قائدِاعظم یونیورسٹی، درد کا آسیب اور پت جھڑ میں خود کلامی

کعنان

محفلین
قائدِاعظم یونیورسٹی، درد کا آسیب اور پت جھڑ میں خود کلامی
راجہ قیصر
ہفتہ 7 جنوری 2017

702953-qauniversity-1483789101-300-640x480.jpg

دُکھ اور کرب سے زیادہ جو چیز روح کو چیر رہی ہے اور کئی دنوں سے ذہن و دماغ
کے کواڑوں پر برس رہی ہے وہ قائدِاعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضہ ہے۔​

اداسی کا عفریت ہے اور دیارِ دل میں بجھے ہوئے چراغ۔ شہرِ سنساں میں خوابوں کی ارزانی ہے۔ مارگلہ کے قدموں میں بچھی قائدِاعظم یونیورسٹی کی کشادگی ہے اور پھر بھی دل گرفتگی کا ایک جاں کناں احساس امر بیل کی طرح روح کے پودے سے لپٹا جاتا ہے۔ بیزارگی کی فصل تاحدِ نظر ہے۔ درد کا آسیب تاریخ کے بوجھ اور ایک قدیم خیال کی نگرانی کی طرح ذہن و خیال سے چمٹ گیا ہے۔ آوارگی کے دریچوں سے بے معنویت روح کے غلاف میں نقب لگا رہی ہے۔ سرما کی بارشوں کا کربناک انتظار گو ختم تو ہو چکا ہے مگر بارش کی آواز، بھیگے درخت اور سہ پہر کی میلی شام اپنی وحشت اور سوگواریت میں رقص کناں ہیں اور میں اِس خیال و ملال انگیز شام میں اپنی خاموشی سے ہمکلام ہوں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ محسن نقوی نے کتنے سادہ لفظوں میں اِس عصر کا نوحہ لکھ دیا تھا

محسن ہمارے ساتھ عجب سانحہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

انسان نے افسردہ و اُداس ہونا کب سیکھا شاید اِس کا جواب کسی بھی ماہر عمرانیات، نفسیات یا بشریات کے پاس نہ ہو۔ ڈرخائم سے لے کر فرائیڈ تک کوئی بھی اُداسی کی وجہ نہیں بتا سکا شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی ادب یا مضمون کے پاس ںظریہ اُداسی موجود نہیں۔ جون ایلیا یاد آتے ہیں۔ عدمیت کا پیروکار انتہائی منفرد شاعر، ستم تو یہ ہے کہ جون کی نثر کو نہیں پڑھا گیا۔ کہا
’میں اُن لوگوں سے بہت خوفزدہ ہوں جو اُداس نہیں ہوتے کیونکہ جو اُداس نہیں ہوتے وہ انسان نہیں ہوتے‘۔

یونانی تہذیب میں ’Thespian tradition‘ اور پھر جدید ادب میں ’Melancholy‘ ایک مکمل ’Genre‘ کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ برانٹے سسٹرز سے لے کر گارشیا مارکیز اور ناصر کاظمی سے لے کر ڈاکٹر رشید امجد تک۔ اُداسی اور ’Meaninglessness‘، دُکھ اور وحشت کے سندیسے۔ میرے عہد کا ترجماں شاعر اور نمائندہ نثری نظم نگار زاہد امروز کہتا ہے کہ گہری تنہائی میرے سینے میں پتھر بنتی ہے اور خالی منظر میرے اندر گونجتا ہے۔ دن شام کے تعاقب میں رینگتا ہے اور رات صبح کی بانہوں میں مرجھانا چاہتی ہے۔ منیر نیازی نے بھی درد کی عجب رو میں بہہ کر کہا تھا،

وقت سے آگے گزرنے کی سزا
آدمی تنہا رہ جاتا ہے

دُکھ اور کرب سے زیادہ جو چیز روح کو چیر رہی ہے اور کئی دنوں سے ذہن و دماغ کے کواڑوں پر برس رہی ہے وہ قائدِاعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضہ ہے۔ حسبِ معمول سینیٹ کے سابقہ چئیرمین نیر بخاری دندناتے ہوئے قائدِاعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضہ پر قبضہ کئے جا رہے ہیں۔ یہ بات کتنی دکھ دہ اور المناک ہے کہ سایست دان اپنی ہوس میں تعلیمی اداروں کو بخشنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یورپ کو اخلاقی انحطاط کے طعنے دینے والے بھول جاتے ہیں کہ وہاں لوگ جائیدادوں کی جائیدادیں یونیورسٹیوں اور ٹرسٹ کے نام کر جاتے ہیں۔

open-letter-1483791628.jpg

اٹلی میں قیام کے دوران ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے یورپ میں بیش بہا دولت کمائی۔ ایک دن انہیں اٹلی کے ٹیکس حکام نے طلب کر لیا اور تین گھنٹے کی ملاقات میں ٹیکس حکام اُنہیں اِس بات پر قائل کرتے رہے کہ ایک آدمی کو اپنی پوری زندگی آسائش اور پرتعیش انداز میں گزارنے کے لئے ستر ہزار یورو کافی ہیں۔ اُنہیں باقی دولت کسی اچھے مقصد کے لئے وقف کر دینی چاہئیے۔ ملک ریاض، میاں منشاء اور نیر بخاری کہاں جا کر بس کریں گے؟

ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستہ جاتا

بھارت کے سابق صدر مرحوم عبدالکلام کہتے تھے کہ بدعنوانی نہ ختم ہونے والی ہوس کی کھوکھ سے جنم لیتی ہے۔ یقین مانیے سیاست دان قابل نفرت لوگ ہیں۔ میں نے چار سال جمہوریت کے تمام نظریات نہ صرف پڑھائے ہیں بلکہ اُن کا پرچار بھی کیا ہے۔ مگر اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سراسر سراب ہے۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں کسی غیر جمہوری نظام کا مداح ہوں مگر یہ صرف قضیہ ہے حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا جدولیاتی ارتقاء اشتمالیت اور مادیت پر مبنی ہے۔ Franz Kafka کا ناول ’The Castle‘ یاد آیا جو بار بار پڑھے جانے کے لائق ہے۔ میرے ایک عزیز دوست کا خیال ہے کہ میں تحریر میں کتابوں اور لوگوں کے حوالے اس لئے دیتا ہوں کہ پڑھنے والے اس سے متاثر ہوں۔ ممکن ہے اِس بات میں کوئی حقیقت بھی ہو مگر تحقیقی سوچ اور مقالہ جاتی تحریر میں بغیر حوالے کے نہیں لکھا جا سکتا، رہی بات شاعری کی وہ تو یہ تو جذبات کی زبان ہے۔

اِس قوم کے سماجی تمدنی اور عمرانی شعور نے ہی اِس ملک کے عمرانی معاہدے کو مرتب کیا ہے۔ ہمارے عزیز دوست احمد عجاز اس پر ایک لائقِ تحسین کوشش کر چکے ہیں۔ اِس ضمن میں اُن کی کتاب ”پاکستانی سماج کا عمرانی مطالعہ“ پڑھے جانے کے لائق ہے۔ کچھ دن قبل کلاس میں ریاست کی تشکیل پڑھاتے ہوئے ایک طالب علم نے سوال کیا کہ ریاست اور معاشرے کے باہمی تعلق میں بنیادی مسئلہ کہاں پر ہے؟ جواب دیا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِس معاشرے کو ریاست کے ضمن میں اپنے حقوق کا شعور دے دیا گیا ہے۔ طالب علم کی حیرت دیدنی تھی کہ یہ تو اچھی بات ہے اور اِس میں مسئلہ کہاں پر ہے؟ مزید بتایا کہ اِس معاشرے کو صرف حقوق ہی کا شعور دیا گیا ہے، جبکہ ٖفرائض کا شعور بالکل بھی نہیں دیا گیا۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں دلایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی لائن توڑتا ہے تو یہ چیخ اٹھتے ہیں مگر جب موقع ملتا ہے تو خود لائن توڑ دیتے ہیں۔ اگر کسی بھی قوم کے تمدنی شعور کا مطالعہ کرنا ہو تو اُس قوم کے ٹریفک نظام کا جائزہ لے لیں۔ افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب نے اِس قوم کو حقوق کے اوپر بولنا سکھایا ہے فرائض کے اوپر نہیں۔

گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
یہ معجزہ بھی لکھو تاریخ کے خانوں میں
جہاں میں جو رد ہوئے تھے کئی صدی پہلے
ہم پر وہ لوگ مسلط ہیں آج کے زمانے میں

نئیر بخاری اُس طبقے کے ترجمان ہیں جو ریاست کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور جِن کی راہ میں کوئی قانون اور ادارہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ورنہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کی جانب سے ایوانِ وزیراعظم اور قومی اسمبلی سے سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دن دہاڑے یونیورسٹی کی سینکڑوں ایکڑ پر قبضہ اور ایک محل نما گھر، سڑک کی تعمیر اور پلاٹنگ ایک عام آدمی کی سوچ سے بالاتر ہے۔ باقی تفصیلات آپ ڈاکٹر الہان نیاز سے پوچھ سکتے ہیں جو گزشتہ تین ماہ سے اِس معاملے کو ہر فورم پر اجاگر کر رہے ہیں اور متعلقہ وفاقی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

express-1483791763.jpg

et-1483791822.jpg


وقت بہت سوں کی رعونت پر خاک ڈال چکا ہے اور بخاری صاحب کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوجائے گا مگر دُکھ یہ ہے کہ کہانی نہیں مرے گی بس کردار بدلیں گے اور تاریخ کی راہداریوں میں پھر کوئی بیٹھ کر اس شہرِ آشوب کا عمرانی نوحہ لکھے گا جیسا کہ افتخار عارف نے لکھا تھا،

بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
چراغِ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ اُلجھی ہے کہ اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علی نور
بنامِ مسلک و مذہب تماشا ختم ہوگا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
دلِ ما مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

راجہ قیصر
راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں پڑھاتے ہیں اور تاریخ، ادب، فلسفہ اور مذہب پر گہری نگاہ رکھتے ہیں

ح
 
Top