قرآن فہمی

صرف علی

محفلین
قرآن فہمی​


یہ شھید مرتضی مطھری کی تقریروں کا ایک چھوٹا سا گوشہ ہے جس میں انھوں نے قرآن کے حوالے سے تقریر کی ہیں انشاء اللہ آپ لوگوں کو پسند آئے گا ۔
 

صرف علی

محفلین
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ
پہلی تقریر​
سُوْرة اَنْزَلْنَا ھَا وَفَرَضْنَا ھَا وَاَنْزَلْنَا فِیْھَآ اٰیَاتٍمبِیّنَاتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔اَلزَّانِیَةُ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَأفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنتُمْ تُوٴْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَة مِّنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اَلزَّانِیْ لاَیَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَةً اَوْمُشْرِکَةً وَّالزَّانِیَةُ لاَ یَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکُ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۱ تا ۳)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے اور تم بیدار و آگاہ ہو جاؤ۔ اس سورت کے آغاز میں یہ جو فرمایا جا رہا ہے: ”یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے“ تو قرآن مجید میں فقط یہی ایک سورت ہے جس کا آغاز اس آیت سے ہوا ہے جبکہ وسری بہت سی سورتوں کا آغاز اس آیت ”ہم نے کتاب نازل کی“ سے ہوا ہے۔ یعنی ان آیات میں تمام قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت میں بیان کردہ مفاہیم و مطالب کی جانب خدا کی خصوصی توجہ ہے۔ آپ سورت کے معنی کو جانتے ہیں۔ قرآنی آیات کا وہ مجموعہ جوایک ”بسم اللہ“ سے شروع ہو کر دوسری ”بسم اللہ“ سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، اسے سورت کہتے ہیں۔ قرآن کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جن میں فصل، باب او رحصے نہیں ہوتے۔ قرآن کو مختلف سورتوں کے اعتبار سے ہی تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سورت کا آغاز ایک ”بسم اللہ“ سے ہوتا ہے اور بعد والے مجموعہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ پہلی صورت ختم ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ لفظ ”سورة“ اس لفظ سے مشتق ہوا ہے جس سے لفظ ”سور“ مشتق ہوا ہے۔ شہروں کے گرد بنائی جانے والی فصیل جو شہروں کو گھیرے رہتی، وہ ایک دیوار کی صورت میں ہوتی اور پورے شہر یا قصبہ یا دیہات پر احاطہ کئے ہوئے ہوتی تھی۔ اسے عربی زبان میں ”سور“ کہا جاتا تھا۔ ”سورہ البلد“ ایک بلند دیوار ہوتی جسے کسی شہر کے گردبناتے تھے۔ گویا ہر سورت ایک حصار کے اندر واقع ہے۔ اسی لئے اسے سورہ کہا جاتا ہے۔ پیغمبرِ اکرم نے بنفس نفیس قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ کے بعد دوسرے مسلمانوں نے قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہو، بلکہ شروع سے ہی قرآن سورتوں کی صورت میں نازل ہوا۔
اس سورت کی پہلی آیت خصوصاً سورة انزلنا ھا“ اور ا س کے بعد کے الفاظ ”فرضناھا“ اس مطلب کو ادا کر رہے ہیں کہ عفت و پاکدامنی سے متعلق مسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی دورِ حاضر کے انسان کی سوچ کے بالکل برعکس جو جنسی تعلقات کو سہل و آسان بنانے اور انہیں کم اہمیت شمار کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اس نے غلط طور پر اس کا نام آزادی رکھا ہوا ہے اور وہ اپنی اصطلاح میں ”جنسی آزادی“ کی جانب گامزن ہے۔ قرآن پاکدامنی کے حریموں، بے عفتی کی سزاؤں کے عنوان سے جو مسائل بیان کرتا ہے اور جو کچھ وہ ایسی پاکدامن عورتوں کے دامن کو داغدار کرنے کی سزاؤں کے عنوان سے بیان کرتا ہے جن پر ناروا تہمتیں لگائی گئی ہوں اور جو احکام وہ شادی کرنے کی ترغیب دینے کے باب میں بیان کرتا ہے، الغرض پاکدامنی سے مربوط مسائل کے بارے میں اسلام جو کچھ بیان کرتا ہے تو وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مسائل بہت ضروری ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ عصرِ حاضر کی آفتوں میں سے ایک آفت یہی ہے کہ پاکدامنی کے اصول اور جنسی امور میں تقویٰ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔
”سُوْرَة اَنْزَلْنَا ھَا“ یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس میں بیان شدہ احکام کی مراعات کو واجب قرار دیا ہے، یعنی ہم ان کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھتے۔ ”وَاَنْزَلْنَا فِیھَآ اٰیَاتٍمبیِّنَاتٍ“ اور ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں۔ اس آیت میں جو لفظ ”آیات“ آیا ہے تو ممکن ہے اس سے سورہ نور کی تمام آیات مراد ہوں، یا جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں تحریر کیا ہے، ان سے مراد وہ آیات ہیں جو اس سورت کے وسط میں واقع ہیں اور حقیقت میں یہ آیات اس سورہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیات جنسی آداب و اخلاق کے متعلق ہیں جبکہ وہ آیات اصولِ عقائد کے متعلق ہیں۔ ہم ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبت کو بعد میں بیان کریں گے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے کہ ہم نے اس سورت کونازل کیا ہے اور اس میں بیان کردہ احکام جو کہ جنسی اخلاق و آداب کے متعلق ہیں، لازم قرار دیئے ہیں۔
انسان کی آگاہی و بیداری کی خاطر ہم نے اس میں واضح آیات نازل کی ہیں، ”لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ“ تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے۔ تم آگاہی حاصل کرو اور غفلت سے نکل جاؤ۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ تفکر اور تذکر کے مابین فرق ہے۔ تفکراس جگہ ہوتا ہے جہاں انسان کسی مسئلے کو بالکل ہی نہ جانتا ہو، اسے سرے سے ہی نہ جانتا ہو او روہ مسئلہ اسے سمجھا دیا جائے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر تفکر کی بات کی ہے۔ تذکر ان مسائل میں ہے جن مسائل کے صحیح ہونے کو انسان کی فطرت جانتی ہو لیکن اسے یاد اور توجہ دلانے کی ضرورت ہو۔ قرآن کو خصوصاً ”تذکر“ کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔ شاید اس سے انسان کا احترام مقصود ہے۔ ہم تمہیں ان مسائل کی جانب متوجہ کرتے ہیں، یعنی یہ ایسے مسائل ہیں کہ اگر آپ خود بھی غور کریں تو انہیں سمجھ لیں گے۔ لیکن ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں اور ان کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
بعد والی آیت فحشاء یعنی زنا کی سزا سے متعلق ہے۔ خدا کا فرمان ہے۔
اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَارَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّٓہِ اِنْ کُنْتُمْ تُوٴْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفة مِّنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔“ (سُورہٴ نُور، آیت ۲)
ان آیات میں تین مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ جو بھی زنا کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت، اسے سزا ملے گی اور اس کی سزا قرآن نے ”ایک سو کوڑے“ معین کر دی ہے۔ سو کوڑے زانی مرد اور سو کوڑے زنا کرنے والی عورت کومارے جانے چاہئیں۔
دوم یہ کہ مومنین کو آگاہ کر رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سزا کے وقت تم پر احساسات غالب آ جایں۔ مباوا تمہیں ان پر رحم آئے اور تم کہو کہ سو کوڑے لگنے سے انہیں تکلیف پہنچے گی، لہٰذا انہیں پوری سزا نہ دی جائے۔ کیونکہ یہ ترس کھانے کا مقام نہیں ہے قرآن کہتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر جذبات غالب آ جائیں اور تم اللہ کی اس حد کو جاری کرنے میں سستی سے کام لینے لگو۔ عصرِ حاضر کی اصطلاح کے مطابق تم یہ نہ سمجھو کہ یہ ایک ”غیرانسانی“ کام ہے۔ نہیں، بلکہ یہ ایک ”انسانی“ عمل ہے۔
سوم یہ کہ سزا مخفیانہ طور پر نہ دی جائے کیونکہ اس سزا کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔ مومنین کا ایک گروہ سزا کے وقت لازمی طور پر حاضر و ناظر ہونا چاہئے جو اسے دیکھے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس حکم کو نافذ کیا جائے تو اسے اس طور پر نافذ کرنا چاہئے کہ تمام لوگوں کو پہت چل جائے کہ فلاں عورت یا فلاں مرد پر زنا کی حد جاری ہوئی ہے۔ اس حکم کو مخفی طور پر نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر نافذ کرنا چاہئے۔
اب ہم پہلے مطلب کے متعلق چند باتیں بیان کرتے ہیں جو زنا کی سزا کے حکم کے بارے میں ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں اس موضوع کے متعلق بحث کی گئی ہے تو آپ دیکھیں گے گے کہ وہ لوگ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ زنا کی سزا دینے کی وجہ…ان کی اصطلاح میں…”مرد کی حکمرانی“ ہے۔ جن زمانوں میں مرد کو خاندان کا حاکم سمجھا جاتا رہا، یعنی مرد گھر کا مالک ہوتا جبکہ عورت کو کوئی حق حاصل نہ ہوتا۔ وہ مرد کے پاس بہرہ برداری کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی۔ مرد اپنے آپ کو بیوی کا مالک جانتا تھا۔ جب کوئی عورت زنا کرتی تو اس کا شوہر یہ سمجھتا کہ اس نے ایک ایسی چیز دوسرے مرد کی تحویل میں دی ہے جو اس کا حق تھا۔ پس اس بناء پر زنا کی سزا برقرار ہوئی۔ واضح سی بات ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ اسلام میں زنا کی سزا عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے، مرد کو بھی اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے اور عورت کو بھی۔ ”اَلزَّانِیةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۔“ صراحت کے ساتھ یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ زناکار مرد اور زنارکار عورت دونوں کو سزا ملنی چاہئے۔ اگر مرد کو زنا سے نہ روکا گیا ہوتا اور فقط عورت کو روکا گیا ہوتا۔ شاید دنیا کے بعض علاقوں میں ایسے قوانین موجود تھے جن کی رو سے فقط عورت کو زنا کرنے کا حق حاصل نہیں تھا…تو اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ ”مرد کی حکمرانی“ ہے۔ لیکن اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو زنا سے منع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی نفسانی خواہشات کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتا ہے۔ شادی نام ہے بعض فرائض کے ادائیگی کے پابند ہونے اور ذمہ داریوں کو سنبھالنے ک ۔ عورت بھی اپنی جنسی خواہش کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتی ہے، البتہ بعض فرائض کی ادائیگی کی پابندی اور بعض ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ۔ پس مرد کو شادی کے بغیر اپنی جنسی جبلت کو پورا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اور عورت کو بھی ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ بنا بریں زنا کے حرام ہونے کا مسئلہ عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عورت اور مرد دونوں پر یکساں طور پر حرام ہے۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ کہ آج کے یورپی معاشرے میں عورت اور مرد کو فقط اس وقت زنا سے منع کیا گیا ہے جب وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق ”محصن“ یا محصنہ“ ہوں۔ یعنی شوہر والی عورت اور شادی شدہ مرد کو زنا کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جس مرد کی بیوی نہ ہو یا جس عورت کا شوہر نہ ہو ان کے لئے زنا کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ جس مرد کی بیوی نہ ہو فطرتاً اسے شوہر والی عورت کے ساتھ زنا کرنے کا حق نہیں پہنچتا اور جس عورت کا شوہر نہ ہو اسے شادی شدہ مرد سے زنا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن جس عورت کا شوہر نہ ہو اور جس مرد کی بیوی نہ ہو ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس کے کیوں قائل ہیں؟ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شادی شدہ مرد کے لئے زنا حرام ہونے کا فلسفہ یہ ہے کہ اس نے اس فعل کے ذریعہ اپنی بیوی سے خیانت کی ہے اور اس کی حق تلفی کی ہے۔
اس لئے جس مرد کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اس پر کسی عورت کا حق نہیں۔ اسی طرح جس عورت کا شوہر نہ ہو اس پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ اس لئے ان کے لئے زنا کرنا جائز ہے۔
لیکن اسلام نے اس حوالے سے دو باتیں کی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی عورت اور کسی مرد کو نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کا حق حاصل نہیں ہے، چاہے مرد بیوی والا ہو یا نہ ہو، چاہے عورت شوہر والی ہو یا نہ ہو۔ اسلام خاندان کی اہمیت کا اس حد تک قائل ہے کہ وہ نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ فقط گھریلو زندگی کی صورت میں ہی جنسی خواہش کی تسکین کی اجازت دیتا ہے اور گھریلو زندگی تشکیل دیئے بغیر کسی صورت میں بھی عورت و مرد کو ایک دوسرے سے لذت اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
دوسری بات شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مرد کی سزا سے متعلق ہے۔ اسلام اس مقام پر دو سزاؤں کا قائل ہے۔ اس کی سزا زیادہ شدید ہے۔ ایک کلی سزا یعنی سو کوڑے اور دوسری رجم یعنی سنگساری ہے۔
خاندان کی اساس اور خاندانی ماحول کو مستحکم کرنے والے عوامل میں سے ایک یہی مسئلہ ہے اور موجودہ یورپی دنیا میں گھریلو زندگی کی اساس متزلزل و کمزور ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں ہم اپنے معاشرے میں یورپین باشندوں کی جتنی زیادہ پیروی کریں گے اسی قدر ہماری گھریلو زندگی متزلزل ہو گی۔ ہمارا معاشرہ جب تک صحیح معنوں میں اسلام پر عمل کرتا رہا یعنی شادی سے قبل واقعاً لڑکوں کے لڑکی یا عورت کے ساتھ تعلقات نہیں ہوا کرتے تھے۔ عصر حاضر کے یورپین لوگوں کی اصطلاح میں جب تک لڑکوں کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہوا کرتی تھی اور لڑکیوں کے بوائے فرینڈز نہیں ہوا کرتے تھے، اس وقت شادی لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک آرزو شمار ہوتی تھی۔ لڑکا جب پندرہ سال کا ہو جاتا ہے تو اسے شادی کرنے کا فطری احساس ہوتا اور لڑکی کے دل میں بھی شادی کی آرزو جنم لیتی۔ لڑکے کا شادی کی آرزو کرنا ایک فطری بات تھی کیونکہ وہ عورت سے لذت حاصل کرنے کی پابندی سے شادی کے ذریعہ ہی نجات حاصل کرکے عورت سے لذت حاصل کرنے کی آزادی پاتا تھا۔ اس وقت ”شبِ زفاف کم از صبح پادشاہی بنود“ یعنی سہاگ رات پادشاہت کی صبح سے کمتر نہیں تھی کیونکہ نفسیاتی طور پر لڑکے کو اس لذت سے ہمکنار کرنے والی سب سے پہلی عورت اس کی بیوی ہوتی تھی اور لڑکی کو بھی اس کا شوہر ہی پابندی سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکی اور لڑکا جنہوں نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ ہوتا اور دیکھنے کے بغیر آپس میں شادی کر لیتے وہ آپس میں بہت زیادہ محبت کرنے لگتے۔
(میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو نہ دیکھنا کوئی درست بات ہے۔ نہیں۔ اسلام نے دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے نہ بھی دیکھا ہوتا اور ان کو ایک دوسرے کا وصال نصیب ہوا تب بھی وہ مرتے دم تک آپس میں محبت کرتے تھے)۔
لیکن یورپین تہذیب لڑکے کو اجازت دیتی ہے کہ جب تک کنوارا ہے تب تک وہ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور لڑکی بھی جب تک کنواری ہے تب تک اسے جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکا شادی کے بعد اپنے آپ کو پابند محسوس کرتا ہے اور لڑکی بھی محسوس کرتی ہے کہ وہ شادی کے بعد آزادی سے محروم ہو چکی ہے۔ شادی سے قبل اسے آزادی تھی۔ وہ جس سے چاہتی تعلقات قائم کر سکتی تھی۔ اب شادی کے بعد وہ فقط ایک مرد تک محدود ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکا شادی کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے: ”میں نے آج سے اپنا ایک نگہبان مقرر کر لیا ہے“۔ لڑکی کا شوہر اس کا چوکیدار بن جاتا ہے یعنی وہ آزادی سے پابندی کی جانب آتے ہیں۔
مغربی تہذیب میں آزاد کو پابند بنانے کا نام شادی ہے۔ شادی نام ہے آزادی سے پابندی کی جانب آنے کا۔ جبکہ اسلامی تہذیب میں شادی نام ہے پابندی سے آزادی کی جانب آنے کا۔ جس شادی کی بنیاد نفسیاتی طور پر پابندی سے نجات پا کر آزادی سے ہمکنار ہونے پر ہو وہ اپنے دامن میں استحکام لئے ہوتی ہے اور جس کی اساس آزادی سے پابندی کی جانب آنے پر استوار ہو اس میں استحکام نہیں ہوتا۔ یعنی جلدی ہی اس شادی کی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جس لڑکے نے بیسیوں بلکہ سینکڑوں لڑکیوں کا تجربہ کیا ہو اور جس لڑکیوں نے بیسیوں اور سینکڑوں لڑکوں کا تجربہ کیا ہو تو کیا وہ لڑکی یا لڑکا کسی ایک کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے؟ کیا انہیں پابند کیا جاسکتا ہے؟ اس لئے اسلام میں زنا حرام ہونے کی وجہ فقط یہی نہیں کہ ہے کہ یہ صرف مرد کا حق ہے اور وہ فقط عورت کا حق ہے کہ آپ کہیں کہ غیرشادی شدہ مرد پر ابھی تک کسی عورت کا حق نہیں ہے اور کنواری لڑکی پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا جو آدمی مرتے دم تک شادی نہیں کرنا چاہتا وہ مطلق العنان ہو اور جو عورت عمر بھر شادی نہیں کرنا چاہتی وہ بھی مطلق العنان ہو۔ اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یا تو سرے سے ہی لذت حاصل کرنے کا خیال دل سے نکال دو یا شادی کی ذمہ داریاں قبول کرو۔ اس لئے اسلام زنا کی سزا پر بہت زور دیتا ہے۔ اور جس زنا میں فقط زنا کا پہلو ہو اور اس کے علاوہ اس میں بیوی یا شوہر کے حقوق پائمال نہ ہوتے ہوں تو ایسا زنا کرنے پر بھی کوڑوں کی سزا دیتا ہے۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جو طبعاً جنسی خواہش کے دباؤ کا شکار بھی نہیں ہوتے اور فقط ہوسبازی کی خاطر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں، اسلام ان کو بھی سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلام کس حد تک ان مسائل کو اہمیت دیتا ہے۔ یورپین لوگ پہلے تو یہ کہتے تھے کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے علاوہ دوسروں کے لئے زنا پر پابندی نہیں ہے۔ مگر ”رسل“ کا کہنا ہے کہ اگر زنا زخم کا موجب ہو تو اس صورت میں اسے جرم شمار کیا جائے گا۔ اگر زخم کا باعث نہ ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی تدریجاً یہ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے کہ ”رسل“ نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے لئے بھی زنا کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ شادی شدہ عورت کا ایک دوست بھی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہو، یعنی ایک مرد اس کا شوہر ہو اور دوسرا اس کا محبوب؟ محبت اس کے ساتھ کرے اور بچے شوہر کے گھر میں جنم دے۔ لیکن اس بات کا عہد کرے کہ اپنے محبوب کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے وقت مانع حمل دوائیاں استعمال کرے گی۔
فقط خود ”رسل“ کو ہی اس بات پر یقین آتا ہو گا! وگرنہ ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو عورت کسی دوسرے مرد سے محبت کرتی ہو وہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے فقط اپنے شوہر سے حاملہ ہو گی اور صرف اپنے شوہر ہی کے بچے کو جنم دے گی، کیونکہ ہر عورت کا دل چاہتا ہے کہ وہ ایسا بچہ پیدا کرے اور اس کی آنکھوں کے سامنے رہنے والا بچہ جو ہو وہ اس مرد کی نشانی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہے، اس مرد کی نشانی نہ ہو جس سے اسے نفرت ہے۔ تو ایسی صورتِ حال میں اس بات کی کیا ضمانت ہو سکتی ہے کہ جس مرد سے اسے محبت ہے اس سے حاملہ نہیں ہو گیاور اس کے نطفہ سے پیدا ہونے والے بچے کو شوہر کا بچہ نہیں کہے گی۔
گویا قرآن نے اس جانب خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ وہ کہتا ہے ۔ ”اَنْزَلْنَا ھَا وَفَرَضْنَا ھَا“ ، ہم نے ان کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اٹل قوانین ہیں۔ زمانہ کے تقاضے ان کو بدل نہیں سکتے۔ یہ انسانی زندگی کے تغیر ناپذیر اصول ہیں اور انسانی زندگی کے اصولوں کا ایک حصہ ہیں۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے: وَلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ“۔ دوبارہ یہاں قرآن زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نرمی و درگزر کرنے کا مقام نہیں ہے۔ جب زنا ثابت ہو جائے تو پھر تمہیں درگزر کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ بعد والے جملہ میں خصوصی طور پر فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ زناکار مرد اور عورت پر حد جاری کرنے کے حکم کو بند کوٹھڑیوں میں اور مخفی طور پر انجام دو۔ ضروری ہے کہ لوگوں کی موجودگی میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس حکم کو نافذ کیا جائے، اور اس کی خبر ہر طرف پھیل جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اسلام پاکدامنی کے مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ تعزیرات کا نفاذ معاشرے کی تربیت اور اسے ادب سکھانے کے لئے ہوتا ہے۔
اگر کوئی عورت زنا کرے اور اسے مخفی طور پرچاہے تختہ دار پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے، تب بھی معاشرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اگرچہ صدر اسلام میں ایسے واقعات بہت کم پیش آئے۔ چونکہ ان قوانین کو عملی جامہ پہنایا جاتا تھا اس لئے زنا بہت کم ہوتا تھا…تاہم اگر کبھی ایسا ہوتا تو اعلانِ عام کیا جاتا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ یہ کہا جائے کہ ”اَلْجَاھِلُ اِمَّا مُفْرِط اَوْ مُفَرِّط“ کے مطابق مغربی دنیا میں ان آخری دو تین صدیوں سے قبل کہ جب اس میں کلیسا کا قانون حکم فرما تھا تو جنسی تعلقات کو کم کرنے میں افراط سے کام لینے کی کوشش کی گئی۔ مغربی دنیا بعض مسائل میں اسلام پر اعتراضات کرتی تھی۔ کلیسیا کے قانون کے مطابق جنسی تعلقات چاہے اپنی بیوی سے ہی کیوں نہ برقرار کئے جائیں ان کو ایک پلید کام سمجھا جاتا تھا۔ ان کی نظر میں عورت ذاتاً ہی ایک پلید چیز تھی اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کو بھی ایک کثیف عمل گردانا جاتا تھا۔ اس لئے پارسا، پاک و منزہ افراد اور وہ افراد جو بلند روحانی مقامات تک پہنچنے کی لیاقت و صلاحیت رکھتے تھے ایسے افراد ہوتے تھے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت کالمس نہ کیا ہوتا اور کسی عورت سے ہمبستری نہ کی ہوتی۔
پوپ کا انتخاب ایسے افراد میں سے ہوتا (اور اب بھی اسی طرح کیا جاتا ہے) جو شادی کے بغیر عمر بسر کرتے…وہ لوگ درحقیقت تجرد کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدس منصب کی اہلیت فقط ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت سے تعلقات قائم نہ کئے ہوں۔ البتہ ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
یہی افراد بعد میں کشیش وکارڈینل کا رتبہ پاتے ہیں اور بعض پوپ کے منصب تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ تو شادی کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اگر ہم اکثریت سے کہیں کہ تجرد کی زندگی بسر کریں تو وہ زنا جو کہ زیادہ پلید ہے، کے مرتکب ہوں گے اور جنسی عمل کا زیادہ ارتکاب کریں گے۔ اس لئے وہ ”دفع افسد بہ فاسد“ یعنی زیادہ پلید سے بچنے کے لئے کم پلید کے ارتکاب کے عنوان سے شادی کی اجازت دیتے تھے۔
اس کے برعکس اسلام تجرد کو برا سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”جب غیرشادی شدہ پیشاب کرتا ہے تو زمین اس پر لعنت بھیجی ہے۔“ اسلام شادی کو مقدس قرار دیتا ہے۔
قرآن میں لفظ ”محصِن“ اور ”محصَن“ دو معنوں میں استعمال ہواہے۔ بعض مقامات پر شادی شدہ عورت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ عورت جو حصار کے اندر واقع ہو اور بعض مقامات پر اس لفظ کو پاکدامن عورت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے چاہے وہ عورت کنواری ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہاں اسے دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
جو لوگ رمی یعنی تیراندازی کرتے ہیں، پاکدامن عورتوں کو تہمت کے تیر کا نشانہ بناتے ہیں، بے عفتی کی باتیں ان سے منسوب کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے، ان پر حد جاری کی جانی چاہئے۔
اسلام کسی بھی دعوے کو بدونِ دلیل قبول نہیں کرتا۔ لیکن بعض دعوے ایسے ہوتے ہیں جن کو فقط ایک شخص کے کہنے سے ہی قبول کر لیتا ہے چاہے وہ ایک فرد عورت ہی کیوں نہ ہو، مثلاً کسی عورت کے اپنے بارے میں بیان کردہ زنانہ مسائل۔ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو چونکہ ایامِ حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے اس لئے عورت سے پوچھا جاتا ہے کہ تم حیض کی حالت میں ہو یا حیض سے پاک ہو؟ اگر کہے کہ حیض سے پاک ہوں تو اس کی بات قبول کی جاتی ہے اور اگر کہے کہ یہ اس کے حیض کے ایام ہیں تب بھی اس کی بات تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اسے گواہ پیش کرنے کو نہیں کہا جاتا بلکہ اس کی اپنی بات ہی قبول کی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر مثلاً مال کے متعلق لڑائی جھگڑوں میں ضروری ہے کہ دو مردوں کو گواہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن جہاں ناموس کے احترام کا مسئلہ ہو، جہاں عزت و ناموس کے داغدار ہونے کی بات ہو، وہاں اسلام کہتا ہے کہ دو عادل گواہ بھی کافی نہیں ہیں۔ اگر دو ایسے عادل گواہ جن کے پیچھے لوگ نما زپڑھتے ہیں، حتیٰ کہ اگر ایسے دو گواہ جن کی لوگ تقلید کرتے ہیں، وہ بھی گواہی دیں کہ ہم نے فلاں عورت کو اپنی آنکھوں سے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اسلام کہتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ تم دو فرد ہو۔ اگر تین افراد بھی اس بات کی گواہی دیں تب بھی اسلام اس گواہی کو کافی نہیں سمجھتا۔ اگر چار گواہ حاضر ہو کرگواہی دیں تو اس وقت اسلام عورت کو مجرم قرار دیتا ہے اور اس گواہی کو کافی جانتا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
ممکن ہے آ پ کہیں کہ اگر امرِ واقعہ یہی ہو تو پھر زنا ثابت ہی نہیں ہو گا۔ چار عادل گواہ کہاں سے آئیں جو گواہی دیں کہ فلاں عورت نے زنا کیا ہے؟ کیا زنا کے مسئلہ میں اسلام کی بنیاد تجسس و تحقیق اور تفتیش پر استوار ہے؟ جب اسلام کہتا ہے چار شاہد، تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ تجسس و تحقیق کی جائے تاکہ آپ کہیں کہ ان دشوار شرائط کی وجہ سے تو ایک لاکھ واقعات میں سے ایک مرتبہ بھی اس طرح نہیں ہو گا کہ چار عادل گواہی دیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ زنا بہت کم ثابت ہو، اگر گواہ نہیں آتا تو نہ آئے۔ اگر ہزار زنا کئے جائیں اور وہ مخفی رہیں تو اسلام ان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن اگر کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو اسلام ہرگز اسے برداشت نہیں کرتا اور اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ زنا واقع ہو اور اس مقصد کو وہ گواہی اور سزا کے ذریعے حاصل نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس نے اس مقصد کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کئے ہیں۔ اگر اسلام کی فردی تربیت اور معاشرتی قوانین پر عمل کیا جائے تو زنا کبھی بھی رونما نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ جب زنا واقع ہو جائے تو اس کی سزا دی جائے اور سزا کے ذریعے اسے روکا جائے۔
ہاں اسلام بھی سزا کا قائل ہے جن لوگوں پر تربیت کا اثر نہیں ہوتا انہیں جان لینا چاہئے کہ ان کے لئے کوڑے کھانے، بعض صورتوں میں قتل ہونے اور بعض صورتوں میں سنگساری کے ذریعے قتل ہونے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ الغرض ہم نے کہا ہے کہ چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور گواہ کے لئے گواہی دینا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھے لیکن باقی تین آدمی موجود نہ ہوں جو اس کے ساتھ گواہی دیں تو اسے خاموش ہی رہنا چاہئے اور اگر دو آدمی بھی دیکھیں تو انہیں بھی کسی کے سامنے اس واقعہ کا ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ اگر تین آدمی بھی دیکھیں تو ان کو بھی اپنا منہ بند کرکے رکھنا چاہئے۔ اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ ”وہ اپنا منہ بند کرکے رکھیں“ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر وہ گواہی دیں تو ان سے فقط یہ کہا جائے گا کہ تمہاری گواہی کافی نہیں، اور چونکہ تم نے گواہی دی ہے لیکن اسے تم ثابت نہیں کر سکے، اس لئے تم قاذف (تہمت لگانے والے ہو)، تم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اسی کوڑے کھائے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور چار گواہ پیش نہ کریں تو وہ اگرچہ سچے ہی کیوں نہ ہوں ان کو اسی کوڑے مارے جائیں کیونکہ یہ کہہ کر انہوں نے ایک عورت پر تہمت لگائی ہے۔ کیا یہ ایک جسمانی سزا ہے؟ نہیں! یہ ایک معاشرتی سزا بھی ہے۔ ”وَلاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَةً اَبَدًا“ اور پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کرو۔ پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے، ان کو معاشرتی سزا بھی ملنی چاہئے یعنی اس دن سے ہی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے ایک پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی ہے، جسے وہ ثابت نہیں کر سکے۔
تیسری سزا ”اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ“ یہ فاسق ہیں۔ اس مقام پر مفسرین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ”اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ“ وَلاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَة اَبَدًا“ سے الگ کوئی سزا ہے یا وہی ہے، یعنی یہ دونوں ایک ہی سزا ہیں؟ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ دونوں مجموعاً ایک ہی سزا ہے۔ یعنی ”اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ“ علت ہے ”وَلاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَة اَبَدًا“ کی۔ یعنی یہ اس تہمت کی وجہ سے فاسق ہو گئے ہیں۔ اور چونکہ فاسق ہو گئے ہیں اس لئے ان کی شہادت قابل قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے۔ مثلاً اب طلاق کا صیغہ ان کے پاس نہیں پڑھا جا سکتا۔ ان کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اگر وہ مجتہد ہوں تو ان کی تقلید جائز نہیں کیونکہ ان سب کاموں میں عدالت شرط ہے۔ اس بناء پر ان دونوں کا مجموعہ ایک ہی سزا ہے۔
لیکن بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ دو سزائیں ہیں، ایک سزا تو یہ ہے کہ ان کی گواہی قبول نہیں اور دوسری سزا یہ ہے کہ یہ لوگ فاسق ہو گئے ہیں۔ او رچونکہ فاسق ہیں اس لئے فسق کے تمام آثار ان پر مترتب ہوں گے اور یہ قابل تفکیک ہیں۔
جو گواہ اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر سکا اگر وہ توبہ کر لے تو اس کا فسق ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی پھر ہم اس کو عادل قرار دیں گے، اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے، اگر وہ مجتہد ہو اور علمی اعتبار سے اس کی تقلید جائز ہو تو اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ مجتہد ہو تو قاضی بن سکتا ہے (کیونکہ قاضی بھی عادل ہونا چاہئے) لیکن اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی کیونکہ وہ ایک الگ سزا ہے اسی لئے بعض مفسرین کی رائے میں ایسے شخص کی گواہی قبول نہ ہونے کی وجہ اس کا فسق نہیں ہے۔ یہ ایک جداگانہ سزا ہے۔ اس کا فاسق قرار دیا جانا اسلام کی نظر میں ایک سزا ہے اور اس کی گواہی کا قبول نہ کیا جانا دوسری سزا ہے۔
بعد والی آیت کا معنی بھی اسی سے واضح ہو جاتا ہے۔ جس میں اللہ کا فرمان ہے کہ ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْمبَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرُ  رَّحِیْمُ “ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں پس اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا“ کے استثناء کے متعلق پہلی نظر میں تین احتمالات دکھائی دیتے ہیں۔
ایک یہ کہ اگر کوئی گواہ کسی عورت پر تہمت لگانے کے بعد اس کو ثابت نہ کر سکے اور توبہ کرے تو ہم کہیں کہ چونکہ اس نے توبہ کر لی ہے اس لئے اسے کوڑے نہ لگائے جائیں، اس کی گواہی بھی قبول کی جائے اور وہ فاسق بھی نہیں ہے لیکن کسی نے بھی اس احتمال کو ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اگر کسی شخص نے کسی عورت پر فقط تہمت لگائی ہو اور پھر اسے ثابت نہ کر سکا ہو تو یہی بات اسے کوڑے لگائے جانے کے لئے کافی ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ اگر کوئی توبہ کرے تو اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی اور اسے فاسق بھی شمار نہیں کیا جائے گا، یعنی تمام معاشرتی پابندیاں اس پر سے اٹھا لی جائیں گی اور اس کی سابقہ حیثیت برقرار رہے گی۔
تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس کی دوسری سزا ہمیشہ کے لئے ہے، یعنی اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے اور ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا“ دوسری عبارت سے استثناء ہے۔ یعنی اسے دوبارہ یہ حیثیت مل جاتی ہے کہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ قاضی بھی بن سکتا ہے لیکن اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ اور بعید نہیں کہ یہ تیسرا احتمال ہی درست ہو یعنی ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدَ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا“ استثناء ہے ” اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَسِقُوْنَ “ کا۔ اس کے بعد آیت ہے۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ شُھَدَآءُ اِلاَّ اَنْفُسُھُمْ فَشَھَادَة اَحَدِھِمْ اَرْبَعُ شَھَادَاتٍمبِاللّٰہِ اِنَّہ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ وَالْخَامِسَۃ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۶، ۷)
یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر لازم ہے کہ چار گواہ پیش کرے۔ لیکن اگر وہ چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ چپ رہے۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا اگر چار گواہ موجود ہوں تو پھر وہ عدالت میں آ کر گواہی دے کہ میری بیوی نے زنا کیا ہے؟ جب تک وہ چار گواہ تلاش کرے گا تب تک وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکے ہوں گے۔ اگر شوہر کے علاوہ کوئی اور گواہ ہوتا تو اس سے کہا جاتا کہ چونکہ اس واقعہ کے چار گواہ نہیں ہیں اس لئے خاموشی اختیار کرو، کوئی بات نہ کرو، تمہارا اس سے کیا واسطہ ہے؟ اگر کہو گے تو خود کوڑے کھاؤ گے۔
اگر شوہر جج کے پاس جا کر گواہی دے کہ اس کی بیوی نے زنا کیا ہے تو شوہر پر لازم ہے کہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھائے اور خدا کو اس بات پر گواہ بنائے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے، جھوٹ نہیں ہے۔ یعنی فقط ایک مرتبہ گواہی دینا کافی نہیں ہے بلکہ چار مرتبہ گواہی دے گا اور ہر مرتبہ اللہ کی قسم بھی کھائے گا، کیا یہ کافی ہے؟ نہیں یہ بھی کافی نہیں ہے۔ بلکہ پانچویں مرتبہ اسے چاہئے کہ اپنے اوپر لعنت بھیجے اور کہے ”اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔“ کیا بات اسی پر ختم ہو جاتی ہے اور عورت سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا زنا ثابت ہو گیا ہے؟ نہیں، عورت کے ذمہ بھی ایک کام لگایا جاتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تیرے شوہر نے ”لعان“ کیا ہے۔ یعنی اس نے چار مرتبہ قسم کھائی ہے اور ایک مرتبہ کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ اب تم کیا کہتی ہو؟ اگر عورت اعتراف کرے تو اسے سزا ملے گی اور اگر خاموشی اختیار کرے اور اپنا دفاع نہ کرے تو یہ بھی اعتراف کی طرح ہی ہے۔ لیکن عورت کے سامنے ایک اور راستہ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ تم بھی اس کی طرح قسم کھاؤ کہ تمہارا شوہر جھوٹ بولا رہا ہے اور پانچویں مرتبہ کہو: اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو۔“ اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اس سے کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زنا کیا ہے اور پھر اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ بھی اپنا دفاع کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اسلام اس کے بارے میں کیا حکم جاری کرتا ہے؟ مرد نے چار مرتبہ گواہی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو اور عورت نے بھی چار مرتبہ قسم کھا کر کہا ہے کہ اس کا شوہر جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں مرتبہ اس نے کہا ہے کہ ”اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو“ تو اس صورت میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ کیا وہ مرد کو قاذف (تہمت لگانے والا) قرار دیتا ہے اور اسے کوڑے لگاتا ہے؟ کیا اسلام عورت کو گناہ گار قرار دے کر اسے کوڑے مارتا ہے؟ کیا اس جگہ اس کی سزا رجم و سنگساری ہے؟ نہیں، پھر وہ کیا حکم دیتا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ اب جب کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اب تمہارے درمیان مکمل طور پر جدائی ہونی چاہئے اور طلاق کی بھی حاجت نہیں۔ آپ لوگوں کا یہی عمل طلاق کے مترادف ہے۔ اب تم ایک دوسرے سے جدا ہو۔ اس کا اپنا راستہ، اس کا اپنا راستہ۔ اب سے تمہارے درمیاں میاں بیوی کا رشتہ ختم۔ اس فعل کو اسلامی فقہ میں ”لعان“ اور ”ملاعنہ“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم کے زمانہ میں اور آپ کی موجودگی میں یہ عمل انجام دیا گیا اور مفسرین کے بقول یہی اس آیت کی شانِ نزول ہے۔
ہلال بن امیہ نامی ایک صحابی نے نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ: ”یارسول اللہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو فلاں مرد کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔“ آپ نے یہ سن کر اپنا رخِ مبارک دوسری جانب پھیر لیا۔ اس نے دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ اپنی بات کو دہرایا اور کہا: یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں سچ بول رہا ہوں، جھوٹ نہیں بول رہا۔“ اس وقت یہی آیات نازل ہوئیں اور نزولِ آیات کے بعد نبی اکرم نے ہلال بن امیہ اور اس کی بیوی کو بلا بھیجا۔ اس کی بیوی مدینہ کے امرأ میں سے تھی۔
ہلال بھی اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ آیا۔ پیغمبر اکرم نے اس موقع پر پہلی دفعہ ”لعان“ کی رسوم کو جاری کیا۔ اس مرد سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھاؤ اور خدا کو اس بات پر گواہ بناؤ کہ تم سچ بول رہے ہوں اور پانچویں مرتبہ کہو کہ اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ اس نے بڑی جرأت کے ساتھ کہہ دیا۔ پھر عورت سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہو کہ تمہارا شوہر جھوٹ بول رہا ہے۔ پہلے تو عورت نے خاموشی اختیار کی اور اس کی زبان تقریباً گنگ ہو گئی۔ وہ اعتراف کرنے کو ہی تھی کہ اس کی نگاہ اس کے رشتہ داروں کے چہروں پر پڑی اور (اس نے اپنے جی میں) کہا نہیں۔ میں ان کو ہرگز رسوا نہیں ہونے دوں گی اور ان کی شرمندگی کا موجب نہیں بنوں گی۔ پھر اس نے کہا کہ میں یہ کام کرتی ہوں (یعنی چار مرتبہ قسم کھاؤں گی اور کہوں گی کہ اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو) ہلال بن امیہ نے چار مرتبہ قسم کھائی اور پانچویں مرتبہ جب وہ اپنے اوپر لعنت کرنے لگا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ یہ جان لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت زیادہ دردناک ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاؤ؟ خدا کا خوف کھاؤ! اس نے کہا: ”نہیں یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“ عورت نے بھی جب چار مرتبہ قسم کھانے کے بعد کہنا چاہا ”اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو“ تو اس سے بھی نبی اکرم نے فرمایا کہ خدا کے غضب سے ڈرو جو کچھ آخرت میں ہے وہ اس سے بہت زیادہ سخت ہے جو دنیا میں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے شوہر کی بات درست ہو اور تم اس جھٹلا دو! یہ سنتے ہی عورت کی زبان رکنے لگی اس نے کچھ دیر تک خاموشی اختیا رکی وہ اعتراف کیا چاہتی تھی لیکن آخری لمحہ میں اس نے مذکورہ جملہ کہہ دیا۔ پھر نبی اکرم نے فرمایا کہ اب سے تم آپس میں میاں بیوی نہیں ہو۔
اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ ”وَلوْ لاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیکُمْ وَرَحْمَتُہ وَ اَنَّ اللّٰہَ تَوَّابُ  حَکیْمُ “ اگر تم پر خدا کا فضل او راس رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ تم پر سخت احکام نازل فرماتا۔ ممکن ہے تم خیال کرو کہ اس سلسلے میں جو احکام ہم نے نازل کئے ہیں وہ سخت ہیں۔ لیکن جان لو کہ یہ تو اللہ کا فضل، اس کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کے توبہ قبول کرنے کا مظہر ہے۔ تمہاری مصلحت اسی کا تقاضا کرتی ہے۔
اس کے بعد جو آیات ہیں انہیں آیاتِ ”افک“ کا نام دیا گیا ہے۔ افک یعنی تہمت جس کا تعلق ایک تاریخی واقعے کے ساتھ ہے۔ منافقین نے ایک واقعہ کے دوران نبی اکرم کی ایک زوجہ پر تہمت لگائی۔ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق وہ عورت حضرت عائشہ تھیں۔ بعض اہلِ تشیع کہتے ہیں کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں لیکن بعض اہلِ تشیع قائل ہیں کہ وہ عائشہ تھیں۔ شاید آپ خیال کریں کہ معاملہ تو اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا۔ اہلِ تشیع کو کہنا چاہئے تھا کہ جس عورت پر تہمت لگی تھی وہ عائشہ تھیں اور اہلِ تسنن کہتے کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔ اہلِ تسنن اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ وہ عائشہ تھیں اور متعصب شیعہ کیوں اصرار کرتے ہیں کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں: اس اصرار کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت نے بعد میں ایسی صورتِ حال اختیا رکر لی کہ معاشرتی لحاظ سے بھی اور اس عورت کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کے لحاظ سے بھی، جو اس مہتم عورت کے لئے وجہ افتخار بن گئی، یعنی پھر اس تہمت کے دروغ ہونے میں ذرہ برابر شک باقی نہ رہا، اس عورت کی پاکدامنی ثابت ہو گئی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ سراسر ایک جھوٹا قصہ تھا۔
اسی لئے اہلِ سنت مصر ہیں کہ وہ مہتم عورت جس کی پاکدامنی کی تصدیق کامل طور پر ہوئی ہے عائشہ تھیں اور بعض شیعہ حضرات یہ افتخار ماریہ قبطیہ کے نام ثبت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امر واقعہ کیا تھا، آیاتِ افک کو اس کی داستان جو کہ تفصیلی بھی ہے، کے ساتھ بعد والی تقریر میں انشاء اللہ عرض کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَّاٰلِہِ الطَّاھِرِیْنَ
 

صرف علی

محفلین
دوسری تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرُ  لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیً مِّنْھُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْھُمْ لَہ عَذَابُ  عَظِیْمُ  o لَوْ لَآ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُوٴْمِنُوْنَ وَالْمُوٴْمِنَاتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْراً وَّقَالُوْآ اِھٰذا اِفْکُ  مُّبِیْنُ ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۱۱، ۱۲)
ان آیات کو اصطلاحاً ”آیاتِ افک“ کہا جاتا ہے…”افک“ سے مراد وہ بڑا جھوٹ (تہمت) ہے جو بعض منافقین نے۔ العیاذباللہ۔ نبی اکرم کو رسوا کرنے کی خاطر آپ کی زوجہ کے متعلق گھڑا تھا۔ اس کی داستان ہم اس سے قبل تفصیل سے نقل کر چکے ہیں۔
اب ہم یہ آیات پڑھیں گے اور ان سے جن نکات (یہ نکات تربیت اور معاشرتی حوالے سے بہت اہم ہیں یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں بھی ہم ان سے دوچار ہیں) کا استفادہ ہوتا ہے ان کو بیان کریں گے۔
آیت کہتی ہے ”اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ “ آگاہ رہو کہ جن افراد نے تہمت گھڑی وہ تم میں سے ہی ہیں جن کا ایک منظم گروہ ہے۔ قرآن اس ذریعہ سے مسلمانوں کو بیدار کر رہا ہے کہ اس نکتہ کی جانب متوجہ رہو کہ تمہارے درمیان ایسے اشخاص اور گروہ موجود ہیں جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے مقاصد بہت خطرناک ہیں۔ یعنی قرآن یہ بات سمجھانا چاہتا ہے کہ جن اشخاص نے یہ تہمت گھڑی ہے انہوں نے غفلت، بے توجہی یا سہل انگاری کی بنا پر نہیں گھڑی بلکہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے تہمت لگائی ہے۔ ان کا مقصد۔ نعوذ باللہ۔ نبی اکرم کو رسوا کرنا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ آپ کا اعتبار جاتا رہے۔ البتہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ منظم گروہ تم میں سے ہی تھا۔ اس کے بعد قرآن فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا ”شر“ تھا جس کا نتیجہ ”خیر“ تھا۔ بلکہ درحقیقت یہ شر تھا ہی نہیں۔ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّالَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرُ  لَّکُمْ “۔ آپ خیال بھی نہ کریں کہ یہ برا واقعہ تھا۔ مسلمانوں کی شکست تھی، نہیں: بلکہ یہ واقعہ اپنی تمام تر تلخی کے باوجود ملتِ اسلامیہ کے فائدے میں تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے اس واقعہ کو ”خیر“ کیوں قرار دیا ہے، اسے ”شر“ کیوں نہیں قرار دیا، حالانکہ یہ داستان بہت ہی تلخ تھی؟ نبی اکرم کو العیاذ باللہ رسوا کرنے کے لئے ایک قصہ گھڑا گیا اور کئی دن (تقریباً چالیس دن) گزرنے کے بعد وحی نازل ہوئی اور تدریجاً حقائق سامنے آئے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس عرصہ میں پیغمبر اکرم اور آپ کے قرابت داروں پر کیا گزری! قرآن کریم دو وجوہات کی بنأ پر اس واقعے کو خیر قرار دے رہا ہے۔
اول:۔ منافقین کا گروہ پہچانا گیا۔ ہر معاشرے کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہی ہوتا ہے کہ صفیں مشخص نہ ہوں، مومن اورمنافق سب ایک ہی صف میں ہوں۔ جب تک حالات سازگار ہوں تب تک تو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن جونہی معاشرے پر برا وقت آ پڑے تو پھر منافقین کی جانب سے اسے بہت سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جب معاشرے کو دھچکا لگتا ہے تو پھر اسرار ہویدا ہوتے ہیں اور امتحان کی گھڑی آتی ہے۔ مومنین ایمان والوں کی صف میں چلے جاتے ہیں اور منافقین کی منافقت کا نقاب الٹ جاتا ہے اور جس صف کے سزاوار ہوتے ہیں اس میں چلے جاتے ہیں۔ معاشرے کے حق میں یہ ایک بہت بڑی خیر (بھلائی) ہے۔
جن منافقین نے یہ داستان گھڑی تھی ان کے لئے قرآن کے الفاظ میں فقط ”اثم“ باقی رہ گیا ہے، ”اثم“ یعنی گناہ کا دھبہ۔ اس کے بعد زندگی بھر کے لئے ان کی ساکھ ختم ہو گئی۔
دوم یہ کہ قصہ گھڑنے والوں نے شعوری طور پر اس کو گھڑا تھا۔ لیکن عام مسلمان غیرشعوری طو رپر ان کے آلہ کار بن گئے تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت مومن ہی تھی۔ وہ مخلص اور ایماندار تھے۔ ان کی نیت بری نہیں تھی۔ وہ فقط نادانی اور بے توجہی کی بنا پر اس منظم گروہ کے نمائندے بن بیٹھے تھے۔ قرآن نے اس بات کی وضاحت بہت بہترین انداز میں کی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے اشخاص کا نادان ہونا اس معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر دشمن عیار ہوتو وہ ان اشخاص کو ان کے اپنے ہی خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ایک داستان اپنے پاس سے بنا لیتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اسے ایک شوشے کے طور پر ان کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے تاکہ وہ اشخاص ان کی گھڑی ہوئی بات کا ہر جگہ تذکرہ کریں۔ اس کا سبب نادانی ہے۔ معاشرے کے افراد کو اس حد تک نادان اور احمق نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دشمن کی گھڑی ہوئی باتوں کا تذکرہ ہر جگہ کرتے پھریں۔
اگر دشمن کوئی افواہ اڑاتا ہے تو اس وقت تمہارا فرض یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے شخص سے اس کا ذکر نہ کرو اور بات کو اسی جگہ دفن کر دو۔ دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ اس کی افواہ کو ہوا ملے، وہ مشہور ہو جائے۔ لیکن تمہیں چاہئے کہ اس قلع قمع کر دو۔ کسی ایک آدمی سے بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ تمہاری اس خاموشی سے دشمن کی آرزو پر پانی پھر جائے گا۔
اس داستان کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنی غلطی کا پتہ چل گیا۔ یعنی جو بات ایک منظم گروہ نے گھڑی تھی اسے انہوں نے سادہ لوحی سے سن لیا او راس کے بعد جب آپس میں ملتے تو ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ میں نے ایسی بات سنی ہے۔ دوسرا کہتا میں نے بھی سنی ہے۔ کوئی کہتا کہ مجھے حقیقت کا تو علم نہیں ہے، حقیقت کاعلم تو خدا کے پاس ہی ہے۔ البتہ یہ بات سنی تو میں نے بھی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشرہ اپنی سادہ لوحی اور نادانی کے باعث چند آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ کا آلہٴ کار بن کر رہ گیا۔
داستانِ افک مسلمانوں کی بیداری کا موجب بنی۔ سب مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ ایک جانب تو انہوں نے اس گروہ کو پہچان لیا او ردوسری طرف ان کو اپنے بارے میں آگاہی ہوئی (پھر ان کو افسوس ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگے) کہ ہم نے اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کیوں کیا، ہم ان کے آلہ کار کیوں بن گئے؟
میرا ایک بہت پرانا دوست ہے۔ اس کا گھر یہاں سے بہت دور ہے۔ میں یہاں اس کے محلے کا نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ اتنی دور سے یہاں آیا۔ جب تفسیر کا درس ختم ہوا اور میں اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا تو اس نے مجھے اپنی کار پر سوار ہونے کے لئے کہا۔ راستے میں اس نے کہا: ”کیا آپ جانتے ہیں کہ میں یہاں کیوں آیا تھا؟ میں نے سنا تھا کہ الجواد مسجد میں اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ نہیں کہتے۔ تو میں نے سوچا کہ آج جا کر دیکھ آؤں کہ کیا واقعی نہیں کہتے۔“ میں نے جواب دیا کہ خدا تمہار ابھلا کرے تم نے کم از کم اتنا تو کیا کہ دیکھنے کو آ گئے۔
اب مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ الجواد مسجد میں ”اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ“ نہیں کہا جاتا، دوسرا شخص بھی کہے گا کہ میں نے بھی سنا ہے کہ الجواد مسجد میں ”اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ“ نہیں کہا جاتا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ سب لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ ہم نے سنا ہے کہ الجواد مسجد میں ”اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ“ نہیں کہا جاتا! اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ جب بھی تم ایسی بات سنو تو اسے اپنی زبان پر نہ لاؤ۔ اگر تمہیں فکر ہے تو خود تحقیق کرو۔ جب تم میں تحقیق کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے تو پھر اس بات کا ہر جگہ تذکرہ کیوں کرتے ہو؟ تم کو اس کا تذکرہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے… اس دیہات کے آدھے لوگ یہودی تھے اور آدھے مسلمان۔ اس گاؤں سے چتل تک دو فرسخ کا فاصلہ تھا۔ یہودیوں کا کہنا تھا کہ چتل ہمارا ہے۔ اسے ہم نے بنایا ہے۔ یہ ہمارا مزار ہے۔ جبکہ مسلمان کہتے تھے کہ یہ ہمارا ہے کیونکہ اس کامینار ہے۔ اس بات پر ان کے درمیان کئی لڑائیاں بھی ہوئیں جن میں بعض افراد زخمی ہوئے اور بعض مارے گئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار ہے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار نہیں ہے اور ان میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ دو فرسخ چل کر دیکھ آئیں کہ اس کا مینار ہے یانہیں۔
(داستان افک کا) دوسرا فائدہ یہی تھا کہ اس نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور قرآن میں اس کو بیان کیا تاکہ ابد تک باقی رہے، لوگ اس کا مطالعہ کریں اور اسے ہمیشہ یاد رکھیں کہ اے مسلمانو! تم نادانی کی بناء پر دشمن کا آلہ کار نہ بنا کرو۔ دشمنوں کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا اپنی جہالت کی وجہ سے نہ کیا کرو۔ خدا جانتا ہے کہ یہودیوں اور ان کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے بہائیوں نے ایسی کتنی ہی داستانیں گھڑی ہیں۔ یوں بھی ہوا ہے کہ یہودیوں یا عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر لگائی جانے والی تہمت نے اس قدر شہرت پکڑی کہ بتدریج اس کا تذکرہ کتابوں میں ہونے لگا اور بعد کو اس تہمت کو اس قدر مسلم فرض کیا گیا کہ مسلمان بھی اس پر یقین کرنے لگے۔ مثلاً اسکندریہ کی کتاب سوزی کی داستان۔ سکندر نے مشرق میں آنے اور مصر، ایران اور ہندوستان فتح کرنے کے بعد اس جگہ ایک شہر بنایا جس کا نام ”اسکندریہ“ رکھا گیا۔ بعض علماء وہاں گئے۔ انہوں نے وہاں ایک لائبریری بنائی۔ وہ لائبریری درحقیقت ایک مدرسہ کی حیثیت رکھتی تھی جس میں بہت زیادہ کتابیں جمع ہو گئی تھیں۔ اب مسلمانوں کی تاریخ بلکہ عیسائیت کی تاریخ نے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو دو تین مرتبہ لوٹا اور نذر آتش کیا گیا۔ جب مشرقی روم کا بادشاہ عیسائیت کی جانب مائل ہوا تو چونکہ وہ فلسفہ کو عیسائیت کے خلاف سمجھتا تھا اس لئے اس نے اسکندریہ کے مرکز کو تباہ کر دیا۔ آپ حضرات نے سنا ہو گا کہ سات ہزار فلاسفہ نے ایران (انوشیروان کے دربار) میں آ کر پناہ لی۔ لائبریری نہ بچ سکی۔ دورِ حاضر میں ویل ڈیورنٹ جیسے موٴرخین نے ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو چند مرتبہ نقصان پہنچا۔ جب مسلمان اسکندریہ میں داخل ہوئے اس وقت اس لائبریریکا وجود ہی نہیں تھا۔
دوسری جانب مسلم اور عیسائی مورخین نے مسلمانوں کی ایران، مصر اور دوسرے مقامات کی فتوحات کے واقعات کی جزئیات کو تحریر کی اہے۔ خصوصاً فتح اسکندریہ کے واقعات کی جزائیات کو عیسائی مورخین نے بھی تحریر کیا ہے۔ بعد کو جب دوسری اور تیسری صدی میں تاریخِ یعقوبی، تاریخِ طبری اور فتوح البلدان جیسی عظیم کتابیں (ان کتابوں کا تعلق اسلام کی ابتدائی صدیوں سے ہے اور ان کا سلسلہٴ اسناد بھی منظم و مرتب ہے) تحریر کی گئیں تو کسی ایک مورخ نے بھی تحریر نہیں کیا کہ اس وقت اسکندریہ میں کوئی لائبریری موجود تھی جسے مسلمانوں نے نذرِ آتش کر دیا ہو۔ ویل ڈیورنٹ رقمطراز ہے: ”اس زمانے میں ایک پادری اسکندریہ میں سکونت پذیر تھا۔ اس نے فتحِ اسکندریہ کے واقعات کی تمام جزئیات تحریر کی ہیں۔ اس کی کتاب اب بھی ہماری دسترس میں ہے اس نے کسی کتاب سوزی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔“
چھٹی صدی ہجری کے اواخر (یعنی چھ سو سال بعد) اور ساتویں صدی ہجری میں دو شخص، جو کہ مورخ بھی نہیں تھے، عیسائی تھی۔ انہوں نے عیسائیت کے دامن کو اس تہمت کے دھبہ سے پاک کرنے کے لئے کسی کتاب کا ریفرنس دیئے بغیر کہا: ”عمرو بن عاص جب اسکندریہ میں داخل ہوا تو اس نے وہاں ایک بہت بڑی لائبریری دیکھی۔ اس نے خلیفہ کو خط لکھ بھیجا کہ ہم اس لائبریری کا کیا کریں؟
”خلیفہ نے جواب دیا کہ ان کتابوں میں جو مطالب درج ہیں وہ یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن کافی ہے، یا قرآن کے خلاف ہیں اور جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اس لئے تمام کتابوں کو نذر آتش کر دو تو عمرو بن عاص نے تمام کتابوں کو جلا دیا۔ بعد کو آٹھوں و نویں صدی میں آہستہ آہستہ مسلمانوں نے خود بھی ان جعلی کتابوں سے اسی داستان کو نقل کیا۔ مسلمانوں نے اس بات کی طرف توجہ نہ دی کہ اگر یہ بات درست ہوتی تو ابتدائی صدیوں کے مورخین اس کو بیان کرتے ہیں۔“
 

صرف علی

محفلین
اس داستان کے غلط ہونے کی بہت سی ادلہ ہیں۔ اگر ان سب کو بیان کروں تو پھر ہم اصلی بحث سے دور ہو جائیں گے۔ میں نے ایک مرتبہ ”کتاب سوزیٴ اسکندریہ“ کے موضوع پر تین تقریریں کرکے ثابت کیا تھا کہ یہ داستان سراسر جھوٹی ہے، شبلی نعمانی نے بھی اس موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کیا ہے۔ محققین، علماء اور مورخین کو اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ یہ واقعہ سراسر جھوٹ ہے۔ لیکن اس کے باوجود دشمنوں اور ان کے گماشتوں نے جانتے ہوئے اور مسلمانوں نے نادانی کی بناء پر، اس واقعہ کو کتابوں میں نقل کیاہے اور نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بی اے کی فلسفہ و منطق کی کتابوں میں جب قضیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جیسا کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے اسکندریہ لائبریری کے متعلق کہا تھا: ”یہ کتابیں یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے۔ یا قرآن کے خلاف ہیں، تو جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ پس ان کو جلا دو۔“ کالجز کی کتابوں میں تحریر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کا کام کتابوں کو نذرِ آتش کرنا تھا۔
شبلی نعمانی کا کہنا ہے: ”انگریزوں نے جب ہندوستان پر اپنا تسلط جما لیا تو انہوں نے وہاں ایسے مدارس قائم کئے جان کو وہ اپنے پروگرام کے مطابق چلاتے تھے۔ جب وہ منطق کی کتب میں قضیہٴ حقیقیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے تو خاص طور پر اس بات کو مثال کے طور پر پیش کرتے تاکہ مسلمان اور ہندو بچوں کے اذھان میں یہ بات بٹھا سکیں کہ تم ایک ایسی قوم ہو جو قدیم زمانہ سے ہی کتابوں کو نذر آتش کرتی رہی ہے۔“ (یہ بات شبلی نعمانی نے کی ہے۔ میں نے جب بعد کو اپنے کالجز کی کتابوں میں اسی بات کو بعینہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ کام انگریزوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا ہے) ۔ بعد کو میں نے دیکھا کہ ایران کے کالجز کی کتب میں بھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے اور ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس کا کوئی مستند حوالہ بھی ہے یا نہیں، ہر جگہ اس کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ اور اب یہ بات اس حد تک مشہور ہو چکی ہے کہ اگر ہم کسی جگہ یہ کہیں کہ یہ واقعہ غلط ہے تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے۔ وہ تعجب آمیز لہجے میں کہتے ہیں: ’کیا کہا یہ واقعہ غلط ہے! ہمارے ذہن میں تو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ یہ واقعہ جھوٹ ہو ا۔“ قرآن یہ جو کہہ رہا ہے کہ ”لاَ تَحْسُبوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرُ لَّکُمْ “ تو حقیقت میں قرآن کہنا چاہتا ہے: ” اے مسلمانو! تم کو اس واقع سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ قرآن پڑھو۔ اس کی تفسیر کرو تاکہ اس سے نصیحت حاصل کرو اور دشمنوں کی اڑائی ہوئی افواہوں کی چرچا نہ کرتے پھرو۔“
” اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃ مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرُ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیًٴ مِّنْھُمْ مَّااکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ۔“
قرآن کہتا ہے کہ جن بدبختوں نے یہ داستان گھڑی تھی ان میں ہر ایک کے دامنِ کردار پر گناہ کا دھبہ لگ چکا ہے اور انہیں اس گناہ کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ گناہ کا سب سے زیادہ بوجھ ان میں سے ایک شخص کے کندھوں پر ہے۔ (یعنی عبداللہ ابن ابی، جسے عبداللہ ابی بن سلول بھی کہتے ہیں) ” وَالَّذِیْ تَوَلّیٰ کِبْرَہ مِنْھُمْ لَہ عَذَابُ عَظِیمُ “۔ ان اشخاص میں سے کسی جس نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے خدا نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ دنیاوی بدنامی یعنی جب تک اس دنیا میں زندہ رہے گا منافقین کے سرغنہ کے نام سے پہچانا جائے گا کے علاوہ آخرت میں خدا اس کو بڑے سخت عذاب سے وچار کرے گا۔
لَوْلَآ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُوٴمِنُوْنَ وَالْمُوٴمِنَاتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْراً۔“
اس بات کو قرآن ان الفظ میں بھی ادا کر سکتا تھا کہ جب تم نے یہ داستان سنی تو اپنے بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟ اگر قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا تو یہ ایک معمولی بات ہوتی۔ قرآن اسی بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا: ”تم نے اپنے مومن بہن بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟“ بلکہ وہ ارشاد فرما رہا ہے: ”تم نے اپنے بارے میں برا گمان کیوں کیا؟“ یعنی اس بات کی طرف متوجہ رہو کہ تم ایک ہی پیکر ہو، مولانا جلال الدین رومی کے بقول ”نفسِ واحدہ“ ہو۔ ”موٴمنان ہستند نفسِ واحدہ“۔ تمام مسلمانوں اور موٴمنین کو یہی سمجھنا چاہئے کہ وہ سب ایک ہی پیکر کے اعضاء ہیں۔ اگر کسی موٴمن پر تہمت لگائی جا رہی ہو تو دوسرے مسلمان سمجھیں کہ وہ تہمت ان کی ذات پر لگائی جا رہی ہے۔ پس ایک نکتہ اس مقام پر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ تم نے اپنے موٴمن بھائیوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا، یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ یعنی مسلمانوں کے درمیان ”میں“ اور ”وہ“ کا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر مسلمان کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس کے کسی بھی دوسرے مسلمان بھائی کی عزت اس کی اپنی عزت ہے اور دوسرے مسلمان بھائی کی آبرو اس کی اپنی آبرو ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ ”تم“ نے کیوں اچھا گمان نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہا ہے کہ ”موٴمنین و موٴمنات“ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہاہے کہ ”موٴمنین و موٴمنات“ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا۔؟
اولاً۔ یہاں عورت و مرد دونوں کا ایک جگہ ذکر کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اعتبار سے عورت اور مرد برابر ہیں۔ ان میں فرق نہیں ہے۔
ثانیاً: ایمان کو خصوصی طور پر ذکر کر رہا ہے۔ یعنی قرآن بتانا چاہتا ہے کہ وحدت اور اتحاد کا معیار ایمان ہے۔ موٴمنین اس لئے نفسِ واحدہ ہیں کیونکہ وہ موٴمن ہیں۔ یعنی اس مقام پر قرآن اتحاد کے معیار کو بھی بیان کر رہا ہے۔ درحقیقت قرآن کہنا چاہتا ہے:
”اے ایمان لانے والے مردو اور ایمان لانے والی عورت! اگر تم پر اس قسم کی تہمت لگائی جاتی تو کیا تم اس تہمت کا چرچا کرنے پر تیار ہوتے؟ جس محفل میں بیٹھتے کیا اس میں بیان کرتے کہ مجھ پر یہ تہمت لگائی گئی ہے؟ لوگ میرے متعلق ایسی باتیں کر رہے ہیں؟ کیا کبھی تم اپنے متعلق ایسی باتیں کرتے؟ اگر تمہارے اپنے متعلق اس قسم کی باتیں ہوں تو تم فوراً سمجھ جاتے ہو کہ تم کو خاموشی سے کام لینا چاہئے اور لوگوں نے جو جھوٹی تہمت تم پر لگائی ہو تم کو اس کا چرچا نہیں کرنا چاہئے۔ تو اب اپنے موٴمن بہن بھائیوں پر لائی جانے والی تہمت سن کر تم اسی طرح خاموشی کیوں نہیں اختیار کر لیتے جس طرح تم اپنے اوپر لگائی جانے والی تہمت سن کر اختیار کر لیتے ہو۔“

لَوْ لَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُوٴمِنُوْنَ وَالْمَوٴمِنَاتُ بِاَنْفُسِھمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ۔“
جب تم ایمان والوں نے سنا تو مومنین نے اپنے متعلق اچھا گمان کیوں نہ کیا؟ انہوں نے یہ داستان سنتے ہی کیوں نہ کہا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے؟ نبی اکرم نے ایک ماہ یا اس سے زیادہ مدت تک خاموشی اختیا ر کی۔ غافل مسلمان بجائے اس کے کہ پہلے دن ہی کہہ دیتے ”ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ “ یہ واضح جھوٹ ہے، وہ مزے مزے لے لے کر اس داستان کو ایک دوسرے سے بیان کرتے۔ جس محفل میں بیٹھتے یہی کہتے: ”ہم نے اس طرح سنا ہے“۔ اور اپنی ہر محفل میں اس جعلی داستان ہی کو اپنی بحث و گفتگو کا موضوع قرار دیتے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہیں پہلے دن ہی کہنا چاہئے تھا ”ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ اب اس کے بعد آگاہ رہو۔ ایسے جھوٹ جو تم میں سے بعض افراد گھڑ لیتے ہیں ان کو سنتے ہی کہو ”ھٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ “۔
لَوْلاَ جَآ ءُ وْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃ شُھَدَآءَ فَاِذْ لَمْ یاْ تُوْا بِالشُّھَدَآءِ فَاُولٰئِکَ عِنْدَاللّٰہِ ھُمُ الْکَاذِبُوْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۱۳)
تمہارے کام اصول و قوانین کے تحت ہیں۔ اسلام نے تم پر فرض عائد کیا ہے۔ شرعاً تم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جب بھی کسی مسلمان پر لگائی جانے والی ایسی تہمت سنو جو شرعی طریقے سے ثابت نہ ہوئی ہو، تو فوراً کہو کہ یہ جھوٹ ہے۔ خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے۔ اور اس جملہ (خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ الٰہی کے مطابق یہ جھوٹ ہے۔
ذمہ داری بہت واضح ہے۔ اب کے بعد ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص یا ادارے کے متعلق کوئی بات کرے تو ہم پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم خاموش رہیں؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ یہ کہیں کہ ”ہمیں حقیقت کا علم نہیں ہے۔ خدا ہی جانتا ہے“؟ مجھے کیا خبر، ممکن ہے یہ بات درست ہو، ممکن ہے غلط ہو“؟ کیا ہماری ڈیوٹی یہ ہے کہ ہم اپنی محافل میں ایسے واقعات کا تذکرہ کریں اور کہیں: ”لوگ یوں کہتے ہیں۔“ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب تک شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے تب تک یہ کہیں کہ یہ واقعہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ جب شرعی طور پر ثابت ہو جائے اور ہمیں یقین ہو جائے، مثلاً چار عادل زنا کی گواہی دیں یا زنا کے علاوہ کسی دوسرے کام کی گواہی دو عادل دیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا کہیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ (یہ شرعی گواہی ہے) تو اس وقت ہماری ذمہ داری بدل جاتی ہے۔ جب تک شرعی ثبوت نہ ہو اس وقت تک ہمیں اس واقعہ کے تذکرہ کا حق نہیں پہنچتا او نہ ہی یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ ”شاید یہ واقعہ صحیح ہو، شاید غلط ہو۔“ بلکہ اس قسم کی داستان سن کر ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کہیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ہاں جب شرعی ثبوت مل جائے تو اس وقت ہمارا فریضہ ہے کہ مقابلہ کریں۔ البتہ ہر موقع پر ہم پر کوئی فرض عائد ہوتا ہے۔ بعض برائیوں کا مقابلہ ہمیں کرنا چاہئے اور بعض مسائل مثلاً زنا کے بارے میں، حاکم ِ شرع کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اے ایمان والو تم اس داستان کا چرچا کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گئے ہو۔ لیکن خدا نے تمہارا یہ گناہ معاف کر دیا ہے۔ اب بیدار رہنا۔ آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرنا۔ ”وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة۔“ اگر دنیا و آخرت میں تم پر خدا کا فضل نہ ہوتا ”لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابُ عَظِیْمُ “ تو تمہاری ان بے سروپا باتوں کی وجہ سے خدا کی جانب سے دنیا و آخرت میں تم پر عذاب نازل ہوتا۔ یہ فقط خدا کا فضل ہی تھا جس نے تم کو اس عذاب سے بچا لیا۔ پس اب متوجہ رہو اور اب کے بعد ایسا کام نہ کرنا۔ کونسا گناہ اور افاضہ؟ ہم کس چیز میں غرق ہو چکے تھے اور کس چیز کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے؟ اِذُ تَلَقَّوْنَہ بِاَلْسِنَتِکُمْ“ جب تم اس کو ایک دوسرے کی زبان سے نقل کرتے تھے وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّالَیْسَ لَکُمْ بِہ عِلْمُ “ تم ایسی بات کرتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں تھا اور چونکہ تم اسے نہیں جانتے تھے وَتَحْسَبُوْنَہ ھَیِّنًا اس لئے اسے معمولی بات خیال کرتے تھے ، وَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمُ حالانکہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات تھی۔ مسلمانوں کی آبرو کا مسئلہ ہے او راس مقام پر خصوصاً پیغمبر کا مسئلہ ہے۔ وَلَوْ لَآ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّایَکُوْنُ الَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا جب تم نے اس کو سنا تو کیوں نہ کہا کہ ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم اس کے بارے میں کلام کریں۔ ہمیں اس کے تذکرہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ (بلکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ہم کو منفی بات کرنی چاہئے۔ یعنی اگر کوئی شخص ایسی بات کرے تو ہمیں کہنا چاہئے کہ یہ جھوٹ ہے۔ نہ صرف یہ کہ مثبت بات نہ کریں اور اس کو مشہور نہ کریں بلکہ ہمیں چاہئے کہ منفی بات کریں۔ یعنی دوسروں کے جواب میں کہیں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، جھوٹ ہے۔ اس مطلب کو خدا دوسرے جملے میں بیان فرما رہا ہے) تمہیں کہنا چاہئے تھا ”مَایَکُوْنَ لَنَا اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَآ۔ ہمیں اس کے متعلق گفتگو کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بلکہ سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانُ عَظِیْمُ “ ہمارا فریضہ ہے کہ کہیں کہ اللہ کی ذات پاک ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ باندھا اور تہمت لگائی گئی ہے۔ یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٓ اَبَدًا۔“ خدا مسلمانوں کو موعظہ فرما رہا ہے کہ خبردار دوبارہ کبھی بھی اس قسم کی کوئی غلطی نہ کرنا۔ اب قیامت تک متوجہ رہنا اور کبھی بھی کسی گروہ کا آلہٴ کار نہ بننا۔ دشمنوں نے تمہارے خلاف جو باتیں گھڑی ہیں ان کا چرچا نہ کرنا۔ وَیُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ الْاٰیَاتِ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ حَکیْمُ “ اللہ تم سے اپنے احکام کو کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ اس نے حکمت کی اساس پر ہی یہ آیات تمہارے لئے نازل کی ہیں۔
کتبِ حدیث میں ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم اہلِ بدعت کو دیکھو تو ان کا مقابلہ کرو۔ بدعت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دینِ خدا میں ایسی چیز شامل کر دے جو دین میں موجود نہ ہو، یعنی ایک من گھڑت بات کو دین سے منسوب کرنا۔ بدعت کی مخالفت کرنا سب مسلمانوں پر لازم ہے۔ مثلاً صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ آپ جب بھی صلوات پڑھیں گے تو آپ کے اس عمل (صلوات) کو مستحب شما رکیا جائے گا۔ فرض کریں ایک خطیب تقریر کے دوران اپنی تھکن دور کرنے کے لئے سامعین سے صلوات پڑھنے کو کہتا ہے تو یہ ایک پسندیدہ اور اچھا کام ہے۔ لیکن اگر آپ خیال کریں کہ اسلام نے حکم دیا ہے کہ خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھا کریں اور آپ اسلام کا حکم بجا لانے کی نیت سے صلوات پڑھیں گے تو یہ بدعت ہو گی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نے خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
ہم (ایرانیوں) میں ایک عادت پائی جاتی ہے جس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ جب چراغ جلایا جاتا ہے تو صلوات پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ میں بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ صلوات جب بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ لیکن ایران میں اس کا سابقہ ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ایران میں چونکہ آتش کی پرستش کی جاتی رہی ہے، آگ کا احترام کرنے کا رواج رہا ہے، اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری اس صلوات میں آتش کی تعظیم و تکریم کے وہ جذبات بھی شامل ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے کہ نماز کے ہنگام آپ کی توجہ خدا کی جانب ہونی چاہئے۔ اگر آپ کے روبرو کوئی شخص ہو تو آپ کی نماز مکروہ ہے کیونکہ اس سے آدم پرستی کی بو آتی ہے۔ تصویر کے بالمقابل نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے شکل پرستی کی بو آتی ہے۔ چراغ کے روبرو نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ اس لئے اب جب چراغ جلایا جائے تو صلوات نہ پڑھا کریں کیونکہ ا س سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں کو ”بدعت“ کہا جاتا ہے۔
بہت سی چیزیں بدعت ہیں اور لوگوں، خصوصاً عورتوں کے مابین ان کا رواج ہے۔ مثلاً ابودرداء کی نیاز۔ منگل کے دن بی بی کی نیاز۔ حضرت عباس کا لنگر۔ اسلام میں ایسی چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسلام میں حضرت عباس کے لنگر کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کوئی نیک کام کریں مثلاً فقراء کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب نبی اکرم پر نثار کریں، امیرالمومنین پر نثار کریں، فاطمہ زہرا پر نثار کریں، امام حسن، امام حسین یا کسی بھی امام پر نثار کریں، یا حضرت عباس پر نثار کریں۔ اگر آپ اس ثواب کو اپنے رفتگان میں سے کسی پر نثار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں دسترخوان لگائیں بشرطیکہ زنانہ انداب و رسومات جو عورتوں نے خود سے گھڑ لئے ہیں (مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون کونسے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کو اسلامی آداب سمجھ کر بجا لائے تو یہ بدعت بن جاتے ہیں) ترک کر دیں۔ اگر اس میں کسی مسلمان کو کھانا کھلائیں، خصوصاً مسلمان محتاجوں کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب حضرت عباس کو ہدیہ کر دیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ان افعال کو آداب و رسومات کے ساتھ اس خیال سے انجام دیا جائے کہ یہ بھی اسلام کا حصہ ہیں تو یہ بدعت اور حرام ہوں گے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدعت ایجاد کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں علی ابن محمد بابویہ کی طرح امامِ زمان کا خاص نائب ہوں تو اس کو ”اہلِ بدعت“ کہا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ ’اہلِ بدعت“ کی مخالفت کرو۔ عالم پر لازم ہے کہ وہ اہلِ بدعت سے نبردآزما ہو۔ اسے خاموش رہنے کا حق نہیں پہنچتا۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں ”وَباَھِتُوْ ھُمْ“ یعنی ان کو مبہوت کر دو، ان کو رسوا کرو۔ یعنی ان کے ساتھ مناظرہ کرکے ان کی دلیلوں کو باطل ثابت کرو۔ ”فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ“ جس طرح ابراہیم نے اپنے زمانہ کے کافر (فرعون) کو مبہوت کیا تھا۔ اسی طرح تم بھی ان کو مبہوت کرو۔ کم عمل رکھنے والے بعض افراد نے ”باھتوھم“ کا معنی کیا ہے کہ ”ان پر تہمت لگاؤ اور ان سے جھوٹی بات منسوب کرو۔“ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اہلِ بدعت خدا کے دشمن ہیں اس لئے ان پر تہمت لگانا جائز ہے۔ جس کے ساتھ بھی ان افراد کی ذاتی دشمنی ہو اس کو ملعون و اہلِ بدعت قرار دے دیتے ہیں، صغریٰ و کبریٰ تشکیل دینے کے بعد غلط باتوں کو منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ حضرات توجہ کریں کہ جو معاشرہ اپنے ذاتی اور شخصی دشمنوں کو اہلِ بدعت قرار دینے جیسے مرض میں مبتلاء ہو گیا ہو اور ”بَاھِتُوْھُمْ“ کا ترجمہ ”ان پر تہمت لگاؤ“ کرتا ہو وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہو گا۔ اور اس وقت آپ دیکھیں گے کہ دھڑادھڑ جھوٹ گھڑے جا رہ یہیں۔ ایک مرتبہ ایک عالم (عالم سے بھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے) میرے پاس آیا او رکہنے لگا میں نے سنا ہے کہ فلاں شخص (وہ ایسا شخص تھا جو پورے طور پر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہے) العیاذ باللّٰہ، اس بات کو بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے، لیکن چونکہ موعظہ ہے اس لئے بیان کر رہا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ ہمارا معاشرہ شرمناک حد تک بگڑ چکا ہے۔ تو اس عالم نے کسی سے سنا تھا وہ عالم خود بہت نیک اور پارسا ہے۔ اس نے کہا کہ فلاں شخص نے کہا ہے کہ کتنا ہی اچھا ہوا۔ نعوذ باللہ۔ کہ حضرت فاطمہ کا بیٹا محسن سقط ہو گیا کیونکہ اگر وہ بھی زندہ رہتا تو اسلام کے لئے کئی مصیبتیں کھڑی کرتا! میں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں؟ وہ مسلمان ہے میں اسے قریب سے جانتا ہوں۔ جب وہ اَئمہ کے مصائب سنتا ہے تو اس کے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔
غور کیجئے کہ کس قدر ایک دوسرے پر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں اور جس معاشرے کاکام ہی دروغ گوئی اور تہمت لگانا ہو خدا نے اس کو عذاب دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ بعد کی آیت یہ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابُ  اَلِیْمُ  فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۱۹)
 

صرف علی

محفلین
تیسری تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ​
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَھُمْ عَذَابُ  اَلِیْمْ  فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تََعْلَمُوْنَ۔ وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ وَاَنَّ اللّٰہَ رَ ءُ فُ  رَّحِیْمُ ۔ یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّہ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَولاَ فَضلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ مَا زَکیٰ مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعُ  عَلِیْمُ ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۱۹ تا ۲۱)
گزشتہ تقریر میں ہم نے کہا تھا کہ قرآنِ کریم نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ اسلامی معاشرے میں سرے سے ہی تہمت، بہتان، افتراء اور بدگوئی کا وجود تک نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان جب بھی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے متعلق کوئی ناروا بات سنیں تو جب تک ان کو اس کا (گمان و ظن نہیں بلکہ) قطعی یقین نہ ہو جائے اور کوئی شک باقی نہ رہے، یا وہ بات شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے ان پر لازم ہے کہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں۔ بالفاظ دیگر اس پر مٹی ڈال دیں۔ یہاں تک کہ اس بات کا ذکر کسی دوسرے شخص سے یہ کہہ کر بھی نہ کریں (”میں نے سنا ہے“ کہ…) نہ صرف یہ کہ اس غلط نسبت کو پورے وثوق کے ساتھ بیان نہ کریں بلکہ یہ بھی نہیں کہیں کہ ”میں نے ایسی بات سنی ہے۔“ کیونکہ ” میں نے سنا ہے“ کہنے سے بھی اس بات کی تشہیر ہوتی ہے۔ اسلام ایسی بری، غلیظ اور ناپاک خبروں کی تشہیر کو ناپسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس آیت کے ذیل میں ایک جملہ ہے جس میں خدا ارشاد فرماتا ہے۔ ”وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ۔“ وہ بتانا چاہتا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس ظلم کی سزا کتنی زیادہ ہے۔ اسلام چاہتاہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور ایک دوسرے کے متعلق اچھا گمان رکھنے کا ماحول قائم کرے، نہ یہ کہ اس میں بے اعتمادی، بدگمانی اور بدگوئی کا ماحول پایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غیبت کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں: ”وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّا کُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا۔“ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کی غیبت کرنے والا شخص درحقیقت اپنے اس مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
اسی بناء پر قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کی صورت میں اس مطلب پر بہت زور دیا ہے۔ ایک آیت یہ ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابُ  اَلِیْمُ ۔ (سُورہٴ نور، آیت ۱۹)
اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد بیان کروں گا کہ اس کی تفسیر دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے اورمفسرین نے دونوں طرح سے اس کی تفسیر کی ہے۔ دونوں تفسیریں ایک دوسری کے بہت قریب ہیں۔ آیت کہتی ہے کہ بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ موٴمنین کے درمیان فحشاء کا رواج ہو ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو اپنے دامن میں دو دو معانی سمیٹے ہوئے ہیں اور دونوں معانی درست ہیں۔
جن بڑے گناہوں کے ارتکاب پر خدا نے ”عذابِ الیم“ کی وعید کی ہے ان میں لوگوں کے درمیان فحشاء کو عام کرنے کا گناہ بھی ہے۔ بعض لوگ عملی طور پر فحشاء کی ترویج میں مصروف ہیں۔ وہ یا تو دولت کی خاطر یا دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے اس کی ترویج کر رہے ہیں۔ البتہ دورِ حاضر میں یہ مقاصد عموماً سامراجی ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اشخاص فحشاء کو عام کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ لوگوں کی مردانگی کو فحشاء کا رواج جتنا زیادہ متزلزل کرتا ہے دوسری کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ اگر آپ کسی ملک کے نوجوانوں کی توجہ اہم مسائل (ایسے اہم مسائل جو سامراج کے مفاد کو خطرے میں ڈالتے ہیں) سے ہٹا کر انہیں عیش و نوش جیسے امور میں مشغول کرنا چاہیں تاکہ وہ کبھی بھی ان اہم مسائل کے متعلق غور و فکر نہ کریں اور نہ ہی ان کی جانب متوجہ ہوں، تو اس کا حربہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو شراب فروشی میں اضافہ کیجئے، میخانوں کی تعداد بڑھائیے، بازاری عورتوں میں اضافہ کیجئے، لڑکے لڑکیوں کی ملاقاتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیجئے۔ جس قدر ہیروئن اور تریاک نوجوان طبقے کی جسمانی و روحانی قوت کو تباہ کرتے ہیں، لوگوں سے قوت ارادی چھین لیتے ہیں، ان کے ارادے کو متزلزل کر دیتے ہیں، عزتِ نفس اور شرافت کے احساس اور مردانگی کو تباہ کرتے ہیں، اسی قدر فحشاء کا کردار بھی ہے۔ امریکی حکمران جو پوری دنیا کو برائیوں میں مبتلا کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں، ان کا منصوبہ یہی ہے کہ فحشاء پھیلائیں تاکہ عوام کی جانب سے انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک رسالہ کے مدیر نے اس ہفتے کے شمارے میں کہا ہے کہ ”میں ایسا حربہ اختیار کروں گا کہ تہران میں آئندہ دس سالوں تک دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکی کی بکارت محفوظ نہیں رہے گی۔“
اسلام پاکدامنی پر اتنا زیاندہ زور کیوں دیتا ہے؟ ایک رات میں نے پاکدامنی کے فلسفہ پر تقریر کی تھی۔ پاکدامنی کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انسانی قوتیں جسموں میں جمع ہوں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسانی جسم کے ”اوپری حصے کی نچلی جانب“ سے انسان کی قوت ارادی بھی خارج ہوتی ہے۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ جنسی عمل بالکل انجام نہ دیا جائے۔ وہ بیوی کے ساتھ جنسی عمل انجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کلیسا اور کتھولک عیسائیوں کی رائے سے متفق نہویں ہے۔ البتہ دائرہٴِ ازدواج سے باہر رہ کر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ اور یہ تدبیر اسلام نے زن و مرد کی شرافت، انسنیت، مروت اور مردانگی کو محفوظ کرنے کے لئے اختیا رکی ہے۔
پردہ کے متعلق بعد میں چند آیات آئیں گی۔ ان کے ضمن میں ہم اسی موضوع پر مزید گفتگو کریں گے۔
جو لوگ روح کو تباہ کرنے کے لئے فحشاء کی ترویج کرتے ہیں، قرآن ان کے متعلق فرماتا ہے ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابُ  اَلِیْمُ “ جو لوگ موٴمنین کے درمیان فحشاء کو زیادہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے خدا نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہاں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے اس (عذابِ الیم) کو قرآن کی آیت میں کیوں بیان کیا ہے؟ یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ مسئلہ اسلام کی نظر میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے!
پس اس آیت کی ایک تفسیر یہی ہے کہ قرآن موٴمنین کے درمیان فحشاء پھیلائے جانے کا سختی سے نوٹس لیتا ہے۔ آیت کے دوسرے معنی کی وضاحت کی خاطر میں اس جگہ لفظ ”فی“ کے متعلق ایک ادبی نکتہ ذکر کرنے پر مجبور ہوں۔ فارسی میں ”فی“ کی جگہ ”در“ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں ”درخانہ“ جس کو عرب ”فی الدار“ کہتے ہیں۔ بعض اوقات عربی زبان میں لفظ ”فی“ لفظ ”در“ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات لفظ ”دربارہ“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مقام پر اس آیت کی تفسیر اس طرح بھی کی جا سکتی ہے اور بعض مفسرین نے اسی طرح کی ہے۔ اور دونوں تفسیریں درست ہیں۔ یہ دونوں معانی آیاتِ اِفک سے مربوط ہیں۔ آیت کا دوسرا معنی یہ ہے۔ ”وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مومنین کے بارے میں فحشاء عام ہو“ یعنی اب اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ ”مومنین کے درمیان فحشاء عام ہو“ بلکہ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ موٴمنین کے متعلق فحشاء عام ہو، یعنی جو لوگ ایمان والوں سے بری باتیں منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگ حاسد ہوتے ہیں۔ جب یہ دیکھتے کہ کسی شخص کو معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل ہے تو چونکہ اس سے حسد کرتے ہیں اور دوسری جانب ان میں آگے بڑھنے اور اچھا مقام حاصل کرنے کی اہلیت و ہمت نہیں پائی جاتی، اس لئے فوراً اس پر کوئی تہمت لگانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے دل میں کہتے ہیں کہ ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا اب اس کو لوگوں کی نظروں سے گرائیں گے۔ (وہ یہ کام کس طرح انجام دیتے ہیں؟) یہ کام بہت مشہور کر دیتے ہیں، اس پر کوئی تہمت لگا دیتے ہیں جبکہ خدا جانتا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ ایک مرتبہ نبی اکرم نے اپنے اصحاب سے فرمایا ” اَلَآ اُخْبِرُکُمْ بِشَرٍّ النَّاسِ“ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے زیادہ برا کون ہے؟ اصحاب نے عرض کیا ”بلیٰ یارسول اللہ“ جی ہاں یارسول اللہ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ایسا شخص سب سے زیادہ برا ہے جس سے دوسروں کو بھلائی نہ پہنچے۔ اس کے پاس جو کچھ بھی ہو اسے فقط اپنی ذات تک محدود رکھے۔ جو اصحاب نبی اکرم کے ہمراہ تھے انہوں نے گمان کیا کہ ایسے شخص سے زیادہ برا اور کوئی نہیں ہو گا۔ مگر آپ نے فرمایا: ”کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اس شخص سے بھی زیادہ برا کون ہے؟“ تب آپ نے دوسرے گروہ کا نام لیا۔ اصحاب نے کہا ہمارا خیال تھا کہ اس دوسرے گروہ سے زیادہ برا کوئی نہیں ہو گا۔ لیکن نبی اکرم نے فرمایا ”کیا میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ برا کون ہے؟“ اصحاب نے عرض کیا ”کیا ان سے زیادہ برا بھی کوئی ہے؟“ تو اس وقت آپ نے تیسرے گروہ کا نام لیا۔ اور وہ گالیاں بکنے، تہمت لگانے، دوسروں کو بے آبرو کرنے والے اور بدزبان لوگوں کا گروہ ہے۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔ یعنی ان سے زیادہ برا او رکوئی نہیں۔
پس آیت کا دوسرا معنی یہ ہوا کہ ” جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان سے ناروا باتیں منسوب ہوں اور ان کا چرچا ہو وہ جان لیں کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔“
اس کے بعد خدا فرماتا ہے ”فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة ”دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں“ ان پر دردناک عذاب نازل ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ فقط آخرت میں ہی عذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ دنیا میں بھی ان کو عذاب سے دوچار کرے گا۔
مجازات کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ ہر گناہ کی سزا اسی دنیا میں ملے گی۔ بہت سے گناہوں کی سزا اس دنیا میں نہیں دی جاتی جبکہ آخرت میں ہر گناہ کی سزا دی جائے گی۔ البتہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں جن کی سزا خدا اسی دنیا میں بھی دیتا ہے۔ ان گناہوں کا عکس العمل اسی دنیا میں ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ (آپ تجربہ کرکے بھی دیکھ سکتے ہیں) ۔ ان میں سے کسی پر تہمت لگانے اور بے آبرو کرنے کا ایک گناہ ہے۔ جو شخص کسی پر جھوٹی تہمت لگاتا ہے ایک نہ ایک دن وہ اپنے کئے کی سزا پا لیتا ہے۔ یا تو کوئی دوسرا شخص اس جیسی تہمت اس پر لگا دیتا ہے۔ یا پھر وہ کسی اور طرح سے ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔
وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اورخدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔ قرآن بتانا چاہتا ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ خدا جانتا ہے کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔
”وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ وَاَنَّ اللّٰہَ رَ ءُ وْ فُ  رَّحِیْمُ ۔ “
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، اگر خدا مہربان اور روٴف نہ ہوتا تو اس غفلت کے سبب تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔ لیکن خدا کے فضل نے تمہیں بچا لیا۔ یعنی تم اپنی اس غفلت اور منافقین کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا کرنے کی وجہ سے دنیا میں ہی اتنے بڑے عذاب کے مستحق ہو گئے تھے کہ تمہارے پورے معاشرے کو نیست و نابود ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر خدا کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہیں بچا لیا۔
اس کے بعد قرآن مزید تاکید کرتا ہے۔ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعَ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّہ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ۔“ اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ اور جو شخص شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ ضرور اس کو بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دے گا۔“
اگر آپ کہیں کہ ہم تو شیطان کو نہیں پہچانتے، وہ ہمیں نظر نہیں آتا، لہٰذا ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہم اس کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ تو اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان کو اس کے وسوسوں سے پہچانو۔ جب آپ محسوس کریں کہ آپ کے دل میں ایک ایسے خیال نے جنم لیا ہے جو آپ کو برائی کی دعوت دے رہا ہے تو جان لو کہ اسی جگہ شیطان کا قدم ہے۔ شیطان آگے بڑھ کر آپ سے کہہ رہا ہے ”آجاؤ۔“ وہ خیال شیطان کا ”آجاؤ“ ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ شیطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ بلکہ اسے اپنے دل سے دیکھئے وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ۔“ شیطان کے نقش قدم پر چلنے والے کو جان لینا چاہئے کہ ”فَاِنَّہ یَاْمُرُ بِالْفَحْشآءِ والْمُنْکَرِ شیطان بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دیتا ہے۔“
”وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ۔“ دوبارہ ارشاد ہوتا ہے: اے مسلمانو! تم نبی اکرم کے زمانے میں ہی تباہی کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے تھے کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت (اور وہ بھی فقط پیغمبر کی وجہ سے) تمہیں اپنے دامن میں نہ لے لیتی تو تمہارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا اور تمہاری نجات کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ اور جان لو کہ اگر آئندہ کسی زمانے میں ایسا واقعہ پیش آئے اور مسلمانوں کے خلاف کثرت سے افواہیں اڑائی جانے لگیں تو سمجھ لو کہ تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے جیسا کہ آج کل ہم تباہ ہو چکے ہیں۔ ” وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا۔“ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی کبھی پاک ہی نہ ہوتا۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعُ  عَلِیْمُ  لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اور جس کو مستحق سمجھتا ہے گناہ سے پاک کر دیتا ہے۔ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ دوسری آیت بھی اسی واقعہ کے بارے میں ہے۔ البتہ اس واقعہ کے ذیل میں ایک اور مطلب پایا جاتا ہے۔
وَلاَ یَاتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃ اَنْ یُّوٴتُوْٓا اُولِی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُھَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَتُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرُ  رَّحِیْمُ ۔“ (سُورہٴ نُور، آیت ۲۲)
یہ ایک واقعہ کو بیان کر رہی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ بعض مسلمان قرآن کے الفظ میں ”اُولُواالْفَضْلِ“ تھے (جو انفاق نہیں کرتے تھے) اس فضل سے مراد مال و دولت ہے۔ یہ لوگ اہلِ فضل تھے یعنی مال دار تھے۔
دورِ حاضر میں لفظ ”فضل“ علمی فضلیت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب اگر ہم کہیں کہ فلاں شخص فاضل ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم ہے، ”وہ فضلاء میں سے ہے“ ، یعنی علماء میں سے ہے۔ لیکن قرآن مجید میں لفظ ”فضل“ کا اطلاق اس مال و دولت پر بھی کیا گیا ہے جسے جائز ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو۔ مثلاً سورہ جمعہ میں ارشاد ہے کہ جب تم نماز جمعہ سے فارغ ہو جاؤ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ”فضلِ الٰہی کی تلاش میں نکل پڑو“ یعنی محنت مزدوری، کام اور تجارت کرو اور پیسہ کماؤ۔ قرآن فرماتا ہے کہ جو مسلمان جائز ذرائع سے مالدار بنے ہیں اور انفاق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ دوسروں کی مالی امداد روک لینے کی قسم نہ کھائیں۔ صاحبِ توفیق اور دولتمند مسلمان مہاجرین، مساکین اور اپنے قرابت داروں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک واقعہ (بظاہر یہی افک والا واقعہ) پیش آیا جس کے باعث ان دولتمند مسلمانوں کو ان کی جانب سے دلی صدمہ پہنچا۔ وہ ان سے ناراض ہو گئے اورتعجب کے ساتھ کہنے لگے۔ ”ہم تو خدا کی خوشنودی کی خاطر ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے جبکہ یہ لوگ اس سے سوء استفادہ کرکے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہم ان کی امداد کرتے ہیں جبکہ یہ افواہیں اڑاتے ہیں، جھوٹی خبروں کی تشہیر کرتے ہیں۔ انہوں نے واقعہ افک میں حصہ لینے والے ان فقراء و مساکین کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کر لیا اور ان کی امداد نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ قرآن اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس مقام پر افک و تہمت کا واقعہ پیش آیا تھا اور عام مسلمانوں سے غلطی سرزد ہوئی تھی مگر پھر قرآن یہاں مسلمانوں کی اس غلطی کی فقط اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ وہ عامة المسلمین سے کہہ رہا ہے کہ تم نے ایک منظم گروہ کی افواہ کا چرچا کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ لیکن جب مالدار مسلمانوں نے ان کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کیا، اور اگر وہ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے تو جو لوگ جدا ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لئے ان سے جدا ہو جاتے۔ اس لئے قرآن نے فرمایا کہ تمہیں درگز سے کام لینا چاہئے۔ اب ان کی غلطی سے چشم پوشی کرو اور انہیں معاف کر دو۔ وَلاَ یَاْ تَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃ۔“ اور تم میں سے مالدار اور صاحب مقدور لوگ یہ قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ رشتہ داروں، مساکین اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دیں گے، بلکہ اب بھی ان کی امداد کریں۔ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ ”انہیں معاف کریں، درگزر سے کام لیں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے“؟ یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مالی امداد بحال کر دی۔
 

صرف علی

محفلین
اس جگہ ایک نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے۔ جو اشخاص اسلام کی منطق سے آگاہ نہیں اور پورے طور پر اس سے آشنا نہیں ہیں وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اسلام نے محبت کو اس کا جائز مقام عطا کیا ہے۔ عیسائیوں نے مشہور کیا ہے اور اب بھی وہ یہی مشہور کر رہے ہیں کہ عیسائیت ”محبت کا دین“ ہے، بھلائی کرنے اور درگزر کرنے کا دین ہے۔ کیوں؟ ان کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰنے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا رخسار اس کے سامنے کردو اور کہو کہ اب اس پر بھی مار جبکہ اسلام سخت گیری کا قائل ہے، اسلام تلوار کا دین ہے، اس میں درگزر کرنے کا ذکر تک نہیں، محبت کا نام و نشان تک نہیں عیسائیوں نے اس کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں، درحالانکہ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اسلام دینِ شمشیر بھی ہے اور دینِ محبت بھی۔ وہ سختی سے بھی کام لیتا ہے اور نرمی سے بھی جہاں سختی برتنے کا مقام ہو وہاں سختی برتنے کا حکم دیتا ہے اور نرمی برتنے کے مقام پرنرمی کو جائز قرا ردیتا ہے۔ اسلام کی عظمت و اہمیت کا راز بھی اسی میں پوشیدہہے۔ اگر اسلام ایسا نہ ہوتا یعنی اگر وہ نہ کہتا ”طاقت کا جواب طاقت سے دو، منطق کا جواب منطق کے ذریعے دو، محبت کے مقام پر محبت کرو، حتیٰ کہ بعض ایسے مقامات پر کہ جہاں تمہارے حق میں بدی کی گئی ہو وہاں تم اس کا جواب نیکی کے ساتھ دو تو ہم اس دین کو تسلیم ہی نہ کرتے۔
اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی ستمگر تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو دوسرا رخسار اس کے سامنے کر دو۔ وہ کہتا ہے فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتدٰی عَلَیْکُمْ“ (بقرہ۔ ۱۹۴)
جو شخص تم پر زیادتی کرے تو ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے۔ اگر اسلام نے اس طرح نہ کہا ہوتا تو یہ ایک ناقص دین ہوتا۔
عیسائیت کے غیر قابلِ عمل ہونے کی ایک دلیل یہی ہے کہ اس کے پیروکار پوری دنیا کے لوگوں سے زیادہ خونخوار ثابت ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے اور انجیل ہاتھ میں لے کر کہا کرتے تھے کہ یہ ”محبت کی کتاب“ ہے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی لوگ بیسیوں ٹن ”محبت“ ویٹ نام پر برسا رہے ہیں۔ اسی محبت کاحکم ان کو انجیل نے دیا ہے؟ اس محبت نے بم حتیٰ کہ نیپام بم کی شکل اختیارکر لی ہے۔ جس کے زمین پر پڑتے ہی بچے، بوڑھے اور عورتیں جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اسلام ابتداء میں محبت سے کام لیتا ہے۔ جہاں محبت کارگر نہ ہو وہاں خاموش نہیں رہتا۔ وہ کہتا ہے ”چون پند دھند نشنوی بند نہند۔“ علی نے نبی اکرم کے متعلق فرمایا ”طَبِیْبُ  دَوَّارُ  بِطِبِّہ قَدْ اَحْکَمَ مَرَاھِمَہ وَاَحْمٰی مَوَاسِمَہ۔ آپ چلتے پھرتے طبیب ہیں۔ آپ کے ایک ہاتھ میں مرہم ہے اور دوسرے میں آپریشن کے آلات۔ جہاں مرہم پٹی کے ساتھ معالجہ ہو سکتا ہو وہاں آپ مرہم پٹی کرتے ہیں اور جہاں مرہم کارگر ثابت نہ ہو وہاں آپ نشتر استعمال کرتے ہیں، وہاں داغنے کے آلات سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ دونوں سے استفادہ کرتے ہیں، سختی سے بھی اور نرمی سے بھی۔
سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔
درشتی و نرمی بہ ہم در بہ است
چورگزن کہ جراح و مرہم نہ است
اور یہ بالکل وہی بات ہے کہ جو امیرالموٴمنین نے بیان فرمائی ہے…یہ اللہ کی طرف دعوت دینے کی بات ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ”اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَوَة کَاَنَّہ وَلِیّ حَمِیْمُ  ۔“ اے پیغمبر (آپ کا فریضہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانا ہے) جان لو کہ نیکی اور بدی ہم وزن نہیں ہیں، حتیٰ کہ برائیں بھی ایک جیسی نہیں ہیں اور نہ ہی تمام نیکیاں ایک ہی درجے کی ہیں۔ تم برائیوں کو بہترین نیکیوں کے ذریعے دور کر دو۔ ”اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔“ دوسرے لوگ تمہارے حق میں بدی کرتے ہیں مگر تم نیکی سے پیش آؤ۔ اس کے بعد قرآن نفسیاتی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اگر تمہارا دشمن تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے اور تم اس کا جواب بھلائی سے دو تو تم دیکھ لو گے کہ برائی کا جواب نیکی کے ساتھ دینے میں کیمیا کا اثر ہے، یعنی یہ نیکی ماہیت کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم دیکھو گے کہ جو تمہارا جانی دشمن تھا اس کی ماہیت بدل چکی ہے اور وہ تمہارا مہربان دوست بن چکا ہے۔
کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کرنے کا حکم نہیں دیتا؟ کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کا دین نہیں ہے؟ اسلام محبت کا دین ہے۔ لیکن جہاں محبت موثر نہ ہو اس جگہ اسلام خاموشی نہیں سادھ لیتا بلکہ سخت گیری کرتا ہے، تلوار استعمال کرتا ہے۔ آپ ”اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَة کَاَنَّہ وَلِیّ حَمِیْمُ  “ کے حوالہ سے نبی اکرم، امیرالمومنین اور دوسرے ائمّہ طاہرین کی سوانح حیات میں بہت سے واقعات پڑھتے ہیں۔ اگر آپ بدی کا جواب نیکی سے دیں گے تو اس کا اچھا نتیجہ بھی دیکھ لیں گے۔ اس عمل کا اثر یہ ہے کہ یہ دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔
دعائے ”مکارمِ اخلاق“ میں بہت عمدہ مضامین پائے جاتے ہیں۔ ” اے خدا مجھے اس بات کی توفیق عطا کر کہ جو شخص مجھے گالی بکے میں اس سے اچھی بات سے پیش آؤں۔ جو شخص مجھ سے اپنا رشتہ توڑ ڈالے میں اس کے ساتھ ناطہ جوڑ لوں۔ جو میری غیرموجودگی میں میری غیبت کرے میں اس کی عدم موجودگی میں اس کی خوبیاں بیان کرو۔“ اس دعا میں اس قسم کے بہت زیادہ جملے پائے جاتے ہیں۔
خواجہ عبداللہ انصاری نے بھی اس مطلب کو بہت اچھے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا شیوہ ہے۔ کتے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ جب ایک کتا دوسرے کتے کو کاٹتا ہے تو دوسرا کتا پہلے کتے کو کاٹ لیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے برا سلوک کرے اور وہ بھی جواب میں برا سلوک کرے تو اس دوسرے شخص نے کتے کی مانند عمل انجام دیا ہے۔ اگر انسان کتے کو مارے تو وہ فوراً پلٹ کر اس کی ٹانگ پر کاٹ لیتا ہے۔ اور بھلائی کا جواب بھلائی سے دینا گدھوں کا شیوا ہے، یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے اچھا سلوک کرے اور وہ بھی اس کا جواب نیکی سے دے تو اس نے کوئی قابل تحسین کام نہیں کیا۔ جب ایک گدھا دوسرے گدھے کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجاتا ہے تو دوسرا گدھا بھی اس کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجلاتا ہے۔ اتنی سی بات تو گدھا بھی جانتا ہے کہ نیکی کا جواب نیکی سے دینا چاہئے اور احسان کے بدلہ میں احسان کرنا چاہئے اور برائی کا جواب بھلائی سے دینا، برائی کے مقابلہ میں نیکی سے پیش آنا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔ قرآن فرماتا ہے۔ وَلاَ یَاْ تَلِ اُواالْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعۃ اَنْ یُّوٴتُوْٓا اُولی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُھَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ”دولتمند مسلمان قسم نہ کھالیں۔“ اس مقام پر ان کی دینی غیرت جوش میں نہ آئے۔ تہمت کا چرچا کرنے والوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے برا کام کیا ہے لیکن تم ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ۔ تم قسم نہ کھاؤ کہ اپنے قرابت داروں، مساکین اور راہِ خدا کے مہاجرین کی مالی امداد اس وجہ سے روک لو کہ انہوں نے تہمت کا چرچا کرنے جیسے برے فعل کا ارتکاب کیا ہے وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا انہیں معاف کر دیجئے، درگزر سے کام لیجئے۔ اَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے گناہ معاف کر دے؟ (کِس قدر عمدہ تعبیر ہے!) اے انسانو! تم ایک دوسرے کے گناہوں سے درگزر کیا کرو کیونکہ تم خود بھی گناہ گار ہو اور یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو نظرانداز کر دے گا تو جس سلوک کی امید تمہیں خدا سے ہے تم بھی ویسا ہی سلوک لوگوں سے روا رکھو۔ ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ۔ جہاں تک بھی ممکن ہو بھلائی کے ذریعے گناہ گاروں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرو اور اگرایسا ممکن نہ ہو، یعنی اگر بھلائی موٴثر نہ ہو تب سخت گیری سے کام لو۔
اَئمہ طاہرین کے پسندیدہ خصائل میں ایک یہ ہے کہ وہ بہت سے غلام خرید کر ان کو کچھ عرصے تک اپنے گھروں میں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اسلام میں غلامی کا فلسفہ یہ ہے کہ غلاموں کے لئے ایک ایسا عرصہ (کفر کے زمانہ سے لے کر آزاد ہونے تک کا عرصہ) ہونا چاہئے جس میں وہ مسلمان افراد سے اسلامی تربیت حاصل کر سکیں۔ اور اسلام کے اس عمل کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ کام بھی اَئمہ طاہرین کے مختصات میں سے ایک تھا، (چونکہ زکوٰة کا ایک مصرف یہ ہے کہ غلام خرید کر آزاد کئے جائیں لیکن جس غلام نے اسلامی تربیت حاصل نہ کی ہو اسے خریدتے ہی آزاد کر دینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی غلام ایسا ہو جس نے پہلے سے اسلامی تربیت حاصل کر لی ہو تو اس کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی غلام نے پہلے سے تربیت نہ پائی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کچھ مدت تک حقیقی مسلمانوں میں سے کسی کے گھر میں رکھا جائے تاکہ وہ اسلامی آداب و رسوم سے آگاہ ہو جائے اور اس کے بعد اسے آزاد کیا جائے۔ ائمہ طاہرین یہ کام بہت زیادہ انجام دیتے تھے۔ جو غلام کچھ مدت تک ان کے گھر میں رہتے وہ اسلام کی حقیقت و ماہیت سے آشنا ہو جاتے اور اسلام ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔ امام زین العابدین کے گھر میں بہت سے غلام تھے۔ سال کے دوران اگر کسی غلام سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو امام سجاد اسے ایک کاپی میں تحریر کر لیتے اور ماہِ رمضان کے آخری دن (یا آخری رات) میں تمام غلاموں کو جمع کرکے ان کے درمیان کھڑے ہو جاتے۔ کاپی منگواتے اور ان کو مخاطب کرکے فرماتے اے فلاں…تم کو یاد ہے کہ فلاں وقت تم نے نافرمانی کی تھی؟ وہ جواب دیتا جی ہاں (آپ باری باری ہر ایک کو اس کی خطائیں یاد دلاتے اور) آپ فرماتے: ”خدایا! یہ میرے ماتحت ہیں انہوں نے میرے حق میں بدی کی ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں۔ میں ان سب کو معاف کرتا ہوں۔ اے میرے مالک میں بڑا گناہگار ہوں۔ اے خدا اس گناہ گار بندے کو معاف کر دے۔“ پھر آپ ان تمام غلاموں کو راہِ خدا میں آزاد کر دیتے۔
آپ نے توجہ فرمائی کہ اسلام میں ”درگزر کرنے“ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ البتہ اسلام اجتماعی مسائل میں درگزر سے کام لینے کو روا نہیں رکھتا کیونکہ اس درگزر کا تعلق کسی ایک شخص کی ذات سے نہیں، کسی ایک فرد سے نہیں، بلکہ معاشرے سے ہوتا ہے۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اب جس کا مال چوری ہوا ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کو معاف کرتا ہوں، لہٰذا معاشرہ بھی اسے معاف کر دے۔ معاشرہ اس کو معاف نہیں کرتا۔ یہ تیرا (یعنی جس کا مال چوری ہوا ہے اس کا) حق نہیں ہے بلکہ معاشرے کا حق ہے۔
روایت میں ہے کہ ایک امیرالمومنین علیہ اسلام (جیسا کہ آپ کا ظاہری خلافت کے زمانے میں معمول تھا کہ ہر جگہ اکیلے ہی جاتے تھے، حتیٰ کہ خلوت کی جگہوں پر بذاتِ خود جاتے اور حالات کا جائزہ لیتے) کوفہ کے ایک باغ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ”الغوث!“ یعنی کوئی شخص مدد طلب کر رہا تھا۔ صرف ظاہر ہو رہا تھا کہ لڑائی ہو رہی ہے۔ آپ تیز تیز قد اٹھاتے ہوئے آواز کی طرف بڑھے۔ آپ نے دیکھا کہ دو آدمی ہاتھاپائی میں مصروف ہیں اور ایک شخص دوسرے کو پیٹ رہا ہے۔ آپ کے پہنچنے پر ان کا جھگڑا ختم ہو گیا۔ (شاید امام نے ان میں صلح کرائی ہو) پتہ چلا کہ وہ دونوں آپس میں دوست ہیں۔ آپ جب مارنے والے ک وسزا کی خاطر اپنے ساتھ لے کر جانے لگے تو پٹنے والے نے کہا میں اسے معاف کئے دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنی جانب سے اسے معاف کر دیا تو یہ تمہارا حق تھا۔ لیکن ایک حق سلطان کا بھی ہے یعنی حکومت کا بھی ایک حق ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ اسے سزا دے اس حق کو تم معاف نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا تعلق تمہارے ساتھ نہیں ہے۔
میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس حق کا تعلق معاشرے کے ساتھ ہو اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا، اسے اسلام معاف نہیں کرتا۔ کسی شخص کا ذاتی حق معاف کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ اگر کوئی شخص کسی مجرم و گناہ گار کی مالی امداد کیا کرتا تھا، اب اس کی امداد روکنا چاہے تو یہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اسے معاف کردو۔ امداد بحال کر دو۔ یہی وجہ ہے قرآن بارِ دیگر عفو وچشم پوشی کا حکم دے رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو محبت اور بھلائی کے ذریعہ تدارک کرے۔
اب ہم اس سے اگلی آیت پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قرآن میں تہمت (خصوصاً عورتوں پر تہمت) لگانے کے موضوع پر جتنا زور دیا گیا ہے کسی اور موضوع پر نہیں دیا گیا ”اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُوٴمِنَاتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَلَھُمْ عَذَابُ  عَظِیْمُ ۔“ جو لوگ پاکدامن غافل عورتوں (غافل عورت سے مراد وہ عورت ہے جو ہر بات سے بے خبر ہو کر اپنے گھر میں رہتی ہے) پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ ”یَومَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُم وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُون۔“ جس دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے۔
یہ قرآن کی منطق ہے البتہ یہاں اس کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن بڑی صراحت کے ساتھ بتا رہا ہے کہ جہانِ آخرت زندہ ہے، اس جہان کی ہر چیز زندہ ہے اور اس جہان میں تمام اشیاء اور اعضاء ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کاانہوں نے ارتکاب کیا ہو گا۔ ہاتھ گواہی دے گا کہ میں نے فلاں کام کیا تھا۔ اسی طرح پاؤں، آنکھ اور کان بھی اپنے اپنے افعال کی گواہی دیں گے۔ بدن کی جلد (حدیث میں آیا ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ ہے) بھی اپنے فعل کی اطلاع دے گی۔ اس دن زبان پر مہر لگا دی جائے گی۔ (اس سے کہا جائے گا) اے زبان تو خاموش رہ، اعضاء و جوارح کو بولنے دے۔ زبان بولے گی تو فقط ان گناہوں کی گواہی دے گی جن کا اس نے ارتکاب کیا ہو گا۔ قرآن فرماتا ہے کہ جس دن اشخاص کی زبانیں، (چونکہ انہوں نے زبان سے گناہ کئے تھے) ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن اعمال کو وہ انجام دے چکے ہوں گے۔ ”یَوْمَئِذٍ یُّوَفِیْھِمُ اللّٰہُ دِیْنَھُمُ الْحَقَّ “ اس دن خداان کو پوراپورا بدلہ دے گا۔
اگر کوئی عورت۔ ”نَعُوْذُ بِاللّٰہِ“ بری ہو جائے اور اپنے دامنِ عفت کو داغدار کر لے تو مرد کی شرافت بھی داغدار ہو جاتی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی مرد بدفعلی سے آلودہ ہو تو اس کی بیوی کی شرافت پر زیادہ حرف نہیں آتا بلکہ اس کی شرافت پر تو بالکل ہی حرف نہیں آتا۔ اس میں ایک نفسیاتی راز ہے۔ میں نے چند سال قبل خواتین کے مجلے میں ”عورت“ کے متعلق مقالات تحریر کئے۔ (جو اس مجلے میں بیان شدہ مقالات کے خلاف تھے)۔ ان مقالات میں میں نے اس راز کو بیان کیا تھا۔ اسلام کے بہت سے احکامات کی بنیاد بھی اسی مطلب پر استوار ہے۔ اگر کوئی عورت بدکار ہو تو اس کا شوہر اپنی شرافت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جبکہ ایسی نیک خواتین بکثرت معاشرے میں پائی جاتی ہیں جن کے شوہر بدکار ہیں لیکن لوگ ان خواتین کو بدکار شمار نہیں کرتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شوہر بدکار ہے تو اس کا بیوی سے کیا تعلق۔ اگر شوہر کثیف ہے تو بیوی کا کیا قصور؟ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت پاکدامنی جیسے امور میں مرد کی ناموس ہے۔ اس کے ذاتی و شخصی امور کا تعلق اس کے شوہر سے نہیں ہوتا۔ یعنی اگر کوئی عورت (نعوذ باللہ) بدکار ہو جائے تو شوہر کی آبرو پر حرف آتا ہے۔ لیکن اگر عورت میں کوئی دوسرا عیب ہو تو یہ مرد کا عیب نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی عورت مومنہ نہ ہو بلکہ حقیقت میں کافرہ یا منافقہ ہو، تو اس بات سے شوہر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ”حضرت نوح اور حضرت لوط“ کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے۔ وہ دونوں پیغمبر تھے جبکہ ان کی بیویوں کے دل نورِ ایمان سے منور نہیں تھے۔ عقیدہ کے اعتبار سے وہ ان کے مخالفین کی صف میں تھیں۔ اس جگہ قرآن کریم فرماتا ہے: ”خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں، ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں۔“ اس ”پاکیزگی“ سے مراد ناموس کی پاکیزگی ہے۔
ناپاک مرد غیرت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ ناپاک عورت کو قبول کرتا ہے اور یوں ایک طرح کا انتخاب جنم لیتا ہے۔ پاک اشخاص ان اشخاص کو ڈھونڈتے ہیں جو پاک ہوں او رناپاک اشخاص اپنے جیسوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس جگہ خدا نے شرعی قانون بیان نہیں کیا ہے بلکہ قرآن ایک فطری قانون بیان کر رہاہے۔ آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ پاک نوجوان لڑکا شادی کے لئے ایسی لڑکی کو تلاش کرتا ہے جو پاکدامن ہو اور پاک لڑکی بھی پاک شوہر کو پسند کرتی ہے جبکہ آلودہ اور کثیف نوجوان اس لڑکی سے بھی شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جو کئی لڑکوں سے ناجائز تعلقات قائم کر چکی ہو۔
کثیف مرد کی کثیف روح کثیف عورت کو پسند کرتی ہے اور کثیف عورت کی کثیف روح کثیف مرد کو پسند کرتی ہے جبکہ پاک مرد کی پاک روح پاک عورت کا انتخاب کرتی ہے اور پاک عورت کی پاک روح پاک مرد کا انتخاب کرتی ہے۔
آپ لوگ نبی اکرم اور ان کی ناموس کے متعلق کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ کسی بھی پیغمبر کے خاندان میں ایسی برائیوں کا پایا جانا محال ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی پیغمبر کے گھر والے کافر ہوں، کسی نبی کا بیٹا کافر ہو، لیکن نبی کے گھر والوں کا فاسق ہونا محال ہے۔
”وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطَّاہِرِیْنَ۔“
 

صرف علی

محفلین
چوتھی تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْ خُلُوْا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا علیٰٓ اَھْلِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرُ  لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْآ فِیْھَا اَحَداً فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُوٴْذَنَ لَکُمْ وَ اِنْ قِیْلَ لَکُمْ ارْجِعُوْا فَارجِعُوْا ھُوَ اَزْکیٰ لَکُمم وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمُ  لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحُ  اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَہٍ فِیْھَا مَتَاعُ  لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ۔“ (سُورہٴ نُور، آیت ۲۷ تا ۲۹)
میں نے اپنی گزشتہ ایک تقریر میں بیان کیا تھا کہ قرآنِ کریم عفت و پاکدامنی اور افراد کے جنسی تعلقات کی پاکیزگی پر بہت زور دیتا ہے۔ اس کی اساس ان مصلحتوں اور حکمتوں پر استوار ہے جن کی جانب میں اشارہ کر چکا ہوں۔
اسلام نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دو طریقے اختیا رکئے ہیں۔ ایک جانب تو اس نے ایسی تدابیر اختیار کی ہیں جن کی مدد سے جنسی غریزے پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور دوسری جانب وہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔
جن آیاتِ مبارکہ کی تفصیل ہم نے ابتدا میں بیان کی تھی ان میں بدکاری کی سزا کا ذکر تھا۔ ”اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۔“ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں گناہ کہ ختم کرنے کے محض سزا ہی کافی نہیں ہے۔ سخت ترین سزائیں بھی جرم اور گناہ کو ختم نہیں کر سکتیں۔ ظلم اور جرم چاہے بے عفتی ہو، چاہے چوری و قتل ہو، یا بے احتیاطی ہو، مثلاً بے احتیاطی سے گاڑی چلانا۔ یہ بات بالکل درست نہیں کہ ہم کسی جرم یا ظلم کے خاتمہ کے لئے فقط سزا پر زور دیں۔ بلکہ ہمیں وقوعِ جرم کے اسباب کو دیکھنا چاہئے! ان اسباب کا خاتمہ کرنا چاہئے اور پھر جرائم پیشہ عناصر کو سزا دی جانی چاہئے۔ (عام طور پر وقوعِ جرم کے اساب نہیں پائے جاتے فقط سرکشی کی ایک خاص حالت میں جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے) اس کی وضاحت کی خاطر ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تیزرفتاری اور اوورٹیکنگ کا مسئلہ اہم ترین مسائل میں سے ہے۔ اس بات کی ہمیشہ تاکید کی جاتی ہے کہ ڈرائیور حضرات شہر کے اندر فلاں رفتار (مثلاً چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ) سے تیز گاڑی نہ چلائیں۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ کیا جائے گا۔ جرمانہ جس قدر بھی زیادہ ہو اگر اس جرم کے وقوع کے اسباب کی چھان بین نہ کی جائے تو محض سزا کافی نہیں ہو گی۔ خصوصاً ڈرائیونگ میں تو سزا ویسے ہی موجود ہے یعنی ”مجازا تُھا مَعَھا“ ہے کیونکہ جو شخص گاڑی تیزرفتاری سے چلاتا ہو اور دیوانوں کے مانند اندرونِ شہر اور بیرونِ شہر گاڑی تیزرفتار سے دوڑاتا پھرتا ہو تو سب سے زیادہ خطرہ اسی کو لاحق ہوتا ہے۔ اس کی گاڑی بھی خطرے میں ہوتی ہے اور جان بھی۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو جان اور مال کا خطرہ اسے تیزرفتاری سے باز رکھتا ہے او ر نہ ہی سزا۔ کیوں؟ اس لئے کہ بعض عوامل اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی احتیاط سے چلانے کی نصیت کریں یا تیزرفتار سے گاڑی چلانے پر اس کے لئے جرمانہ تجویز کریں جبکہ وہ اس قسم کے حالات کا شکار ہو کہ وہ خود ٹیکسی کا مالک نہ ہو بلکہ اس کی حیثیت فقط ایک ڈرائیور کی ہو۔ صبح سے ہی ٹیکسی چلانا شروع کر دیتا ہو۔ اب اگر وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد ۱۲۰ تومان نہ کمائے تو وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا کیونکہ ان ۱۲۰ تومانوں میں سے ۶۰ تومان تو اسے مالک کو ادا کرنا ہیں۔ اگر وہ ۶۰ تومان مالک کو ادا نہیں کرے گا تو وہ دوسرے دن اس کی چھٹی کرا دے گا۔ پھر ۳۰ تومان ٹیکسی کے پٹرول وغیرہ کا خرچہ نکالے گا۔ یوں دن بھر کی مشقت کے بعد اس کے لئے فقط ۳۰ تومان باقی بچتے ہیں۔ ان حالات میں اگر اس کو ہزار نصیحت کریں اور کہیں کہ تیزرفتاری سے تمہاری جان خطرے میں پڑ سکتی ہے یا تمہیں اس قدر جرمانہ کیا جائے گا اور تمہیں جیل بھیج دیا جائے گا، جبکہ دوسری طرف ۳۰ تومان گھر لے کر جانا بھی اس کی مجبوری ہے کیونکہ اگر ۳۰ تومان بھی گھر لے کر نہ جائے تو اپنی بیوی بچوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ ان حالات میں وہ کیا کرسکتا ہے؟ وہ ٹیکسی اسٹارٹ کرتا ہے اور پھر اسے تیزرفتاری سے چلاتا ہے۔ وہ بہرصورت ۱۲۰ تومان کمانے پر مجبور ہے۔ ایک مجبوری اس پر اپنا حکم چلاتی ہے، اس لئے نہ وہ سزا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی نصیحت سودمند ثابت ہوتی ہے۔ پس اگر ہم اس کو تیزرفتاری سے باز رکھنا چاہیں تو سزا سخت کرنے سے ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، بلکہ ہمیں تیزرفتاری کے اسباب کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور اس کے اسباب کو پیش نظر رکھ کر ہی مشکل حل ہو گی۔ مثلاً اگر ہم اس کو ایسی سہولیات بہم پہنچا سکیں کہ وہ دن میں سات گھنٹے آرام سے ٹیکسی چلا کر بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے تو اس کا دماغ خراب نہیں کہ اپنی جان اور ٹیکسی کو خطرے میں ڈالے یااپنے آپ کو جیل کے حوالہ کرے۔
چوری، شراب خوری، زنا، قتل اور ان جیسے دوسرے جرائم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جرائم کے اسباب کو ختم کرنے سے ہی جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم شراب نہ پینے کا موعظہ کریں اور اخبارات پر شراب نوشی کے خطراک نتائج (اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچاس فیصد جرم، ظلم، قتل، بے عفتی، حادثات شراب کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں) تحریر کریں، درحالیکہ شراب خواری کی رغبت دلانے کے تمام عوامل موجود ہوں، تمام غزلوں، تحریروں اور شعروں میں مے خواری و شراب نوشی کی دعوت دی گئی ہو، ہر مفل میں اسے عیش کوشی کا حصہ قرار دیا جاتا ہو، اسے پینے کی رغبت دلائی جاتی ہو اور شراب کی دکانوں کی تعداد دوسری تمام دوکانوں سے زیادہ ہو۔ ہر قدم پر نوجوانوں کو دعوت دینے کے لئے ایک سائن بورڈ نصب ہو جس پر تحریر ہو کہ ”وہ“ اور ”وغیرہ“ ”یہاں دستیاب ہے، تشریف لائیے“ تو اس صورت حال میں جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
زنا اور پاکدامنی کا مسئلہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اسلام نے زنا کرنے والوں کے لئے سخت سزا تجویز کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خاتمہ کے لئے سزا کا سہارا نہیں لیا۔ اسی لئے اس نے زنا ثابت ہونے کا راستہ بہت دشوار بنا دیا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ لوگ زنا کرنے اور نہ کرنے والوں کا سراغ لگائیں، بلکہ وہ تو اس کام کو بہت بری نظر سے دیکھتا ہے۔ البتہ اگر زنا پایہٴ ثبوت تک پہنچ جائے تو وہ سخت سزا دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ سزا کے ذریعہ زنا کا خاتمہ کرنا نہیں چاہتا۔ وہ لوگوں کو سراغ لگانے کی رغبت نہیں دلاتا۔ بلکہ وہ تو سرے سے ہی گناہ کا سراغ لگانے کا مخالف ہے۔ وہ اس جاسوسی کا مخالف ہے جو لوگوں کے گناہوں سے پردہ اٹھانے کی خاطر کی جائے ”وَلاَ تَجَسّعسُوْا“ (حجرات۔ ۱۲)
اب یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اسلام نے گناہ کا سدباب کرنے کے لئے کیا طریقہ اپنایا ہے؟ اسلام نے زنا و بدکاری کے سدباب کے لئے متعدد طریقے اپنائے ہیں جن میں وعظ و نصیحت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور تربیت شامل ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ لوگوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو۔ یہ تمام طریقے بہت ہی مناسب ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے اصولوں کو ایسی اساس پر استوارکرتا ہے جس کے باعث ایسے اسباب ہی جنم نہیں لیتے جو گمراہی اور گناہ کی جانب راغب کریں۔ پاکدامنی کا مسئلہ اسی قبیل سے ہے۔ گزشتہ تقریروں میں کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی ساری کوشش یہی ہے کہ انسان اپنی جنسی شہوت کا جواب جائز شادی سے دے۔ اسلام تجرد کے خلاف ہے، (ہم چند آیات کے بعد پڑھیں گے۔ وَاَنْکِحُواالْاَیَامیٰ مِنْکُمم وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآ ئِکُمْ) شادی کرنے کی رغبت دلا رہا ہے۔ لڑکی لڑکے کو لازماً شادی کرنا چاہئے۔ (اس ”لازماً“ پر فی الحال ہم بحث نہیں کریں گے۔ اسی آیت کے ضمن میں اس پر بحث کریں گے۔)
پس ایک جانب تو اسلام شادی کی شدید رغبت دلاات ہے تاکہ بے عفتی کے اسباب ہی وجود میں نہ آئیں۔ اسی لئے وہ ہر قسم کے تجرد کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری جانب یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا محض شادی کے ذریعہ بدکاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ کیا گر کسی مرد کی اپنی بیوی ہو اور کسی عورت کا اپنا شوہر ہو تو یہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کی طرف راغب نہ ہوں اور شادی شدہ انسان بعض حیوانات (وہ حیوانات جو فقط اپنے ساتھی کی طرف مائل ہوتے ہیں) کے مانند ہو جاتا ہے؟
حیوانات غریزے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ انہیں خودمختار پیدا نہیں کیا گیا۔ کبوتر اور بعض دوسرے حیوانات جفت ہیں، جبکہ گوسفند، اسپ اور آھو جیسے حیوانات میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ ان میں جفتی کرنے والی کوئی بات نہیں ہوتی چاہے وہ مادہ ہوں چاہے نر۔ خاص جنگلی حیوانات میں بوجھ اٹھانے کے علاوہ کسی اور کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ وہ نر کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ کبوتروں جیسے وہ حیوانات جو جوڑوں کی صورت میں زندگی بسرکرتے ہیں ان میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ فقط آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل انجام دیتے ہیں۔ نہ تو نرکبوتر اس مادہ کبوتر کے علاوہ کسی دوسری کبوتری پر نظر رکھتا ہے اور نہ ہی یہ کبوتری اس کبوتر کے علاوہ کسی دوسرے کبوتر کی طرف توجہ کرتی ہے۔ لیکن چونکہ انسان کو خودمختار خلق کیا گیا ہے اس لئے اسے خود ہی تمام شہوات میں ہر شہوت میں اپنے افعال فرض کی ادائیگی کے طور پر دینا ہوتے ہیں، فطرت کے جبر کے تحت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بدکاری کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے۔ لیکن اس کے سدباب کے لئے اکیلی شادی کافی نہیں ہے۔ یعنی اگر شادی شدہ مرد کی نظر کسی غیرعورت پر پڑے تو اس کی رغبت میں اضافہ ہوتا ہے، خاص کر جب عورت نے دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لئے بناؤ سنگار بھی کیا ہوا ہو۔ اور اگر کوئی شادی شدہ عورت کسی غیرمرد کودیکھے تب بھی یہی صورتِ حال پیش آتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے مرد و زن کے میل جول کے لئے چند شرائط کو لازمی قرار دیا ہے۔ ان شرائط کو فقط اس لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کہ عورت و مرد کا میل جول شہوت انگیز نہ ہو۔
بعد والی آیات سے جن کو ہم پڑھیں گے، مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ تقریر کے آغا زمیں تلاوت کی جانے والی آیات کا تعلق اذن سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اطلاع اور اجازت کے بغیر اسے گھر میں داخل ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ اگرچہ یہ تین آیات عورت سے مخصوص نہیں ہیں لیکن ان کا زیادہ تر تعلق عورت سے ہی ہے۔ آیت یہ ہے۔ یٰااَیَّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَھْلِھَا
”اے اہلِ ایمان تم اپنے ذاتی گھر ( آپ کا اپنا گھر مستثنیٰ ہے) کے علاوہ دوسر ے شخص حتی کہ اپنے والدین، بہنوں اور بطریقِ اولیٰ اپنے بھائیوں کے گھروں میں اچانک نہ آدھمکو بلکہ پہلے اپنے استیناس کیا کرو اور اہلِ خانہ کو سلام کیا کرو۔“ ”استیناس کیا کرو“ یعنی گھر والوں کی انس، الفت اور سکون کا سامان کیا کرو۔
واضح سی بات ہے کہ ہر کسی کی ذاتی اور گھریلو زندگی اس کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی ذاتی زندگی میں کسی بھی دوسرے شخص کی بے جا مداخلت سے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ اس لئے اگر اس کے گھر میں کوئی دوسرا شخص اچانک آ دھمکے تو وہ گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے ایسا نہ کیا کرو۔ کسی کے گھر میں اچانک نہ داخل ہوا کرو، بلکہ پہلے استیناس کیا کرو۔ یعنی ایسا کام کیا کرو کہ ان کو گھبراہٹ و سراسیمگی لاحق نہ ہونے پائے، یعنی پہلے ان کو اطلاع دیا کرو۔
زمانہٴ قدیم میں گھروں کے دروازے بند کرنے کا معمول نہیں تھا۔ (جیسا کہ اب بھی بعض دیہاتوں میں اس معمول نہیں ہے) شہروں میں دروازوں کو اندر سے بند کر دینے کا معمول ہے۔ اگر کوئی شخص اطلاع کے بغیر داخل ہونا بھی چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ اب دروازوں کو اندر سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اسے پہلی گھنٹی بجانی یا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ زمانہٴ جاہلیت میں کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اہلِ خانہ کو اطلاع دینے اور ان سے اجازت طلب کرنے کی رسم نہیں تھی۔ وہ تو اجازت طلب کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اسلام اپنے ساتھ یہ حکم لایا کہ کسی کے گھر میں اچانک داخل ہونا حرام ہے۔ ہم جو کسی کے گھر میں اطلاع کے بغیر داخل نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دروازہ بند ہوتا ہے۔ اگر دروازہ کھلا ہوا ہو تب بھی ہم کو اطلاع کے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَھْلِھَا ”سلام بھی کیا کرو۔“ سلام کئے بغیر گھر میں داخل نہ ہوا کرو۔ جو شخص بھی کسی کے پاس جائے تو اسے چاہئے کہ پہلے اسے سلام کرے۔ جو شخص کسی کے گھر میں ذجائے تو اسے چاہئے کہ اہلِ خانہ کو سلام کرے۔ یہ رسم نبی اکرم نے ڈالی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی کے گھر میں داخل ہوا کرو تو بہرصورت اہلِ خانہ کو اطلاع دیا کرو تاکہ وہ آمادہ ہو جایا کریں اور جب تک وہ اجازت نہ دے دیں، جب تک ”تشریف لائیے“ نہ کہیں، اس وقت تک گھر کے اندر قدم نہ رکھا کرو۔ البتہ آپ کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت کھانسنے کے ذریعے بھی گھر میں داخل ہونے کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ لیکن آخر آپ ایسا ہی کیوں کریں؟ اس سے بہتر یہ ہے کہ آپ ذکرِ خدا کریں۔ مثلاً ”اللہ اکبر“ یا ”سبحان اللہ“ کہیں۔ آجکل ہمارے مابین ”یااللہ“ کہنے کا معمول ہے اور یہ ایک بہت اچھی رسم ہے، اگرچہ رفتہ رفتہ فرنگی مآب لوگوں میں یہ رسم ختم ہو گئی ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک اسلامی رسم ہے۔ ان کے درمیان تو سلام کرنے کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے اور یااللہ کہنے کا بھی، اور یہ تعجب کی بات ہے۔
نبی اکرم کسی کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوا کرتے تھے۔ آپ استیناس کو زیادہ تر سلام کرنے کے ساتھ ہی انجام دیتے تھے، حتیٰ کہ آپ اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ عَلَیْھَا کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتے تھے ۔ بلکہ باہر دروازے پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں فرمایا کرتے ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَھْلَ الْبَیْتِ۔“ اگر اس کا جواب دیا جاتا اور کہا جاتا کہ ”تشریف لائیں“ تو آپ اندر داخل ہوتے۔ اگر جواب نہ ملتا تو اس خیال سے کہ شاید انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں سنا ہو گا۔ دوبارہ فرماتے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَھْلَ الْبَیْتِ۔“ اگر پھر بھی جواب نہ ملتا تو احتیاطاً اس خیال سے کہ انہوں نے دوسری مرتبہ بھی نہیں سنا ہو گا، آپ تیسری مرتبہ بھی سلام کرتے۔ اگر تیسرے سلام کا بھی جواب نہ ملتا تو واپس پلٹ جاتے۔ آپ فرماتے یا تو وہ گھر میں موجود نہیں ہیں، یا ان کی حالت کسی دوسرے شخص کے داخل ہونے کی مقتضی نہیں ہے۔ اور آپ بالکل برا محسوس نہ فرماتے۔ ”ذٰلِکُمْ خَیْرُ  لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ “ ”یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارا فائدہ اسی میں ہے۔ شاید تمہیں اس کام کے فائدے کا پتہ بعد میں چلے۔ شاید تم بعد میں اس کے فائدے کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔“ یعنی پہلے عمل کرو بعد میں تمہیں اس کے فائدہ کا علم ہو گا۔ اس سلسلے میں بہت سی داستانیں نقل ہوئی ہیں جو آپ کی سنی ہوئی ہیں۔ ”سمرہ بن جندب“ جو بہت ہی بدطنیت تھا، اس نے امیرالمومنین علی اور معاویہ کے زمانے میں بہت بدطینتی کا مظاہرہ کیا، کی ایک داستان معروف ہے۔ نبی اکرم کے زمانے میں اس کا ایک درخت آپ کے ایک صحابی کے گھر میں تھا۔ اس درخت کی وجہ سے اسے اس گھر میں داخل ہونے اور درخت کی دیکھ بھال کرنے کا حق پہنچتا تھا۔ مگر چونکہ درخت دوسرے شخص کے گھر میں تھا۔ اس لئے اصولاً اسے اس گھر میں داخل ہونے سے پیشتر استیناس اور اجازت حاصل کرنا چاہئے تھی۔ اسے ”یااللہ“ کہنا چاہتے تھا۔ لیکن وہ بہت اکڑباز اور ظالم تھا۔ ان باتوں کی پرواہ مطلق نہ کیا کرتا اور اچانک اس گھر میں داخل ہو جاتا تھا۔ (ہر شخص اپنے گھر میں کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اسے اس حالت میں دیکھیں) اور اہلِ خانہ کی ناراحتی کا موجب بنا کرتا۔
مالکِ مکان نے چند مرتبہ اسے سمجھایا لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ یا رسول اللہ فلاں شخص کو آپ سمجھائیں، وہ میرے گھر میں اچانک آ دھمکتا ہے۔ آپ نے اسے بلوا کر سمجھایا لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا کہ اس گھر میں میرا درخت ہے اس لئے مجھے وہاں جانے کا حق حاصل ہے۔ آپ متوجہ ہوئے کہ یہ شخص تو بدطینت ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا آؤ ایک کام کرتے ہیں۔ تم یہ درخت میرے ہاتھوں فروخت کردو۔ میں تمہیں اس سے بہتر درخت دوں گا جو ایک اور جگہ پر واقعہ ہے، مگر وہ نہ مانا۔ تین درخت، چار درخت، دس درختوں تک کی تجویز آپ نے اسے پیش کی جسے اس نے قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا میں تجھے جنت میں کھجور کے ایک درخت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس نے جواب دیا مجھے جنت کا درخت نہیں یہی درخت چاہئے او رمیں گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت بھی نہیں لیا کروں گا۔ اس نے (اپنے کردار سے) ثابت کر دیا کہ وہ ظالم اور ستمگر شخص ہے۔ (میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسلام ابتداء میں نرمی سے کام لیتا ہے لیکن اگر وہ موثر نہ ہو تو پھر سختی کو کام میں لاتا ہے) آپ نے فوراً مالک مکان کو حکم دیا کہ گھرجا کر اس کادرخت جڑ سے اکھاڑ ڈالو اور اس کے آگے پھینک دو۔ ”اِنَّہ رَجُلُ  مُّضَارّ ”یہ ضرر رساں شخص ہے۔“ لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ عَلیٰ مُوٴْمِنٍ ”دینِ اسلام میں ضرر اور ضرار کا کوئی وجود نہیں ہے۔“
بعد میں قرآن فرماتا ہے۔ ”فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْ فِیْھَآ اَحَداً فَلاَ تَدْ خُلُوْھَا حَتّٰی یُوٴْذَنَ لَکُمْ۔“ اگر آپ کسی کے گھر میں جائیں اور وہ گھر پر موجود نہ ہو تو اس صورت میں آپ کا کیا فرض ہے؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب تو گھر پر کوئی بھی نہیں جو ہمیں اجازت دے۔ کوئی عورت بھی اس گھر میں نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس گھر میں داخل ہوں گے تو ہمیں یہ نہیں کہا جائے گا کہ آپ اچانک کیوں آدھمکے ہیں۔ چونکہ اس گھر میں کوئی نامحرم بھی نہیں ہے اس لئے ہم کو اس میں داخل ہونے کا حق پہنچاتا ہے؟ نہیں! یہ جو کسی گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے محض نامحرم کی وجہ سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ لوگوں کے ذاتی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کی زندگی میں ایسے امور کا پایا جانا ممکن ہے جن کو وہ دوسروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہو۔ خدا فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص بھی گھر پر نہ ہو تب بھی گھر میں داخل نہ ہوا کرو، مگر یہ کہ تمہیں پہلے سے اجازت دی گئی ہو یعنی اہلِ خانہ نے پہلے سے تمہیں اجازت دے رکھی ہو۔ مثلاً مالکِ مکان نے تمہیں گھر کی چابی دی ہو یا اس نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی ہو۔
 

صرف علی

محفلین
اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہم کسی کے پاس جائیں، وہ شخص گھر میں بھی موجود ہو اور ہم اس سے اجازت طلب کریں، لیکن وہ بجائے اس کے کہ ہم سے کہے ”تشریف لائیے“ کہے ” آپ واپس تشریف لے جائیں، فی الحال میں آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا“ تو اس صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن صریحاً فرما رہا ہے کہ اگر گھر کا مالک کہے کہ میں فی الحال تمہاری پذیرائی کرنے سے قاصر ہوں تو تمہیں واپس پلٹ جان اچاہئے اور گھر کے مالک کی بات تمہارے دل پر گراں نہیں گزرنی چاہئے۔ اسلام کا یہ حکم ہم لوگوں کی موجودہ زندگی سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔
اس مقام پر قرآن ہم سے کہہ رہا ہے ”ناحق تمہارے دل پر گراں نہ گزرے۔ اگر تم کسی کے گھر میں جانا چاہتے ہو تو اگر انہوں نے تمہیں بلایا ہو اور تم نے ان سے وقت لیا ہو، تو گھر میں داخل ہو جایا کرو۔ اور اگر پیشگی اطلاع کے بغیر کسی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہوں تو اس صورت میں اگر اہلِ خانہ کسی مجبوری کی بناء پر آپ کو اندر نہ بلا سکتا ہو تو اسے بغیر کسی شرم و لحاظ کے کہہ دینا چاہئے کہ میں گھر پر ہوں (یہ نہیں کہنا چاہئے کہ گھر پر نہیں ہوں) لیکن فی الحال مصروف ہوں اس لئے معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کا میزبان بننے سے قاصر ہوں (اکثر اتفاق ہوتا ہے کہ اہلِ خانہ کو کوئی ضروری کام درپیش ہوتا ہے جبکہ آنے والا کسی ضروری کام سے نہیں آیا ہتا) آپ نے مجھ سے پیشگی وقت نہیں لیا تھا۔ اب آپ تشریف لے جائیے۔ پھر کسی وقت تشریف لائیے گا اور یہ بات واشگاف الفاظ میں کہی جانی چاہئے۔ اور اگر صاحبِ خانہ دو ٹوک الفاظ میں کہے تو آنے والے میں بھی اس قدر شہامت، شجاعت اور مردانگی ہونی چاہئے کہ یہ بات اس پر گراں نہ گزرے۔
لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آجکل اس کے برعکس عمل ہو رہا ہے۔ نہ تو گھر والے میں اس قدر شہامت، صراحت، صداقت پائی جاتی ہے کہ کہے میں فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہوں اور نہ ہی آنے والے میں اسی قدر انسانیت پائی جاتی ہے کہ اگر وہ کہے کہ میں فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا، آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا تو اس کے دل پر گراں نہ گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں درج ذیل تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت پر عمل ہو رہا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے مالک مکان جھوٹ بولتا ہے۔ وہ بچوں سے کہتا ہے کہ (آنے والے سے) کہو ابو گھر پر نہیں ہیں۔ اس طرح وہ گناہِ کبیرہ کاارتکاب کرتا ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ ”گھر پر نہیں ہے“ جھوٹ ہے اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ بعض لوگ اس مقام پر اپنے خیال کے مطابق ”توریہ“ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ توریہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں جھوٹ نہ بولنے کی صورت میں مفسدہ وجود میں آتا ہو مثلاً خنجر بکف کوئی شخص آیا ہو، وہ کسی کوناحق قتل کرنا چاہتا ہو۔ وہ پوچھے کہ فلاں آدمی یہاں موجود ہے یا نہیں؟ تو جواب دینا چاہئے کہ یہاں نہیں ہے۔ اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو جھوٹ کی عادت پڑ جائے اس لئے اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی دوسری بات کو گزاریں۔ کہیں ”نہیں“ اور دل میں گزاریں کہ ”یہاں“ نہیں ہے۔ اور یہ درست نہیں ہے کہ انسان اپنی مرضی کا ہر جھوٹ بول لے اور اسے توریہ قرار دیدے۔ تو مالک مکان بچوں سے کہتا ہے کہ آنے والے سے کہو ”نہیں ہے۔“ لیکن اے بچو! جب تم کہو کہ نہیں ہے تو تمہارا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ ہمارا والدکمرے کی چوکھٹ پر نہیں ہے۔ تو جناب اس مقام پر آپ سچ بول سکتے ہیں پھر توریہ کیوں کرتے ہیں؟ یہاں آپ کو کہنا چاہئے کہ میں گھر پر موجود ہوں لیکن فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔
ایک مرتبہ ملا نصیرالدین ایک مہمان کو اپنے ہمراہ گھر کے دروازے تک لایا۔ خود گھر میں داخل ہو گیا۔ اس کی بیوی (ان بہت سی عورتوں کی طرح جو ایسے امور میں ہٹ دھرمی کیا کرتی ہیں) اس سے جھگڑ پڑی کہ مہمان کو اپنے ہمراہ کیوں لائے ہو۔ ہمارے پاس اس کی پذیرائی کے لئے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ لہٰذا تم نے اسے لا کر اچھا نہیں کیا۔ ملا نصیر الدین نے کہا ک ہاب میں کیا کروں؟ بیوی نے کہا میں اس کی بالکل مہمان نوازی نہیں کروں گی۔ ملانصیرالدین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ آخر اس نے اپنے بچوں کے ذریعے مہمان کو کہلوا بھیجا کہ ملا گھر پر نہیں ہے۔ مہمان نے کہا ابھی تو ہم مل کر آئے تھے۔ یہ سنتے ہی ملا نے بلند آواز سے جواب دیا شاید اس گھر کے دو دروازے ہوں اور وہ دوسرے دروازے سے باہر چلا گیا ہو۔
عموماً ایسے مواقع پر کئے جانے والے ہمارے کام ملا نصیرالدین کے کاموں جیسے ہوتے ہیں۔ یعنی جب دروازے پر آ کر کہا جاتا ہے کہ ”صاحب گھر پر نہیں ہیں“ تو مہمان سمجھ جاتا ہے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب کوئی دورازے پر آتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھہریئے میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں کہ صاحب گھر میں موجود ہیں یا نہیں تو صاف معلوم ہو رہا ہوتا ہے کہ جب تم گھر کے اندر سے آئے ہو تو تم کو پتہ ہے کہ صاحب گھر پر ہیں یا گھر پر نہیں ہیں۔ یہ کہنا کہ ”میں دیکھ کرآتا ہوں کہ صاحب گھر پر ہیں یا نہیں“ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں کہو سچ سچ بتاؤں یا جھوٹ سے کام لوں۔
یہ عین حقیقت ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود کہ سب جانتے ہیں، مہمان بھی جانتا ہوتا ہے اور میزبان بھی۔ لیکن اس کے باوجود مسلسل جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ پس ایک صورت یہی ہے کہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ صاحب خانہ آنے والے سے کہتا ہے ”تشریف لائیے“۔ بہت ظاہرداری سے کام لیتا ہے۔ اسے خوش آمدید، اَھْلاً وَّسَھْلاً وَّ مَرْحَباً جیسے الفاظ سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ بڑے تپاک سے ملتا ہے جبکہ دل ہی دل میں اسے گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔ اسے کوستا ہے کہ یہ بلائے ناگہانی اس وقت کہاں سے آٹپکی۔ ہمیں کئی ضروری کام تھے۔ لوگ کس قدر غیرمہذب ہیں۔ بے سوچے سمجھے دوسروں کے گھروں میں آ دھمکتے ہیں اور ان کے کاموں میں مخل ہوتے ہیں۔ جب مہمان چلا جاتا ہے تو پھر میزبان بیوی بچوں کے سامنے اسے ڈھیر ساری گالیاں بکتا ہے۔ ان حالات میں وہ بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا! وہ بچہ جو دیکھ رہا ہے کہ اس کے باپ میں اتنی شہامت بھی نہیں ہے کہ مہمان سے کہہ سکے کہ میں آپ کی پذیرائی نہیں کرسکتا۔ میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے بلکہ وہ سروقد ہو کرمہمان کی تعظیم بجا لاتا ہے، اسے خوش آمدید کہتا ہے جبکہ اس کے جانے کے بعد اس پر صلواتیں بھیجتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ میزبان و صاحب خانہ معقول کام کرتا ہے۔ یعنی وہ خود دروازے پر آ کر آنے والے سے کہتا ہے ”جناب مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو فی الحال وقت نہیں دے سکتا۔ مجھے ضروری کام ہے، میں مصروف ہوں۔“ یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ آنے والے تک پیغام بھیجتا ہے کہ فی الحال میں مصروف ہوں جس کی وجہ سے میں آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔ تو اس صورت میں صاحب خانہ نے ایک معقول طریقہ اختیار کیا ہے لیکن آنے والے شخص میں اخلاقی جرأت نہیں پائی جاتی (کیونکہ) اس کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ وہ اپنی ہر محفل میں اسی کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں فلاں شخص کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے ملاقات نہ کی۔ وہ یہ بات تو نہیں بتاتا کہ میں نے پیشگی اجازت نہیں لی تھی اور نہ ہی یہ سوچتا ہے کہ صاحب خانہ کسی مجبوری کی بناء پر مجھ سے ملاقات نہیں کر سکا۔
(جبکہ اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ) آپ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے کوئی مجبوری ہو گی اور تمہیں اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ تمہارا میزبان شجاع ہے۔ اس نے تم سے جھوٹ نہیں بولا بلکہ واضح الفاظ میں حقیقت بیان کر دی ہے۔ یہ تھی تیسری صورت۔
ان دونوں یا تو پہلی دو صورتوں جو کہ میزبان کے بارے میں ہیں پر عمل کیا جا رہا ہے یا اس تیسری صورت پر جو کہ مہمان سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ چوتھی صورت جسے اسلام پسند کرتا ہے ہمارے معاشرے میں بالکل ناپید ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ اگر صاحب خانہ کے پاس وقت نہ ہو، وہ آنے والے سے ملاقات نہ کر سکتا ہوتو صراحت کے ساتھ کہہ دینا چاہئے کہ ”جناب میں معذرت چاہتا ہوں کہ فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا۔ آپ کی میزبانی کے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہوں“ اور آنے والے کو بھی برا محسوس کئے بغیر واپس پلٹ جانا چاہئے۔ قرآن نے اس چوتھی صورت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے۔
وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا
”اور جب تم سے کہا جائے کہ واپس لوٹ جاؤ تو پلٹ جایا کرو“ ”ھُوَ اَزْلیٰ لَکُمْ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔“ یہ چوتھی صورت پہلی تینوں صورتوں سے بہتر ہے۔ ”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمُ  جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے جانتا ہے۔“ قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے گھر کے علاو ہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں داخل ہونا چاہو تو اجازت کے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ (گھر سے مراد وہ چار دیوار ہے جس میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو)۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا ہر وہ چار دیواری جس میں لوگ رہ رہے ہوں اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے؟ کیا کسی دکان میں داخل ہونے کے لئے بھی اجازت طلب کرنا ضروری ہے؟ اگر میں کسی شاپنگ سنٹر میں داخل ہونا چاہوں تو کیا پہلے اجازت طلب کرنی چاہئے؟ کیا کسی سرائے میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا واجب ہے؟ یا یہ حکم فقط ان گھروں سے مخصوص جن میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو۔ یعنی کیا یہ حکم لوگوں کے ذاتی و شخصی مکانوں کے ساتھ مختص ہے؟
قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ حکم فقط خاص مکانوں سے مخصوص ہے چاہے وہ رہنے سہنے کا مکان ہو یا کام کرنے کامکان۔ عمومی اماکن کے لئے یہ حکم نہیں ہے کیونکہ عمومی اماکن کادروازہ تو سب کے لئے کھلا ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک شخص بہت ہی سادہ لوح تھا اور ساتھ ساتھ پارسا بھی بہت تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونا چاہئے۔ سنے میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ مشہد میں اپنے علاقے کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے ایک بہت بڑے کاروان سرا میں داخل ہونا چاہتا تھا۔
خود کاروان سرائے کے دروازے کے پاس باہر کھڑا ہو گیا اور دوسرے شخص کو یہ معلوم کرنے کو بھیجا کہ کیا مجھے اس کاروان سرائے میں داخل ہونے کی اجازت ہے یا نہیں! جبکہ کاروان سرائے کا دروازہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ کاریں اور گاڑیاں اکثر وہاں سے گزرتی رہتی ہیں۔ اس میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عمومی اماکن میں سے ہے۔
اس لئے قرآن مجید فرماتا ہے۔ ”لیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحُ  اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ مَسْکُوْنَةٍ ”ایسے مکانوں میں بغیر اجازت کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں جن میں لوگ موجود ہوں اور وہاں لین دین کا کاروبار ہوتا ہو بشرطیکہ وہ ان کی سکونت کے مکان نہ ہوں۔ فِیْھَا مَتَاعُ  لَّکُمْ۔ ”ان مکانوں میں تمہارے لئے متاع ہے“ یعنی تم ان مکانوں میں کام کی وجہ سے داخل ہونا چاہتے ہو۔ البتہ اگر ان مکانوں میں تمہیں کوئی کام نہ ہو تو بلامقصد دوسروں کے کاموں میں مخل نہ ہوا کرو۔ اس کے بعد قرآن فرماتا ہے۔ ”وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاتَکْتُمُوْنَ۔“ خدا ہر اس چیز کو جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور مخفی کرتے ہو۔“
اب یہاں سے حجاب اور نگاہ کے متعلق آیات کا آغاز ہو رہا ہے۔
قُلْ لِلْمُوٴْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ ھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرُ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔“ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۰)
” (اے رسول) موٴمنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے پاکیزہ تر ہے۔ (یعنی عفت کا حکم پاکیزگی کی خاطر دیا گیا ہے) اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔“
اس آیت میں بہت سے مسائل ہیں جن پر بحث کرنا ضروری ہے۔ مفسرین نے ”یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ ھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ “ پر بہت زیادہ بحث کی ہے۔ بعض مفسرین کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دونوں فقرے شرمگاہ چھپانے کے بارے میں ہیں کیونکہ اسلام کے واجبات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر عورت و مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی شرمگاہ کو اپنے شریکِ حیات کے سوا دوسروں کی نظروں سے مخفی رکھے۔ شرمگاہ کا چھپانا مرد پر بھی واجب ہے اور عورت پر بھی۔ خاوند بیوی تو شرمگاہ کی نسبت ایک دوسرے کے محرم ہیں۔ دوسروں سے اس کا چھپانا واجب ہے۔ میاں بیوی کے علاوہ کوئی شخص بھی دوسرے کی شرمگاہ کا محرم نہیں ہے۔ شرمگاہ کے مسئلے میں والدین اپنی اولاد کے، بھائی بھائی کا اور بہنیں بھی آپس میں ایک دوسری کی محرم نہیں ہیں۔ شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے۔ اور غیر کی شرمگاہ کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے۔ اس کا حرام ہونا دینِ اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔
یہاں قرآن ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ کے مسئلے کو بیان کر رہا ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ یہ حکم تمہاری روح کو پاک کرنے کے لئے ہے۔ کیا مطلب؟ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت کی طلب سے زیادہ مقدار میں ذہن و فکر کو جنسی شہوت کی جانب مشغول کرنا اور شہوت بھڑکانے والے عوامل فراہم کرنا نہیں چاہتا۔
انسان ان چیزوں کے متعلق غور و فکر نہیں کرتا جو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو اور چونکہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں (البتہ یہ بات اسلامی روایت کا حصہ ہے یورپین تہذیب کا نہیں) اس لئے ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی شخص دوسرے کی شرمگاہ کے متعلق غور کرے۔ یہ بات ”مفغول عنہ“ ہے۔ یعنی انسان ان کے طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ انسان کی سوچ، اس کا ذہن، دل اور خیال اس سے بلند تر اور منزہ تر ہے کہ وہ ان مسائل پر سوچے اور نہ ہی اس کی حاجت ہے۔
(اسلام نے شرمگاہ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) تاکہ آپ کا دل و دماغ ان مسائل پر توجہ کرنے سے محفوظ رہے کہ فلاں شخص کی شرمگاہ ایسی ہے اور دوسرے کی یوں ہے، اور نہ ہی کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے (اسلام نے شرمگاہ ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) اور اس حکم کا بہت بڑا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ نتیجہ یہی ہے کہ اس نے اپنے پیروکاروں کے دل و دماغ کو اس کے متعلق سوچنے سے بچائے رکھا ہے۔ مسلمان شرمگاہ کے متعلق مطلق نہیں سوچتے۔ یورپ میں جو ناپسندیدہ اقدار پھیلی ہوئی ہیں او رتدریجاً پھیل رہی ہے، خصوصاً شمالی یورپ میں جس پسندیدہ بات کا بہت زیادہو رواج ہے دوسرے مقامات پر بھی رواج ہو رہا ہے اور رسل جیسے افراد جس کی رغبت دلا رہے ہیں وہ مسئلہ شرمگاہ کو ننگا کرنے اور اسے ڈھانپنے کے خلاف تحریک چلانے کا ہے۔ رسل نے تربیت کے بارے میں ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کا نام بھی اس نے ”تربیت کے بارے میں“ رکھا ہے۔ اس میں بہت تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ شرمگاہ چھپانے کی بات سرے سے ختم ہو جانی چاہئے، جبکہ قرآن شرمگاہ کو ڈھانپنے پر بہت زور دیتا ہے۔ خصوصاً یہ جو اس نے بعد میں فرمایا ہے کہ ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرُ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔“ تو قرآن کہنا چاہتا ہے کہ ہم بہتر جانتے ہیں، اسی لئے ہم نے اسے بیان کیا ہے۔
تو بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ کا مطلب یہ ہے کہ ”اپنی شرمگاہووں کو دوسروں کی نظروں سے بچا کر رکھیں، ان کو ڈھانپ کر رکھیں۔ “ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَرِھِمْ ”اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔“ اور نہ دیکھیں۔ کس چیز کو نہ دیکھیں۔؟ مفسرین کا کہنا ہے کہ شرمگاہوں کو نہ دیکھیں۔ لیکن ہماری رائے میں یہ آیت اعم ہے ”یَحْفَظُوْا فَرُوْجَھُمُ بھی اعم ہے اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ بھی۔ روایات میں جو بیان ہوا ہے کہ قرآن میں جس جگہ بھی شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بات ہو تو وہ زنا سے مربوط ہے۔ لیکن اس مقام پر اس سے نظر کرنا ہے تو بعید نہیں کہ یہاں دونوں ہی مراد ہوں اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ“ مجھ کو تقریباً یقین ہے کہ یہ آیت شرمگاہو کی طرف نگاہ کرنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ آیت غیر شرمگاہ کی طرف نظر کرنے سے مخصوص ہو۔ ”غَضَّ“ کا مطلب ہے کم کرنا۔ ”غَضَّ بَصر“ یعنی کم دیکھنا یعنی ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھنا۔
بعد کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ”وَقُلْ لِلْمُوٴْمِنَاتِ یَغْضُضُنَ مِنْ اَبْصَارِ ھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ۔“ مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ بھی اس کی پابندی کریں۔ اگر شرمگاہ مراد ہو تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو نہ دیکھیں اور اپنے دامن کو زنا سے آلودہ نہ کریں۔ بعض دیگر مفسرین کے نظریئے کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو دوسروں کی شرمگاہوں کی طرف نگاہ کرنے سے آلودہ نہ کریں۔ ”غضِ بصر“ اور حفظِ فرج کے متعلق گزشتہ آیت میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کر رہی ہے۔ عورتوں کو پردے کے متعلق دوسرے احکام بھی دیئے گئے ہیں۔ قرآن فرماتا ہے۔ ”وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ لِبُعُوْ لَتِھِنَّ “ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۱) جو کہ تفصیل طلب ہیں۔ ان کو بعد والی تقریر میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطَّاھِرِیْنَ
 

صرف علی

محفلین
پانچویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
وَقُلْ لِلمُوٴْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَرِ ھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ لِبُعُوْ لَتِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآء ِھِنَّ اَوْ اَبْنَآ ءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوَاتِھِنَّ اَوْ نِسَآئِھِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِلطِفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا عَلیٰ عَوْرَاًِ النِسَآءِ وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْموٴْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (نور۔ ۳۱)
اس کی تلاوت کی جا چکی ہے۔ اس میں مردوں کو دو حکم دیئے گئے ہیں، ایک تو ان کو نامحرم عورتوں کو دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور دوسرا ان کو شرمگاہ ڈھانپنے کو کہا گیا ہے۔ باالفاظِ دیگر ان کو زنا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی ان پرواجب ہے کہ اپنے دامن کو نگاہ سے بھی بچائیں یعنی اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ کر رکھیں اور فحشاء سے بھی بچائیں۔ پس مردوں پر واجب ہے کہ اپنی آنکھوں کو نامحرموں کے دیکھنے اور اپنے دامن کو زنا سے آلودہ ہونے سے بچائیں۔
مردوں کے متعلق نازل ہونے والی آیت عورتوں کے متعلق نازل ہونے والی آیت کے مقابلے میں چھوٹی ہے۔ وہ فقط اتنی ہی ہے۔ البتہ اس کے ذیل میں خدا نصیحت کرتا ہے کہ ہم نے جو تمہیں نامحرموں کی طرف دیکھنے اور بدکاری سے منع کیا ہے تو اس سے تم کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہم تمہاری برائی کے خواہاں ہیں۔ نہیں ہم تو تمہاری پاکیزگی کے طالب ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے اور وہ تمہارے افعال سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
دوسری آیت جو عورتوں کے بارے میں ہے اس میں بھی یہی دو حکم انہی الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان دونوں آیات میں فرق صرف یہ ہے کہ اس دوسری آیت میں موٴنث کی ضمائر استعمال کی گئی ہیں۔ خدا کا ارشاد ہے کہ عورتوں سے کہو کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کی طرف دیکھنے اور ان چیزوں کی طرف دیکھنے سے باز رکھیں جن کو دیکھنا سزاوار نہیں ہے اور اپنے آپ کو زنا سے محفوظ رکھیں۔ یعنی عورتوں کو بھی وہی دو حکم دیئے گئے ہیں جو مردوں کو دیئے گئے تھے اور یہاں بھی وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو مردوں کے متعلق استعمال کئے گئے تھے۔
یہاں دو مطالب کو بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے باوجود کہ عورت اور مرد میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پایا جاتا لیکن عورت کے بارے میں ان مطالب کو قدرے تھوڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ بعض خواتین شاید یہ خیال کرتی ہیں کہ فقط مردوں کو نامحرم عورتوں کی جانب دیکھنے سے منع کیا گیا ہے (مردوں کو نامحرم عورتوں کی طرف یکھنے کی یا تو بالکل اجازت نہیں یا لذت و شہوت کے ساتھ دیکھنے کی اجازت نہیں۔ اس پر ہم بعد میں بحث کریں گے)۔ ان کا خیال ہے کہ اگر نگاہ کرنا حرام ہے تو فقط مردوں کا عورتوں کو دیکھنا یا لذت و شہوت کے ساتھ دیکھنا حرام ہے۔ عورتوں پر مردوں کو دیکھنا حرام نہیں ہے۔ جبکہ یہ غلط ہے۔ اگر دیکھنا جائز ہے تو دونوں کے لئے جائز ہے اور اگر جائز نہیں ہے تو دونوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ یعنی جس حد تک مرد کو منع کیا گیا ہے عورت کوبھی اسی حد تک منع کیا گیا ہے۔ لیکن عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ فقط مرد کوعورت کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یا تو بطور مطلق مرد کو منع کیا گیا ہے یا لذت اٹھانے کی نیت سے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اگر عورت مرد کو دیکھے اور مسلسل دیکھتی رہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ تو عورت ہے اور وہ مرد کو دیکھ رہی ہے۔
حالانکہ یہ درست نہیں ہے اور قرآن نگاہ کے مسئلے میں عورت و مرد کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔ البتہ بعض عورتیں اس مسئلے کی طرف متوجہ ہیں جبکہ شاید بہت سی عورتوں کی اس جانب مطلق توجہ نہیں ہے۔
دوسرا مطلب جو ہے اس پر اکثر لوگوں کی توجہ ہے۔ شاید بعض لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں اور وہ یہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہر عورت دوسری عورت کی محرم ہتی ہے حتیٰ کہ شرمگاہ کی نسبت بھی محرم ہوتی ہے۔ البتہ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ لیکن ا س کے باوجود چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ عورت ہر اعتبار سے دوسری عورت کی محرم ہے۔ جبکہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ ایک عورت دوسری عورت کی شرمگاہ کی نسبت محرم ہے۔ حتیٰ کہ ماں بھی اپنی بیٹی کی محرم نہیں ہے۔ بیٹی بھی ماں کی محرم نہیں ہے۔ بہن اپنی بہن کی بھی محرم نہیں ہے۔
قرآن نے ان دو مطالب کے سلسلے میں جو حکم مردوں کو دیا ہے اسی سے ملتا جلتا حکم عورتوں کو بھی دیا ہے۔ جو حکم عورتوں کو دیا ہے اسی سے ملتا جلتا ہوا حکم مردوں کو بھی دیا ہے اور ساتھ ہی اس نے عورتوں پر مزید ایک چیز کو واجب قرار دیا ہے جبکہ مروں پر اسے واجب نہیں کیا۔ وہ ہے بدن کا ڈھانپنا۔ عورت پر اپنے بدن کو ڈھانپنا واجب ہے جبکہ مرد پر واجب نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں ”عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔“ البتہ بدن سے جدا زینت (مثلاً وہ کنگن جو پاس گرا پڑا ہو) مقصود نہیں ہے بلکہ بدن کی زینت مراد ہے کیونکہ (اس کا ظاہر ہونا) عورت کو دیکھنے کے برابر ہے۔ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں چاہے وہ زینت ایسی ہو جسے بدن سے جدا کیا جا سکتا ہو مثلاً کنگن، انگشتری یا وہ زینت جو بدن کے ساتھ چپکی ہوئی ہو مثلاً غازہ۔
عورت (دو مواقع کے علاوہ) اپنی زینت ظاہر نہ کرے۔ یہاں دو استثناء ہیں۔ ایک استثناء تو زینت کا ہے۔ یعنی بعض زینتوں کا ظاہر کرنا جائز ہے اور ان زینتوں کو قرآن نے ”ظاہری زینت“ کے نام سے بیان کیا ہے۔
دوسرا استثناء افراد کا ہے یعنی بعض افراد کے سامنے زینت ظاہر کرنا بھی جائز ہے۔ یعنی عورت شوہر کے علاوہ (شوہر کا مسئلہ تو واضح ہے) بعض دوسرے افراد کے سامنے اپنی زینت ظاہر کر سکتی ہے۔ ان افراد سے مراد والد، بیٹے، بھتیجے، بھانجے، شوہر کے بیٹے (اور ان کے علاوہ چند اور طبقات بھی) ہیں۔ ان استثناؤں کو بعد میں بیان کروں گا۔
اس آیت کی تفسیر بیان کرنے سے قبل دو مطالب کو بیان کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ ان کے بیان سے بات واضح ہونے میں مدد ملے گی۔ ایک مطلب تو یہ ہے کہ فقط عورت کو بدن ڈھانپنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ مرد کو یہ حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ پردہ عورت پر ہی کیوں واجب ہے مرد پر کیوں واجب نہیں؟
اس کا سبب واضح ہے وہ یہ ہے کہ عورت و مرد ایک دوسرے کے بارے میں ایک جیسے احساسات نہیں رکھتے۔ خلقت کے اعتبار سے بھی دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں یعنی ہمیشہ عورت ہی مرد کی آنکھ، اس کے اعضاء و جوارح، ہاتھ اور اس کے تمام بدن کے حملے کا شکار ہوتی ہے۔ مرد عورت کے حملے کی زد میں نہیں آتا اور یہ بات فقط عورت و مرد سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہر نر اور مادہ کا یہی حال ہے۔ نر کو ”لینے والا“ خلق کیا گیا ہے جبکہ مادہ کو اس طور پر خلق کیا گیا ہے کہ وہ نر کے حملے کا شکار ہوتی ہے۔ آپ حیوانات پر تحقیق کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمیشہ نر ہی مادہ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ کبوتر، مرغ، اسپ، گدھا، چڑیا، شیر، گوسفند (وغیرہ) میں ہر ایک نوع میں یہی بات پائی جاتی ہے۔ تمام حیوانات میں نر کو ہی مادہ پر حملہ کرنے کا غریزہ سونپا گیا ہے۔ اگرچہ مادہ جنس بھی جنس نر کی طلبگار ہے لیکن وہ کبھی بھی نر کے سراغ میں نہیں نکلتی۔ اسی لئے انسانوں میں بھی جنس نر (مرد) ہی جنس مادہ (عورت) کے سراغ میں جانے، خواستگاری کرنے اور لڑکی کو نامزد کرنے پر ناگزیر ہے۔ لڑکا ہی خواستگاری کی خاطر لڑکی کے پاس جاتا ہے۔ رشتہ طلب کرنے کی خاطر لڑکے کا لڑکی سے رجوع کرنا ایک فطری بات ہے۔ ان آخری چند سالوں میں بعض لوگ جو نادانی کی بناء پر…یا بہتر کہیں کہ بے وقوف بنائے جانے کی وجہ سے ۔ عورت و مرد کے مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں اور غلط فہمی سے تساوی کو تشابہ قرار دیتے ہیں، کے خیال میں عورت و مرد کے درمیان صرف شرمگاہ کا فرق پایا جاتا ہے۔ ن کے خیال میں شرمگاہ کے علاوہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ یہ بہت برا رواج ہے! آخر لڑکے ہی لڑکیوں کی خواستگاری کو کیوں جائیں! یہ درست نہیں ہے اب کے بعد یہ رسم ہونی چاہئے کہ لڑکیاں بھی خواستگاری کے لئے لڑکوں کے پاس جائیں!
پہلی بات تو یہ ہے یہ قانون ِ خلقت کے خلاف ہے۔ اگر آپ اس قانون کو تمام جانداروں (جہاں دو جنس ہوں) میں تبدیل کر سکتے ہیں تو پھر اس جگہ (عورت و مرد میں بھی) تبدیل کر سکیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فطرت کے اس قانون کے ذریعے جنسِ مادہ کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یعنی جنسِ نر کو اس طرح خلق کیا گیا ہے کہ ہمیشہ وہی طالب ہے۔ وہ جنسِ مادہ کی رضامندی حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ اسی لئے جنس ِنر ہمیشہ جنسِ مادہ کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے۔ بہت سے حیوانات جن میں سے انسان بھی ایک ہے، میں مادہ کا نفقہ نر کے ذمے ہے۔ (حیوانات کے درمیان کم از کم حمل کے دوران یا جب تک مادہ انڈوں پر بیٹھتی ہے یہی معمول ہے) نر کے جذبات کو اس طور پر خلق کیا گیا ہے کہ جونہی مادہ اس کی شریکِ زندگی بننے پر رضامندی کا اظہار کر دے تو وہ اس کی خدمت پر تیار ہو جاتا ہے اور اس کی بنیاد دنیا میں موجود بڑی بڑی حکمتوں پر استوار ہے۔
مہر بھی اسی قبیل سے ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ مرد کسی چیز کو بعنوان ”صداق“ قرا ردے تو اس کی اساس بھی یہی اصل و قانون ہے، یعنی عورت کو ایک مقام پر اپنی حیثیت منوانی چاہئے۔ اسے کہنا چاہئے کہ تمہیں میری حاجت ہے، مجھے تمہاری حاجت نہیں۔ اور مرد اس بات کے اظہار پر مجبور ہو کہ اسے کوئی چیز عورت پر نثار کرنا ہے تاکہ عورت اس کی ہاں میں ہاں ملائے۔ مرد کو چاہئے کہ وہ کوئی تحفہ عورت کی خدمت میں پیش کرے۔ قرآن نے صداق کو بعنوانِ ”نحلہ“ بیان کیا ہے۔ وہ لوگ غلطی پر ہیں جو ”مہر“ کو ثمن، قیمت یعنی خریدنے کے پیسے قرار دیتے ہیں۔ قرآن نے تو اسے نحلہ اور ہدیہ قرار دیا ہے (جیسا کہ) آپ کسی کو اپنی حاجت روائی پر رضامند کرنے کے لئے اسے تحفہ دیتے ہیں۔ وہ آپ کو تحفہ نہیں دیتا۔ قرآن نے اسے ”صداق“ بھی کہا ہے، صداق یعنی کوئی چیز اس بات کے ثبوت کے لئے دینا کہ میری محبت سچی ہے۔ اس میں صداقت ہے۔ اس میں کھوٹ نہیں ہے۔ یہ شہوت رانی کے لئے نہیں ہے۔ شادی کے لئے ہے۔ فریب و دھوکہ دہی کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ یہ سچی محبت ہے۔
درحقیقت خدا نے عورت و مرد کو خلق ہی ایک دوسرے سے مختلف کیا ہے۔ اسی لئے ہمیشہ عورت ہی مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے۔ مرد ہرگز اپنے بناؤ سنگھار کے ذریعے عورت کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکتا۔ عورت اور زیور و زینت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عورت ایک ظریف و لطیف مخلوق ہے۔ ہر جنس (حتیٰ کہ انسانوں کے علاوہ بھی) میں ہمیشہ مادہ ظریف تر ہے، وہی جمال و زیبائی اور آرائش کا مظہر ہے۔ اگر فتنے کا سدباب کرنا مقصود ہو تو جو مظہر جمال ہے اس سے کہا جائے گا کہ اپنے آپ کو ظاہر نہ کر۔ خشونت و قوت کے مظہر سے یہ بات نہیں کی جائے گی۔ جو دوسرے کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرتا اس سے نہیں کہا جائے گا۔ بلکہ جو دوسرے کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ لے اس سے کہا جائے گا کہ تم گمراہی کے اسباب فراہم نہ کرو۔
عصر حاضر میں (یہ دوسری بات لوگوں میں رواج پا رہی ہے) البتہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ بات ناپائیدار ہے۔ آخر شکست کھانے کے بعد لوگ قانونِ فطرت کی طرف لوٹ آئیں گے۔ عورتیں اپنے آپ کو مردوں کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور مردوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنے آپ کو عورتوں کے روپ میں ڈھال سکیں۔ یہ نہایت ہی زودگزر اور بچگانہ ہوس ہے۔ زیادہ تر لڑکوں میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہمارے ہی زمانے کی ایجاد ہے۔ میری رائے میں یہ بہت زودگزر ہے۔ بعض لڑکوں کو لڑکیوں جیسا لباس پہننا، ان کے انداز اپنانا اور ان کی طرح زینت کرنا اچھا لگتا ہے۔ وہ اس حد تک ایسا کرتے ہیں کہ جب انسان کو ان میں کسی سے واسطہ پڑے تو اسے پتہ نہیں چلتا کہ یہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ اور کسی نے تو کہا ہے ”یہ سمجھنے کے لئے یہ لڑکی ہے یا لڑکا، بہت عمیق، مطالعات کی ضرورت ہے، یہ رواج خلقت اور اصولِ فطرت کے خلاف ہے۔ انسان میں ایسی بچگانہ اور احمقانہ خواہش کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ رواج تا دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ پس ایک مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ عورت و مرد کو میل جول کے درمیان کھلی ” آزادی“ حاصل نہیں ہے یعنی ان کو ہر طرح کے تعلقات برقرار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ تو پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فقط عورت کو جسم ڈھانپنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ مرد کو یہ حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ اس کی وجہ یہی تھی جو میں نے بیان کی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی بات ہی کس لئے ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ محرم و نامحرم کے مسئلے کو بیان کرنے کی کیا حاجت ہے؟ عورت پر کیوں واجب کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بدن کو نامحرم مردوں سے ڈھانپ کر رکھے؟ اس میں کیا راز ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے؟
اس کا پہلا اثر نفسیاتی ہے یعنی ذہنی سکون۔ جس معاشرے میں عورت و مرد کے تعلقات پاکدامنی کی بنیاد پر استوار ہوں (پاکدامنی ان اسلامی حدود کے اندر جن کو میں بعد میں بیان کروں گا) یعنی شادی کے دائرے سے باہر رہ کر عورتیں اپنا بناؤ سنگھار نہ کریں اور مردوں کو شہوت ابھارنے کے اسباب فراہم نہ کریں، مرد بھی آنکھ، ہاتھ وغیرہ کے ذریعے اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے لطف اندوز نہ ہوں تو دل اور روح سکون اور سلامتی سے ہمکنار ہوں گے۔ اور جس معاشرے میں اس کے برعکس حالت ہو گی اس معاشرے میں آنے والی سب سے پہلی مشکل ذہنی پریشانی ہو گی۔ بعض یورپین لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت و مرد کے ایک دوسرے کے دور ہونے کی صورت میں نفسیاتی الجھنیں اور ذہنی پریشانیاں وجود میں آتی ہیں جبکہ گزشتہ ایک صدی، بلکہ اس سے بھی کمتر مدت میں ثابت ہو چکا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل میں جتنی زیادہ آزادی ہو گی افراد میں التہا ب اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ کیونکہ انسان کے جنسی غریزے (اس کے دوسرے چند غرائز مثلاً جاہ طلبی کے غریزے، طلبِ علم کے غریزے اور عبادت کے غریزے کی مانند) میں محض بدنی ظرفیت نہیں ہوتی بلکہ روحانی ظرفیت بھی پائی جاتی ہے۔ جن غرائز کی ظرفیت محض بدنی ہو مثلاً کھانا، ان کی ظرفیت محدود ہوتی ہے۔ انسان ایک معین مقدار تک کھانا کھا سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں کھا سکتا۔ اگر اس سے کہا جائے کہ اس مقدار سے زیادہ کھاؤ تو اس کے لئے سزا کے مترادف ہو گا۔ سوال یہ ہوے کہ مالکیت کس قسم میں سے ہے؟ کیا یہ کھانے کی طرح ہے؟ کیا انسانی مالیکت کی ظرفیت کی کوئی انتہاء اور حد ہے؟ یعنی اگر کوئی انسان ایک لاکھ تومانوں کا مالک بن جائے تو پھر اس کی روح بھی مالیکت سے سیر ہو جاتی ہے؟ نہیں۔ جب اس کے پاس ایک لاکھ تومان آ جائیں تو وہ دو لاکھ کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ جب دو لاکھ تومان اس کے ہاتھ لگ جائیں تو اس کا جی پانچ لاکھ تومانوں کے لئے للچانے لگتا ہے۔ لاکھوں کا مالک بننے کے بعد ارب پتی بننے کی آرزو کرنے لگتا ہے اور پوری دنیا میں جو شخص سب سے زیادہ مالدار ہے وہی دولت کا سب سے زیادہ پیاسا ہے۔
جاہ طلبی کونسی قسم میں سے ہے؟ وہ بھی اسی قسم میں سے ہے جس شخص کے پاس کوئی منصب نہ ہو وہ کمیٹی کا صدر بننے کی آرزو کرتا ہے۔ لیکن جب وہ کمیٹی کا صدر بن جاتا ہے تو کیا اس کی ظرفیت پُر ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے بس یہی کافی ہے؟ نہیں۔ اس کے بعد اس کا دل زیادہ کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ وہ کسی علاقے یا شہر کی کارپوریشن کا میئر بننا چاہتا ہے۔ اور پھر وہ اس سے بلند منصب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگرپوری دنیا کسی شخص کی تحویل میں دے کر اس سے کہا جائے کہ اب تم پوری دنیا کے سلطان بن چکے ہو تب بھی اس کو زیادہ کی ہوس رہے گی اور وہ سوچے گا کہ کیا مزید ایک کرہ کو تسخیر کر کے اس پر حکومت کی جا سکتی ہے؟ انسان کا جنسی غریزہ بھی اسی قسم میں سے ہے(۱)۔
 

صرف علی

محفلین
چھٹی تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ کَمِشْکٰوةٍ فِیْھَا مِصْبَاحُ طاَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ کَاَلَّھَا کَوْکَبُ  دُرِّیّ یُّوْ قَدُ منْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لاَّ شَرْقِیَّةٍ وَّ لاَ غَرْبِیَّةٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْٓ ءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارُ ط نُوْرُ  عَلیٰ نُورٍط یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِ۵ ٰ مَنْ یَّشَآ ءُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِطوَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمُ ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۵)
سورہ مبارکہ نور کو اسی آیت کی بدولت ”سورہ نور“ کہا جاتا ہے چونکہ اس میں ” آیة نور“ آئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام سورہ نور پڑ گیا ہے۔ تفسیر کے لحاظ سے یہ آیت قرآن مجید کی مشکل آیات میں سے ایک ہے۔ خصوصاً قرآن کریم کی اسی آیت کے آخر میں ایک جملہ آیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت بہت زیادہ تدبر و تامل کے قابل ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی قابلیت کے مطابق اس آیت کے معانی سمجھتا ہے۔ چونکہ مثال بیان کرنے کے بعد آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے ”وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الٰاَمْثَالَ للنَّاسِ“ خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ بعض دیگر آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔ ”خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے لیکن فقط علماء ان ہی ان مثالوں کی تہ تک پہنچ پاتے ہیں۔“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید میں بیان شدہ مثالیں بہت عمیق ہیں، اس قدر عمیق کہ ہر کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ میں نے مثالوں میں بیان شدہ مطالب کو پورے طور پر سمجھ لیا ہے۔ اب ہم احادیث اور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں چند مطالب بیان کریں گے۔ آیت یہ ہے ”اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ یعنی خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس نکتے پر توجہ کرنے سے کہ قرآن آسمانوں اور زمین کو مخلوقات کا ایک حصہ قرار نہیں دیتا بلکہ وہ تمام مخلوقات، علوی و سفلی، غیب و حضور، تمام کی تمام مخلوقات کو بیان کرنے کے لئے ” آسمانوں اور زمین“ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہو گا کہ خدا تمام کائنات کا نور ہے۔ پس اس آیت کی ابتدا میں خداتعالےٰ پر لفظ ”نور“ کا اطلاق ہوا ہے۔ لفظ ”نور“ سننے سے انسان کے ذہن میں اسی محسوس نور کا تصور ابھرتا ہے اور فزکس دانوں کی رائے میں اس حسی نور کی حقیقت بھی پورے طور پر معلوم نہیں ہو سکی۔ قدرِ مسلم یہ ہے کہ جھانِ مادہ میں ”نور“ کے نام کی کوئی چیز موجود ہے اگرچہ سائنسی اعتبار سے اس کی شناخت مشکل ہے۔
بعض اجسام نیر اور نور افشان ہیں مثلاً سورج، ستارے اور انسانوں کے ہاتھوں بنائے گئے چراغ اور بلب وغیرہ۔ اگر یہ روشنیاں نہ ہوتیں تو پوری دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوتی۔ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہ دیتا۔ اس نور کی وجہ سے جہان میں روشنی ہے۔ اس نور کو حسی و مادی نور کہا جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ قرآن میں جو کہا گیا ہے کہ ”خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ تو اس نور سے حسی نور مراد نہیں ہے۔ بلکہ حسی نور تو خود خدا کی ایک مخلوق ہے۔ سورہ مبارکہ انعام کی پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ”الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ۔“ اللہ کی تعریف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا اور ان میں تاریکیوں اور نور کو قرار دیا…“ تو ثابت ہوا کہ خدا اس نور کا خالق ہے۔ (وہ خود نورِ حسّی نہیں ہے) ۔ یہ اس قدر مسلم بات ہے کہ قرآن کی نظر میں اس میں کلام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ نہ فقط یہ نور خدا کی مخلوق ہے بلکہ قرآن ہمیشہ اس نور کے منابع یعنی سورج، ستاروں کے متعلق بحث کرتے ہوئے ان کو بھی ذاتِ اقدس کی مخلوق قرار دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی شخص کا خدا کے متعلق ایسا تصور ہو جو ”بڑھیا کے تصور“ سے مشہور ہے۔ اس بڑھیا کا خیال ہے کہ خداوند عرش پر نور کا ایک ذخیرہ ہے۔ وہ خدا کے نور کو بجلی و خورشید سے ملتی جلتی چیز ہی خیال کرتی ہے۔ اگر واقعی کسی کا یہی اعتقاد ہو تو اس کا عقیدہٴ توحید ناقص ہے اور اس کا ایمان کمزور ہے۔ حسّی نور کو تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن کہتا ہے ”لاَتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوْ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ۔“ خدا کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس صورت میں اگر کوئی شخص۔ نعوذ باللہ۔ خدا کو اس نور کی ایک قسم قرار دے تو ظاہر ہے کہ اس کا عقیدہٴ توحید ناقص ہو گا اور ایسے شخص کو مجسم کہتے ہیں کیونکہ اس نے خدا کو جسم اور نظر آنے والا فرض کیا ہے۔
لفظ ”نور“ کا مصداق حسّی نور میں ہی منحصر ہی نہیں ہے بلکہ لفظ نور ہر اس چیز کے لئے وضع کیا گیا ہے جو خود بھی روشن ہو اور دوسرے کو بھی روشن کرے یعنی خود بھی ہویدا ہو اور دوسروں کو بھی ہویدا کرے۔ ہم اس حسیّ نو رکو اسی وجہ سے ”نور“ کہتے ہیں کہ یہ خود بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہویدا ہے اور دوسری چیزوں کو بھی ہویدا کرتا ہے۔ جو چیز خود بھی آشکار ہو اور دوسروں کو آشکار کرنے والی ہو اس کو ہم ”نور“ کہہ سکتے ہیں (اور کہتے بھی ہیں) چاہے وہ جسم نہ بھی ہو، (حسّی نہ ہو)۔ مثلاً علم کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ ”علم نور ہے“۔ حدیث میں ہے ”اَلْعِلْمُ نُوْرُ  یَّقْذِفُہُ اللّٰہُ فِیْ قلْبِ مَنْ یَّشَآءُ۔“ اور یہ بات درست ہے۔ واقعی علم نور ہے کیونکہ علم خود بھی آشکا رہے اور غیر کو بھی آشکار کرتا ہے۔ علم اپنی ذات میں روشنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسان پر دنیا کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے کہ علم بجلی و سورج وغیرہ کے نور جیسا نور نہیں ہے۔ اصلاً علم جسم و جسمانیات کی اقسام میں سے نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اسے نور کہتے ہیں۔ عقل کو بھی ”نور“ کہتے ہیں۔ عقل بھی ایک نور ہے۔ قرآن کریم نے ایمان کو بھی ”نور“ سے تعبیر کیا ہے۔ ”اَوَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَاَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا۔ “ (انعام۔ ۱۲۲) کیا وہ جو مردہ تھا اور ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے نور قرار دیا جس کی بدولت وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے…“ اس میں جو لفظ ”نور“ آیا ہے تو اس سے مراد ”نورِ ایمان“ اور ”دل کی روشنی“ ہے۔ ایمان فانوس، بلب اور سورج وغیرہ کے نور جیسا نور نہیں ہے۔ ایمان بذاتِ خود ایک غیرجسمانی حقیقت ہے۔ وہ غیر کو روشن او رظاہر کرنے کااثر اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ انسان کو ایک طرح کا شعور عطا کرتا ہے۔ انسان کی راہنمائی مقصد کی جانب کرتا ہے چونکہ ایمان انسان کے مقصد کا تعین کرتا ہے اور اسے سعادت بخش مقصد کی جانب لے کر جاتا ہے۔ اس لئے ہم ایمان کو ”نور“ کہتے ہیں۔ عرفاء عشق کو ”نور“ کہتے ہیں۔ مولانا جال الدین رومی فرماتے ہیں۔
عشق قہار است و من مقہورِ عشق
چون قمر روشن شدم از نورِ عشق!
عشق غالب ہے اور میں مغلوب ہوں۔ میں نورِ عشق سے چاند کی مانند منور ہو گیا ہوں۔
اب جبکہ ہم نے ”نور“ کا معنی یہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسی واقعیت ہے جو خود بھی آشکار ہو اور غیر کو بھی آشکار کرے، یعنی خود بھی روشن اور غیر کو روشن کرنے والی حقیقت کا نام ”نور“ ہے اور مزید کسی چیز کو اس کی ماہیت میں دخل نہ دیں کہ مثلاً یہ نہ کہیں آنکھ، عقل یا دل کے لئے آشکار ہو۔ اس جہت سے ہمارا کوئی واسطہ نہ ہو کہ وہ کیونکر آشکار اور آشکار کرنے والا ہے تو اس معنی کے لحاظ سے خداوند تعالیٰ کو ”نور“ قرا ردینا درست ہے۔ ”خدا نور ہے“ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی واقعیت ہے جو فِیْ ذَاتِہ آشکار اور آشکار کرنے والی ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے کوئی چیز بھی خدا کے مقابلے میں نور نہیں ہے۔ یعنی اللہ کے سامنے تمام نور تاریکیاں ہیں۔ فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو فِیْ ذَاتِہ ظاہر اور ظاہر کرنے والی ہے۔ اگر دوسری اشیاء میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے تو یہ خصوصیت ان کی ذات میں داخل نہیں ہے۔ ان کی ذات میں تاریکی ہے۔ خدا نے ان کو ظاہر اور ظاہر کرنے والا بنایا ہے۔ خدا فرماتا ہے۔ ھُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ والظَّاہِرُ…!
خدا ظاہر ہے۔ ”ظاہر ہے“ کا مطلب ہے کہ آشکار ہے۔ خدا تمام اشیاء کا خالق ہے۔ یعنی اشیاء کو وجود میں لانے اور انہیں پیدا کرنے والا ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ احادیث اور دعاؤں میں لفظ ”نور“ کو اللہ تعالیٰ کے ایک اسم کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نور خدا کا نام ہے۔ دعائے کمیل کے اوائل میں دو کلمات ایسے ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ امیرالمومنین خداوند تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں ”یَا نُوْرُ یَا قُدُّوْسُ“ اے نور، اے بہت زیادہ مقدس اور بے عیب۔ ممکن ہے ”یاقدوس“ کو ”یا نور“ کے بعد لانے کی وجہ یہ ہو کہ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ خداوند تعالیٰ ویسا ہی نور ہے جیسا کہ مانوی لوگ خیال کرتے ہیں۔ وہ خدا کو جسمانی نور قرار دیتے ہیں جبکہ خدا ایسی نسبتوں سے منزہ ہے وہ نور ہے لیکن ان حسّی و جسمانی انوار میں سے نہیں ہے۔ دعائے کمیل میں ہی یا نور یا قُدوس سے چند جملے قبل ایک بہت ہی لطیف جملہ ہے، وہ یہ کہ وَبِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْٓ اَضَآءَ لَہ کُلُّ شَیْ ءٍ۔
عرفا اور شعراء محبوب کو ”شاہد“ سے تعبیر کرتے ہیں (یہ بات فارسی میں ہی نہیں عربی میں بھی پائی جاتی ہے)۔ شاہد اسے کہا جاتا ہے جو بزم میں موجود ہو۔ وہ اس طرح کہتے ہیں کہ اے محبوب! تم آتے ہو تو تمہارے چہرے سے ہماری محفل چمک اٹھتی ہے۔ اگر تیرا چہرہ نہ ہو تو ہماری محفل تاریکی میں ڈوبی رہتی ہے۔ حافظ کہتا ہے۔
اینہمہ عکس مے و نقش رخ مخالف کہ نمود
یک فروغِ رخ ساقی است کہ درجام افتاد
امیرالموٴمنین علیہ اسلام بھی فرماتے ہیں کہ ”وَبِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْٓ اَضَآءَ لَہ کُلُ شَیْ ءٍ۔“ تجھے تیرے چہرے کے نور کی قسم کہ جس کی بدولت تمام اشیاء تابندہ ہیں۔ اگر تیرے چہرے کانور اور تیری ذات کا نور نہ ہو تو تمام اشیاء تاریک ہوں (یعنی سب کچھ تجھ سے منور ہے) اور ”سب کچھ تاریک ہو“ کا مطلب یہ ہے کہ اصلاً کوئی چیز بھی نہ ہو۔ ہر چیز معدوم ہوتی۔ یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام چیزیں موجود ہوتیں لیکن تاریکی میں ہوتیں، اس تاریکی کی مانند جس میں ہم رات کے وقت ہوتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر تیری ذات کا نور نہ ہوتا تو کسی چیز کا بھی وجود نہ ہوتا اور تمام اشیاء نیستی کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوتیں۔
ہمہ عالم بہ نورِ اوست پیدا
کجا اوگر دو از عالم ہویدا
شیخ صدق کی کتاب ”التوحید“ میں ایک روایت ہے کہ ایک غیرمسلم آدمی نے امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا علی! خدا کہا ں ہے؟ تو آپ نے ایندھن لانے کا حکم دیا۔ ایندھن لایا گیا (شاید رات کا وقت بھی تھا) تو آپ نے فرمایا اسے آگ لگائی جائے۔ جب آگ لگائی گئی تو ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ آپ نے فرمایا بتاؤ نور کہا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہر جگہ۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ نور خدا کی ایک مخلوق ہے۔ تم نہیں بتا سکتے کہ یہ کہاں ہے۔ تمہارا کہنا ہے کہ نور ہر اس جگہ پر ہے جہاں تک اس کی روشنی پہنچ رہی ہے تو خدا بھی ہر جگہ ہے وہ بھی ہر اس جگہ پر ہے جہاں اس کی روشنی پہنچ رہی ہے۔ ہر جگہ خدا کی بدولت ہی روشن ہے۔ جگہ خود ایک ایسی چیز ہے جسے خدا نے روشن کیا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت بھی نہیں ہے۔ وَبِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَضآءَ لَہ کُلُّ شَیْءٍ ۔“ پس ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم خداوند تعالیٰ پر لفظ ”نور“ کا اطلاق کر سکتے ہیں یا نہیں؟ جی ہاں، کر سکتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آئمہ نے بھی کیا ہے اور خود قرآن نے بھی کیا ہے اور عقلی طور پر بھی کوئی چیز اس سے مانع نہیں ہے۔ لیکن اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا نو رہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی۔ نعوذباللہ۔ کہ خدا حسّی و جسمانی نور ہے کیونکہ یہ نور تو خدا کی مخلوق ہیں۔ بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ذاتِ الٰہی ایسی ذات ہے جو سب سے زیادہ ظاہر ہے، سب سے زیادہ روشن ہے اور ہر چیز اسی کے جلوے کی بدولت روشن ہے۔ اور خدا کے نور ہونے کا یہی معنی ہے۔ خداوند تعالیٰ خودبخود ظاہر ہے، کسی دوسری چیز نے اسے ظاہر نہیں کیا بلکہ اس نے تمام اشیاء کو ظاہر اور روشن کیا ہے۔ اس معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم خداوند تعالیٰ پر لفظ ”نور“ کا اطلاق کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نور میں ہدایت و رہنمائی جو کہ روشنی کا لازمہ ہے، کی خصوصیت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ اور بھی ہے جسے بعد میں بیان کروں گا۔ ایک اور نقطہ یہاں بیان کرنا چلوں کہ ہم خداوند تعالیٰ کو ”نور“ تو کہتے ہیں لیکن ”نورِ اعظم“ ہرگز نہیں کہتے۔ کیونکہ اس کا معنی یہ ہو گا کہ نور زیادہ ہیں، ان میں ایک سب سے بڑا نور ہے دوسرا چھوٹا۔ خدا سب سے بڑا نور ہے، بلکہ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا نور ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا کے علاوہ تمام اشیاء ظلمت میں ہیں۔ ہاں اگر خدا کا ذکر نہ کیا جائے ، فقط اشیاء کا ایک دوسری سے موازنہ کیا جائے تو اس صورت میں ان میں ایک چیز نور ہو گی اور دوسری نور نہیں ہو گی۔ مثلاً علم نور ہے۔ ایمان نور ہے۔ قوہ باصرہ نور ہے۔ قوہ عاقلہ نو رہے۔ اس معنی کو پیش نظر رکھا جائے تو خدا ”نور النور“ تو ضرور ہے مگر نورِ اعظم ہرگز نہیں ہے۔ وہ تمام انوار کا نور ہے یعنی خدا کے مقابلے میں تمام نور تاریکیاں ہیں۔ خدا نے ہی ان کو نور بننے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اگر فقط اشیاء ہی پیش نظر ہوں تو پھر ہر شے میں اس کے حصے کا نور پایا جاتا ہے۔ ایمان نور ہے، علم نور ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم عرض کر چکے ہیں کہ قرآن مجید نے بعض اشیاء کو ”نور“ کہا ہے۔ ان میں سے ایک خود قرآن ہے جسے ”نور“ کہا گیا ہے۔ قرآن خدا کا نور ہے یعنی یہ ایسا نور ہے جسے خدا نے خلق کیا ہے۔ قَدْ جَآ ءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرُ  وَّ کِتَابُ  مُّبِیْنُ  یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہ وَیَھْدِیْھِمْ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔“ قرآن نور ہے اور وہ نور جو کہ اللہ کی معرفت ہے، کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ پس اللہ کی معرفت بھی نور ہے۔
اگر کم سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد سے ”اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ“ کا معنی پوچھا جائے تو وہ اس کا معنی حسّی نور ہی کریں گے۔ مگر ہم یہاں بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کو مخاطب کرکے عرض کرتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ خدا نور عطا کرتا ہے بلکہ وہ بذاتِ خود بھی واقعاً نور ہے۔ اور خدا کا ایک نام ”نور“ ہے۔ نور کا معنی وہ نہیں ہے جو انسان کے خیال میں ہے اور وہ منحصر ہے حسّی نور میں۔ یہاں تک آیت کے پہلے جملے کی وضاحت تھی۔
دوسرے جملے میں خدا کے نور کی مثال بیان ہوئی ہے یعنی خود خدا کی مثال بیان نہیں ہوئی۔ مثال بین کرنے سے قبل ارشاد ہوتا ہے کہ ”اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ خدا بذاتِ خود آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ البتہ اس نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے واسطے ان کے درمیان چند نور بھیجے ہیں۔ اس آیت میں ”خدا کے نور“ کی تمثیل بیان کی گئی ہے، وہ نور کہ جس کے وسیلے سے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے۔ اس تمثیل کے متعلق علماء کے مابین بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔ قرآن نے یہاں نور کی تمثیل کے لئے نور کے ایک قدیمی وسیلے (چراغ) کو بیان کیا ہے۔ وہ مثال کے لئے بڑے اور ان بلندپایہ گھر یا گھروں، معابد اور مشاہد کا ذکر کرتا ہے جن میں مشکوٰة یعنی چراغدان ہو اور چراغدان سے مراد وہ طاق ہے جو چراغ رکھنے کے واسطے دیوار میں بنایا جاتا تھا۔ قرآن مثال کی خاطر اس چراغ کا ذکر کر رہا ہے جو ایک شفاف چیز (مثلاً) قندیل یا شیشے کے اندر ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ جب چراغ شیشے کے اندر ہو تو انوار کے متعاکس ہونے یا احتراق کے کاملتر ہونے (بہرحال جو کچھ بھی ہو) کے باعث اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
وہ شیشے اور قندیل والا چراغ ایک کمرے کے اندر مشکوٰة میں ہے اور چراغ زیتون کے تیل، جو کہ جلنے کے لئے بہترین تیل ہے اور وہ بھی بہترین زیتون، سے استفادہ کرتا ہے۔ ایسے زیتون سے استفادہ کرتا ہے جس میں احتراق کی صلاحیت اس حد تک پائی جاتی ہے کہ گویا وہ آگ لگنے سے پیشتر ہی چمکنا اور نور افشانی کرنا چاہتا ہے۔ اس زمانے میں انسانی ایجادات میں سے چراغ ہی سب سے زیادہ منور، نورانی اور نور کا بہترین ذریعہ تھا۔
خدا نے اپنے نور کی مثال دینے کے لئے اس خاص چراغ کا انتخاب کیا ہے جو خاص قسم کے تیل سے جلتا ہے اور خاص صفات کے حامل گھر میں موجود ہو۔ مثال بیان کرنے کے بعد خدا ارشاد فرماتا ہے کہ ہم مثالیں بیان کرتے ہیں اور ان مثالوں میں غور و فکر کرنے کا کام لوگوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ عرض کرچکا ہوں کہ قرآن کی سنت لوگوں کو تفکر کی دعوت دینا ہے۔ وہ فقط یہی نہیں کہتا کہ جاؤ فکر کرو۔ بلکہ بعض اوقات ایک جانب تو غور و فکر کرنے کو کہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ موضوع کو اس طور پر پیش کرتا ہے کہ اذہان خودبخود اس کے متعلق غور و فکر کرنے لگتے ہیں اور وہ مطلب کی تہ تک پہنچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرتے ہیں۔ جس طرح آٰپ حضرات اپنے بچوں کی ذہنی بالیدگی کی خاطر بعض مسائل پہیلیوں کی صورت میں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ بچے ذہن کو کام میں لائیں اور زیادہ سے زیادہ غور و فکر کریں۔
قرآن نے اپنا مطلوبہ مقصد اسی تمثیل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ یعنی فقط مفسرین میں ہی اس مثال پر غور کرنے کی رغبت پیدا نہیں ہوئی بلکہ غیرمفسرین نے بھی اس پر غور کیا ہے کہ قرآن نے جو چراغ، شیشے، چراغدان، تیل، مبارک، درخت اور اس تیل کا ذکر کیا ہے جو خودبخود بھڑکنا اور آگ کے بغیر ہی نور افشانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے قرآن کی مراد کیا ہے؟ (یعنی قرآن کس چیز کو بیان کرنا چاہتا ہے) مثلاً بوعلی سینا مفسر نہیں ہے اور تفسیر اس کا فن بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس نے بھی اس آیت میں غور کیا ہے۔ اس کے ذہن میں ایک بات آئی جسے اس نے بیان کیا ہے۔ غزالی بھی مفسر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اس آیت پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔ غزالی اور بو عی سینا دونوں نظریہ یہ ہے کہ یہ مثال انسان کی مثال ہے۔ قرآن نے جس نوکر کا ذکر کیا ہے کہ ”نور خدا کی مثال اس چراغدان کی سی ہے جس میں چراغ ہو اور وہ چراغ ایک قندیل میں ہو…“ اس سے مراد انسان ہے۔ البتہ بوعلی سینا او رغزالی کے طرزِ استدلال میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
فلسفے کی سرگرمیوں میں سے انسان شناسی و نفسیات بھی ایک ہے۔ نفسیات کے مسائل میں فلسفی سب سے زیادہ اعتماد قوہ عاقلہ پر کرتا ہے۔ وہ معتقد ہے کہ انسان کی انسانیت اس کا قوہ عاقلہ ہی ہے۔ انسان کا کمال قوہ عاقلہ کے کمال کا نام ہے۔ انسان کی سعادت بھی قوہ عاقلہ کے کمال میں پنہاں ہے۔ وہ عقل عملی ہو چاہے عقل نظری اور پہلے درجے میں عقل نظری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب فلاسفر قائل ہوئے کہ یہ مثال انسان کی ہے تو انہوں نے اسے انسان کے اصلی جوہر یعنی قوہ عاقلہ سے متعلق قرا ردیا … پھر انہوں نے اس کو ان مراحل و مراتب پر منطبق کیا جو وہ خود قوہ عاقلہ میں تشخیص دے چکے تھے۔ مثلاً انہوں مشکوٰة کو ”عقل ہیولانی“ پر منطبق کیا۔ یعنی وہ عقل جو قوة و استعداد محض کے مرحلے میں ہے۔ اور زجاجہ، شیشہ اور نور کو زیادہ کرنے والی چیز کو ”عقل بالملکہ“ پر منطبق کیا اور مصباح کو ”عقل بالفعل“ پر اور درخت کو ”درختِ فکر“ قرار دیا ہے۔ میں یہاں یہ بیان نہیں کرنا چاہتا کہ ان کی بات کس حد تک صحیح ہے۔ ان کی بات چاہے صحیح ہو یا غلط (البتہ ان کی بات کا صحیح ہونا کچھ بعید لگتا ہے۔) بو علی سینا نے اپنے نظریہ بیان کرتے ہوئے اسے آیت کی تفسیر قرار نہیں دیا۔ اس نے مراتب عقل کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اسے آیت کی تفسیر کا نام دیئے بغیر اس پر الفاظِ قرآنی کو منطبق کردیا ہے جبکہ غزالی کے طرز بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کی تفسیر بیان کرنا چاہتا تھا۔ بعض دیگر دانشمندوں کا کہنا ہے کہ مشکوٰة، مصباح اور زجاجہ سے فقط ایک ہی چیز خدا تعالیٰ کے مدنظر تھی۔ اور وہ ہے وہ نور جو بہت زیادہ روشن ہو۔ اگر ہم رات کے وقت اس مسجد جیسے کسی مکان میں ہوں اور اس میں بہت زیادہ نورانی چراغ موجود ہو تو اس صورت میں کیا کیفیت ہو گی؟ پھر کوئی شک و ابہام باقی نہیں رہے گا۔ تو ان دانشمندوں کا کہنا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اندھیری رات کے وقت ایک بند کمرے میں موجود فلاں فلاں خصوصیات کا حامل چراغ روشن، واضح اور ہویدا ہوتا ہے ویسے ہی اس چراغ کی طرح نورِ خدا اور ہدایتِ الٰہی بھی زیادہ واضح، روشن اور ہویدا ہے۔
ہماری احادیث میں اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس آیت میں مختلف تفاسیر پر منطبق ہونے کی قابلیت پائی جاتی ہے۔ بعض روایات میں بھی اسے انسان کی مثال قرار دیا گیا ہے۔ البتہ ان روایات میں اسے انسان کی عقل پر نہیں بلکہ اس کے ایمان پر منطبق کیا گیا ہے۔ احادیث میں مشکوٰة، زجاجہ اور مصباح کو انسان کے بدن، سینے، دل، دماغ اور اس کے نورِ ایمان سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ایمان کا نور کس طرح انسان کے دل میں جاگزین ہوتا ہے اور انسان کی روح کیسے اس کے بدن میں واقع ہوتی ہے، تو بعض احادیث میں اس کو ایمان کے پہلو سے انسان کی مثال قرا ردیا گیا ہے۔
بعض دیگر احادیث میں بھی اسے انسان کی مثال قرار دیا گیا ہے لیکن موٴمن کی مثال قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے انسانیت کی ہدایت کے مرکز یعنی نبوت اور وہ بھی خاتم النبین کی مثال بتایا گیا ہے۔ اس قول کی دلیل یہ ہے کہ آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”یَھْدیِ اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ “۔ واضح ہے کہ یہ اس نور کا تذکرہ ہے جس کے وسیلے سے خدا لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ حدیث میں چراغدان کو ”نبی اکرم کے سینے“ اور چراغ ایمان کو اس ”نورِ وحی“ پر منطبق کیا گیا ہے جو آپ کے مقدس قلب میں ہے۔ اس کے بعد یہ جو آیت میں ہے کہ ”اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ“ تو چونکہ چراغ کو قندیل میں منتقل کیا جاتا ہے اس لئے آیت کے مدنظر اس انتقال کا پہلو ہے یعنی مراد یہ ہے کہ یہ نو رنبی اکرم سے امیر المومنین کی جانب منتقل ہوا ہے۔ زجاجہ سے مراد امیرالمومنین ہیں اور جس درخت کے تیل سے نورانیت میں اضافہ ہوتا ہے اس سے حضرت ابراہیم مراد ہیں۔ اور چونکہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ درخت نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی، (حدیث میں ہے کہ ) اس اس سے مراد یہ ہے کہ ”مَا کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُوْ دِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا۔“ ابراہیم کا جھکاؤ نہ تو دائیں جانب تھا او رنہ ہی بائیں جانب۔ آپ نہ تو یہودیوں کے غلط راستے پر تھے اور نہ ہی عیسائیوں کے غلط راستے پر بلکہ آپ جادہٴ حق پر گامزن تھے۔ ”وَلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۔“
پس یہ آیت اور اس مثال کی مزید ایک تفسیر ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ آیت ایسی آیت نہیں ہے جس کے متعلق میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکوں کہ اس مثال سے یقینی طور پر وہی مراد ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔ خدا نے اس لئے مثال بیان کی ہے کہ ہم اس میں غور و فکر کریں۔ یہ ایک ایسی جامع مثال ہے کہ اس تمام جہان کے لئے خدا کی ہدایت کی مثال بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی پوری دنیا کو ایک ایسے گھر سے تشبیہہہ دی گئی ہے جو مکمل طور پر تاریک نہیں ہے بلکہ اس میں بہت زیادہ نورانی چراغ موجود ہے اور وہ خدا کا نور ہے۔ اس بات کو قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ بات بہت ہی عمیق ہے کہ جہان کے تمام ذرات خدا کی تسبیح کرتے ہیں یعنی جہاں کے تمام ذرات اپنے خالق کے وجود سے آگاہ ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
ساتویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ…
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر کو دو حصوں میں بیان کیا جا چکا ہے۔ پہلا حصہ ذات الٰہی پر لفظ ”نور“ کے اطلاق کے متعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضِ دوسرے حصے میں اس مثال پر بحث کی گئی جس کا ذکر آیتِ کریمہ میں آیا ہے۔ آیت میں درحقیقت ایسے گھر یا گھروں کو فرض کیا گیا ہے جو چراغ کے ذریعے (اسی ترتیب کے ساتھ جس کو گزشتہ تقریر میں بیان کر چکا ہوں) منور ہوں۔ قرآن نے اسے خدا کی مثال قرار نہیں دیا بلکہ خلق میں نور خدا کی مثال قرار دیا ہے۔ میں نے اس مثال کے مضمون کے متعلق چند نکات بیان کئے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ ان کا نتیجہ آج کی تقریر میں بیان کروں گا۔
پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جنہوں نے مفسرین اور غیرمفسرین سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے۔ اب میں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں، شاید وہ کسی حد تک اس آیت کے مضمون کو واضح کر سکے۔ وہ یہ ہے کہ ہماری احادیث میں ”معرفة اللّٰہ“ یعنی خداشناسی کے باب میں ایک مطلب آیا ہے جو ابتدا میں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر چیز کو خدا کے ذریعے پہچانا جاتا ہے اور خدا کی معرفت اس کی اپنی ذات کے ساتھ ہوتی ہے۔ بلکہ ہماری احادیث میں بہت عمدہ قول وارد ہوا ہے، ظاہراً عبارت یہ ہے۔ ”کُلُّ مَعْرُوْفٍم بِغَیْرِہ مَصْنُوْعُ ۔ یعنی ہر وہ چیز جس کو غیر کے ذریعے پہچانا جائے وہ مخلوق ہے، خدا نہیں ہے۔ یہ بہت ہی عمدہ جملہ ہے کہ ”خدا کو اس کی ذات کے ذریعے سمجھا جاتا ہے اور غیر خدا کو خدا کے ذریعے“، جبکہ ہم خیال کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ فقط یہی ایک راستہ ہے اور کہتے ہیں کہ ہم جھان کو جھان کے ذریعے سمجھتے ہیں یعنی ہم مخلوقات کی شناخت مخلوقات کے ذریعے کرتے ہیں اور خدا کی شناخت بھی مخلوقات کے ذریعے کرتے ہیں۔ بعض مسلمان رائٹرز نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ (شروع میں اس نظریے کو مصریوں نے پیش کیا، بعد میں دوسرے بھی اسی کے معتقد ہو گئے کہ) مخلوقات خدا کو پہچاننے کا واحد راستہ ہیں۔ خدا کو فقط اور فقط مخلوقات کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اس انحصار کو قرآن سے منسوب کر دیا جبکہ یہ انحصار بطور مسلم غلط ہے۔ (البتہ) عوام الناس کے لئے یہ صحیح ہے یعنی عوام الناس کو خدا کی یاددہانی کرانے کا پہلا راستہ اور پہلی کلاس یہی ہے۔ قرآن نے بھی یہی کیا ہے۔ اس نے مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیاں قرار دیا ہے ۔ البتہ اس طریقے سے انسان کو خدا کا فقط ایک اجمالی اور مبہم سا نشان ہی ملتا ہے۔ معرقتِ خدا اور خداشناسی تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہمیں ایک قانون نظر آتا ہے (جس کی طرف گزشتہ تقریر میں بھی اشارہ کر چکا ہوں)۔ وہ قانون ہدایت ہے۔ یعنی قرآن کسی چیز کو بھی اندھا اور گمراہ نہیں سمجھتا۔ وہ تمام اشیاء کو بینا اور راہ یافتہ قرار دیتا ہے البتہ انسان کا مسئلہ ان سے جدا ہے کیونکہ اسے اپنا راستہ خود ہی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں ایک نسبی گمراہی سے دوچار ہو جاتا ہے، میں یہاں دنیا کے تکوینی نظام کی بات کر رہا ہوں۔
قرآن نے تمام مخلوقات کی ہدایت کے موضوع کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس نے موسیٰ علیہ اسلام کے قول کو نقل کیا ہے جب فرعون نے کہا کہ تمہارا خدا کون ہے۔ ہمیں اپنے خدا کے بارے میں بتاؤ۔ تو موسیٰ علیہ اسلام نے کہا۔ ”رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ءٍ خَلُقَہ ثُمَّ ھَدٰی“ اس آیت میں دو دلیلوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ ایک برھانِ نظم کی جانب یعنی ہر چیز میں جس شیٴ کی لیاقت پائی جاتی ہو وہ اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے۔ یعنی موجودہ نظام کی جانب اشارہ ہے اور دوسری دلیل ”ثُمَّ ھَدٰی“ ہے۔ یعنی خدا نے ہر چیز کی ہدایت اس کے مستقبل ہدف اور کمال کی جانب بھی کی ہے۔
سورہ اعلیٰ میں ارشاد ہوتا ہے ”اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدیٰ“ اور مفسرین میں سے میں نے فقط فخرالدین رازی کو ا س نکتے کی جانب متوجہ پایا ہے (اور ظاہراً یہ بھی اسی کا قول ہے) کہ سب سے پہلے قرآن نے یہ نکتہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ اصل نظام مخلوقات ایک مطلب ہے اور یہ اللہ کے وجود کی ایک دلیل ہے۔ موجودات کی ہدایت کا قانون دوسرا مطلب ہے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کی دوسری دلیل ہے۔ کائنات چونکہ ایک مشین ہے اس لئے اس کا ایک سسٹم ہے۔ (بالفاظِ دیگر نظام مخلوقات ایک اصل ہے) اور یہ کہ غریزے جیسی ایک نامرئی طاقت ہر چیز کو آگے کی جانب کھینچ رہی ہے۔ یہ دوسری اصل ہے۔ یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ مخلوقات کی ہدایت سے کیا مراد ہے اور خداوند تعالیٰ نے کن معنوں میں ہر چیز کی ہدایت اس کے مقصد کی جانب کی ہے؟ یہ بھی بالکل معرفت کے مسئلے کی طرح ہے یعنی ہر چیز کی ہدایت پہلے خدا کی جانب اور بعد میں کسی دوسرے مقصد کی جانب کی جاتی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ ”غایة الغایات“ ہے، ہر مقصد مقصد بننے کی صلاحیت خدا سے حاصل کرتا ہے۔
یہ بات کہ خدا آسمانوں اور زمین کانور ہے اور ہر چیز کی نورانیت خدا کی جانب سے عطاء کردہ ہے، درحقیقت یہ وہی بات ہے کہ ہر چیز کو خدا کے ذریعے سمجھا جاتا ہے اور خدا کو اس کی اپنی ذات کے سمجھا جاتا ہے۔ ہر چیز خدا کی وجہ سے ظاہر ہے اور خدا خودبخود ظاہر ہے۔ ہر چیز خدا کے وسیلے سے ”مھتدی الیہ“ یعنی اس کا سراغ لگایا جاتا ہے اور اسے مقصد قرا ردیا جاتا ہے۔ صرف الہ کی ذات ایسی ہے جو تمام کائنات اور مخلوقات کی مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید تمام مخلوقات اور تمام ذرات کی ایک طرح کی زندگی اور شعور کا قائل ہے۔ بعد کی دو تین آیات میں ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے۔ ”اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّعُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صَآفَّاتٍ کُلُّ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَة وَتَسْبِیْحَہ یہ اسی مطلب کا منطقی نتیجہ ہے۔ اَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرضِ کا منطقی نتیجہ وَاِنْ مِّنْ شَیْ ءٍ اِلاَّ یُسَبِّعُ بِحَمْدِہ وَلکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ“ ہے۔
جس طرح موجودات کے درجات و مراتب ہیں ویسے ہی ان کے درجات کے تناسب سے ان کی ہدایت میں فرق پایا جاتا ہے۔ جمادات کی ہدایت ان کے اپنے وجودی درجے کے مطابق ہے۔ نباتات کی ہدایت ان کے اپنے وجودی درجے کے مطابق ہے۔ حیوانات کی ہدایت ان کے اپنے وجودی درجہ کے مطابق ہے اور انفرادی و اجتماعی لحاظ سے انسان کی اپنی حد کے مطابق اس کی ہدایت کے درجات ہیں۔
گزشتہ تقریر میں عرض کر چکا ہوں کہ روایات اور غیرروایات یعنی علماء و مفسرین کے اقوال اس مثال کے بارے میں مختلف ہیں۔ بعض نے اسے تمام جہان کی مثال قرا ردیا ہے۔ یعنی انہوں نے استعاروں کے اس مجموعے کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے، وہ یوں کہ یہ دارِ وجود و ہستی تاریک گھر نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا گھر ہے جس میں سب سے زیادہ نورانی چراغ موجود ہے۔ (چراغ کی مثال کو اس زمانے کے سب سے زیادہ نورانی چراغ کے مصداق کے طور پر ذکر کیا گای ہے) تو جہان تاریک و نابینا نہیں ہے۔ بعض نے اس مثال کو انسان پر منطبق کیا ہے۔ گزشتہ تقریر میں انسان کے متعلق کچھ مطالب عرض کر چکا ہوں۔ اب ایک مختصر سا بیان پیش کرتا ہوں جو ان سب پر محیط ہے۔
کہتے ہیں کہ ہدایت کی چند اقسام ہیں۔ ”ہدایتِ طبیعی“ جو بے جان اشیاء میں بھی پائی جاتی ہے۔ ”ہدایتِ حسّی“۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے حواس سب کے سب ہدایت کے چراغ ہیں جو حیوان و انسان کے وجود میں پائے جاتے ہیں۔ ”ہدایتِ جبلی“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حیوان کی اپنی ایک جبلت ہے جو اسے اس کے مقصد کی جانب راہنمائی کرتی ہے۔ ”ہدایتِ عقلی“۔ قوہ عاقلہ بذاتِ خود ایک نور ہے جو انسان کو عطا کیا گیا ہے تاکہ وہ تفکر و تدبر کے ذریعے اس نور سے استفادہ کرے۔ دین بھی ہدایت کی ایک قسم ہے جسے ”ہدایتِ وحی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بعض دانشمندوں نے اس مثال کو موجودات کی عام ہدایت پر منطبق کیا ہے جبکہ بعض نے اسے انسان کی ہدایت پر منطبق کیا ہے۔ (البتہ بعض کا کہنا ہے کہ انسان میں پائی جانے والی تمام حسّی، عقلی، جبلی، یہاں تک کہ ہدایتِ وحی، یہ تمام کی تمام ہدایات مراد ہیں جبکہ بعض نے اس کو ”ہدایتِ عقل“ ہی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ بو علی سینا کا بھی یہی عقید ہے) ۔ بعض نے اس کو ”ہدایتِ وحی“ پر منطبق کیا ہے اور احادیث میں یہ مطلب آیا ہے کہ مشکوٰة سے مراد نبی اکرم کا دل ہے او رمصباح سے مراد وحی الٰہی ہے جو آپ پر نازل ہوئی جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔
یہ آیت جو کہ ہدایت الٰہی کے اس نور کو بیان کر رہی ہے جس نے پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو اگر اس سے مذکورہ تمام ہدایات مراد ہوں تو اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ خاص کر جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے احادیث میں اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ دونوں میں اس مثال کو انسان پر ہی منطبق کیا گیا ہے۔ ایک تفسیر میں اسے موٴمن پر منطبق کیا گیا ہے اور دوسری میں ہدایتِ وحی کے اعتبار سے انسانی معاشرے پر۔ یہ دونوں تفسیریں بہت ہی عمیق ہیں۔ بعد والی یہ آیت بھی اس باریکی و گہرائی کا پتہ دیتی ہے۔ ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرُفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ “۔
ایک حدیث، جس کا کچھ حصہ گزشتہ تقریر میں عرض کر چکا ہوں، میں بتایا گیا ہے کہ قرآن نے مثال کو ایک خاص پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ آیت کہتی ہے کہ نورِ الٰہی اور ہدایتِ الٰہی ایک مشکوٰة کی مانند ہے۔ ایک چراغ دن جس میں چراغ پڑا ہوا ہو۔ وہ چراغ قندیل یا شیشے کے اندر واقع ہو۔ فطرتاً یہ سوال پیش آتا ہے کہ قرآن نے یوں کیوں کہا ہے جبکہ وہ اس طرح بھی کہہ سکتا تھا: ”کَمِشْکوٰةٍ فِیْھَا زُجَاجَة فِی الزُّجَاجَةِ مِصْبَاحُ  (فِیْھَا مِصْبَاحُ  ) “ چراغ ہو۔ لیکن وہ کہہ رہاہے کہ خدا کے نور کی مثال اس مشکوٰة کی سی ہے جس میں چراغ ہو اور بعد میں کہتا ہے کہ چراغ شیشے میں ہو۔ ہماری احادیث میں اس آیت کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ وہ چراغ پہلے ایک مشوٰة میں ہو، پھر مشکوٰة سے زجاجہ میں منتقل ہو جائے۔ آیت کی تفسیر اس طرح کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ مشکوٰة سے مراد نبوت کی مشکوٰة ہے۔ زجاجہ سے مراد امانت و ولایت ہے اور جس بابرکت درخت سے مشکوٰة، زجاجہ اور مصباح وجود میں آئے ہیں اس سے شجرہٴ ابراہیم مراد ہے۔ یہ سب حضرت ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہیں۔ اس آیت کے بارے میں آج جو مطالب میں نے عرض کئے ہیں یہ درحقیقت گزشتہ تقریریں بیان کئے جانے والے مطالب کے حاشیے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بعدکی آیت ہے ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ یُسَبِّعُ لَہ فِیْھَا بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ رِجَالُ  لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَة وَّلاَ بَیْعُ  عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَآءِ الزَّکٰوةِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۔“ …… (یعنی یہ چراغ) ایسے گھروں میں ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے۔ ن میں صبح و شام اس کی پاکیزگی ایسے لوگ بیان کرتے رہتے ہیں جو دنیاوی کاموں میں مشغولیت سے کہ جو ان کی ذمہ داری بھی ہے، لحظہ بھر بھی اپنے اللہ سے غافل نہیں رہتے۔
اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس ”فِیْ بُیُوْتٍ“ (گھروں میں) کا کیا مطلب ہے؟ شاید تمام مسفرین نے کہا ہے کہ خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ جس چراغ کو ہم نے بطور مثال پیش کیا ہے وہ ان خصوصیات کے حامل گھروں میں ہوتا ہے۔ تو پھر یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر خدا کا مقصود یہی ہوتا تو پھر اتنا کہہ دینا ہی کافی تھا کہ جس گھر میں یہ چراغ ہو، یعنی ان خصوصیات کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ گھروں میں فلاں فلاں خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ خصوصیات کو بیان کرنا ہی بتاتا ہے کہ ان گھروں سے مراد عام گھر نہیں ہیں۔ یہ عام گھروں کی مثال نہیں ہے بلکہ انسان کی مثال ہے۔ تفسیر صافی میں ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”ھِیَ بُیُوْتَاتُ الْاَنْبَیآءِ وَالرُّسُلِ وَالْحُک۔َمَآءِ وَاَئِمَّةِ الْھُدٰی“ یعنی قرآن میں جن گھروں کا ذکر آیا ہے ان سے مراد انبیاء ، مرسلین، حکماء اور ائمہ کے گھر میں یہ انسان کے روحانی اکابر کے گھر ہیں۔ اب یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ خدا کے برگزیدہ بندوں اور عام لوگوں کے گھروں میں کیا فرق ہے؟ حالانکہ عمارت، اینٹوں، گارے اور سیمنٹ وغیرہ کے لحاظ سے تو ہمیشہ عام لوگوں کے گھر انبیاء کے گھروں سے بہتر ہوتے ہیں۔
تو آیت سے بھی پتہ چلتا ہے اور احادیث میں بھی آیا ہے کہ ان گھروں سے مراد اینٹوں، سیمنٹ وغیرہ سے بنائے جانے والے گھر نہیں ہیں، بلکہ ان گھروں سے مراد انسان اور ان کے ابدان ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ انسان ایسے ہیں جن کے بدن ان کی روحوں کی مساجد و معابد ہیں۔ ہماری احادیث میں بھی ان گھروں کا معنی انسان ہی کیا گیا ہے۔
”قَتَادہ“ جو اپنے زمانے کے مفسرین و فقہاء میں سے ہیں (البتہ یہ ایک سنی مفسر ہیں) ان کی رہائش کوفے میں تھی۔ ایک دفعہ جب مدینہ گئے تو امام محمد باقر علیہ اسلام کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔ انہوں نے امام محمد باقر علیہ اسلام سے چند سوالات کئے اور جوابات سنے۔ لیکن امام کے سوالات کا جواب نہ دے سکے اور انہیں شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر انہوں نے امام سے عرض کیا کہ میں نے بہت سے علماء سے بحث و گفتگو کی ہے لیکن کسی کے سامنے بھی میں اس قدر بدحواس نہیں ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت تم کس کے سامنے ہو؟ بَیْنَ یَدَیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ ان کے سامنے ہو جن کو خدا نے ”بیوت“ کا نام دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب جو ہستی تمہارے سامنے ہے وہ ان بیوت میں سے ہے۔ تو انہوں نے انصاف سے کام لیتے ہوئے امام کی بات کا اقرار کر لیا اور کہا یا بن رسول اللہ میں بھی تصدیق کرتا ہوں کہ قرآن میں جن بیوت کا ذکر آیا ہے ان سے پتھر و مٹی کے گھر مراد نہیں ہیں بلکہ ”انسانی گھر“ مراد ہیں۔
یہاں ایک نکتہ ہے جو توحید کے باب میں کام آتا ہے چاہے ان گھروں کو عام گھر قرار دیں یا انسانی گھر۔ (البتہ یقیناً انسانی گھر ہی مراد ہیں)۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ یہ ایسے گھر ہیں جن کے بارے میں خدا نے اجازت دی ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے، ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر عام گھر بھی مقصود ہوں تو ہم جانتے ہیں کہ دینِ مقدس اسلام میں مسجد کی تعظیم سب پر واجب ہے۔ اس کی بے حرمتی کرنا حرام ہے۔ اسے نجس کرنا حرام ہے۔ اگر وہ نجس ہو جائے تو اسے پاک کرنا واجبِ کفائی ہے۔ اسے فوراً پاک کرنا واجب ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ توحید کے خلاف ہے، مسجد تو گارے، خاک، مٹی، اینٹ، پتھر وغیرہ کا مجموعہ ہے، کعبہ بھی اسی طرح ہے۔ کعبہ ان چند پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں جن کو اوپر تلے چنا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پتھر بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ انسان پر ان کا احترام واجب ہو جائے؟ ہم جواب دیں گے کہ نہیں۔ پتھر ہرگز قابل احترام نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا اور عبادت خدا کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عبادت گاہ کا احترام اس کے عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ معبود نے ہمیں معبد کا احترام کرنے کی اجازت دی ہے۔ معبود کی اجازت سے عبادت گاہ کا احترام کرنا درحقیقت معبود کا احترام ہے۔ نہ فقط یہ کہ شرک نہیں ہے بلکہ عین توحید ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات فقط عبادت گاہ سے مخصوص ہے؟ نہیں۔ کیا اگر معبود کسی شخص کے عبادت گزار ہونے کی وجہ سے ہم کو اس کی تعظیم کرنے کی اجزت دے تو یہ شرک ہو گا؟ نہیں۔ یہ بھی عین توحید ہے۔ کیا نبی اکرم یا اَئمّہ طاہرین یا ان سے کم درجے کے لوگوں کی تعظیم شرک ہے؟ نہیں۔ یہ ”بُیُوْتُ  اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہ “ جس طرح عام عبادت گاہ کی تعظیم کی اجازت خدا نے دی ہے اس طرح انسانی گھر کی تعظیم کی اجازت بھی دی ہے۔ بلکہ انسانی گھر تو انسان کی روح کی عبادت گاہ ہے اور یہ گھر دوسرے گھروں سے کئی درجے بلند تر ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عام گھر کا احترام اس کے عابدوں کی وجہ سے ہے۔ کعبہ کا احترام ابراہیم، اسماعیل، انبیاء اور دوسروں کی وجہ سے ہے۔ اس کا احترام اس لئے ہے کیونکہ یہ ”اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ“ دنیا کی سب سے پہلی عبادت گاہ ہے۔ چونکہ یہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے یہ سب سے پہلا مکان ہے جو خدا کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس لئے اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ پس اس کا احترام عبادت اور عبادت گزار کی وجہ سے ہے۔
اہلِ تشیع کی بہت سی احادیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے اور اہلِ سنت کی احادیث میں بھی آیا ہے کہ ان گھروں سے مراد وہ انسان ہیں جن کے وجود واقعی سراپا عبادت ہیں۔ درحقیت وہ انسان مسجد ہیں۔ جب انسان کا سننا، دیکھنا، کہنا، سوچنا، چلنا، کھانا پینا اور سونا خدا کے لئے ہو تو اس کے بدن کو ”معبد“ کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا ہی نہیں ج اسکتا۔ دیکھئے کہ امیرالمومنین دعائے کمیل میں خدا سے کیا عرض کرتے ہیں؟ ”یَا ربِّ یَا رَبِّ قَوِّ عَلیٰ خِدْمَتِکَ جَوَارِ حِیْ وَاشْدُدُ عَلَی الْعَزِیْمَةِ جَوانِحی وَھَبْ لِیَ الْجِدَّ فِیْ خَشْیَتِکَ وَالدَّ وَاَمَ فِی الْاِتِصَالِ بِخِدْمَتِکَ۔“ … اے پروردگار، اے پروردگار، اے پروردگار! میرے ہاتھ پاؤں تو اپنی خدمت کے لئے مضبوط کر دے اور اس خدمت میں علی کے عزم کو مصمم کر دے۔ مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں حقیقتاً تیرا خوف کھاؤں اور مسلسل تیری خدمت میں رہوں۔ میرا ایک لحظہ بھی کسی اور کی خدمت میں بسر نہ ہو۔ یہی کچھ آپ کے پاس تھا، خدا نے آپ کو یہ عطا کیا تھا۔ آپ جیسی شخصیت کے تمام اعضاء عبادت گاہ ہیں اور وہ بھی بہت عظیم عبادت گاہ۔ کعبہ ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اس عبادت گاہ جیسی عبادت گاہ ہوں۔
اسی لئے اس مثال والی آیت کو مفسرین اور احادیث دونوں نے انسان پر منطبق کیا ہے اور مشکوٰة، مصباح اور زجاجہ کو انسانی ہدایات قرار دیا ہے۔ البتہ بعض نے اسے ہدایتِ عقل قرار دیا ہے، بعض نے ہدایتِ وحی اور بعض نے تو ہدایتِ حسّی کو بھی شامل کر دیا ہے۔ چراغ ہدایت کس گھر میں ہے؟ انسانی وجود کے گھر میں ہے …… ”ہدایتِ وحی“ خاص کر اولیاء کے گھر میں ہے۔ ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ “ ایک دفعہ ایک شخص نے سید مہدی قوام مرحوم جو کہ بہت ہی خداپرست تھے۔ خدا ان پر اپنی رحمت نازل کرے۔ سے ایک بات نقل کی جو مجھے بہت پسند آئی۔ اس شخص نے کہا کہ ایک مجلس کا انعقاد کیا گیا جس کا نام مجلسِ تبری رکھا گیا۔ سید مہدی قوام مرحوم منبر پر تشریف لے گئے اور اس آیت کو موضوع قرار دے کر اس پر بہت عمدہ بحث کی ”وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ ِفِیْھَا اسْمُہ۔“ یعنی اس شخص سے زیادہ ستمگر کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اللہ کے ذکر سے منع کرتا ہو۔؟ سید مہدی نے اپنی تقریر میں اس آیت کو اس پر منطبق کیا کہ ہر شخص کا بدن او راس کے اعضاء و جوارح اس کی روح کی مسجد ہیں۔ اس بدن اور اس مسجد کو ذکرِ خدا کا مقام بننے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا بہرصورت ظلم ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ”ایک موٴمن کا قتل ایک مسجد ڈھانے کے برابر ہے“ اور اس سے بڑا ظلم اولیاء کو قتل کرنا ہے جو درحقیقت عظیم ترین مساجد کو نابود کرنا ہے۔
ان گھروں میں صبح و شام خدا کی تسبیح کی جاتی ہے۔ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کی تسبیح مسلسل ہو رہی ہے۔ یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ فقط صبح اور شام کے وقت خدا کی تسبیح ہوتی ہو اور باقی وقت غلفت میں گزر جاتا ہو۔ تسبیح کرنے والے کون ہیں؟ قرآن کے الفاظ پر توجہ فرمائیے ”رِجَالُ  لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارّة وَّلاَ بَیْعُ  عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ“ جیسا کہ مفسرین نے بھی ذکر کیا ہے ”رجال“ سے مراد یہ نہیں ہے کہ عورتیں تسبیح پڑھنے والوں میں شامل نہیں۔ یعنی خصوصیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ بلکہ ”بلند ہمت افراد“ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات جب ہم بلند ہمت افراد کو ذکر کرنا چاہتے ہیں تو لفظ ”رجال“ (مرد) استعمال کرتے ہیں۔ اس میں مرد و عورت میں تفریق نہیں ہوتی۔ (یعنی اس رجل سے بلند ہمت عورت بھی مقصود ہوتی ہے۔) تو یہاں آیت یہ کہہ رہی ہے کہ بلند ہمت افراد کو تجارت، خریدوفروخت خدا کے ذکر سے باز نہیں رکھ سکتی۔
البتہ یہاں تجارت اور خریدوفروخت کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ یعنی تدریس، وعظ، تقریر، معماری، خطابت وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں۔ یعنی بلند ہمت افراد کو ان کے پیشہ ورانہ اور دیگر سرگرمیاں خدا کی یاد سے باز نہیں رکھ سکتیں۔
یہیں سے قرآنی عرفان اور دیگر عرفانوں میں پایا جانے والا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے۔ قرآن ہرگز یہ نہیں کہتا کہ مردانِ الٰہی کام، تجارت، خریدوفروخت، معماری، لوہاری، تدریس الغرض اپنے فرائض سے دست بردار ہو کر خدا کا ذکر کرتے ہیں۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یہ ایسے بلند ہمت افراد ہیں جو اپنے کاموں میں مصروف ہونے کے باوجود خدا کو فراموش نہیں کرتے۔ صرف خدا کی ذات ہی ایسی ہے جسے وہ کسی حال میں بھی فراموش نہیں کرتے۔ ایسے ہی آدمیوں کے بدن واقعی مساجد ہیں۔ چونکہ ان کے ابدان میں ہر وقت یاد خدا، ذکرِ خدا اور تسبیح خدا ہوتی رہتی ہے، یہ اشخاص دوسرے افراد کی طرح اپنے دنیاوی کام بھی انجام دیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ دفتر جاتے ہیں مردِ صالح بھی دفتر جاتا ہے۔ وہ بھی ان تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے جن میں دوسرے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ عوام کی خدمت میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح وہ بھی اس سلسلے میں اپنا فرض نبھاتا ہے۔ دوسرے لوگوں اور اس میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام میں مشغول رہنے کے باوجود پل بھر کے لئے بھی یادِ خدا سے غافل نہیں ہوتا۔
ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص آنِ واحد میں کسی کام میں بھی مصروف ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسری چیز سے بھی غافل نہ ہو؟ تو جناب یہ ممکن ہے۔ خاص کر جب انسان کامل ہو جائے تو پھر تو بالکل ممکن ہے۔ بلکہ اگر کامل نہ بھی ہو تب بھی یہ ممکن ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے ایک مثال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ جب انسان بے انتہا خوش ہو تو وہ پل بھر کے لئے بھی اس خوشی کو فراموش نہیں کرتا۔ مثلاً ایک ایسا نوجوان لڑکا جو کسی لڑکی کو دل دے بیٹھا ہو، ہر وقت اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس سے رشتہ طے ہو جائے۔ عرصہ دراز کی کوششوں کے بعد جب اس کو مثبت جواب ملتا ہے تو وہ جس کام میں بھی مصروف ہو لمحے بھر کے لئے بھی اس خوشی و مسرت سے غافل نہیں رہتا۔ ایک مسرت ہمیشہ اس کے دل میں موجود رہتی ہے۔ واحد چیز جو ہر وقت حتیٰ کہ نیند کی حالت میں بھی اس کے ذہن سے محو نہیں ہوتی، محبوب، اس کا خیال اور وہ خوشخبری ہے جو اسے سنائی گئی ہے۔ یا اگر خدانخواستہ کسی شخص پر کوئی مصیبت آ پڑے۔ مثلاً کسی ماں یا باپ کو اپنی اولاد کا داغ دیکھنا پڑے تو وہ چاہے جس کام میں بھی مشغول ہو اسے اپنا غم نہیں بھولے گا۔ حقیقی موٴمن وہ ہے جس کا یادِ خدا کے سلسلے میں یہ حال ہو۔ وہ کسی لمحے بھی خدا کو فراموش نہیں کرتا۔ بلکہ وہ تو جس کام کو بھی انجام دیتا ہے خدا کے حکم اور اس کے فرمان کی وجہ سے انجام دیتا ہے اور خدا کی یاد ہی اسے کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
لین دین اگر مستقل طور پر کاروبار کی صورت اختیار کر لے تو اس کو ”تجارت“ کہا جاتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک آدھ مرتبہ انجام دیتا ہے یعنی مستقل طور پر اس کو نہیں اپناتا۔ مثلاً آپ اپنا گھر فروخت کرنا چاہتے ہیں تو اسے ”بیع“ کہا جائے گا، ”تجارت“ نہیں کہا جائے گا۔ قرآن نے مال کو خصوصی طور پر بطور مثال اس لئے پیش کیا ہے چونکہ مال ہی دوسری ہر چیز سے بڑھ کر انسا ن کی غفلت کا سبب بنتا ہے۔ تو آیت یہ کہہ رہی ہے کہ خدا کے ان بلند ہمت بندوں کو نہ تو تجارت ذکرِ خدا سے باز رکھ سکتی ہے اور نہ ہی بیع۔ نیز نماز اور زکوٰة سے بھی تجارت اور بیع ان کو منع نہیں کر سکتی۔ ان کے دلوں پر ہر وقت خوفِ خدا اور اس دن کا خوف طاری رہتا ہے جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی اور روح پر اضطراب حکم فرما ہو گا۔ خدا تعالیٰ سب کو اس خوف کی توفیق عطا کرے۔
 

صرف علی

محفلین
آٹھویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
”لِیَجْزِ یَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَاعَمِلُوْا وَیَزِیْد ھُمْ مِّنْ فَضْلِہ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآ ءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ “ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۸)
گزشتہ آیات پر بحث کرتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تمام ہدایتوں کا مرکز خداتعالےٰ کی ذات ہے۔ اس نے اپنے ”نور ہدایت“ کی مثال ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے۔ ”یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ “ خدا جسے چاہتا ہے اس نور کے ذریعے ہدایت کرتا ہے۔
نور الٰہی سے استفادہ کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان کے عمل کو اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیا مطلب؟ انسان اس دنیا میں بعض اعمال انجام دیتا ہے بلکہ اس کی پوری زندگی کوشش، حرکت اور فعالیت ہی کا نام ہے۔ جب آپ فجر کے ہنگام بیدار ہوتے ہیں تو چاہے اپنی زندگی کا جائزہ لیجئے یا دوسروں کی زندگی کا، آپ کو پتہ چلے گا کہ زندگی کوشش، حرکت، جنبش اور دوڑ دھوپ ہی کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ساری محنت کیوں کی جاتی ہے؟ اگرچہ ہر شخص اپنے خاص مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے فعالیت کرتا ہے لیکن ایک چیز سب میں مشترک ہے، وہ یہ کہ ہر شخص اپنی سعادت کا طالب ہے۔
انسان فطری طور پر اپنی سعادت کا خواہاں ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے لئے تیرہ بختی کا طالب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ایسے اعمال انجام دینے کے درپے ہو جو اس کی تیرہ بختی کا موجب بنیں تو وہ یہ اعمال تیرہ بخت ہونے کی خاطر انجام نہیں دیتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کام کرنے کے بعد میں سعادت مند ہو جاؤں گا۔ پس یہ بات یقین ہے کہ انسان حصول سعادت کے لئے ہی فعالیت کرتا ہے اور کسی شخص کی بھی نیت یہ نہیں ہوتی کہ اسے اپنی فعالیت کے عوض میں بدبختی نصیب ہو۔ البتہ بعض اوقات انسان سعادت حاصل کرنے کے لئے بہت دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ساری کوشش اکارت گئی ہے، یا وہ اس دوڑ دھوپ کی وجہ سے سعادت مند بننے کی بجائے تیرہ بخت بن چکا ہے اور اگر وہ محنت و کوشش نہ کرتا تو اس کے حق میں بہتر ہوتا۔ خدا پر ایمان لانے اور نورِ خدا سے منور ہونے کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کا عمل حقیقی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے، یعنی اس کا عمل اور اس کی کوشش واقعی اس کی سعادت، وہ بھی ابدی سعادت کا موجب بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مسئلے کو زیربحث لایا گیا ہے جس کی صراحت بعد کی آیت میں کی گئی ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا انسان کا کوئی اچھا یا برا کام اس کے ایمان پر موقوف ہے؟ کیا اچھا کام ہر حالت میں اچھا اور سعادت بخش ہے چاہے کام انجام دینے والا مومن نہ بھی ہو؟ برا کام ہر حالت میں برا ہے چاہے کام کرنے والے کا خدا کی ذات پر مطلق ایمان نہ ہو اور اس کے دل تک نورِ الٰہی کی شعاعیں نہ پہنچی ہوں؟
اس مسئلے پر بہت زیادہ بحث کی جاتی ہے۔ خاص کر اس زمانے میں نوجوان اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس بات کی کیا دلیل ہے اور اس کی ضرورت ہی کیا ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں انسان کے اعمال کے مقبول ہونے کے لئے ضروری ہو کہ انسان کا خدا پر ایمان بھی ہو۔ وہ مسلمان اور مومن بھی ہو۔ (یا ان آیات کی تعبیر کے مطابق وہ نورِ الٰہی کے ساتھ منور ہو چکا ہو) نیک کام تو بہرصورت نیک ہے۔ خدا بھی غنی ہے۔ اس لئے خدا کے نزدیک کیا فرق ہے کہ نیک کام کرنے والا یا برا کام کرنے والا شخص خدا کو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ وہ چونکہ خدا ہے، بڑا ہے، عظیم ہے، غنی ہے، بے نیاز ہے، اس لئے اسے اپنے بندوں، چاہے وہ بندہ ایسا ہو جو اسے پہچانتا ہو، اسے سجدہ کرتا ہو، نمازگزار ہو، روزہ دار ہو، چاہے وہ ایسا بندہ ہو جو سرے سے ہی اسے نہ پہچانتا ہو بلکہ سرکش اور مخالف ہو چونکہ دونوں نے نیک کام کیا ہے، کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہئے اسے لوگوں کے نزدیک۔ پس قیامت کے دن ایمان کو نہیں دیکھا جائے گا فقط عمل کو دیکھا جائے گا۔ تو اس کو سامنے رکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی ایسے شخص نے کوئی نیک کام مثلاً انسانیت کی خدمت کی ہو جو خدا اور انبیاء کا منکر ہے تو خدا پر لازم ہے کہ اس کو بھی ویسے ہی جنت میں داخل کرے جس طرح کسی صاحب ایمان نیکو کار کو جنت میں داخل کرے گا۔ اس کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر اس کے سوا ہو تو پھر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ۔ نعوذباللہ۔ خدا بھی ایسا سردار ہے جو اپنی تعظیم اور خوشامد کرنے والے افراد سے امتیازی سلوک روا رکھتا ہے جبکہ ہم اسے اچھا سردار قرار دیتے ہیں جو کسی سے امتیازی سلوک نہیں کرتا، جو فقط افراد کے کام کو دیکھ کر ان کو جزا دیتا ہے، بہت سے لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں۔ میں نے اپنی کتاب ”عدلِ الٰہی“ کے آخری حصے میں اس مسئلے کو چھیڑا اور اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہاں میں اس میں سے چند مطالب جو ان تین آیات سے متعلق ہیں، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے فقط عمل پر زور نہیں دیا بلکہ اس نے عمل اور ایمان دونوں کا کہا ہے۔ قرآن ہمیشہ کہتا ہے ”اَلَّذِیْنَ اٰمَنوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔“ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اعمالِ صالحہ انجام دیئے۔ قرآن سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے نہ تو ایمان کو کافی سمجھتا ہے، یعنی وہ نہ تو یہ کہتا ہے کہ اگر تمہارا ایمان درست ہو تو تم سعادت مند ہو جاؤ گے عمل چاہے جیسا بھی ہو۔ اور نہ محض عمل کو کافی سمجھتا ہے۔ یعنی وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ اَلَّذِیْنَ عَمِلُواالصَّالِحَاتِ سَوَآ ءُ  اٰمَنُوْٓا اَوْلَمْ یُوٴْمِنُوْا چاہے ایمان لائے ہوں چاہے ایمان نہ لائے ہوں۔ بلکہ اس کا کہنا ہے کہ ایمان اور عمل دونوں ہونے چاہئیں۔
بعض لوگ معتقد تھے کہ عمل کسی کام نہیں آتا سب کچھ ایمان ہی ہے۔ ہمارے درمیان بھی بعض ایسے افراد موجود ہیں جو عمل کو بے وقعت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی سعادت میں عمل کوئی کوئی دخل نہیں، فقط ایمان کو دخل ہے۔ بعض لوگ اس کے برعکس معتقد ہیں کہ فقط عمل ہی انسان کی نجات کا ضامن ہے، ایمان کی کچھ حیثیت نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ خود قرآٰن کریم نے بعض آیات میں اسی کی تائید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے یہ نہیں کہا ”اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ “ خدا نیک لوگوں کی کوشش ضائع نہیں کرتا۔ قرآن نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ نیک لوگ موٴمن ہوں یا موٴمن نہ ہوں۔ دوسری آیت جو وہ پیش کرتے ہیں یہ ہے کہ ”اِنَّا لاَ نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلاً “ یعنی ہم نیک کام کرنے والے کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ (کہف۔ ۳۰)
یہ سوال اس لئے کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم ایسے اشخاص کو جانتے ہیں جنہوں نے انسانیت کی بڑی خدمات کی ہیں اور کر رہے ہیں حالانکہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض نہ فقط مسلمان ہی نہیں اور انہوں نے اسلام ہی قبول نہیں کیا، وہ نبی اکرم پر ایمان نہیں لائے بلکہ وہ تو خدا ہی کے منکر ہیں۔ مثلاً جن نے پنسلین دریافت کی تھی اس نے انسانیت کی کتنی بڑی خدمت کی ہے۔ کتنی ہی ایسی بیماریاں تھیں جو پنسلین کی دریافت سے قبل لا علاج تھیں۔ کتنے ہی بچے تھے جو خناق کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے تھے۔ ان کا علاج نہیں ہوتا تھا لیکن پنسلین کی دریافت کے بعد ان کا علاج ہونے لگا۔ اسی طرح وہ شخص جس نے Tetanus کا ٹیکہ دریافت کیا اور ان جیسے دوسرے لوگ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ تو کیا خدا فقط اس جرم میں ان افراد کے عمل سے صرفِ نظر کرے گا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے؟
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقت حال کیا ہے۔ قرآن نے سورہ بنی اسرائیل میں ایک قاعدہ کلیہ کا ذکر کیا ہے جو صحیح صورتِ حال سمجھنے میں ہماری مدد کرے گا۔ وہ قاعدہ یہ ہے:
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَہ فِیْھَا مَا نَشَآ ءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہ جَھَنَّمَ لَصْلٰھَا مَذْمُوْمًا مَّدْ حُورًا، وَمَنْ اَرَادَالْاٰخِرَةَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَھُوَ مُوٴْمِنُ  فَاُ ولٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا، کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰوٴُ لَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَآ ءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا۔“ (اسراء۔ ۱۸ تا ۲۰)
ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص جس راستے پر گامزن ہو، جس مقصد کے حصول کے لئے دوڑ دھوپ کر رہا ہو، وہ اپنی اس منزل اور مقصد کو حاصل کر لے گا۔ خدا اس کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو ایک کھیتی قرار دیا ہے جس میں بونے اور کاٹنے کا عمل جاری ہے۔ آپ کو کسی کھیتی سے کیا امید وابستہ ہوتی ہے؟ آپ یہی توقع کرتے ہیں کہ آپ نے جواس میں بویا ہے وہی کاٹیں گے اور کھیتی، چاہے بہت زرخیز ہی کیوں نہ ہو، سے یہ امید رکھنا غیرمعقول ہے کہ انسان اس میں بوئے کچھ اور کاٹے کچھ۔ اگر آپ کسی زرخیز کھیت میں گندم بوئیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے۔ اگر جو بوئیں گے تو جو ہی کاٹیں گے۔ پھلدار درخت لگائیں گے تو پھل پائیں گے۔ ناشپاتی کا بوٹا لگائیں گے تو ناشپاتی حاصل کریں گے۔ تُمّہ کاشت کریں گے تو تُمّہ ہی اگے گا۔ اگر خاردار درخت لگائیں گے تو خار ہی پائیں گے۔ اگر پھولوں والے بوٹے لگائیں گے تو پھول حاصل کریں گے۔ کسی کھیت کے زرخیز ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس میں پھول ہی اگیں چاہے اس میں خاردار درخت یا کوئی اوردرخت لگائے جائیں۔ یا اس میں جو کاشت کئے جائیں لیکن گندم اگے تو یہ بالکل غلط ہے۔ ہر انسان کی فعالیت و دوڑ دھوپ کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تمام انسان سعادت کے خواہاں ہیں لیکن وہ اپنی سعادت کس چیز میں ڈھونڈ رہے ہیں؟
کبھی یوں ہوتا ہے کہ انسان اسی دنیا میں نتیجہ وغیرہ حاصل کرنے کے لئے فعالیت کرتا ہے۔ خدا اور آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ یعنی اس کا بویا ہوا بیج فقط دینوی ہوتا ہے۔ وہ فقط مادی امور کے حصول کے لئے محنت کرتا ہے۔ لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کی فعالیت مادی امور کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور اخروی سعادت حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اور قانون یہ ہے کہ اگر کسی نے آخرت کی خاطر کوئی عمل انجام دیا ہو تو اس کی پاداش اسے آخرت میں دی جائے۔ اگر اس کا عمل اس دنیا کے لئے ہو تو اسی دنیا میں اسے اپنی محنت کا ثمرہ ملے۔ قرآن کہہ رہا ہے ” کُلاًّ نُّمِدُّ “ ہم ان کی امداد بھی کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے خواہاں ہیں، جن کا مقصد مادی امور کے حصول سے بالاتر ہے۔ اور ان کی امداد بھی کرتے ہیں جو اس مرحلے تک پہنچنا نہیں چاہتے، جو اپنی کوشش اور محنت کا پھل اسی دنیا میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ ایک فرق ان دونوں صورتوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ چونکہ دنیا اسباب و علل کے ٹکراؤ کا مقام ہے اس لئے خدا اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ جو شخص فقط دنیا اور دینوی مقاصد کے حصول کی خاطر محنت کرے گا تو اسے اپنا مقصد پورے طور پر حاصل ہو جائے گا، اس لے کہ ممکن ہے کہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں۔ وہ دینوی مقصد کے حصول کے لئے بیج بوئے لیکن اس کا بویا ہوا بیج گل سڑ جائے یا کسی دوسری آفت کا شکار ہو جائے۔ خداوند تعالیٰ نہ تو یہ وعدہ کرتا ہے کہ تمام افراد اپنا اپنا مقصد حاصل کر لیں گے، نہ ہی افعال کا ذمہ لیتا ہے کہ ہر عمل کی پاداش ملے گی۔ دینوی مقصد کے لئے کیا جانے والا کام اکثر اوقات کسی آفت کا شکار ہو جاتا ہے۔ خدا کا قرب اور آخرت کی نجات کے لئے بویا جانے والا بیج کسی صورت میں بھی ضائع نہیں ہوتا۔ وہ مزاج جہان کے مطابق ہے اس لئے ضائع نہیں ہوتا بلکہ انسان کو اس کی محنت سے زیادہ پھل ملتا ہے۔
اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ یہ قانون کلی کیسا ہے؟ منطقی ہے یا نہیں؟ دوسری آیات میں بھی اسی مطلب کو دوسرے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ شوریٰ میں ارشاد ہے۔ ”مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْلَہ فِیْ حَرْثِہ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُوٴْتِہ مِنْھَا وَمَا لَہ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ۔“ ( کاشتکاری اور زراعت قرآن ہی کی تعبیر ہے)
جو شخص آخرت کے قصد سے بذرافشانی کرے گا (آخرت کے قصد سے ایک بیج بوئے گا، یہ نہیں کہ دو طرح کے بیج ہوں، دینوی اوراخروی، بلکہ ایک ہی بیج انسان کی نیت سے بدل جاتا ہے۔ اگر اسے آخرت کی نیت سے بویا جائے گا تو وہ اخروی ہوا، اگر اسی کو دنیا کی نیت سے بوایا جائے گا تو وہ دینوی ہو گا)۔
ہم اس کو عطا کریں گے۔ بلکہ زیادہ عطا کریں گے۔ اور جس کا مقصد دنیا ہو گا (اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا رہا کہ اسے بھی ہم دیں گے اور زیادہ دیں گے) اس کو بھی محروم نہیں کریں گے۔ (نُوٴْتِہ مِنْھَا)
آپ کے خیال میں یہ ایک معقول بات ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں تو اس پر معمولی سا اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو قابلِ اعتراض ہوتا۔
کس کا عمل قبول ہو گا اور کس کا عمل قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرے گا اس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جو شخص دنیا کے لئے کوشش کر رہا ہے یقیناً اس کے پیش نظر کوئی مقصد ہے۔ اگر مقصد شہرت، ناموری، ہر دلعزیزی، ملکی ترقی، ہم نژادوں یا ہم وطنوں کی شہرت ہو تو وہ اپنے مقصد کو پا لے گا۔ لیکن جو کام اس مقصد کے لئے انجام دیا گیا اس سے آپ کو دوسرے مقصد کے حصول کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ یعنی اس نے یہ کام خدا کا قرب پانے کے لئے انجام نہیں دیا بلکہ لوگوں کا قرب پانے کے لئے انجام دیا ہے۔ اس لئے وہ لوگوں کا قرب پا لے گا مگر خدا کا قرب نہیں ملے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کسی ایسے راستے پر چل کر اس منزل تک پہنچ سکے جو اس راستے کی منزل نہیں۔ مثلاً کسی شخص کا ارادہ قم جانے کا ہو اور وہ قم جانے کے لئے تہران کے شمال کی طرف چلنا شروع کر دے تو کیا وہ قم پہنچ جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ اگر انسان شمال کی طرف سفر کرے گا تو شمال ہی پہنچے گا، اگر جنوب کی طرف جائے گا تو جنوب پہنچے گا۔ انسان جس راستے پر بھی چلے گا اسی کے اختتام تک پہنچے گا۔
ایمان اس پہلو کے اعتبار سے عمل کی قبولیت کی شرط ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ۔ نعوذباللہ۔ خدا کہہ رہا ہو کہ جو لوگ میری خوشامد کریں گے میں ان کا عمل قبول کروں گا، دوسروں کا نہیں چاہے ان کے اعمال ایک جیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جس کا خدا پر ایمان نہ ہو وہ درحقیقت خدا کا طالب ہی نہیں ہے۔ اس لئے اس کو خدا نہیں ملے گا۔ وہ صاحب ایمان نہیں ہے۔ آخرت کا طلب گار نہیں ہے۔ جب آخرت کا طلب گار نہیں ہے تو پھر اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ انسان وہی چیز حاصل کر سکتا ہے جس کا وہ خواہاں ہو۔ یہ معقول نہیں ہے کہ جس کا انسان خواہاں نہ ہو، جس کے لئے اس نے جدوجہد نہ کی ہو وہ اس کو دے دی جائے۔
یہ بھی درست ہے کہ کسی شخص کے عمل کے قبول ہونے کی شرط یہ نہیں ہے کہ وہ شخص لازمی طور پر مسلمان یا شیعہ ہو۔ اگر کسی کا خدا پر ایمان ہو، وہ خدا کی شناخت رکھتا ہو، آخرت پر بھی اس کا اعتقاد ہو اور وہ شخص خدا اور آخرت کے لئے کوئی کام کرے تو اس کا یہ کام فی نفسہ بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے مگر یہ کہ وہ کوئی ایسی آفت ایجاد کر دے جو اس کے عمل کو نابود کر دے۔ اس آفت کا نام ”کفر“ و ”عناد“ ہے۔ بعد میں اس کی وضاحت کروں گا۔ پنسلین دریافت کرنے والے نے یقینی طور پر انسانیت کی خدمت کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس نے کس مقصد کو پیش نظر رکھ کر یہ خدمت کی ہے؟ تو جو مقصد اس کے پیش نظر ہو گا خدا اس میں اس کو کامیاب کرتا ہے۔ کسی دوسرے مقصد میں خدا کامیاب نہیں کرتا۔ بلکہ جس مقصد کے حصول کے لئے کوشش ہی نہیں کی گئی اس میں کامیاب کرنا محال بھی ہے اور نامعقول بھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان جس راستے پر نہ چلا ہو اس کی منزل کو حاصل کر لے۔ پس یہ جو ہم نے عرض کیا ہے کہ خدا کے نور سے روشن ہونا یا بالفاظ دیگر خدا پر ایمان لانا انسان کے کام کو وقعت عطا کرتا ہے تو وہ اس لئے کہ ایمان اسی دنیا میں انسان کے عمل کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر دو شخص ایک جیسا کام کریں، ان میں سے ایک شخص کا دل نورِ الٰہی سے منور ہو چکا ہو جبکہ دوسرے کے دل پر نورِ الٰہی کی شعاعیں نہ پہنچی ہں تو بظاہر انہوں نے ایک ہی طرح کا کام کیا ہے لیکن حقیقت میں ان دونوں کے عمل میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ ”اِلَیْہِ یَصْعَدُ الُکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ۔“ اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ دونوں تفسیریں ہی صحیح ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی یاددہانی کرا چکا ہوں کہ یہ معقول نہیں ہے کہ ہم قرآنی آیات کو کسی خاص معنی پر حمل کریں۔ اگر کسی مقام پر دیکھیں کہ ایک ہی وقت میں کسی ایک آیت کے دو معانی کئے جا سکتے ہیں تو وہاں دونوں معانی مراد ہوتے ہیں۔ یہ قرآن کے خصائص اور اس کے معجزہ ہونے کا حصہ ہے کہ بعض اوقات وہ ایسے جملے لاتا ہے جن کے متعدد معانی ہوتے ہیں اور سب کے سب صحیح ہوتے ہیں۔ بعض اوقات شاعر ایک شعر کہتا ہے جس کے متعدد معانی کئے جا سکتے ہیں۔ اگر خود شاعر سے دریافت کیا جائے کہ اسے کس طرح پڑھیں کہ درست ہو تو وہ یہی جواب دے گا کہ آپ جیسے بھی پڑھیں اور جو اس کا معنی کریں وہی ٹھیک ہے۔ سعدی شیرازی کے اس معروف شعر، جو کہ بدائع کے آغاز میں ہے، کو چند طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔
از در بخشندگی و بندہ نوازی
مرغ ہوا را نصیب ماہی دریا
یعنی بندہ نواز اور بخشش کرنے والے خدا نے ہوا کا پرندہ اور سمندر کی مچھلی انسان کے نصیب کی ہے۔
اس شعر کو مزید سات آٹھ طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے مثلاً یوں بھی کہ۔
از در بخشندگی و بندہ نوازی
مرغ، ہوا را نصیب و ماہی، دریا
یعنی خدا نے مرغ ہوا کو اور مچھلی سمندر کو عطا کی ہے۔ نیز:
از در بخشندگی و بندہ نوازی
مرغِ ہوا را نصیب، ماہی دریا
یعنی خدا نے سمندری مچھلی پرندے کے نصیب میں رکھی ہے۔
اگر آپ ان کی تلفیق کریں تو اس کو مزید چند طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے اور اس کے معانی مختلف ہوں گے۔ البتہ قرآن اور اس میں فرق یہ ہے کہ شعر کو پڑھتے وقت لہجہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ ایک مرتبہ کہیں گے ”مرغ ہوا را نصیب و ماہی دریا۔“ ایک مرتبہ یوں کہیں گے کہ ”مرغ ، ہوا را نصیب و ماہی، دریا، جبکہ قرآنی آیات کو متعد طریقوں سے پڑھنے کی حاجت نہیں ہے۔ ایک ہی طریقے سے پڑھنے کے باوجود بھی ان میں متعدد معانی پائے جاتے ہیں۔
”اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الْطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ۔“ معاشرتی تعلقات کی بہتری کو عدالت اور معاشرتی روابط کے بگاڑ کو ظلم کہا جاتا ہے ۔ اگر کوئی قوم مسلمان اور صاحبِ ایمان ہو اور اپنے بقول ”خدا شناس“ بھی ہو، اپنے آپ کو ملت قرآن شمار کرتی ہو، بہت زور و شور سے اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ“ کہتی ہو جبکہ قرآن کا بیان کردہ قانون لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ان کے درمیان نافذ نہ ہو، ان کے اجتماعی تعلقات پر نظر دوڑیائیں تو ہر طرف برائی، دروغ، تہمت، فحشاء اور ظلم و ستم ہی نظر آئے تو قرآن نہ فقط اس قوم کے قابل بقا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ ایسی قوم قابل بقاء نہیں ہے اور اس کی وجہ بھی یہی قانون ہے کہ ہر فرد اور ہر قوم اسی منزل کو حاصل کرے گی جس کے راستے پر گامزن ہو گی۔ اسے ایسی منزل تک پہنچنے کی توفیق نہیں رکھنی چاہئے جس کے راستے پر اس نے قدم ہی نہ اٹھایا ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر کوئی مادہ پرست فرد یا قوم اپنے دینوی راستے کو اچھے طریقے سے طے کرے تو وہ اپنے دینوی مقصد میں کامیاب ہو جائے گی اور اگر کوئی خداشناس قوم اسی راستے کو غلط طور پر طے کرنے کی کوشش کرے تو وہ حصولِ مقصد میں ناکام رہے گی۔ بعینہ اگر کسی کافر نے خدا کے راستے میں قدم ہی نہ اٹھایا ہو، اس نے قربت حق، جنت اور اخروی سعادت کے حصول کی کوشش ہی نہ کی ہو تو اسے کس چیز کی توقع ہے؟ جس طرح ہم کو دنیا میں اس سعادت کے حصول کی توقع نہیں رکھنی چاہئے جس کے لئے ہم نے کوشش ہی نہیں کی اسی طرح آخرت میں ایسی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے جیسا کہ روایات بھی بتاتی ہیں اور خود اس آیت سے بھی پتہ چلتا ہے۔ یہی وہ ہے کہ آیت نور کہ جس کی ساری توجہ ہدایت الٰہی پر ہے اور اس آیت کے ذیل میں بھی ارشاد ہوتا ہے ”یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ “ کے بعد ارشاد فرماتا ہے ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ فَضْلِہ (قرآن اپنے مطالب بہت ہی عمدہ پیرائے میں بیان کرتا ہے) لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ کی بازگشت یا تو یَھْدِی اللّٰہُ “ کی جانب ہے یا ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ یُسَبِّعُ لَہ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ“ کی جانب۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ چاہے ہم کہیں کہ خدا ان کی ہدایت اس مقصد کے لئے کرتا ہے یا کہیں کہ ہدایت یافتہ لوگ اس طور پر درست عمل کرتے ہیں اور خدا کو اس مقصد کے لئے فراموش نہیں کرتے ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا“ ہدایت کا یہ نور اسی لئے تھاکہ خدا ان کو ان کے بہترین اعمال کا بہتر سے بہتر بدلہ دے۔ یہ وہی بات ہے جس کو میں نے پہلے ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ ایمان انسان کے عمل کو وقعت اور اہمیت عطا کرتا ہے، اس عمل کی زیادہ سے زیادہ جو جزا اس کے فاعل کو ملنی چاہئے، اسے ملتی ہے، کیا پاداش ملتی ہے؟ واضح ہے کہ آخرت میں تو پاداش قربِ خدا، ابدی حیات، بہشتِ جاوداں اور گناہوں کی مغفرت کی صورت میں ملے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا میں کیا پاداش ملتی ہے؟ تو قرآن دنیا اور آخرت کے درمیان ہرگز تناقض کا قائل نہیں ہے۔ کیا دنیا اور آخرت میں تضاد پایا جاتا ہے؟ میں آپ کی خدمت میں ایک ضرب المثل بیان کروں گا۔ توجہ کیجئے کہ تضاد ہے یا نہیں۔ ضرب المثل یہ ہے کہ ” چونکہ صد آمد نو دھم پیش ماست“ (یعنی جب سو ہمارے ہاتھ لگے تو پھر نوے بھی ہمارے ہی پاس ہیں)۔ مولانا جلال الدین رومی نے دوسری مثال بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فرض کریں یا تو آپ اونٹوں کی قطار خریدنا چاہتے ہیں یا فقط ان کی مینگنیاں اور اون۔ تو اگر آپ اونٹوں کی قطار خریدیں گے تو آپ ان کی مینگنیوں اور اون کے بھی مالک بن جائے گے، لیکن اگر آپ ان کا گوبر خریدیں گے تو اونٹوں کی قطار کے مالک آپ نہیں بن سکتے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اپنی اس مثال کو اس طرح بیان کیا ہے۔
آخرت قطار اشتردان عمو
درتبع دنیاش ہمچون پشک دمو
اگر آپ آخرت کے لئے کوشش کریں گے (یہ نہیں کہ آپ آخرت کے لئے اس لئے کوشش کریں کہ دنیا سے محروم رہیں) تو آپ کو دنیا بھی ملے گی لیکن اگر آپ کی ساری کوشش دنیا کے لئے ہو گی تو آخرت آپ کو نہیں ملے گی۔ اگر آپ اونٹوں کی قطار خریدیں گے تو ان کی پشم اور گوبر بھی آپ کو مل جائیں گے لیکن اگر آپ فقط گوبر اور پشم خریدیں گے تو اونٹوں کی قطار آپ کو نہیں ملے گی بلکہ وہ کسی دوسرے کے حصے میں آئے گی۔
انسان کس صورت میں اپنے عمل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکتا ہے؟ وہ کس صورت میں دینوی اور اخروی سعادت اور تقربِ الٰہی سے ہمکنار ہو سکتا ہے؟ فقط اس صورت میں کہ جب اس کادل خدا کے نور سے روشن ہو چکا ہو اور وہ جو کام کرے خدا کی خاطر کرے۔ اس صورت میں ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا“ ہو گا یعنی کسی کام کی زیادہ سے زیادہ جزا جو ملنی چاہئے اسے ملے گی۔ وہ کسی پہلو سے محروم نہیں ہو گا۔ وہ دنیا بھی حاصل کرے گا اور آخرت بھی۔ اس کے بعد خدا فرماتا ہے ”وَیَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ وَضْلِہ“ خدا اپنے فضل سے اس سے زیادہ بھی دیتا ہے یعنی زیادہ سے زیادہ پاداش دینے کے علاوہ اپنے فضل کی بدولت مزید دیتا ہے۔ اس بات کو قرآن مجید میں مختلف عبارتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ راہِ خدا پر گامزن ہوں ان کو ان کے اعمال کی زیادہ سے زیادہ پاداش بھی ملتی ہے اور جو وہ چاہتے ہیں وہ بھی ان کو ملتا ہے ”وَمَنْ اَرَادَالْاٰخِرَةَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَھُوْ مُوٴْمِنُ  فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُورًا۔“ لَھُمْ مَّا یَشَآ ءُ وْنَ فِیْھَا کے ساتھ ساتھ ”وَلَدَینَا مَزِیْدُ  “ بھی ہے۔ چونکہ اس صورت میں انسان فطرت کے ٹھیک ٹھیک راستے پر چلا ہے اور اس نے صحیح راستے کو طے کیا ہے اس لئے اس کو بعض ایسی چیزیں ملیں گی جو اس نے طلب نہیں کی ہوں گی۔ جو اس کی تمنا سے بالاتر ہوں گی۔ اس بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے ”مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْلَہ فِیْ حَرْثِہ۔“
ایک اور تعبیر قرآن میں متعدد مقامات پر آئی ہے اور بہت ہی عمدہ تعبیر ہے۔ قرآن کی بعض آیات میں آیا ہے کہ جو شخص برا کام کرے گا اسے اس کے کام کے مطابق برابر برابر سزا ملے گی جبکہ نیکی کا کام کرنے والے کو کام سے کئی گناہ زیادہ پاداش ملے گی۔ ”مَنْ جَآ ءَ بِالْحَسَنْةِ فَلَہ عَشْرُ اَمْثَالِھَا“ جو نیکی کرے گا اسے دس گناہ پاداش ملے گی۔ قرآن کی ایک اور بہت ہی لطیف اور عالی منطق یہ ہے کہ ”وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْلَہ فِیْھَا حُسْنًا“ (یہ بہت ہی عمدہ او رعجیب ہے) جو شخص نیک کام کرے گا ہم اس کے کام کے حسن کو چار چاند لگا دیں گے۔ جب کام فطرت اور رضائے الٰہی کے لئے ہو تب ایسا ہوت اہے۔ اگر آپ خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوئی کام کریں تو ممکن ہے اس میں عیوب و نقائص پائے جاتے ہوں۔ ان نقائص کو خدا اپنے فضل و کرم سے برطرف کر دیتا ہے۔ وہ کام کے بھدے پن کو ختم کرکے اس میں حسن پیدا کر دیتا ہے۔ خدا نیک کام کے سلسلے میں آرائش گر کا کام کرتا ہے۔ وہ نیک کام کے عیوب کو چھپا کر اس میں زیبائی پیدا کرتا ہے۔
پس یہاں دو مطالب ہیں۔ ایک یہ کہ جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو خدا اس کو دس نیکیاں شمار کرتا ہے۔ یہ ہے کمیت کے اعتبار سے کام کا پہلو۔ یعنی خدا اس کی مقدار کو زیادہ کر دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کام کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کیفیت کے اعتبار سے ہے۔ وہ یہ کہ انسان کوئی کام کرتا ہے جو کسی حد تک زیبا ہے لیکن مکمل طور پر زیبا نہیں ہے، اس میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں تو خدا اس کی زیبائی کو چار چاند لگا کر اسے مکمل طو رپر زیبا بنا دیتا ہے، اس کے حسن میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ او ریہ سب باتیں اس صورت میں ہوتی ہیں جب انسان ان اعمال سے قبل اس سراسر عالم میں پھیلے ہوئے نور سے منور ہو چکا ہو، وہ اندھا گمراہ اور اس کا دل تاریک نہ ہو۔ یہ تمام معجزات ایمان کے نور اور خلقت کے حقیقی مقصد کے روشن ہونے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا“ تاکہ خدا ان کو ان کے اس عمل کی جزا دے جو انہوں نے بطریق احسن انجام دیا ہے۔ یعنی انہوں نے جو عمل انجام دیا ہے تو جس حد تک اسے بطریق احسن انجام دیا جا سکتا تھا وہ انجام دیتے ہیں اورخدا بھی اس کی بہترین جزا ان کو دیتا ہے۔ یہ جزا ان کے اس عمل کی ہے جو انہوں نے انجام دیا ہے اور اس جزا کے وہ خواہاں تھے۔ اس کے ساتھ خدا یہ بھی کہتا ہے کہ ”وَیَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ فَضْلِہ“ خدا اپنے فضل سے انہیں مزید عطا کرتا ہے۔ ”وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآ ءُ بِغَیْرِ حِسَابٍِ“ خدا جسے چاہتا ہے بے حساب اور بے اندازہ رزق عطا کرتا ہے۔ رزق فقط روٹی یا پانی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
البتہ خدا کا چاہنا قرعہ یا لغو امور پر موقوف نہیں ہے۔ پھر خدا کن لوگوں کے لئے چاہتا ہے؟ ان لوگوں کے لئے چاہتا ہے جن کا ذکر اس نے خود کر دیا ہے۔ اب میں بعد کی دو آیات کی جانب فقط اشارہ کروں گا اور آئندہ تقریر میں ان پر تفصیلی گفتگو کروں گا۔
جس آیت پر یہاں تک بحث کی گئی ہے وہ مومن کے عمل کے متعلق تھی۔ جو لوگ موٴمن نہیں ہیں، نہ فقط موٴمن و قاصر ہی بلکہ مقصر اور معاند بھی ہیں تو خدا نے ان کے اعمال کو تین مثالوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جن میں سے دو کا ذکر یہاں آیا ہے۔ ان تینوں مثالوں میں سے ہر مثال ایک بنیادی مطلب کو بیان کر رہی ہے۔ قرآن ایک جگہ کہتا ہے کہ کفار کے اعمال خاکستر کے ڈھیر کے مانند ہیں جس کو تیز ہوا (جس دن وہ ہوا چلے) بکھیر دیتی ہے۔ اسی مطلب کو دوسری آیات میں بھی بیان کیا گای ہے البتہ ان آیات میں مثال کی صورت میں بیان نہیں کیا گیا مثلاً یہ کہ ”وَقَدِمْنَآ اِلیٰ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَآ ءً مَّنْثُوْرًا“ پس اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ کفار کے عمل کی کچھ نہ کچھ حیثیت ہے، (ایسا نہیں ہے کہ ان کے اعمال کالعدم ہوں) لیکن ہوا کا جھونکا آتا ہے جو ان کو پراگندہ کر دیتا ہے، ان کو بکھیر دیتا ہے۔ خدا نے دوسری جگہ کفار کے اعما ل کو سراب سے تشبیہہ دی ہے۔ بیابانوں خصوصاً پتھریلے بیابانوں کو اگر انسان دور سے دیکھے تو وہ اسے موجیں مارتا ہوا سمندر سمجھتا ہے اور وہ اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس کی طرف بڑھتا ہے لیکن جوں جوں اس کے نزدیک پہنچتا ہے وہ اتنا ہی اس سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ فقط اس کا خیال تھا، یہ پانی نہیں ہے بلکہ نور کے انعکاس کی وجہ سے پانی دکھائی دے رہا ہے۔ اس نے پانی کا روپ تو دھار لیا ہے لیکن پانی نہیں ہے۔
ایک جگہ قرآن کفار کے اعمال کو ان اندھیروں سے تشبیہہ دیتا ہے جن سے انسان ایک گھٹا ٹوپ اندھیری رات میں سمندر کی طوفانی موجود کے اندر دوچار ہوتا ہے۔ سمندر ہے کہ مسلسل ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ بادل بھی چھائے ہوئے ہیں۔ روشنی ک انام و نشان تک نہیں۔ تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے۔ ایسے اندھیرے میں انسان اپنا ہاتھ اپنی آنکھوں کے قریب تو لے جاتا ہے لیکن اسے دیکھ نہیں سکتا۔
ان تینوں مثالوں میں سے ہر مثال ایک خاص مطلب کو مدنظر رکھے ہوئے ہے۔ ایک مثال کفار کے برے اعمال کی ہے جو ”ظُلُمَاتُ مبَعْضُھَا فوْقَ بَعْضٍ“ ایک مثال ان کے اچھے اعمال کی ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کام انجام دیا ہے لیکن بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ سراب تھا، پانی نہیں تھا اور ایک مثال ان کے اچھے کاموں کی ہے جن کی کچھ نہ کچھ وقعت و حیثیت تھی۔ لیکن ان کے بعد وہ کوئی ایسا کام کر بیٹھتے ہیں جو ان کے کاموں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
بِاسْمِکَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ الْاَعَزِّ الْاَجَلِّ الْاَکْرَرمِ یَآ اَاللّٰہُ…
 

صرف علی

محفلین
نویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓ ا اَعَمَالُھُمْ کَسَرابٍم بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآ ءً حَتّیٰٓ اِذَا جَآ ءَ ہ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَّ وَجَدَاللّٰہَ عِنْدَہ فَوَفّٰہُ حِسَابَہط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوجُ  مِّنْ فَوْقِہ مَوْجُ  مِّنْ فَوْقِہ سَحابُ ط ظُلُمَاتُ م بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍطاِذَآ اَخْرَجَ یَدَہ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَا وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہ نُوْرًا فَمَا لَہ مِنْ نُّورٍ۔ “
ان آیات میں کفار کے اعمال کے انجام کوبیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی کافر اپنے خیال کے مطابق نیک کام کرے تو اس کا انجام کیا ہو گا اور اگر برا کام کرے گا تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ میں یہاں تمہید کے طور پر ایک دو مطلب بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ قرآن کے نزدیک کافر کون ہے؟ کیا کافر سے مراد ہر غیر موٴمن ہے؟ کیا ہم ہر غیرمسلم کو ” کافر“ کہہ سکتے ہیں؟ اور یہاں جو قرآن نے ”کافر“ کہا ہے کیا وہ ہر غیرمسلم پر صادق آتا ہے، یا کافر کا ایک خاص معنی ہے یعنی کافر فقط اس غیر مسلم کو کہا جاتا ہے جو اپنی کوتاہی کی وجہ سے مسلمان نہ ہوا ہو؟ اس کے برعکس اس غیر مسلم کو کافر نہیں کہا جا سکتا جو اسلام نہ لانے میں بے قصور ہو؟
علماء ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کا سرچشمہ قرآن ہے۔ وہ جاہل کو مقسم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جاہل کی دو قسمیں ہیں، قاصر اور مقصر۔ خلاف ورزی کرنے والا یا قاصر ہو گا یا مقصر ”قاصر“ یعنی بے قصور۔ اور مقصر کا مطلب ہے کوتاہی کرنے والا۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلے سے آگاہ نہ ہو یا اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو تو یا تو اس کی وجہ عدم دسترس ہو گی، یعنی اس کی اپنی غلطی نہیں ہے، اس نے اپنی طرف کوئی کوتاہی نہیں کی بلکہ اس کے پاس اس کے سوا چارہ ہی نہیں تھا۔ اس کی وجہ اس کی اپنی کوتاہی ہے۔ یعنی وہ مقصر ہے۔ مقصر اسے کہتے ہیں جو جانتے اور سمجھتے ہوئے اپنی ہوس پرستی اور نفس پرستی کی وجہ سے اس حقیقت کا انکار کرے جس کو وہ جانتا ہو۔ ایسے اشخاص کے متعلق قرآن کی اپنی اصطلاحات بھی ہیں۔ البتہ قرآن نے قاصر و مقصر کے الفاظ ان کے لئے استعمال نہیں کئے۔ قرآن نے ان کے لئے دوسرے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلاً ”اَلْمُسْتَضْعَفِیْنَ “ یعنی جن کو کمزور شمار کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر ”مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّہِ“ کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہرگز اس گروہ کے انجام کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس گروہ کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ خدا خود بہتر جانتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہئے۔ البتہ یہ بذاتِ خود رحمت کی ایک نوید ہے۔
ممکن ہے ایسے اشخاص مسلمان نہ ہوں۔ اب بھی دنیا میں ایسے علاقے موجود ہیں (افریقہ، امریکہ، یورپ، سرزمینِ مشرق میں اور دوسری جگہوں میں) جہاں کے باشندوں نے ممکن ہے اسلام کا نام بھی نہ سنا ہو۔ بعض مقامات پر تو اس پالیسی کے ساتھ حکومت کی جاتی ہے کہ لوگوں کو شروع سے ہی دین اور خدا کا نام تک معلوم نہ ہو سکے۔ ایک اعتبار سے تو یہ بھی کافر ہیں یعنی مسلمان نہیں ہیں۔ لیکن کوئی ان کو ہٹ دھرم کافر نہیں کہتا۔ ہٹ دھرم کافر اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے سامنے اسلام کو پیش کیا گیا تو اس نے اسلام کو حق جانا لیکن اس کا ذاتی مفاد، جاہ طلبی او رتعصب اسلام قبول کرنے میں آڑے آیا ہو۔ جس اس نے حق کو اپنے خلاف پایا تو اس کے خلاف آواز اٹھا دی ہو۔ حقیقت میں کفر کا معنی یہی ہے۔ ہم ہر غیرمسلم، اگرچہ اس کے سامنے اسلام کو پیش نہ کیا گیا ہو کہ وہ اس کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کر لے، کو ایک معنی کے اعتبار سے کافر کہہ سکتے ہیں لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ قرآن نے اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا کہا ہے۔ اس سے یہ گروہ مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ گروہ ہے جس کے سامنے حقیقت کو پیش کیا گیا ہو لیکن اس نے اس کا انکار کر دیا ہو۔ ”کفر“ کا مطلب ہے چھپانا۔ یہ گروہ حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے یعنی اس گروہ کے افراد مقصر ہیں۔ ان کے بارے میں قرآن فرماتا ہے، ”وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ “
یعنی اگرچہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود ہٹ دھرمی کرتے ہیں۔ اسلام اس کا نام نہیں کہ کوئی جانتا ہے یا نہیں جانتا بلکہ اس کی حقیقت تسلیم کرنے سے عبارت ہے۔ کسی شخص کا فقط جان لینا اور حقیقت کو سمجھ لینا ہی اس کے مسلمان ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ جب انسان پر حقیقت آشکار ہو جائے تو اس کے مقابلے میں اس کا ردعمل ”اٰمَنَّا وَسَلَّمْنَا وَصَدَّقْنَا“ ہونا چاہئے اور اسی کواسلام کہتے ہیں۔
اگر ایسا نہ ہو تو میں آپ سے پوچھتا ہو کہ شیطان کافر ہے یا نہیں؟ بے شک وہ کافر ہے۔ قرآن بھی کہتا ہے ”وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ “ لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ شیطان (جسے قرآن نے کافر گردانا ہے) خدا کو پہچانتا ہے یا نہیں؟ کیا وہ جانتا ہے کہ خدا موجود ہے یا نہیں؟ وہ بہتر طور پر جانتا ہے۔ وہ اس حد تک خدا کو پہچانتا ہے فَبِعِزَّتِکَ (تیری عزت کی قسم)۔ کیا شیطان کو انبیاء اور مخلص بندوں کا علم ہے یا نہیں؟ بہت اچھی طرح علم ہے کیونکہ اس نے کہا تھا ”اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْھُمُ المُخْلَصِیْنَ۔“ اسے خدا کے مخلص بندوں کے ایک گروہ کا علم تھا جن کو سامنے رکھ کر اس نے ان کو ”مخلص بندوں“ کا نام دیا تھا اور اعتراف کیا تھا کہ ان تک میری رسائی نہیں ہو گی۔ وہ ان کو اس حد تک پہچانتا تھا کہ اس نے کہا تھا ”لیکن ان تک میری دسترس نہیں ہے۔ ان میں کوئی کمزوری نہیں پائی جاتی جس سے فائدہ اٹھاکر میں ان پر اپنا تسلط جما سکوں۔“
آ ئمّہ کو جانتا ہے یا نہیں؟ انبیاء کی طرح آئمہ کو بھی بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ کیا قیامت پر اس کا اعتقاد ہے یا نہیں؟ یعنی کیا اسے معلوم ہے کہ قیامت کا ایک دن مقرر ہے یا وہ نہیں جانتا؟ اس کا بھی اسے یقین ہے۔ اس نے کہا تھا ”فَاَنْظِرْ فِیْٓ اِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔“ اے خدا مجھے قیامت تک مہلت دے۔ (ص۔ ۷۹)
جو خدا او رانبیاء کو پہچانتا ہو اور قیامت پر بھی اس کا یقین کامل ہو (ان تین ارکان پر ایمان لانے کو ہم مسلمان ہونے کی شرط قرار دیتے ہیں) لیکن اس کے باوجود قرآن اس کو کافر کہہ رہا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جاننا یا نہ جاننا نہ تو کفر کا معیار ہے نہ اسلام کا۔ اسلام کا معیار یہ ہے کہ انسان حقیقت کو جاننے کے بعد اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور کفر کا معیار یہ ہے کہ انسان جانتے بوجھتے حقیقت کے انکار اور اس کی مخالفت پر اتر آئے۔
پس قرآن نے جو ایک مقام پر کافروں کے اعمال کو خاکستر کے ڈھیر سے تشبیہہ دی ہے اور دوسرے مقام پر سراب سے تشبیہہ دی ہے اور تیسرے مقام پر سمندر کی گہرائیوں میں پائی جانے والی تاریکیوں سے تشبیہہ دی ہے تو یہ سب ان کافروں کے اعمال کی تشبیہہ ہے جن کے سامنے حق پیش کیا گیا لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے اس کے خلاف محاذ آرائی کر لی۔ قرآن ایک مقام پر ایک عجیب نقشہ کھینچ رہا ہے۔ ”وَاِذْ قَالُوْا اعلّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآ ءِ کہتا ہے کہ اس وقت کو یاد کرو کہ جب انہوں نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے کہا تھا کہ اے خدا اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والے اس محمد کی بات سچ ہے اور وہ واقعی پیغمبر ہے اور تیری جانب سے مبعوث ہوا ہے تو آسمان سے ہم پر پتھر برسا کر ہمیں نابود کر دے تاکہ ہم نہ دیکھیں۔ کفر کا معنی یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہی حق ہے تو ہم کو نابود کر دے تاکہ ہم اسے دیکھنے نہ پائیں۔
دوسرا گروہ، یعنی ایسے کافر کہ جن کے کافر ہونے کامعنی یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن قاصر ہیں اور قرآن کے الفاظ میں ”مُستضعفین“ اور ”مُرجَون لِاِمر اللّٰہ“ ہیں۔ (غیرمسلموں اور کفار کی اکثریت کا تعلق شاید اسی گروہ سے ہو اللہ ہی جانتا ہے)۔ وہ عورت یا بچہ یا دیہاتی یا جاہل جو پسماندہ علاقوں میں رہتا ہے اس کے سامنے حقیقت کو پیش ہی نہیں کیا گیا اور بعض اوقات تو دانشمند افراد کی بھی حقیقت تک دسترس نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی کتاب ”عدل الٰہی“ میں ڈیکارٹ کے متعلق بیان کئے جانے والے واقعے کو نقل کیا ہے۔ ڈیکارٹ ایک معروف فلسفی ہے اس نے اپنے فلسفہ کی بنیاد شک پر استوار کی ہے۔ یعنی پہلے اس نے محسوس کیا کہ فلسفے کی جس ڈگر پر وہ چل رہا ہے وہ اسے منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتی اس لئے اس نے ہر چیز پر خطِ بطلان کھینچ دیا اور اپنے دل سے کہا کہ اب میں اول سے شروع کروں گا۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ یقین کہاں سے حاصل ہوتا ہے ہر چیز میں شک کرنا شروع کر دیا۔ فقط مذہبی مسائل میں ہی اس نے شک نہیں کیا بلکہ ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ کہنے لگا شاید خدا نہ ہو، انبیاء نہ ہوں، بلکہ ممکن ہے کہ دنیا ہی نہ ہو، رنگ، حجم، جسم اور حرارت کابھی وجود نہ ہو۔ یہ سب کچھ خیالی امور ہی ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ انسان خواب میں ایک بہت وسیع اور عظیم دنیا کو دیکھتا اور خواب کے وقت اس کے حقیقت ہونے میں شک نہیں کرتا مگر جب بیدار ہوتا ہے تو اس وقت اسے پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ میں نے دیکھا تھا خیال تھا۔ ڈیکارٹ پھر کہنے لگا کہ میں ہر چیز می شک کر سکتا ہوں لیکن ایک چیز میں شک نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے کہ ”میں شک کرتا ہوں۔“ یعنی میں اس میں شک نہیں کر سکتا کہ ”میں شک کرتا ہوں۔“ پس دو چیزیں تو یقیناً موجود ہیں، ایک شک اور دوسرا شک کرنے والا جو کہ میں خود ہوں۔ پس اگر جہان میں کوئی اور چیز نہ بھی ہو تب بھی میں اور میرا شک تو یقینی طور پر موجود ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ ایک بات واضح ہو گئی۔ میں اسے اپنا زینہ قرار دے کر ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھوں گا۔ پھر اس نے اپنی ذات سے تحقیقی کا آغاز کیا اور کہا کہ میں بھی موجود ہوں، میرا شک بھی ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ کیا میں اور میرا شک کسی اور چیز کے سہارے کے بغیر ہی موجود ہیں یا ہمارے وجود کے لئے ضروری ہے کہ کوئی اور چیز بھی موجود ہو؟ تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دوسری چیز کا ہونا بھی ضروری ہے۔ وہ ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا (یہ واقعہ مفصل ہے) اور اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا کا انکار نہیں کیا جا سکتا، خدا ہے، روح ہے، جسم ہے، آہستہ آہستہ اس نے ان بہت سی باتوں کو قبول کر لیا جن کا وہ پہلے بھی قائل تھا۔ بہت سی باتوں کا انکار بھی کیا۔ اس کے بعد اس نے مذہب کے متعلق تحقیق کی (اس مقام پر انسان ڈیکارٹ کو انصاف پسند قرار دیتا ہے) اور وہ اپنے اردگرد کے تمام مذاہب کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ان میں سے عیسایت ہی سب سے اچھا مذہب ہے۔ اس نے کہا کہ میں عیسائیت کو دنیا میں موجود تمام مذاہب سے بہتر قرار نہیں دیتا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ دنیا میں کون کونسے مذاہب پائے جاتے ہیں۔ (ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ ساڑھے تین سو سال قبل ڈیکارٹ کا زمانہ آجکل کی طرح کا نہیں تھا۔ اب بھی جہان کے تمام حقائق آشکار نہیں ہوئے چہ جائیکہ ڈیکارٹ کے زمانے میں آشکار ہوئے ہوں) ۔ شاید دنیا میں عیسائی مذہب سے بہتر مذاہب موجود ہوں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ڈیکارٹ نے کسی ایسے دور دراز علاقے کو بطور مثال پیش کرنا چاہا جس میں پائے جانے والے مذہب کا اس کو علم نہیں تھا تو اس نے ایران کا نام لیا اور کہا کہ ممکن ہے ایران میں ایسا مذہب موجود ہو جو عیسائیت سے بہتر ہو۔
تو ڈیکارٹ جیسے غیرمتعصب شخص، جو حق قبول کرنے کے لئے جان و دل سے آمادہ ہو (ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ڈیکارٹ حق تک نہ پہنچ سکا) کا شمار مستضعفین اور قاصرین میں سے ہو گا۔ اس کا شمار مقصرین اور معاندین میں سے نہیں ہو گا۔
اس مطلب کو اچھی طرح جاننے کے بعد اب ہم خدا کی بارگاہ میں انسان کے اعمال کے قبول ہونے، قرآن کے الفاظ میں انسان کے عمل کے اوپر جانے کی وضاحت کرتے ہیں۔ درحقیقت عمل قبول ہونے کا معنی اس کا اوپر جانا ہی ہے۔ خدا کا قبول کرنا ہمارے قبول کرنے جیسا نہیں ہے۔ انسان جو اعمال انجام دیتا ہے ان کی ماہیت اس کے خلوص، نیت اور روح کی پاکیزگی سے وابستہ ہے۔ انسان کا عمل کبھی خدا کی جانب اوپر جاتا ہے۔ (اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ) اور کبھی اوپر کی بجائے نیچے جاتا ہے۔ (اِنَّ کِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ) حدیث بتاتی ہے کہ ہم جو نماز پڑھتے ہیں بعض اوقات وہ ایک نورانی جسم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ (ہم کو عالمِ غیب کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن یہ یقینی ہے کہ عالمِ غیب ہمارے اس جہان سے زیادہ وسیع اور منظم ہے اور اس کے امور زیادہ دقیق ہیں)۔ تو بعض اوقات ہماری نماز نورانی جسم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ اوپر جاتی اور ہفتگانہ پردوں کو پھاڑ دتی ہے۔ اور بعض اوقات ہماری نماز ایسی ہوتی ہے کہ جو فرشتے اسے اوپر لے جانے پر مامور ہیں جب ایک بلند مقام پر لے کر جاتے ہیں تووہ مقام ان سے کہتا ہے لُوُّوْہُ فِیْ خِرْقَةٍ اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر پڑھنے والے کے سر پر دے مارو۔ بہت سی نمازیں ایسی ہیں جو اوپر جانے کی بجائے نیچے جاتی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ انسان بعض اوقات کوئی نیک کام قُرْبَةً اِلَی اللّٰہِ“ انجام دیتا ہے۔ مثلاً قُرْبَةً اِلَی اللّٰہِ“ کسی شخص کی حاجت روائی کرتا ہے۔ تو اس کا یہ عمل ایک نورانی عمل بن جاتا ہے اور مقامات عالیہ میں جگہ پیدا کر لیتا ہے۔ لیکن بعد میں شیطان اس کو بھٹکا دیتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے ریاکاری کی نیت سے عمل انجام نہیں دیا تھا۔ اس کا عمل پاک تھا۔ عمل انجام دینے کے بعد ریاکاری کر بیٹھتا ہے۔ کسی محفل میں بیٹھا ہو تو اس عمل کا خیال بار بار اس کے ذہن میں آتا ہے اور زبان پر آنے کی کوشش کرتا ہے بالکل اس بلی کی مانند جسے تھیلے میں بند کر دیا گیا ہو اور وہ فوراً باہر نکلنا چاہتی ہو۔ آخرکار اس سے نہیں رہا جاتا اور وہ کہہ دیتا ہے کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ فلاں آدمی پر مشکل آ پڑی ہے تو ہم نے اس کی دستگیری کی! جب وہ شخص یہ بات کہتا ہے تو فرشتے کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے اس نیک عمل کو ایک درجہ نیچے لے جایا جائے۔ (وہ دوبارہ اپنی اس مدد کا تذکرہ کرتا ہے تو اس کا عمل بھی مزید نچلے درجے پر آ جاتا ہے)۔ جب تیسری مرتبہ اس کا ذکر کرتا ہے تو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے کام کو اوپر سے اٹھا کر سجین (دوزخ) میں پھینک دو۔ یعنی پھر اس عمل کو شراب خواری کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہی عمل جو شروع میں اوپر ہو گیا تھا اس کے نیچے لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔
پس انسان کے افعال کا ایک حقیقی نظام ہے۔ انسان کے عمل کے اوپر جانے کے لئے ضروری ہے کہ اس نے عمل کے اوپر جانے کا قصد کیا ہو۔ اسی کو ہم ”قصدِ قربت“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ انسان کا عمل اس صورت میں ہی اوپر جاتا ہے جب اس نے اسے خلوص نیت اور اس کے اوپر جانے کی نیت سے انجام دیا ہو۔ یہ محال ہے کہ اس نے عمل کے اوپر جانے کی نیت نہ کی ہو اس کے باوجود وہ اوپر چلا جائے۔ اسی لئے ہم خدا اور آخرت پر ایمان (جو قصدِ قربت کی شرط ہے) کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جو آدمی خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اس نے قصدِ قربت بھی نہ کیا ہو تو اسے اپنے عمل کے اوپر جانے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ جب اس نے اپنا عمل اوپر بھیجا ہی نہیں تو پھر وہ کیونکر اوپر جائے گا؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ایک پتھر نیچے کی طرف پھینک کر کہے کہ یہ پتھر اوپر کی طرف کیوں نہیں جا رہا؟ اس نے پتھر اوپر کی جانب کب پھینکا تھا کہ وہ اوپر کی جانب جاتا۔ خدا اور آخرت پر ایمان لانا عمل کے قبول ہونے اور اس کے اوپر جانے کی اصلی شرط ہے۔ لیکن بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو آفت کا درجہ رکھتی ہیں۔ یعنی وہ صحیح کام کو نابود کر دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہی کفر و عناد ہے جس کے بارے میں عرض کرچکا ہوں۔ جو انسان حق کے ساتھ دشمنی و عناد برتے گا تو عناد اس کے گزشتہ اعمال کو نابود کر دے گا۔ اگر کوئی متدین عیسائی کسی کام کو قصدِ قربت سے انجام دے تو یقینی طور پر اس کا عمل خداتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوگا۔ البتہ اگر وہی شخص کسی دوسرے موقع پر عناد سے کام لے، مثلاً پیغمبر اکرم کی کوئی بات سنتے ہی مخالفت شروع کر دے تو اس کا یہ کفر اس کے پہلے عمل کو ضائع کر دے گا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی سنی کسی کام کو قُرَُْبَةً اِلَی اللّٰہِ کی نیت سے انجام دے اور اس کا یہ عمل پاک و پاکیزہ ہو کر اوپر چلا جائے لیکن اگر امیرالمومنین کی امامت کا مسئلہ اس سے بیان کیا جائے تو وہ اپنے عناد کی وجہ سے اسے قبول نہ کرے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ فقط عناد ہی اعمال کے ضائع ہونے کا موجب نہیں بنتا بلکہ ہم میں بہت سے دیگر امور بھی پائے جاتے ہیں جو ہمارے اعمال کو ضائع کر دیتے ہیں۔ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ فقط کفار اور اہلِ سنت کے اعمال ہی ضائع ہوتے ہیں۔ لازم نہیں کہ عناد فقط توحید، نبوت یا امامت کے مسئلے میں پایاجاتا ہو۔ بلکہ دوسرے مقامات میں بھی اس کا عمل دخل ہے۔ ممکن ہے انسان کسی دوسرے اعتبار سے معاند ہو۔ فرض کریں کہ کوئی شخص مجھ سے ایک مسئلہ پوچھے اور میں اس کا جواب دوں۔ بعد میں وہ شخص وہی مسئلہ کسی دوسرے سے بھی پوچھے اور وہ اس کو دوسرا جواب دے۔ پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہے کہ آپ نے یہ جواب دیا تھا جب کہ فلاں شخص نے دوسرا جواب دیا ہے۔ تو یہ جانتے ہوئے کہ اس کا جواب میرے جواب سے بہتر ہے میں معذرت کرنے اور اپنی غلطی کااعتراف کرنے کی بجا ئے اپنے جواب کی تاویل شروع کر دوں اور اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کروں تو یہ بھی عناد کا ایک درجہ ہے۔ اور جب میں اس قدر خودغرض اور معاند ہوں کہ اپنی غلطی کا اعتراض کرنے اور دوسرے شخص کے صحیح جواب کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تو ایسی صورت میں میری ماز صحیح نہیں ہو سکتی۔
حسد بھی ایک آفت ہے پیغمبر اسلام نے فرمایا اِنَّ الْحَسَدَ لَیَاکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَاتَاْ کُلُ النَّارُ الْحَطَبَ “ حسد انسان کی نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتا ہے۔ جیسے آگ ایندھن کو یعنی انسان نیک اعمال انجام دیتا ہے او راس کے نامہٴ اعمال میں بہت سے اعمالِ صالح ہوتے ہیں مگر بعد میں وہ کسی سے حسد کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے اس کے وہ تمام اعمالِ صالحہ نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرم نے بعض اعمال و اذکار کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص یہ عمل انجام دے گا یا یہ ورد پڑھے گا تو خدا تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا۔ حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر تو جنت میں ہمارے بہت سے درخت ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ہاں بشرطیکہ تم یہاں سے آتش بھیج کر ان کو جلا نہ ڈالو۔ پس آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اگرکافر خدا پر ایمان نہ لایا ہو اور نہ ہی قیامت کا معقتد ہو اور اس نے کام کو اوپر بھیجنے کی نیت سے بھی نہ انجام دیا ہو تو اس کا کام اوپر نہیں جا سکتا۔ اور اگر اس نے ایسا کام انجام دیا ہو جو اوپر جانے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن اس نے اپنی ہٹ دھرمی کی بناء پر کفر اختیار کر لیا ہو اور ہوس پرستی کی بنا پر حق کو قبول نہ کر رہا ہو تو اس کا یہ کفر بارگاہِ الٰہی میں اس کے عمل کے قبول ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور اس کے عمل کو نابود کر دیتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح حسد مسلمانوں کے اعمال کو نابود کر دیتا ہے۔ وہ اعمالِ صالح جو خدا کی خوشنودی اور ا سکے تقرب کی نیت سے انجام نہ دیئے گئے ہوں کھوکھلے، فضول اور سراب ہیں۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے کام دیئے ہیں لیکن جب آخرت میں اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹے گا تو مشاہدہ کرے گا کہ جن کاموں کو وہ اپنے لئے مفید سمجھتا تھا بے جان، فضول اور مردہ ہیں۔ وہ ان کو پانی سمجھتا تھا حالانکہ یہ سب سراب تھے۔ اس سے زیادہ بری حالت تو کافر کی ہو گی، خاص کر جب اس نے اپنی ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے کفر اختیار کیا ہو۔ اور وہ کافر ہوتے ہوئے گناہ کا بھی ارتکاب کرے تو پھر ”ظُلُمَاتُ م بََعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ “ ہوں گی۔ قرآن نے اس گروہ کی عجیب مثال بیان کی ہے ان کے اعمال اس تاریکی جیسے ہیں جس کے اندر بھی تاریکی ہو۔ ”اَوْ کَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجُیٍ“ قرآن نے ”بَحْرٍ لُّجُیٍ“ سمندر کو فرض کیا ہے۔ یعنی ایسا سمندر جس کا کچھ حصہ گہرا ہو یا سارے کا سارا سمندر بہت زیادہ گہرائی میں ہو۔ سوال یہ ہے کہ قرآن نے کفار کے اعمال کو تشبیہہ دینے کے لئے گہرے سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی تاریکیوں کو کیوں فرض کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم کسی ایسی جگہ کی مثال بیان کرنا چاہیں جہاں ذرا برابر روشنی نہ ہو اور انسان کو ایسی جگہ پر لے جانا چاہیں جہاں روشنی کا نام تک نہ ہو تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ اس کو کسی گہرے سمندر کی تہہ میں لے جائیں۔
جدید زمانے میں عہدِ قدیم کی نسبت زیادہ بہتر طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ روشنی پانی کے اندر بھی داخل ہو جاتی ہے۔ یعنی جس طرح وہ ہوا کو روشن کرتی ہے ویسے ہی پانی کو بھی روشن کرتی ہے۔ اس لئے اگر حوض میں صاف ہو تو آپ حوض کی تہہ کو بھی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ روشنی پانی کے اندر پہنچتی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ بہت زیادہ گہرے سمندروں میں چند ہزار میٹر سے زیادہ گہرائی میں روشنی بالکل نہیں پہنچ سکتی۔ وہاں تاریکی ہی تاریکی ہے۔
قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ سمندروں کے نچلے حصوں میں جاندار موجود نہیں ہوتے کیونکہ وہاں کسی طور پر بھی روشنی نہیں پہنچتی اور پانی کا دباؤ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن عصر حاضر میں ثابت ہو گیا ہے کہ سورج کی روشنی نہ پہنچنے کے باوجود بھی وہاں جاندار موجود ہیں۔ خدا نے وہاں کی مخلوقات کو اس طور پر پیدا کیا ہے کہ وہ خود اپنی ذات سے ہی روشنی پیدا کرتی ہیں اور جس نورانی چیز کیان کو ضرورت ہوتی ہے ان کے اپنے بدن سے ہی پیدا ہوتی ہے بناء بریں اگر ایسی جگہ جہاں روشنی کا نام تک نہ ہو انسان کو وہاں لے جانا قابل فرض ہو، کی مثال بَحرٍ لُّجّی ہے۔ قرآن نے بحر نہیں کہا کیونکہ بحر ہر سمندر کوکہا جاتا ہے۔ اور اعتراض ہو سکتا تھا کہ بعض سمندر ایسے ہیں جن کی تہہ میں روشنی پہنچتی ہے۔ بلکہ قرآن نے بَحرٍ لُّجّی کہا ہے۔ بَحرٍ لُّجّی بہت زیادہ گہرے سمندر کو کہتے ہیں۔ بَحرٍ لُّجّی کہہ کر خدا نے ان سمندروں کی طرف اشارہ کیا جو اس حد تک گہرے ہیں کہ ان میں روشنی کی رسائی نہیں۔
قرآن کہنا چاہتا ہے کہ تاریکی کے متعد اسباب نے ان کفار کا محاصرہ کر رکھا ہے جب کہ اگر ان میں سے فقط ایک عامل بھی ہوتا تو وہ کفار کو تاریکی میں لے جاتا۔ صرف یہی نہیں کہ کفار تاریکی میں ہیں بلکہ وہ بہت سی تاریکیوں کے گھیرے میں ہیں اور متعدد عوامل جمع ہو گئے ہیں۔ اگر ان میں سے فقط ایک عامل بھی ہوتا تو وہ بھی ان تک روشنی نہ پہنچنے دیتا۔ ایک عامل یہ ہے کہ وہ گہرے سمندر میں ہیں۔ گہرے سمندر میں روشنی نہیں پہنچ سکتی۔ دوسرا عامل یہ ہے کہ سمندر کی سطح بھی پرسکون نہیں ہے بلکہ مسلسل لہریں اٹھ رہی ہیں اور یہ لہریں دو پہاڑوں کی طرف سمندر سے اوپر چلی جاتی ہیں۔ اس صورت میں بھی سمندر میں روشنی نہیں پہنچ سکتی۔ ان عوامل سے بڑھ کر یہ کہ گھٹائیں بھی چھائی ہوئی ہیں جو سورج، چاند اور ستاروں وغیرہ کی روشنی نہیں پہنچنے دیتیں۔ تو آپ اندازہ لگائیں کہ اس صورت میں کس حد تک بے پناہ تاریکی ہے۔
قرآن کہہ رہا ہے کہ جن کفار نے ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کیا اگر وہ گناہ کا ارتکاب بھی کر لیں تو ان کو تاریکیوں نے اس حد تک اپنے گھیرے میں لے رکھا ہوے کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک ایسے گہرے سمندر کی تہہ میں ہو جس میں روشنی پہنچنے کے سارے دروازے بند ہوں۔ یہ مثال آیت نور کی مثال جس کو ہم بیان کر چکے ہیں کے بالکل برعکس ہے اور کہہ چکے ہیں کہ اس کی چند طرح سے تفسیر کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک تفسیر، جیسا کہ حدیث بھی بتاتی ہے، یہ ہے کہ یہ مومن کی مثال ہے ”مَثَلب نوْرِہ کَمِشکوٰةٍ فِیْھَا مِصْبَاحُ طاَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍطاَلزُّجَاجَةُ کَاَنَّھَا کَوْکَبُ  دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لاَّ شَرْقِیَّةٍ وَّلاَ غَرْبِیَّةٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْٓ ءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارُ طنُوْرُ  عَلیٰ نُوْرٍطیَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ۔“ اس آیت میں ایسے انسانوں کو فرض کیا گیا ہے جو ایسے ماحول میں ہیں جہاں نور علی نور ہے۔ نُورِ فطرت، نُورِ نبوّت، ہر طرف نُور ہی نُور ہے۔ جبکہ بعض انسان ایسے بھی ہیں جو ایسی جگہ ہیں جہاں اوپر تلے تاریکی ہی تاریکی ہے۔ انہوں نے اپنی فطرت کا نور بجھا دیا ہے۔ نور فطرت کو بجھانا بذاتِ خود ایک تاریکی ہے اور اس تاریکی پر عناد کی تاریکی کی تہہ بھی جم گئی ہے۔ گناہ اور مسلسل نافرمانیاں جو انسان کی روح کی موجوں اور طوفانوں کی حیثیت رکھتی ہیں ”مَوْجُ  مِّنْ فَوْقِہ مَوْجُ  “ مزید ایک تاریکی ہے، ہر تاریکی چونکہ کسی نور کا نقطہٴ مقابل ہے۔ جہاں نور نہیں ہو گا تاریکی ہو گی، جہاں ہدایتِ وحی نہیں ہو گی وہاں تاریکی ہو گی۔ جہاں فطرت کا چراغ گل ہو چکا ہو گا ہواں تاریکی ہو گی۔ عمل صالح بھی نور ہے (چونکہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ عمل صالح کا اثر یہ ہے کہ وہ انسان کے دل کو روشن کرتا ہے)۔ اگر انسان نیک عمل انجام نہ دے تو اس کا دوسرا پہلو اندھیرا ہو گا۔ جس قدر اہلِ ایمان کے گروہ پر نور نے احاطہ کیا ہوا ہے اسی قدر کفار کے اس گروہ کا متعدد تاریکیوں نے محاصرہ کر رکھا ہے۔
الغرض قرآن نے یہاں کفار کے اعمال کی دو مثالیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو سراب کی مانند قرار دیا ہے۔ اس مثال میں قرآن کی نظر کفار کے ان نیک کاموں پر ہے جن پر وہ آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بے چارو تمہارا خیال باطل ہے۔ جب تک خدا پر ٹھیک طرح سے تمہارا ایمان نہیں ہو گا، جب تک تم خدا کے نور سے منور نہیں ہو گے اس وقت تک تمہارے اعمال میں جان نہیں پڑ سکتی۔ تمہارے اعمال میں پانی کی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی جو تمہاری پیاس کو برطرف کر سکے۔ دوسری مثال کفار کے گناہوں کی ہے۔ مفسرین نے یہ دو مثالیں بیان کرنے کی چند وجوہات بین کی ہیں۔ شاید زیادہ مفسرین نے اس وجہ کو بیان کیا ہے اور یہی وجہ بہتر ہے کہ پہلی مثال کفار کے نیک کاموں کی ہے او ردوسری برے کاموں کی ہے جو تاریکی در تاریکی ہیں۔
میں نے بیان کیاتھا کہ کفار کے اعمال کی ایک اور مثال قرآن نے بیان کی ہے۔ یعنی ایک مقام پر قرآن نے کفار کے اعمال کو خاکستر کے اس ڈھیر سے تشبیہہ دی ہے جو تیز ہوا چلنے سے بکھر جاتا ہے۔ گزشتہ تقریر میں بیان کر چکا ہوں کہ اس مثال میں قرآن کی نظر کفار کے ان نیک کاموں پر ہے جو انہوں نے قربة الی اللّٰہ کی نیت سے کئے ہیں اور واقعی کام کئے ہیں۔ مگر بعد میں ان کا عناد، کفر یا دوسری کوئی چیز ان کو نابو دکر ڈالی ہے۔ بہرحال قرآن کی منطق یہ ہے کہ چاہے کوئی مسلمان ہو چاہے کافر۔ وَقَدِمْنَآ اِلیٰ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَآ ءً مَّنْثُوْرًا۔“ (فرقان۔ ۲۳) قرآن کہتا ہے کہ اکثر یوں ہوتا ہے کہ نیک اعمال کا ایک ڈھیر ہوتا ہے لیکن ہم اسے غبار کی مانند بکھیر دیتے ہیں۔ البتہ خدا تعالیٰ ہرگز نیک اعمال کو ان کے نیک ہونے کی بنا پر نابود نہیں کرتا بلکہ ہمارا تکوینی نظام ہی ایسا ہے کہ اگر کفار نیک اعمال بجا لانے کے بعد گناہوں کا ارتکاب کریں تو ان کے وہ اعمال بطور کلی نابود ہو جاتے ہیں۔
قرآن کریم نے کفار کے اعمال کی یہ تین مثالیں بیان کی ہیں اور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں ان کفار سے مراد تمام غیرمسلم نہیں ہیں بلکہ وہ کفار مراد ہیں جو حق کی مخالفت او راس کے خلاف محاذآرائی کرتے ہیں۔ ان دو آیات کے برعکس کہ جنہوں نے نور (نور وحی و نور فطرت) سے محروم ہونے کہ جس کا نام تاریکی ہے کا نقشہ کھینچا ہے بعد والی آیت نور کا نقشہ کھینچ رہی ہے۔ یہ آیت انسان، خاص کر حق کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کائنات کے تمام ذرات کے بارے میں ہے۔ کائنات کے تمام ذرات نورِ الٰہی کی بدولت منور ہیں۔ ہر مخلوق اپنی دنیا میں خدا کو پہچانتی ہے او راس کی تسبیح گو ہے۔ سب سے پہلے قرآن نے ہی کہا تھا کہ اگر تمہارے کان قوتِ سماعت رکھتے ہوں اور تمہارا دل آگاہ و روشن ہو تو تم مشاہدہ کرو گے ساری کائنات میں خداشناسی، ذکر خدا اور اس کی تسبیح کا ہمہمہ ہے۔ اس کی تفسیر انشاء اللہ آئندہ تقریر میں بیان کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطّاھِرِیْنَ
 

صرف علی

محفلین
دسویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ والطَّیْرُ صٰفّٰتٍط کُلُ  قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہ وَتَسْبِیْحَہ طوَاللّٰہُ عَلِیْمُ مبِمَایَفْعَلُوْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۴۱)
رسول اکرم سے خطاب ہو رہا ہے، کیا تم نہیں دیکھتے (یعنی تم مشاہدہ کر رہے ہو اور دیکھ رہے ہو) کہ جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور فضا میں پر پھیلائے اور صف باندھے ہوئے پرندے، یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہے ہیں۔ کُلُ  قَدْ َعَلِمَ صَلاَتَہ وَتَسْبِیْحَہ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ مبِمَا یَفْعَلُوْنَ “ ہر کوئی اپنی نماز اور تسبیح سے آگاہ ہے اور خدا بھی اس سے آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔ ان گزشتہ چند تقاریر میں ہم نے جن آیات (آیتِ نور سے لے کر اب تک کی آیات) کی تفسیر بیان کی ہے ان میں نور اور تاریکی کے مختلف نقشے کھینچے گئے ہیں۔ البتہ تاریکی ان میں نور سے استفادہ نہ کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔ اور اس تاریکی کا سامنا ان افراد کو کرنا پڑتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نور، جس سے استفادہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، سے استفادہ نہیں کرتے۔ ان انوار سے استفادہ نہ کرنے سے ہی تاریکی وجود میں آتی ہے۔ انسان کو نورِ فطرت اور نورِ وحی و نبوّت سے استفادہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر وہ ان سے استفادہ نہیں کرے گا تو تاریکی اس کا محاصرہ کر لے گی۔ خدا کا نور ساری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ ساری کائنات خدا کے نور سے روشن ہے اور آگاہ ہے (کیونکہ کائنات تاریکی میں نہیں، روشنی میں ہے) اور اپنے خالق و باری کا ادراک رکھتی ہے۔
اس آیت میں بیان ہونے والا مطلب مختلف الفاظ میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ معارفِ قرآنی ہر دور میں انسانی فکر سے آگے ہی ہوتے ہیں اور ہونا بھی اسی طرح چاہئے۔ یعنی انسان کو ان حقائق کو جاننے کی کوشش کرنا چاہئے اسے ہر گز یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ قرآن اپنے مطالب ہماری علمی سطح کے مطابق بیان کرے۔ علم میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ توقع قرآن سے نہیں بلکہ انسان کی کتاب سے رکھنی چاہئے۔ جو شخص نورِ خدا سے ہدایت پانا چاہتا ہے اسے قرآن کی آواز پر ہمہ تن گوش رہنا اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
قرآن نے جن مطالب کو تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات خدا کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہیں۔ بعض آیات میں آیا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ خدا کی تسبیح میں مصروف ہے۔ قرآن کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ لکڑی، لوہا وغیرہ خدا کی تسبیح و حمد کرتے ہیں، ہوا کے تمام ذرات خدا کے تسبیح گو ہیں، پانی کے تمام مالیکیول، تمام ایٹم اور ایٹم سے بھی چھوٹے تمام ذرات خدا کے تسبیح گو ہیں۔
اب ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ قرآن نے یہ مطلب بیان کیا ہے یا نہیں۔ پہلے ہم ان آیات کو پڑھیں گے جن میں یہ مطلب بیان ہوا ہے، پھر اس کا جائزہ لیں گے کہ انسان اپنی عقل، فہم اور عرفان کے اعتبار سے اپنے آپ کو کس حد تک اس قرآنی منطق کے قریب کر سکا ہے۔ پس ہمارے سامنے دو مرحلے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا قرآن نے یہ مطلب بیان کیا ہے یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ انسان نے اپنی کوشش و جدوجہد کی بناء پر کس حد تک اپنے آپ کو اس حقیقت کے نزدیک کیا ہے۔ (پہلے مرحلے کے متعلق عرض ہے کہ) قرآن نے اس مطلب کو مختلف الفاظ میں متعدد مرتبہ بیان کیا ہے۔ جو چند آیات اس وقت میرے پیش نظر ہیں اور میرے حافظے میں محفوظ ہیں، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک آیت سورت بنی اسرائیل میں ہے۔ اس میں شاید دوسری تمام آیات سے زیادہ عمومیت اور صراحت پائی جاتی ہے۔ آیت یہ ہے ”وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْعَھُمْ “ (اسراء۔ ۴۴) کوئی چیز بھی نہیں، اِنْ مِّنْ شَیْ ءٍ کا مطلب ہے ”مَا مِنْ شَیْءٍ“ یعنی کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا کی تسبیح گو نہ ہو، ہر چیز حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ یعنی یہ نہ کہو کہ میں اپنا کان اس لکڑی یا درخت کے قریب لے کر جاتا ہوں۔ تو ان سے خدا کی تسبیح کی آواز نہیں آتی۔ یہی حالت میرے اپنے بدن کے ذرات کی ہے۔
قرآن کے بقول میری جلد، ہڈی، میرا گوشت، خون اور میرے بدن کا ہر بال یعنی میرے جسم کا ہر ہر خلیہ ہر لمحے خدا کی تسبیح میں مشغول ہے۔ لیکن میں اس کو سن نہیں پاتا۔ قرآن نے یہ نہیں کہ تم اس کو سنتے نہیں ہو بلکہ اس کا کہنا ہے کہ ”تم اس کو سمجھتے نہیں۔“ قرآن نے لاَ تَسْمَعُوْنَ نہیں کہا بلکہ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ کہا ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ اگر ”لاَ تَسْمَعُوْنَ “ کہا جاتا تو مطلب یہ ہوتا کہ ممکن ہے کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے کہ ہر چیز خدا کی تسبیح میں مصروف ہے لیکن ہم اس کو سن نہیں پاتے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے اب ہم جانتے ہیں کہ اس فضا میں مختلف ریڈیو اسٹیشنوں کی ریڈیائی لہریں موجود ہیں لیکن ہم انہیں سن نہیں سکتے۔ قرآن نے کہا ہے کہ تم اس مطلب کو سمجھتے نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ فقط یہ کہ تم تسبیح کو سن نہیں سکتے بلکہ تم سمجھتے ہی نہیں، یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ ابھی تم اسے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
دوسری آیات بیان کرنے سے قبل تسبیح اور حمد کے مابین پائے جانے والے فرق کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ خدا فرماتا ہے ”اِلاَّ یُسَبِّحُ بحَمْدِہ“ چونکہ تسبیح اور حمد ہمارا فعل ہے اس لئے کم از کم سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہم نماز میں کہتے ہیں ”سُبْحٰنَ رَبِّی الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہ“ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’میں اپنے ربِ عظیم کی تسبیح و حمد کرتا ہوں“ یا جب ہم کہتے ہیں ”سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ وَبِحَمْدِہ“ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”میں اپنے ربِ اعلیٰ کی تسبیح اور حمد کرتا ہوں“ تو اس ”میں تسبیح کرتا ہوں“ اور ”حمد کرتا ہوں“ کا معنی کیا ہے؟
خدا کی ثناء دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تسبیح دوسری حمد۔ تسبیح کا مطلب تنزیہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں خدا کو نقص و عجز پر دلالت کرنے والے تمام امور سے منزہ قرار دیتا ہوں۔ میں اسے ان امور سے مبرا قرار دیتا ہوں کہ جو مخلوق کی شان ہیں۔ درحقیقت لفظ ”سبحان“ کا معنی یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کو پاک و منزہ قرار دیتا ہوں اس سے کہ اسے آنکھ سے دیکھا جا سکے، ہاتھ سے لمس کیا جا سکے اور اس سے کہ وہ جسم ہو اور جگہ گھیرے حتیٰ کہ میری عبادت کا اور کسی اور چیز کا محتاج نہیں ہے۔ میں اس کو منزہ قرار دیتا ہوں کہ ظلم و ستم کو اس سے منسوب کروں، کس کو اس کا شریک ٹھہراؤں، اسے مرکب اور ذو اجزاء قرار دوں، یہ کہوں کہ وہ کس سے بنا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ الغرض میں جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جن امور کے متعلق جانتا ہوں کہ خدا ان سے برت ہے، لفظ ”سبحان“ کے ذریعے خدا میں ان امور کے پائے جانے کی نفی کرتا ہوں۔
ثنائے الٰہی اقرارِ توحید کی مانند نفی اور اثبات کا مجموعہ ہے۔ جب ہم ”لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ“ کہتے ہیں تو غیرِ خدا کے معبود ہونے کی نفی اور اللہ تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں۔ اسی طرح ثناء الٰہی بھی نفی اور اثبات کے مجموعہ کا نام ہے۔ نفی یہ ہے کہ وہ فلاں فلاں چیز سے منزہ ہے۔ اگر میں اللہ تعالیٰ کی تعریف ان الفاظ میں کروں کہ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں، سب کمالات کا مرجع اور سرچشمہ وہی ہے۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ ”بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمُ  “ ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ”وَھُوْعَلیٰ کُلِّ شیْ ءٍ قَدِیْرُ  “ وہ سننے والا ہے، جاننے والا ہے، زندہ ہے، قیوم ہے، ملک ہے، موٴمن، مہیمن ہے، زبردست ہے، جبار ہے، متکبر ہے، تو یہ صفات ثبوتیہ ہیں اور حمد صفات ثبوتیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توصیف کرنے کا نام ہے۔ پس ہم ”سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہ“ اور ”سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی وَبِحَمْدِہ“ کہنے سے جملہ نقائص کو آنکھوں کے سامنے لا کر کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ان سے منزہ ہے اور جملہ کمالات کو پیش نظر رکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ان صفات سے متصف ہے۔ جب نماز میں ہم سورہ اخلاص پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدُ  اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْ لَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَدُ ۔“ اس سورت میں صفاتِ ثبوتیہ بھی ہیں اور صفاتِ سلبیہ بھی۔ مذکورہ سورت پڑھنے کے بعد ہم کہتے ہیں ”کَذٰلِکَ اللّٰہُ رَبِّیْ “ یعنی میرا پروردگار ایسا ہی ہے۔ اس میں صفات کمالیہ پائی جاتی ہیں اور میں ان صفات کے ساتھ اس کی حمد و تعریف کرتا ہوں۔ اس میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے، اس کی اولاد نہیں ہے، وہ کسی کا فرزند نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ”کَذٰلِکَ اللّٰہُ رَبِّیْ ۔“ قرآن کہتا ہے کہ یہ تسبیح اور حمد جو تم کو اپنے ظاہری اور انسانی شعور کے ساتھ انبیاء کی تعلیمات سے یاد کرنا چاہئے اور اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ خدا کی تسبیح و حمد کرنی چاہئے، جہانِ وجود کا ہر ذرہ اس میں مشغول ہے۔ مخلوقات کی تسبیح کے سلسلے کی یہ ایک آیت ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کی پانچ سورتوں، بلکہ سورہ ”سَبِّحِ اسْمَ “ کو ساتھ ملانے سے چھ سورتوں کا آغاز تسبیح کے ذکر سے ہوتا ہے۔ ان سورتوں کو ”مسبحات“ کا نام دیا گیا ہے۔ سورہ حدید کا آغاز ان الفاظ سے ہوا ہے۔ ”سَبَّعَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ“ اس میں لفظ ”ما“ دو مرتبہ آیا ہے۔ اس آیت کا بھی وہی معنی ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کا تسبیح گو ہے۔
سورت جمعہ اور سورہ تغابن کا آغاز ان الفاظ میں ہوا ہے۔ ”یُسَبِّعُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔“ ”سَبّحِ اسْمَ “ میں تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان پانچ سورتوں میں فعلِ تسبیح کو تین مقامات پر فعل ماضی اور دو مقامات پر فعل مضارع کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ البتہ پانچویں مقامات پر لفظ ”ما“ آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ”جو کچھ“ آسمان اور زمین میں ہے، خدا کا تسبیح خوان ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمام موجودات خدا کو سجدہ کرتے ہیں یعنی تمام موجودات خدا کی بارگاہ میں خاضع ہیں اور سجدہ نام ہی خضوع کا ہے۔ ہم سجدہ کرتے ہیں تو پیشانی زمین پر رکھتے ہیں۔ پیشانی کو زمین پر رکھنا ہمارے خاضع ہونے پر شاہد ہے۔ قرآن کے بقول تمام موجودات خدا کو سجدہ کرتے ہیں، خورشید، چاند اور ستارے سب خدا کو سجدہ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ مثلاً خورشید کی بھی پیشانی ہے جس کو وہ زمین پر رکھتا ہے۔ جب آپ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں تو آپ کا عمل بتاتا ہے کہ آپ نہایت درجہ خاضع ہیں اور روح میں خضوع پیدا کرنے کے لئے پیشانی زمین پر رکھی جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ قرآن مجید کی بعض آیات میں مخلوقات کے لئے ”سبح“ اور ”تسبیح“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
بعض دوسری آیات میں یہی مطلب دوسری طرح سے بیان ہوا ہے۔ مثلاً بیان کیا گیا ہے کہ جمادات، نباتات یا حیوانات فلاں مقدس روحانی شخصیت کے ہمراہ خدا کی حمد و تسبیح کیا کرتے تھے۔ قرآن سورہ مبارکہ ”ص“ میں داؤد علیہ اسلام کے بارے میں فرماتا ہے۔ ”وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاودَ ذاالْاَیْدِ اِنَّہٓ اَوَّابُ ۔“ ہمارے قوت والے بندے داؤد کو یاد کر جو خدا کی طرف بہت رجوع کرنے والا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ اسلام نے غیراللہ سے اپنا تعلق منقطع کرکے اپنا ناطہ فقط خدا سے جوڑ لیا تھا۔
اس کے بعد ارشاد ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرةً کُلُ  لَّہ اَوَّابُ ۔“ (ترجمہ) ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا۔ صبح و شام کے وقت جب داؤد اپنے خدا کی تسبیح کرتا تو پہاڑ اور پرندے بھی اس کی آواز میں آواز ملاتے۔ وہ بھی خدا کی تسبیح کرتے۔ یہ اس مفہوم کی دوسری آیات تھیں۔ سورہ نور کی ان آیات کا شمار بھی مذکورہ آیات کے زمرے میں ہوتا ہے۔ سورہ نور کی ان آیات جیسی دوسری آیات بھی قرآن مجید میں پائی جاتی ہیں۔ سورہ نور میں خدا نبی اکرم کو مخاطب قرار دے کر ارشاد فرماتا ہے۔ ”اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ کیا تونے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی زمین میں ہے (یاد رہے کہ خدا تسبیح کے عمل کو فقط موٴمنین تک محدود نہیں کر رہا بلکہ فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر! کیا تو نے فضا کی بلندی میں صف باندھے ہوئے پرندوں کی تسبیح نہیں دیکھی؟ بلکہ اس کے بعد تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”کُلُ  قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہ وَتَسْبِیْحَہ “ یعنی ان میں سے ہر چیز پہاڑ، درخت، پرندے، انسان اور خدا کا ہر تسبیح خوان اپنی تسبیح سے آگاہ ہے، اپنی نماز سے باخبر ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ قرآن نے اسے ”نماز“ سے موسوم کیا ہے۔ ہم بیان کر چکے کہ قرآن نے ایک مقام پر تسبیح و حمد سے موسوم کیا ہے، ایک مقام پر ”سجود“ سے اور یہاں ”صلوٰة“ سے موسوم کر رہا ہے۔ اگرچہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس صلوٰة کا معنی ”دعا“ ہے مگر مفسرین کی یہ بات درست نہیں ہے۔ روحِ نماز بھی دعا ہی ہے، خود قرآن نے ”صلوٰة“ سے تعبیر کیا ہے۔ موجودات کی نماز کی نوعیت جداگانہ ہے اور وہ اس سے باخبر بھی ہیں اور ان کا خدا بھی ان کے اعمال سے آگاہ ہے۔
ہم نے عرض کیا تھا کہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دیکھیں کہ کیا قرآن موجودات کی تسبیح کے مسئلے کو زیربحث لایا ہے یا نہیں؟ تو قرآن واضح الفاظ میں فرما رہا ہے کہ جہانِ ہستی کے تمام ذرات خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہیں۔ لہٰذا ہمیں پہلے اس بات کی طرف نہیں جانا چاہئے کہ ہم دیکھیں کہ تسبیح سے کیا مراد ہے اور کیا ہم تسبیح کا ٹھیک طریقے سے معنی بیان کر سکتے ہیں یا نہیں؟ قرآن میں نہ فقط تسبیح کے بارے میں واضح آیات موجود ہیں بلکہ وہ ہم سے کہہ رہا ہے کہ موجودات کا تسبیح کرنا ایک حقیقت ہے لیکن تم اس کو نہیں سمجھ پاتے۔ البتہ یہ مطلب بیان کرنے سے قرآن کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ انسان کے لئے ایک ایسا معمہ پیش کرنا چاہتا ہو جسے وہ کبھی بھی حل نہ کر سکتا ہو۔ بلکہ قرآن نے یہ مطلب اس لئے بیان کیا ہے کہ ہم خود کوشش کرکے اس حقیقت تک پہنچ جائیں اور اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس حقیقت کا ادراک کر لیں۔
ہم نے بیان کیا تھا کہ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ قرآن کی ہدایت و راہنمائی کے بعد انسان نے اس سلسلے میں کیا قدم اٹھایا ہے اور اس نے ان آیات کی تفسیر کی طرح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی قرآنی آیات کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ ان کو ہم ”حکیمانہ“ اور ”عارفانہ“ کا نام دے سکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ان آیات کی تفسیر حکیمانہ انداز میں کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن نے یہ جو کہا ہے کہ ہر چیز خدا کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے تو اس تسبیح سے ”تکوینی تسبیح“ اور زبان حال کی تسبیح مراد ہے۔ ایک ”زبان حال“ ہوتی ہے اور دوسری ”زبان قال“ زبان حال یہ ہے کہ کسی موجود مثلاً انسان کی زبان تو خاموش ہو لیکن اس کا حال محو گفتگو ہو۔ مثلاً آپ سڑک پر کھڑے ہو کر کسی شخص سے باتوں میں مشغول ہوں اور ایک مفلوک الحال شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس آپ دونوں کے پاس آ کر سر جھکائے کھڑا ہو جائے تو اس کا حال ہی آپ سے کہے گا کہ میں فقیر و مسکین ہوں، میری امداد کریں۔ اسے ”زبان حال“ کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے پاس آکر کہتا ہے کہ میری امداد کریں، تو اسے ”زبان قال“ کہا جاتا ہے۔ بنا بریں اکثر اوقات انسان کی ظاہری حالت اس کے ضمیر کا پتہ دیتی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ
رنگِ رخسار خبر می دھداز سرِّ ضمیر
(چہرے کا رنگ ضمیر کا راز فاش کردیتا ہے) کس طرح فاش کرتا ہے؟ چہرے کا رنگ بات تو نہیں کرتا بلکہ دلالت کرتا ہے۔ انسان بہت سی باتیں بے زبانی کی زبان سے کرتا ہے۔ اشخاص بے زبانی کی زبان سے جو باتیں کرتے ہیں وہ ان باتوں کہیں زیادہ ہوتی ہیں جو دوسری زبان سے کرتے ہیں،
میں نے اپنی کتاب ”مسئلہ حجاب“ میں تحریر کیا ہے کہ بعض قسم کے ملبوسات اور بدن و ہاتھوں کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب کو ئی شخص اکڑکر چلے، رعب دار آواز میں بات کرے، زور سے پاؤں زمین پر مارے، تو وہ حقیقت میں دوسروں سے کہنا چاہتا ہے کہ میرے سامنے عجز و انکساری سے رہو۔ مجھ سے ڈر کر رہا کرو۔ عورت دو طرح کے لباس پہنتی ہے۔ بعض عورتیں ایسا لباس پہنتی ہیں اور اس انداز سے چلتی ہیں کہ ان کی ظاہری حالت پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ میں پاکدامن ہوں۔ کسی کو مجھے بری نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ حقیقت میں اس کے چلنے کا انداز اور اس کا لباس اس کی پاکدامنی کی گواہی دیتا ہے اور اوباش ایسی عورتوں کا پیچھا نہیں کرتے۔ اور بعض اوقات معاملہ برعکس ہوتا ہے (جس طرح بعض افراد اپنے لباس کے ذریعے دوسروں پر اپنا رعب ڈالنا چاہتے ہیں) کہ عورت ایسا لباس پہنتی ہے جو اپنی زبان بے زبانی میں مردوں کو پکار پکار کر کہتا ہے کہ میرا پیچھا کرو۔ عورت اپنی زبان سے کچھ نہیں بولتی مگر اس کا لباس اور اس کی چال مردوں کو اس کا پیچھا کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اسے ”زبانِ حال“ کہا جاتا ہے۔ ہم اصلی مطلب سے بہت دور چلے گئے ہیں۔
پس بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ خدا نے موجودات کی تسبیح کی جو بات کی ہے تو اس سے ”زبانِ حال“ کی تسبیح مراد ہے، یعنی ہر چیز زبانِ حال سے خدا کی تسبیح میں مصروف ہے کیونکہ ہر چیز خدا کی مخلوق ہے اور ہر ”مخلوق“ میں ایک پہلو نقص کا اور دوسرا پہلو کمال کا پایا جاتا ہے۔ نقص کا پہلو اس کے مخلوق ہونے کا لازمی نتیجہ ہے او راس میں جو بھی کمال پایا جاتا ہے وہ اس کے خالق کی جانب سے اسے عطا ہوا ہے۔ (جان لینا چاہئے کہ موجودات عالم میں جو بھی کمال آپ کو دکھائی دیتا ہے خدا کی جانب سے ہی عطا ہوا ہے)۔ پس ہر چیز درحقیقت ”زبانِ حال“ سے اپنے خالق کی تعریف و حمد کرتی ہے۔ وہ بے زبان کی زبان سے کہہ رہی ہے کہ ”حمد کے لائق ہے وہ ذات جس نے مجھے خلق کیا ہے۔“ اور تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ تمہیں مجھ میں جو نقص دکھائی دیتا ہے وہ میری ذات کا لازمہ ہے۔ خالق اس عیب سے پاک ہے۔
البتہ یہ بات بالکل صحیح ہے اور اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے کہ مخلوق زبان سے حال سے اپنے خالق کی تسبیح اور حمد میں مصروف ہے۔ بے شک مخلوقات و موجودات تکوینی زبان سے خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہیں۔ ہر تخلیق اپنے خالق کا پتہ دیتی ہے۔ گلستان سعدی بھی سعدی کی تعریف کرتی ہے۔ یعنی وہ زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ آفرین اس شخص پر جس نے مجھ جیسی شاہکار کتاب تحریر کی۔ اور اپنے اندر پائے جانے والے نقائص کے متعلق گلستان سعدی کہتی ہے کہ چونکہ یہ الفاظ کی دنیا ہے، اور الفاظ کی دنیا محدود ہے، اس لئے سعدی اس سے بہتر کتاب تحریر کر ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن جو قرآن فرما رہا ہے۔ ”اِنْ مِّنُ شَیْ ءٍِ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ“ تو کیا اس تسبیح سے مراد ”زبانِ حال“ کی تسبیح بھی ہے؟ یعنی کیا قرآن کہنا چاہتا ہے کہ ہر چیز زبانِ حال سے خدا کی تسبیح کر رہی ہے؟
دوسری تفسیر (جسے میں نے ”تفسیرِ عارفانہ“ کا نام دیا ہے) یہ ہے کہ آپ کی بات درست ہے کہ موجودات و مخلوقات زبانِ حال سے خدا تعالیٰ کی حمد و تسبیح میں مصروف ہیں لیکن قرآن اس سے زیادہ دقیق و گہری بات کر رہا ہے کیونکہ اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”وَلٰکِنْ لاَّتَفْتَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ (ترجمہ) لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ پاتے۔“ حالانکہ زبانِ حال کی تسبیح کو سب سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ”کوئی چیز بھی نہیں مگر یہ کہ …“ قرآن نے ہر چیز کا تعارف تسبیح خوان کی حیثیت سے کروایا ہے۔ فقط عقل و شعور رکھنے والوں کی بات نہیں کی۔ بات تو جاندار اور بے جان تمام اشیاء کی ہے لیکن ان کے لئے ضمیر ذوی العقول لائی گئی ہے۔ گویا خدا کہنا چاہتا ہے کہ دنیا کی تمام اشیاء عقل و شعور رکھتی ہیں کیونکہ خدا کا ارشاد ہے کہ ”وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ “ ”ھُمْ “ ایسی ضمیر ہے جس کو عربی زبان میں اشخاص کے لئے لایا جاتا ہے، اشیاء کے لئے نہیں۔ یہاں قرآن نے اشیاء کا ذکر کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے لئے ”اشخاص“ کی ضمیر (ھُمْ) استعمال کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کہنا چاہتا ہے کہ تمام اشیاء ایک جہت سے اشخاص ہیں (اور شعور رکھتی ہیں)۔ مذکورہ آیت میں پرندوں کا ذکر بھی آیا ہے۔ اگر اس میں پرندوں کا ذکر نہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن نے جو کہا ہے کہ ”جو آسمانوں اور زمین میں ہے“ تو ہم کہتے کہ آسمان والوں سے فرشتے اور زمین والوں سے انسان مراد ہیں اور انسانوں سے بھی فقط موٴمنین مراد ہیں۔ ’کُلُ  قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہ وتَسْبِیْعَہ “ سب کے سب اپنی تسبیح اور نماز سے واقف و آگاہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ فرشتے او رانسانی اپنی تسبیح اور نماز سے آگاہ ہیں لیکن قران کہتا ہے ”…اور پرندے۔“ پرندوں کو بھی قرآن نے ان میں شامل کیا ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ پرندوں میں انسان اور فرشتوں جیسا شعور نہیں پایا جاتا۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کی دنیا میں بھی ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس سے ہم بے خبر ہیں۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ پہلی تفسیر حکیمانہ ہے۔ حکیم ابو نصر فارابی جن کا شمار بڑے بڑے مسلمان فلاسفہ میں ہوتا ہے، کا ایک بہت ہی خوبصورت جملہ ہے (جو شاید کتاب ”خصوص“ میں ہے)۔ انہوں نے اسی مطلب کو البتہ زیادہ تر زبانِ حال کے موضوع سے بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”صَلَّتِ السَّمَآ ءُ بِدَوَرَانِھَا وَالْاَرْضُ بِزَجَجَانِھَا وَالْمَظَرُ بِھَطَلاَنِہ“ آسمان اپنی گردش کی صورت میں بارگاہِ الٰہی میں نماز ادا کرتا ہے۔ آسمان کا گھومنا ہی اس کی نماز ہے۔ زمین جھٹکے کھاتی ہے۔ اس کا جھٹکا کھانا ہی اس کی نماز ہے۔ بادل برس کر نماز ادا کرتے ہیں کیونکہ حقیقت نماز اور روحِ نماز اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے اور پورے خلوص کے ساتھ معبود کی اطاعت کی جائے۔ حکیم ابو نصر فارابی کا کہنا ہے کہ گردش کرنے والا آسمان، جھٹکے کھانے والی زمین اور برسنے والے بادل سب کے سب اپنے پروردگار کی اطاعت میں مصروف ہیں اور یہی ان کی نماز ہے۔
مولانا جلال الدین رومی جو کہ بہت بڑے عارف ہیں اور مسائل کو عرفان کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ تسبیح کی تفسیر مذکورہ انداز میں نہیں کرتے۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ عوام الناس تسبیح و حمد کو نہیں سمجھ پاتے۔ کائنات کا ہر ذرہ واقعی اپنے رب سے آگاہ و باخبر ہے۔ اس کا ادراک کرتا ہے اور پروردگار عالم کی تسبیح و حمد میں مصروف ہے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اس مطلب کو متعدد مرتبہ بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے اشعار مشہور ہیں۔ مرحوم شیخ عباس قمی نے بھی ان کو مفاتیح الجنان میں نقل کیا ہے۔
فرماتے ہیں۔
جملہٴ ذرّاتِ عالم در نہاں
باتومی گویند روزان و شبان
ماسمیعیم و بصیریم و ہشیم!
باشما نامحرمان ما خامشیم
چون شما سوی جمادی می روید
محرمِ جانِ خدا دان کی شوید
کائنات کے تمام ذرات دن رات دبے الفاظ میں تم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سننے والے اور بصیرت رکھنے والے ہیں مگر تم نامحرموں سے گفتگو نہیں کرتے۔ چونکہ تم جماد کی جانب بڑھ رہے ہو اس لئے تم خدا سے آگاہ روح کے رازدان نہیں بن سکتے۔ مولان روم کے دوسرے اشعار بھی ہیں جو بہت اچھے ہیں مگر افسوس کہ وہ سب مجھے زبانی یاد نہیں ہیں۔
ایک شعر ہے کہ
معنی ”اللہ“ گفت آن سیبویہ
یولہون فی الہوائج ہُم لدیہ
اللہ سے مراد وہ ذات ہے جس کی بارگاہ میں تمام موجودات اپنی حاجات لے کر جاتے ہیں۔ کوئی ذرہ ایسا نہیں جو اپنی حاجت اللہ کی بارگاہ میں پیش نہ کرتا ہو۔ بعد میں وہ کہتے ہیں کہ مٹی، ہوا، سمندر، صحرا اس طرح سے اس کی بارگاہ میں اپنی نیاز کا ذکر کرتے ہیں:
بلکہ جملہ ماہیان در موجہا

جملہٴِ پرندگان در اوجہا
تو جو علماء قائل ہیں کہ واقعی ذرّاتِ عالم میں مخلوقات کی تسبیح کا شور بپا ہے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ فضا میں ریڈیائی امواج کی مانند تسبیح کا شور ہے جسے ہم سن نہیں پاتے؟ نہیں! ہرگز ان کی مراد یہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر چیز اور ہر ذرّہ کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ تو اسی جہان کی طرف ہے اور یہ رخ مردہ ہے۔ دوسرا رخ دوسرے جہان کی جانب ہے یعنی ہر چیز کا دوسرا رخ ملکوتی ہے اور اس رخ اور پہلو کے اعتبار سے ہر چیز زندہ ہے اور باشعور ہے۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ آپ جس لکڑی کو دیکھ رہے ہیں اس کی پوری حقیقت آپ پر عیاں نہیں ہے۔ انسان کے دوررس علوم (حتیٰ کہ ایٹم کی تہہ تک پہنچنے والا علم) بھی اس چیز کے فقط ایک ہی رخ یعنی اس کے ملکی رخ سے آگاہ ہے اور ہر چیز کا دوسرا رخ یعنی ملکوتی رخ ان کے ظاہری حواس اور مروجہ علوم کی پہنچ سے باہر ہے۔ اگر انسان اہلِ دل، اہلِ معنی اور اہلِ حقیقت بن جائے تو اس صورت میں وہ اشیاء کے دوسرے یعنی ملکوتی رخ کو سمجھ سکے گا۔ اس رخ کے ادراک کے بعد انسان مشاہدہ کر سکتا ہے کہ تمام اشیاء و موجودات اس رخ کے اعتبار سے شعور، ہوش اور علم رکھتی ہیں اور خدا کی تسبیح و حمد میں مصروف ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت داؤد کے ہمراہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم حضرت داؤد کے پاس موجود ہوتے تو ہم بھی پہاڑوں اور پرندوں کی آوازیں سن لیتے، کیونکہ دوسرے لوگ تو اس وقت موجود ہوتے تھے مگر اس کے باوجود وہ ان آوازوں کو نہیں سن پاتے تھے۔ حضرت داؤد کے وسرے کان تھے وہ اشیاء کے باطن اور ان کے ملکوت تک پہنچے ہوئے تھے۔ وہ ملکوت کی آوا زسن لیتے تھے۔ اگر ہمارے کان بھی کھل جائیں تو ہم بھی سن لیں گے اور آپ حضرات یہ خیال نہ کریں کہ ملکوت کی آواز کا سننا فقط انبیاء سے مختص ہے۔
شاید آپ نے سنا ہو کہ نبی اکرم کی ہتھیلی پر سنگریزوں نے تسبیح کی تھی۔ نبی اکرم کا ایک معجزہ یہ تھا کہ آپ نے مٹھی بھر سنگریزے اپنے ہاتھ میں لئے اور لوگوں نے دیکھا کہ سنگریزے خدا کی تسبیح کر رہے ہیں۔ تو یہاں نبی اکرم کا معجزہ یہ نہیں تھا کہ آپک نے سنگریزوں سے تسبیح پڑھائی بلکہ آپ نے یہ معجزہ کیا کہ لوگوں کے کان کھول دیئے جس کی وجہ سے انہوں نے تسبیح کی آواز سن لی۔ نبی اکرم کا معجزہ سنگریزوں میں آواز پیدا کرنا نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو ہر وقت ہی خدا کی تسبیح میں مصروف ہیں۔ نبی اکرم کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے تسبیح کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی۔
اب میں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ایسی باتیں کوئی زیادہ غیرمعمولی نہیں ہیں، آپکی خدمت میں ایک ایسے شخص کا واقعہ پیش کرتا ہوں جو ہم سب کے لئے لائقِ اعتماد ہے۔ میری مراد الحاج شیخ عباس قمی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات سے ہے کہ جو انتہائی متقی شخص تھے۔
یہ واقعہ انہوں نے منبر پر بیان کیا تھا اور میں نے اسے دو مراجع تقلید سے سنا ہے جو بقیدِ حیات ہیں اور وہ اس وقت شیخ عباس قمی کے درس میں شریک تھے۔ جناب قمی نے فرمایا کہ جوانی کے عالم میں جبکہ مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری رہا کرتی تھی (اب وہ صورتِ حال نہیں رہی)، انہی ایام میں ایک دن زیارت کی غرض سے وادی اسلام گیا تو وہاں مجھے دور سے ایک مہیب آواز سنائی دی۔ یہ آواز اونٹ کی اس آواز سے ملتی جلتی تھی جو وہ گرم لوہے سے داغے جانے کے وقت نکالتا ہے۔ میں نے بہت ادھر ادھر دیکھا مگر اونٹ کا دور دور تک کہیں نام و نشان تک نہ ملا جبکہ دردناک آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی اور وادی اسلام میں کوئی اور تھا بھی نہیں۔ اسی اثناء میں وادی اسلام کے اس پار کچھ لوگ حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ میں نے جی میں کہا کہ شاید وہ اونٹ کو داغ رہے ہیں۔ میں دھیرے دھیرے ان کی جانب چلنے لگا تو ایک بات واضح ہو گئی اور وہ یہ کہ آواز اسی جانب سے آ رہی ہے۔ مگر وہاں پہنچنے پر بھی اونٹ کا نام و نشان تک نہ ملا۔ دراصل وہ لوگ ایک میت کو دفنانے کے لئے وہاں لائے تھے۔ وہ آواز اسی میت کی تھی۔ مجھے یہ آواز واضح طور پر سنائی دے رہی تھی جبکہ وہ افراد اسے نہیں سن رہے تھے۔ میں نے وادی اسلام کے اس پار سے اس آواز کو سن لیا تھا اور سمجھا تھا کہ یہ اونٹ کی آواز ہے۔ جب میت کے نزدیک پہنچا تب بھی اس آواز کو سن لیا۔ مگر وہ آواز ان افراد کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔
الغرض : آپ کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ دنیا میں موجود ہر آواز کو ہر کوئی سن سکتا ہے۔ بعض آوازیں مخصوص ہوتی ہیں او ران کو خاص کان ہی سن سکتے ہیں۔ مجلسی اول (جو کہ معروف و مشہور علامہ مجلسی مرحوم کے والد ہیں) بھی ہت بلند پایہ عالم اور متقی تھے۔ وہ شیخ بہائی کے شاگرد تھے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ شیخ بہائی اپنی وفات سے چھ ماہ قبل اپنے شاگرد کو ساتھ لے کر تخت فولاد اصفہان (جہاں بابا رکن الدین کا مقبرہ تھا شاید اب بھی ہو) قبور کی زیارت کے لئے گئے انہوں نے اچانک ہماری طرف رخ کرکے کہا۔ کیا تم نے کوئی آواز سنی ؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ خاموش ہو گئے اور واپس لوٹ آئے۔ اس دن سے ان کی حالت بدل گئی۔ ہر وقت تزکیہ نفس میں مصروف رہتے۔ اب وہ بالکل بدل چکے تھے۔ ہم سب شاگردوں نے اندازہ لگایا کہ اس تبدیلی کی وجہ اسی دن کا کوئی واقعہ ہے۔ مجلسی اول کہتے ہیں کہ چونکہ میں دوسرے شاگردوں کی نسبت استاد سے زیادہ بے تکلف تھا اس لئے یہ طے پایا گیا کہ میں استادِ محترم سے اس تبدیلی کی وجہ دریافت کروں۔ تو میرے استفسار پر استاد نے فرمایا کہ اس دن جب ہم قبور کے پاس پہنچے تو ایک قبر سے میں نے یہ آواز سنی ”شیخ کچھ اپنی بھی فکر کرو۔ تمہاری رحلت کا وقت قریب ہے، تمہیں اپنی فکر کیوں نہیں؟ “ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد استاد نے رحلت فرمائی۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ چند افراد میں سے فقط ایک ہی شخص نے وہ آواز سنی تھی۔
ہماری کائنات بہت زیادہ دقیق و عمیق ہے۔ اب جب قرآن کہتا ہے کہ تمام ذراتِ عالم خدا کی تسبیح کرتے ہیں تو اس کے جواب میں یہ کہنا نادانی ہے کہ میں جب کسی چیز کے قریب کان لے کر جاتا ہوں تو مجھے تسبیح کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یا لیبارٹریز میں اس قدر تجربات کے باوجود ابھی تک ان کی آواز کیوں نہیں سنائی دی۔ ایسی باتیں نادانی کی بناء پر ہی کی جاتی ہیں کیونکہ حقیقت ان باتوں سے بالاتر ہے۔
غار حرا میں نبی اکرم پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ جبرائیل سورہ اقرأ کی یہ آیات لے کر نازل ہوئے:
”اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَق الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَأ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔“
 
Top