بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اورابا جان چلے گئے

اباجان ایک مردِ قلندر کی شان کے ساتھ اس دنیا میں رہے اور قلندرانہ شان ہی کے ساتھ ایک صبح چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

سوگ کے ان تین دنوں میں فیس بک Face Book پر بچوں کے خیالات پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ اتنے گہرے احساسات، اتنے معنی خیز، اتنے نازک اور اتنے مضبوط و مربوط۔۔

ایک پوتے نے لکھا۔’’ آج فضا مسموم ہوگئی ہے، ایک نسل چلی گئی۔۔۔۔۔۔ اے کاش کوئی ہمیں بکھرنے سے بچالے۔۔۔ آج تو ہماری چیخیں بہرے کانوں سے ٹکرا کر واپس آرہی ہیں۔‘‘

ایک اور پوتے نے لکھا۔’’ آج میں پھر سے یتیم ہوگیا۔‘‘

ایک بہو نے لکھا۔’’ آج میرا ایک اور سائبان کھوگیا۔‘‘

ایک پوتی نے کینیڈا سے لکھا۔’’ میرے ویلینٹائن ، میرے دادا ابّا۔‘‘

ایک بچی نے لکھا ’’ لوگ اس دنیا سے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

ایک اور بچی نے لکھا۔’’ جانے والے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں رہیں گے۔ ریسٹ ان پیس دادا ابا۔‘‘

ایک اور بچی کہتی ہے’’ اے کاش میں گزرے ہوئے وقت کو واپس لا سکتی۔‘‘
یہ محبت نامے اور یہ عشقیہ ڈائیلاگ دراصل اس فاتحِ عالم محبت کا جواب ہیں جو اباجان نے ہمیشہ ان بچوں کے ساتھ روا رکھی۔

میرے مرحوم بھائی نے ایک دن ہنس کر اباجان سے کہا تھا ، ’’ اباجان آپ ہم سے زیادہ ہمارے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ سچ ہے، سود اصل سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔‘‘

لاہور سے سرور چچا نے جو بوجوہ ضعیفی اور ناسازی طبیعت کراچی تشریف نہیں لاسکے، فون پر مجھ سے کہا، ’’ ہم سب انھیں چھوٹے بھائی کہتے تھے لیکن وہ چھوٹے نہیں تھے، وہ تو بہت بڑے تھے۔‘‘

اباجان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمد تھا، ۱۹۲۴ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم ( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باسم ہی میں حاصل کی، وہیں ایک دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت سے تعلق پیدا ہوا جو دیو بندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، جنھوں نے انھیں ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔ اللہ تب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت، ختمِ رسالت، حرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت، اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔ نوجوانی میںحیدرآباد آگئے، اور ایک پیر صاحب کی مریدی اختیار کی۔ دینی استاد کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیر صاحب کا سات سالہ ساتھ بھی انھیں اس عقیدے سے متزلزل نہیں کرسکا۔ اس عقیدے کا شاخسانہ سرسید احمد خان کے خیالات سے ہم آہنگی اور مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی ہمدردی تھا جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہا۔ صوبہ سرحد میں وقتاً فوقتاً قیام کے دوران تبلیغ کے ساتھ ساتھ تحریک ِ پاکستان کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا۔

اللہ رب العزت پر یقین کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی انسان( جس میں ان کی اولاد بھی شامل ہے) کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ جو ملا صبر و شکر کے ساتھ کھایا، نہیں ملا تو بھوکے رہے۔ ایامِ طفولیت میں راقم الحروف کے ٹائیفائڈ جیسے موذی مرض میں بھی ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لیتے وقت جب کمپاوئنڈر نے یہ کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی طرف سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور چلے آئے۔

اک طرفہ تماشا تھی حضرت کی طبیعت بھی

انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں اور خصوصاً شمال مغربی سرحدی صوبے میں ان گنت تبلیغی دورے کیے اور بے شمار جلسوں اور مناظروں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو مسلمان کیا۔

اردو کے علاوہ انگریزی ، عربی، فارسی، سنسکرت، پشتو، بریل Braille اور مرہٹی پر عبور حاصل تھا، گویا ہفت زبان تھے۔ شاعری بھی کی اور اس ناطے شعری ذوق بھی بدرجہ اتّم موجود تھا۔ طبیعت میں شوخی و شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اظہار اکثر ہوتا۔

خود ہی سناتے تھے کہ بازار میں چلتے ہوئے کسی شخص کی ہیئت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنسی آگئی، اگلے ہی لمحے زمین پر پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے سے پھسلے تو چاروں خانے چت، زمین پر پڑے تھے۔ فوراً ہی اٹھے اور بھرے بازار میں کان پکڑ کر تین دفعہ اٹھک بیٹھک کی ، اللہ رب العزت سے توبہ کی اور سکون سے آگے چلدیئے۔

۱۹۴۸ میں سقوطِ حیدرآباد کے موقعے پر ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ بیس ماہ کی جیل کاٹ کر ہندوستان کی جیل سے رہا ہوئے تو پاکستان کی جستجو کی۔ اونٹ پر سوار ہوکر سرحد پار کی اور میر پور خاص پہنچے۔ پاکستان آکر پشاور میں سکونت اختیار کی لیکن بے قرار طبیعت نے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو یہاں سے بھی صوبہ سرحد کے قبائیلی علاقوں کے کئی یادگار دورے کیے۔ ۱۹۵۰ میں پاکستان آتے ہی پیر صاحب اور پھر ۱۹۵۴ میں کراچی آکر تبلیغی کام دونوں کو خیر باد کہہ کر پرانی نمائش پر نابیناوں کے ایک اسکول IDA REU میں استاد ہوگئے۔ ۱۹۶۰ میں معلمی چھوڑکر نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ میں بریل پریس کے مینیجر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی اور خوب سنبھالی۔ نمایاں کارناموں میں معیاری اردو بریل کا قاعدہ اور بریل میں قرآن شریف کیطباعت شامل ہیں۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہوچکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے، جبکہ اباجان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے ۔ ۱۹۷۰ میں بریل قرآن مکمل کرچکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی۔ تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۹ میں نیشنل بک فاونڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔

کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا ۔ مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا، جسکی ابتدا اپنے ماموں کی ذاتی لائبریری سے ہوئی اور پھر قیامِ حیدرآباد کے دنوں میں وہاں کی مشہور پبلک لائبریریوں سے خاطر خواہ اکتساب کیا۔ وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل، سامنے والے پڑوسی نے ایک رات تقریباً ڈھائی بجے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بلا کر کھڑکی سے دکھایا، اباجان بڑے مزے سے اپنے بستر پر بیٹھے ، دنیا و مافیہا سے بے خبر، کتاب کا مطالعہ کررہے تھے اور نوٹس بنارہے تھے۔ ہمارے لیے یہ نظارہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے تھا۔ کئی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں جن میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی کتاب ’’ خیر البشرصلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ( جو بعد میں ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شایع ہوئی، ’’ اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ ، ’’ حضرت ابوزر غفاری‘‘ اور مذاہبِ عالم کے تقابلی مطالعے پر کئی قابلِ ذکر مضامین ( جو شش ماہی جریدہ السیرہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے) شامل ہیں۔

اباجان نے ایک اسلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر، بہترین استاد، مضمون نگار اور comparative religion کے طالب علم کی حیثیت سے ایک بھر پور زندگی گزاری، وہ اقبال کے شعر

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

کی عملی تشریح و تفسیر بن کر رہے اور نسیمِ صبح کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہمارے درمیان سے گزر گئے، جسکی خوشبو، تازگی اور صباحت مدتوں ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، رلاتی رہے گی اور تڑپاتی رہے گی۔

حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا

( ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو اباجان کی وفات پر یہ مضمون لکھا اور پھر ان کی سوانح لکھنی شروع کی، جسے اگلی نشستوں میں پیش کرنے کی جسارت کروں گا)
 
باب اول۔فسانہ آزاد
بچپن کے دن
محمد خلیل الر حمٰن​

اباجان اپنے ماں باپ کی تیسری اولاد تھے۔اباجان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمدتھا ، ۱۹۲۴ ئ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے ۱۹۲۰ء میں ایک بہن پیدا ہوکر بچپن ہی میں انتقال فرماچکی تھیں اور اس کے علاوہ ایک بڑے بھائی تھے جو۱۹۲۲ءمیں پیدا ہوئے اوربھائی میاں کہلائے۔ اباجان رنگ روپ ، عقل و دانش وغیرہ میں منفرد اور ممتاز تھے۔بڑے خوش مزاج بچے تھے ا ور اپنی شرارتوں اور خوش مزاجی کی وجہ سے اپنے دادا، چچاﺅں اور ابا کے منظورِ نظر تھے۔ برار میں یہ رواج تھا کہ سب سے بڑا بیٹا بھائی میاں کہلاتا تھا اور منجھلا بیٹا چھوٹے بھائی کہلاتا تھا لہٰذہ یہ بھی چھوٹے بھائی کہلائے۔ یوں بھی چونکہ ان کا قد شروع میں بہت چھوٹا تھا، اس لیے سب چھوٹوں اور بڑوں میں چھوٹے کے نام سے مشہور ہوئے۔جہاں اباجان قد میں چھوٹے تھے وہیں بھائی میاں کا قد حد سے نکلتا ہوا تھا۔اباجان چونکہ شروع ہی سے عقل مند اور ذکی الحس تھے لہٰذہ اسی مناسبت سے گھر میں اور باہر اپنا کردار ادا کیا، دوسری طرف بھائی میاں بس میاں ہی تھے۔ اباجان بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے اور کام کاج میں سب سے آگے تھے، گھر میں اماں جان کو بیٹی نہ ہونے کے سبب گھر کا سارا کام خود کرنا پڑتا تھا، لہٰذہ ہوش سنبھالتے ہی اباجان نے باقاعدہ پلان کے تحت ان کا خاصا کام آپس میں بھائیوں کے ساتھ بانٹ لیا اور اس طرح یہ لوگ برتن دھونا، گھر میں جھاڑو دینا اور کپڑے دھونا جیسے کام ایک نظام ِ عمل کے تحت خود کرنے لگے۔اماں جان کے ذمے صرف کھانا پکانارہ گیا اور گایﺅں بکریوں کا دودھ دوہنا بھی اباجان نے آپس میں بھایﺅں میں بانٹ لیا۔ اس طرح اباجان کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے انکا گھرانا دودھ دہی مکھن اور چھاچھ وغیرہ میں بھی خود کفیل ہو گیا۔ بکریوں کا دودھ کھانے پینے میں استعمال ہوجاتا اور گائیوں کا دودھ دہی بنانے ، مکھن نکالنے اور اس سے گھی بنانے کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔

فٹبال اباجان کا پسندیدہ ترین کھیل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں ایک مرتبہ اباجان مجھے لے کر لیاری فٹبال گراﺅنڈ میں ایک مقامی میچ دیکھنے گئے تھے۔اپنے بچپن میں اباجان فٹبال کے ایک بہت اچھے کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ قد چونکہ کسی قدر چھوٹا تھا لہٰذہ علاقے میں” چھوٹے “کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اباجان کے بڑے بھائی یعنی بھائی میاں بھی فٹبال میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ان کا قد کسی قدر نکلتا ہوا تھا، لہٰذا اپنے قد کا خوب فائدہ اٹھاتے ۔ جب بھی کسی مد مقابل کھلاڑی کا سامنا ہوتا، گیند کو اوپر اچھال دیتے ، پھر بقول اباجان کے ’ ہوپ‘ کرکے اچھلتے اور پھر اس کے سر کے اوپر اپنی ٹانگ لیجا کر گیند کو اپنے قبضے میں کر لیتے۔ اسی طرح جوں ہی گیند اباجان کے قبضے میں آتی، پورا مجمع ’ ’چھوٹے، چھوٹے ‘ ‘کے نعرے مارتا اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا، اور اباجان دوسرے کھلاڑیوں کے درمیان سے گیند نکالتے ہوئے گول کی جانب بڑھتے چلے جاتے یا پھراپنے کسی ایسے کھلاڑی کو پاس دیدیتے جو گول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا۔

اسکول سے گھر پہنچتے تو کھانا وغیرہ کھاکر واپس اپنے دوستوں میں پہنچنے کی جلدی ہوتی تاکہ جلد از جلد فٹبال کا میچ شروع ہوسکے۔ اسی اثناءمیں اگر گاﺅں کے کسی بڑے بوڑھے کی نظر ان پر پڑجاتی تو ان کی طرف سے فوراً ایک پیسے دو پیسے کا گانجا ( ایک نشہ آور شے)خرید کر لے آنے کی فرمائش ہوجاتی اور پھر اباجان پھنس جاتے۔ پہلے ان بزرگوار کی فرمائش پوری کرتے اور پھر دوڑتے ہوئے دوستوں کی محفل میں پہنچتے۔ خاص فٹبال کے لیے گھر سے نکلے پر کباڑی کاکا ، یا کسی اور بزرگ کی نظر کرم انھیں بری طرح کھل جاتی لیکن گاﺅں کا سیدھا سادا ماحول انھیں گاﺅں کے کسی بھی بزرگ کی حکم عدولی سے منع کرتا تھا، لہٰذہ مرتا کیا نہ کرتاان کا حکم ماننا پڑتا۔

اسکول کے ہیڈماسٹر دیش پانڈے جو اپنے اسکول کے بچوں کو اپنے بچے سمجھتے تھے۔بہت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے بچوں کے لیے بہت نرم مزاج بھی تھے۔ علاقے کی پولیس کی مجال نہیں تھی کہ ان کے اسکول میں داخل بھی ہوسکتی۔اپنے بچوں کو اس کچی عمر میں پولیس کے چکروں سے بچانے کی خاطر وہ ایک چٹان کی طرح کھڑے ہوجاتے۔ لیکن ان اس رویے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ بچوں میں کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں کو برداشت بھی کرسکتے۔ البتہ بچوں کی معصوم شرارتیں جاری رہتیں اور انھیں بے جا تنگ کرنے کے لیے کوئی نہ آسکتا۔ ابا جان اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ قسم قسم کی مہمات میں اکثر حصہ لیتے رہتے ، جن میں ویران مندروں سے کھانے پینے کی چیزیں لے کر کھاجانا اور دیگر چڑھاوے شرارتاً اٹھا کر لے آنا وغیرہ شامل تھیں۔

بچپن ہی میں اباجان نے عبدالغفورمحمد حضت سے قرآن پڑھ لیا۔ مولوی عبدالغفور محمد حضت جودیوبندی عقیدے کے عالم تھے، دراصل گورکھا رجمنٹ کے ایک ریٹائرڈ پینشن یافتہ جمعدار تھے۔انھوں نے بھائی میاں، اباجان اور چھوٹے بھائی ہاشم کو نہ صرف قرآن پڑھایا بلکہ دیگردینی تعلیم بھی دی ۔عبدالغفور محمد حضت کی تعلیم کی وجہ سے اباجان بدعات اور رسومات بد سے دور ہوئے اور بعد کی زندگی میں ایک خاص لائحہ عمل کو اپنے لیے اختیار کیا۔

اباجان کے ایک ماموں اپنے خاندان کے پہلے پڑھے لکھے بچے تھے اور انھوں پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں بہت اچھی اچھی کتابیں شوق سے جمع کیں۔ ان کے حیدرآباد دکن کوچ کرجانے کی وجہ سے ان کی تمام کتابیں ایک بڑے صندوق میں اباجان کے گھر پہنچادی گیئں جن سے اباجان نے جی بھر کر فائدہ اٹھایا اور ان تمام ادبی کتابوں کو شوق سے چاٹ گئے۔ ان کتابوں میں اس وقت کے کچھ بہترین رسالے،جن میں مولوی رسالہ، پیشوا رسالہ وغیرہ شامل تھے، پڑھ ڈالے۔ ان کے علاوہ الف لیلہ، داستانِ امیر حمزہ، فسانہ آزاد، تمدنِ عتیق ، کوچک باختر، بالا باختر، حکایاتِ شیریں، جس میں ہندوستان کی تمام مروجہ ضرب الامثال وغیرہ موجود تھیں۔گویا آٹھویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اباجان ادب ِ عالیہ کو اچھی طرح پڑھ چکے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان کی نانی نے انھیں کسی کام سے کوٹ پلی اپنی بہن کے پاس بھیجنے کا عندیہ دیا۔ ان کی اماںجان نے بھی اس پروگرام کو سراہا اور انھیں کہا کہ وہ نانی کے بھائی سے بھی ملتے ہوئے آئیں جنھوں نے حال ہی میں اباجان کی خالہ سے دوسری شادی کی تھی۔

سرکاری خرچ پر جانا تھا، یعنی بس کے ٹکٹ کے پیسے نانی ہی دے رہی تھیں لہٰذا کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اباجان نے حامی بھرلی اور جانے کی تیاری کرلی۔ کوٹ پلی وہاں سے کوئی دس میل کے فاصلے پر ایک بستی تھی۔

اباجان چلے تو چھوٹے عبدالغنی کو بھی ان کے ساتھ کردیا گیا۔ گھر سے نکلے اور لاری اڈے پر پہنچے تو اباجان کے کمپیوٹر نے بھی اپنا کام شروع کردیا۔ اگر وہ دونوں بس میں سفر کرنے کی بجائے پیدل ہی روانہ ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہوگا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ میں وہ دونوں کوٹ پلی پہنچ ہی جائیں گے۔ دس میل کوئی اتنا زیادہ فاصلہ تو ہے نہیں ۔ اور پھر ٹکٹ کے پیسے بھی مفت میں بچیں گے۔ وارے نیارے ہوجائیں گے۔یہ سوچ کر انھوں نے لاری اڈے سے اپنا رخ کوٹ پلی کی طرف کرلیا اور پیدل ہی چل پڑے ۔ کچھ دور گئے ہوں گے تو سامنے ایک جنگل نظر آیا، سڑک وہاں سے ایک طرف کو مڑ جاتی تھی۔ گویا یہ ایک شارٹ کٹ تھاجو اباجان کو نظر آگیا۔ اگر وہ سڑک کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے ، جو یقیناً لمبا راستہ ہے، اس جنگل میں داخل ہوکر کوٹ پلی کی سمت اپنا سفر جاری رکھیں تو ضرور جلدہی کوٹ پلی پہنچ جائیں گے۔ یہ سوچتے ہی انھوں نے سڑک کو چھوڑدیا اور اپنا راستہ تبدیل کرکے جنگل میں گھس پڑے۔

جنگل جو شروع میں اتنا گھنا نظر نہیں آرہا تھا ، اندر جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد گھنے جنگل میں تبدیل ہوگیا۔ہر طرف لمبے لمبے اونچے اونچے درخت کھڑے تھے جن کا گھیر کوئی دس پندرہ گز سے زیادہ تھا۔جنگل میں اباجان کو ایک چھوٹی سے پگڈنڈی اباجان کو مل گئی تھی جس پر وہ دونوں بلا تکان چلے جارہے تھے۔ کوئی گھنٹہ بھرچلے ہوں گے کہ اباجان کو اندازہ ہوا کہ شاید وہ راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اب تو جنگل میں کسی کسی جگہ جنگلی جانور بھی نظر آنے لگے تھے۔ دونوں اللہ توکل آگے بڑھتے ہی رہے۔ کچھ دور اور چلے تو یہ بھول گئے کہ وہ کس طرف سے آرہے ہیں اور کس طرف کوجائیں کہ کوٹ پلی پہنچ جائیں۔ رک کر ارد گرد کے ماحول سے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ انھیں کس سمت میں جانا چاہیے۔ اتنی دیر میں کچھ عجیب و غریب سی سڑی ہوئی بو ان کے نتھتوں سے ٹکرائی تو چونک کر ایک طرف دیکھا۔دو جانوروں کی سڑی ہوئی ، ادھ کھائی ہوئی ،نچی ہوئی لاشیں وہاں پڑی ہوئی تھیں۔ اب تو دونوں بہت گھبرائے اور زیادہ غور سے ادھر ادھر دیکھا تو اپنی زندگی کا سب سے خوفناک نظارہ ان کے سامنے تھا۔ ان ادھ کھائے جانوروں کے قریب ہی ایک عدد شیر پڑا سورہا تھا۔ دونوں نے دور سے اسے دیکھا اور ایک دوسرے کو خاموشی کا اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے کھسکے۔ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے جب وہ شیر کی کچھار سے دور نکل آئے تو بدحواسی میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایک طرف کو بھاگ کھڑے ہوئے۔

تقریباً آدھا گھنٹہ بھاگنے کے بعد وہ ایک جگہ رکے اور کافی دیر تک اپنا سانس درست کرتے رہے۔ سانس بحال ہوئی تو جان میں جان آئی۔ آج قسمت نے ان کا ساتھ دیا تھا اور وہ زندہ سلامت شیر کی کچھار سے نکل آئے تھے۔ لیکن ایک بات اب واضح تھی۔ وہ یقیناً اپنا راستہ بھول چکے تھے۔ اب کیا کریں۔

ادھر ادھر دیکھا تو قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی نظر ّئی۔ اس پہاڑی کی طرف چلے اور اس پر چڑھ کر چاروں طرف نظر دوڑانے لگے، اس امید پر کہ کہیں سے کوٹ پلی نظر آجاےءتو دوڑ کر اس تک پہنچ جائیں۔ ہر طرف جنگل ہی جنگل نظر آیا تو بہت مایوسی ہوئی لیکن ہمت نہ ہاری اور زور زور سے غالب کی غزل گانے لگے۔آواز چاروں طرف گونج کر پھیلی تو انھیں بہت اچھا محسوس ہوا۔

ادھر خدا کی کرنی، ان کی آواز پھیلی تو محکمہ جنگلات والوں نے بھی سنی اور جلد ہی ان کی سیٹیوں اور ڈھول کی آواز سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ اباجان اور عبدالغنی کی جان میں جان آئی اور وہ اس آواز کی طرف چلے اور تھوڑی ہی دیر میں محکمہ جنگلات کے کیمپ آفس کے سامنے پہنچ گئے، جہاں پر محکمہ جنگلات کا چاق و چوبند عملہ ان کا منتظر تھا۔ عملہ نے ان سے ان کا حال پوچھا اور انھیں بہت برا بھلا کہا کہ وہ کیوں اس گھنے جنگل میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔

دونوں نے بتایا کہ وہ کوٹ پلی جارہے تھے کہ راستہ بھٹک گئے اور ادھر آنکلے۔ محکمہ جنگلات کے افسران نے ایک سپاہی ان کی رہنمائی کےلیے ان کے ساتھ کردیا جو انھیں پیدل کوٹ پلی کی طرف لے چلا۔ قصبے کے قریب پہنچ کرجب دونوں نے کوٹ پلی کو پہچان لیا تو اس سپاہی نے انھیں چھوڑدیا اور واپس لوٹ گیا۔ اس طرح دونوں کوٹ پلی پہنچے اور قریب ہی ایک مسجد دیکھ کر اس میں گھس گئے۔ دس میل چلنے کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے اور راستہ بھٹک کر تقریباًچالیس میل چلنا پڑ گیا ، تھکن سے چور تو تھے ہی ، مسجد میں صف بچھی ہوئی پائی تو فوراً لم لیٹ ہوگئے۔ لیٹے تو فوراً ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ،بے سدھ ہوگئے ۔ اد ھر تھوڑی دیر بعداباجان کے ایک ماموں مسجد پہنچے اور ان بچوں کو دیکھاتو ان کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ تو اپنے ہی بچے لگتے ہیں۔ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی تودوڑے دوڑے گھر گئے اور نانا کو بلا کر لے آئے۔ وہ فوراً پہچان گئے کہ یہ تو چھوٹا ہے ،چھوٹی ماں کا بیٹا اسمٰعیل ہے۔انھیں اٹھایا اور گھر لے گئے۔گھر پر دونوں تھکے ماندے مہمانوں کی مالش وغیرہ کی گئی، گرم پانی سے نہلایاگیاتو دونوں کو آرام آیا۔ کوٹ پلی میں اباجان اور عبدالغنی ہفتہ دس دن ٹھہرے جہاں پر ان دونوں کی خوب خاطر تواضع کی گئی اور دونوںخوب اپنی تھکن اتار کر واپس گھر آئے۔

چوتھی جماعت پاس کرکے جب پانچویں جماعت میں پہنچے تو اپنے ابا کا ہاتھ بٹانے کی غرض سے نوکری بھی شروع کی۔
 
باب دوم۔فسانہ آزاد
مافوق الفطرت عناصر اور اباجان
محمد خلیل الر حمٰن​

اباجان کے بچپن میں ایک دن کا واقعہ ہے کہ اباجان سارا دن اسکول اور پھر اسکے بعد کھیل کود میں مصروف رہے اور مغرب کی نماز کے بعد گھر میں داخل ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف گھپ اندھیرا چھا گیا اور رات کا سناٹا اپنا جادو جگانے لگا۔ اباجان نے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھایا اور ٹہلنے کے لیے گھر کے آنگن میں پہنچ گئے۔ چاند ابھی نکلا نہیں تھا اور کمروں کے دروازوں پر پڑی چلمنوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی ہلکی ہلکی روشنی ماحول پر ایک عجیب سا تاثر ڈال رہی تھی۔ اباجان ٹہلتے ہوئے گھر کی بیرونی دیوار تک پہنچے توآنگن میں موجود ایک بڑے درخت کے ساتھ باہر کی دیوار پر انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے عجیب نظارہ دیکھا۔ رات کے اندھیرے میں دیوار پر ان کے چھوٹے چچا جھانک رہے تھے ۔ ان کا چہرہ عجیب انداز میں مسخ شدہ لگ رہا تھا اور اندھیرے میں چمک بھی رہا تھا۔ جونہی اباجان کی نظر اپنے چھوٹے چچا کے چہرے پر ٹھہری انھوں نے خوفناک انداز میں ہنستے ہوئے اباجان کی طرف دیکھ کر منہ چڑادیا۔

اباجان کو چھوٹے چچا کی اس گندی حرکت پر بہت غصہ آیا اور انھوں نے فوراً چچا کو سبق دینے کی ٹھانی۔ انھوں نے اسی وقت اپنی اماںجان کو آواز لگائی۔
” اما ں جان! دیکھو چھوٹے چچادرخت پر چڑھے ہوئے بیٹھے ہیں اورمجھے منہ چڑا رہے ہیں اور بری بری شکلیں بنا رہے ہیں ۔ “

کچھ دیر کے لیے گویا ماحول پر چھایا ہوا سناٹا اور زیادہ گہرا ہوگیا تھا۔ درخت پر موجود ہیولیٰ اپنی ہیبت ناک شکل کے ساتھ اباجان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں اباجان کی دادی اماں لپکتی ہوئی باہر نکلیں اور اباجان کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف لے چلیں۔ساتھ ہی وہ اباجان کو بہلانے کے لیے کہتی جارہی تھیں۔

” اچھا اچھا! اسے ڈانٹ دیں گے۔ اب کمرے میں آجاﺅ رات بہت ہوگئی ہے۔“
انھوں نے اباجان کو ان کے بستر تک پہنچایا اور انھیں لٹاتے ہوئے کہا۔” چلو اب سوجاﺅ۔“
اباجان بستر پر لیٹ گئے اور سونے کی خاطر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تقریبا ً دس پندرہ منٹ تک اسی طرح لیٹے رہنے کے باوجود نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسی اثناءمیںانھیں دادی اماں کی غصہ بھری آواز سنائی دی جو اماں جان کے لتے لے رہی تھیں۔

” بچوں کا خیال نہیں کرتی ہو اور انھیں باہر اندھیرے میں اکیلے بھیج دیتی ہو۔ اب اسے درخت پر چھوٹا نظر آرہا ہے جبکہ چھوٹا تو بہت دیر سے اندر سورہا ہے۔ بچوں کو ہرگز باہر اندھیرے میں مت بھیجا کرو۔جانے کون کون سے بھوت پریت اس وقت وہاں موجود ہوتے ہیں۔“

اباجان نے آنکھیں بند کیے ہوئے یہ سنا تو ان کی سٹی گم ہوگئی۔ کیا وہ چھوٹے چچا نہیں تھے؟ یہی روح فرسا خیال انھیں اس رات بہت دیر تک تنگ کرتا رہا اور وہ جاگتے رہے۔ بار بار ان کی نگاہ باہر کے دروازے کی طرف اٹھ جاتی اور وہ گھبرا کر نظر پھیر لیتے۔ جانے کب تک وہ جاگتے رہے اور جانے کب وہ سوئے لیکن صبح جب وہ اٹھے تو سارا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ کئی دن تک اس بخار میں پھنکنے کے بعد ہی اباجان کو اس بیماری سے نجات ملی اور اس طرح اباجان نے اپنی زندگی میں پہلی اورغالباً آخری مرتبہ کسی مافوق الفطرت ہیولے کو اپنے روبرو دیکھا۔

گو اس موقعے پر اباجان بہت ڈر گئے تھے اور نتیجتاً کئی دن تک بخار کی کیفیت میں مبتلا رہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ آیئندہ کبھی بھی اباجان جن بھوت وغیرہ سے نہیں ڈرے اور نہ ہی انھیں اپنی زندگی میں کسی قسم کی اہمیت دی۔ حالانکہ انکا ارد گرد کا ماحول وہی دقیانوسی قسم کا ماحول تھا جس میں پل بڑھ کر گاﺅں کے سیدھے سادھے ضعیف الاعتقاد لوگ بھوت پریت وغیرہ اور ان کی کارستانیوںپر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر ان کے جھوٹے سچے چنگلوں میں بھی پھنسے ہوتے ہیں۔

اباجان اپنے لڑکپن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہم جوئی پر نکلتے تو ان کا پہلا نشانہ گھنے جنگلوں میں موجود ہندوﺅں کے مندر ہوتے جہاں پر ان لڑکوں کو کھانے کے لیے بہترین کھانوں اور پھلوں کی اچھی خاصی مقدار مل جاتی جو ہندو ان مندروں میں چڑھاوے کے طور پر چڑھایا کرتے تھے۔ گروہ کے تمام لڑکے ان پھلوں اور دیگر نعمتوں پر پل پڑتے اور پلک جھپکتے میں انھیں چٹ کر جاتے۔اس وقت نہ انھیں بھوت پریت کا کوئی ڈر ہوتا اور نہ ہی ہندوﺅں کی ان بری ارواح کا جوان سنسان مندروں اور شمشان گھاٹوں میں منڈلایا کرتی ہوں گی ۔اس طرح گویا اباجان نے گاﺅں کے ماحول میں آنکھ کھولنے کے باوجود راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر جن بھوت پریت اور اس قسم کی تمام مخلوقات کے انسان پر حاوی ہونے کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا۔


اباجان کے پہلے روحانی استاد جناب عبدالغفور محمد حضت( حضرت) کی تعلیمات کا اثر اباجان پر ساری عمر رہا اور اپنے تمام تر بنیادی خیالات، تصورات، اعتقادات و ایمانیات اباجان نے انھی سے اخذ کیں اور ساری زندگی انھی پر اپنے پورے پختہ یقین کے ساتھ عمل پیرا رہے۔ دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت جو دیوبندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، انھوں نے اباجان کو ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔اللہ رب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول ﷺ کی بشریت، ختم ِرسالت، حُرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔

اپنے لڑکپن میں اباجان نے جن لوگوں سے اثر لیا ان میں ایک صاحب گڑبڑ شاہ بھی تھے جو ایک راجپوت ہندو کے گھر پیدا ہوئے ، اللہ نے ان پر کرم کیا اور انھیں اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔فوج میں ایک سپاہی کے طور پر اپنی خدمات پیش کرچکے تھے اور پھیر پٹے اور ڈنڈے بازی، تلوار بازی اور لٹھ بازی اور اس قسم کے دیگر فنون سے بخوبی واقف تھے ۔ لوگوں کو نہ صرف ان فنون میں مہارت بہم پہنچاتے بلکہ انھیں جن بھوت و دیگر توہمات سے دور رہنے کی تلقین کرتے اور یقین دلاتے کہ حضرتِ انسان خود ان بھوت پریت وغیرہ سے زیادہ طاقتور ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لہذہ انسانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی صحت بہتر بنانے پر خاص توجہ دیں، دوسروں کی مدد کریں، ہنر سیکھیں اور کوشش کرکے حلال روزی کمائیں۔محرم کے جلوسوں اور عرس وغیرہ میں شریک ہوتے ، میلاد پڑھتے اور اپنے فن کا مظاہرا کرتے،چندہ کرتے اور مسجدیں بنواتے یا ان کی مرمت کا بندوبست کرتے۔چندہ جمع کرنے کے لیے ہرو قت ہاتھ میں کوڑا ہوتا ، اگر کوئی چندہ دینے میں پس و پیش کرتا تو بقول اکبر چچا پہلے تو اس کوڑے سے اپنے آپ کو پیٹتے اور پھر اسی سے چندہ نہ دینے والے کی توضع فرماتے۔

ایک مرتبہ اباجان اور ان کے گروہ کے لڑکے ان حضرت کے ساتھ بازار میں گشت کر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک پیر صاحب پر پڑی جو ایک عورت پر آئے ہوئے جن کو اتارنے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جسے وہ آزادانہ طور پر اس عورت پراستعمال کر رہے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

” نکل یہاں سے ۔ خبردار جو اب اس عور ت پر حاوی ہونے کی کوشش کی ۔ نکل یہاں سے مردود۔“

اُدھر وہ مردود کافی ڈھیٹ واقع ہوا تھا اور پیر صاحب کی ان تمام کوششوں کے باوجود اس عورت کے جسم پر قبضہ کیے بیٹھا تھا۔ادھر وہ بیچاری عورت مار کھاتی جاتی تھی اور تکلیف اور بے عزتی کے دکھ کے مارے روتی اور چیختی جاتی تھی ۔گڑبڑ شاہ صاحب ایک لمحہ کو وہاں رکے، صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر آﺅ دیکھا نا تاﺅ اور اس جعلی پیر پر پل پڑے اور اسی کی چھڑی سے مار مار کر اسکا حلیہ بگاڑ دیا۔ کافی پیٹنے کے بعد اسے اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ بھاگ سکے۔ پھر اس عورت کے شوہر پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اسے پیٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

” نکل یہاں سے ۔ خبردار جو اب اس عور ت پر حاوی ہونے کی کوشش کی ۔ نکل یہاں سے مردود۔“

بہت پیٹ چکے تو اسے لعنت ملامت کی کہ کیوں اس بھرے بازار میں اپنی عورت کی عزت لٹانے پر تلا ہوا تھا۔اسے بھی اپنی عورت سمیت بھگا کر لاری میں بیٹھے اور گاﺅں سے روانہ ہوئے۔

ادھر اباجان اس قضیئے سے فارغ ہوکر گھر پہنچے ہی تھے کہ گھر پر پولیس وارد ہوگئی اور اباجان کا نام لے کر انھیں گھر کے اندر سے بلایا تو دادا جان حیرت سے دنگ رہ گئے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ گھر پر پولیس آئی تھی۔ کس قدر بے عزتی اور بدنامی کا موقع تھا۔ اس کی وجہ وہ اباجان کو قرار دے رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ آخر اباجان نے کون سا ایسا بدنامِ زمانہ کام کیا ہے کہ پولیس گھر پر آئی ہے۔

ادھر اباجان حیران تھے اور کہہ رہے تھے کہ انھوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، انھوں نے تو کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ پولیس ان کے پیچھے آئے۔ آخر جب پولیس نے اپنے سوالات شروع کیے تو یہ عقدہ کھلا۔ وہ انھی گڑبڑ شاہ کی تلاش میں آئی تھی جنھوں نے آج بازار میں کچھ لوگوں کو مارا پیٹا تھا۔ اباجان اور ان کے دیگر ساتھیوں نے پولیس کو بتایا کہ گڑبڑ شاہ تو گاﺅں چھوڑ چکے اور کسی نامعلوم منزل کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔

محرم ، بقول اباجان کے، جس اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ باسم میں منائے جاتے تھے شاید ہی کسی اور علاقے میں منائے جاتے ہوں۔ محرم کا چاند نظر آتے ہی گویا گھروں کے باورچی خانوں کو تالا لگ جاتا اور سب گھر والے باہر لنگروں اور محرم کے احترام اور منت کے بنائے ہوئے کھانے کھاتے، جو انھیں باصرار اور با منت و سماجت کھلائے جاتے۔” ارے ادھر آرے بیٹے، ذرا دو نوالے تو کھالے۔“

محرم شروع ہونے سے کئی دن پہلے خواتین منت کے میٹھے بنانا شرو ع کرتیںتاکہ محرم شروع ہونے سے پہلے ان کے پکوان مکمل ہوجایئں۔ جنھیں باقاعدہ فاتحہ دلوا کر یومِ عاشور کو لوگوں کو کھلایا جانا ہوتا۔ ایسے ہی ایک محرم میں دادی اماں نے اہتمام کے ساتھ کمرہ کی لیپا پوتی مکمل کی اور میٹھا آٹا گوندھ کر رات کو چولھا جلا کر اس پر کڑھائی میں گھی کڑکڑایا اور روٹ تلنے شروع کیے۔ اِدھر اباجان فٹبال کے میچ سے تھک کر فارغ ہوکر چپکے سے کمرے میں آئے اور سردی سے بچنے کے لیے قریب ہی سر سے پاﺅں تک چادر اوڑھ کر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کرکے چولھے کی گرماہٹ کے مزے لینے لگے۔ ادھر دادی اماں نے تلے ہوئے روٹ ایک جگہ ترتیب سے جمانے شروع کیے اور ان کی میٹھی میٹھی خوشبو اباجان کی ناک میں پہنچی تو وہ نیند وغیرہ سب بھول کے اس مٹھاس کے مزے لینے لگے۔ اشتہاءانگیز خوشبو سے بھوک اورزیادہ چمک اٹھی تو اباجان نے ہاتھ بڑھایا اور چار چھ روٹ اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیے اور مزے لے لے کر کھانے لگے۔

دوتین دفعہ دادی اماں نے گمان کیا کہ شاید بلی اندر گھس آئی ہے لہٰذہ انھوں نے ہش ہش کرکے اس خیالی بلی کو بھگایا۔پھر بھی جب کٹر کٹر کی آواز ختم نہ ہوئی تو انھوں نے چور پکڑ لیا۔ یکبارگی جو چادر پکڑ کر کھینچی ہے تو دیکھا کہ اباجان مزے سے روٹ اپنے سینے پر رکھے کھارہے ہیں۔ محرم کے یہ روٹ یومِ عاشور کو فاتحہ کے بعد کھائے جانے تھے۔ دادی ماں نے ان کی بے حرمتی ہوتے دیکھی تو کلیجا تھام لیا اور ” ھائے اما م حسین“ کہہ کر اباجان کے ہاتھ سے باقی ماندہ روٹ چھینے اور ماتم کرنے لگیں کہ ھائے اب کیا ہوگا۔ اباجان نے سمجھایا کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن دادی اماں کی حالت دیکھ کر ان کے سامنے اعلان کیا کہ اب یہ روٹ ان کے لیے حرام ہیں اور وہ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور سارا محرم دادی ان سے التجاءکرتی رہیں کہ وہ یہ فاتحہ کے روٹ چکھ لیں لیکن اباجان نے پھر وہ روٹ نہ چکھے۔ دادی اماں نے یہ حال اور اباجان کا تیقن دیکھا تو ان فاتحہ وغیرہ کی رسموں پر سے ان کا بھی اعتقاد جاتا رہا۔

محرم کے جلوس بھی بڑی د ھوم دھام سے نکالے جاتے۔ ڈھول تاشوں اور باجوں گاجوں کے ساتھ شہدائے کربلاءکی سواریاں نکالی جاتیں۔ ان سواریوں کو اس شان اور اہتمام سے بنایا جاتا کہ دور سے دیکھنے پر یوں لگتا گویا کوئی سر اور ہاتھ کٹا شہسوار ہے جو شان سے چلا جاتا ہے۔ اس ڈھول تاشے کی محفل میں کئی ایک بڑے بوڑھوں کو حال آجاتا، گویا شہداءکی روح ان میں سماجاتی۔ پھر بڑے احترام و اہتمام کے ساتھ ان حال آنے والے حضرت پر سوار کو کسا جاتا اور اس طرح سے جلوس اپنی منزل کی طرف گامزن ہوتا۔ چھوٹی سواریوں کو لے جاکر بڑی سواری سے ملاقات کروائی جاتی اور اس طرح جلوس آگے بڑھتا۔ اکثر حال آئے لوگوں کو قابو کرنا مشکل ہوتا تو کئی ہٹے کٹے لوگوں کی ڈیوٹی لگائی جاتی کہ وہ ان کو سنبھال کر منزل مقصود کی طرف گامزن رکھیں۔

ایک دفعہ محرم میں شبِ عاشور کو کسی بڑے بزرگ کو حال نہیں آیا، ابھی شرکائے جلوس اس شش و پنچ میں تھے کہ کیا کریں، اتنے میں اباجان کے ایک ساتھی شاہ نور کو حال آگیا۔ فوری طور پر چاروں طرف لوگوں کا گھیرا ڈال کر اسے قابو کیا گیا۔ ادھر گاﺅں کے بڑے بوڑھوں نےدیکھا کہ اس دفعہ ایک لڑکے کو حال آیا ہے تو انھوں نے فوراً اس کے تمام ہم عمر ساتھیوں کو بلایا جن میں اباجان بھی شامل تھے، اور انھیں ہدایت کی کہ اب اس حال آئے ہوئے شاہ نور کو سنبھالنا تمہارا کام ہے۔ لہٰذہ سب لڑکوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ دو نے اسے بغلوں سے سہارہ دیا ، اس کی کمر پر شہسوار کسا گیا اور یوں وہ جلوس لے چلنے کے لیے تیا ر کیا گیا۔ جلوس روانہ ہوا، اس شان کے ساتھ کہ اس دفعہ حال ایک لڑکے پر آیا تھا اور وہی سواری بنا ہوا تھا۔ کچھ دیر کے لیے اباجان کی بھی باری آئی اور انھوں نے ایک طرف سے شاہ نور کی بغل میں ہاتھ ڈال اسے سہارہ دیا اور چل پڑے۔ خود بتاتے تھے کہ اس روز اس کا زور اتنا تھا کہ سنبھالا نہ جاتا تھا۔ حال آنے کی وجہ سے اس کی جوتیاں ادھر ادھر ہوگئی تھیں اور وہ ننگے پیر چل رہا تھا جبکہ دونوں اطراف دونوں لڑکے چپلیں پہنے ہوئے تھے۔ یک بارگی کسی کا پیر اس کے پیر پر آیا تو اس نے فوراً دونوں ساتھیوں کو ہلکی آواز میں گالی دے کر احتیاط سے چلنے کو کہا۔ اباجان اور دوسرا ساتھی چونک پڑے۔ حال کی حقیقت ان پر آشکارہ ہوچکی تھی۔ اب تو دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کیے اور ایکشن کے لیے تیار ہوگئے۔ اب جو انھوں نے شاہ نور کو لیکر بھاگنا شروع کیا ہے تو اس کی تو میا ہی مر گئی، وہ تھک کر چور ہوگیا لیکن دونوں نے باز نہ آنا تھا اور وہ نہ آئے اور اسے لیکر بھاگتے ہی رہے۔ لوگوں نے مارے حیرت کے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں، واقعی اس مرتبہ تو اس لڑکے پر بڑا زبردست حال آیا تھا۔ آخر خدا خدا کرکے وہ رکے اور وہ بھی اس طرح کہ چاروں طرف سے معتقدین کے ہجوم نے انھیں روکا اور مارے عقیدت کے بھر پور نعرے بازی کی ۔ وہ محرم باسم کا ایک یاد گار محرم بن گیا۔

وقت گزرتا رہا، دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے رہے، ان حالات و واقعات اوران جیسے بے شمار دیگر دلچسپ واقعات نے بچپن ہی میں اباجان کی کردار سازی میں بھرپور حصہ لیا اور یوں اپنی زندگی کے اوائل ہی میں وہ ایک پختہ اور غیر متزلزل کردار کے مالک بن چکے تھے۔ مطالعہ کی عادت جو گاﺅں کے مڈل اسکول نے ڈالی ، زندگی بھر ان کے محبوب ترین مشغلہ کے طور پر ساتھ رہی۔ بچپن میں بڑے ماموں کی کتابوں کا ذخیرہ ہاتھ آیا اور اس پر خوب فیاضی کے ساتھ ہاتھ صاف کیا۔ علم ، ادب ، دیومالا، شاعری غرض ہر قسم کی کتابیں پڑھیں۔ لڑکپن میں جب گھر سے رخصت ہوکر تبلیغ دین کے لیے اس تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور حیدرآباد پہنچے تو جامعہ عثمانیہ کی عثمانیہ لائبریری اورحیدرآباد کی دیگرپبلک لائیبریریوں سے استفادہ کیا اور خوب کیا۔

ایک رات اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گھر آرہے تھے ۔ رات کا سناٹا پھیل چکا تھا اور گھروں میں چراغ اور دئیے بھی بجھ چکے تھے جس کے باعث اندھیرا اور بڑھ گیا تھا۔ گھر کے قریب پہنچے تو سناٹے میں ایک جانب سے گھنگرؤوں کی آ واز ابھری اور قریب آتی چلی گئی۔

یہ بات لوگوں مین مشہور تھی کہ یہاں رات کو گھنگرو بجنے کی آواز آتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہاں کوئی چڑیل ہے ۔ اسلئے لوگ رات کو یہاں سے گزرنے سے گریز کرتے تھے ۔ گھنگرؤوں کی آواز سن کر دونوں بھائیوں کے دل میںخیال چڑیل ہی کا آیا۔ تایا تو بہت گھبرائے ۔کہنے لگے، ” اسماعیل آج غلط پھنس گئے، بس بھاگ چلو!“

لیکن اباجان کے ذہن میں اس وقت ڈر یا خوف کا نام و نشان تک نہ تھا۔اباجان نے اس ہیبت ناک ماحول میں ا س نئی بپتاءکو کس طرح برداشت کیا اور ان کا پہلا رد عمل کیا تھا؟ خود کہتے تھے کہ یہ آواز سنتے ہی انھوں نے جھٹ اپنی تلوار نکال لی اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کرلیا۔ آواز قریب آتی چلی گئی اور پھر اچانک ایک درخت کے پیچھے سے ایک عورت پیروں میں گھنگرو پہنے چھن چھن کرتی ہوئی نمودار ہوئی تو اباجان نے تلوار سونت لی اور تلوار اس کے پیٹ کی طرف کرکے دوڑے تاکہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیںلیکن نشانہ خطا ہوا اور وہ عورت بہت تھوڑے سے فرق سے بچ گئی۔ قریب پہنچ کر جب اس چڑیل پر نظر پڑی تو اباجان سناٹے میں آگئے۔ وہ عورت کوئی چڑیل نہیں بلکہ گاﺅں کی ایک پاگل عورت عظیم دیوانی تھی جو گھنگرو باندھے گھوماکرتی تھی۔اباجان اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس دن ان کا نشانہ خطا ہوگیا اور وہ د ۔ یوانی عورت ان کے وار سے بچ گئی۔

ذرا غور کیجیے ، ایک چڑیل کا مقابلہ کسی وظیفے سے نہیں بلکہ اپنی تلوار سے۔ یہ وہ رویہ تھا جو اباجان نے ساری زندگی مافوق الفطرت کے بارے میں روا رکھا، جس میں ان کی اپنی زندگی کے حالات و واقعات کے علاوہ تاریخ اسلامی کا بھی اسی انداز سے مطالعہ شامل تھا۔سال ہا سال بعد جیل کے اندر ایک تعویز بنا کر جیلر کو دیا ضرور تھا اور اس تعویز نے اپنا اثر بھی دکھلایا تھا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ کن حالات میں ، کس ذہنی کیفیت میں اورکس موڈ میں انھوں نے یہ تعویز بنایاتھا، کیونکہ وہ تعویز گنڈوں، جن بھوتوں ، چڑیلوں ، عملیات و کرامات اور معجزات میں یقین نہیں رکھتے تھے۔مرض الموت میں ایک مرتبہ بھائی نے ان سے اجازت چاہی کہ وہ ایک بزرگ سے اباجان کا روحانی علاج کرواسکے۔ اباجان نے صاف انکار کردیا۔

ان سب کے باوجود اباجان کی زندگی ایسے محیر العقل کارناموں سے بھری پڑی ہے جو ایک عام انسان کے بس میں نہیں۔ایک مرتبہ دریاے سندھ عبور کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر موجود لوگوں نے نجانے کیا سوچ کر اباجان کو آواز دے کر پوچھا تھا کہ وہ آدمی ہیں یا جن ہیں۔ تھے تووہ انسان ہی ، اسلئے کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے مگر وہ ایک ایسے گوہر کی طرح تھے جو اپنی تمام تر خوبصورتی سمیت اپنے سیپ میں چھپا رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭​
 
باب سوم۔فسانہ آزاد
جوانی دیوانی
محمد خلیل الر حمٰن

اباجان نے آٹھویں جماعت پاس کی اور اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد جانے کا قصد کیا ہی تھا کہ حیدرآباد سے ایک تبلیغی جماعت کے کچھ اصحاب باسم پہنچے اور وہاں پر جلسہ کیا اور اس میں تقریریں کیں ۔اس وفد کے سربراہ مولانا قاسم علی عرف تایا تھے جنھوں نے اباجان سے بات کی تو ان کے خیالات اور علمیت سے خاصے متاثر ہوئے اور ان کے اباسے درخواست کی کہ اللہ کے نام پر وہ اس بچے کو تبلیغ ِ اسلام کے لیے وقف کردیں اور انھیں اس بچے کو اپنے ساتھ حیدرآباد لے جانے کی اجازت دیں۔دادا نے بخوشی اجازت دیدی ۔گاﺅں میں ایک دکان دار ابراہیم بھائی جو اباجان سے کچھ سال بڑے تھے اور ان کے بہت اچھے دوست تھے ،وہ بھی اباجان کے ساتھ حیدرآباد جاکر دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اس طرح اباجان سولہ سال کی عمر میں اپنے ماں باپ سے رخصت ہوکر، ابراہیم بھائی کے ساتھ دین کی خدمت اور االلہ کا کام کرنے کی نیت سے حیدرآباد پہنچ گئے اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔یہ وہ موقع تھا جس نے اباجان کے طرز زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا اور وہ باسم کے ایک کھلنڈرے لڑکے سے ایک نوجوان مبلغ میں تبدیل ہوگئے جس کاکام علم حاصل کرنا، دین کی اشاعت اور اللہ کے نام کو پھیلانے کی غرض سے ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کرنا اور تقریروں اور مناظروں کے ذریعے اسلام پھیلانا تھا۔

حیدرآباد پہنچ کر اباجان نے وہاں کی بڑی بڑی لائبریریوں میں جانا اور وہاں سے اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا، حیدرآباد کے ایک علاقے نام پلی میں یوسف شریف صاحب کی درگاہ سے ملحق ایک بڑی اور بہت اچھی لائبریری تھی۔اور وہاںپر ہر قسم کی علمی اور ادبی کتابیں
دستیاب تھیں۔ اسی طرح جامعہ عثمانیہ کی آصفیہ لائبریری ۔اباجان نے اپنا زیادہ وقت ان لائبریریوں میں گزارنا شروع کردیا اور مطالعے کو
اپنی عادت ثانیہ بنا لیا۔

اس مطالعے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اباجان نے اپنے پیر صاحب کے معمولی قسم کے خیالات کو اپنے ذہن میں بالکل جگہ نہ دی اور نہ ہی ان خیالات کو اپنی تقریروں کا حصہ بنایا۔جہاں پیر صاحب اور ان کے دیگر مرید جنھیں پڑھنے لکھنے سے قطعاً کوئی لگاﺅ نہیں تھا، ایک خود ساختہ
فلسفے پر یقین رکھتے تھے جس کی بنیاد چند اوٹ پٹانگ قسم کی پیشن گویوں پر تھی جن کے مصداق، عنقریب ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا

تھا اور ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں کے نیچے گڑے ہوئے سونے چاندی اور ہیرے جوہرات کے خزانے مسلمان مجاہدوں کے ہاتھ آنے والے تھے۔ شاید ان خزانوں کا چکر ہی اس لیے چلایا گیا تھا کہ مریدان ان کے گرد اکٹھے رہیں اور اس وقت کے انتظار میں چندہ کرکے اپنا وقت گزارتے رہیں جب انھیں ان خزانوں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں سے ایک بڑا حصہ حاصل ہوجانا تھا۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں ان پیشن گوئیوں کا خلا صہ پیش کیا جاتا ہے جو بقول پیر صاحب کے، آٹھ سو سال قبل بزرگانِ اہلِ ہنود نے کی تھیں اور ان میں پیش کردہ چن بسویشور دراصل خودیہی پیر صاحب ہیں۔لہٰذہ پیر صاحب اپنے تیئں چن بسویشور کہلاتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس جنم میں مسلمان پیر بن کر وارد ہوئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پیر صاحب کے ماننے والے آوا گون میں یقین رکھتے تھے، اور اس معاملے میں عام مسلمانوں کے ذہن میں پیدہ ہونے والے شبہات کو دور کر نا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب گجرات کے ایک تاجر نجمی نے اباجان کے ساتھی سے اس بارے میں رہنمائی چاہی تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور آخر کار اباجان ہی نے جو آوا گون کی اس خرافات کو عین خلاف ِ اسلام سمجھتے تھے ، ان سے بات کی اور انھیں قائل کیا کہ اسلام ہی دینِ فطرت ہے جس میں آواگون جیسی خرافات کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ باب ہشتم ” سوئے منزل چلے“ میں آئے گا۔اب پڑھئے بشارات:۔

۱۔ آگے چن بسویشور جگت پاک کریں گے، چھ مذاہب اور ایک سو ایک ذات کے اختلافات مٹا کر ایک ہی مذہب وکرم ویر شیو قائم کریں گے۔

۲۔ کلیوگ سے پاپ دھویا جائیگا۔ چن بسویشور بارہ لاکھ فوج سے لیس ہوکر آئے گا۔ شری چندی گری( ترپتی کا مندر) خان خانوں کے ساتھ مل کر چلے گا۔ شری گری ( ترپتی کے مندر) میں خزانہ نکالے گا۔ والی کا خزانہ نکالنے کا وقت آئے گا۔ وقت آنے پر فوراً خزانہ نکال لیں گے۔

۳۔ اس وقت شہر بنگلور چار میناروں تک پھیل جائے گا۔ اور برباد ہوجائے گا۔ ترک ترپتی کے دیو استھان میں گھسیں گے۔ مسلمانوں کو

دولت مل کر تین گھڑی میں بڑے بڑے گنبد اور مقبرے بنائیں گے۔

۴۔ شری گرو چن بسویشور ایک پدم سے تین پدم تک دولت والی بھنڈار سے نکالیں گے۔ وہ بھنڈار یعنی خزانہ نکال کر گدک میں سیوراج پٹن
بنائیں گے۔

۵۔ اسی ہزار گھوڑے سوار، مست پٹھان بڑی ندی پار ہوکر کرناٹک میں داخل ہوں گے۔ہری ہر دیول کی مورتیاں توڑ دیں گے۔ مسلمانوں کی فوج بلند آواز سے نعرے مارتی ہوئی لڑے گی، ان کے مقابلے کی تاب کسی کو نہ ہوگی۔ اور ان گنت بے شمار مسلمانوں کی فوج ترپتی میں داخل ہوگی۔ شری وینکٹش کی دیول میں گھس کر نذر مانا ہوا خزانہ پھوڑیں گے۔وغیرہ وغیرہ۔

ان پرانی بشارات کو بنیاد بناتے ہوئے پیر صاحب کو غیب سے یہ الہام ہوچکا تھا کہ ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا ہے اور وہی دراصل چن بسویشور ہیں جو اس نئے جنم میں مسلمان بن کر پیدا ہوئے ہیں،جن کے ہاتھ پر تمام ہندوستان مسلمان ہوگا۔ ادھر ان کے ساتھ رہنے والے مبلغین اور مجاہدین پر ہمپی کا والی بھنڈار اور ترپتی مندر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے۔پیسہ ہی پیسہ۔دولت ہی دولت۔

ادھر دوسری طرف اباجان ان خرافات پر ذرہ برابر بھی کان نہ دھرتے تھے۔ اباجان کا اندازِ تقریر بڑا سادہ مگر پر اثر تھا۔ وہ اگرچہ اپنے پیر بھائیوں کی طرح پیر صاحب کے اوٹ نٹانگ فلسفے کو بیان نہ کرتے ۔ ان کی تقریروں کا مآخذ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی لکھی ہوئی سیرت النبی کے علاوہ مولانا مناظراحسن گیلانی اور ڈاکڑحمید اللہ کے وہ لیکچر ہوتے تھے جنہیں اباجان بڑے شوق سے سنتے تھے اور ان سے حاصل کردہ معلومات ان کے ذہن کے کمپﺅٹرمیں محفوظ ہوجاتی تھیں۔ وہ سادہ، علمی قسم کی گفتگو کرتے اور ہر مرتبہ ایک نئے انداز سے ایک نئے موضوع کو لے کر چلتے۔ نوجوان سامع حضرات ان کے اس انداز کو بہت پسند کیا کرتے تھے۔ ان کے جلسوں میں طالبانِ علم باقاعدہ کاپی پینسل لے کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کے بیانیہ کے دوران نوٹس لیا کرتے۔

دوسال حیدرآباد میں گزارنے کے بعد پہلی مرتبہ گھر لوٹے ، اس دوران دونوں چھوٹے بھائی اکبر اور سرور ان کو تقریباً بھول چکے تھے، وہ اس چھوٹی سی داڑھی والے اس نوجوان مبلغ کو یوں بے دھڑک گھر میں گھستے ہوئے دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے اور دور جاکر چھپ گئے۔ ماں باپ نے گلے سے لگا لیا ، گاﺅں میں خوب واہ وا ہو گئی۔بارے داڑھی کا کچھ بیاں ہوجائے۔ نوجوانی میں اباجان اس تبلیغی جماعت میں مشولیت کرکے باقاعدہ اسلامی مبلغ اور عالم بن گئے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کی ابھی داڑھی نہیں نکل پائی تھی۔ ساتھیوں کے مشورے سے دونوں گالوں اور

ٹھوڑی پر ایک خاص پودے کے پتوں کو لے کر ملا اوراس قسم کی کوششیں رنگ لائیں اور اباجان ایک عدد چھوٹی سی خشخشی داڑھی کے مالک بن
گئے۔

انھی دنوں گاﺅں میں سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا تو ان نوجوان مولانا کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ اباجان کے ساتھ ان کے دادا، تایا، ابا اور تین

چچا بھی اس جلسے کی کارروائی سننے کے لیے جلسہ گاہ پہنچے۔ اباجان کو جلسہ کے آغاز سے پہلے اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی جسے انھوں نے شکریے کے ساتھ نامنظور کیا۔ ان کے بقول ان کے خاندان کی اتنی بڑی بڑی ہستیاں اس وقت جلسہ گاہ میں نیچے دری پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کی موجودگی میں وہ اسٹیج پر چڑھ کر بیٹھنے کو ان بزرگوں سے بے ادبی تصور کرتے ہوئے نیچے ہی بیٹھنا چاہتے تھے۔ جب ان کی باری آئے گی وہ اس وقت اسٹیج پر پہنچ جائیں گے تاکہ تقریر کرسکیں۔

اباجان کی باری آئی اور انکا نام پکارا گیا تو وہ انتہائی ساگی کے ساتھ اٹھے اور اسٹیج پر جاکر اپنی تقریر شروع کی۔ گاﺅں والوں اور خاندان والوں کے نزدیک وہ وہی چھوٹے تھے لیکن جب اباجان نے اپنی تقریر شروع کی تو پورے پنڈال میں سناٹا چھاگیا۔ اباجان نے اپنی سادہ مگر پر اثر تقریر سے نہ صرف اپنے خاندان والوں بلکہ پورے گاﺅں والوں کے دل جیت لیے۔سب لوگ باری باری اسٹیج پر آئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ بڑوں نے انھیں گلے سے لگا لیا۔ خاص طور پر ان کے اسکول کے اساتذہ خان سر اور صدیقی سر نے ان کی تقریر کے انداز اور گفتگو کے فن کو خوب سراہا۔ یہ خان سروہی استاد تھے جنھوں نے انھیں اس تبلیغی جماعت میں شامل ہونے سے منع کیا تھا کہ یہ لوگ فراڈ لگتے ہیں تو ان میں جاکر شامل نہ ہواور اباجان کے یہ کہنے پر کہ یہ ان کے ابا کا حکم ہے کہ وہ اس جماعت میں شامل ہوکر اسلام کی خدمت کریں لہٰذا وہ اپنے باپ کا حکم نہیں ٹال سکتے، انھیں مارا بھی تھا۔ انھوں نے اباجان کی تقریر سنی تو باقاعدہ رودیئے۔انھوں نے اباجان کو ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں ۔ گو وہ انھیں علیگڑھ بھیجنا چاہتے تھے مگر اباجان کی علم دوستی اور علمیت کودیکھ کر وہ خاصے متاثر ہوئے اور دعاگو ہوئے کہ اللہ تیری حفاظت فرمائے۔

ادھر گاﺅں والے اس جلسے کی کامیابی کا جشن منارہے تھے، ادھر اباجان کے دوستوں نے انھیں گھیر لیا اور اطلاع دی کہ گلاب نانا صاحب گاﺅں سے دور ایک ویرانے میں قبرستان والی مسجد میں چلہ کاٹ رہے ہیں تاکہ جنوں کو قابو کر سکیں۔ اباجان فوراً ان دوستوں کے ساتھ روانہ ہوگئے اور جنوں کی اس جماعت نے اس قبرستان پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور ہو کا عالم ۔نہ آدم نہ آدم زاد۔ کسی طرف کوئی ذی ہوش نظر نہ آتا تھا۔ساون کا مہینہ اور برسات کے دن تھے۔ زمین پر ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔بادل چھائے ہوئے تھے۔ ذرا دیر میں اندھیرا چھا گیا۔ ان دوستوں نے سفید کورے لٹھے کے لمبے لمبے جبے اور لمبی لمبی ٹوپیاںپہلے ہی سے سی کر تیار رکھے ہوئے
تھے۔سب دوست فورا ہی اپنے لباس تبدیل کرکے ایکشن کے لیے تیار ہوگئے۔ عشاءکا وقت ہوا تو گلاب نانا نے اپنا وظیفہ چھوڑا ، خود ہی
کھڑے ہوکر اس ویرانے میں اذان دی ، اقامت کہی اورجنوں کے امام بن کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔

دوستوں نے ایک عدد مہتابی کا پہلے ہی سے بندوبست کررکھا تھا۔ پانچ لڑکے تو فوراً ہی امام صاحب کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔

چھٹے نے کچھ دیر بعد مہتابی روشن کی اور اسے ایک طرف رکھ کر خود بھی نیت باندھ کر نماز میں شامل ہوگیا۔روشنی ہوتے ہی گلاب نانا نے پہلے تو کنکھیوں سے پیچھے کی جانب دیکھا اورپھر چونک کر مڑے ۔ اصلی جنوں کو دیکھتے ہی ان کی سٹی گم ہوگئی۔ نماز بھول کر یا علی کا ایک نعرہ مستانہ لگایا اور بے ہوش ہوکر زمین پر لڑھک گئے۔

مقتدی جنوں نے فوراًسے پیشتر سفید کورے لٹھے کے چوغے اتار پھینکے اور بھاگے تو گاﺅں واپس پہنچ کر ہی دم لیا۔ ادھر دو ساتھی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت گاﺅں کے بڑے بوڑھوں کے پاس پہنچے اور گلاب نانا کے قبرستان کی مسجد میں بے ہوش پڑے ہونے کی اطلاع دی۔ ان کی خبر کے مطابق وہ داداکی قبر پر فاتحہ پڑھنے قبرستان گئے تھے کہ وہاں پر مسجد میں گلاب نانا کو دیکھا۔ گاﺅں والے بھاگتے ہوئے گئے اور گلاب نانا کو چارپائی پر ڈال کر واپس لیتے آئے۔چہرے پرپانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آگئے پر اس دن کے بعد پھر گلاب نانا نے جنوں کو قابو کرنے کا نام تک نہ لیا۔ اباجان گاﺅں سے واپس حیدرآباد آگئے۔یہ دورہ اباجان کا اپنے آبائی گاﺅں باسم کا آخری دورہ ثابت ہوا

اباجان کی اپنے گھر میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اباجان کے حیدرآباد منتقل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعدجب ہندو مسلم کشیدگی بڑھی تو سارا گھرانا باسم ( سی پی برار ) سے حیدرآباد منتقل ہوگیا اور پیر صاحب کے کمپاﺅنڈ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک گھر کرائے پر لے کر وہاں پر رہائش اختیار کر لی۔ ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ۵۳۹۱ءکے پہلے جداگانہ انتخابات کے نتیجے میں کانگریس کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی تھی۔ نتیجہ کے طور پر کانگریس کھل کھیلی اور اس کا مسلم دشمن رویہ سب کے سامنے آگیا۔ اس سے پہلے تمام علاقوں میں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔اباجان کا گاﺅں باسم جو ہندو اکثریت کا علاقہ تھا، وہاں پر بھی ہندو مسلمان مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ وہ کباڑی کاکا ہوں یا ہندو نانی یا مسلمان بزر گ ہو ں وہ سب چھوٹوں کو چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو اپنے بچے سمجھتے تھے۔کوئی بھی بزرگ کسی بھی بچے کو کسی بھی وقت کوئی بھی کام کہہ سکتا تھا، اور اس بچے کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس بزرگ کو اس کام کے لیے انکار کردے۔ یہ تھا ۵۳۹۱ءسے پہلے کا ہندوستانی معاشرہ۔ جب اس سال جداگانہ انتخابات کا ایکٹ منظور ہوا اور کانگریس اقتدار میں آئی تو تمام علاقوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔فضاءمکدر ہوگئی۔ ہندو اپنے ڈھول تاشے والے جلوس نکالتے اور ان کا اصرار ہوتا کہ عین مسجد کے سامنے کھڑے ہوکر ڈھول پیٹیں گے۔ مسلمان اپنی مسجدوں کی یہ توہین برداشت نہ کرسکتے لیکن کچھ نہ کہہ سکتے۔ ان کی طرف سے جوبی اقدام کے طور پر مسجد کے صحن میں ایک گائے کو لاکر کھڑا کردیا جاتا اور اسے ذبح کرنے تیاریاں ہونے لگتیں۔ یہ دیکھ کر ہندوﺅں میں اشتعال پھیل جاتا اور یوں فسادات پھوٹ پڑتے۔


ادھر اباجان کی تبلیغ اور ہندوﺅں کے ساتھ ان کے مقا بلوں کی خبریں پھیل چکی تھیں اور ہندو خاص طور پر مرہٹے ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے ۔ اس لیے گھر والوں نے اباجان کو منع کردیا کہ وہ گاﺅں نہ آئیں۔جب صورتحال اور بگڑی تو اباجان کا تمام گھرانا باسم سے حیدرآباد دکن ہجرت کرگیا۔اباجان حیدرآباد میں ہوتے تو تینوں چھوٹے بھائی ، یعنی ہاشم چچا، سرور چچا اور اکبر چچا جو اباجان سے بہت زیادہ گہرا لگاﺅرکھتے تھے ، یہ تینوں ان کے ہی گرد منڈلایا کرتے۔ خاص طور پر نماز میں اباجان کے ہمراہ ہوتے۔

اسی دور میں اباجان نے اپنے کئی ساتھی بنالیے جو ان کے ارد گرد ہی رہتے اور ان کی شوخیءطبع اور مزاج کی رنگینی کے شایق و گرویدہ تھے۔ ان کے یہ جاں نثار ساتھی ان کے ایک اشارے پر کٹ مرنے تک کے لیے تیار رہتے تھے، ان میں سر فہرست سیف اللہ تھے۔ پیر صاحب کی پہلی بیوی کے چھوٹے بھائی ننھے ماموںبھی اباجان کے اس گروہ میں شامل تھے۔یہ تمام ساتھی فارغ وقت میں اباجان کے ساتھ مل کر تلوار کے داو پیچ اور کرتب سیکھا کرتے تھے۔اباجان کا شعری ذوق بہت اچھا تھا اور کبھی کبھی خود بھی شعر کہا کرتے تھے ، لہٰذاکبھی کبھار شعر و شاعری کی محفلیں بھی سجا کرتیں۔ اباجان ہی کی طرح یہ لوگ بھی چائے اور پان وغیرہ کے شوقین تھے۔ چائے پینے اور پان کھانے کے لیے اپنے کمپاﺅنڈ سے دور ایک ہوٹل تک جایا کرتے اور وہاں پر اپنے مشاغل سے فارغ ہوکر
عشاءکی نماز کے لیے یا محفل کے لیے مسجد پہنچتے تو پہلے خوب اچھی طرح کلی وغیرہ کرلیتے تاکہ پان کا رنگ ان کے ہونٹوں یا زبان سے ظاہر نہ ہو۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، یہ لوگ چائے پینے کے لیے ہوٹل پہنچے تو ہوٹل والے نے جو غمگین بیٹھا ہوا تھا ان لوگوں سے چاﺅشوں کی شکایت کی۔ چاﺅش دراصل نسلاً عرب تھے جو شاید صدیوں پہلے ہندوستان آئے تھے اور یہیں کے ہورہے تھے۔ انھوں نے علاقے میں اپنی دہشت

پھیلا رکھی تھی۔ تاڑی ( ایک قسم کا نشہ) پینے میں ماہر تھے۔ نشے میں،لوگوں کو وقتاً فوقتاً لوٹ لیا کرتے، یا ان سے بدتمیزی کے ساتھ پیش
آتے تھے۔ ہوٹل والے نے بتایا کہ وہ لوگ اس کے پاس کھانا کھانے آئے تھے اور اس کے پیسے مانگنے پر اسے مارا پیٹا تھا اور پیسے دیے بغیر
ہی چلے گئے تھے۔ اباجان اور ان کے ساتھیوں کو تویہ موقع خدا نے دیا تھا۔ ایک مظلوم کی داد رسی ان کا فرضِ اولین تھا۔ ان سب نے اپنی تلواریں سونت لیں اور دندناتے ہوئے چاﺅشوں کے ڈیرے پر پہنچ گئے اور انھیںباہر بلا کر پہلے تو خوب مارا پیٹا اور آخر کار ان سے ہوٹل
والے کے پیسے لے کر لوٹے۔

اگلے دن چاﺅشوں کا گروپ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اباجان اور ان کے گروہ کی شکایت کی۔ بات نکلی تو بات کھل

گئی۔ چاﺅش اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوئے اور خود ہی معافی مانگ کر وہاں سے رخصت ہوئے۔یہ وہ دن تھا کہ اطراف میں اباجان کے ساتھیوں کی دہشت اس علاقے میں پھیل گئی اور وہاں کے غنڈے بھی ان اللہ والوں سے ڈرنے لگے۔

جہاں دوسرے مرید اپنے تبلیغی دوروں میں چندہ مانگنا اپنا دینی اور دنیاوی فریضہ سمجھتے تھے وہیں اباجان کا وطیرہ یہ تھا کہ جو مل گیا صبر و شکر کے
ساتھ کھا لیا، کبھی کچھ نہ ملا تو بھوکے سو گئے۔ انھوں نے زندگی بھر کسی بھی انسان کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔دراصل پیر صاحب نے دیگر مریدوں کے ساتھ یہ سلسلہ رکھا تھا کہ مرید کے لائے ہوئے چندے کے تین حصے کیے جاتے، ایک حصہ اس مرید کو لوٹا دیا جاتا،
دوسرا حصہ پیر صاحب کی جیب مبارک میں جاتا اور تیسرا حصہ بیت المال میں جمع کردیا جاتا۔ اباجان جیسے سرپھرے مبلغ ، زیادہ نہیں پر دوچار توتھے ہی، وہ جب چندہ نہ لاتے تو انھیں اسی بیت المال سے ایک معمولی سی رقم جیب خرچ کے لیے دیدی جاتی جس سے وہ اپنا گھر بمشکل چلا پاتے تھے۔

ہمارے نانا جناب عبدالشکور صاحب بنگلور کے ایک متمول آدمی تھے اور ان کے خاندان کے دیگر لوگوں کی طرح ان کے اپنے بھی کافی اور الائچی کے کئی باغات تھے جہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی۔شادی بھی ایک متمول گھرانے میں ہوئی۔ آدمی سیدھے سادے تھے۔ جب ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی دعوت پہنچی تو فوراً راضی ہوگئے اور اپنا گھر اورباغ اونے پونے بیچ کر تمام روپیہ لیا بیوی بچوں کو ہمراہ لیا اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ سارا روپیہ پیسہ پیر صاحب کے قدموں میں ڈال دیا اور اللہ کے دین کی خدمت میں مگن ہوگئے۔ اللہ نے بیٹیاں ہی بیٹیاں دی تھیں، جن کا بچپن امیری میں گزرا تھا۔ بیوی اور بچے بھی صبر و شکر کے ساتھ وہیں پیر صاحب کے احاطے میں ملے ہوئے ایک معمولی گھر میں رہنے لگے۔ نانا بھی دیگر مریدوں کی طرح دوروں پر جاتے، اللہ کے دین کو پھیلاتے، چندہ کرتے اور لاکر پیر صاحب کی خدمت میں پیش کردیا کرتے ، جیسا کہ وہاں کا دستور تھا۔ پیر صاحب حسبِ معمول ایک تہائی حصہ انھیں
لوٹادیتے اور یوں ان کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی۔

چند سال پہلے چھوٹا بھائی ریاض اپنی سسرال بنگلور ہندوستان پہنچا تو رشتہ داروں نے نانا کی چھوڑی ہوئی حویلی دکھائی جو اب بھی اپنی عظمتِ رفتہ کی کہانیاں سنارہی تھی ۔وہیں پیر حاحب کے مریدوں میں سے ایک صاحب کے ساتھ نانا نے اپنی بڑی بیٹی کا نکاح کردیا۔ اماں دوسرے نمبر کی بیٹی تھیں لہٰذا ان کے بعد نانا اماں کے لیے ایک مناسب بر کی تلاش میں تھے۔

اباجان جہاں بھی گئے تقریروں میں انھوں نے بقول اکبر چچا اپنی ہی بات کی ، کسی دوسرے کے خیالات مستعار نہیں لیے۔ اپنے پیر صاحب

یا پیر بھائیوں کے فلسفے کو نہیں بیان کیا۔ سیرت پر اتنا اچھا بولتے تھے ،اتنا ڈوب کر اور اس قدر پیار اور محبت سے بولتے تھے کہ لوگ ان کی تقریروں سے بڑے متاثر ہوتے۔ مدراس میں اباجان کی ان تقریروں کی وجہ سے خاکسار ان کے دوست بن گئے اور اپنے ہر جلسے میں
اباجان کو مدعو کرنے لگے۔وہاں پر جب سیرت کانفرنس ہوئی تو لوگوں اباجان کو سننا شروع کیا اور بہت مقبول ہوئے۔ یہاں تک کہ ایک ایسا موقعہ آیا کہ لوگوں نے حیدرآبادکے مقامی علماءکو سننے سے انکار کردیا۔اس بات سے مقامی مولوی حضرات بڑے ناراض ہوئے۔

اسی طرح کے جلسوں میں ہندو بھی موجود ہوتے اور اباجان کی تقریریں بڑے شوق سے سنتے، حالانکہ مدراس بڑا پر تعصب شہر سمجھا جاتا تھا جہاں پر لوگ صرف انگریزی یا تامل بولنا چاہتے تھے،اردو بولنے یا سننے کے لیے تیار نہ ہوتے، لیکن اباجان کی اردو زبان میں کی ہوئی تقریریں یہی لوگ بہت شوق و انہماک سے سنتے تھے۔اسی طرح اندور میں اباجان کے جلسوں کو بڑی پذیرائی ملی۔ مہاراجہ اندور ان کی تقریریں سن کر بہت متاثر ہوا۔ وہ انھیں ہر سال جلسے میں مدعو کیا کرتا تھا۔

انھی جلسوں میں نانا اور خالو ابا نے اباجان کو دیکھا اور ان کی تقریریں سنیں تو ان سے بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے آپس کے مشورے کے بعد طے کیا کہ اباجان اور اماں کی شادی کی بات چلائی جائے۔ حیدرآباد پہنچے تو یہی بات پیر صاحب کے گوش گزار کی جنہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور خود اباجان سے بات کی اور انھیں شادی پر آمادہ کرلیا۔

وقتِ مقررہ پر اباجان کو نکاح کے لیے بٹھایا گیا، مسجد میں سب مریدان موجود تھے۔ اباجان سے ایجاب و قبول کا مرحلہ شروع ہوا۔ پیر صاحب نے ایک مرتبہ اباجان سے پوچھا کہ وہ مولوی عبدالشکور صاحب کی صاحبزادی کو ان کے نکاح میں دے رہے ہیں، کیا انھوں نے قبول کیا؟ اباجان خاموش رہے۔ پیر صاحب نے پھر اپنا سوال دہرایا تو اباجان پھر بھی خاموش رہے۔ پیر صاحب نے تیسری مرتبہ یہی بات
دہرا کر اباجان سوال کیا تو انھوں نے کہا۔” پھر اور کس لیے میں یہاں آکر بیٹھا ہوا ہوں۔“

نکاح ہوگیا اور یوں اماں اباجان کے عقد میں آئیں اور اپنے گھر سے رخصت ہوکر اباجان کے گھر پہنچیں۔ شادی سے پہلے تک اباجان مسجد ہی میں قیام پذیر ہوتے تھے، کیونکہ گھر صرف شادی شدہ لوگوں ہی کو الاٹ ہوتے تھے۔ اباجان کی شادی ہوئی تو ہنگامی طور پر انھیں ایک گھر الاٹ کردیا گیا اور یوں اباجان اور اماں کی شادی شدہ زندگی کا آغاز ہوا۔

شادی ہوگئی۔ گھر کابھی انتظام ہوگیا، لیکن اب سوال یہ تھا کہ اب گھر کا خرچہ کیسے چلے۔ چندہ ایک طرف، اباجان نے کبھی کسی سے کچھ بھی

نہیں مانگاتھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہی پیر صاحب نے شاید بیت المال قائم کیا ہوا تھا ، لہٰذا اباجان کے اس مختصر سے خاندان
کے لیے بھی وظیفہ مقرر ہوگیا جو اباجان نے تو کبھی وصول نہیں کیا اس لیے کہ شادی کے بعد بھی وہ ٹک کر حیدرآباد میں نہیں رہے، بلکہ ایک آدھ ہفتہ گھر پرگزارنے کے بعد دور دراز کے علاقوں کے دورو ں پرنکل جاتے اور مہینوں شکل نہ دکھاتے۔ اس پر فتن دور میں یہی معمولی
سا وظیفہ اماں اور بعد میں بڑے بھائی کی گزر بسر کے لیے کافی ہوتا۔اس تنگدستی میں زندگی گزارنا اور وہ بھی اس حال میں کہ شوہر کو گھر کی کوئی پرواہ نہ ہو، وہ دنیا میں اللہ کا پیغام پھیلانے میں مصروف ہو، جان جوکھوں کا کام تھا۔ نازوں کی پالی اماں صبر و استقامت سے اس صورتحال کو سہتی رہیں اور اف تک نہ کی۔ نانا کا گھر اسی کمپاﺅنڈ میں ہونے کے باوجود اماں نہ کبھی اباجان کی غیر موجودگی میں اپنا گھر چھوڑکر وہاں گئیں اور نہ ہی ان سے کوئی مالی مدد وغیرہ قبول کی۔ شوہر کی عزت کی خاطر اپنے گھر کے قلعے کو سنبھالے ہوئے اسی تنگدستی میں گزارہ کرتی رہیں مگر مجال ہے جو باہر کسی کو پتہ بھی چلا ہو یا چہرے پر کوئی رنگ بھی آیا ہو۔ وہ واقعی صبر و استقامت کی پتلی تھیں۔

اسی اثناءمیں بڑے بھائی حبیب الرحمٰن پیدا ہوئے اور اپنی پیدائش کے کئی ماہ بعد تک باپ کی شکل کو ترستے رہے۔ کئی ماہ بعد جب اباجان سرحد کے دورے سے واپس آئے تو بیٹے سے ملاقات کی اور اسے سینے سے لگایا۔
٭٭٭٭٭٭
 
باب چہارم۔فسانہ آزاد
میدانِ عمل میں
محمد خلیل الر حمٰن

اباجان تبلیغ کے لیے نکلے تو اپنا سب کچھ بھول کر ایک اللہ کے نام کو متعارف کروانے اور اسے گھر گھر، بستی بستی، قریہ قریہ عام کرنے کے لیے اپنی ہستی کو مٹادیا ، اپنی ذات کو بھول گئے اور اپنے نفس امارہ کو مار کر صرف ایک بات کو یاد رکھا کہ وہ ذاتِ باری، وہ ہستی جس نے انھیں پیداکیا اور اس بات کا شعوراور اعزاز بخشا کہ وہ اسے پہچان کر اسکا نام اس دنیا میں پھیلا سکیں وہی اس دنیا کی واحد حقیقت ہے اور باقی سب دھوکے کی ٹٹی اور ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جب وہ دورے کے لیے نکلتے تو نہ انھیں اپنی بھوک اورپیاس یاد رہتی اور نہ سفر کی طوالت ہی ان کے قدم ڈگمگا سکتی۔ صرف ایک اللہ اور اس کے رسول کے دین کا پرچار کرتے ہوئے چلتے تو نہ تو وہ خود باقی رہتے، نہ ان کی ذات، نہ ان کی بھوک پیاس اورسفر کی صعوبتیں اور نہ دوست یار ،احباب اور گھر والے۔سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے تھا، جب لاد چلے تھا بنجارہ۔رہے نام اللہ کا۔

ایسے ہی ایک سفرکے آغاز میں جب ڈیڑھ دوسو کلو میٹر دور ماہورکے قلعے کا قصد کیا تو نہ منزل مقصود کی دوری ، نہ راستے کی تھکن اورنہ گھنے جنگلات اور ان میں موجود وحشی درندوں کا خیال ہی انھیں اپنے اس تنہا طویل سفر سے باز رکھ سکا اور وہ اللہ کا نام لے کر یکبارگی اٹھے اور روانہ ہوگئے۔زادِ سفر قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کے امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ اور مصر کے گورنر حضرت سعیدبن عامرؓکے نقشِ قدم پر انتہائی مختصر تھا۔

رات اور دن کی فکر نہ کرتے ہوئے، منزلیں طے کرتے، میدان مارتے ہوئے، درخت اور سبزہ زاروں کو پار کرتے، گھنے جنگل بیابان میں سے راستہ بناتے ہوئے، بستیوں اور ویرانوں کی سیر کرتے ہوئے، کبھی کچھ میسر آگیا تو کھالیتے ورنہ فاقہ کرتے ہوئے، اباجان چلے تو فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ گز، فرلانگ اور میل طے ہوتے چلے گئے اور اباجان اپنی منزلِ مقصود سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔

راستے میں ماہور کے قلعے سے نیچے، قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ، پہاڑ کی ترائی میںایک گاﺅںتھا۔ اباجان شام کے وقت اس گاﺅں میں پہنچ گئے۔اباجان کے سر میں قلعے کا سودا سمایا ہوا تھا، ادھر گاﺅں والوں نے بھی اباجان کو کوئی ایسی خاص لفٹ نہیں کروائی، لہٰذہ اباجان نے زیادہ وقت اس گاﺅں میں گز ارنے کی بجائے جلد از جلد اس گاﺅں سے فارغ ہوکر قلعہ تک پہنچنے کی ٹھانی۔ اس گاﺅں سے قلعے کے پھاٹک تک جانے کے لیے کئی کلومیٹر لمبا ایک راستہ تھا، جہاں سے قلعے کے اندر جانے کا راستہ نکلتا تھا۔ادھر یہ صورتحال تھی کہ قلعہ کی دیوار بالکل گاﺅں کے ساتھ ایک گھنے جنگل میں سے ہوکر گزرتی تھی۔اباجان نے کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پھاٹک تک پہنچنے کی بجائے، جنگل سے گزر کر دیوار تک پہنچنے اور پھر دیوار پھلانگنے کا پروگرام بنایا اور مسجد میں لوگوں سے الوداعی ملاقات کرکے آگے جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔

جنگل میں سے گزرتے ہوئے اباجان کو اس رات بارہا اس چڑیل کا خیال آیا جسے انھو ںنے ایسی ہی ایک رات میں اپنے آبائی گاﺅں کے قریب کے جنگل میں چٹکی ہوئی چاندنی میں چھم چھم کرتے چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ گو قریب آنے پر وہ گاﺅں کی ایک پاگل عورت نکلی تھی، لیکن کچھ دیر کے لیے تو اس نے اس پراسرار انداز میں چھم چھم کرتی پایل پہنے چلتے ہوئے اباجان کو پریشان کردیا تھا اور انھوں نے حفظ ِ ماتقدم کے طور پر اپنی تلوار بھی نکال لی تھی۔یہ جنگل نسبتاً خاموش تھا اور اس میں اباجان کی کسی چڑیل، بھوت پریت یا کسی وحشی جانور سے بھی ملاقات نہیں ہوئی اور وہ زندہ سلامت جنگل سے گزر کر قلعے کی دیوار تک پہنچ گئے۔

انھیں اپنی آسانی کے لیے دیوار کے قریب ایک برگد کا درخت بھی نظر آگیا جس پر چڑھ کر وہ بآسانی دیوار پھلانگ سکتے تھے۔ بچپن کا سیکھا ہوا درخت پر چڑھنا ان کے کام آیا اور وہ اس درخت پر چڑھ کر” کودا ترے آنگن میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا“ کے مصداق دوسری طرف چھت پر پہنچے اور وہاں سے نیچے کود گئے۔

نیچے ایک صاف دالان نظر آیا تو اباجان نے وہیں ایک اینٹ کو سر کے نیچے رکھ کر تکیہ بنایا اور اپنے رومال کو کندھے سے اتار کر اوڑھ لیا اور لیٹ گئے۔ تھکے ہوئے تو تھے ہی ،تھکن کے مارے جو آنکھیں بند کی ہیں توجلد ہی نیند نے ان پر مکمل غلبہ حاصل کرلیا اور وہ اور لمبی تان کر سوگئے۔

صبح اذان کے وقت کچھ شور سنا ، ہڑ بڑا کر اٹھے تو دیکھا کہ دائیں اور بائیںدونوں طرف سے دو ہٹے کٹے ” مشٹنڈے “قسم کے آدمیوں نے انھیں دونوں بازوﺅںسے پکڑ ا ہوا ہے اور کشاں کشاں ایک طرف کو لے چلے ہیں۔ یہ چھت دراصل ایک مندر کی تھی ، اباجان اس مندر میں کود پڑے تھے اور اب پکڑے ہوئے اس مندر کے پجاری کے سامنے پیش ہونے کے لیے لے جائے جارہے تھے۔
اس دالان کے دوسری طرف ایک تخت پر گاﺅ تکیہ سے ٹیک لگائے پجاری صاحب نیم دراز تھے، اباجان جو یوں پکڑ کر ان کے سامنے پیش کیے گئے تو وہ بھی مارے حیرت کے اٹھ بیٹھے اور اپنے سامنے فرش پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا، پھر اباجان کی طرف دیکھ کر گالی دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اباجان نے کڑک کر کہا۔
” گالی نہیں دینا مہاراج“

” ابے تو سالے چور، اچکے ، ڈاکو! تجھے اور کیا کہوں؟“ پجاری کے ساتھ ساتھ اس کے چیلے بھی اباجان کی اس دیدہ دلیری پر حیران رہ گئے۔

”میں چور ڈاکونہیں ہوں مہاراج“

” تو پھر کیا بھیک مانگنے آیا ہے؟“

” نہیں مہاراج، بھیک مانگنے نہیں بلکہ بھیک دینے آیا ہوں۔“

اباجان کے اس حیرت انگیز انکشاف پر نہ صرف پجاری بلکہ اس کے چیلے اور دیگر حاضرین بھی اس قدر حیرت زدہ ہوئے کہ ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

سب سے پہلے پجاری نے اپنے آپ پر قابو پایا اور کہنے لگے۔

” ابے تو میرے پوترے (پوتے)کے برابر ہے لونڈے۔ تو مجھے بھیک دے گا؟“

”جی مہاراج۔“

” اچھا تو پھر چل ٹھیک ہے۔ دے ،مجھے بھیک دے۔“ پجاری نے گویا ہار مانتے ہوئے کہا۔

اباجان نے نہایت اطمینان کے ساتھ دونوں اشخاص سے اپنے بازو چھڑوائے اور اسی اطمینان کے ساتھ چل کر پجاری کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئے۔ اب تو سب لوگ بہت سٹ پٹائے، دوتین تو اٹھے اور اباجان کی طرف بڑھے تاکہ انہیں تخت سے اتار کر نیچے پھینک دیں، لیکن پجاری نے ہاتھ اٹھاکر انھیں اس حرکت سے باز رکھا اور اباجان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

ابا جان نے تلاوت کے سے انداز میں ہاتھ با ندھے، آنکھیں نیم وا کیں اور چند ساعتوں کی خاموشی کے بعد سنسکرت میں مہابھارت اور راماین سے کچھ اشلوک پڑھنا شروع کردیے۔ یہ سننا تھا کہ پجاری سمیت تمام حاضرینِ محفل نے ہاتھ جوڑ دیے اور ہمہ تن گوش ہوگئے۔

پوری محفل پر سناٹا چھایا ہوا تھا،غالباً کوئی پندرہ بیس منٹ تک اباجان یہ اشلوک پڑھتے رہے اور حاضرین جھومتے رہے۔ اباجان نے پڑھنا ختم کیا تو کافی دیر تک محفل پر سناٹاچھایا رہا، آخر کچھ دیر بعد پجاری جی نے اباجان کے سامنے ہاتھ جوڑدئیے اور کہنے لگے۔

” دھنہ باد سادھو جی! بہت اچھے۔پر اب مجھے بھیک دے۔“

اب اباجان نے اللہ کا نام لیکر اپنی تقریر شروع کی اور اپنا موقف خوب دل کھول کر بیان کیا۔
اباجان کی تقریر ختم ہوئی تو محفل کا سناٹا برقرار تھا۔ تمام لوگوں پر ایک سکوت طاری تھا۔ بالآخر پجاری نے اس سکوت کو توڑا اور یوں گویا ہوئے۔

” بات تو تیری سولہ آنے ٹھیک ہے۔ جس طرح تو نے بیان کیا ہے، درحقیقت اسلام ہی وہ دین ہے جو اس وقت انسانوں کے مسائل کا حل بتلاتاہے۔ میں تیری باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، لیکن مسلمان ہونا اس وقت میرے بس میں نہیں ہے۔اس وقت میں اس وسیع علاقے کے ہندوﺅں کا مذہبی نمائیندہ اور سب سے بڑا پجاری ہوں اور اس حیثیت کو نہیں چھوڑ سکتا۔“

اسی اثناءمیں علاقے کا ڈاکیا جو اس محفل میں موجود تھا، اجازت لیکر آگے بڑھا اور علاقے کے مختلف لوگوں کی جانب سے پجاری کو بھیجے گئے منی آرڈرکا کاغذ بصد احترام پجاری صاحب کی خدمت میں پیش کرکے ان کے دستخط حاصل کیے اور جیب سے کئی ہزار کے نوٹ نکال کر پجاری کی خدمت میں پیش کردیئے۔


پجاری نے جو اس وقت تک اباجان کی شخصیت و کردار اور ان کے فن تقریر سے بے حد متاثر ہوچکے تھے ، وہ تمام روپے اٹھا کر اباجان کی گود میں ڈال دیئے اور کہا۔

” اتنا ضرور میں کرسکتا ہوں کہ تجھے خوش کردوں۔ لے یہ رکھ لے۔“

اباجان نے فوراً ہی وہ ہزاروں روپے واپس اٹھا کر پجاری کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”مہاراج ! مجھے یہ روپے دے کر شرمندہ نہ کریں اور نہ ہی مجھے اس اعزاز سے محروم کریں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے اپنے دین کا پرچار کرکے حاصل کیا ہے۔“

”تو مجھے پاگل لگتا ہے۔“ پجاری ہنس پڑے اور اٹھ کر اباجان کو گلے لگا لیا، اپنے ساتھ ناشتہ کروایا اور پھر اباجان کے اجازت مانگنے پر انھیں ساتھ لےکر پھاٹک تک چھوڑنے کے لیے گئے۔ اس طرح اباجان پجاری صاحب کے ساتھ اس ملاقات سے فارغ ہوکر روانہ ہوئے اور واپس اسی گاﺅں کی طرف بڑھے۔

اِدھر اُس ڈاکیے نے جو مسلمان تھا اور اباجان سے پہلے وہاں سے نکل آیا تھا، فوراً اپنی سائیکل سنبھالی اور تیز تیز پیڈل مارتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا۔ گاﺅں میں پہنچتے ہی اس نے سب گاﺅں والوں کو جمع کرکے اباجان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ کمال کے مولوی صاحب ہیں،ہزاروں روپے ٹھکرا دیئے اور ہندو پجاری کو اپنی تقریر اور اپنے طرزِ عمل سے اس قدر زیادہ متاثر کردیا کہ اس نے انھیں گلے لگالیا ا ور پھاٹک تک انھیںچھوڑنے کے لیے آیا۔

اباجان گاﺅں پہنچے تو گاﺅں والوں نے ایک جلوس کی شکل میں ان کا استقبال ، اعزاز و اکرام کیا۔ اس دن ان کی نظروں میں اباجان کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص انھیں اپنا مہمان بنانا چاہتا تھا۔ ان کی ہر روز کی دعوتیں شروع ہوئیں جو ختم ہونے میں نہ آتی تھیں۔ جس دن بھی اباجان واپسی کا قصد کرتے ،لوگ رو رو کر ان سے درخواست کرتے کہ آپ نے ہمارے گھر تو ابھی کھانا کھایا ہی نہیں۔ ہمیں بھی اپنی مہمانی کا
شرف بخشیے۔ اسطرح اباجان کوئی پندرہ بیس دن اس گاﺅں میں رہے اور جب تک سب گاﺅں والوں کے ہاں دعوت نہ کھالی ان کی جان بخشی نہیں ہوئی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان کے ایک پیر بھائی اپنے دورے کے دوران ایک علاقے میں پہنچے تو وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے سیرت کانفرنس کے نام سے اباجان کے لیکچرز کا ایک سلسلہ جاری تھا۔ قبلہ نے فوراً منتظمینِ جلسہ سے رابطہ قائم کیا اور فرمائش کی کہ جلسے میں پہلے ان کی تقریر رکھی جائے ورنہ آزاد جو ابھی بچے ہیں کہیں معاملہ کو بگاڑ نہ دیں۔ جلسہ شروع ہوا تو جوق در جوق لوگ چاروں طرف سے امڈے چلے آتے تھے۔ قبلہ بہت خوش ہوئے اور اپنی تقریر کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اسٹیج پر پہنچ گئے۔ ادھر لوگوں نے اباجان کے بجائے کسی اور مقرر کو دیکھا تو کھسکنے لگے، مگرمنتظمین نے فوراً اس صورتحال کا اد راک کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ آج پہلے مہمان مقرر تقریر فرمایئں گے اور اس کے بعد حسب ِ معمول مولانا اسمٰعیل آزاد صاحب کی تقریر ہوگی۔

ان صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو لوگ جو پچھلے کئی دنوں سے اباجان کی علمی تقریر سننے کے لیے جمع ہورہے تھے بڑی مشکل سے اس جذباتی قسم کی بے معنی اور بے سر و پا تقریر کو برداشت کیا اور اپنے تاثرات سے مقرر کو یہ احساس دلاتے رہے کہ ان کی تقریر ۔۔۔۔جوں ہی انھوں نے اپنی ”تقریر “ ختم کی اور اباجان اسٹیج پر پہنچے، مجمع میں گویا زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی، انھوں نے اپنی اپنی ڈائریاں سنبھال لیں اور نوٹس لینے کے لیے تیار ہوگئے۔

قبلہ پیر بھائی کے لئے یہ ایک انوکھا موقعہ تھا جب لوگ ایک مقرر کی تقریر سننے کے لیے اپنے اپنے قلم اور نوٹ بک وغیرہ سنبھال کر بیٹھے تھے۔ا باجان نے اپنی تقریرشروع کی جس میں سیرت نبوی ﷺکے پہلوﺅں سے منطقی استد لال کیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے کی انتہائی دلچسپ اور معلوماتی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہا، جس میں سامعین کے سوالات جس علمیت کاتقاضا کرتے ، اباجان کے جوابات بھی اسی علمیت کے حامل ہوتے ۔

اگلے دن حضرت نے صبح سویرے ناشتے کے بعد اپنی رسید بک سنبھالی اور بازار کی طرف چلے۔ ایک سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی تو اپنا مدعا بیان کیا کہ مجاہدوں کی تربیت و تیاری اور جہاد کے لیے چندہ درکار ہے۔ ان سیٹھ صاحب نے فرمایا کہ

” آپ ہی کی پارٹی سے ایک مولوی اسمٰعیل آزاد پچھلے کئی دنوں سے یہاں مقیم ہے اور سیرت نبوی ﷺپر جلسے کر رہا ہے اور اس نے اپنی سیرحاصل گفتگو سے سب کو متاثر کیا ہے، اس نے تو آج تک ایسی کوئی بات نہیں کی “ ( یعنی کوئی چندہ وغیرہ نہیں مانگا)

حضرت نے فرمایا ، ” اسمٰعیل ابھی بچہ ہے اور اسے ابھی کام کی نوعیت سے متعلق زیادہ معلومات وغیرہ نہیں ہیں۔“

سیٹھ صاحب بولے۔” حضرت جی! آج میری اس تجوری میں کئی ہزار روپے موجود ہیں۔ آپ آزاد کو ساتھ لے آئیے۔ وہ اگر مجھ سے سارے روپے بھی مانگ لے تو میں بلا تامل اسے دیدوں گا۔“

” سچ؟“

” جی بالکل“

حضرت جی خوش ہوگئے۔ اباجان کو وہاں لانا کیا مشکل تھا۔ میں ابھی جاﺅں گا اور لے آﺅں گا، انھوں نے سوچا اور لپکے تاکہ جلد از جلد اباجان کو لے کر وہاں پہنچیں اور ہزاروں روپے کا چندہ وصول کرلیں۔ مسجد پہنچے تو اباجان لیٹے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے، غالباً رات کی تقریر کی تیاری کر رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی انھوں نے اباجان کو اٹھاتے ہوئے کہا۔

” اسمٰعیل بھائی اٹھو چلو!“

”لیکن کہاں بھائی؟“

”سیٹھ ۔۔کے ہاں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم کہو تو وہ اپنی تجوری سے کئی ہزار روپے نکال کر ہمیں چندہ دیدے گا۔بس ابھی چلو تاکہ وہ ہمیں پیسے دیدے“

”لیکن میں اس کے پاس مانگنے نہیں جاﺅں گا۔ اگر اس کا خیال اچھے مقصد کے لیے چندہ دینا ہے تو وہ یوں ہی آپ کو دیدیتا۔ میری اس کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔“

خیر صاحب ! انھوں نے لاکھ اباجان کی منتیں کیں لیکن اباجان نے نہ جانا تھا اور وہ نہیں گئے اور یوں حضرت کا ہزاروں روپے کا چندہ اباجان کی ”ہٹ دھرمی “کی نظر ہوگیا۔جب وہ دوبارہ اکیلے سیٹھ صاحب کے ہاں پہنچے تو سیٹھ صاحب نے انھیں چودہ آنے چندہ دیکر اپنی جان چھڑائی۔

شہر آکولا میں جلسے کی روداد قاضی فیاض علی صاحب اور اباجان کے لیکچر کا واقعہ اکبر چچا کی زبانی سنیے۔

”۰۴۹۱ءکے دور میںشہر آکولامیں بغرض تبلیغی دورے کے موقع پر سی پی کے کانگریسی لیڈرنے ان مبلغین کو دعوت دی کہ وہ دودنوں میں اپنا موقف بیان کریں اور سامعین کے سوالات کے جواب دیں جسے انھوں نے بصد شکریہ منظور کرلیا اور طے پایا کہ پہلے دن قاضی فیاض علی ایڈووکیٹ اپنے جوشِ خطابت کے جوہر دکھائیں گے اور دوسرے دن مولانا محمد اسمٰعیل آزاد خطاب کریں گے۔ قاضی صاحب لوگوں کو متوجہ نہ کرسکے بلکہ انھوں نے جو مشکل اور گھمبیر اندازِ تقریر اختیار کیا وہ لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر گیا۔ انھوں نے اتحادِ بین المذاہب اور اسلام کو قبول کرنے کی دعوت ایک ساتھ دے ڈالی اس کے متعلق جو سوالات ہوئے وہ ان کا بھی سامنا نہ کرسکے۔ بالخصوص اتحاد کے ساتھ ساتھ اسلام قبول کرنے کی کیا تک ہے۔

شہر کے مسلمانوں کو اس پر بڑی خفت اٹھانی پڑی۔ دوسرے دن آزاد صاحب کا لیکچر تھا لیکن وہ سارا دن معمول کی تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ دوپہر کو جب وہ فٹبال کا میچ دیکھنے میں مصروف تھے، شہر کے چند بزرگ گھبراکران کے پاس پہنچے اور لیکچےرکی تیاری کرنے کی درخواست کی۔انھوں نے اطمینان دلایا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، فکر نہ کریں اور فی الوقت بیٹھ کر مغل محمڈن کو فتح حاصل کرتا ہوا دیکھیں۔

مقررہ وقت پر مولانا محمد اسمٰعیل آزاد صاحب کا لیکچر شروع ہوا۔ انھوں نے مذھب کی تاریخ بیان کی اور بتلایا کہ مذھبی رہنماﺅں نے معاشی اور اخلاقی اصول مرتب کیے، اور اخلاقی ضابطے جاری کیے۔ ہندوستانی مذھب کے رہنماﺅں نے پتر جنم اور چار طبقاتی نظام پر مشتمل مذھب ایجاد کیا ۔ اس کی اچھائی اور برائی سے قطع نظر، اس مذھبی بندھن نے ہندوستانی عوام کو منظم ہونے اور رہنے کا موقع دیا۔ہندوستانی تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت ،زراعت اور رسم و رواج نے دنیاءسے خراج تحسین وصول کیا۔دنیا والے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کا نام دیتے تھے۔

یہودیت اور عیسائیت نے عرب ممالک میں جنم لیا، ان الہامی مذاھب نے انسان کو روحانی اور مادی خوشحالی عطا کی۔ عیسائیت کو رومی شہنشاہوں نے قبول کیا اور عالم گیر مذھب بنادیا۔

یہ تمام مذاہب مخصوص علاقوں ، قبیلوں اور برادریوں کے لیے مبعوث ہوئے۔لیکن حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی کے طور پر سارے عالم اور رہتی دنیا تک کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپ ﷺ کو اللہ کا آخری کلام قرآن شریف دیا گیا۔ یہ کتاب بنی نوع انسان کے لیے سرچشمہ ہدایت قرار دی گئی۔ ختم الرسل ﷺ اور آپ پر نازل کی ہوئی کتاب کا ماننا ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ نے تعلیم دی کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی اور برابر ہیں۔ گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت اسی کو حاصل ہے جو تقویٰ میںسب سے برتر ہو۔ اسلام نے دیگر مذاہب کو موجود رہنے کی ضمانت دی۔ اور مذاہب کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔ ایک ہزار سالہ اسلامی دور میں عربی زبان میں ہر مذہب اور تہذیب کے مفکروں کی تصانیف ترجمہ کی گیئں اور اسلامی دنیا سے تمام عالم میں ان کے ترجمے بھجوائے گئے۔ ذمیوں کو بھی شہری حقوق برابری کی بنیاد پر دیے گئے۔

ادھر نئی تہذیب نے دیگر مہذب ملکوں کو فتح کرکے نوآبادی بنالیا، اور انھیں تہذیب سکھانا اپنا احسان بھی قرار دیا۔ نوآبادیوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا۔ انکی تہذیب ، تمدن اور ثقافت کو ناکارہ قرار دیا۔ ادھر جمہوریت کے نام پر صرف اپنے عوام کو حقوق دیئے ۔ رد عمل میں کمیونزم اور سوشلزم کے نظام پیدا ہوئے۔ کمیونسٹ ریاست سویٹ یونین بھی اپنا دعویٰ پورا کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ ادھر اسلام نے سود اور دوسرے کی محنت پر قبضہ کرنے کی ممانعت کی ۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیاعدل و انصاف کو ریاست کا پہلا فرض قرار دیا۔

یہ لیکچر دو گھنٹے جاری رہا اور اس میں بڑی محنت اور تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا گیا۔ تقرِ یر ختم ہوئی تو صدرمحفل نے سوال کا تقاضا کرتے ہوئے ” کوئی سوال، کوئی سوال؟“ کے الفاظ بار بار دھرائے لیکن کسی طرف سے کوئی سوال نہیں آیا، جس کے بعد صدرِ محفل نے بھائی صاحب کو مبارکباد دی کہ انھوں نے اپنا موقف بڑی محنت سے بیان کیا اور سامعین نے اس کی افادیت تسلیم کی۔

آکولا شہر کے مسلمان اس لیکچر کی کامیابی او ربھائی صاحب کی اس عزت افزائی اور پزیرائی سے بہت خوش ہوئے۔“
 
باب پنجم۔فسانہ آزاد
فتنہ قادیانیت اور اباجان کی جد و جہد

محمد خلیل الر حمٰن

]ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اباجان موجودہ ہزارہ ڈویژن کی کسی تحصیل میں موجود تھے اور ایک جلسہ گاہ میں تقریر کے لیے ان کا نام پکارا جاچکا تھا اور وہ اسٹیج پر جاکر کھڑے ہوئے ہی تھے کہ اسٹیج کے سامنے ایک لحیم شحیم بزرگ کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہنے لگے۔

” حضرات! تقریر کی دعوت دینے سے پہلے ذرا اس سے یہ تو پوچھ لیجئے کہ یہ مرزا کو کیا سمجھتا ہے۔“

اس سے پہلے کہ صدرِ محفل دخل اندازی فرماتے ، اباجان نے برملا ان صاحب کو مخاطب کرکے کہا۔

” قبلہ ! کون مرزا؟ میرے خاندان میں تو اس نام کا کوئی نہیں ہے۔ کیا یہ آپ کا کوئی رشتہ دار ہے؟“

”حضرات! یہ لونڈا میرے پوتے کی عمر کا ہے ۔ میں نے دس سال منطق پڑھائی ہے، یہ مجھے منطق پڑھا رہا ہے۔ اس سے پوچھیئے کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کیا سمجھتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ قادیانیوں کی ہم خیال جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس کی تقریر نہیں سننی ہے۔“

”جناب آپ سے درخواست ہے کہ اس سوال کا سیدھا سا جواب دے کر اپنی تقریر شروع کیجیے۔“ صدرِ محفل نے معاملے کو نمٹاتے ہوئے کہا۔“

” حضراتِ گرامی! اگرچہ اس سوال کا میری آج کی تقریر سے کوئی تعلق تو نہیں بنتا ، اسلیے کہ میری آج کی تقریر سیرتِ نبویﷺ سے متعلق ہے۔ پھر بھی اگر آپ کا اصرار ہے تو میں یہ برملا ، اللہ کو حاضرو ناضر جان کرکہے دیتا ہوں کہ میںمسمی محمد اسمٰعیل آزاد مرزا غلام ا حمد قادیانی کو

کافر ، کاذب اور دجال سمجھتا ہوں اور اس کو نبی ماننے والے کوپکا کافر گردانتا ہوں۔ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول تھے
اورنہ ان کے بعد کوئی نبی آیا ہے اور نہ قیامت تک کوئی اور نبی آسکے گا۔اب حضرات میں اس مسئلے کو ایک طرف چھوڑ کر اپنی آج کی تقریر کی طرف آتا ہوں ۔ میری آج کی تقریر کا عنوان ہے۔۔۔۔“

لیکن اتنے میں سوال کرنے والے صاحب جو اسٹیج پر چڑھ چکے تھے اور دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اباجان کی طرف بڑھ رہے تھے ، اباجان کے قریب پہنچ گئے اور انھیں فرطِ محبت سے لپٹالیا اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہنے لگے۔“

”معاف کیجیے گا حضرت، آپ تو میرے بھائی ہیں۔ میں آپ کو غلط فہمی میں اللہ جانے کیا سمجھتا تھا۔ “

اباجان نے بھی ان سے معانقہ کیا اور انھیں اپنے سے لپٹاے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ ان صاحب نے ا باجان کی داڑھی کو فرطِ عقیدت سے اپنے دونوں ہاتھوں سے چھوا اور اطمینان کے ساتھ اسٹیج سے نیچے اتر گئے۔ان کی تسلی ہوچکی تھی اور اب وہ نہایت مطمئن انداز میں بیٹھے اباجان کی تقریر سن رہے تھے۔

در اصل اباجان کے پیر صاحب جو بزعمِ خود اپنے آپ کو مامور من اللہ سمجھتے تھے اور من جانب اللہ کشف و الہام سے نوازے جانے کا دعویٰ کرتے تھے ( وللہ اعلم بالصواب)، مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی وغیرہ تو نہیں البتہ مامور من اللہ ضرور سمجھتے تھے اور اسی لئے ان کی اور ان کی جماعت کی جانب لوگوں کا گمان ِ غالب یہی تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ ادھر اباجان بچپن اور لڑکپن ہی سے کسی اور ہی راہ پر لگ چکے تھے، پھر پیر صاحب اور دیگر مریدوں کے برعکس بے انتہاءمطالعے کی عادت نے ان کو اس علمی مرتبہ پر پہنچادیا تھا کہ خود پیر صاحب بھی علمی محاذ اور علمی میدان میںانکے معتقد و معترف تھے، لہٰذہ اباجان دینی اعتقادات و مسائل اور فلسفہ میں اپنا ایک منفرد انداز اور طور طریقہ رکھتے تھے جو دیگر لوگوں کے غیر علمی انداز سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی ختم رسالت پر پختہ یقین رکھنے اور دیگر بدعات سے بریت کے باوصف ان خرافات سے کوسوں دور تھے۔

جلسے کے فوراً بعد اباجان کے ایک ساتھی نے انھیں الگ لے جاکر راز دارانہ انداز میں پوچھا کہ یہ کیاآپ نے مرزاغلام احمد قادیانی کو واقعی کافر ، کاذب اور دجال کہا ہے؟ اباجان کے ہاں کہنے پر وہ دوبارہ پوچھنے لگے کہ کیا واقعی آپ نے شرح ِ صدر کے ساتھ یہ کہا ہے یا وقتی مصلحت کے تحت ایسا کہا ہے۔ اباجان نے مسکراتے ہوئے انھیں بتایا کہ انھوں نے پورے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہی ہے۔



پھر کیا تھا، اباجان کے ان ساتھی کی بدولت یہ خبر انکے پیر صاحب تک پہنچی

کہ اکبرنام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔

انھوں نے اباجان کے حیدرآباد آنے پر ان کی سرزنش کا پرو گرام بنالیا۔ جب اباجان اپنا دورہ مکمل کرکے حیدرآباد واپس پہنچے تو حسب توقع ان سے پیر صاحب نے وہی سوال کیا جو جلسے کے بعد ان کے ساتھی نے کیا تھا۔ اباجان کا جواب اب بھی وہی تھا کہ انھوں نے شرح صدر کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر، کاذب اور دجال کہا تھا۔

صورتحال کافی سنگین تھی لہٰذہ اس مسئلے پر غور کے لیے کئی بزرگ اصحاب پر مشتمل ایک کمٹی( کمیٹی) بنا دی گئی۔ اس کمٹی نے پہلے تو آپس میں اس مسئلے پر غورو خوض کیا لیکن جب کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو اس نے ایک مناظرہ کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس مناظرے میں ایک طرف تو پیر صاحب اور ان کے بزرگ اصحاب وغیرہ شامل تھے تو دوسری جانب اباجان اور ان کے چند سرپھرے دوست شامل تھے۔

مناظرہ شروع ہوا تو کئی روز تک چلا۔ ہر روز نمازِ عشاءکے بعد مناظرہ شروع ہوتا اور رات گئے تک جاری رہتا۔ اباجان کی علمیت اور دینیت کا معاملہ تھا، وہ کیسے ہار جاتے۔ آج ا نھوں نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا کر بھی یہ بازی جیت لی تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہوگا۔انھوں نے اپنے یقین اور ایمان کے سہارے اپنی علمیت کو ٹٹولا اور وہ تمام دلائل و براہین نکال لائے جن کی انھیں اس وقت جتنی شدید ضرورت تھی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ہزارہ میں تو یقین کے ساتھ اقرار کے دوجملے کافی تھے لیکن یہاں ان ڈھلمل یقین لوگوں میں اباجان کو ٹھوس ثبوت و شواہد اور بین نشانیاں چاہیئے تھیں جو اللہ رب العزت نے ان کے ذہنِ رسا کو اس وقت عطا کیں ۔ انھوں نے اللہ کی مددکے سہارے اپنی بحث شروع کی اور کئی دن تک جاری رہنے کے بعد ایک عشاءکی نماز پڑھ کر اپنے دلائل کو سمیٹا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا تھا۔ حق آچکا تھا اور باطل مٹ چکا تھا اور بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے تھا۔ پیر صاحب بمع حاضرین محفل، اس بات کے قائل ہوگئے کہ غلام احمد قادیانی کذاب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔نہ وہ نعوز باللہ نبی ہے اور نہ ہی وہ نعوذباللہ مامور من اللہ ہے۔ وہ کافر کاذب اور دجال ہے۔ طے پایا کہ اگلے روز نمازِ فجر کے بعد پیر صاحب اس بات کا باقاعدہ اعلان فرمایئں گے۔
اگلے دن صبح فجر کی نماز ادا کی گئی اور اس کے بعد اباجان اور ان کے باغی گروپ کی توقعات کے عین خلاف پیر صاحب نے اعلان کیا کہ

رات انھیں خواب میں کشف ہوا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر کہنا درست نہیں، لہٰذہ وہ اپنے رات کے فیصلے سے رجوع کرتے ہیں۔

اس کے جواب میں اباجان نے بھی نہایت سخت موقف اختیار کیا اور صاف صاف لفظوں میں پیر صاحب پر واضح کردیا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کافر ہے۔ پیر صاحب کا کشف ان کے ساتھ، اگر اباجان پر اس قسم کا کشف ہوتا ہے تو وہ بھی اس سلسلے میں غور کریں گے، تب تک وہ مرزا کو کافر کہتے ، سمجھتے اور لکھتے رہیں گے
۔
 
باب ششم۔فسانہ آزاد
او غافل افغان
محمد خلیل الر حمٰن

موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقے یاغستان، باجوڑ ، ڈبراور خار وغیرہ اباجان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں پر اباجان نے ۱۹۴۰ء سے جانا شروع کیا اور ۱۹۵۵ءتک جاتے رہے۔ ۱۹۵۰ءمیں ہندوستان سے پاکستان پہنچے اور پشاور میں قیام کیا تو یہاں سے بھی علاقہ غیر کے کئی چکر لگائے۔یاغستان ، ڈبر اورخار میں تویہ وہاں کے سرداروں، نوابوں اور خانوں کے خاص مہمان بن کر رہتے تھے۔

گو ہندوستان پر مسلمانوں کاسب سے پہلا حملہ اور آمد تو محمد بن قاسم نے سندھ کی طرف سے کیا تھا لیکن اس کے بعد کے تمام حملوں میں مسلمان حملہ آور بادشاہوں یا اسلام کی تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیوں اور دیگر بزرگانِ دین کا واحدراستہ افغانستان ہی رہا، لہٰذہ مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد امید افغانستان کی طرف سے آنے والے مسلمانوں سے بندھی رہی تاکہ وہ آکر انھیں ان انگریزوں اور ہندو ¾وں سے نجات دلا سکیں۔ اباجان کے پیر صاحب نے بھی کچھ پیشن گوئیاں کر کھی تھیں اور ان پیشن گوئیوں کے مطابق اس باربھی ہندوستان کو فتح کرنے والا لشکر افغانستان کی جانب ہی سے آنے والا تھا، جسکی کمانڈ پیر صاحب ہی کرنے والے تھے ، اور نتیجتاً تمام ہندوستان مسلمان ہونے والا تھا۔مسلمانوں اور خاص طور پر اسلامی مجاہدوں کو ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں سے دستیاب ہونے والاسارا سونا اور دیگر قیمتی نوادرات مالِ غنیمت میں ملنے والے تھے، لہٰذہ ان کے تمام مریدوں کی خاص توجہ کا مرکز یہ سرحدی علاقہ ہی تھا جہاں سے مجاہدوں کی آمد متوقع تھی۔ وہ اس علاقے میں پہنچ کر لوگوں کوخوابِ غفلت سے جگانا اور جہاد کے لیے تیار کرنا اپنا فرضِ عین تصور کرتے تھے۔اکثر و بیشتر ان مبلغین کی جماعت حیدرآباد سے ان علاقوں میں پہنچی ہوئی ہوتی تھی اور ان سوئے ہوئے افغانوں کو جگانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی تھی۔

اباجان باسم سے پیر صاحب کے پاس حیدرآباد پہنچے اور وہاں رہائش اختیار کی تو ان کے والدین اس وقت باسم ہی میں تھے لہٰذہ اباجان کے لیے حیدرآباد میں قیام یا ہندوستان کے کسی اور علاقے میں قیام ایک ہی بات تھی۔انھیں سرحد کچھ اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اس علاقے کے بہتیرے چکر لگائے اور ہر مرتبہ کئی کئی ماہ وہاں قیام کیا۔ وہاں قیام کے دوران انھوں نے نہ صرف پشتو سیکھی اور اس میں بول چال میں مہارت حاصل کی بلکہ ان کا رہن سہن اور کپڑے پہننے کا انداز بھی اپنا لیا اود دیگر یہ کہ ان علاقوں کے علماءکے ساتھ بیٹھ کر ان کی شاگردی اختیار کی اورنہ صرف دینی مسائل اور علومِ دینیہ میں مہارت حاصل کی بلکہ اسی اثناءمیں ان استادوں سے بہترین عربی اور فارسی بھی سیکھ لی۔

علاقائی زبان سیکھنے اور وہاں کی بول چال، رہن سہن اور طورطریقے اختیار کرنے اور پٹھانوں کی نفسیات کا قریب سے مطالعہ کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں پر اباجان نے بہت سے دوست بنا لیے اور ان میں گھل مل گئے۔اباجان کے ان قابلِ قدر دوستوں میں مولوی امیر الدین صاحب، میرا جان سیال صاحب، ڈبر کے نواب صاحب اور خار کے نواب صاحب خاص طور پر شامل ہیں۔

بھابی ( زوجہ امین بھائی مرحوم ) فرماتی ہیں کہ ایک دن اباجان نے انھیں اس علاقے میں اپنے ساتھ گزرا ہوا ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کہنے لگے۔

” بہو بیگم! اس علاقے میں ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک بہت عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں اپنے بنائے ہوے ان نئے پٹھان دوستوں میں سے ایک کے ساتھ بیٹھا تھاا ور اس علاقے کے پہاڑوں اور اس میں سے نکلنے والے قیمتی پتھروں عقیق یاقوت اور لاجورد وغیرہ کے متعلق بات چیت ہو رہی تھی ۔ یہ شخص جو کچھ مخبوط الحواس سا دکھائی دیتا تھا ، گاؤں والوں میں لیونئی ( یعنی دیوانہ) کے نام سے مشہور تھا ۔ ا س شخص نے دورانِ گفتگو ایک موقعے پراپنا ذہن بناتے ہوئے کچھ سوچا اور پھراچانک مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا کہ وہ مجھے ایک نرالی شے دکھانا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنے گھر کی جانب چل دیا ، کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر سے واپس پہنچا تو اس کے ہاتھوں میں ایک گٹھری تھی جسے اس نے میرے سامنے بہت احتیاط سے کھولا تو اس میں قیمتی یاقوت کے کئی بڑے بڑے ٹکڑے موجود تھے۔ اب اس نے ان ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنا شروع کیا ۔ جب وہ انھیں جوڑچکا تو اس نے یہ شاہکار میرے سامنے کردیا۔ میں اس پتھر کو دیکھ کر حیران رہ گیا جو دراصل ایک نوزائیدہ بچے کی لاش تھی جو ہزاروں سال پتھروں میں دبے رہنے کی وجہ سے خود بھی نادر الوجود قیمتی یاقوت میں تبدیل ہوگئی تھی۔“

اباجان نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس لاش کے ٹکڑے دراصل مکمل انسانی اعضاءتھے جس طرح سائنسی ماڈل میں ہوتے ہیں اور اس بچے کے جسم میں اسی طرح فٹ ہورہے تھے ۔جب اباجان اچھی طرح اس لاش کو دیکھ چکے تو اس مخبوط الحواس شخص نے اطمینان کے ساتھ اپنی گٹھری کو سمیٹا اور گویا سلسلہ گفتگو ختم کرتے ہوئے وہاں سے اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ یہ ایک ایسا نظارہ تھا جسے دیکھ کر اباجان حیران رہ گئے اور کچھ لمحوں کے لیے حواس باختہ ہوکر اس شخص کو جاتے ہوئے دیکھا کیے جو ان کی حیرت سے بے نیاز وہاں سے جاچکا تھا۔

یہ علاقے ان دنوں سرحدی گاندھی جناب عبدالغفار خان صاحب کے زیر اثر انڈین نیشنل کانگریس کا گڑھ سمجھے جاتے تھے اور وہاں پر آل انڈیا مسلم لیگ کی دال گلنی مشکل تھی۔وہاں پر ہر طرف پختونستان کا بول بالا تھا۔ ادھر اباجان اپنے خیالات کے اعتبار سے پکے مسلم لیگی تھے اور جہاں اسلام کی تبلیغ اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے تھے وہیں تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس سلسلے میں سرحد کے جس علاقے میں بھی جاتے، تحریکِ پاکستان کے لیے اپنے طور پر کام کرنے سے نہ چوکتے۔ گو انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارتو نہیں کی، لیکن قائدِ اعظم کے ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر کام کرنے کو ہمیشہ باعثِ افتخار سمجھا۔

چونکہ ان علاقوں میں اباجان کے اسلامی تشخص اور علمی و دینی لحاظ سے ان کے اعلیٰ مرتبے کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کی جاتی اور کہیں بھی جانے پر پابندی یا روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور علاقے کے نوابوں کے مہمان خانے میں قیام ہوتا، لہٰذہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے کام کرنا بھی ان کے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔مہمان خانے میں ان کے علاوہ اور بھی مہمان ٹھہرتے تھے جن سے اباجان کی ملاقات رہتی اور اباجان چپکے چپکے ان لوگوں تک مسلم لیگ کا پیغام پہنچاتے رہتے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، اباجان اپنے اسی قسم کے ایک دورے میں پچھلے کئی ماہ سے ریاست خار کے نواب صاحب کے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اپنا تبلیغی مشن جاری رکھے ہوئے تھے کہ ایک دن انھیں مہمان خانے میں کچھ خاص قسم کی ہلچل کا اندازہ ہوا۔ یکبارگی بہت سارے مہمانانِ گرامی تشریف لے آئے۔ پتہ چلا کہ علاقے میں انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر جرگہ بلایا گیا ہے۔اباجان خاموشی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے سب سے معمر مہمان کو تاڑ لیا۔رات آئی تو اباجان نے انھی بزرگ مہمان کے بستر کے ساتھ ڈیرہ جمالیا اور ان حضرت کے ساتھ علیک سلیک کے بعد باتیں شروع کیں۔

اباجان ساری رات ان بزرگ کے ساتھ کھسر پسر کرتے رہے اور اس دوران میں انھوں نے ان بزگوار پر واضح کر دیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کتنی ہی اچھی جماعت سہی مگر اس کے کرتا دھرتا گاندھی جی ہیں اور گاندھی جی ایک متعصب قسم کے ہندو ہیں جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سب سے بڑے اور مرکزی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو کتنے ہی برے سہی مگر ایک مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہوتا ہے، لہٰذہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک ہندو کو ایک مسلمان پر ترجیح نہ دیں بلکہ ایک ہندو کے مقابلے میں ایک مسلمان کا ساتھ دیں ۔ بات سمجھ میں آنے والی تھی لہٰذہ انھوں نے اسے تسلیم کیا۔ ادھر انھیں پکا کرنے کے بعد ہی اباجان سوئے، لیکن سکون کی نیند کہاں۔ انھیں تو اس تمام کارروائی اور نفسیاتی طور پر ان بزرگ کی برین واشنگ کے باوجود ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ جانے کل کیا ہو۔ پاکستان مسلم لیگ اور خود پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا ایسے میں انھیں سکون کی نیند بھلا کیسے آتی۔ وہ رات انھوں نے خدا خدا کرکے آنکھوں میں کاٹ دی۔ صبح ہوئی اور فجر کی نماز کے بعد جرگہ کی کارروائی شروع ہوئی تو اباجان بھی دور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ بھس میں چنگاری تو وہ لگا ہی چکے تھے ، اب انھیں نتیجے کا انتظار تھا۔ تقریریں شروع ہوئیں تویکے بعد دیگرے کئی سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص نے اپنی تقریروں میں کھل کر انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت میں بیان دیئے۔

آخر میں ان بزرگ کی باری آئی۔ بڑی مشکل سے وہ کھڑے ہوئے اور ایک نہایت دھیمی آواز اور پر اثر انداز میں یوںگویا ہوئے۔

” گاندھی مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جواباً کہا کہ وہ ہندو ہے۔ آپ پھر یوں گویا ہوئے۔

” محمد علی جناح مسلمان ہے یا ہندو ہے؟“ لوگوں نے جو ان کے اس اندازِ تخاطب سے بہت کچھ سمجھ چکے تھے ، مجبوراً جوب دیا کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔

” تو پھر ایک مسلمان ایک ہندو سے لاکھ درجے بہتر ہے اور ہم ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک ہندو کی کبھی بھی حمایت نہیں کر سکتے۔“

اس مختصر تقریرکے بعد وہ بیٹھ گئے۔دیگر لوگوں کی کئی گھنٹوں پر مشتمل تقریروں کا اثر منٹوں میں زایل ہوچکا تھا۔ اس معمر ترین بزرگ کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔گومحفل پر سناٹا چھایا ہوا تھالیکن لوگوں کے دلوں میں ایک طوفان برپا تھا۔اباجان کی اس چھوٹی سی شرارت نے انتہائی سوچ بچار کے بعد بلائے ہوئے اس جرگے کا ستیاناس کردیا تھا۔

ادھر نواب صاحب خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے۔ کس شخص میں اتنی جرات اور اتنی سمجھ تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر ان بزرگ کے ذہن میں یہ باتیں ڈال سکتا تھا۔ انھوں نے اباجان کو بلایا اورمختصر انداز میں اپنے تاثرات کا اظہارکچھ یوں کیا۔

” مولوی صاحب آپ نے یہ اچھا نہیں کیا“ ۔

بعد میں کھانے پر نواب صاحب نے اباجان کو مدعو نہیں کیا اور اس طرح گویا اپنی انتہائی ناراضگی کا بھی بر ملا اظہاربھی کردیا۔ ایک مہمان کی اس سے زیادہ بے عزتی ممکن نہیں ہوتی کہ میزبان اسے اپنے دستر خوان پر نہ بلائے۔ اباجان نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور بغیر میزبان سے ملاقات کیے وہاں سے نکل آئے، کبھی نہ واپس لوٹنے کے لیے۔ اس واقعے کے بعد اباجان نے زندگی بھر خار کے نواب صاحب سے ملاقات نہیں کی۔

مولوی امیر الدین صاحب بھی اباجان کے روحانی استادوں میں سے تھے جن سے اباجان نے اکتسابِ علم کیا۔ مولوی صاحب ان تبلیغیوں کی جد و جہد میں بھی ان کے ہم خیال تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں اپنے مفید و قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ ادھر صورتحال یہ نظر آرہی تھی کہ ایک طرف تو انگریز بہادر سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل نظر آرہا تھا اور دوسری طرف ہندو جو مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت کا ڈسا ہوا تھا اور اب پورے ہندوستان پر بلاشرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتا تھا۔

پٹھان بھی اپنے طور پر کچھ تیاریوں میں مصروف تھے اور انھوں نے امیر الدین صاحب کے مشورے سے علاقے کے عمائدین اور سرداروں کا ایک وفد ترتیب دیا جو ہندوستان بھر میں دورے کرکے جہاد کے لئے روپے پیسے اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ اباجان چونکہ پشتو بھی بہت اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے تھے لہٰذہ ریاست حیدرآباد کے سفر میں ترجمان کا کام ان کے سپرد کیا گیا۔

وفد ہندوستان کی ریاست حیدرآباد پہنچا اور اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان صاحب سے ملاقات کی ٹھہری۔ ملااقات کے لیے پہلے سے وقت لیا گیا اور اس طرح ریاست حیدرآباد کے آخری فرمانروا میر عثمان علی خان نے شمال مغربی سرحدی صوبہ سے آئے ہوئے اس وفد کو شرفِ باریابی بخشا۔ وفدکو نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خانصاحب کے ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا اورانھوں نے ادب سے بیٹھ کر اعلیٰ حضرت کا انتظار شروع کیا۔ڈرائینگ روم پرانے دور کے فرنیچر سے بھرا ہوا تھاجو آصف جاہی جاہ حشمت اور عظمت کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر آج بھی موجود تھا لیکن اس وقت اس فرنیچر پر منوں ٹنوں دھول مٹی جمع تھے اور یہ حال سرحد سے آئے ہوئے وفد نے بھی دیکھا اور ناک بھوں چڑھائی۔

اعلیٰ حضرت ڈرایئنگ روم میں جلوہ افرز ہوئے تو اس حال میں کہ انتہائی سادہ لباس زیبَ تن کیا ہوا تھا۔ ویسے بھی اعلیٰ حضرت کی کنجوسی مشہور تھی اور ان کی یہ شہرت وفد کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ جب سب حاضرین محفل اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو باقاعدہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے وفد کے سربراہ نے پشتو میں اباجان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے پیشِ نظر انھیں تو یہ لگتا ہے کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ بڈھا انھیں کوئی دیالو قسم کا نہیں لگتا۔

اعلیٰ حضرت جنھیں پشتو نہیں آتی تھی انھوںنے دلچسپی لیتے ہوئے وفد کے سربراہ کی طرف دیکھا تاکہ معلوم کریں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ادھر اباجان نے فوراً بات بنائی اور سردار کی طرف سے اچھی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اعلیٰ حضرت نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔سربراہ نے اب اپنی تقریر شروع کی اور موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں اپنے محدود وسائل کا حال بیان کیا اور اعلیٰ حضرت سے مالی امداد کی درخواست کی۔ اباجان نے فوراً کسی ماہر ترجمان کی طرح اس پشتو تقریر کا اردو ترجمہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کردیا۔

اعلیٰ حضرت نے جواب میں کہا کہ اگرچہ موجودہ حالات میں خود ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تاہم اس وہ اس درخواست کو رد بھی نہیں کرسکتے اس لیے کہ ان کے یہ مہمان بڑی دور سے چل کر ان کے پاس پہنچے ہیں، لہٰذہ سردست وہ انھیں صرف ایک لاکھ روپے ہی دے سکتے ہیں۔قارئین کرام کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ یہ آج سے کوئی لگ بھگ ستر سال پہلے کا واقعہ ہے جس وقت ایک لاکھ روپے خاصی اہمیت رکھتے تھے۔

یہ سننا تھا کہ وفد کے سربراہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے فرطِ جذبات میں اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے اور معافی کے طلبگار ہوئے کہ ملاقات کے شروع میں انھوں نے کچھ گستاخانہ کلمات کہے۔اباجان نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کاشکریہ ادا کیا اور ان کی بہتر صحت کے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اعلیٰ حضرت نے ان حضرات کی تشریف آوری کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا اور اس طرح سے یہ ملاقات اپنے انجام کو پہنچی۔

ادھر پٹھان گروپ تو میر عثمان علی خان سے خوش و خرم واپس روانہ ہوا ادھر اباجان اور ان کے گروہ نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ ان کی جماعت کا اصل مقصدہندوستان کے تمام ہندووﺅں کو مسلمان کرنا تھا اور اس کے دو طریقے نظر آتے تھے۔ ایک تو تبلیغ کے اس کام کے ذریعے سے جو اباجان اور ان کے ساتھیوں نے ایک عرصے سے جاری رکھا ہوا تھا اور دوسرا جہاد کا راستہ تھا۔ قومی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھ کر یہی اندازہ ہورہا تھا کہ جہاد کا وقت قریب سے قریب تر آتا چلا جارہا ہے۔ اس کے لیے ایک طرف تو مسلمانوں یعنی بر صغیر کے مسلمانوں کو عمومی طور پر اور افغانوں کو خاص طور پر خوابِ غفلت سے جگانا، انھیںجذبہ جہاد سے سرشار کرنااور ایک لشکرِ عظیم تیار کرنا تھا جو ایک طرف تو انگریزوں کا مقابلا کرسکے اور دوسری طرف ہندوﺅں کو مات دیکرپورے ہندوستان میں غلبہ اسلام کی راہ ہموار کرسکے۔اس کے علاوہ اس عظیم لشکرکی تیاری اور اس کے لیے اسلحہ کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جو اس وقت ان مجاہدوں کو درپیش تھا۔ اباجان نے مولوی امیر الدین صاحب کے ساتھ مل کراس سرحدی علاقے میں اسلحے کا ایک کارخانہ لگانے کا پلان بنایا۔مولوی امیر الدین کے ذہنِ رسا کا بنایا ہوا یہ پلان بہت خوب تھا لیکن اس میں ایک معمولی سا سقم تھا۔ اس بڑے پیمانے پر اسلحہ کے کارخانے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم درکار تھی اور رقم اس وقت ان کے پاس نہیں تھی۔

اباجان کے ذہنِ رسا نے بھی اس وقت اپنا کام دکھایا اور وہ بہت دور کی کوڑی لائے۔ پیر صاحب اور اباجان کی جماعت کے دیگر ساتھی ایک عرصے سے جہاد کی تیاری کے لیے چندہ مانگ رہے تھے اور اب تک پیر صاحب کے پاس ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوچکی ہوگی۔ انھوں نے فنڈز کی فراہمی کاکام اپنے ذمے لے لیا اور اسی وقت بیٹھ کر پیر صاحب کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا اور اس میں اسلحہ کی فراہمی کی شدید ضرورت کے پیش نظر قبایئلی علاقے میں اسلحہ کی فیکٹری کے قیام پر زور دیتے ہوئے اس کے لیے رقم کی ضرورت کا تذکرہ کیا اور پیر صاحب پر زور دیا کہ اس مد میں جمع کیے ہوئے روپے کسی ساتھی کے ہمراہ وہاں بھجوادیے جائیں تاکہ اس عظیم کام کی ابتداءکی جاسکے۔

یہ خط لکھ کر اباجان نے اپنے ایک تحریکی ساتھی کو چنا اور ان کی معرفت پیر صاحب تک وہ انتہائی اہم خط بھجوا دیا اور خود اس عرصے میں انتظار اور دیگر کاموں کی تیاری میں لگ گئے۔ ان کی خیال میں پیر صاحب جو خود اپنی کی ہوئی پیشن گوئیوں کے مطابق تمام ہندوستان کے مسلمان ہونے اور اپنے ہاتھوں فتح ہونے کے ایک عرصے سے انتظار میں تھے یہ سنہری موقع دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور فورا ً ہی فنڈز بھجوا کر اسلحہ کے اس کارخانے کی پہلی کھیپ کا انتظار کریں گے۔

پیر صاحب کا جواب آنے میں کافی تاخیر ہوئی تو اباجان کا ماتھا ٹھنکا لیکن پھر بھی انھوں نے حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے اسے معمول کی انتظامی تاخیر سمجھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔آخر کار کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اورکوئی ڈھائی تین ماہ بعد اباجان کے ایک ساتھی پیر صاحب کا جواب لیکر حیدرآباد سے واپس پہنچ گئے۔

اباجان نے فوراً ان صاحب سے حال احوال پوچھا تو انھوں نے پیر صاحب کی تازہ چھپی ہوئی کتاب ” امام الجہاد“ کی کئی کاپیاں اباجان کی خدمت میں پیش کیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے کہ جہاد کے لئے جمع کیے ہوئے پیسوں سے پیر صاحب کی اسی مقصد سے لکھی ہوئی کتاب کی اشاعت ممکن ہوپائی ہے لہٰذہ انھوں نے سردست اس معرکتہ الآراءکتاب کی چند کاپیاں اور چھ سو روپے بھجوائے ہیں اور ہدایت کی ہے کہ اس کتاب کی مدد سے مقامی لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان سے چندہ وصول کیا جائے تاکہ وہ اس مد میں استعمال ہوسکے۔

اباجان کے تو سر سے لگی ہے اور تلوؤں سے بجھی۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا۔ انھوں نے انتہائی غصے کی حالت میں وہ چھ سو روپے اٹھا کر پھینک دیئے جو ان کے ساتھی نے موقع غنیمت جان کر فوراً اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے۔پھر اباجان نے اسی وقت پیر صاحب کو ایک خط لکھا اور ان کو ” کاغذی امام الجہاد “ قرار دیتے ہوئے انھیں آگاہ کیا کہ تیر و تلوار سے جہاد ان کے بس کی بات نہیں ہے اور ان سے استدعا کی کہ وہ جہاد وغیرہ کا خیال دل سے بالکل نکال دیں ۔آخر میں دعا کی کہ اللہ ان کے اور اباجان کے حال پر رحم فرمائے۔

کہتے ہیں کہ جب یہ خط ان کے پیر صاحب کو ملا تو انھوں نے یہ خاص طور پر اپنے مریدوں کو پڑھوایا کہ دیکھئے ایسے بھی مرید ہوتے ہیں جو اپنے پیر کو کاغذی امام الجہاد لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔انھوں نے یہ خط انتہائی احتیاط سے اپنی دراز میں سنبھال کر رکھ لیا تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

بہرحال قادیانیت کے مسئلے کے بعد اس واقعے سے ایک طرف تو اباجان پر اپنے پیر کی مزید کرامات ظاہر ہوئیں اور دوسری طرف پیر صاحب کے تئیں خود ان کے اس خیال کو بھی مزید تقویت ملی کہ اباجان چونکہ گاؤں کے رہنے والے ایک لٹھ مار قسم کے انسان ہیں لہذہ ان کا سدھرنا ناممکن ہے۔

بہر حال اس طرح اباجان کا اسلحے کی تیاری اور اسمگلنگ کا خواب ادھورا ہی رہ گیا اور وہ وہاں سے بے نیل و مرام واپس لوٹے ، مزید یہ کہ اسکے بعد نہ توقبائل سے کوئی لشکرِ جرار دشمن کی سر کوبی کے لیے ہندوستان کی جانب روانہ ہوسکا اور نہ پیر صاحب کی پیشن گوئی کے مطابق پوراہندوستان ہی مسلمان ہوسکا۔اباجان جو اس سے پہلے کئی خزانوں اور دولت کے انبار کو ٹھکرا چکے تھے انھوں نے کبھی ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں میں چھپے خزانوں کو درخورِ اعتناءنہیں سمجھا، ہاں البتہ باقی مریدوں کے لیے اس خزانے کا نہ ملنا ایک بہت بڑا نقصان تھا۔

اباجان سمجھتے تھے کہ ان علاقوں میں ابھی ان کا کام مکمل نہیں ہوا ہے، وہ علامہ اقبال کے بقول ” ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ پر یقین رکھتے تھے اور ان لوگوں سے ابھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔ وہ مزید کچھ عرصہ اس علاقے میں رہے اور اپنا کام کرتے رہے۔ ان کا دودھاری مشن اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اس علاقے کے مزیددورے کریں اور آنے والے دنوں نے ثابت کیا کہ نہ صرف دینی لحاظ سے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی انھوں نے اس علاقے میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

۱۹۵۰ءمیں پاکستان آنے کے بعد بھی اباجان نے اس علاقے کے کئی چکر لگائے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔پاکستان بننے سے پہلے آخری دورہ انھوں نے ۱۹۴۷ءمیں کیا اور جون میں میرا جان سیال صاحب کے گھر میں انھوں نے ۳ جون کا تاریخی اعلان سنا اوروہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر حیدرآباد روانہ ہوئے تاکہ اس نئی صورتحال کے مقابلے کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔
٭٭٭٭٭
 
باب ہفتم۔فسانہ ء آزاد​
بجھا جو روزنِ زنداں
محمد خلیل الر حمنٰ
موجودہ پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقے یاغستان، باجوڑ ، ڈبراور خار وغیرہ اباجان کے لیے ایک دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں وہ تبیلغ کے لیے ہر چند ماہ بعد پہنچے ہوے ہوتے تھے اور جم کر کئی ماہ قیام کے بعد واپس حیدر آباد پہنچتے اور پیر صاحب کے پاس حاضری دیتے۔ جون ۷۴۹۱ءمیں وہ ایسے ہی ایک دورے پر اس علاقے میں موجود تھے اور میرا جان سیال کے ہاں قیام تھا۔ سیال صاحب خود تو پختونستان کے حامی تھے لیکن ابا جان سے دوستی اور ان کی بے پناہ عزت کرنے کے ناتے، ابا جان کے مسلم لیگی خیالات کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ علاقے میں ایک ہی ریڈیو تھا جو سیال صاحب کے گھر پر ایک اونچی جگہ پر موجود ہوتا تھا۔ایک گھنٹہ کی نشریات سننے کے لیے کم از کم دو گھنٹے ڈاینامو کا پہیہ چلا کر بیٹری کو چارج کرنا پڑتا۔ اہم نشریات کے پیشِ نظر سیال صاحب نے اباجان کو خاص اجازت مرحمت فرمائی تھی کہ وہ علاقے کے لڑکوں کو پکڑ کر ان سے بلا جھجک ڈائنامو کا پہیہ چلوائیں اور وقت پر خبریں سنیں۔ آخر کار ۳ جون ۷۴۹۱ء کا تاریخ ساز دن بھی آیا جس دن قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنی پہلی اور آخری تقریر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔پہلے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی آخری نشری تقریر میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا، پھر کانگریس کی طرف سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے تقریر کی اور سب سے آخر میں مسلم لیگ کی جانب سے مسلم لیگ کے صدر، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور پاکستان زندہ باد کے ایک نعرہ مستانہ پر اپنی تقریر ختم کی۔
ابا جان نے شوق اور عقیدت کے ساتھ قائد اعظم کی تقریر سنی اور اور فوراً ہی واپسی کا قصد کرلیا اور سیال صاحب کے لاکھ روکنے پر بھی مزید رکنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوچکا تھا، حیدر آباد ریاست کی تقدیر ہندوستان اور انگلستان کے لیڈروں کے رحم و کرم پر تھی اور اب عمل کا وقت آگیا تھا۔ پاکستان جس کے لیے اباجان نے ان پٹھان علاقوں میں اپنے زورِ بیان سے جادو جگایاتھا، اب اللہ کے فضل و کرم سے ایک حقیقت بننے جارہا تھا۔ اب اباجان کے لیے حیدرآباد میدانِ عمل بن چکا تھا اور میدانِ عمل سے زیادہ دور رہنا اب انکے لیے ناممکن تھا۔
وہاں سے واپسی پر اباجان نے حالات کے پیشِ نظر دو عدد رائفلیں بھی خریدیں اور انھیں لے کر کشاں کشاں حیدرآباد پہنچے اور وہاں پر پہنچ کر باقاعدہ جہاد کی تیاری شروع کی۔ سب سے پہلا مرحلہ ساتھیوں کی ٹریننگ کا تھا جسے بلا تاخیر شروع کروایا گیا۔ابتک تو ساتھی پرانے ہتھیاروں یعنی تلواروں پر ٹریننگ پاتے تھے اور اب اس نسبتاً نئے ہتھیار’ رائفل ‘کی ٹریننگ بھی شروع کرنی پڑی تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کے استعمال کے لیے بھی تیار ہوں۔
ہتھیاروں کی لوکل سپلائی کے لیے ایک مقامی لوہار کی خدمات حاصل کی گئیں اور اسے سرحد سے درآمد شدہ رائفل دکھا کر اسی نوع کی رائفل تیار کرنے کا کہا گیا جو اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ قبول کیا۔اس نے پہلی رائفل بنائی اور اسے ٹسٹ کرنے کی خاطر پہلا فائر کیا تو اس کی نالی پھٹ کرخود اسے بری طرح زخمی کرگئی۔
غرض جہاد کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ انھی دنوں خبر ملی کہ حیدرآباد کے سرحدی علاقوں میں ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار نے اندرونِ ریاستِ حیدرآبا دکن میں کے مسلمانوں پر عرصہحیات تنگ کر رکھا ہے۔ مسلمان اس کی آئے دن کی لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے عاجز تھے۔ ابا جان اور ان کے جانثاروں کے گروہ نے طے کیا کہ اس علاقے میں جاکر قسمت آزمائی کی جائے۔ شاید قسمت ساتھ دے اور اس غنڈے کے ساتھ زور آزمائی اور ہاتھاپائی کی نوبت آ ہی جائے۔

ان سب نے اپنی تلواریں تیز کیں، اپنی رائفلوں کی نالیوں کو صاف کرکے ان میں تیل وغیرہ ڈالا ،کارتوس سنبھالے اورابا جان کی سربراہی میں رات کی تاریکی میں منزلیں مارتے ہوئے روانہ ہوئے۔اس علاقے میں ان دنوں جاوید جبار صاحب کے والدعبدالجبارصاحب حیدرآباد کے ضلع بیڑکے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز تھے جو حیدرآباد کی سرحد پر ہندوستان کے ساتھ واقع تھا، اور ہندوﺅں کے ان غنڈہ گردی کے واقعات سے حقیقتاًپریشان تھے۔ اباجان کا گروہ جب جاکر ان سے ملا اور اس غنڈے نانا پٹیل کی سرکوبی کے لیے اپنی خفیہ خدمات پیش کیں تو ان کی باچھیں کھل گئیں۔ان سب کو اپنے گھر میں بٹھایا، ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر ان سے تفصیلی گفتگو کی اور ایک باقاعدہ پلان بنا کر اگلی رات انھیں گھر سے رخصت کیا۔ رات میں پہاڑی راستے کا سفر اور اس پر طرہ یہ کہ لوگوں اور بستیوں سے بچ کر چلنا، کوئی مشکل سی مشکل تھی، لیکن ان اصحاب نے ہمت نہ ہاری اور تایکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس غنڈے کے گاﺅں میں داخل ہوئے۔
ایک ساتھی نے تنہا جاکر محلے کی دکانوں سے اس کے گھرکا پتہ دریافت کیا اور پھر سب نے مل کر اس کے گھر پر ہلہ بول دیا۔وہ اس پہاڑی گھر کا گھیراﺅ کر کے جب اس کے اندر داخل ہوئے تو گھر بھر میں سناٹا تھا۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے پورا گھر چھان مارا۔ گھر میں
ایک لڑکی کے سوا کوئی نہ تھا۔یہ نوجوان لڑکی ابھی ابھی زچگی کے مرحلے سے گزری تھی ، اس عورت کی گود میں ایک بچہ تھا جو رو رہا تھا۔وہ بیچاری رو رو کر اپنی جان کی بھیک مانگنے لگی۔ابا جان نے بچے کو گود میں لے کر چمکارا اور اس کے ساتھ ہی اس نوجوان عورت کوبھی بڑی مشکل سے چپ کرایا اور یہ یقین دلایا کہ
” ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں صرف نانا پٹیل سے غرض ہے، ہمیں اس کے بارے میں بتاﺅ۔ تم میری بہن ہواور تم دونوں محفوظ ہو۔ سچ بولو گی تو تمہاری جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ہمیں صرف یہ بتا دو کہ نانا پٹیل یہاں آیا تھا؟“
اس لڑکی نے کہا، ” ہاں ! آیا تھا۔“
” کہاں گیا؟“ اباجان نے پوچھا۔
” میں اس حالت میں کہاں جاسکتی تھی کہ مجھے علم ہوتا۔ بس اتنا جانتی ہوں کہ اسے تم لوگوں کے آنے کی خبر ہوچکی تھی، اس لیے وہ نکل گیا۔“
گویا کہ اسے سرِ شام ہی مشکوک لوگوں کی نقل و حرکت کا پتہ چل گیا تھا اور اس نے ان لوگوں کو گھیرنے کا پلان بنایا تھا۔دکانوں پر جو لوگ نظر آئے تھے اب وہ بھی وہاں نہیں ہوں گے اور پورا علاقہ سنسان ہوگا۔ باہر جھانک کر دیکھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ گویا یہ لوگ نانا پٹیل کے جال میں بری طرح پھنس چکے تھے۔
اس لڑکی سے تعارض کرنا بیکار تھا، اس لیے اس سے یہ کہ کر کہ ” تو نے سچ بولا ہے اس لیے ہم تجھے کچھ نہیں کہیں گے“ سب باہر نکلے۔اباجان اور ان کے ساتھیوں نے پلان بنایا کہ اب پھنس تو چکے ہی ہیں، کیوں نہ چھا پا مارر کارروائی کے ذریعے اچانک حملہ کرتے ہوئے نکلنے
کی کوشش کی جاے۔
چوری چھپے باہر نکلنے کا پلان یوں ناکام ہوا کہ جوں ہی پہلا ساتھی گھر سے باہر نکلا، پہاڑی پر سے ایک بہت بھاری پتھر آکر ان کے عین سامنے گرا اور فوراً بعد ہی ایک شخص کا جسم لہراتا ہوا گرا۔ وہ شخص جو یقیناً ایک ہندو تھا اور اس پتھر کو گرا چکا تھا، زمیں پر گرتے ہی ایک لمحے کو تڑپا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ اوپر سے اباجان کے ایک ساتھی سیف اللہ صاحب نے جو گھر کی چھت پر نگرانی کے لیے چھپے تھے، اوپر سے جھانک کر پہلے تودانت نکال کر باقی ساتھیوں کو کچھ موٹی موٹی گالیاں عنایت فرمائیں اور پھر احتیاط کا تقاضا کرتے ہوئے دوبارہ اپنی پوزیشن پر ڈٹ گئے۔اس ہندو کو پتھر گراتا دیکھ کر انھوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اسے ٹانگ سے پکڑ کر نیچے پھینک دیا تھا۔
 
گھر سے نکلے تو دیکھا کہ وہ چاروں طرف سے گھیر لیے گئے ہیں۔ ہر طرف پہاڑیوں پر لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے ، جن میں سے اکثر کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ موجود تھا۔گاﺅں سے نکلنے والے واحد راستے پر وہی غنڈا یعنی نانا پٹیل مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں سمیت موجود تھا۔عبدالغنی صاحب نے رائفل کندھے پر رکھی ، نشانہ لیا اور ایک فائر داغ دیا۔ گولی تو اللہ جانے کدھر گئی لیکن عبدالغنی صاحب فو راً پلٹے اور ساتھیوں پر برس پڑے۔” یہ مجھے دھکا کس نے دیا؟“
ان سب نے بیک وقت نشانہ لے کر اس طرف فائرنگ شروع کی اور لاشیں گراتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔دشمنوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنے لیڈر سمیت کئی لاشیں چھوڑ کر بھاگے تو اِن لوگوں نے بخیر و عافیت اس علاقے سے نکل جانے ہی میں بہتری سمجھی اور واپس ڈپٹی کمشنرعبدالجبار صاحب کے بنگلے پر آکر ہی دم لیا۔
اگلی صبح ناشتے پر ڈپٹی کمشنر صاحب اور انکی بیگم خورشیدصاحبہ مہمانوں کی خاطر تواضح میں مصروف تھے کہ ملازم نے سرحد پار علاقے کے ہندو وفد کی آمد کی اطلاع دی۔ انھیں اس کمرے میں چھوڑ کر ڈپٹی کمشنر صاحب اس وفد سے ملاقات کے لیے ڈرائینگ روم میں تشریف لے گئے۔
ہندو وفدکے افراد نے جو ملحقہ ہندوستانی ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی معیت میں آئے تھے، نہایت پراثر انداز میں تقریریں کیں اور مسلمان غنڈوں کی اس کارروائی سے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا جس میں اس گاﺅں کے کئی معزز افراد بشمول نانا پٹیل نامی ایک شخص ہلاک و متعددزخمی ہوئے تھے۔ عبدالجبار صاحب نے کہا، ” تبلیغی جماعت کے لوگ ادھر نہیں آتے ۔ جو حلیہ آپ نے بتایا ہے ، وہ مجھے ان سکھ شرنارتھیوں کا لگتا ہے جنھیں حکومتِ ہند نے اس علاقے میں آباد کیا ہے ۔ یہ وہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ بہر حال میں تحقیقات کروںگا۔“
اس طرح ڈپٹی کمشنرصاحب نے ان لوگوں کو یقین دلایا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائے گی اور ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ ادھر یہ باتیں ہورہی تھیں اور ا دھر دوسرے کمرے میں محترمہ خورشید پلو اٹھا اٹھا کر اباجان اور ان کے ساتھیوں کو دعا یئںدے رہی تھیں۔ بقول ان کے ہر مرتبہ ان ہندوﺅں کی حرکتوں سے تنگ آئے ہوئے مسلمان ان کے خلاف شکایت لے آتے تھے۔
آج پہلی مرتبہ یہ ہندو مسلمانوں کی شکایت لے کر آئے تھے۔
ادھر ہندو وفد رخصت ہوا اور ادھر اباجان اور ان کے ساتھیوں نے دونوںاشکبار میاں بیوی سے اجازت لی اور ڈھیروں دعائیں اپنے دامن میں سمیٹے حیدرآباد روانہ ہوئے۔
خاکسار تحریک کے کئی اصحاب اباجان کے گہرے دوست تھے اور ان کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ وہ انھیں اپنے جلسوں میں خاص طور پر تقریر کے لیے دعوت دیا کرتے تھے۔ خاکساروں کے ایک جلسے میں اباجان نے حیدر آباد کی موجودہ حکومت کو بوجوہ آڑے ہاتھوں لیا اور وزیر اعظم صاحب جناب میر لائق علی کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوے کہا” میر لائق علی ! تم لائق نہیں ہو بلکہ نالائق ہو“
جلسے سے فارغ ہوکر ابھی گھر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ ’ گرفتا ر ہم ہوئے ‘کے مصداق دھر لیے گئے۔ پولیس نے فوراً پکڑ کر نقضِ امن کے الزام میں جیل پہنچادیا۔
جیل میں اس سیاسی قیدی کو اے کلاس دینے کے بجائے سی کلاس دی گئی اور اخلاقی قیدیوں کی طرح قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ گھر سے کھانا
منگوانے یا ملاقات جیسی تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ جیل میں پہنچتے ہی انھوں نے جو کپڑے زیب تن کیے ہوے تھے اتروا کر جیل کے
کپڑے پہنادیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام سامان بحقِ سرکار ضبط کرلیا گیا، یہاں تک کہ گردوں کی تکلیف سے بچنے کے لیے اباجان
نے جو چمڑے کی بیلٹ پہنی ہوئی تھی اسے بھی اتروالیا گیا کہ اجازت نہیں ہے۔
جیلر حیران تھا، اس نے کئی بار اباجان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں ۔ کیا وہ کوئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں جو انہیں اس قدر سخت قسم کی قیدِ تنہائی کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ جواب نفی میں ملنے کے باوجود وہ حکم کا بندہ، اوپر سے ملے ہوئے احکامات بجا لایا اور یوں ابا جان کی قیدِ تنہائی کا آغاز ہوا۔
ابا جان نے مطالعے کے لیے کچھ کتابوں کا مطالبہ کیا لیکن وہ بھی مسترد کردیا گیا۔ یہ سیاسی قیدی اس قدر خطرناک تھا کہ اسے ہر قسم کی سہولیات سے محروم رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جیلر نے ابا جان کا صبر و استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ ہو نہ ہو، یہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اسی اثناءمیں ایک دن اسے انتہائی شدید سر درد ہوا تو اس نے اباجان سے اسکا ذکر کیا ۔ اباجان نے فوراً اسے اپنے دستِ خاص سے ایک مجرب و تیر بہدف تعویز لکھ کر دیا۔ اللہ کی کرنی اس جیلر کا سر درد ختم ہوگیا اور وہ اسی وقت سے اباجان کا مرید اور بے دام کا غلام ہوا۔ پھر کیا تھا ۔ جیلر کے گھر سے جو کھانا آیا کرتا تھا وہ اسے باصرار اباجان کو کھلاتا اور ان کے لئے آنے والے جیل کے کھانے کو خود زہر مار کرتا۔
اس جیلر نے ایک اور کام یہ کیا کہ ابا جان سے ان کتابوں کے نام لکھوالیے جو انھیں چاہیے تھیں اور ایک سپاہی کو خاص طور پر ان کے گھر بھیج کر کتابیں منگواکر اباجان کو مہیا کیں۔ پھر کیا تھا، اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ ابا جان کو تنہائی میں کھانے کا آرام ہو ا اور کتابیں میسر آیئں تو انھوں نے اس صورتِ حال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور اپنی من پسند کتابوں کا سکون سے مطالعہ کیا اور نوٹ بنایا کئے۔
میر لائق علی کی وزارت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور ہندوستان و ریاست حیدر آباد کی آزادی کے تقریباً ایک ہی سال بعد یعنی ۸۱ ستمبر ۸۴۹۱ءکو سردار والا بھائی پٹیل کی نگرانی میں پولیس ایکشن کے نام پر ہندوستان کی باقاعدہ فوج ”آپریشن پولو“ کرتی ہوئی حیدر آباد میں داخل ہوگئی۔رات کے تقریباً دس بجے ہوں گے کہ جیلر گھبرایا ہوا اباجان کے سیل میں داخل ہوا اور اباجان سے کہنے لگا۔
” مولوی صاحب! آپ ابھی فوراً یہاں سے چلے جائیے۔ آپ کی رہائی کے احکامات آچکے ہیں۔“
ابا جان نے کہا۔” اس وقت رات کو میں کہاں جاﺅں گا۔ اس وقت رہنے دیجئے “
”لیکن آپ کی رہائی کے احکامات آچکے ہیں اور اب میں آپ کو یہاں پر مزید نہیں رکھ سکتا۔“
لیکن اس وقت آدھی رات کوتو میں کہیں بھی نہیں جارہاہوں۔
 
اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ رات بھر یہاں رہیئے اور صبح روانہ ہوجائیے۔“
صبح ایک اور مسئلہ درپیش ہوا۔ اباجان نے ناشتہ کیے بغیر وہاں سے جانے سے صاف انکار کردیا۔ بے چارے جیلر نے ابا جان کے گھر ایک آدمی بھیج کر ناشتہ منگوایا اور یوں ابا جان نے سکون سے ڈٹ کر ناشتہ کیا ، اپنا سامان وصول کیا اورجیل سے رہا ہوکر باہر نکلے۔
باہر عجب حال تھا، ہر شخص ڈرا ڈرا سہماسہما سا نظر آیا۔ کوئی بھی آنکھیں ملا کر بات کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ صورت ریاستِ حیدرآباد کے لیے نئی تھی۔ وہ شہر جہاں ہر شخص تلوار لگائے گھوما کرتا تھا، آج کسی شخص کی کمر میں تلوار نظر نہیں آرہی تھی۔ لوگوں کا لباس تک بدل گیا تھا، شیروانی اور ٹوپی غائب تھی۔ لوگ ابا جان کی کمر سے لٹکتی ہوئی تلوار کو کنکھیوں سے چوری چوری دیکھ کر فوراً ہی نظر ہٹا لیتے۔ ابا جان نے کئی رکشا والوں کو روکا لیکن وہ کنی کترا گئے۔ جو رکے انھوں نے اباجان کی تلوار کو دیکھتے ہی جانے سے صاف انکار کردیا۔ بالاآخر ایک ر کشے والے کو زبردستی پکڑ کر اباجان گھر کے قریب اترے اور قریبی پان کی دکان پر پہنچے تواصل صورتِ حال کا پتا چلا۔ ہندوستان سرکار نے راتوں رات حیدرآباد ریاست پر فوج کشی کی تھی اور آن کی آن میں پورے حیدرآباد پر قبضہ جما کر اسے اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ ہرچند کہ نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خان اور تمام رضاکار ریاست حیدر آباد کا پاکستان سے الحاق یا کم از کم حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور حیدرآباد جو 1724ءسے ایک آزاد آصف جاہی ریاست کے طور پر موجود تھا ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم کا بالآخر شکار ہوگیا۔
اباجان پیر صاحب کے کمپاونڈ میں اپنے گھر پہنچے ۔ ایک دن پہلے تک وہ ایک قیدی تھے، آج وہ ایک غلام ریاست کے نام نہاد ’آزاد‘شہری تھے ۔ ابا جان کے والدین کمپاونڈ کے باہر ایک گھر میں رہتے تھے۔اباجان نے اپنے والدین سے ملاقات کی اور پھر کمپاﺅنڈ میں اپنے گھر چلے آئے۔ دونوں چھوٹے بھائی سرور اور ہاشم، کمپاونڈ میں موجود مسجد ہی میں نماز پڑھنے آیا کرتے تھے۔ اباجان سے ملاقات کے بعد دونوں رات کو واپس اپنے گھر چلے گئے ، اس امید پر کہ کل صبح پھر وہ چھوٹے بھائی کو دیکھ سکیں گے۔
اگلے دن اباجان فجر کی نماز کے لیے اٹھے تو فضاءاور ہی تھی۔ کمپاونڈ کو چاروں طرف سے فوج نے گھیر لیا تھا۔ وہ خوش ہوئے کہ سرور اور ہاشم رات ہی کو واپس چلے گئے تھے، لیکن ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور سرور اور ہاشم دونوں دوڑتے ہوئے کمپاونڈ کے اندر داخل ہوئے۔ اباجان کے پوچھنے پر کہنے لگے۔
” باہر فوجی ہمیں اندر آنے سے روک رہے تھے۔ ہم نے انھیں کہہ دیا کہ مسجد میں نماز پڑھنا ہمارا حق ہے اور وہ ہمیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔ “
”پھر انھوں نے کیا کہا؟“
”وہ ہمیں اندر آنے سے نہیں روک سکے ، اور کیا۔“
نماز کے بعد گرفتاریاں شروع ہوئیں اور تمام لوگوں کو پکڑ کر جیل پہنچا دیا گیا۔اور یوں اباجان کی بیس ماہ طویل قید کا آغاز ہوا۔ قید میں اباجانکے ساتھ تمام اصحاب، ریاست حیدرآباد کے دسیوںرضاکار اور دونوں چھوٹے بھائی بھی شامل تھے۔ اس مرتبہ سب لوگوں کو ایک ہی کھلے وارڈ میں رکھا گیاتھا۔ یہ قید ایک انتہائی دلچسپ اور شرارتوں بھری قید ثابت ہوئی جس کا احوال قاری کو درج ذیل تفصیل سے معلوم ہوگا۔
اباجان کے پیر بھائیوں میں سے چار سو مرد گرفتار ہوئے۔ ان سب کو ایک ہی وارڈ میں رکھا گیا تھا، اور یہ خاص رعایت دی گئی کہ اس ایک وارڈ کے تمام قیدی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل سکتے تھے، انھیں اپنے سیل ہی تک محدود نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ وارڈ جیل کی سی کلاس میں تھا۔ صرف چند لوگوں کو اے کلاس دی گئی تھی جن میں ان کے پیر صاحب یا وہ حضرات جو بی اے پاس تھے وغیرہ شامل تھے جوتعداد میں تقریباً دس تھے۔ اباجان کے ساتھ ان کے تحریکی ساتھیوں کے علاوہ دو ہزار کے لگ بھگ رضاکار بھی تھے۔ مذہبی لوگ ہونے کے ناطے ان سے جیل کی کوئی مشقت وغیرہ بھی نہ لی گئی اور نہ انھیں قیدِ تنہائی جیسی عقوبتیں دی گئیں۔
شروع شروع میں جو پہلا جیلر انھیں ملا وہ ذرا سخت قسم کا تھا۔جیل کا جوپہلا وارڈ انھیں نصیب ہوا، اس میں روشنی کا مناسب انتظام نہیں تھا، بہت کم بلب لگے ہوئے تھے اور ان کے فیوز ہوجانے پر تبدیل بھی نہ کیے جاتے۔ پڑھنے لکھنے کی آزادی حاصل نہیں تھی۔ یہ وارڈ جیل کےصدر دروازے کے قریب تھا اور یہاں کی کھڑکیوں سے صدر دروازہ نظر آتا تھا۔ ساتھیوں نے اس بد تمیز جیلر سے انتقام لینے کی ٹھانی۔ جوںہی وہ بے چارہ جیلر اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گھر جانے کے لیے صدر دروازے سے باہر نکلتا، سب ساتھی کھڑکیوں پر جمع ہوجاتے اور اس پرجی بھر کر آوازے کستے ، لعن طعن کرتے اور اسے گالیوں سے نوازتے۔کچھ دن تو وہ یہ ہیت کذائی برداشت کرتا رہا،آخر کار جب نہ رہا گیا تو اس نے سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کرلیا۔ ان تمام شرارتی قیدیوں کا تبادلہ ایک دوسرے وا رڈ میں کردیا گیا ۔
قیدی بھی اس صورتحال کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے نئے وارڈ میں پہنچتے ہی وہاں کے دو کے علاوہ تمام اچھے بلب نکال کر ایک سوکھے گٹر میں چھپادیے اور رات ہوتے ہی ہنگامہ کردیا کہ روشنی ہی نہیں ہے۔ اگلی صبح اس وارڈ میں کچھ نئے بلب لگا دئےے گئے۔ ایک دن اس طرح گزرا ۔ اگلے دن انھوں نے دواچھے بلبوں کی جگہ دو خراب بلب لگا دیے ۔ اسی طرح کرتے کرتے ان لوگوں کے خفیہ خزانے میں کئی اچھے بلب جمع ہوگئے۔ اب یوں ہوتا کہ دن کے وقت تو کسی بھی معائنے کے پیشِ نظر خراب بلب لگے ہوئے ہوتے اور رات کو جب وارڈ کو تالا لگا دیا جا تا تو ان لوگوں کی کارروایاں شروع ہوتیں، خراب بلبوں کی جگہ اچھے بلب خفیہ خزانے سے نکال کر لگا دئیے جاتے اور وارڈ میں گویادننکل آتا۔ اب ان کی ادبی اور تہذیبی سرگومیاں شروع ہوتیں۔ کہیں شطرنج اور چوسرکی محفل جمتی تو کہیں ادبی و سیاسی گفتگو کی بیٹھک ہوتی۔ اباجان چونکہ عربی ، فارسی اور انگریزی سمیت کئی زبانوں کے عالم تھے، انھوں نے زبان دانی اور درسِ قرآن کے سبق دینے شروع کردیئے جن میں ان کے دونوں چھو ٹے بھائیوں سرور ا ور ہاشم کے علاوہ کئی اور شاگرد موجود ہوتے۔ رفتہ رفتہ شاگردوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتا چلا گیا، اوردرس و تدریس کا یہ سلسلہ ایک مستقل مدرسے کی شکل اختیار کرگیا۔
ادھر دن کے وقت ان قیدیوں نے ’بیکار مباش کچھ کیا کر‘ کے مصداق، کمپاؤنڈ میں کھیتی باڑی کا پروگرام بنایا اور آپس میں محتلف قطعے تقسیم کرکے ان میں سبزی اور دیگر اشیاءاور پھول دار بوٹے کاشت کرنے شروع کردیئے۔ آپس میں بہتر سبزی کاشت کرنے کا مقابلہ ہوتا اور اس کام کے لیے محتلف قسم کی ترکیبیں لڑائی جاتیں۔
سب سے بڑا مسئلہ کھاد کی عدم دستیابی کی صورت میں سامنے آیا۔پانی تو بہر طور دور سے بالٹیوں کے ذریعے لالا کر ڈالا جاسکتا تھا۔ ہر چند کہ سبزیوں اور پھولوں کی نہ صرف خاطر خواہ دیکھ بھال کی جاتی بلکہ ان کی نشو و نماءکے لیے دیگر جتن بھی کیے جاتے مگر کچھ خاطر خواہ نتیجہ نکلتاہوا نظر نہ آیا۔ جیلر سے کھاد کی درخواست کی گئی لیکن یہ درخواست کسی گونگی بہری بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ثابت ہوئی تو قیدی کونسل کا اجلاس بلایا گیا کھاد کی پیداوار اور دستیابی کے لیے متبادل ذرائع اختیار کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا گیا۔لیکن کوئی نتیجہ خیز بات پھر بھی سامنے نہ آسکی۔
رات آئی تو اباجان کے ایک بزرگ قسم کے ساتھی نے اپنے تیئں ایک فیصلہ کرلیا اور رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر سے مٹی کاایک ٹھیکرا اٹھا کر لائے، منہ اور ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کے اوپر ٹاٹ کی تھیلی چڑھائی اور ایکشن کے لیے تیار ہو گئے۔لیٹرین کے اندر پہنچے اور مٹی کے ٹھیکرے کو بھر کر کیاریوں تک پہنچایاہی چاہتے تھے تھا کہ بدبو نے ارد گرد کے ساتھوں کا ناک میں دم کردیا اورساتھیوں کے شور مچانے پر انھیں اپنا مشن ادھورا ہی چھوڑکر باتھ روم بھاگنا پڑا۔ ہاتھ منہ دھوکر معصومانہ انداز میں باہر نکلے گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا، لیکن ایک اور ساتھی ر وشن دین یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے انھوں نے بھرے بازار میں گویا بھانڈا پھوڑ دیا۔
” حضرات ! ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیے۔“ اُنھوں نے ان بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بلند آواز میں کہنا شروع کیا ہی تھا کہ وہ بزرگوار ان کا عندیا سمجھ گئے اور لٹھ لیکر ان کے پیچھے دوڑے۔ باقی لوگ جو بدبو سے ویسے ہی پریشان تھے یہ منظر دیکھ کر خوب محظوظ ہوئے لیکن بزرگوار کا غصہ کئی دن بعد ان کی سمجھ میں آیا جب روشن دین صاحب نے پٹتے ہوئے ان کا راز فاش کردیا۔
بزرگ ساتھی نے، گو روشن دین کو خوب پیٹا ،جی بھر کر پیٹااور اپنے دل کی بھڑاس نکالی لیکن ان کاپول کھل چکا تھا،اور یہ واقعہ آنے والے کئی دنوں تک ساتھیوں کے لئے دل لگی کا باعث بنا رہا۔
 
انھی دنوں قیدیوں کی طرف سے چوہوں کی اکثر شکایات سننے میں آرہی تھیں۔ لہٰذہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کافیصلہ کیا گیا ۔دن ہی دن میں وارڈ کی تمام آبی گزر گاہوں اور دیگر سوراخوں کا جائزہ لیا گیااور ان کے لئے مناسب رکاوٹیں تلاش کر کے رکھ لی گئیں۔ رات ہوتے ہی ان تمام سوراخوں کو نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیا گیا۔تمام مجبور و مقہور قیدیوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے، لکڑی کے ٹکڑے اور جوتے چپل وغیرہ سنبھال لیے اور پھر اسی احتیاط کے ساتھ ایک سوراخ کو کھولا گیا اور تمام لوگ الرٹ ہوگئے۔
کچھ ہی دیر میں ایک چوہا باہر سے اندر آیا ، ادھر ادھر گھوما کیا اور کچھ دیر بعد باہر چلا گیا۔ شکاری دم سادھے ہوے تیار کھڑے تھے لیکن ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت اس اکیلے چوہے کو کچھ نہ کہا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ چوہا دلیرانا انداز میں دوبارہ اس سوراخ سے اندر داخل ہوا، اب اس چوہے کے پیچھے دوسرے چوہوں کی ایک لمبی قطار نظر آئی۔ان سب چوہوں کوبھی اندر آنے سے نہ روکا گیا۔جب ایک اچھی خاصی تعداد ان بد نصیب چوہوں کی اندر داخل ہوچکی تو اس واحد سوراخ کو بند کر دیا گیا اور شکاری اپنے اپنے ہتھیار سنبھالے ان چوہوں پر پل پڑے۔ اب کیا تھا۔ مار مار کر ان چوہوں کا بھرکس نکال دیا گیا اور ان سب چوہوں کی لاشیں پودوں کی کھاد میں استعمال کرنے کے لیے سنبھال لی گئیں۔اس رات وارڈ میں وہ دھما چوکڑی مچی کہ الامان و الحفیظ۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی گارڈ فورا ًاندر داخل ہوئے اور ایک ایک
قیدی کا بغور معائنہ کرنے لگے۔ ان کے خیال میں رات اچھی خاصی سر پھٹول ہوئی تھی اور اس وقت وہ زخمیوں کو جمع کرنے کے لیے آئے
تھے۔ وہ زخمی قیدیوں کے بجائے مردہ چوہوں کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے اور بغیر کچھ کہے واپس چلے گئے۔
وہ دن ان قیدیوں کے لیے ایک بہت مصروف دن تھا۔ سارا دن سب مل کر کیاریوں کو کھودا کیے اور چوہوں کو دبایا کیے۔لگتا تھا کہ وہ ساری زندگی مالی کاکام ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ دن ڈھلا تو کیاریاں ایک بار پھر سے صاف ستھری ہوچکی تھیں اور ان میں دور سے بالٹیوں کے ذریعے پانی بھی لاکر ڈالاگیاتھا۔
ان کی محنت رنگ لائی اور کچھ ہی دنوں میں کیاریاں رنگ برنگے پھولوں اور مزے مزے کی سبزیوں سے سج گیئں۔ جنگل میں منگل کا سا سماں تھا۔ جیلر اور گارڈز نے جو ساری زندگی قاتلوں چوروں اور عادی مجرموں کو ان وارڈوں میںاپنی قید کے دن گن گن کر گزارتے دیکھا تھا، کب اس طرح کے خوبصورت مناظر دیکھے تھے۔وہ اس باد بہاری سے ناآشنا تھے۔انھیں یہ سب کچھ بہت اچھا لگا۔ رفتہ رفتہ ان قیدیوں
کی طرف سے انھیں اطمینان ہوتا چلا گیا کہ یہ لوگ عادی مجرم ہرگز نہیں ہیں بلکہ سیاسی حالات کے پلٹا کھانے کی وجہ سے ان کال کوٹھریوں میں آن پڑے ہیں۔ انھیں ان سیدھے سادھے مذہبی لوگوں پر ترس آنے لگا اور یوں ان کی جیل کی زندگی نسبتاً آسان ہوتی چلی گئی۔
انھی دنوں انسپکٹر جیل خانہ جات اس جیل کے معائینے کے لئے تشریف لائے۔ہر وارڈ سے ایک ایک شخص کو چنا گیا تاکہ انسپکٹر صاحب اس سے انٹرویو کرسکیں۔ اس وارڈ سے’ قرعہ فال بنامِ منِ دیوانا زدند‘یعنی ساتھیوں کے مشورے کے ساتھ اباجان کے نام نکلا۔اباجان نے پہلے ہی سے اپنے تمام ساتھیوں کو اسپیشل ھدایات دیدیں تاکہ معائنے کے وقت کام آوے اور خود کشاں کشاں ایک گارڈ کی معیت میں انسپکٹر صاحب کے حضور میں پہنچے۔
انسپکٹر نے سلام کلام کے بعد طبیعت پوچھی اور پھر اس رسمی گفتگو کے بعد بر سرِ مطلب آیا اور اباجان سے ان کے اور انکے حوالاتی ساتھیوں کے ماضی سے متعلق سوالات کرنے شروع کیے۔ جوابات پہلے ہی سے تیار تھے۔ اباجان نے اپنے تبلیغی مشن کو دل کھول کر بیان کیا اور بڑھ چڑھ کر اسکی وکالت کی۔ اسلحہ کی نمائش، تخریب کاری، ہلڑبازی، قتل و غارت گری ؟ایں چہ معنی دارد؟ بقول شاعر
عشق کی بات بیسوا جانیں
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں
اباجان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ سب لوگ ایک اسلامی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کام لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیناہے۔ بس اور کیا۔
معائنے کے لیے انسپکٹر کے ساتھ اپنے وارڈ میں پہنچے جہاں پر ایک طرف کچھ ساتھی شطرنج اور چوسر کی بازی لگائے ہوئے تھے تو کچھ لوگ دوسری طرف فرشی نشستوں پر بیٹھے ، موٹی موٹی کتابیں درمیان میں رکھے ہوئے ، دینی و تہذیبی قسم کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ اُدھر تیسری طرف اباجان کا لگایا ہوا مدرسہ اپنی آن بان کے ساتھ جاری و ساری تھا۔
انسپکٹر اس مظاہرے سے بہت مرعوب ہوا ، ادھر وہ ان قیدیوں کے لگائے ہوئے باغ،خوشنماسبزیوں اوررنگ برنگے پھولوں سے لدی ہوئی کیاریوںکو بھی دیکھ چکا تھا۔ اس نے خاطر خواہ اپنی سفارشات مرتب کیں اور ان میں لکھا کہ یہ سب سیدھے سادھے قسم کے، مذہبی جنونی
لوگ ہیں جن کا بادی النظر میںاخلاقی جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہی ارد گرد کے علاقوں کی یہ شکایات کی یہ لوگ ان پر حملوں میں ملوث ہیں تو اس بارے میں پولیس کی تفتیش جاری ہے اور اس کے مکمل ہونے پر ہی کوئی کارروائی کی جائےگی۔اس اثناءمیں یہ لوگ شریف قسم کے پر امن شہری ثابت ہورہے ہیں، جن کے بارے میں حکومت کی طرف سے نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہیئے۔
ان سفارشات کو بالاآخر جسٹس پنٹو نے درخور اعتناءجانا اوران قیدیوں کے متعلق فیصلہ سنایا کہ ان کے اچھے رویہ کے نتیجے کے طور پر ان لوگوں کے ساتھ بہتر برتاﺅکیا جائے، انھیں کھانے پینے رہنے اور مطالعہ وغیرہ کے لئے بہتر ماحول مہیا کیا جائے۔ ساٹھ سال کی عمر تک کے قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ان کے علاوہ جن قیدیوں پر فوجداری مقدمات نہیں ہیں انھیں بھی جلد از جلد رہا کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔
جسٹس پنٹو کے احکامات پر فی الفور عمل کیا گیا اور نتیجتاًقیدیوں کو کھانے کے لئے بہتر ا نتظام کیا گیا۔ انھیں مفت چائے کی پتی، خشک دودھ اور چینی وغیرہ فراہم کی گیئں تاکہ وہ اپنی بیرک ہی میں چائے بنا سکیں۔ پڑھنے کے لیے قیدیوں کو کتابیں فراہم کی گئیں اور ان کی کھیتی باڑی کے کھاد بھی مہیا کی گئی۔ یہاںتک کہ ان قیدیوں کو اپنی اگائی ہوئی سبزیاں پکانے اور کھانے کی بھی اجازت دیدی گئی۔ادھر قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی بھی شروع ہوئی۔
اباجان اور ان کے ساتھیوں پر سرحدی علاقے میں لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا مقدمہ قائم تھا، لہذہ ان کی رہائی خارج از امکان تھی۔ انھی دنوں پولیس نے ان قیدیوں کی شناختی پریڈ کروائی۔نانا پٹیل کے گاﺅںمیںحملے کے وقت گھر میں موجود ایک مرہٹی لڑکی نے ان ڈاکوﺅں کو بہت اچھی طرح سے دیکھا تھا اور وہ ہی انھیں پہچان سکتی تھی، لہٰذہ اس گاﺅں سے اس لڑکی کو بلا کر ان قیدیوں کا سامنا کروایا گیا۔
یہ وقت بہت اضطراب کا تھا۔ اباجان کو یقین تھا کہ وہ لڑکی انھیں ضرور پہچان لے گی۔ جب آمنا سامنا ہوا تو اس کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک بھی نمایاں تھی۔ اس نے انھیں پہچان لیا تھا اور عین اس وقت جب اباجان کو یقین ہوگیا کہ اب وہ انھیں پہچان لینے کا اعلان کرے گی، اس نے پیچھے مڑکر کہا
” نہیں ! یہ وہ نہیں ہیں“
تین مرتبہ شناختی پریڈ ہوئی اور تینوں مرتبہ اس نے اباجان کو پہچاننے سے صاف انکار کردیا۔ یہ یقیناً اس احسان کا بدلہ تھا جو اباجان نے اس اس کی جان بخشی کرتے ہوئے اس پر کیا تھا۔اس لڑکی نے یقیناًاحسان کا پاس رکھاتھا، وہ کیسے کہہ دیتی کہ اس رات اس کا بھائی اسکے گھر آیا تھا اور اسکی اور اسکے بچے کی جان بخشی کرتے ہوئے انھیں تسلیاں دی تھیں ۔انھیں دلاسا دیا تھا کہ وہ محفوظ ہیں اور انھیں کچھ نہیں ہوگا۔کس طرح وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے بھائی کو موت کے منہ میںدھکیل دیتی۔ اس نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔ اس نے صاف صاف جھوٹ بول کر اپنے احسان کا بدلہ چکا دیا ۔اباجان اور ان کے ساتھی موت کے منہ سے نکل آئے تھے۔
(جاری ہے)
 
باب ہشتم۔فسانہ آزاد​
سوئے منزل چلے​
محمد خلیل الر حمٰن​
(نوٹ: یہ باب وہ واحد داستان ہے جو ہم اباجان کی زندگی میں لکھ کر انھیں سنا چکے تھے۔ ان کی ڈانٹ اب بھی یاد ہے کہ” ابے! اپنے باپ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کررہا ہے“۔ان کی وفات کے بعد اس میں ردو بدل کرنے کا دل نہ چاہا تو اسے من و عن ہی رہنے دیا۔)​
اباجان کو سرور چچا کی چھوٹی بیٹی کے امتحان میں اول آنے کی خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مسرور لہجے میں کہنے لگے۔​
© ” سرور کے دل میں بھی پڑھائی کا شوق میں نے ہی ڈالا۔ جیل میں جب وقت نہ گزرتا تو میں نے اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہوکر ساتھیوں کو عربی پڑھانی شروع کردی، رفتہ رفتہ میرے گرد پندرہ بیس نوجوان طالب علم جمع ہوگئے اور روز عربی کے سبق لینے لگے۔ گردانیں طویل ہوتی چلی گئیں، اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔ دونوں چھوٹے یعنی سرور اور ہاشم بھی جیل میں میرے ساتھ تھے، لہٰذہ دونوں ہی شوق سے روزآنہ سبق لینے لگے۔“

یہ قصہ ہے سقوط ِ حیدرآباد کا اور اس کے بعد اباجان کے جیل کاٹنے اور نتیجے کے طور پر رہا ہوکر پاکستان پہنچنے کا۔ لیکن اباجان کے دیگر محیر العقل کارہائے نمایاں کی طرح یہ بھی حیرت انگیز واقعات سے پر ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ سچا واقعہ ہے یا کسی حیرت انگیز ناول کا کوئی دلچسپ باب، جس میں ہر صفحے پر نت نئے سنسنی خیز واقعات بھرے پڑے ہوں۔​
اباجان کے جیل پہنچنے اور وہاں پر انتہائی دلچسپ بیس ماہ گزارنے کا تذکرہ پھر کبھی بیان کروں گا۔ آج کا قصہ ان کے آزادی کا پروانہ ملنے کے بعد کے واقعات سے متعلق ہے۔ آزادی کا پروانہ ملتے ہی ضروری کپڑے اور ایک ایک کمبل قیدیوں میں بانٹے گئے، اباجان اور دونوں چھوٹے بھائیوں نے کمال ہوشیاری سے ایک ایک کمبل اور ہتھیالیا اور انھی کمبلوں نے نہ صرف راستے میں بلکہ اگلے کئی مہینوں تک ان کا ساتھ دیا اور انھیں ٹھٹھرتی ہوئی سردی سے محفوظ رکھا۔ تقریباً اٹھارہ بیس ساتھیوں کا یہ قافلہ حیدرآباد جیل سے نکلا اور ٹرین میں بیٹھ کر برار کی طرف روانہ ہوا۔ آکولا اسٹیشن پہنچ کر سب ساتھیوں نے اپنے اپنے سامان ِ سفر کو سمیٹ کر تینوں بھایﺅں کی مدد سے اسے پٹریوں کے پار ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم اور دوسرے پلیٹ فارم سے تیسرے پلیٹ فارم تک پہنچایا اور پھر نہایت گرم جوشی سے رخصت ہوئے تو یہ تینوں بھائی اس وسیع وعریض سرزمین پر یکہ و تنہا حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے رہ گئے۔اباجان نے سب سے پہلے خود کو سنبھالا اور دونوں چھوٹے بھائیوں کو تسلی دی جو ان رخصت ہونے والے جیل کے ساتھیوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ لو یہ بھی گئے۔اباجان نے ملکِ خدا تنگ نیست و پائے گدا لنگ نیست کے مصداق قدم بڑھائے کہ لو ، اب ”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد​
چلے گا بنجارہ“۔ ان بنجاروں کے پاس شاید ان دوہری کمبلوں اور چند کپڑوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا اور نہ ہی ہندوستان کی اس وسیع و عریض سر​
زمین پر سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ۔ واپس باسم جانے کا تصور ہی لرزہ خیز تھا، جہاں پر خونخوار ہندو انہیں جان سے مارنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ صرف ایک نام تھا، ڈاکٹر عمر خان صاحب ڈینٹسٹ کا، جو اس شہرِ غدار میں ان کا کچھ سہارہ بن سکتا تھا، لہٰذہ اباجان نے ڈاکٹر عمر خان صاحب کی تلاش کا قصد کیا۔ دل میں ٹھان لی تھی کہ ہار نہیں مانیں گے۔ جس اللہ کی وحدانیت کے گن گاتے پھرتے تھے ، اس اللہ نے انہیں موت کے پنجے سے یوں نکالا تھا کہ ان کا بال تک بیکا نہیں ہوا تھا۔​
ہزاروں ہندوﺅں کے گھیرے کو اپنے زورِ بازو کے بل بوتے پر توڑ کر نکل آنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اور اب جیل کے تھکا دینے والے بیس ماہ بھی اپنے اختتام کو پہنچے تھے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود بھارت سرکار نے انہیں حیدر آباد کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھتے ہوئے چوبیس گھنٹوں میں ریاست حیدرآباد سے بیدخل ہونے کا حکم سنایا تھا۔​
آکولا اسٹیشن سے باہر نکلے تو سناٹے میں ایک طرف ایک سرائے کے سامنے باسم جانے والی لاری کھڑی تھی جو صبح سویرے روانہ ہونے والی تھی۔ اس لاری کا کلینر یعقو ب سر ائے کی ایک چارپائی پر لحاف اوڑھے لیٹا ہوا تھا ، انہیں دیکھتے ہی آواز لگائی، ” ہے کوئی مسافر ، باسم نان اسٹاپ۔“​
اباجان نے اسے پہچانتے ہوئے فوراً بلند آواز میں کہا۔​
” کیوں رے! یعقوب کیا ارادے ہیں؟“​
” اسمٰعیل بھائی ؟ “ یعقوب لپکا اور اباجان سے بغلگیر ہوگیا۔​
اباجان نے علیک سلیک کے بعد مختصراً اسے اپنے حالات سے آگاہ کیا اور کہا۔​
” میں ذرا ڈاکٹر عمر خاں صاحب کی تلاش میں جارہا ہوں۔ تم ان دونوں بچوں کا خیال رکھو۔“​
یعقوب نے سرور چچا اور ہاشم چچا کو گلے سے لگا لیا اور بولا۔​
” تم ان کی فکر نہ کر و۔ میں انہیں اپنے بستر پر ساتھ سلا لیتا ہوں اتنے تم ڈاکٹر صاحب کی تلاش کر آﺅ۔“​
اس نے دونوں کو چار پائی پر لٹا کر اچھی طرح لحاف اڑھادیا اوراباجان رات کی تاریکی میں ڈاکٹر عمر خان کی حویلی کی تلاش میں نکل​
کھڑے ہوئے۔
 
آخرِ کار تھوڑی سی تگ و دو کے بعد انکی حویلی نظر آگئی۔ قریب پہنچ کراباجان نے آواز دی۔
” ڈاکٹر عمر خان صاحب ہوت۔“
” کون ہے رے؟“ کافی دیر کی سمع خراشی کے بعد اوپر سے ایک کرخت آواز نے جوب دیا۔
” ڈاکٹر عمر خان صاحب ہیں؟“
” یہاں کوئی ڈاکٹر عمر خاں نہیں رہتے۔“
بھائی! پہلے تویہیں رہتے تھے۔“
”رہتے تو تھے مگر اب نہیں رہتے۔“
کچھ اتا پتا ہے انکا؟“
ہاں شاید ، ۔۔۔ حویلی میں منتقل ہو گئے تھے۔“
شکریہ بھائی! رات کے وقت تمہیں تنگ کرنے پر معذرت۔“
اباجان ۔۔۔ حویلی کی تلاش میں نکلے۔اباجان ، بقول خود انکے ، ”رات کے اندھے“ ، اور رات تین بجے کا اتھاہ سناٹا اپنی تاریکی سمیت چاروں طرف چھایا ہوا، ایسے میں جائیں تو جائیں کہاں؟ لیکن کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے والے کو خدا بھی مل جاتا ہے، پھر یہ ۔۔۔
حویلی بھلا کیا چیز تھی۔ ایک گھنٹے تک تاریکیوں میں بھٹکنے کے بعد گویا نورِ سحر کی طرح ملی۔ صبحِ صادق ہونے والی تھی۔ حویلی پر پہنچ کر پھر آواز لگائی۔
” ڈاکٹر عمر خاں بھائی ہوت۔“
اوپر سے لالٹین ہاتھ میں لیے ڈاکٹر صاحب نے جھانکا۔
”کون ہو بھائی؟“
” جی میں اسمٰعیل ہوں۔ حیدرآباد سے آیا ہوں۔“
” اچھا میں ابھی حاضر ہوتا ہوں۔“
لٹھ اور لالٹین ہاتھ میں سنبھالے ہوئے نیچے اترے اور سوال کیا ۔
” سامان وغیرہ کہاں ہے؟“
اباجان نے جواب دیا۔” اسٹیشن پر بچوں کے ساتھ ہے۔“
ڈاکٹر صاحب نے قریب ہی کھڑے ہوے ایک تانگے کے کوچوان کو نیند سے اٹھایا، تانگا حرکت میں آیا اور ڈاکٹر عمر خان اباجان کے ساتھ اسٹیشن پہنچے، دونوں بچوں کو اٹھایا اور واپس حویلی پہنچ کر والد کو ایک کمرہ دکھانے کے لیے لالٹین اوپر اٹھائی تو حیران رہ گیے ۔
” ارے ! اسمٰعیل تم؟“
” کیا واقعی ! آپ نے پہلے پہچانا نہیں تھا؟“
” نہیں۔ ہم تو یہاں حیدرآباد سے آنے والے مسلمانوں کی آمد کے منتظررہتے ہیں تاکہ انھیں مناسب سہولیات فراہم کر سکیں۔“
اپنا بستر اور اپنا کمرہ ملا تو تینوں بھائی فوراً ہی بستر پر ڈھیر ہوگیے اور یوں انٹا غفیل ہوکر سوئے کہ اگلے دن سہہ پہر کی خبر لائے۔
کمرہ یوں بند ہوا کہ جب اگلے دن دوپہر تک بھی نہ کھلا تو دیگر اصحاب کو سخت تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں ہندوﺅں نے انھیں زہر کھلا کر تو نہیں بھیجا تھا؟ طے یہ ہوا کہ اگر اگلے ایک گھنٹے میں بھی دروازہ نہ کھلا تو پھر دروازہ توڑنا پڑے گا۔
دروازہ توڑنے کی نوبت تو نہ آئی اور یوں اباجان کو سر چھپانے کی جگہ میسر آگئی تو اباجان کو فکر ِ معاش لاحق ہوئی۔ ڈ اکٹر عمر خان کے کلینک کے ایک کونے میں اپنا ایک میز کا دفتر بنایا اور لگے نت نئی اسکیمیں بنانے۔ انھیں دنوں اتفاق سے بارش کے باعث ایک پریس کی دیوار گری تو اباجان اور ان کے ساتھی وہاں سے جاکر پریس کا پتھر چرا لائے اور یوں ہاتھ سے کتابت اور اشاعت کے مراحل طے کرکے ہفت روزہ ’امن‘ کا پہلا شمارہ چھپ کر مدیر صاحب کی سائیکل پر پہنچا جہاں سے وہ اسے سارے شہر میں بیچا کیے۔ پہلے ہی شمارے میں اباجان کا لکھا ہوا اداریہ ” گاندھی جی اور دیہی پنچایتیں “اپنی مقبولیت کی تمام حدیں عبور کر گیا۔
 
ادھر ہفت روزہ ’امن‘ نے اپنی اشاعت کا ’باقاعدہ‘ آغاز کیا ادھر سامنے ایک درزی نے ہاشم چچا کو دیکھاتو آواز دیکر فوراً بلایا۔
” ارے ادھر آ رے لڑکے“
” جی فرمائیے؟“
” تو ہاشم ہے نا؟“
” جی ہاں“
” تو پھر یہ نوجوان شخص اسمٰعیل بھائی ہیں؟“
” جی ہاں! لیکن آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا؟“
” ارے ! میں تمہارے بڑے بھائی میاں کا شاگرد ہوں۔ سلائی میں نے انہیں سے سیکھی ہے۔ “
یوں ہاشم چچا اس دکان پر ملازم ہوئے اور آدھوں آدھ اجرت پر روز آنہ چار چھ روپے گھر لانے لگے۔ روز بازار سے کلیجی لاکر ، اسے تل کر بازار کی روٹی کے ساتھ کھالیا جاتا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا جاتا۔
اسی اثناءمیں ہز ہائی نس مہاراجہ پلس گڑھ کے پرنسپل سکریٹری نے اباجان کو دیکھا تو ٹھٹھک گیا، پوچھا۔
” ان صاحب کا تعلق اسی جماعت کے لوگوں سے تو نہیں ہے جو تقریر کرتے پھرتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں؟“
جواب اثبات میں پایا تو باچھیں کھِل گئیں ۔” ارے! انہیں کو تو میں ڈھونڈ رہا تھا۔ مہاراجہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ انہیں پکڑ لاﺅ ، ایک ہندو مسلم مناظرہ منعقد کریں گے۔“
اباجان کو باقاعدہ پلس گڑھ آنے کی دعوت اور فرسٹ کلاس ٹرین کے ٹکٹ کے پیسے ( ساٹھ روپے نقد سکہِ رائج الوقت) پیش کیے
گئے جسے انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول فرمایا۔ چون روپے ہاشم چچا کو کھانے کے خرچ کے لیے دیے اور چھ روپے کا ٹرین ٹکٹ خرید کر تھرڈ کلاس میں پلس گڑھ ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ انہیں رسیو کرنے کوئی نہیں آیا تھا۔
اباجان نے رومال کندھے پر رکھا اور تیز تیز چلتے ہوئے اسٹیشن سے باہر کی جانب جانے لگے۔ فرسٹ کلاس کے ڈبے کے سامنے مہاراجہ کے پرنسپل سکر یٹری مع راجکمارہز ہائی نس اور مسٹر بنر جی، انتظار میں کھڑے تھے۔ گورنر شکلا کی صاحبزادی بھی ان کے ہمراہ معزز مہمان کے لیے چشمِ براہ تھیں۔ سلام علیک کے بعد رسمی خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا اور یوں یہ شاہی قافلہ اپنی منزلِ مقصود کی جانب عازمِ سفر ہوا۔
ہندوستان کے راجے مہاراجے اپنی جاگیریں کھوچکے تھے اور بھارت سرکار سے سالانہ وظیفہ پاتے تھے۔ مہاراجہ پلس گڑھ کو بھی حکومتِ ہندوستان کی جانب سے بیس لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا جو بقول خود مہاراجہ صاحب کے، ان کے ہاتھیوں کی غذا کے لیے ہی تقریباً کافی ہوتا تھا۔ جاگیریں گئیں لیکن شاہی آن بان نہ گئی۔ راجہ کا دربار اسی شان و شوکت کے ساتھ لگا کرتا جو پرکھوں کی روایت تھی۔
اُدھر مسلمانوں کی بھی غیر مسلم بادشاہوں کے دربار میں حاضری کی ایک عجیب و غریب اور عظیم الشان روایت رہی ہے جس کی امامت شاید حضرت جعفر طیار ؓ فرماتے ہیں۔اباجان بھی ایک اسی درویشانہ شان کے ساتھ اُس دربار میں حاضر ہوئے۔
مہاراجہ نے پر تپاک انداز میں ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنے پہلو میں جگہ دی۔ طعام و قیام کا بند و بست فرمایا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد آرام کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے روز ناشتے سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے۔
” آجاد(آزاد)! آج مہاراجہ ۔۔۔ نے بلایا ہے۔ کیوں نہ تم ان کے سامنے چل کر اپنی تقریر کرو۔“
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اباجان ان کے ساتھ چل دیے ۔ پہلی گاڑی میں مہاراجہ کے ساتھ والد صاحب کو جگہ ملی ۔ سامنے کی سیٹ پر پرنسپل سکریٹری براجمان تھے۔ ان معزز ہستیوں کو لیکر گاڑی کشاں کشاں بلو پیلس پہنچی، جہاں کی ہر چیز بلو یعنی نیلی تھی۔نیلا فرنیچر، نیلا قالین، نیلے جھاڑفانوس، نیلی کراکری، چائے کے برتن وغیرہ، نیلی دیواریں اور ان پر سجی ہوئی نیلی تصویریں، غرضیکہ ایک نیلی دنیا تھی۔ ایک نیلگوں سمندر تھا جو چار سو پھیلا ہوا تھا۔
ابھی تعارف سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشہور ہندو مذہبی پیشوا مہارشی ٹکرو جی مہاراراج اپنے دس چیلوں کے ساتھ دربار میں جلوہ افروز
ہوئے۔ ان کا محفل میں پدھارنا تھا کہ محفل میں ایک جان سی پڑ گئی۔ ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھنا اب اس مسلے کی کیا گت بنتی ہے۔ ٹکرو جی
مہاراج ہندو مسلم مناظروں میں ایک خاص شہرت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ آل انڈیا ریڈیو سی پی سے گیتا کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ان کو دیکھتے ہی اباجان کے تو گویا جسم میں جان ہی نہ رہی۔مذہبی مناظروں میں ٹکرو جی مہاراج کا نام ہی ہیبت طاری کرنے کے لیے کافی تھا جبکہ اباجان نہ ان کی موجودگی کی توقع کر رہے تھے اور نہ ہی اس موقع کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ایسی صورتحال میں ایک مسلمان مدد کے لیے جس ہستی کو پکارتا ہے اباجان نے بھی اسی سے رجوع کیااور انہیں جتنی بھی دعائیں یاد تھیں ، انہوں نے دل ہی دل میں دہرانی شروع کردیں کہ بار الٰہ ! آج ان ہندوﺅں کے سامنے اپنے اس عاجز بندے کی لاج رکھ لیجو۔
 
۔ اباجان کہتے ہیں کہ جتنی جلد دعائیں اس دن قبول ہوتے ہوئے دیکھیں ، شاید ہی کسی اور موقع پر دیکھی ہوں۔ تقریر کے لیے پہلے اباجان کو دعوت دی گئی ۔ وہ کھڑے ہوئے اور نہایت دھیمے انداز میں متانت کے ساتھ بولنا شروع کیا۔
” معزز حاضرینِ محفل! انسان اور انسان میں برابری ممکن ہے۔ انسان اور انسان آپس میں برابر ہوسکتے ہیں لیکن انسان اور جانور میں برابری ناممکن ہے۔ انسان اور جانور آپس میں برابر نہیں ہوسکتے۔ انسانوں کی آپس کی اس برابری کا ادراک اگرکسی دین و مذہب یا دھرم نے کیا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام ہی نے انسانوں کی آپس کی برابری کا ببانگِ دہل اعلان کیا ہے۔ جبکہ دیگر تمام مذاہبِ عالم انسانوں کو آپس میں تقسیم کرنے اور انہیں بڑا چھوٹا بنانے میں مصروف تھے ، ہیں اور رہیں گے۔ ہندو دھرم جو در اصل آریا دھرم ہے ، اس نے آریاﺅں کو بڑا، پوتر اور پاک بناکر اوپر چڑھادیا اور شودروں کو ناپاک، ملیچھ اور ذلیل بنا کر بدنامی اور گمنامی کے اس عمیق غار میں دھکیل دیا جہاں سے وہ ابد لاآباد تک نہیں نکل سکتے۔ ہاں صرف اسلام ہی انہیں عزت اور نیک نامی اور دیگر انسانوں کے ساتھ برابری کا ایک نیا راستہ دکھاتا ہے۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو تمام انسانوں کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے آیا ہے اور اس کا یہی دعوہ ہے جبکہ کسی اور دھرم کا ایسا دعوہ ہرگز نہیں ہے۔ “
اباجان بولتے جاتے تھے اور ان کی آواز بلند ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ ایک ایسی گھن گرج میں تبدیل ہوگئی جس میں مصلحوں کی شفقت، مجاہدوں کا جوش و ولولہ اور وحدانیت پرستوں کا تیقن شامل تھا۔ خیالات کا ایک دریا تھا کہ بہا چلا آتا تھا اور الفاظ تھے کہ ایک نظم ، ترتیب اور تسلسل کے ساتھ منہ سے اس طرح نکل رہے تھے گویا مقرر نے گھنٹوں ان خیالات کو مربوط کیا ہو۔
اباجان نے دو گھنٹے کی ایک طویل تقریر میں نہایت مدلل انداز سے یہ ثابت کردیا کہ فی الحقیقت اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جو انسانیت کے
تمام دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے۔ اور کھوجنے والوں کے ذہنوں کے تمام سوالات کے حل اسلام ہی میں موجود ہیں اور دیگر مذاہب وادیان اپنی تمام تر ذات پات اور دیگر تقسیموں کے ساتھ انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
اباجان کی تقریر کے بعد جب مہارشی کی باری آئی تو انھوں نے ہاتھ جوڑکر معذرت کرلی اور کہا کہ آج میں صرف سننے کے لیے آیا ہوں۔
واپسی کا سفر شروع ہوا تو گاڑیاں آنی شروع ہوئیں اور لوگ بیٹھنے لگے۔ اس افراتفری میںاباجان کو دوسری گاڑی میں جگہ ملی جس میں مسٹر بنر جی ان کے ہمسفر بنے۔ گاڑی چلتے ہی وہ یوں گویا ہوئے۔
” واہ مولٰنا ! کیا تقریر کی ہے۔ ایمان تازہ کردیا۔“
”ہیں! تو کیا آپ مسلمان۔۔۔۔۔۔؟“اباجان حیرت زدہ رہ گئے۔
” ابے مولوی کے بچے! کیا مجھے کافر سمجھاہے؟۔ میرا نام حبیب بنر جی ہے۔ میرے دادا نے اسلام قبول کیا تھا۔“
” ماشاءاللہ۔“ اباجان نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی انہیں گلے لگا لیا۔
الوداعی ملاقات میں راجہ صاحب اباجان کے سر ہوگئے ۔
” اب تم یہیں رہواور چھتیس گڑھ کے گھنے جنگلات اور دیگر علاقوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ادھر پولیس اور فوج بھی تمہارہ بال تک بیکا نہیں کر پائے گی۔ رہی ہماری غرض سو وہ اس طرح پوری ہوگی کہ تمہاری تقریروں میں آریائی موقف اور سماج کی نفی ہوتی ہے جو ہمارے مقصدکے عین مطابق ہے۔“
اباجان نے اس پیشکش کو شکریے کے ساتھ ٹھکراتے ہوئے بتایا کہ اب وہ صرف پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی راجہ صاحب نے
نہایت شگفتہ انداز میںاباجان کو کئی موٹی موٹی گالیاں مرحمت فرمائیں کہ وہ بزدل اور بھگوڑے ہیں اور ڈر کر یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔
اباجان نے انھیں سمجھایا کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ بیس ماہ کی طویل جیل کاٹ کر تھک گئے ہیں اور اب کچھ عرصہ پاکستان جاکر اس دارالامان میں سکون سے رہ کر آرام کرنا چاہتے ہیں تاکہ پھر تازہ دم ہوکر اسلام کی خدمت کر سکیں۔
راجہ صاحب نے باصرار انہیں واپسی کا کرایہ اور دو سو روپے عنایت فرمائے یہ کہتے ہوئے کہ وہ اب صرف نام کے راجہ رہ گئے ہیں جنہیں حکومتِ ہندوستان کی جانب سے گزارہ الاونس ملتا ہے، لہٰذہ اندرایں حالات وہ کچھ زیادہ تو نہیں کرسکتے۔ البتہ انھوں نے کمال شفقت سے ایک پوسٹ کارڈپر اپنا پتہ لکھ کر اباجان کے حوالے کیا کہ ویسے تو تم مجھے بہت خوددار نظر آتے ہو، مگر زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں پیسوں کی مجبوری ہو تو بلا تکلف مجھے یہ کارڈ بھجوا دینا، میں تمہیں اپنے لندن کے بنک اکاﺅنٹ سے پیسے بھجوا دوں گا۔
اباجان نے حویلی سے نکلتے ہی پوسٹ کارڈکو پھاڑ کر پھینک دیا لیکن ان سنہری یادوں کو کلیجے سے لگائے آگے بڑھ گئے۔
ڈاکٹر عمر خان صاحب کی بیٹھک کیا تھی ، احبابِ علم و ادب کا گویا ایک پرسکون ٹھکانا تھی، جہاں پر وقتاً فوقتاً ان کی ادبی محفلیں سجا کرتیں اور مشاعرے منعقد ہوا کرتے۔ ایسے ہی ایک آل انڈیا مشاعرے میں اباجان کی ملاقات سورت سے آئے ہوے ایک شاعر نجمی سے ہوئی۔ بر سبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ ا باجان ا یک ا سلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر،مضمون نگار، comparative religion کے طالب علم ہونے اور عربی فارسی اردو پشتو اور انگریزی میںیکساں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ طرز شاعر بھی ہیں( یا اپنی جوانی میں ہوا کرتے تھے) اور اس ناطے شعر گوئی اور شعر فہمی میں طاق ہیں۔ گواباجان نے اس مشاعرے میں اپنی نظم یا غزل تو نہ پڑھی لیکن دورانِ گفتگو اپنی علمی قابلیت سے نجمی صاحب کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ ان کے گرویدہ ہوگئے، کہنے لگے۔

”مولوی صاحب! میری ایک درخواست ہے۔“
”فرمائیے؟“
” مجھے اس مشاعرے کے بعد کچھ وقت عنایت فرمائیے۔“
” میں حاضر ہوں۔“
خیر صاحب! رات گئے جب تمام شاعروں کے بعد صدر نشین نے بھی اپنی باری پوری کرلی بلکہ بدرجہاتم پوری کرلی یعنی کئی قطعوں، ایک دوغزلہ اور کئی طویل غزلوں کے مترنم اظہار کے بعد شمعِ محفل کو اپنے سامنے سے ہٹانے کی ا جازت مرحمت فرمائی تو اس کے بعد ہی اباجان

اور نجمی صاحب اکھٹے ہوسکے۔
 
” جی اب فرمائیے“
نجمی صاحب جو ُسورت کے ایک گجراتی مسلمان تھے ، یوں گویا ہوئے۔
”مولوی صاحب! یوں تو میں مسلمان ہوں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اسلام اور ایمان سے متعلق کچھ بہت گھمبیر قسم کے خیالات و خدشات میرے ذہن میں پرورش پا رہے ہیں۔خاص طور پر آوا گون کا مسئلہ۔ انھی کے بارے میں آپ کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو چاہتا ہوں۔“
گفتگو شروع ہوئی تو رات بھیگ چلی تھی اور گفتگو اختتام پذیر ہوئی تو سپیدہ سحری نمودار ہوا چاہتا تھا۔اباجان نے پہلے تو بہت اطمینان اور صبر کے ساتھ نجمی کے اعتراضات سنے اور پھر اسی اطمینا ن اور صبر کے ساتھ انہیں سمجھانا شروع کیا۔ ایک ایک کرکے ان کے سارے اعتراضات و خدشات کا مدلل اور بھر پور جواب دینے لگے۔ یہانتک کہ اِدھر موذن نے اللہ کی تکبیر بیان کرنا شروع کی تو اُدھر نجمی نے خوش ہوکر کہا۔

” الحمد للہ کہ میں مسلمان ہوں اور مولوی صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے آج مجھے کافر ہونے سے بچا لیا۔آج آپ سے بات نہ ہوپاتی تو میں تو اسلام جیسی نعمت سے پھر چلا تھا۔“
احسان مندی کے احساس سے زیر بار ہوتے ہوئے نجمی نے اباجان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے اور فرطِ جذبات سے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا
” مولوی صاحب ! اب فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔“
اباجان خوش ہوئے اور فوراً ہی جواب دیا۔
” بھائی ! میں نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا۔ ہاں البتہ اپنے مسلمان بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا میرا فرض تھا ، سو وہ میں نے پورا کیا۔ اب اگر اللہ نے آپ کو یہ توفیق بخشی کہ آپ اپنے وسوسوں اور شیطانی خیالات کو اپنے ذہن سے نوچ کر باہر پھینک سکے تو اس میں میرا تو کوئی کمال
نہیں۔ اللہ کا شکر ادا کیجیے۔“
” اللہ کا شکر پہلے اور آپ کا شکریہ اس کے بعد۰۰۰۔“
نجمی نے بے حد اصرار کیا تو نماز کے لیے اٹھنے سے پہلے اباجان نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا۔
” میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان جاسکوں۔ اگر آپ مجھے پاکستان بھجوانے کا کوئی بند و بست کرسکیں تو یہ آپ کا احسان ہوگا مجھ پر۔“
نجمی خوشی کے مارے اٹھ کھڑے ہوئے اوراباجان کو گلے لگاتے ہوئے کہنے لگے۔
” سمجھ لیجے کہ آپ پاکستان پہنچ گئے۔ آج ہی آپ میری چمڑے کی کھیپ کے ساتھ روانہ ہوجائیے، آگے اللہ مالک ہے۔“
حبیب بن وحید کو والد صاحب کے پروگرام کا علم ہوا تو وہ بھی اباجان کے سر ہوگئے ۔
” اسمٰعیل بھائی! میں بھی تمہارے ساتھ پاکستان جاﺅں گا۔ “
الغرض نجمی نے اس وعدے کے ساتھ کہ وہ بچوں کو جلد بذریعہ ٹرین روانہ کردیں گےاباجان اور حبیب بن وحید کو سورت پہنچایا، پھروہ دونوں وہاں سے احمد آباد اور پھر وہاں سے اونٹوں کے ایک قافلے کے ساتھ راجھستان کے سرحدی علاقوں کی جانب روانہ ہوئے۔اونٹوں کی سواری اور پھر چمڑے کی کھیپ سمیت کاروباری نوعیت کا یہ قافلے کا سفر، گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے کرتے ہوئے یہ لوگ ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں اور پھر وہاں سے تیسرے گاﺅں کی طرف رواں دواں تھے۔ میرِ قافلہ نے اباجان سے کہا۔
” مولوی صاحب ! آپ ہمارے منشی ہیں ، یہ حساب کتاب کا کھاتا سنبھالیے، اور کھالوں کی اس لین دین کا حساب رکھیے۔“
اونٹ کا شمار دنیا کے عجیب و غریب ترین جانوروں میں سے کیا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں،”اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی۔“ اور پھر
اس ٹیڑھی کل والے جانور کی سواری؟ اللہ غنی۔ گھوڑے ، گدھے، خچر اور ہاتھی کی سواری ایک طرف تو اونٹ کی سواری دوسری طرف۔ شاید مولٰنا محمد حسین آزاد کبھی خود اونٹ پر نہیں بیٹھے، ورنہ وہ اونٹ کی کچھ یوں تعریف نہ کرتے۔
” دیکھنا ! سانڈنی سوار جاتا ہے۔ کیا عمدہ سانڈنی ہے۔ کیسی بے تکان جارہی ہے۔ گردن تو دیکھو کیسی پیچھے کو جھکی ہوئی ہے! واہ وا! جیسے مور ناچتا چلا جاتاہے۔ سانڈنی کی کیا بات ہے!“
 
اونٹ کی سواری کا حال تو کوئی اباجان سے پوچھے۔ وہ زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار اونٹ کی سواری کر رہے تھے۔ اونٹ ایک قدم آگے بڑھاتا تو اباجان آگے اور حبیب بن وحید پیچھے کی طرف جھک جاتے اور اونٹ کے اگلے قدم کے منتظر رہتے تانکہ وہ اپنی ھیئت تبدیل کرسکیں ۔ اونٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی دونوں ٹانگیں ایک دوسر ی سے اس قدر فاصلے پر رکھنی پڑتی تھیں کہ رانوں میں مستقل درد رہنے لگا تھا۔ اور پھر یہ اونٹ شاید اس قافلے کاسست ترین اور خبیث ترین اونٹ تھا جو ہر قدم اس سست روی کے ساتھ اٹھاتا تھا گویا انتہائی ناگواری کی حالت میں ایسا کر رہا ہو۔شاید اسے اپنے ان دونوں سواروں کی دلی کیفیت کا بالکل احساس نہ تھاجن کے لیے یہ سفر عقیدت کا سفر تھا۔ کافرستان سے پاکستان کی جانب۔جسے انھوں نے اور ان کے عظیم قائد ، قائدِ اعظم نے بڑی جدو جہد اور قربانیوں سے حاصل کیا تھا۔ آج اباجان کو تین جون سنہ انیس سو چالیس کا وہ دن یاد آرہا تھا جب انھوں نے میرا جان سیال کے ہاں دو گھنٹے مشین چلوا کر ایک گھنٹے کی آل انڈیا ریڈیوکی نشریات میں خبروں کے دوران وزیرِ اعظم انگلستان کی تقریر سنی تھی اور اس میں وزیرِ اعظم کی زبانی یہ سن کر سجدئہ شکر بجالائے تھے کہ’ وہ نہایت افسوس کے ساتھ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کرتے ہیں‘۔آج انہیں ان کے تین جون سنہ انیس سو چالیس کو دیکھے ہوے خواب کی تعبیر ملنے والی تھی۔آج وہ اپنے پاک وطن پاکستان جارہے تھے جو اپنی جغرافیائی حدوں کی وجہ سے ایک ملک نہیں کہلایا جاتا تھا بلکہ اس کا حدود اربعہ یہ تھا کہ وہ بر صغیر ہند وستان کے مسلمانوں کا وطن تھا۔
اباجان اور حبیب بن وحید کو ایک ایک قمچی تھمادی گئی تھی کہ وہ گاہے بگاہے اس کا استعمال کرتے رہیں تاکہ اونٹ اس میانہ روی سے بالکل ہی بیزار ہوکر از خود ہی زمیں پرنہ بیٹھ جائے۔اونٹ کی سست رفتاری کو دیکھ کرحبیب بن وحیدکو یکلخت جو غصہ آیا تو انہوں نے اپنی قمچی ہوا میں
لہرائی اور شائیں کی آواز کے ساتھ پوری قوت سے اسے اونٹ کے سر پر دے مارا۔ اگلے کئی لمحوں تک دونوں کو بالکل ہوش نہ رہا کہ کیا ہورہا ہے، کیونکہ یکبارگی اونٹ بلند آواز میں بلبلایا اور دوڑ پڑا۔جن لوگوں نے اونٹ کو خراماں خراماں چہل قدمی کرتے دیکھا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اونٹ بالکل نہیں بھاگ سکتا، یہ جان کر ضرور حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ اونٹ ضرورت پڑنے پر انتہائی تیز رفتار سے دوڑ بھی سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ساربان حضرات یہ حقیقت خوب جانتے ہیں کہ اونٹ کو تیز چلانے کے لیے اس کے جسم پر تو قمچی رسید کی جاسکتی
ہے لیکن اس کے سر پر جو اس کے جسم کے نازک ترین حصوں میں سے ایک ہے کبھی نہیں مار نا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اونٹ کو ناقابلِ برداشت تکلیف ہوتی ہے اور وہ گویا پاگل سا ہوجاتا ہے۔
قمچی کی مارپڑتے ہی اونٹ کو اپنی نانی ےاد آگئی اور اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، اور بے تحاشا ایک طرف کو دوڑ پڑا۔ نیز اس کی بدتمیزی ملا حظہ فرمایئے کہ دوڑتے وقت ارد گرد کی خار دار جھاڑیوں کا بھی خیال نہیں کیا اور بلا جھجک ان گھستا چلا گیا اور کئی میل تک دوڑا کیا۔ نتیجتاً اباجان اور حبیب بن وحید ان خار دار جھاڑیوں سے بری طرح زخمی ہوئے۔
بے وفا اونٹ کا وفا دار ساربان یہ ماجرہ دیکھ کر اونٹ کی جانب دوڑا اور پھر دوڑتا ہی چلا گیا، کیوں کہ اونٹ کی رفتار خاصی تیز تھی۔
اگلے آدھے گھنٹے تک دونوں اشخاص اپنی جانِ عزیز کو سنبھالے اونٹ کے جسم سے چمٹے رہے جو اس وقت انتہائی تیز رفتار سے دوڑا جارہا تھا اور اس کا سابان اس بھاگتے بھوت کا پیچھا کرتے ہوئے اسے چمکارتا اور للکارتا جاتا تھا۔ بالاآخر اونٹ ایک جگہ جاکر رک گیا، ساربان کی چمکاریں رنگ لائی تھیں یا پھر شاید اونٹ ہی بھاگتے بھاگتے تھک گیا تھا۔
بعد میں قافلے کے ایک ساتھی نے سمجھایا کہ اونٹ کے سر پر کبھی نہیں مارنا چاہیے تو اباجان اور حبیب بن وحیددونوں نے یہ عہد کیا کہ وہ آئیندہ کبھی کسی اونٹ کے سر پر نہیں ماریں گے۔آدھے گھیٹے تک ایک وحشیانہ انداز میں دوڑتے ہوئے اونٹ کی پیٹھ پر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنا اور اونٹ کو روکنے اور قابو میں کرنے کے لئے قافلہ والوں کی تگ و دوایک انتہائی سبق آموز صورتحال کے طور پر ان کے سامنے تھی۔
الغرض سفر جاری رہا اور ایک رات جبکہ اس وسیع و عریض ریگستان میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی اوراباجان اور حبیب بن وحید گاﺅں گاﺅں چمڑے کی رسیدیں کاٹتے کاٹتے بیزار ہوچکے تھے، وہ سرحدی گاﺅں واوڑی میں سرحد پر لگی خار دار تار تک پہنچ گئے۔
” مولوی صاحب ! اب آپ لوگ اس درخت پر چڑھ کر باڑھ کی دوسری جانب پاکستان میں کود جائیے۔
اباجان اور حبیب بن وحید اپنے ساتھیوں سے گلے ملے اورالوداع کہہ کر اپنے تھیلے سنبھالتے ہوئے اونٹ کے اوپر چڑھ کر درخت کی بلند شاخ پر پہنچ گئے ۔ وہاں سے پہلے اپنے تھیلے دوسری طرف پھینکے اور پھر خود بھی تھلوں کے پیچھے باڑھ کے دوسری طرف کود گئے۔ اباجان پاکستان پہنچ چکے تھے۔
سرحدی پولیس نے ان دونوں مولویوں کو سرحدی علاقے میں آوارہ گردی کرتے ہوئے پایا تو فوراً گرفتار کرکے اپنے افسر کے سامنے پیش
کردیا ۔ افسر نے کہا۔” اگر میں چاہوں تو تم کو فوراً سزا سنا سکتا ہوں لیکن چونکہ میں نے ( میرے آدمیوں نے) ہی تم کو سرحد پار کرتے ہوئے گرفتار کیا ہے لہٰذہ میں تمہیں میر پور خاص مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کروں گا۔“
اس نے جمعدار عبدالعزیزکو حکم دیا کہ وہ دونوں مجرموں کو لیکر فوراً میر پور خاص روانہ ہوجائے اور مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں پیش کرے۔
جمعدار عبدالعزیز دو نوں مجرموں کو لیکر چلا تو اس شان سے کہ راستے کے ہر ریسٹورنٹ ( عرفِ عام میں ہوٹل) پر رُکتا اور ہوٹل والے کو حکم دیتا کہ یہ دونوں سرکاری مہمان ہیں ، لہٰذہ ان کی خاطر خواہ، خاطر مدارات کی جائے۔
میر پور خاص پہنچے تو اس نے دونوں کو ایک ہوٹل میں انھی اسپیشل ہدایات کے ساتھ ٹھہرایا کہیہ دونوں سرکاری مہمان ہیں لہٰذہ یہ جو کھانا چاہیں انھیں پکا کر کھلایا جائے۔“ اوراباجان اور حبیب بن وحید سے کہنے لگا۔”مولوی صاحب ! آپ لوگ یہاں اطمینان کے ساتھ ٹہریئے ، میں ایک آدھ دن میں پیشی کی تاریخ لیکر آتا ہوں۔“ اور وہاں سے چلتا بنا۔

دونوں سرکاری مہمان ٹھاٹھ سے اس ہوٹل میں رہا کیے اور ان کی خاطر خواہ مدارات ہوتی رہیں، لیکن عبدالعزیز نے نہ آنا تھا اور وہ نہ آیا، یہاں تک کہ ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک ہفتے بعد جب جمعدار عبدالعزیز نے اپنی شکل دکھائی تو اباجان نے شکوہ کیا۔
” بھائی عبدالعزیز ! ہم تو یہاں ہوٹل میں انتظار کرتے کرتے بیزار ہوگئے ہیں۔جلد ہی تاریخ لیکر ہمیں عدالت میں پیش کرو۔“
مولوی صاحب! تم دونوں بھی بس کاٹھ کے الو ہو۔“ عبدالعزیز ہنس پڑا۔پر جب دیکھا کہ یہ دونوں بھاگنے کی بجائے عدالت میں حاضر ہونے پر مصر ہیں تو خوشخبری سنائی کہ کل صبح تم دونوں کی پیشی ہے۔
اگلے دن دوپہر تک دونوں کی پیشی ممکن ہوسکی۔ مجسٹریٹ نے جمعدار عبدالعزیز سے ان کا کیس سننے کے بعد دونوں کو صفائی کا موقعہ دیا اور ان کے بیانات سننے کے بعد، ان دونوں کو گھور کر دیکھتے ہوئے عدالت کا فیصلہ سنا دیا۔
” محمد اسمٰعیل آزاد اور حبیب بن وحید! تم دونوں نے سرحد پار کرکے پاکستان آنے کا جو جرم کیا ہے ، اس جرم کے لیے تم دونوں کو تا برخواستِ عدالت قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔“
یہ فیصلہ سناتے ہی مجسٹریٹ نے عدالت برخواست کر دی اور یوں اباجان پاکستان کے آزاد اور باعزت شہری بن گئے۔
٭٭٭٭
 
باب نہم:
پھر جس نے اللہ اور اُس کے رسول کے لیے ہجرت کی​
محمد خلیل الر حمٰن
اباجان پاکستان پہنچ گئے اور یہاں پر انھوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ زادِ سفر جیل سے ملا ہوا ایک کمبل تھا ۔ بیوی بچے اور ماں باپ بھائی بہن وغیرہ ابھی ہندوستان ہی میں تھے، لیکن راستے کھل گئے تھے اور لوگ باقاعدہ راستوں سے پاکستان آنے لگے تھے۔ ایک بھائی بھارت سے چلے تولاہور پہنچ گئے اور وہیں اپنا ڈیرہ جمالیا۔ باقی بہن بھائی اماں جان کے ساتھ بذریعہ ریل کراچی پہنچے اور یہاں رہائش اختیار کرلی۔ والد صاحب نے بڑے بھئی میاں کے ساتھ حیدرآباد ہی میں رہنا منظور کیا۔راقم الحروف کی اماں اور بڑے بھائی حبیب الرحمٰن اباجان کے ایک بہت اچھے دوست جناب روشن دین صاحب اور ان کے خاندان کے ساتھ پشاور پہنچے ۔اسی طرح ساس سسر وغیرہ بھی وہاں سے چلے تو سیدھے پشاور پہنچے اور وہیں کلیم میں ایک بلڈنگ لے کر اس میں رہائش اختیار کی تو راقم الحروف کی اماں اور بڑے بھائی بھی وہیں نانا نانی کے پاس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ رہنے لگے۔ اباجان میر پور خاص سے چلے اورمنزلیں مارتے ہوئے کراچی پہنچے۔
اباجان کراچی پہنچے تو سب سے پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ سر چھپانے کا تھا۔کراچی میں ہندوﺅں کی خالی کی ہوئی بہت سے عمارات ویران پڑی تھیں۔ اباجان اور ان کے ساتھی نے ان ہی میں سے ایک عمارت میںجو لارنس روڈ پر واقع تھی ایک فلیٹ کو تاک لیا اور کئی دوسری مہاجرین کے ساتھ اس عمارت میں ڈیرہ ڈال دیا ۔
یوں گویا دارالسلام میں پہلی مرتبہ اباجان کو ایک ٹھکانا میسر آیا تو سکون کی نیند نصیب ہوئی ۔ ارد گرد رہنے والے مہاجرین سے علیک سلیک ہوئی اور ان کی کہانیاں سن کر ان کے دکھ درد میں شریک ہوئے۔اسی بلڈنگ میں ان کے ساتھ ایک پولیس افسر بھی رہتا تھا۔ ان لوگوں نے شروع شروع میں اس سے بھی اچھے تعلقات استوار کرنے کی سعی کر ڈالی لیکن اس کے سرد رویے کی بناءپر گویا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
ادھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اسی اثناءمیں کسی ساتھی نے خبر دی کہ اس پولیس افسر کا چال چلن بھی مشکوک ہے، لہٰذہ سب ساتھیوں نے مل کر اس کے فلیٹ کی نگرانی کرنے کا پروگرام بنا ڈالا تاکہ اس افواہ کی بھی تحقیق ہوجائے۔
مختلف لوگوں کی مختلف اوقات میں ڈیوٹیاں لگائی گئیںاور اس طرح چوبیس گھنٹے اس پولیس افسر کے فلیٹ کا پہرہ دیا گیا تو نتائج بھی جلد ہی سامنے آگئے۔ نتائج گو بہت اچھے نہ تھے۔ پہرے داروں نے خبر دی کہ ہر روز رات کے وقت اس افسر کے گھر میں ایک مشکوک عورت داخل ہوتی ہے اور صبح تک رہتی ہے۔ بہت سنگین معاملہ تھا۔ دارالسلام میں اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ عمارت جس کو ان لوگوں نے اپنا گھر بنانے کی سعی کی تھی، ان کے لیے سکون کا منبع تھا۔ یہ کوئی چکلا نہ تھا کہ یہ لوگ یہاں پر اس قسم کی حرکتوں کو برداشت کر پاتے۔ اس قسم کی صورتحال اِن امن پسند اور سکون کے متلاشی لوگوں کو ہرگز پسند نہ تھی۔ انھوں نے بہت سوچا کہ اس بارے میں کیا کیا جائے۔ آخر بہت سوچ بچار کے بعد ایک لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔ وہ رات تمام ساتھیوں نے جاگ کر آنکھوں میں کاٹ دی۔ عمارت کے صدر دروازے پر کئی ساتھوں کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا کہ آج تو اس خبیث جوڑے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیں گے لیکن جب صبح تک کوئی حرکت سامنے نہ آئی تو ان سب کو بڑی تشویش ہوئی۔ اچانک کسی ساتھی کو خیال آیا تو اس نے جاکر پچھلے دروازے کی طرف نظر کی تو سارامعاملہ ان کی سمجھ میں آگیا۔ دونوں بدمعاش رات ہی کو پچھلے دروازے سے فرار ہوچکے تھے۔
خیر صاحب، وہ جو کہتے ہیں کہ رات گئی اور بات گئی، رات تو بہر حال چلی گئی لیکن بات کیسے جاتی۔ اب تو معاملہ اور زیادہ سنگین ہوگیا تھا۔ وہ
بدمعاش جسے ان لوگو ں نے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا پروگرام بنایا تھا، انہیں مات دے کر اس وقت تو وہاں سے فرار ہوگیا تھا۔اب ان لوگوں کے پاس کوئی عینی شہادت موجود نہیں تھی اور نہ ہی رنگ رلیاں مناتے ہوئے اس جوڑے کو رنگے ہاتھوں پکڑنے میں کامیاب ہو پائے
تھے۔ اب ایک طرف یہ نہتے ، مجبور اور کمزور افراد تھے اور دوسری طرف ایک بدمعاش پولیس افسر جس کے ساتھ قانون نافذ کرنے والا ادارہ تھا،یعنی قانون کی پوری طاقت اس کی مٹھی میںتھی۔ ان لوگوں کے ساتھ جو کچھ نہ ہوتا کم تھا۔ انھوں نے پھر ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور اس میں اس تمام صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
اس ہنگامی اجلاس میں جتنے منہ اتنی باتیں، غرض ہر شخص نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بہت دیر گزرنے پر بھی وہ اس ناگہانی سے بچاﺅ کے لیے کوئی صورت تجویز نہ کرسکے۔ آخر کار ایک صاحب بہت دور کی کوڑی لائے۔ کیوں نہ گورنر صاحب کی خدمت میں جاکر یہ معاملہ ان کے گوش گزار کیا جائے اور ان سے اس سلسلے میں مدد کی اور پناہ کی درخواست کی جائے۔ تجویز معقول تھی، ہر چند کہ بعید از قیاس تھی۔ سب لوگوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اب سوال یہ تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کون جاکر گورنر صاحب سے مدد کی درخواست
کرے گا۔
جب کافی بحث و تمحیص کے بعد بھی وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو یہ طے پایا کہ کیوں نہ سب مل کر جائیں، اور گورنر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کریں۔چنانچہ وہ سب افراد ایک وفد کی شکل بنا کر گورنر ہاﺅس پہنچے اور گورنر صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔
چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ ایک لٹے پٹے مہاجرین کا گروہ اور گورنر صاحب سے ملاقات کی خواہش؟ ناممکن۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد ایک صاحب گیٹ پر پہنچے اور ان خانماں بربادوں سے کیفیت دریافت کی۔ انھوں نے ساری صورتحال ان صاحب کے گوش گزار کی۔
” اب آپ کیا چاہتے ہیں؟“ ان صاحب نے دریافت کیا۔” اور گورنر صاحب سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔“
” جناب ۔ اس بدمعاش پولیس افسر کو ہم نے چھیڑ دیا ہے لیکن اس سے ہمیں اب کون بچائے گا؟“
”ٹھیک ہے اس کا انتظام کردیا جائے گا۔ اب آپ لوگ جائیے۔“
”ہم گورنر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ ان سے مل کر انھیں اس صورتحال سے آگاہ کرسکیں۔“
” گورنر صاحب فی الحال مصروف ہیں اور آپ سے نہیں مل سکتے۔“
”بہتر ہے۔ ہم انتظار کیے لیتے ہیں۔“
خیر صاحب ان لوگوں نے انتظار کرنا شروع کیا۔ انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوتی چلی گئیں اور دن ڈھل گیا، شام آئی اور چلی گئی۔ گورنر صاحب نہ نکلے۔ان لوگوں نے بھی ٹھان لی تھی کہ گورنر صاحب سے مل کر ہی جائیں گے۔ اس پولیس افسر کا کیا بھروسا، کب اٹھوالے او رکب یہ شریف لوگ تھانے پہنچادئیے جائیں۔ آدھی رات تک بھی جب یہ لوگ نہ ٹلے اور گیٹ پر دھرنا دئیے بیٹھے رہے تو رات بارہ بجے گورنر صاحب تنتناتے ہوئے باہر نکلے اور ان لوگوں پر برس پڑے۔
”کون ہو بھئی تم لوگ؟“
ان ”لوگوں “نے بڑی جرات اور ثابت قدمی سے گورنر صاحب کو اپنی گزارشات پیش کیں ۔ انھوں نے سنا تو کچھ ٹھنڈے ہوئے، بولے،
” تو اب کیا چاہتے ہو“۔
جنابِ عالی آپ سے گزارش ہے کہ اس افسر کو خاص حکم جاری کیا جائے کہ وہ ہم لوگوں کو کسی جھوٹی صورتحال میں نہ پھنسائے ۔“
ہوجائے گا بابا، اب تم لوگ جاﺅ۔“
”بہتر جناب۔“ اور یہ لوگ وہاں سے چلے آئے۔
 
باب دہم ۔فسانہء آزاد​
تربیلاجھیل سے پہلے​
محمد خلیل الر حمٰن​
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب تربیلا ڈیم ابھی بنا نہیں تھا۔پہاڑکی ترائی میں ایک گاﺅں تھا جس کا نام ستھانہ تھا۔تربیلا ڈیم بنا تو یہ علاقہ اسکی جھیل میں آگیااور منوں ٹنوں پانی میں ڈوب گیا۔ اباجان اپنے معمول کے تبلیغی دوروں میں اس علاقے کا چکر لگا یا کرتے تھے اور وہاں پر قیام کیا کرتے۔وہاں تک پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار اورسنسان تھا۔ اس وادی کے ایک سرے پردریائے سندھ اپنی پر جوش لہروں کے ساتھ گزرتا تھا۔ ستھانہ تک پہنچنے کے لیے اس جگہ سے دریا کو عبور کرنا پڑتا تھا۔​
پاکستان بننے کے بعد ایک مرتبہ اباجان کی طبیعت نے انھیں بے چین کیا اور انھیں اپنے دوستوں کی یاد ستائی تو وہ بوریا بستر باندھ کر ایک مرتبہ پھر اس علاقے کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔سہ پہر کا وقت تھا جب اباجان کادریا تک پہنچنا ممکن ہوسکا۔سورج غروب ہونے میں ابھی کئی گھنٹے تھے اور اباجان سورج غروب ہونے سے پہلے اس سنسان علاقے سے نکل کر دریا عبور کرجانا چاہتے تھے۔​
ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم تھا۔نہ آدم نہ آدم زاد۔ اچانک اباجان نے دیکھا کہ کئی لمبے لمبے گرگٹ ان کی طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ ان گرگٹوں کی لمبائی کوئی تین تین فٹ تو ضرور تھی۔ ان گرگٹوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اباجان کو خوف محسوس ہوا اور وہ ان سے بچنے کی تدبیر سوچ ہی رہے تھے کی وہ گرگٹ اباجان سے کچھ قدم دور ایک ٹیلے کے پیچھے غائب ہوگئے اور یوں اباجان کی جان میں جان آئی۔ یہ گرگٹ دراصل اس ویرانے میں ایک انسان کو دیکھ کر خود خوفزدہ ہوگئے تھے اور چھپنے کے لیے اپنے بلوں کی طرف لپک رہے تھے۔​
ابھی اباجان اس جان لیوا صورتحال سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ خوش قسمتی سے انھیں دریا پار کچھ افراد نظر آگئے ۔اباجان نے ان اشخاص کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آوازیں دینی شروع کیں تو وہ چونک گئے اور پکار کرپشتو میں اباجان سے پوچھا۔​
” تم آدمی ہو یا جن ہو؟“​
”میںبالکل ایک آدمی ہی ہوں اور دریا کے اس پار آنا چاہتا ہوں۔“اباجان نے پشتو ہی میں جواب دیا۔​
دراصل اس ویرانے میں وہ لوگ ایک اجنبی کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور ابا جان کو یکے از جنات تصور کر رہے تھے۔خیر صاحب، انھوں نے ایک کشتی اباجان کے لیے بھیجی اور یوں اباجان دریا کے اُس پار اتر سکے۔اس طرح گو ان لوگوں نے دیکھ لیاکہ اباجان جن نہیں بلکہ ایک ان ہی جیسے انسان تھے، لیکن میں آج تک یہ فیصلہ نہیںکرپایا کہ ان لوگوں کا مشاہدہ درست تھا یا نہیں۔​
دریا پار پہنچ کر اباجان نے مغرب کی نماز ادا کی اور پھر ستھانہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔​
تھورا ہی آگے گئے ہوں گے کہ ” ہالٹ !ہو کمس دیر! (( Halt! who comes there“کی ایک گرج دار آواز کے ساتھ ایک فوجی ہاتھ میں اپنی گن سنبھالے ہوئے سامنے آگیا۔ اس نے اباجان کو اپنے افسر کے سامنے پیش کردیا۔ اس فوجی افسر کے ساتھ اباجان کے دوست جبار شاہ صاحب بھی موجود تھے اباجان انھیں وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے اباجان اور اس فوجی افسر کا آپس میں تعارف کرایا۔ وہ افسر جناب کرنل احیاءالدین صاحب تھے۔ جبار شاہ صاحب نے اباجان کو بتایا کہ ستھانہ کا محاصرہ ہوچکا ہے اور کچھ ہی وقت جاتا ہے کہ اس علاقہ پر فوج کی پیش قدمی ہونے والی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ علاقہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت اہم تھا اور علاقہ کے لوگ مسلم لیگ اورپاکستان کے خلاف ہونے اور ایڈین نیشنل کانگریس سے سیاسی ہمدردی رکھنے کی وجہ سے ہندوستان میں ضم ہونے کا اعلان کرنے والے تھے۔​
اباجان نے ان فوجی افسر سے ایک دن کی مہلت مانگی تاکہ وہ اس علاقہ میں جاکر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکیں اوراس خون ریزی کو روک کر امن و آشتی اور سکون کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرواسکیں۔وہ جو رزمِ حق و باطل میں فولاد ہونے کے باوجود حلقہ​
¾ یاراں میں بریشم کی طرح نرم تھے ، یہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے کہ اللہ کے نام لیوابھولے بھالے مسلمانوں پر توپ و تفنگ کے دھانے کھول دیے جائیں۔ اباجان نے اسی وقت اللہ سے دعا کی کہ یہ جنرل انھیں ایک موقع دینے کے لیے تیار ہوجائے۔قبولیت کی گھڑی تھی ، ان کی دعایئں رنگ لائیں اور کرنل احیاءالدین نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا۔

” اچھا مولوی صاحب ! ہم تمہیں ایک دن کی مہلت دیتے ہیں۔ جاﺅ اور جاکر اس مسئلے کو حل کرو، ورنہ ہم فوجی ایکشن کے لیے تیار ہیں۔“​
اباجان نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، اور تیز تیز وقدموں کے ساتھ گاﺅں کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاﺅں میں پہنچے تو ایک​
عجیب نظارہ دیکھا۔ علاقے کے افراد جو اپنی روایتی مہمان نوازی میں مشہور تھے، آج کوئی انہیں گرم جوشی کے ساتھ ریسیو کرنے والا نہیں تھا۔ اباجان جو علاقے میں اپنی مسلم لیگ دوستی کی وجہ سے مشہور تھے ، آج اس علاقے میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے ۔ بہر حال وہ مسجد میں پہنچے تو کوئی بھی ان سے ملاقات کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے ان سے کھانے کا پوچھا اور اس طرح اباجان نے وہ رات بھوکے رہ کر اس مسجد میں گزاری۔ صبح ہوئی تو انھوں نے ایک بار پھر علاقے کے عمائدین سے ملاقات اور بات چیت کی کوشش کی۔ اباجان عجب مشکل میں تھے۔ اس صورتحال کی سنگینی کو جس طرح وہ سمجھتے تھے اس طرح اس علاقے میں کوئی اسے سمجھتا نہیں تھا۔ اور مزید یہ کہ اباجان اس پوزیشن میںبھی نہیں تھے کہ ان لوگوں کو صورتحال کا صحیح ادراک کرواسکتے ۔کوئی مشکل سی مشکل تھی۔گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔​
بہر حال اباجان نے ہمت نہ ہاری اور سارا دن اس کوشش میں گزاردی کہ کسی طرح وہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرکے انھیں اس بے جا ضد سے باز رکھ سکیں۔دن گزرا اور سہ پہر آگئی۔ اباجان نے عصر پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرتے ہوئے اس علاقے سے نکل آئے۔وہ بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے ستھانہ سے دور ہوتے جارہے تھے جہاںپر کچھ ہی گھنٹوں بعدخون کی ہولی کھیلی جانی تھی۔وہ بہت زیادہ پریشان تھے اور اپنی ناکامی پر بہت مایوس بھی۔​
راستے میں ، آبادی سے دور اباجان کو تبلیغی جماعت کا ایک گروہ ملا جو اپنے مشن پر رواں دواں تھا۔ اباجان کو دیکھتے ہی انھوں نے اپنا مطالبہ دہرا دیا۔” کلمہ پڑھ دیجئے۔“​
اباجان کی حالت اس وقت عجیب سی ہورہی تھی۔ انھوں نے نہایت اطمینان کے ساتھ ایک سنسکرت اشلوک پڑھنا شروع کردیا۔​
”لا حول و لا قوة“ وہ لوگ حیران رہ گئے۔​
اباجان نے اب انھیں بہت برا بھلا کہا کہ چند قدم کے فاصلے پر انسانی جانوں پر بنی ہوئی ہے۔ اگر وہ لوگ اللہ کی ، اسکے دین کی اور انسانیت کی کچھ خدمت کرنا ہی چاہتے ہیں تو جائیں اور اس صورتحال سے انھیں نکالنے کی کوشش کریں ۔ جس پر انھوں نے معذرت کی کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے تو اباجان ان سے سلام کرکے آگے روانہ ہوگئے۔​
فوجی بیس کیمپ پہنچے اور کرنل صاحب کو پیغام پہنچا دیا کہ وہ اپنے مشن میں ناکام رہے ہیں اور اپنے بستر پر جاکر لیٹ گئے۔ صبح تک نیند تو کیا خاک آتی، البتہ کروٹیں بدلتے رہے اور پریشان ہوتے رہے۔​
صبح آٹھ بجے تک اباجان ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوچکے تھے اور وہاں سے روانگی کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ عین اسی وقت کرنل​
صاحب کے اردلی نے انھیں کرنل صاحب کا سلام پہنچایا۔ اباجان نے سوچا چلو اچھا ہے، چلتے وقت انھیں سلام بھی کرلیں اور اس کارروائی پر ان سے جی بھر کر شکوہ بھی کرلیں۔ شاید دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوجائے۔​
وہاں پہنچے تو ایک ہشاش بشاش کرنل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اباجان حیران تھے کہ کیا فوج میں اپنے مشن کی کامیابی اتنی اہم ہوتی ہے جس میں بے قصور انسانی جانوں کے زیاں پر ذرا برابر بھی دکھ نہیں ہوتا؟ انھوں نے کرنل صاحب کے سامنے اپنے ان جذبات اور غصے کا بھر پور اظہار بھی کیا۔انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ کل جن لوگوں سے وہ مل کر آرہے تھے ان میں سے بیشترآج صبح لقمہ​
¾ اجل بن چکے ہیں۔اور ادھراس کٹھور دل کرنل کو اس کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے۔

انھوں نے نہایت ہی کڑوے لہجے میں کرنل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔” رہنے دیجیے کرنل صاحب! آپ اپنی جیت کا جشن منائیں۔ آپ کو اس سے کیا سروکارکہ کتنے مسلمانوں کی جان گئی اور کتنے زخمی ہوکر بے کار ہوئے۔“​
کرنل صاحب ہنس پڑے۔”ارے مولوی! یقین کر کہ اس معرکے میں ہم نے خون کا ایک قطرہ بہاے بغیر کامیابی حاصل کی ہے۔ “​
” ہیں۔ کیا واقعی؟“ اباجان حیران رہ گئے۔​
” جی اور کیا“​
” لیکن کیسے؟“ اباجان نے استفسارکیا۔​
” وہ ایسے کہ۔۔۔۔“​
کرنل صاحب نے بتانا شروع کیا ، وہ واقعات سناتے جاتے تھے اور اباجان کے چہرے کی سختی نرمی میں تبدیل ہوتی جاتی تھی اور جب وہ اختتام تک پہنچے تو اباجان بھی ان کے ساتھ دل کھول کر ہنس رہے تھے اور اس طرح یہ محفل زعفران زار ہوگئی۔​
ہوا یوں کہ اس گاﺅں میں کسی گھر میں رفع حاجت کے لئے لیٹرین کا انتظام نہیں تھا اور گاﺅں کے لوگ صبح سویرے فجر سے پہلے رفع حاجت​
کے لیے گاﺅں کے باہر اس ویرانے میں آیا کرتے تھے۔ فوج نے یہاں پہرہ لگا کر رفع حاجت کے لیے آنے والے ہر شخص کو فراغت کے بعد پہرے میں بٹھا لیا اور اس طرح جب گاﺅں کے تمام مرد لوگ یہاں پر آکر جمع ہوگئے تو گاﺅں کی خواتین کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کے مرد سارے کہاں چلے گئے۔ جب ان میں سے کچھ عورتیں اپنے مردوں کی تلاش میں یہاں تک پہنچیں تو فوجیوں نے انھیں اصل صورتحال سے​
آگاہ کیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک وہ ہر گھر سے سارا اسلحہ لاکر یہاں جمع نہیں کرادیتیں، ان کے مرد یہاں پر قید رہیں گے۔ اسطرح جب گاﺅں کا سارا اسلحہ فوجیوں کے پاس جمع ہوگیا تو انھوں نے سارے مردوں کو آزاد کر دیا اور یوں خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اس مہم میں کامیابی حاصل کرلی گئی۔​
اور یوں اپنی مہم میں ناکامی کے باوجود ایک پر مسرت و شاداں و فرحاں اباجان وہاں سے رخصت ہوئے اور آگے کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔​
 
Top