختم کر لیں، محض سرسری اور فرفر تیز پڑھنے سے کبھی تبدیلی نہیں آتی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین قرآن شریف کو جلد جلد پڑھ ڈالنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ ان میں سے ایک رات میں دو یا تین بار قرآن پڑھ ڈالتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، ان لوگوں نے پڑھا مگر نہ پڑھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات قیام فرماتے تھے اور اس میں البقرۃ، آل عمران اور النساء سورتیں پڑھتے تھے۔ اگر اس میں خوش خبری ہوتی تو اللہ تعالٰی سے اسے طلب کرتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی آیت پڑھتے جس میں ڈرایا گیا ہے تو اللہ سے اس کی پناہ مانگتے۔ (ابن المبارک نے یہ حدیث الزہد میں بیان کی ہے۔ حدیث نمبر 1196، ص 421)۔

حضرت ابو جمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : میں بہت تیز پڑھنے والا ہوں۔ میں تین دن میں قرآن شریف پڑھ لیتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے تو ایک رات میں سورۃ البقرہ پڑھنا، اس میں تدبر کرنا اور اسے ترتیل سے پڑھنا زیادہ پسند ہے اس طرح پڑھنے سے جیسے تم بتا رہے ہو۔ (فضائل القرآن لابی عبید ص 157)۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ

ہمارے پاس بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تھا۔ قرآن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ایک منفرد انسانی گروہ میں بدل دیا۔ کیا قرآن اب اس طرح کی تبدیلی لانے سے قاصر ہے؟ کیا قرآن کی کارکردگی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں، تو پھر بات کیا ہے؟ قرآن مجید تو ایک دائمی معجزہ ہے۔ یقیناً نقص ہمارے اندر ہے، کوتاہی ہماری ہے۔ قرآن ہر گھر میں موجود ہے۔ ریڈیو سٹیشن اور ٹیلی ویژن سنٹر مختلف مسلم ممالک میں اپنے چینل سے رات دن قرآن کریم نشر کر رہے ہیں۔ پوری اُمتِ اسلامیہ میں اس وقت لاکھوں قرآن مجید کے حفاظ موجود ہیں، اتنے حفاظ تو عہدِ نبوی اور عہدِ خلفائے راشدین میں نہ تھے۔ اس سب کے باوجود، اس قدر اہتمام کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی عمل میں نہیں آ رہی؟ اس کی وجہ کیا ہے؟

واضح بات ہے کہ ہم ان شرطوں کو پورا نہیں کر رہے جو قرآن کے معجزانہ اثرات کے ظہور کے لیے ضروری ہیں اور جن کی تکمیل سے قرآن تبدیلی کا عمل سر انجام دیتا ہے۔ ہماری ساری توجہ قرآن کے الفاظ پر ہے۔ “ تعلیم قرآن “ کا مطلب ہم نے صرف یہ سمجھا ہے کہ قرآن کے الفاظ سیکھے جائیں اور قرآن کو پڑھنے کی کیفیت سیکھ لی جائے، اس کے الفاظ کو صحیح مخارج سے ادا کرنے کا طریقہ ہمیں آتا ہو، اور ان حروف کی صفات کو صوتی لحاظ سے درست ادا کیا جائے۔ ہم نے قرآن کے معانی تک رسائی پر توجہ دی ہے نہ اس میں کچھ زیادہ دلچسپی لی ہے اور عمل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

قرآن کے ساتھ ہمارے اس ظاہری شکل تک محدود طرزِ عمل نے ہمیں قرآن کے حقیقی منافع پانے سے روک دیا ہے۔ کتابِ زندہ کے ساتھ ہمارے اس عجیب و غریب رویئے کا نتیجہ ہمارے لیے نہایت مہلک ہے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز کہ وہ نفوس میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے، ہماری بے عملی و کاہلی کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو رہا۔ قول و فعل میں تضاد بڑھ چکا ہے۔ ہماری دلچسپیاں بدل چکی ہیں۔ دنیا سے تعلق اور اس کی محبت میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ہماری حالت وہی ہو چکی ہے جس کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ “ قریب ہے کہ قومیں تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کر ایسے بلائیں جیسے کھانا کھانے والے دسترخوان پر ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہیں۔ ایک شخص نے عرض کیا؛ کیا ہم اس وقت تھوڑی تعداد میں ہوں گے؟ فرمایا، نہیں بلکہ اس وقت تم لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہو گے۔ مگر سیلاب کے جھاگ کی مانند ہو گے۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمارا دبدبہ ختم کر دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا، یا رسول اللہ وہن کیا چیز ہے؟ فرمایا ؛ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“ (السلسلۃ الصحیحۃ)

اگر ہم مسلمان اپنے اندر حقیقی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیے قرآن کی طرف رجوع کرنے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہیں۔ عراق اور افغانستان کے موجودہ حالات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ کیا عراق پر دھاوا بولنے کے لیے امریکہ نے اپنے حامیوں کو اسی طرح نہیں بلایا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی؟
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن سے استفادے کا درست طریقہ

قرآن مجید کا مطالعہ یہ سمجھ کر کرنا چاہیے کہ یہ پڑھنے والے سے براہ راست خطاب ہے اور انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کی کنجی یہی کتاب ہے۔ انسان کی حالت خواہ کیسی ہی خراب کیوں نہ ہو، یہ کتاب اسے بدل سکتی ہے۔ قرآن پڑھنے والا اگر یہ شعور رکھتا ہے تو اسے قرآن مجید سے استفادے کا طریقہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہی احساس اس میں تبدیلی لانے کے لیے کافی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہمارا قرآن خوانی کا طریقہ صدیوں سے ایسا چلا آ رہا ہے کہ ہم قرآن سے صحیح معنوں میں استفادے سے محروم ہیں، گویا صدیوں سے ہمارے مسلسل غلط طرزِ عمل نے ہمارے اور قرآن شریف کے نفع پہنچانے کے مابین ایک نفسیاتی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔

اگر ہم قرآن شریف سے واقعی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے :
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top