قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی بہت شکریہ کہ آج آپ نے شام ساڑھے تین بجے سے لیکر سات بجے تک ایک ہی نشست میں ہمارے ابا جان کی اس زندگی کی کہانی کو پڑھا اور بیس زبردست کے ٹیگ اور ایک عدد دوستانہ کا ٹیگ ہمیں انعام میں دیا۔جزاک اللہ الخیر۔ سدا خوش رہیے محترم
دراصل تسلسل قائم نہیں رہ سکا کہ اس دوران تین بار مجھے اٹھ کر کچھ دوستوں کی مدد کے لئے جانا پڑا۔ ورنہ تو نصف گھنٹے میں ہی یہ سب کچھ ہو چکا ہوتا :)
 
ہاں اے فلک پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

کیسی نابع رزگار شخصیت دنیا سے چلی گئی

سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

آنکھیں نم ہو گئیں پڑھ کر
آپ کی قسمت پر رشک آیا کہ کتنی عظیم شخصیت کا فرزند ہونے کا شرف رکھے ہیں
اللہ مولانا صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
ہاں اے فلک پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور


کیسی نابع رزگار شخصیت دنیا سے چلی گئی

سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں


آنکھیں نم ہو گئیں پڑھ کر
آپ کی قسمت پر رشک آیا کہ کتنی عظیم شخصیت کا فرزند ہونے کا شرف رکھے ہیں
اللہ مولانا صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
محبت ہے آپ کی جناب شاہ جی سید شہزاد ناصر بھائی ۔ جزاک اللہ
 
باب چہاردہم۔فسانہ آزاد

شگفتہ مزاجی

محمد خلیل الر حمٰن

اباجان کے مزاج میں شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی، شوخی و چنچل پن کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ سنجیدہ سے سنجیدہ ماحول اور حالات میں بھی انھوں نے اپنی شوخی طبع سے ایسے ایسے شگفتہ چٹکلے چھوڑے ہیں کہ خود ان کی زبانی ان لطیفوں کی روداد سن کر مزہ آجاتا تھا۔ بچپن میں بھی اپنی اس شوخ طبیعت کے سبب نہ صرف گھر والوں بلکہ اپنے ہم عمر دوستوں سمیت سارے گاﺅں والوں کے ہر دل عزیز تھے۔ حیدرآباد پہنچے تو اپنی اسی طبعیت کی وجہ سے قبولیت عام کا درجہ حاصل کیا۔ پیر صاحب کی بڑی بیگم صاحبہ کو اس قدر پیارے ہوئے کہ انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ جب تک ان کے گھر میں رہتے، چھوٹے بچوں کو سنبھالنے سے لیکر پانی بھرنے اور گھر کے دیگر کام سرانجام دینے میں مصروف رہتے۔ پیرانی ماں کے ایک چھوٹے بھائی تھے، ننھے ماموں ، جو اباجان کے گہرے دوست بن گئے اور اسی طرح پیر صاحب کے نوجوان مریدوں کا ایک گروپ بھی اباجان کے گرد جمع ہوگیا اور ان نوجوان دوستوں کے گروہ نے ہر زمانے کی نئی نسل کی طرح اپنا ایک الگ ڈھنگ نکالا اور ہنسی خوشی وقت گزارنے میں ملکہ حاصل کیا۔ان کی شرارتوں کے حالات آپ گزشتہ صفحات میں ملا حظہ فرماچکے ہیں۔ رات کو پیر صاحب کی محفلِ درس سے پہلے قریب کے چائے خانے میں اپنی محفل جماتے تھے۔ چائے ، کافی، پان وغیرہ سے شغف رہتا اور پھر جوں ہی عشاءکی نماز کا وقت ہوتا کلی وغیرہ کرکے پان کے اثرات ہونٹوں سے مٹاکر فوراً بھاگتے اور اگلی صفوں میں جا موجود ہوتے۔


ایک دن اباجان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھنے والوں میں ایک اہلحدیث حضرت بھی موجود تھے جو اپنی ٹانگیں چوڑی کرکے اپنے پنجے سے برابر والے کے پنجے کو چھونا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ اباجان ان کے پھیلاﺅ کو دیکھ کر سمٹے تو انھوں نے اپنے پیر اور زیادہ پھیلا لیے۔ اباجان اور سمٹے تو وہ حضرت اور زیادہ پھیل گئے۔ اب تو اباجان نے انھیں سبق دینے کا پکا ارادہ کرلیا۔ اور موقعہ پاکر اپنا پنجا ان کے پیر پر مضبوطی کے ساتھ رکھ دیا تاکہ ان کی پیش قدمی کو روک سکیں۔اس حرکت پر وہ صاحب بہت جزبز ہوئے اور اپنی مزید پیش قدمی سے باز رہے۔


ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنی بیماری کا حال بتلایا کہ گردوں میں پتھری ہوگئی ہے تو خوب ہنسے اور ان صاحب پر حسبِ حال بھپتی کسی کہ وہ اندرونی طور پر سنگسار ہورہے ہیں۔



اباجان ناس لیا کرتے تھے۔ ناس خریدنے کے لیے صدر میں ایمپریس مارکیٹ کے قریب جہانگیر پارک کے عین سامنے ایک دکان مخصوص تھی ۔ایک مرتبہ ناس لینے کے لیے صدر میں ایک بس سے اترے اور آگے بڑھا چاہتے تھے کہ سامنے سے آتے ہوئے ایک شخص پر نظر پڑی تو اس کی ہیئت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑے۔خدا کی کرنی، اگلے ہی لمحے سامنے پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے کو نہ دیکھ سکے اور اس پر سے جوپیر پھسلا ہے تو بازار میں سڑک پر چاروں خانے چت پڑے تھے۔چند لمحوں کے لیے تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کہاں ہیں اور کیا ہوا ہے۔ جب ذرا حواس بحال ہوئے تو سوچا ”اللہ کی مخلوق کا مذاق اڑایا تھا ، لہٰذا اسے یہ بات بری لگی ہے، توبہ کرنی چاہیے “ یہ سوچ کر فوراً سنبھل

کر اٹھے اور اٹھتے ہی بھرے بازار میں کان پکڑکرتین مرتبہ اٹھک بیٹھک کی ، ا للہ سے توبہ کی اور نہایت اطمینان کے ساتھ آگے روانہ ہوگئے۔ دیکھنے والے حیرت سے دیکھا کیے، لیکن اباجان نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا تھا ، اور نہ دیکھا۔ بعد میں خود خوب مزے لے لے کریہ قصہ سنایا کرتے اور خوب ہنستے۔


اپنے بچپن میں ایک دن راقم الحرو ف رات کے وقت کچی نیند سے بیدار ہوااور اپنی نیند کی جھونک میں نہایت اطمینان کےساتھ مندرجہ ذیل

سطریں بآوازِ بلند روانی کے ساتھ ادا کیں۔


لنگڑ دین بھائی لنگڑ دین

سالن تھوڑا روٹی تین

بجاﺅ بین


اور پھر سوگیا۔ اباجان حسبِ معمول مطالعہ میں مصروف تھے ۔ اس وقت تو یہ واقعہ خاموشی کے ساتھ دیکھا کیے۔بعد میں اکثرسنایا کرتے، خوب ہنستے اور لطف لیتے۔


اباجان کی بڑی سالی یعنی ہماری خالہ اماںجو آج کل پیرانہ سالی کے باعث بستر پکڑ کر لیٹی ہوئی ہیں ، خاصی پھرتیلی واقع ہوئی تھیں، ان دنوںسارے شہر میں اکیلی دوڑتی پھرتیں، لیکن ادھر کچھ دنوں سے ان کی ٹانگوں میں درد رہنے لگا تھا جس کی وہ اکثر شکایت بھی کیا کرتی تھیں۔ اباجان نے فوراً ان کا نام لنگڑ دین رکھ دیا اوربعد میں جیسے ہی وہ ہمارے گھر میں داخل ہوا کرتیں ، اباجان ایک ٹانگ چھوٹی کرکے لنگڑاتے ہوئے کمرے کا ایک چکر لگاتے اور اس کے بعد ہی ”آپا جان“ کو ادب سے سلام کیا کرتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے۔ خالہ اماں یہ دیکھ کر خوب ہنستیں۔اباجان کے چڑانے کا انھوں نے کبھی برا نہ منایا بلکہ ہمیشہ اباجان کا ادب و احترام کیا اور اس


صورتحال سے لطف اٹھایا۔دیگر سالیاں چونکہ اباجان کی شادی کے وقت بہت چھوٹی تھیں لہٰذا ان کے ساتھ اباجان کا پیار کا رشتہ ہمیشہ رہا۔ بی خالہ جن کا اصل نام سعیدہ اختر ہے، اباجان کے لیے ”اکوماں“ تھیں اور اباجان کی سمدھن بننے کے باوجود وہ ” اکوماں ہی رہیں“۔


´ ´ّ


تجمل صاحب ، نور محمد صاحب اور دیگر حضرات سے اباجان کی گہری دوستی کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن اباجان نے نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈز کی نوکری قبول کی تھی۔ایک دن جیسے ہی اباجان کو علم ہوا کہ نور محمد صاحب پاکستان ائر فورس میں ائر مین کے طور پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے، اباجان نے ان کا نام ائر مارشل رکھ دیا۔ نور محمد صاحب کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ دست شفقت

دراز رکھا۔غلام محمد بھائی نے تو اباجان کے ساتھ ہی یہ ادارہ چھوڑ کر نیشنل بک فاﺅنڈیشن میں نوکری کرلی تھی، اور اسی میں رہتے ہوئے ان کا انتقال ہوا۔ناظم آباد میں ہمارا گھر عید گاہ سے کچھ فاصلے پر تھا اور تجمل صاحب کا گھر عین عید گاہ کے سامنے واقع تھا۔ ہر عید پر ہمارا معمول تھا کہ عید کی نماز سے فارغ ہوکر سیدھے تجمل صاحب کے گھر پہنچتے، عید ملنے کے بعد ان کے گھر پر ہماری خاطر مدارات کی جاتی اور اس کے بعد ہی ہم اپنے گھر کی طرف روانہ ہوسکتے۔ ایک مرتبہ عید گاہ سے تجمل صاحب کے گھر پہنچے تو وہ قمیص پہنتے ہوئے برآمد ہوئے۔ اباجان نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ انھوں نے عید کی نماز ہی نہیں پڑھی بلکہ غسل خانے سے سیدھے ابھی نکل کر ہم سے عید ملنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔وہ لاکھ کہتے رہے کہ انھوں نے نماز پڑھ لی ہے مگر اباجان نہ مانے۔اس دن کے بعد سے ہر عید پر نماز کے بعد تجمل صاحب سے ملتے تو یہ شبہ ضرور ظاہر کرتے کہ کہیں تجمل صاحب نے نماز گول تو نہیں کردی اور غسل خانے سے عید کے لیے تیار ہوکرنکلتے ہی عید ملنا شروع تو نہیں ہوگئے۔


آج جب ہم تجمل صاحب کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہیں تو وہ بے تحاشا یاد آتے ہیں ، لیکن ان کے گھر جانے کی ہمت ہم میں نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے تجمل صاحب فالج کے زیر اثرصاحب فراش ہیں۔ ان کے گھر والوں نے انھیں انکے جگری دوست اباجان کی رحلت کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔ ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ ان کا سامنا ہوتے ہی انھوں نے اباجان کی خیریت دریافت کرلی تو ہم کیا جواب دیں گے۔کہتے ہیں کہ انکے گھر والوں نے انھیں انکے بڑے بیٹے کی حادثاتی موت کے بارے میں بھی نہیں بتایا تھا۔ گھر کے سامنے کی مسجد سے جب لاﺅڈ اسپیکر پر اسکی موت کا اعلان ہوا توتجمل صاحب نے بھی یہ اعلان سن لیا۔

ابا جان کے پیارے پیارے نابینا شاگرد اور ساتھی بھی ابا جان کی شرارتوں سے کسی طور بچے ہوئے نہیں تھے۔ ایک مزیدار واقعہ تو آپ باب ’ خدا کے بندوں سے پیار‘ میں پڑھ چکے ہیں، اس طرح کے بے شمار واقعات اباجان کی زندگی میں بھرے پڑے تھے۔

راشد اشرف
 
آخری تدوین:
باب پانزدہم۔فسانہ آزاد
سیاسی و مذہبی تحریکات

ابا جان تحریکی آدمی تھے۔ جہاں بھی رہے، کسی تحریک کو جنم دیا یا خود کسی انقلابی تحریک کا حصہ بن کر فعال کردار ادا کیا ۔ بچپن میں گھر کا نظام چلانا ہو یا دیگر لڑکوں کے ساتھ مل کر فٹبال میچ کی پلاننگ یا کسی شرارت کی تیاری، سب اسی ذہنی اپج کا نتیجہ تھے۔ لڑکپن میں اپنے فطری رجحان اور والد صاحب کی خواہش کے مطابق ایک پیر صاحب کی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور جو کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے ان کا احوال آپ گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ، سر سید احمد خان، قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے کٹر حامی تھے۔ اور اس سلسلے میں تحریک پاکستان میں فعال کردار بھی ادا کیا جس کی روداد بھی گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ اس دوران انگریز سرکار کے خلاف کچھ خفیہ کام بھی کیے جن کی تفصیلات اگرچہ راقم الحروف کے ذہن سے محو ہوگئی ہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ ایک مرتبہ ابا جان ایک خفیہ خط لے کر بس میں کہیں جارہے تھے ۔ راستے میں پولیس کا چھاپا پڑا اور ہر ہر مسافر سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ابا جان نے معصومیت کے ساتھ ٹھیٹھ پشتو میں جواباً کہا’’ زے استا مطلب نہ پوئے گم‘‘ یعنی کہ وہ نہیں سمجھ سکتے کہ کیا پوچھا جارہا ہے۔ ۔ پولیس والے نے انہیں بھی ایک پٹھان سمجھا اور پھر ان سے اور کچھ نہیں پوچھا اور آگے بڑھ گیا۔ اگر اس وقت اباجان کی تلاشی لی جاتی تو وہ خفیہ خط ان کی قمیص کی اندرونی جیب میں موجود تھا۔ اسی طرح ایک اور مرتبہ جب ابا جان مقامی لباس میں ایک قہوہ کانے میں اپنے ایک پٹھان دوست کے ساتھ قہوہ پی رہے تھے اور پشتو میں کسی بحث میں مصروف تھے کہ اچانک بقول اباجان گررر کی آواز کے ساتھ پولیٹیکل ایجنٹ اور پولیس کی جیپیں آکر قہوہ خانے کے سامنے رکیں سپاہی اترے، اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کا بغور جائزہ لیا لیکن کسی غیر مقامی فرد کو وہاں نہ پاکر وہ مایوس اور ناکام و نامراد واپس چلے گئے۔ بہر حال یہ وہ واقعات ہیں جن کی کوئی تفصیل فی الوقت ہمارے پاس نہیں۔ مولاناڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ سید احمد شہید کی تحریک المجاہدین کی باقیات سے بھی وابستہ رہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد جب اسے حکومت ِ پاکستان نے اپنی’ تحویل‘ میں لے لیا اور نہایت بے سر وسامانی کے عالم میں چلنے والی غریبوں کی اس تحریک کے اخلاف کو روزینہ ملنے لگا تو نہایت خاموشی کے ساتھ اس سے الگ ہوگئے ۔ نہ اظہار، نہ دعویٰ، نہ ملال، نہ استحقاق ، کچھ بھی نہیں۔ جب بھی بات نکلی تو اس بات پر افسوس کیا کہ غداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ان کی زبان سے یہ کبھی نہ سنا کہ ہم چناں تھے، ہم چنیں تھے، ہمارا یہ حق تھا، ہمیں کسی نے نہ پوچھا۔ ایسا کوئی جملہ کبھی سننے میں نہ آیا، کبھی نہیں۔ ایسی باتوں سے کوسوں نہیں برسوں دور تھے۔‘‘

( از روشن چہرے ، اجلے لوگ۔ مولانا آزاد از مولانا سید عزیز الرحمٰن۔ ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی۔ اپریل ۲۰۱۰)


اباجان اول و آخر ایک مسلم لیگی تھے۔ مسلم لیگ اور اس کے لیڈروں اور قیامِ پاکستان اور اس کی غرض و غائت سے متعلق ان کے جذبات و احساسات ان کے ایک مضمون سے واضح ہیں جو انہوں نے جسونت سنگھ کی کتابJINNAH: India – Partition_ Independence پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔

’’ آزاد بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے مشہور مورخ آر سی موجمدار کو آزادی ہند کی تاریخ لکھنے کا کام سونپا۔ موجمدار صاحب دوسال کے بعد کتاب مکمل کرکے لائے۔ مولانا نے اسے پڑھنے کے بعد حکومتِ ہند کی طرف سے شائع کرنے سے انکار کردیا۔ اور کہا کہ وہ ہسٹری آف فریڈم موومنٹ آف انڈیا کی بجائے ہسٹری آف فریڈم موومنٹ آف پاکستان لکھ کر لائے ہیں۔ آگے چل کر کلکتہ پبلشنگ ہاؤس نے چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب کو شائع کیا موجمدار صاحب نے ان چار جلدوں میں تاریخی مواد اور دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم دو الگ الگ قوموں کی حیثیت سے آباد ہیں۔ اور یہی نکتہ ۱۹۴۶ کے الیکشن کا ماحصل ہے، جس کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم ہوا۔


ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو ایک ہزار سال گزر گئے ۔ لیکن اس سارے ؑرصے میں ہر لحاظ سے مسلمان اور ہند عوام ایک دوسرے سے الگ رہے۔ مذہب میں، زبان میں، لباس میں، غذاؤں میں، عدم میل جول کے باعث یہ مل کر متحدہ قومیت کی شکل اختیار نہ کرسکے ۔ اس علیحدگی کی ابتداء ہندوؤں کی طرف سے ہوئی کہ ان کے پنڈتوں نے مسلمانوں کو بھی اچھوت اور ناپاک قرار دے دیا، جن کے چھولینے سے ان کی غذاء اور پانی ناپاک ہوجاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سے دونوں قومیں الگ الگ ہی رہ سکتی تھیں۔ صرف سیاست میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا عملی اتحاد ناممکن تھا ۔ کس طرح متحدہ جماعت بنتی۔ یہ علیحدگی کا اقدام ہندوؤں کی طرف سے ہوا اور آج تک جاری ہے۔ اس کے باوجود کانگریس کے نام سے ہندو مسلم متحدہ جماعت کا قیام مسلمانوں کے ساتھ ایک فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔یہ فریب مسلمانوں پر اس وقت ظاہر ہوا جب انگریزی حکومت نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کے دو صوبے بنائے۔ اس کے نتیجے میں مشرقی بنگال میں مسلم اکثریت ہوگئی۔ کانگریس نے اس کے خلاف مسلسل پانچ سال احتجاجی تحریک منظم کی تاآنکہ تقسیمِ بنگال منسوخ ہوئی۔


حال ہی میں بی جے پی کے لیڈر اور سابق ہندوستانی وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب منظرِ عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے تقسیمِ ہند اور قائدِ اعظم کے موضوع پر قلم اُٹھایا ہے۔ جسونت سنگھ جی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ انگریز کی سازش تھی کہ الگ صوبے کی وجہ سے علیحدہ مسلم قومیت پیدا ہوگی، لیکن دوسری طرف مسلمانوں نے اس کو کانگریس کی مسلم دشمنی قرار دیا ۔ اس طرح ہندو مسلم اختلاف یہاں بھی باقی رہا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تقسیم بنگال کی تنسیخ کرواکر کانگریس نے تقسیمِ ملک کے لیے راہ ہموار کی۔


ہندو مسلم تعلقات کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے سلسلے مین پروفیسر عزیز احمد رقم طراز ہیں: ’ہندوؤں کے مسلمانوں کے ساتھ تنفر کا اظہار ان کی ابتدائی تحریروں سے ہوتا ہے۔ البیرونی بھی، جس کا نقطہ نظر ہندو تہذیب کی جانب فی الواقع معقول اور مفاہمانہ تھا، اس بات کا شاکی ہے کہ ان کی عصبیت اور تشدد کا پورا رخ ان لوگوں کی طرف رہتا ہے جو ان کے نہیں ہوتے، غیر ملکی ہوتے ہیں۔ وہ انہیں ملیچھ، ناپاک سمجھتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ کسی نوع کے تعلق سے منع کرتے ہیں۔ خوا وہ باہمی مناکحت ہو ، یا کسی قسم کا ربط ضبط، مثلاً ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، خورد و نوش وغیرہ۔ کیوں کہ ان کے خیال میں وہ اس طرح ناپاک ہوجاتے ہیں۔


اس قسم کے ماحول میں جہاں دو تہذیبیں ایک دوسرے سے اتنی الگ ہوں، اور ایک ساتھ رہ رہی ہوں، کسی قسم کی متحدہ سیاسی جماعت کا خیال محض نادانی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ جب بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اس کے باوجود ان کو صوبائی حکومت کا حق نہ دینا ایک قسم کا سیاسی ظلم تھا اور کانگریس کی مسلم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہندو ذہنیت کی مسلم دشمنی کا اظہار چودھویں صدی میں دکن اور بنگال میں ہندوؤں میں پیدا ہونے والی بھگتی تحریک سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ کرشن بھگتی یارام بھگتی کے نام سے جلوس نکالتے ، گاتے بجاتے، سارا مجمع شہری آبادی سے گزرتا ، مرشد آباد کے قاضی نے اس جلوس پر پابندی لگائی تو جلوس نے قاضی کی عدالت کو آگ لگادی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندو قوم نے مسلم حکام کے خلاف مذہبی بنیاد پر اتحاد پیدا کیا۔ جس طرح مسلمانوں میں حضرت مجدد الفِ ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ اور سید احمد بریلوی جیسے بزرگوں نے مسلمانوں کی رہبری کی اسی طرح یہکام چودھویں صدی سے ہندوؤں میں چانکیہ اور رامانج جیسے بھگتی تحریک کے بزرگوں نے ہندو ؤں کے لیے کیا۔ یہاں تک کہ سترہ سو عیسوی میں یہ رہنمائی سیواجی اور رام داس بوا اور سنت تکا رام جیسے ہندوؤں نے کی۔ مسلمان اسلام پر متحد ہوئے اور ہندو اپنے دھرم پر آل انڈیا کانگریس کے نام سے متحد ہوئے۔


بہر حال یہ حقیقت ہے کہ تقسیمِ ہند ہندو کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو حقوق نہ دینے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ورنہ قائد اعظم کے چودہ نکات تو متحدہ ہندوستان کے لیے تھے۔ جب ہندوؤں نے مسلمانوں کے حقوق تسلیم نہ کیے تو قائد اعظم نے مجبور ہوکر علیحدہ پاکستان کی بات کی۔‘‘

(جسونت سنگھ کے الزامات یا اعترافات از محمد اسماعیل آزاد ، ماہنامہ تعمیرِ افکار، اکتوبر ۲۰۰۹)


ادھر ان ہی دنوں جب اباجان اپنے بیوی بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کی تلاش میں کراچی کی سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے تھے، بعض دوسرے حضرات کی طرح اباجان کو بھی مذہب تبدیل کرلینے کی انتہائی حسین ودلفریب پیش کش بھی کی گئی۔ یعنی بقول شاعر

جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے​


لیکن اباجان نے بصد شکریہ اس پیش کش کو بھی ایک اندازِ بے اعتنائی کے ساتھ ٹھکرادیا۔ ہر داغ تھا اس دل پہ بجز داغِ ندامت۔ انہوں نے اتنی عمر اس دشت کی سیاحی میں اس لیے نہیں گزاری تھی کہ دنیوی فائدہ لوٹ کر بیٹھ جائیں۔ اور باقی ماندہ زندگی عیش کریں۔وہ تو اللہ سے بھلائی چاہنے والے فقیر تھے۔



انسانوں کا طریق رہا ہے کہ جہاں سے ان کی روزی روٹی کا سلسلہ بندھتا ہے، وہاں سے ان کا تعلق کچھ اسی قدر ہی ہوتا ہے۔ وہ اسے اپنی زندگی کا نصب العین نہیں بنالیتے۔ ادھر اباجان کا رویہ کچھ اس کے برعکس تھا۔ انہوں نے نابینا افراد کے اداروں کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی ایک تحریک سے تعلق سمجھا اور اسے اسی انداز میں نبھایا۔ اس سلسلے مین ان کا تحقیقی مقالہ ’’اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ ہو یا ان کا لکھا ہوا ’’معیاری اردو بریل کا قاعدہ‘‘ یا پھر ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور عظیم کام بریل قرآن شریف کی طباعت ، سب اسی تحریکی ذہن کے ساتھ، ایک خاص لگاؤ اور DEDICATION کے ساتھ سر انجام دئیے ہوئے کارہائے نمایاں ہیں۔


ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے میں گو فوج اور مارشل لا ء کے خلاف رہے اور الیکشن میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حامی رہے، لیکن عملی طور پر اس تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ البتہ جب ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی تو اباجان نے بھی دوستوں کے ساتھ مل کر تحریک احیائے نظریہء پاکستان کی بنیاد دالی۔ اور اس سلسلے مین نظریاتی گتھیوں کو سلجھانے کی سعی کی۔ اس تحریک کے اجلاس جو ہمارے گھر پر بھی منعقدہوتے، ہم بچوں کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہوا کرتے ، جس کی بحثیں ، جو ہماری سمجھ میں تو نہ آتیں، لیکن گرما گرم بحثیں اور اصحابِ اجلاس کے اندازِ گفتگو ہمیں بہت بھاتے۔ اس تحریک میں اباجان کے دوست غلام محمد بٹ مدیر ماہنامہ ادب بھی شامل تھے۔

بٹ صاحب جوبلی سنیما کے قریب ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اور اباجان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ ان کا مائل بہ فربہی جسم ،اور گول مٹول چہرہ اب بھی راقم الحروف کی نظروں میں گھومتا ہے۔ اکثر قمیص اور تہہ بند میں ملبوس نظر آتے اور بحثوں میں اپنے ٹھیٹھ پنجابی لہجے اور جذباتی انداز میں بات کرتے تو سننے والے کو مزہ آجاتا۔


ماہنامہ ادب ایک اعلیٰ پائے کا ادبی رسالہ تھا جو غلام محمد بٹ صاحب ( شاگرد رشید جناب انور شاہ کشمیری) کی زیرِ ادارت کراچی سے نکلا کرتا تھا۔ اس زمانے کے ادبی رسالوں میں ادب، ادبِ لطیف، نیا دور، ماہ نو، نقوش، سیپ اور نصرت وغیرہ شامل تھے۔ اسی دوران اباجان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات اور حنیف رامے کے رسالے ماہنامہ نصرت میں اسلامی مساوات کے موضوع پر لکھنا شروع کیا۔ اسلامی مساوات کے حق میں اور سرمایہ داری کے خلاف اسلامی تصور سے متعلق کئی مضامین ان رسالوں کی زینت بنے۔ اور آج بھی اباجان کی گہری اور اجتہاد اور تحقیق پسندانہ سوچ کے آئینہ دار ہیں۔ اسی حوالے سے اباجان کی ملاقات مولانا کوثر نیازی، صاحب سے بھی رہی۔ دیگر لوگوں میں کاص طور پر این ڈی خانسے بھی ملاقات رہی۔ اباجان ایک دو مرتبہ کراچی میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے بھی ملنے گئے۔ اس تحریک میں اباجان کی شمولیت صرف بعض نظریات کی حد تک رہی۔ ویسے بھٹو ساحب کو بے حد پسند کرتے تھےاور ان کی بعض پالیسیوں سے مکمل اتفاق کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو ضیاء الحق کے بے حد خلاف ہوگئے۔

ضیاء الحق نے ۱۹۸۵ میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو اباجان بھی عملی طور پر میدان میں آگئے۔ تمام دوستوں کے مشورے سے شاہ بلیغ الدین صاحب کو قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کھڑا کیا گیا۔ اور ان کے قریبی دوست ہونے کے ناطے اباجان نے بھی ان کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور سیاسی انداز میں انتخابی مہم کے ہر قسم کے سرد و گرم حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر اپنے امیدوار کو جتوا کر ہی دم لیا۔


الیکشن میں شاہ صاحب اس حلقے سے کھڑے کیے گئے تھے جو ایک اسلامی سیاسی جماعت کا خاص حلقہ تھا۔ اور اس حلقے میں انہیں للکارنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ اباجان اور ان جیسے دیگر بے خوف کارکنان نے اس مہم کو بخوبہ نبھایا ۔ مہم کے دوران ایک مرتبہ یہ شکایت سامنے آئی کہ شاہ بیلغ الدین صاحب کے تمام بینر کسی نے کاٹ کر پھینک دئیے ہیں۔ کٹے ہوئے بینر بھی مفقود الخبر تھے۔ خیر صاحب اباجان اور ان کے دوستوں نے اپنے ذرائع سے تحقیقات کروائیں تو پتہ چلا کہ یہ کام خفیہ طور پر اسی جماعت نے کروایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایک سوزوکی جس میں ڈنڈوں پر درانتی لگائے ہوئے دو غنڈے کھڑے تھے، ساری رات علاقے کی گلیوں میں پھرتی رہی تھی۔ جس گلی سے وہ سوزوکی گزر جاتی اس گلی کے بینر کٹ کر اسی سوزوکی میں آگرتے۔ صبح تک ہر گلی سے شاہ بلیغ الدین صاحب کے بینر اتار لیے گئے تھے۔ اور اس طرح ان کا مشن مکمل ہوچکا تھا۔ اور علاقے مین ہر طرف اس جماعت کے ہی بینر نظر آرہے تھے۔ پھر کیا تھا ، اباجان نے بعض دوستوں کی مجلسِ شوریی کا اجلاس بلوایااور باہم مشورے سے ان میں سے ایک گروہ کو اس کام پر لگادیا کہ راتوں رات اس جماعت کے بھی تمام بینر اتار دئیے جائیں۔ چنانچہ یہی ہوا اور اگلے روزصبح ہونے سے پہلے پہلے اس جماعت کے تمام بینر غائب کردئیے گئے۔


صبح ہوئی اور اس تبدیل شدہ صورت حال سامنے آئی تو اس جماعت کے افراد ایک وفد کی شکل میں شاہ صاحب کے انتخابی دفتر پہنچے اور شکایت کا دفتر کھولا ہی تھا کہ اباجان کی باتیں سننی پڑگئیں۔ اباجان نے لگی لپٹی رکھے بغیر انہیں کھری کھری اور بے نقط سنائیں۔ اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر انہین انتخابات کے لیے صاف ستھرا ماحول چاہیے تو انہیں بھی اسی CODE OF CONDUCT پر عمل کرنا ہوگا۔ ویسے اگر وہ FOUL PLAY چاہتے ہیں تو اباجان اور ان کے ساتھی اس قسم کی صورتِ حال کے لیے بھی تیار ہیں۔ مخالفوں کو اپنے کیے کی سزا مل چکی تھی ، لہٰذا انہوں نے اسی کو غنیمت جانا کہ امن کا سمجھوتا کرلیا جائے اور باقی مدت کسی قسم کا جھگٹڑا نہ ہو۔ یہی ہوا اور سیاسی مخالفین پر شاہ صاحب کے گروپ کی دھاک بیٹھ گئی۔ ۔ نتیجتاً انتخابات کے روز تک کسی قسم کے ناخوش گوار واقعے کی اطلاع نہین آئی اور اور شاہ بلیغ الدین صاحب اس حلقے سے بھاری تعداد میں ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ الیکشن کے بعد بھی اباجان نے شاہ صاحب کو ہر قسم کے مفید مشوروں سے نوازا اور ان کے ساتھ دوستی نبھائی۔ اسمبلی مین مختلف موقعوں پر تقریر کی تیاری کے لیے بھی شاہ صاحب اپنے دوستوں سے رجوع کرتے اوراباجان سمیت تمام دوستوں کے مشورے سے ہی اپنے لیے ایک لائحہء عمل ترتیب دیتے۔


اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال گزر گئے ، غیر جماعتی اسمبلی کا راج ختم ہوا اور لوگ اگلے انتخابات کے لیے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب دیکھنے لگے۔ اور سیاست میں تشدد کا عنصر در آیا تو اباجان شاہ بلیغ الدین صاحب اور اپنے دیگر دوستوں کے ہمراہ عملی سیاست سے دست بردار ہوگئے۔
 
باب آخری: فسانہء آزاد
مریضِ محبت


بیماری اور اباجان کا چولی دامن کا ساتھ تھا لیکن انہوں نے کبھی بیماری کو اپنے اوپر ھاوی نہیں ہونے دیا ۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے انہوں نے پہلی مرتبہ جیل پہنچنے کا واقعہ سنایا تو یہ بات خاص طور پرذکر کی تھی کہ ان سے باقی تمام سہولتیں چھینتے وقت ، ان کی کمر کے گرد کسی ہوئی وہ چمڑے کی بیلٹ بھی اُتروالی گئی جو وہ گردوں کے درد سے بچاؤ کے لیے پہنا کرتے تھے۔ یہ واقعہ ان کی جوانی کا ہے ۔ اس وقت کس نے ان کے مرض کی تشخیص کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ انہیں گردوں کی تکلیف ہے، یہ واضح نہیں۔ میرا اپنا گمان یہ ہے کہ یہ خود ان کی اپنی تشخیص تھی اور وہ پہلو کے اس درد کو کم کرنے کی خاطر وہ یہ بیلٹ باندھا کرتے تھے ۔ بہت بعد میں، جب میں انہیں لے کر ایس آئی یو ٹی ، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ہاں گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ انہیں مثانے کا کینسر ہے۔ یہ بات ۸۰ کی دہائی کی ہے۔


اپنے کالج کے زمانے میں راقم الحروف نے اباجان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تکلیف کا باقاعدہ علاج کروائیں ، لہٰذا طے ہوا کہ انہیں ایس آئی یو ٹی لے جاکر دکھایا جائے۔ ان ہی دنوں میرا ایک کلاس فیلو ڈاؤ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہتا تھا، اس سے تذکرہ کیا تو اس نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی اور اپنے روم میٹ سے سفید گاؤن ادھار لے کر پہن لیا اور ایک اسٹیتھو اسکوپ بھی ہاتھ میں پکڑ لیا، اس طرح ہم ایک جعلی نوجوان ڈاکٹر کی معیت میں ۱۴ نمبر کی او پی ڈی پہنچے اور اپنی باری آنے پر اباجان کو دکھایا۔ اس کے بعد اباجان کے چکر لگتے رہے ۔ ۱۹۸۳ میں میں کراچی سے باہر چلا گیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ اباجان کو ایس آئی یوٹی کی جانب سے جناح ہسپتال بھیجا گیا جہاں پر اباجان کو ریڈیائی شعائیں بھی دی گئیں۔ ۱۹۹۰ میں کراچی آکر مین نے پھر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی اور اباجان کو لے کر ایس آئی یو ٹی کے چکر لگانے شروع کردئیتے۔ اسی اثناء میں سالے صاحب ڈاکٹر یعقوب نے اباجان کی فائل دیکھی اور ہمیں اطلاع دی کہ اباجان کو مثانے کا کینسر ہے۔ کینسر کی گلٹی مثانے کے اندر اور باہر دونوں جانب تھی۔ باہر کی گلٹی کو چھیڑا نہ جاسکتا تھا، البتہ مثانے کے اندر کے اضافے کو ہر سال انڈو اسکوپی کے ذریعے کھرچ دیا جاتا تھا۔ یہ سلسہ اسی طرح چلتا رہا اور اباجان کی یہ بیماری اسی طرح قابو مین رہی۔


اباجان اور یہ موذی مرض ، دونوں مدتوں آپس میں دست و گریباں رہےاور میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آخر میں فتح اباجان ہی کی ہوئی اور جس مرض الموت میں مبتلا ہوکر وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے وہ کینسر نہیں بلکہ دل کا عارضہ تھا۔ بہر حال کینسر ہو یا عارضہِ قلب، دونوں ان کے نزدیک محبت کے مرض تھے اور بقول شاعر:

مریضِ محبت انہی کا فسانہ
سناتا رہا دم نکلتے نکلتے​

اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت ان کے دل و دماغ میں اور رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی۔ یہ بیماری بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک آزمائش تھی، جسے انہوں نے ہنس کھیل کر ، خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔کبھی اس تکلیف کی شکایت نہیں کی۔ کینسر ہویا سردرد، کسی بھی بیماری کی کبھی کسی سے شکایت نہ کی اور نہ کبھی گھبرائے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ نے پیروں میں درد کی شکایت کی اور بتایا کہ کوئی دوا کارگر نہیں ہورہی ہے، تو ان پر برس پڑے کہ’’ بڑے میاں ! کیا اللہ تعالیٰ صرف تمہارے لیے اپنے قانون کو توڑے گا؟ وقت کے ساتھ ساتھ قویٰ مضمحل ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھاپا اور یہ تکلیفیں فطری عمل ہیں۔ ‘‘


یہی کیفیت اپنی بیماری کے دوران بھی رہتی۔ صرف اتنا کرتے کہ اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب کے پاس دوڑے دوڑے جاتے ، ان کی دی ہوئی دوا کھاتے اور ان ہی کے بتائے ہوئے پرہیز پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہتے۔ تقریباً دوسال پہلے ڈاکٹروں نے انڈوسکوپی سے پہلے فٹنس ٹسٹ تجویز کیا اور اس سلسلے میں دل کا ای سی جی اور ایکو ٹسٹ لیا گیا تو پتا چلا کہ اباجن کو پہلے ہی دل کا ایک دورہ پڑچکا ہے۔ اباجان سے پوچھا گیا تو انہیں اس بارے میں کوئی علم نہین تھا ۔ یہ بات جہاں ہمارے لیے حیران کن تھی، وہیں خود اُن کے لیے بھی نئی تھی۔ یعنی دل کا دورہ بھی ہنس کھیل کر برداشت کیا تھا جیسے کوئی پھانس چبھ گئی ہو۔ خیر صاحب، پھر اس کے بعد سے کوئی انڈواسکوپی مکمل بے ہوشی کی حالے میں نہیں ہوئی۔ جسم کا کچھ حصہ مقامی طور پر بے حس کردیا جاتا اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔


پچھلے سال ہم گھر والوں پر اور خاص طور پر اباجان پر قیامت گزر گئی۔ بڑے بھائی امین الرحمٰن جو اباجان کے دوسرے نمبر کے بیٹے تھے اور ہم بھائیوں میں عادت و اخلاق اور کردار کے اعتبار سے سب سے افضل اور بہتر تھے اور ہنس مکھ، چاق و چوبند اور شرارتی ہونے کے ناطے سب بچوں اور بڑوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور یکساں مقبول تھے، اچانک ایک مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔


ہوا یوں کہ ایک دن صبح راقم الحروف کو آلکسی نے آگھیرا تو بندہ وقت پر دفتر روانہ نہ ہوسکا۔ ابھی چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارا ہی تھا اور چاہتا تھا دفتر روانگی ڈالی جائے، اتنے میں بھابی کا ٹیلیفون آگیا۔ خلیل بھائی امین صبح فجر کے وقت سے بے چین ہیں اور انہیں کسی کل چین نہیں آرہا ہے۔


میں نے بھائی کے گھر پہنچ کر صورتِ حال کا ادراک کیا تو اندازہ ہوا کہ سینے کی جلن جو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھی ہوئی ہے ، اس بات کی متقاضی ہے کہ فوراً امراضِ قلبکے ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔ انہیں لے کر امراضِ قلب کے قومی ادارے پہنچا ۔ مجھے یقین تھا کہ ابتدائی معائنے کے بعد بھائی کی طبیعت کو بد ہضمی کا شاخسانہ قرار دے کر ہمیں گھر بھیج دیا جائے گا۔لیکن راقم الحروف کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور داکٹروں نے فوراً انجیو گرافی کرنے کا کہا۔ انجیو گرافی ہوئی تو فوری طور پر دل کا آپپریشن تجویز ہوا۔


اگلے روز بھائی آپریشن ٹیبل پر جانبر نہ ہوسکے اور ان کا بے جان لاشہ ہمارے حوالے کردیا گیا۔ اباجان کو بھائی کی ناگہانی موت کی اطلاع دینے کی ذمہ داری مجھ بدنصیب کے حوالے ہوئی تو میں نے ٹیلیفون پر انہیں اس قیامت خیز سانحے سے آگاہ کیا ۔ پہلے تو وہ ایک لمحے خاموش ہوگئے۔ میں نے ہیلو کہا تو اللہ جانے کیا سوچ کر باتیں شروع کیں اور بھائی کی تدفین سے متعلق ہدایات دینے لگے۔


اس دن سب روئے لیکن اباجان جس صبر اور حوصلے کے ساتھ پرسہ دینے والوں سے ملے اس کی سوچ آج بھی میرا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ نہ روئے ، نہ چیخے، نہ کسی سے گلہ کیا، دل ہی دل میں بہت چیخ چیخ کر روتے ہوں گے، لیکن بظاہر خاموش تھے۔ بہت بڑا سانحہ تھا جو ہم سب پر گزر گیا۔ ہم سب دم بخود تھے کہ آن کی آن میں یہ کیا ہوگیا۔ لیکن اباجان کی شکل دیکھ کر تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ اللہ اللہ کیا دن تھے جو گزر گئے۔ رفتہ رفتہ وقت نے ہمارے ان زخموں پر مرہم رکھدیا اور ہم نارمل ہوگئے۔ لیکن اباجان اس نقصان کو برداشت نہ کرسکے اور اندر ہی اندر گھلنے لگے۔ ایک دن سیڑھیوں سے گرے تو ٹانگ پر چوٹ لگی اور آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے۔ چلتے تو تھے لیکن رُک رُک کر اور تکلیف کے ساتھ۔ تکلیف چہرے سے ظاہر ہوتی لیکن زبان تک کبھی نہ آئی ۔اٹھتے ، بیٹھتے یا لیٹتے وقت تکلیف کا اظہار صرف دو لفظ ہوتے، ’’ اللہ رے!‘‘ اور بس۔


اسی اثناء میں ہم بھائیوں نے اباجان کے مشورے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ امین بھائی کے بیٹے شہریار عرف شیری کی شادی بالکل اسی طرح انہی تاریخوں میں اور اسی انتظام کے ساتھ کی جائے جس کا اہتمام امین بھائی اپنی زندگی ہی میں کرچکے تھے۔ کارڈ بانٹنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو جہاں سب نے اپنے حصے کے کارڈ سنبھالے وہیں اباجان نے بھی اپنے دوستوں کو کارڈ تقسیم کرنے کا کام خود اپنے ذمے لے لیا۔ مجھے ہمیشہ یاد رہے کہ کس طرح میں اباجان کو لے کر ان کے دوستوں کے پاس پہنچا اور اور کس صبر اور حوصلے کے ساتھاباجان نے اپنے کارڈ تقسیم کیے۔ ہاں البتہ جب حکیم ایس ایم اقبال صاحب کے مطب پہنچے اور حکیم صاحب انہیں دیکھ کر اپنی کرسی سے اُٹھے اور مطب کے دروازے پر آکر استقبال کیا تو اباجان کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ سے گئے اور وہ یکبارگی رو پڑے اور حکیم صاحب سے کہنے لگے۔’’ امین الرحمٰن ہی چلا گیا۔ اب کیا کرنا ہے؟‘‘

یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے اباجان کو روتے ہوئے دیکھا۔ فوراً ہی حکیم صاحب نے مصافحہ، معانقہ وغیرہ کیا تو اباجان سنبھل گئے اور اپنے آپ کو قابو میں کرلیا۔ حکیم صاحب نے اباجان کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کی ، ایک معجون اور شہد کی ایک شیشی اباجان کے لیے مجھے پکڑائی اور اس طرح ہم ان سے پانچ سات منٹ کی ملاقات کے بعد رخصت ہوئے۔


انہی دنوں ایس آئی یو ٹٰ کے چکر لگنے شروع ہوئے۔ نئے سرے سے ٹسٹ تجویز ہوئے اور ان ٹسٹوں کے لیے ہر دوسے تیسرے روز ہسپتال جانا پڑا ۔ کئی مرتبہ اس ترتیب میں خلل پڑا، وجہ کبھی میری آفس کی مصروفیات ہوتیں اور کبھی اباجان کی طبیعت۔ بہر حال ابتدائی ٹسٹ مکمل ہوئے لیکن میرا سنگاپور کا سفر اور چھوٹے بھائی کا ساؤتھ افریقہ کا سفر آڑے آیا اور اباجان نے طے کیا کہ ہماری واپسی تک اینڈواسکوپی کو موخر کردیا جائے۔ میں سفر کی تیاری مین مصروف ہوگیا۔

ہفتہ ۹ جنوری کو شام کے وقت میں ٹیکسی لے کر ائر پورٹ کیطرف روانہ ہوا ۔ راستے میں چھوٹی بھابی ( مرحوم امین الرحمٰن بھائی کی زوجہ) محترمہ) کا ٹیلیفون آگیا اور پتہ چلا کہ بڑے بھائی اباجان کو لے کر ہسپتال روانہ ہوئے ہیں۔ کافی دیر تک کوشش کرنے کے بعد ہی بڑے بھائی سے رابطہ قائم ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ داکٹر معائنہ کررہے ہیں ویسے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ سامان جمع اور بورڈنگ پاس لینے تک ابھی کچھ دیر ہے۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہے تو وہ فوراً بتائیں تاکہ میں اپنا پروگرام کینسل کرسکوں۔


کچھ دیر بعد بھائی سے پھر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اباجان خیریت سے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ ’’ خلیل سے کہو کہ وہ اپنے سفر پر روانہ ہوجائے اور فکر نہ کرے۔ سب ٹھیک ہے‘‘۔

یہ سنا تو میری جان میں جان آئی۔ اور میں اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ اسی دن چھوٹے بھائی کا بھی ساؤتھ افیقہ جانے کا پروگرام تھا ، لہٰذا اسے بھی اباجان کی طبیعت کا علم نہ ہوسکا۔

بعد میں پتہ چلا کہ ابناجان نے سب گھر والوں کو سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو ان کی طنیعت سے متعلق کچھ نہ بتایا جائے۔ چھوٹی بھابی تک یہ بات نہ پہنچ سکی تھی لہٰذا انہوں نے پریشانی میں مجھے فون کردیا۔ واپسی پر پتہ چلا کہ اباجان ایک ہفتہ ہسپتال میں رہ کر آئے ہیں۔ اس دوران ان کی کیفیت کا پتہ چلا نے کے لیے ایک خاص ٹسٹ کروایا گیا تو تصدیق ہوئی کہ پھر دل کا دورہ پڑا تھا۔ یہ دوسرا دورہ تھا جسے چپ چپاتے برداشت کرگئے۔ اس کے بعد بہت زیادہ کمزور ہوگئے اور زیادہ وقت گھر پرصرف آرام میں گزرنے لگا۔ اس دوران ان کا محبوب مشغلہ یعنی مطالعہ بھی چھوٹ گیا۔ کبھی کبھی ہم لوگوں سے کچھ مختصر سی بات کرلیا کرتے اور بس۔ اس دوران اپنے دوستوں مولانا عزیز الرحمٰن صاحب اور مولانا طاہر مکی صاحب کے فون ملواتے اور ان سے مختصر بات کرلیا کرتے۔


یہی وہ وقت تھا جب اباجان نے کھانا پینا چھوڑدیا ۔ ایک دن اپنی بڑی بہو سے کہنے لگے،’’ بہو رانی! لگتا ہے اب میرا آکری وقت قریب آگیا ہے۔‘‘ پوچھا ، ’’کیوں؟‘‘۔

تو بتایا، ’’ اب کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا۔ اب لگتا ہے کہ بڑے میاں نے مجھے بلانے کا پروگرام بنالیا ہے۔‘‘ اسی طرح میری بیگم سے کہنے لگے، ’’ ارے بیٹے، ان بڑے میاں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، کب بلالیں۔ بس اب چل چلاؤ ہپی ہے۔‘‘

اسی دوران ان کے بتائے ہوئے ایک نکتے پر ایک مضمون لکھا اور انہیں جاکر سنایا تو بہت خوش ہوئے۔ اور دوستوں کو فون کرکے اس کے متعلق بتایا۔ فروری کتے پہلے ہفتے مین پھر پھر طبیعت خراب ہوئی تو ایک ہفتہ مزید ہسپتال مین رہے۔ اسی دوران راقم کو بھی تیمارداری میں اپنا حصہ بٹانے کا موقع ملا۔ اس مرتبہ پھر وہی عجیب و غریب واقعہ دہرایا گیا۔ خاص ٹسٹ (TROPI) نے ظاہر کیا کہ دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ اب تو دل اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ خدا کی پناہ۔

ہسپتال سے واپسی پر خاکسار نے کئی مرتبہ درخواست کی کہ کسی ماہر قلب کو دکھالیں مگر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بات آڑے آجاتی۔ کبھی اباجان کی طبیعت، کبھی ان کا موڈ اور کبھی کچھ اور۔ بہر حال ہم صرف اباجان کی فائل لیجا کر عباسی شہید ہسپتال کے شعبہء دل کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرشید صاحب کو دکھاسکے ۔ داکٹر صاحب نے اباجان کی فائل دیکھی تو کہا۔

’’خلیل ! میں نے ان کی فائل دیکھ لی۔ اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے عرض کی’’ اب آپ اباجان کو اپنے زیرِ علاج لئ لیجیے اور ان کی دیکھ بھال شروع کردیں‘‘۔

کہنے لگےِ’’ ان کا دل اب بہت زیادہ کمزور ہوگیا ہے۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس بارے میں کوئی انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ جب تک حضرت کی زندگی ہے، کوئی بیماری بھی ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتی۔البتہ ہم دواؤں کے ذریعے ان کی زندگی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں، جو ہمارا فرض ہے۔‘‘

بات معقول تھی، اور ہم چاتے تھے کہ ان کا علاج شروع کروادیا جائے۔ لیکن اللہ کی مشیت دیکھیے کہ اس کی بھی نوبت نہ آسکی اور اگلے ہی ہفتے ، بروز اتوار ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو راقم گہری نیند مین تھا کہ ٹیلیفون کی مسلسل گھنٹیوں نے یہ سلسہ توڑدای ۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ بات شروع کی ۔ چھوٹے بھائی نے بتایا کہ اباجان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ، لہٰذا انہیں لے کر ہسپتال جارہے ہیں۔ ہسپتال پہنچا تو اباجان اپنی جان جان جانِ آفریں کے سپرد کرچکے تھے۔ انا للہِ و اناالیہِ راجعون۔ ایک دور کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ اور میں ہوا مین معلق ہوگیا ہوں۔ یہی کیفیت آج تک ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کیفیت کو کیا نام دوں؟

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ٌٌٌٌتمت بالخیرٌٌٌٌ​
 

loneliness4ever

محفلین
باب آخری: فسانہء آزاد
مریضِ محبت


بیماری اور اباجان کا چولی دامن کا ساتھ تھا لیکن انہوں نے کبھی بیماری کو اپنے اوپر ھاوی نہیں ہونے دیا ۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے انہوں نے پہلی مرتبہ جیل پہنچنے کا واقعہ سنایا تو یہ بات خاص طور پرذکر کی تھی کہ ان سے باقی تمام سہولتیں چھینتے وقت ، ان کی کمر کے گرد کسی ہوئی وہ چمڑے کی بیلٹ بھی اُتروالی گئی جو وہ گردوں کے درد سے بچاؤ کے لیے پہنا کرتے تھے۔ یہ واقعہ ان کی جوانی کا ہے ۔ اس وقت کس نے ان کے مرض کی تشخیص کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ انہیں گردوں کی تکلیف ہے، یہ واضح نہیں۔ میرا اپنا گمان یہ ہے کہ یہ خود ان کی اپنی تشخیص تھی اور وہ پہلو کے اس درد کو کم کرنے کی خاطر وہ یہ بیلٹ باندھا کرتے تھے ۔ بہت بعد میں، جب میں انہیں لے کر ایس آئی یو ٹی ، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ہاں گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ انہیں مثانے کا کینسر ہے۔ یہ بات ۸۰ کی دہائی کی ہے۔


اپنے کالج کے زمانے میں راقم الحروف نے اباجان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تکلیف کا باقاعدہ علاج کروائیں ، لہٰذا طے ہوا کہ انہیں ایس آئی یو ٹی لے جاکر دکھایا جائے۔ ان ہی دنوں میرا ایک کلاس فیلو ڈاؤ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہتا تھا، اس سے تذکرہ کیا تو اس نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی اور اپنے روم میٹ سے سفید گاؤن ادھار لے کر پہن لیا اور ایک اسٹیتھو اسکوپ بھی ہاتھ میں پکڑ لیا، اس طرح ہم ایک جعلی نوجوان ڈاکٹر کی معیت میں ۱۴ نمبر کی او پی ڈی پہنچے اور اپنی باری آنے پر اباجان کو دکھایا۔ اس کے بعد اباجان کے چکر لگتے رہے ۔ ۱۹۸۳ میں میں کراچی سے باہر چلا گیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ اباجان کو ایس آئی یوٹی کی جانب سے جناح ہسپتال بھیجا گیا جہاں پر اباجان کو ریڈیائی شعائیں بھی دی گئیں۔ ۱۹۹۰ میں کراچی آکر مین نے پھر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی اور اباجان کو لے کر ایس آئی یو ٹی کے چکر لگانے شروع کردئیتے۔ اسی اثناء میں سالے صاحب ڈاکٹر یعقوب نے اباجان کی فائل دیکھی اور ہمیں اطلاع دی کہ اباجان کو مثانے کا کینسر ہے۔ کینسر کی گلٹی مثانے کے اندر اور باہر دونوں جانب تھی۔ باہر کی گلٹی کو چھیڑا نہ جاسکتا تھا، البتہ مثانے کے اندر کے اضافے کو ہر سال انڈو اسکوپی کے ذریعے کھرچ دیا جاتا تھا۔ یہ سلسہ اسی طرح چلتا رہا اور اباجان کی یہ بیماری اسی طرح قابو مین رہی۔


اباجان اور یہ موذی مرض ، دونوں مدتوں آپس میں دست و گریباں رہےاور میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آخر میں فتح اباجان ہی کی ہوئی اور جس مرض الموت میں مبتلا ہوکر وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے وہ کینسر نہیں بلکہ دل کا عارضہ تھا۔ بہر حال کینسر ہو یا عارضہِ قلب، دونوں ان کے نزدیک محبت کے مرض تھے اور بقول شاعر:

مریضِ محبت انہی کا فسانہ
سناتا رہا دم نکلتے نکلتے​

اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت ان کے دل و دماغ میں اور رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی۔ یہ بیماری بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک آزمائش تھی، جسے انہوں نے ہنس کھیل کر ، خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔کبھی اس تکلیف کی شکایت نہیں کی۔ کینسر ہویا سردرد، کسی بھی بیماری کی کبھی کسی سے شکایت نہ کی اور نہ کبھی گھبرائے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ نے پیروں میں درد کی شکایت کی اور بتایا کہ کوئی دوا کارگر نہیں ہورہی ہے، تو ان پر برس پڑے کہ’’ بڑے میاں ! کیا اللہ تعالیٰ صرف تمہارے لیے اپنے قانون کو توڑے گا؟ وقت کے ساتھ ساتھ قویٰ مضمحل ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھاپا اور یہ تکلیفیں فطری عمل ہیں۔ ‘‘


یہی کیفیت اپنی بیماری کے دوران بھی رہتی۔ صرف اتنا کرتے کہ اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب کے پاس دوڑے دوڑے جاتے ، ان کی دی ہوئی دوا کھاتے اور ان ہی کے بتائے ہوئے پرہیز پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہتے۔ تقریباً دوسال پہلے ڈاکٹروں نے انڈوسکوپی سے پہلے فٹنس ٹسٹ تجویز کیا اور اس سلسلے میں دل کا ای سی جی اور ایکو ٹسٹ لیا گیا تو پتا چلا کہ اباجن کو پہلے ہی دل کا ایک دورہ پڑچکا ہے۔ اباجان سے پوچھا گیا تو انہیں اس بارے میں کوئی علم نہین تھا ۔ یہ بات جہاں ہمارے لیے حیران کن تھی، وہیں خود اُن کے لیے بھی نئی تھی۔ یعنی دل کا دورہ بھی ہنس کھیل کر برداشت کیا تھا جیسے کوئی پھانس چبھ گئی ہو۔ خیر صاحب، پھر اس کے بعد سے کوئی انڈواسکوپی مکمل بے ہوشی کی حالے میں نہیں ہوئی۔ جسم کا کچھ حصہ مقامی طور پر بے حس کردیا جاتا اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔


پچھلے سال ہم گھر والوں پر اور خاص طور پر اباجان پر قیامت گزر گئی۔ بڑے بھائی امین الرحمٰن جو اباجان کے دوسرے نمبر کے بیٹے تھے اور ہم بھائیوں میں عادت و اخلاق اور کردار کے اعتبار سے سب سے افضل اور بہتر تھے اور ہنس مکھ، چاق و چوبند اور شرارتی ہونے کے ناطے سب بچوں اور بڑوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور یکساں مقبول تھے، اچانک ایک مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔


ہوا یوں کہ ایک دن صبح راقم الحروف کو آلکسی نے آگھیرا تو بندہ وقت پر دفتر روانہ نہ ہوسکا۔ ابھی چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارا ہی تھا اور چاہتا تھا دفتر روانگی ڈالی جائے، اتنے میں بھابی کا ٹیلیفون آگیا۔ خلیل بھائی امین صبح فجر کے وقت سے بے چین ہیں اور انہیں کسی کل چین نہیں آرہا ہے۔


میں نے بھائی کے گھر پہنچ کر صورتِ حال کا ادراک کیا تو اندازہ ہوا کہ سینے کی جلن جو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھی ہوئی ہے ، اس بات کی متقاضی ہے کہ فوراً امراضِ قلبکے ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔ انہیں لے کر امراضِ قلب کے قومی ادارے پہنچا ۔ مجھے یقین تھا کہ ابتدائی معائنے کے بعد بھائی کی طبیعت کو بد ہضمی کا شاخسانہ قرار دے کر ہمیں گھر بھیج دیا جائے گا۔لیکن راقم الحروف کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور داکٹروں نے فوراً انجیو گرافی کرنے کا کہا۔ انجیو گرافی ہوئی تو فوری طور پر دل کا آپپریشن تجویز ہوا۔


اگلے روز بھائی آپریشن ٹیبل پر جانبر نہ ہوسکے اور ان کا بے جان لاشہ ہمارے حوالے کردیا گیا۔ اباجان کو بھائی کی ناگہانی موت کی اطلاع دینے کی ذمہ داری مجھ بدنصیب کے حوالے ہوئی تو میں نے ٹیلیفون پر انہیں اس قیامت خیز سانحے سے آگاہ کیا ۔ پہلے تو وہ ایک لمحے خاموش ہوگئے۔ میں نے ہیلو کہا تو اللہ جانے کیا سوچ کر باتیں شروع کیں اور بھائی کی تدفین سے متعلق ہدایات دینے لگے۔


اس دن سب روئے لیکن اباجان جس صبر اور حوصلے کے ساتھ پرسہ دینے والوں سے ملے اس کی سوچ آج بھی میرا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ نہ روئے ، نہ چیخے، نہ کسی سے گلہ کیا، دل ہی دل میں بہت چیخ چیخ کر روتے ہوں گے، لیکن بظاہر خاموش تھے۔ بہت بڑا سانحہ تھا جو ہم سب پر گزر گیا۔ ہم سب دم بخود تھے کہ آن کی آن میں یہ کیا ہوگیا۔ لیکن اباجان کی شکل دیکھ کر تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ اللہ اللہ کیا دن تھے جو گزر گئے۔ رفتہ رفتہ وقت نے ہمارے ان زخموں پر مرہم رکھدیا اور ہم نارمل ہوگئے۔ لیکن اباجان اس نقصان کو برداشت نہ کرسکے اور اندر ہی اندر گھلنے لگے۔ ایک دن سیڑھیوں سے گرے تو ٹانگ پر چوٹ لگی اور آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے۔ چلتے تو تھے لیکن رُک رُک کر اور تکلیف کے ساتھ۔ تکلیف چہرے سے ظاہر ہوتی لیکن زبان تک کبھی نہ آئی ۔اٹھتے ، بیٹھتے یا لیٹتے وقت تکلیف کا اظہار صرف دو لفظ ہوتے، ’’ اللہ رے!‘‘ اور بس۔


اسی اثناء میں ہم بھائیوں نے اباجان کے مشورے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ امین بھائی کے بیٹے شہریار عرف شیری کی شادی بالکل اسی طرح انہی تاریخوں میں اور اسی انتظام کے ساتھ کی جائے جس کا اہتمام امین بھائی اپنی زندگی ہی میں کرچکے تھے۔ کارڈ بانٹنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو جہاں سب نے اپنے حصے کے کارڈ سنبھالے وہیں اباجان نے بھی اپنے دوستوں کو کارڈ تقسیم کرنے کا کام خود اپنے ذمے لے لیا۔ مجھے ہمیشہ یاد رہے کہ کس طرح میں اباجان کو لے کر ان کے دوستوں کے پاس پہنچا اور اور کس صبر اور حوصلے کے ساتھاباجان نے اپنے کارڈ تقسیم کیے۔ ہاں البتہ جب حکیم ایس ایم اقبال صاحب کے مطب پہنچے اور حکیم صاحب انہیں دیکھ کر اپنی کرسی سے اُٹھے اور مطب کے دروازے پر آکر استقبال کیا تو اباجان کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ سے گئے اور وہ یکبارگی رو پڑے اور حکیم صاحب سے کہنے لگے۔’’ امین الرحمٰن ہی چلا گیا۔ اب کیا کرنا ہے؟‘‘

یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے اباجان کو روتے ہوئے دیکھا۔ فوراً ہی حکیم صاحب نے مصافحہ، معانقہ وغیرہ کیا تو اباجان سنبھل گئے اور اپنے آپ کو قابو میں کرلیا۔ حکیم صاحب نے اباجان کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کی ، ایک معجون اور شہد کی ایک شیشی اباجان کے لیے مجھے پکڑائی اور اس طرح ہم ان سے پانچ سات منٹ کی ملاقات کے بعد رخصت ہوئے۔


انہی دنوں ایس آئی یو ٹٰ کے چکر لگنے شروع ہوئے۔ نئے سرے سے ٹسٹ تجویز ہوئے اور ان ٹسٹوں کے لیے ہر دوسے تیسرے روز ہسپتال جانا پڑا ۔ کئی مرتبہ اس ترتیب میں خلل پڑا، وجہ کبھی میری آفس کی مصروفیات ہوتیں اور کبھی اباجان کی طبیعت۔ بہر حال ابتدائی ٹسٹ مکمل ہوئے لیکن میرا سنگاپور کا سفر اور چھوٹے بھائی کا ساؤتھ افریقہ کا سفر آڑے آیا اور اباجان نے طے کیا کہ ہماری واپسی تک اینڈواسکوپی کو موخر کردیا جائے۔ میں سفر کی تیاری مین مصروف ہوگیا۔

ہفتہ ۹ جنوری کو شام کے وقت میں ٹیکسی لے کر ائر پورٹ کیطرف روانہ ہوا ۔ راستے میں چھوٹی بھابی ( مرحوم امین الرحمٰن بھائی کی زوجہ) محترمہ) کا ٹیلیفون آگیا اور پتہ چلا کہ بڑے بھائی اباجان کو لے کر ہسپتال روانہ ہوئے ہیں۔ کافی دیر تک کوشش کرنے کے بعد ہی بڑے بھائی سے رابطہ قائم ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ داکٹر معائنہ کررہے ہیں ویسے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ سامان جمع اور بورڈنگ پاس لینے تک ابھی کچھ دیر ہے۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہے تو وہ فوراً بتائیں تاکہ میں اپنا پروگرام کینسل کرسکوں۔


کچھ دیر بعد بھائی سے پھر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اباجان خیریت سے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ ’’ خلیل سے کہو کہ وہ اپنے سفر پر روانہ ہوجائے اور فکر نہ کرے۔ سب ٹھیک ہے‘‘۔

یہ سنا تو میری جان میں جان آئی۔ اور میں اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ اسی دن چھوٹے بھائی کا بھی ساؤتھ افیقہ جانے کا پروگرام تھا ، لہٰذا اسے بھی اباجان کی طبیعت کا علم نہ ہوسکا۔

بعد میں پتہ چلا کہ ابناجان نے سب گھر والوں کو سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو ان کی طنیعت سے متعلق کچھ نہ بتایا جائے۔ چھوٹی بھابی تک یہ بات نہ پہنچ سکی تھی لہٰذا انہوں نے پریشانی میں مجھے فون کردیا۔ واپسی پر پتہ چلا کہ اباجان ایک ہفتہ ہسپتال میں رہ کر آئے ہیں۔ اس دوران ان کی کیفیت کا پتہ چلا نے کے لیے ایک خاص ٹسٹ کروایا گیا تو تصدیق ہوئی کہ پھر دل کا دورہ پڑا تھا۔ یہ دوسرا دورہ تھا جسے چپ چپاتے برداشت کرگئے۔ اس کے بعد بہت زیادہ کمزور ہوگئے اور زیادہ وقت گھر پرصرف آرام میں گزرنے لگا۔ اس دوران ان کا محبوب مشغلہ یعنی مطالعہ بھی چھوٹ گیا۔ کبھی کبھی ہم لوگوں سے کچھ مختصر سی بات کرلیا کرتے اور بس۔ اس دوران اپنے دوستوں مولانا عزیز الرحمٰن صاحب اور مولانا طاہر مکی صاحب کے فون ملواتے اور ان سے مختصر بات کرلیا کرتے۔


یہی وہ وقت تھا جب اباجان نے کھانا پینا چھوڑدیا ۔ ایک دن اپنی بڑی بہو سے کہنے لگے،’’ بہو رانی! لگتا ہے اب میرا آکری وقت قریب آگیا ہے۔‘‘ پوچھا ، ’’کیوں؟‘‘۔

تو بتایا، ’’ اب کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا۔ اب لگتا ہے کہ بڑے میاں نے مجھے بلانے کا پروگرام بنالیا ہے۔‘‘ اسی طرح میری بیگم سے کہنے لگے، ’’ ارے بیٹے، ان بڑے میاں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، کب بلالیں۔ بس اب چل چلاؤ ہپی ہے۔‘‘

اسی دوران ان کے بتائے ہوئے ایک نکتے پر ایک مضمون لکھا اور انہیں جاکر سنایا تو بہت خوش ہوئے۔ اور دوستوں کو فون کرکے اس کے متعلق بتایا۔ فروری کتے پہلے ہفتے مین پھر پھر طبیعت خراب ہوئی تو ایک ہفتہ مزید ہسپتال مین رہے۔ اسی دوران راقم کو بھی تیمارداری میں اپنا حصہ بٹانے کا موقع ملا۔ اس مرتبہ پھر وہی عجیب و غریب واقعہ دہرایا گیا۔ خاص ٹسٹ (TROPI) نے ظاہر کیا کہ دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ اب تو دل اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ خدا کی پناہ۔

ہسپتال سے واپسی پر خاکسار نے کئی مرتبہ درخواست کی کہ کسی ماہر قلب کو دکھالیں مگر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بات آڑے آجاتی۔ کبھی اباجان کی طبیعت، کبھی ان کا موڈ اور کبھی کچھ اور۔ بہر حال ہم صرف اباجان کی فائل لیجا کر عباسی شہید ہسپتال کے شعبہء دل کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرشید صاحب کو دکھاسکے ۔ داکٹر صاحب نے اباجان کی فائل دیکھی تو کہا۔

’’خلیل ! میں نے ان کی فائل دیکھ لی۔ اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے عرض کی’’ اب آپ اباجان کو اپنے زیرِ علاج لئ لیجیے اور ان کی دیکھ بھال شروع کردیں‘‘۔

کہنے لگےِ’’ ان کا دل اب بہت زیادہ کمزور ہوگیا ہے۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس بارے میں کوئی انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ جب تک حضرت کی زندگی ہے، کوئی بیماری بھی ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتی۔البتہ ہم دواؤں کے ذریعے ان کی زندگی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں، جو ہمارا فرض ہے۔‘‘

بات معقول تھی، اور ہم چاتے تھے کہ ان کا علاج شروع کروادیا جائے۔ لیکن اللہ کی مشیت دیکھیے کہ اس کی بھی نوبت نہ آسکی اور اگلے ہی ہفتے ، بروز اتوار ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو راقم گہری نیند مین تھا کہ ٹیلیفون کی مسلسل گھنٹیوں نے یہ سلسہ توڑدای ۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ بات شروع کی ۔ چھوٹے بھائی نے بتایا کہ اباجان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ، لہٰذا انہیں لے کر ہسپتال جارہے ہیں۔ ہسپتال پہنچا تو اباجان اپنی جان جان جانِ آفریں کے سپرد کرچکے تھے۔ انا للہِ و اناالیہِ راجعون۔ ایک دور کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ اور میں ہوا مین معلق ہوگیا ہوں۔ یہی کیفیت آج تک ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کیفیت کو کیا نام دوں؟

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ٌٌٌٌتمت بالخیرٌٌٌٌ​


محترم خلیل بھائی السلام علیکم

میں نے ابتدا آخری باب سے کی اور آفس میں ہوتے ہوئے بھی پورا پڑھے بنا رہ نہ سکا
میرے پاس الفاظ نہیں جواس تحریر کا احاطہ کر سکیں
معلوم نہیں کیوں میری آنکھیں گیلی ہو چکی ہیں ۔۔۔ شاید اس لئے کہ میری آنکھوں میں
اپنے والد سے جدائی کے لمحات ایک بار پھر نمایاں ہو چلے ہیں
اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آپ کے اور میرے والد کو ۔۔۔ آمین
اور ہمارے ہر نیک کام کا اجر ان کو بھی پہنچتا رہے ۔۔۔۔ آمین

ً
 
محترم خلیل بھائی السلام علیکم

میں نے ابتدا آخری باب سے کی اور آفس میں ہوتے ہوئے بھی پورا پڑھے بنا رہ نہ سکا
میرے پاس الفاظ نہیں جواس تحریر کا احاطہ کر سکیں
معلوم نہیں کیوں میری آنکھیں گیلی ہو چکی ہیں ۔۔۔ شاید اس لئے کہ میری آنکھوں میں
اپنے والد سے جدائی کے لمحات ایک بار پھر نمایاں ہو چلے ہیں
اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آپ کے اور میرے والد کو ۔۔۔ آمین
اور ہمارے ہر نیک کام کا اجر ان کو بھی پہنچتا رہے ۔۔۔۔ آمین

ً
جزاک اللہ مجمور بھائی۔ خوش رہیے
 

loneliness4ever

محفلین
ہم معذرت خواہ ہیں کہ فانٹ کو بھی محفوظ کرنے کے چکر میں کچھ بڑی فائل بن گئی ہے۔


ایسا کیوں کہتے ہیں صرف تین ایم بی ہی کی تو فائل ہے
clear.png
:)
clear.png
 
Top