فردوسِ بریں از مولانا عبدالحلیم شرر

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

دوست

محفلین
باب 1 پریوں‌کا غول

پریوں کا غول​
اب تو سنہ ٦٥٠ ہجری ہے، مگر اس سے ڈیڑھ سوسال پیشترسےسیاحوں اور خاصتہً حاجییوں کے لئے وہ کچی اور اونچی نیچی سڑک نہیت ہی اندیشہ ناک اور پرخطر ہے جو بحر حزر (کیسپین سی) کے جنوبی ساحل سے شروع ہو ئی ہے اور شہر آمل میں ہو کے شاہنامے کے قدیم دیوستان یعنی ملک ماژندران اور علاقہ رودبار سے گزرتی اور کوہسار طالقان کو شمالاً وجنوباً قطع کرتی ہوئی شہر قزوان کو نکل گئی ہے۔ مدتوں سے اس سڑک کا یہ ہےحال ہے کہ دن دیہاڑے بڑے بڑے قافلے لٹ جاتے ہیں اور بے گناہوں کی لاشوں کو برف اور سردی مظلومی و قتل و غارت کی یادگار بنا کے سالہا سال تک باقی رکھتی ہے۔
ان دنوں ابتدائے سرما کا زمانہ ہے۔ سال گزشتہ کی برف پوری نہیں گھلنے پائی تھی کہ نئی تہ جمنا شروع ہوگئی۔ مگر ابھی تک جاڑا اتنے درجے کو نہیں پہنچا کہ موسمِ بہار کے نمونے اور فصلِ گل کی دلچسپیاں بالکل مٹ گئی ہوں؛آخری موسم کے دو چار پھول باقی ہیں اور کہیں ان کے عاشق و قدردان بلبل بدخشانی بھی اپنی ہزار داستانی و نغمہ سنجی کے راگ سناتے نظر آجاتے ہیں ۔ یہ کوہستان عرب کے خشک و بے گیاہ پہاڑوں کی طرح برہنہ اور دھوپ میں جھلسے ہوئے نہیں بلکہ ہر طرف سایہ دار درختوں اور گھنی جھاڑیوں نے نیچر پرستوں اور قدرت کے صحیح قدردانوں کے لیےعمدہ عزلت کدے اور خلوت گاہیں بنا رکھی ہیں۔ اور جس جگہ درختوں کے جھنڈ نہیں وہاں آسمان کے نیلے شامیانے کے نیچے قدرت نے گھاس کا سبز اور مخملیں فرش بچھا دیا ہےجس پر بیٹھ کر کوئی شراب شیراز کا لطف اٹھانا چاہےتویہاں نہر رکنی کے بدلے نہر ویرنجان بھی موجود ہے، جو شائد ابھی پوری ڈیڑھ صدی بھی نہیں گزری کہ رود سفید سے کاٹ کر پہاڑوں کے اندر ہی اندر مختلف گھاٹیوں میں گھمائی اور شہر خرم آباد کے قریب بحر خزر میں گرائی گئی ہے۔
ان ہی دلچسپیوں اور قدرت کے ان ہی دلفریب منظروں نےاس کوہسار کے متعلق طرح طرح کے خیالات پیدا کر رکھے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنت انھی گھاٹیوں میں ہے اور بعض سمجھتے ہیں کہ قدیم دیوزادوں کو تو کیومرث و رستم نریمان کے زورِ بازو نے فنا کر دیا مگر ان کی یادگار میں بہت سی پریاں آج تک تنہائی کے مقامات میں سکونت پذیر ہیں ۔ اور بعض سیاحوں کو توپریوں کے بڑے بڑے ہوش رُبا غول گھاٹیوں سے ناگہاں نکل پڑتے نظر آئے۔ یہ بھی سنا جاتا ہے کہ جو کوئی ناگہاں ان پریوں کے غول میں پڑ جاتا ہے، فورًا مرجاتاہے۔
مگر پریوں اور قدیم دیووں سے زیادہ ظالم ملاحدہ اور باطنیہ لوگ ہیں جو اس تمام علاقے میں آباد اور پھیلے ہوئے ہیں ، اور جو پرائے اصول و عقائد کا مسلمان انکے ہاتھ میں پڑ جاتا ہے، کسی طرح جان بر نہیں ہو سکتا۔ خصوصًا جمادی الاول، جمادی الثانی اور رجب کے مہینوں میں ان کے مظالم کی دھوم مچ جاتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ علاقہائے ترکستان، کرغیز اور استراخان کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو جہازوں پر بحر خزر سےبار کرتے ہوئے ارضِ عراق کو جاتے اور پھر وہاں سے خاک پاک حجاز کا ارادہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہاں کے مظالم کی ہر جگہ شہرت ہو گئی ہے اور بہت سے لوگوں نے یہ راستہ چھوڑ دیا مگر پھر بھی بعض بے پروا مسلمان اپنی خوش اعتقادی کے جوش میں آہی نکلتے ہیں؛علی الخصوص آمل اور اس کے مضافات کے حاجیوں کے لیے تو اور کوئی راستہ ہی نہیں ۔
یہ سڑک جس کا اوپر ذکر آیا، بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے مگر ہمارے پیش نظر صرف وہی حصہ ہےجہاں یہ سڑک نہر ویرنجان کے کنارے کنارے گزر رہی ہے۔ اس مقام سے علاقہ رودبار کے میدان ختم ہو گئے ہیں اور کوہستان کے سخت اور پیچیدہ نیشیب و فراز کی ابتدا ہے۔ یہاں سے کچھ آگے بڑ ھ کے سڑک اور طرف گئی ہے اور نہر کوہ البرز کے دامنوں میں چکر کھا کے دشوار گزار اور پیچیدہ گھاٹیوں میں غائب ہو گئی ہے۔
شام کو شائد چند ہی گھڑیاں باقی ہوں گی؛ آفتاب سامنے کی برف آلود چوٹیوں کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس کی کمزور کرنوں نے جو تھوڑی بہت گرمی پیدا کی تھی، مٹ گئی اور ہوا کے سرد جھونکے جو بلند برفستان پر سے پھسلتے ہوئے آتے ہیں، انسان کے کپکپا دینے کے لیے کافی ہیں ۔
اس جگہ پر ایسی حالت میں شمال کی طرف سے دو مسافرسر سے پاؤں تک کپڑوں میں لپٹے اور دو بڑی بڑی گٹھریوں کی صورت بنائے ہوئے آہستہ آہستہ آرہے ہیں ۔ دونوں دو چھوٹے چھوٹے اور تھکے ماندے گدھوں پر سوار ہیں ۔ انکی سست روی اور مجموعی حالت سے خیال ہوتا ہے کہ کسی گاؤں کے غریب ملا یا فقیر ہیں جو امارت اور سپاہیانہ دونوں وضعوں سے جدا کسی دینی غرض اور تقدس کی شان سے مذہبی سفر کو نکلے ہیں۔ مگر نہیں، وہ اور قریب آگئے تو معلوم ہوا کہ نہ وہ ملا ہیں اور نہ مشائخ بلکہ دو نو عمر شریف زادے ہیں ، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک مرد ہے اور ایک عورت۔ ان کے لباس و وضع سےچاہےنہ ظاہر ہو مگر بشرے بتائے دیتے ہیں کہ کسی معزز خاندان کے چشم و چراخ ہیں اور ممکن نہیں کہ کسی نامی اور شریف گھرانے سے نہ تعلق رکھتے ہیں، اس لیے کہ موٹے موٹے اور لمبے چوڑے کمبلوں کے نیچے جنہیں سر سے پاؤں تک لپیٹ لیا ہے، دونوں شرفائے آمل کا لباس پہنے ہوئے ہیں ۔
مرد جسکی اٹھتی جوانی ہے ایک خوبصورت نوجوان ہے۔یہ ایک اونی کفتان پر بڑا پوستین کا لبادہ پہنے ہے۔ سر پر قدیم لمبی ترکی ٹوپی ہے جو بانس کی تیلیوں سے مخروطی صورت میں بنا کے بکری کی سیاہ کھال سے منڈھ دی گئی ہے ۔ ٹوپی پر بڑا عمامہ ہے اور اس کےکئی پیچ سر سے نیچے اتر کے کانوں اور گلے میں بھی لپٹے ہیں ۔پاؤں میں موزے اور ایک اونی پائجامہ ہے ۔ کمر میں چمڑے کی پیٹی کسی ہے جس میں خنجر لگا ہے اور تلوار لٹک رہی ہے۔ اس نوجوان کے پاس کمان اور تیروں کا ترکش بھی ہے۔ مگر اس عہد قدیم کے یہ ضروری اسلحے گدہے کی زین میں بندھے ہیں ۔ اور یہی ایک حربہ ہے جس کے ذریعے سے شکار کرکے یہ دلاور نوجوان اپنے اور اپنی دل ربا ہم سفر کے لیے قوت لایموت حاصل کرتا ہے ۔ الغرض ایک گدہے پر تو یہ نوجوان سوار ہے اور دوسرے پر ایک اٹھارہ انیس برس کی پری جمال۔ موٹے موٹے کپڑے اور بھدی پوستین اس کے زاہد فریب حسن کو بہت کچھ چھپا رہے ہیں، مگر ایک دلربا ماہ وش کی شوخ ادائیاں کہیں چھپائے چھپی ہیں ! جس قدر چہرہ کھلا ہے، حسن کی شعاعیں دے رہا ہے اور دیکھنے والے کی نظر کو پہلا ہی جلوہ یقیں دلا دیتا ہے کہ ایسی حسین و نازنیں پھر نظر نہ آئے گی۔ ہماری آفت روزگار مہ جبیں ایک زرد ریشمی پائجامہ پہنے ہے، جو اوپر سے نیچے تک ڈھیلا اور پاؤں کے گٹوں پر خوشنما چنت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ گلے میں دیبائے سرخ کا کرتا ہےاور سر پر نیلے پھول دار اطلس کی خمار۔ لیکن یہ سب کپڑے ایک گرم اور پھولے پھالے پوستین کے اندر چھپے ہوئے ہیں ۔ جو چیز کہ اس کے عورت ہونے کو عام طور پر ظاہر کررہی ہے وہ چھوٹی چھوٹی سینکڑوں چوٹیان ہیں جو خمار کے نیچے سے نکل کے ایک شانے سے دوسرے شانے تک ساری پیٹھ پر بکھرتی چلی گئی ہیں اور راستے کے نشیب و فراز یا گدہے کی تیز روی سے بار بار کھل جاتی ہیں ۔
اس دل ربا لڑکی کے حسن و جمال کی تصویر دکھانا مشکل ہے، مگی غالباً یہ چند باتیں مشتاق دلوں میں ، اور آرزو مند نگاہوں کے سامنے اس کے زاہد فریب حسن کا ایک معمولی خاکہ قائم کر سکیں ۔ گول آفتابی چہرہ، جیسا کہ عموماً پہاڑی قوموں میں ہوتا ہے، ستے اور کھنچے ہوئےسرخی کی جھلک دینے والے گال، بڑی بڑی شربتی آنکھیں، لمبی نوکدار پلکیں، بلند مگر کسی قدر پھیلی ہوئی ناک، نازک اور خمدار ہونٹ، باریک اور ذرا پھیلی ہوئی باچھیں، چھوٹی سی سانچے میں ڈھلی ہوئی نوکدار ٹھڈی، شرم آگیں اور معمولاً جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ شوخ اور بے چین چشم و ابرو؛ اور اس تمام سامان حسن کے علاوہ تمام اعضاء و جوارح کا غیر معمولی تناسب ہر شخص کو بے تاب و بے قرار کر دینے کے لیے کافی ہے۔
یہ دونوں نو عمر مسافر چاروں طرف کے منظروں کو دیکھتے اور مقامی دشواریوں کی وجہ سے دل ہی دل میں ڈرتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور خاموش ہیں۔ دن کے آخر میں ہوجانے کے خیال سے ان کے نازک چہرے جنہوں نے ابھی تک تجربے کی پختگی حاصل نہیں کی، پریشان ہونے لگے ہیں، مگر اس پر بھی خموشی کا قفل نہیں کھلتا۔ ناگہاں کسی فوری جذبے سے مغلوب ہو کر نازنین لڑکی نےٹھنڈی سانس لی اور باریک اور دلفریب آواز میں پوچھا“آج کون دن ہے“
نوجوان: (چپکے ہی چپکے کچھ حساب لگا کر) جمعرات!
لڑکی: (حسرت آمیزلہجےمیں) تو ہمیں گھر چھوڑے آج پورے آٹھ دن ہوئے ۔ (ذرا تامل کرکے) خدا جانے لوگ کیا کیا باتیں کہتے ہوں گےاور کیسی کیسی رائیں قائم کی جاتی ہوں گی۔
نوجوان: یہی کہتے ہوں گے کہ حج کے شوق نے ہم سے وطن چھڑا دیا۔
لڑکی: (پھر ایک آہ سرد بھر کے)مجھے الزام دیتے ہوں گے کہ نا محرم کے ساتھ چلی آئی۔
نوجوان: زمرد! (یہ لڑکی کا نام ہے) اب میں نامحرم نہیں ہوں ۔ دو ہی چار روز میں ہم قزوین پہنچ جائیں گےاوروہاں پہنچتے ہی ہمارا نکاح ہو جائے گا۔
زمرد: (پھر ٹھنڈی سانس لے کے)خدا جانے وہاں تک پہنچنا بھی نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔
نوجوان: کیوں ؟
زمرد: راستے کی دشواریاں مشہورہی ہیں؛ کوئی خوش نصیب مسافر ہی ہوتا ہوگا جو پریوں کے ہاتھ سے بچ کر نکل جاتا ہو۔ اور ان سے بچ بھی جائے تو ملاحدہ|ملاحدہ یہ قرامطہ اور خاصتًہ باطنیہ کا عام لقب تھا | کیوں چھوڑنے لگے۔
زمرد میں اس وقت ایک غیر معمولی تغیر پیدا ہو گیا ہے۔ اس مقام نے اسے کوئی خاص بات یاد دلادی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ چاروں طرف کے منظر کو ہرطرف مڑ مڑ کر کے دیکھ رہی ہےاور باربارآہ سرد بھرتی ہے۔ نوجوان نے اس بات کا خیال بھی نہیں کیا اور معمولی لہجے میں کہنے لگا :“ملاحدہ کی طرف سے تو مجھے اطمینان ہے ، اس لیے کہ ان کے مشہور نقیب آمل ملا ہبتہ اللہ سے مجھے ایک خط مل گیا ہے، وہ خط ہمیں ایک مجرب تعویذ کا کام دے گا اور اس کے پیش کرتے ہی ہم پر قرمطی کے دست ستم سے نجات پا جائیں گے۔“
یہ باتیں کرتے کرتے دونوں نو عمر مسافراس مقام پر پہنچے جہاں سے سڑک تو کوسار کی بلندی پر چڑہنا شروع ہوئی ہے اور نہر اس سے جدا ہر کے دشوار گزار گھاٹیوں اور گھنی خاردار جھاڑیوں میں گھسنے کے لیے داہنی جانب مڑگئی ہے۔نوجوان نے اپنے گدھے کوآگے بڑہایاہی تھاکہ زمرد باگ روک کے کھڑی ہوگئی اور کہا:“نہیں حسین!(یہ اس نوجوان کا نام ہے)ادھر نہیں“
حسین: (حیرت سے زمرد کی طرف دیکھ کر) پھر کدھر؟
زمرد: جدھر یہ نہر گئی ہے۔
حسین: ادھر تو راستہ نہیں ۔
زمرد: ہے تم چلو تو سہی۔
حسین: آخر قزوین چلتی ہویا کہیں اور؟
زمرد: نہیں میری منزل مقصود قزوین نہیں، مجھے تو یہ دیکھناہےکہ یہ نہرکدھرگئی ہے۔
حسین: اس طرف تو پریوں کا نشیمن ہے۔
زمرد: ہونے دو۔
حسین: سنتا ہوں کوئی ادھرسے زندہ نہیں پھرا۔
زمرد: میں بھی چاہتی ہوں۔
حسین نے تعجب اور حیرت سے زمرد کی صورت دیکھی اور ایک متانت کی آواز سے کہا: “اور وہ حج کی نیت کیا ہوئی؟“
زمرد: ہے، مگر پہلے اپنے بھائی موسٰی کی قبر پر جاکے فاتحہ پڑھ لوں تو مکہ معظمہ جانے کا ارادہ کریں۔
حسین: تمہارے بھائی کی قبر؟ مگی یہ کسے خبر کہ کہاں ہے؟
زمرد: مجھے معلوم ہے، راستہ بھی جانتی ہوںاور اس مقام کو بھی۔
حسین: (حیرت سے)تم! تم کیا جانو؟
زمرد: خوب جاتنی ہوں!
حسین: کیاکبھی آئی تھیں؟
زمرد: نہیں، مگر یعقوب جو بھائی کے مرنے کے بعد خبر لایا تھا۔ اس سے پورا پتہ دریافت کر چکی ہوں ۔ پہلی نشانی تو یہی ہے کہ جہاں سے نہر سڑک سے علیحدہ ہوئی ہے، سڑک چھوڑ کے نہر کے کنارےکنارے جانا چاہیے؛ اور بعد کی نشانیاں آگے چل کر بتاؤں گی“۔
حسین: یعقوب کو کیا معلوم؟ کون کہہ سکتا ہے کہ ان بلند اور پیچ در پیچ پہاڑوں میں کون شخص کہاں اور کیوں کر مارا گیا؟
زمرد: تم نہیں جاتنےبھائی موسیٰ اور یعقوب دونوں ساتھ ساتھ تھے؛ اس مقام پر پہنچ کے نہر کر کنارے کنارے کچھ دور گئے تھے کہ کوہ البرز سے پریوں کا غول اترا۔ ان کے ہاتھ سے بھائی تو مارے گئے مگر یعقوب غش کھا کر گرپڑا۔ اگلے دن جب اسے ہوش آیا تو بھئی کی لاش پڑی پائی۔ انھیں دفن کیا پھر قبر بنا کے اور قبر کے پاس ہی ایک چٹان پر ان کا نام کندہ کر کے واپس آیا۔
حسین: مجھے تو غپ معلوم ہوتی ہے۔ آخر اس کا سبب کہ پریوں نے یعقوب کو تو زندہ چھوڑدیا اور تمہارے بھائی مارے گئے؟
زمرد: اس کا یہ سبب ہوا کہ بھائی نے ایک پری کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور یعقوب بزدل تھا؛پری زادوں کو دیکھتے ہی غش کھا کر گر پڑا۔
حسین: پھر ایسے مقام میں تو ہرگز نہ جانا چاہیے۔
زمرد: نہیں حسین، میں ضرور جاؤں گی۔
حسین: فرض کرو کہ ہم وہاں پہنچے اور ہمارے سامنے بھی پریاں اتریں تو؟
زمرد: میں تو اس سے نہیں ڈرتی؛اگر تمہیں خوف ہے تو نہ چلو۔
حسین: تم اکیلی جاؤاور میں نہ چلوں!میں جو تمہاری محبت میں ہر وقت جان دیتے کو تیار ہوں!
زمرد: حسین، سنو! میں تمہارے ساتھ نہ آتی۔ یہ مانتی ہوں کہ تم شریف ہو، اوراسی زمانے سے جب کہ ہم دونوں مکتب میں ساتھ پڑھتے تھے،مجھے تم سے محبت ہے، مگر یہ نہ سمجھو کہ ایک شریف لڑکی کو تم فقرہ دے کے گھر سے نکال لائے ہو؛ میں خود اپنے شوق سے آئی ہوں فقط اتنی امید پر کہ بھائی کی قبر پر کھڑی ہو کر دو آنسو بہاؤں گی؛ جب یہ مقصد پورا ہولے گا تو حج کو چلوں گی۔
حسین: زمرد! اپنی جوانی اور اس کم سنی پر ترس کھاؤ اور اس ارادے سے باز آجاؤ۔
زمرد: نہیں، یہ نہیں ہو سکتا؛ اسی آرزو کے لیے بے عزتی گوارا کی ہے۔
حسین: (مایوسی کی آواز سے) خداوندا۔ اگر جان ہی جاتی ہے تو پہلے میں مارا جاؤں!زمرد! تیری مصیبت ان آنکھوں سے دیکھی نہ جائے گی۔
زمرد: (مسکراکے)گھبراؤنہیں، ہم دونوں کی کشش ایک دوسرے کو کھینچ لے گی۔ مارے گئے تو دونوں مارے جائیں گے۔
یہ کہہ کر زمرد نے اپنے گدھے کو نہر ویرنجان کی طرف موڑا؛ دو ہی قدم چلی ہوگی کہ حسین نے پھر روک کے کہا“زمرد ذرا صبر کرو، چلنا ہے تو کل چلنا؛ اب شام ہوا چاہتی ہےپہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی۔“
زمرد: بس اب چلے ہی چلو؛کہیں آبادی کے ملنے کی تو امید نہیں؛ اور جب جنگل ہی میں ٹھہرنا ہے تو یہاںوہاں دونوں جگہ برابر ہے۔
حسین سے کسی طرح انکار کرتے نہ بنی؛ چل کھڑاہوا؛ اور دل میں پس و پیش کرتا ہوا زمرد کے ساتھ کوہ البرز کی تیرہ و تاریک گھاٹی میں جاگھسا۔ اب دونوں آہستہ آہستہ چلے جاتے ہیں اور اس سنسان مقام کا رعب دلوں پر اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ بالکل خاموش ہیں۔ جوں جوں آگے بڑھتے ہیں جنگل گھنا ہوتا جاتاہے سردی ساعت بہ ساعت بڑھ رہی ہے۔ سناٹے نے نہر بہنے کی آواز تیز کر دی ہےجس سے اس مقام کے وحشت ناک منظر میں ایک ہیبت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اب راستہ ایسا دشوار ہے کہ گدھوں سے اترنا پڑا۔ دونوں آگے پیچھے چلتے اپنے گدھےکے دہانے ہاتھ میں پکڑے چٹانوں سے بچتے اور جھاڑیوں میں گھستے چلے جاتےہیں۔ آخر دیرکے سکوت کے بعد حسین نے مرعوب ہو کے کہا:“بے شک دیو و پری ایسے ہی سناٹے کے مقام میں رہتے ہیں ۔ انسان کیا معنی یہاں تو جانور کا بھی پتا نہیں۔“
زمرد: ہاں! اور سنتی ہوں اس نہر میں اکثر جگہ پریاں نہاتی اور بال کھولے ہوئے آُپس میں کھیلتی اور چھینٹیں اڑاتی بھی نظر آجایا کرتی ہیں۔
حسین: (چونک کر)ایں١ سنسنانے کی آواز کیسی تھی جیسے کوئی چیز سن سے کانوں کے پاس آکر نکل گئی ؟
زمرد: یہ تو مشہور ہے پریوں کے تخت چاہےاڑتےنظر نہ آئیں مگر ان کے سن سے نکل جانے کی آوازضرور سنائی دیتی ہے۔
حسین: یہ بھی ممکن ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ کوئی جانور تھا۔
زمرد: جانور ہوتا تو دکھائی نا دیتا!
حسین: اگرچہ ابھی آفتاب نہیں غروب ہوا، مگر یہاں تم دیکھ رہی ہو کہ شام سے بھی زیادہ اندھیرا ہے۔ ایسے دھندلکے میں بعض اوقات الو یا بڑے بڑے چمگادڑ اس طرح سناٹے کی آواز سے اڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔
زمرد: لیکن اصل میں یہ بھی پری زاد ہیں جو مختلف جانوروں کی صورت میں رات کو نکلتے ہیں۔
حسین: ہوگا!(انتا کہہ کر اس نے گرد کے سین کو دہشت اور بزدلی کی نگاہوں سے دیکھا اور نہایت ہی پریشانی کی آواز میں کہا) شام ہوا ہی چاہتی ہےاور تمہارے بھائی کی قبر کا کہیں پتا نہیں۔
زمرد: مگر میں تو بھائی کی قبر تک پہنچے بغیر دم نہ لوں گی۔
یہ کہتے ہی ایک نہایت ہی تاریک گھاٹی نظر آئی جس میں نہر تو گئی ہے مگر دونوں جانب ایسی چکنی اور کھڑی چٹانیں ہیں کہ انسان کا گزرنا بہت ہی دشوار ہے۔ اس گھاٹی کی صورت دیکھتے ہی زمرد ایک شوق اور بے خودی کی آواز میں چلا اٹھی: “ہاں دیکھو، یہ دوسری علامت ہے۔ اسی میں سے ہوکے راستہ گیا ہے۔“
حسین: مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ ادھر سے ہم جائیں گے کیونکر؟
زمرد: جس طرح بنے،جاؤں گی ضرور!
حسین: اور یہ گدھے؟
زمرد: ان کو یہیں چھوڑ دو واپس آکے لے لینا۔
حیسن سے اس مستقل مزاجی اور دھن پر زمرد کو تعجب کی نگاہ سے دیکھا، پھر گدھے درختوں سے باندھے اور دونوں چٹانوں سے چمٹتے اور ہاتھوں سے پتھروں کے سروں اور خمروں کو پکڑتے آگے روانہ ہوئے۔کوئی دو گھڑی یہ محنت کا سفر کیا ہوگا کہ گھاٹی ختم ہوگئی جس سے نکلتے ہی دونوں نے دیکھا کہ نہر ویرنجان اس گھاٹی سے گزر کے یکایک ایک نہایت ہی فرح بخش مرغ زار میں بہنے لگی ہے۔ یہ عجیب لطف کا مقام تھا۔ قدرت نے خود ہی چمن بندی کر دی تھی۔شگفتہ اور خوش رنگ پھولوں کے تختے دوردورتک پھیلتے چلے گئے تھے۔ نغمہ سنج طیور بھی یہاں کثرت سے نظر آئے جو ہر طرف شاہدان چمن کے حسن و جمال پر صدقے ہوتےپھرتےتھے ۔شام ہو رہی تھی اور یہ جوش میں بھرے ہوئے عاشقانِ شاہدگل اپنے معشوقوں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ یہ سماں دیکھتے ہی زمرد نے خوش ہو کے کہا: “اب ہم اپنی منزل مقصود کو پہنچ گئے ہیں۔ اسی وادی میں بھائی موسٰی مارے گئےاور کہیں یہیں ان کی قبر بھی ہوگی۔“
یہ کہہ کے زمرد ایک نازک بدن اور چست چالاک ہرنی کی طرح چاروں طرف دوڑی اور ایک بڑے سے پتھر کے پاس ٹھہر کے چلائی: “آہ!یہی میرے بھائی کی قبر ہے۔“
اس آواز کے سنتے ہی حسین بھی ادھر دوڑا گیااور دیکھا کہ ایک چٹان پر موسٰی کا نام کھدا ہواہےاور اس کے قریب ہی چند پتھروں کو برابر کر کے ایک قبر کی صورت بنا دی گئی ہے۔
دونوں نے یہاں کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی مگر زمرد کے دل پر حسرت و اندوہ کا اس قدر غلبہ ہوتا جاتا تھا کہ فاتحے کر ختم ہونے سے پہلے ہی وہ گرپڑی اور قبر سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگی۔ حسین نے بہت کچھ تسلی دی، نہر سے پانی لا کے منہ دھلایااور رات کے اندھیرے میں اپنی حور وش محبوبہ کو گود میں لے کے بیٹھا اور سمجھانے لگا۔
زمرد: (ہچکیاں لے لے کے) حسین مجھے اپنی زندگی کی امید نہیں؛ ایسے معلوم ہتا ہے کہ یہں مروں گی۔ ہاتھ پاؤں سنسنارہے ہیں، کلیجے میں میٹھا میٹھا سا درد ہےاور دل بیٹھا جا رہا ہے۔ مگر مرنے سے پہلے تم سے ایک وصیت ہے۔ مرجاؤں تو میری لاش کو بھی انھیں پتھروں کے نیچے دبا دیناجن کے نیچے بھائی موسٰی کی ہڈیاں ہیں۔
حسین: (نہایت مستقل مزاجی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں آنسو پی کر) یہ وصیت اگر پوری ہونے والی ہوگی تو کسی اور کے ہاتھوں سے پوری ہوگی۔ میں تہمارے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور جس کسی کے ہاتھ سے یہ وصیت پوری ہوگی وہ تمہارے ساتھ میری ہڈیوں کو بھی ان ہی پتھروں کے نیچے دبائے گا۔
زمرد: (خوشامد کےلہچےمیں) نہیں حسین ایسا نہ کرنا۔ تم کو ابھی نہیں معلوم کہ مجھے کیا چیز یہاں کھینچ لائی ہے۔ نہ یہ کہہ سکتی ہوں کہ بھائی کی محبت ہے نہ یہ کہہ سکتی ہوں کے یعقوب کے بیان میں کوئی جادو تھا، مگر جس روز اس نے بھائی موسٰی کی حسرت نصیب داستان سنائی اس کے دوسرے ہی دن میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے بھائی اس وادی میں کھڑے ہیں۔ خواب ہی میں انھوں نےمجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا اور تاکید کرکے کہا کہ میرے قبر پر آکے فاتحہ پڑھ۔مرحوم بھائی نے کچھ ایسی مؤثر وضع سے بلایا تھا کہ ان کی اُس وقت کی صورت اِس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ میں یہاں بھائی کی بلائی ہوئی آئی ہوں۔
حسین: (وفورِ گریا سے بے اختیار ہو کر اور ایک بے انتہا جوش کے ساتھ)خیر تمھیں تو انھوں نے خواب میں فقط بلایا تھا اور مجھے تم خود ساتھ لائی ہو۔
زمرد:ہاں میں تم کو ساتھ لائی اور اسی سبب سے کہ اس دنیا میں مجھے تم سے زیادہ کوئی عزیز نہیں۔ میری تمنا تھی اور ہے کہ تمہارے پہلو میں اور تمہاری آنکھوں کے سامنےجان دوں؛اور اس کے بعد تم گھر جاؤ اور وہاں عزیزوں اور شہر کے دیگر شرفاء کی نظرمیں جو کچھ بے عزتی ہوئی ہے اس کو دور کرو اور میری خبر مرگ کے ساتھ سب کو جاکے بتا دو کہ میں نے کیوں اور کہاں جان دی۔ اور مرتے وقت تک کیسی پاک دامن تھی۔ (گلے میں بانہیں ڈال کے) حسین! میری آرزو ہے کہ تم زندہ رہواور میرے دامن سے بدنامی کا داغ دھوؤ۔
حسین: (ایک نالہ جانکاہ کے ساتھ) خدا نہ کرے کہ میں تمہاری خبر مرگ لے جاؤں!
زا کہاں ایک پہاڑی کی ڈھالو سطح پر کچھ روشنی نظر آئی، جس پر پہلے زمرد کی نظر پڑی اور اس نے چونک کے کہا:“یہ روشنی کیسی؟“ حسین نے بھی اس روشنی کو حیرت سے دیکھا ور کہا:“خدا جانے کیا بات ہے، اور دیکھوادھرہی بڑھتی چلی آتی ہے۔ اس رات کی تاریکی میں یہاں آنے والے کون لوگ ہو سکتے ہیں؟“
دونوں عاشق ومعشوق روشنی کو گھبرا کے اور ساعت بہ ساعت زیادہ متحیر ہو کے دیکھ رہے تھےکہ وہ بالکل قریب آگئی۔ بڑی بڑی پندرہ بیس مشعلیں تھیں اور ان کے نیچے حسین و پری جمال عورتوں کا ایک بڑا غول، جن کی صورت دیکھتے ہی زمرداور حسین دونوں نے ایک چیخ ماری؛ دہشت زدگی کی آوازمیں دونوں کی زبان سے نکلا“پریاں“اور دونوں غش کھا کے بے ہوش ہوگئے۔
 

دوست

محفلین
باب 2 “بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید“

“بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید“
صبح کا وقت تھااور نسیم کے جھونکے چل رہے تھے کہ مرغانَ سحر نے اپنے نشیمنوں سے نکل نکل کے حسین کو خواب بے ہوشی سے جگایا۔ خمار کی سی کروٹیں بدل کے آنکھیں ملتا ہوا اُٹھااور چاروں طرف مڑ مڑ کے دیکھا مگر زمرد کا کہیں پتا نہ تھا۔ جب معشوقہ،دل رباکی پیاری اور محبت بھری صورت کسی طرف نظرنہ آئی تو کلیجا دھک سے ہوگیا۔ ناتوانی اور سر پھرنے کی وجہ سے کئی دفعہ گر کے اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا چلا۔ آس پاس ہر جگہ دیکھا،ہر طرف نظردوڑا دوڑا کے ڈھونڈا لیکن نازنین و ناز آفریں زمرد کا کہیں نام و نشان نہیں۔ آخر ہر طرف سے مایوس ہو کے اورجستجو میں تھک کے موسٰی کی قبر کے پاس آکے بیٹھ گیا اور نہایت ہی حسرت و اندوہ کے عالم میں آنسو بہا بہا کے کہنے لگا:“پیاری زمرد تو کہاں گئ؟ آہ! کیا آسمان و زمین کھا گئے یا رات کی پریاں تجھے بھی ساتھ لے گئیں۔“
انفاقًا موسٰی کی قبر پر نظر جا پڑی اور یہ دیکھ کے متعجب ہوا کہ کچھ بدلی ہوئی سی ہے اور دو ایک پتھرزیادہ ہیں جو کل شام نہ تھے۔ حیرت کم نہیں ہوئی تھی کہ اس چٹان پر نظر گئی جس پر موسٰی کا نام کندہ تھا اور اس کتابے میں بھی کچھ تغیردیکھ کے غور سے پڑھنےلگا۔ کسی قدر بلند آواز میں اس کی زبان سے نکلا:“موسٰی و زمرد“اوراس کے ساتھ ہی چیخ مار کےوہ پھرسےبے ہوش ہوگیا۔ غم و اندوہ کے فوری جھٹکے پر طبیعت پھر غالب آئی، ہوش آیا اور دل میں کہا“افسوس وہی ہوا جو زمرد کہتی تھی۔ وہ مر گئی اور میں زندہ ہوں۔آہ! پریاں بڑی ظالم تھیں، اسے مار ڈالا اور مجھے نیم جان چھوڑ گئیں۔ آہ! وہ تو میری جان تھی پھر اس کے بغیر میں کیوں زندہ ہوں؟“
یہ کہہ کے اس چٹان سے سر ٹکرانے لگاجس پر دونوں بہن بھائیوں کے نام کندہ تھے۔ دل میں آئی کہ قبر کھول کے اپنے آپ کو بھی اس میں دفن کر دے۔ بلکہ اس ارادے سے چلا تھا کہ مذہب کے فرشتےنے کان میں کہا:“یہ دین کے خلاف اور مرنے والوں کی توہین ہے۔“ فرشتہءغیب کی یہ آواز سنتے ہی اس نے زور سے چلاّ کے کہا:“تو آہ پھر میں کیا کروں؟“ اور یہ کہہ کے زمیں پر گرا اور تڑپنے لگا۔دیر تک تڑپنے اور نالہ وزاری کے بعداُٹھا اوردوڑکے موسٰی کی قبر سے لبٹ گیا جسے اب وہ زمرد کی تربت سمجھتا ہے، اور جس طرح کوئی کسی زندہ شخص کی طرف متوجہ ہو کے باتیں کرتا ہےاسی طرح اس قبر کی طرف خطاب کر کے کہنے لگا:
“پیاری زمرد مرنا میرے اختیار میں نہیں؛خودکشی حرام ہےاور جینا بےسودو بے مزہ،لیکن کب تک؟ مرنا برحق ہےاور موت ایک دن آنی ہی ہے، پھر اس کا انتظار اسی جگہ کیوں نہ کیا جائے زندگی کے ان باقی دنوں میں تیری قبر میری مونس و جلیس ہوگی اور تیراخیال میرابےوفا معشوق۔ بس اب یہیں رہوں گا اور یہیں مروں گا۔ ہائے جس طرح تیرے بھائی نے تجھے اپنے پاس بلایا اسی طرح تو مجھے بلالے۔ تیری وصیت مجھ سے نہیں پوری ہوسکتی۔ اب میں یہیں کا ہوں۔ کیا عجب کہ ان پریوں کا پھر کبھی ادھر گزرہو؛وہ بڑی آسانی سے مجھے تیرے پاس پہنچادیں گی۔“
دل میں یہ فیصلہ کر لینے کر بعد حیسن کو کسی قدر تسکین سی ہوگئی۔ قبر پر سے اٹھ کے نہر کے کنارے گیا؛ پر نم آنکھوں پر پاک و صاف پانی کے چھینٹے دیے، وضو کیا اور قبر کے برابر کھڑے ہوکے چند نوافل ادا کیں۔ پھر بیٹھ کے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ زمرد کے لیے دعائے مغفرت کرنے لگااور ہمیشہ کے لیے یہیں کی سکونت اختیار کر لی۔
حسین نے کچھ ایسے مضبوط دل سےاپنے لیے یہ زندگی اختیار کی تھی اور موت کی دعا مانگنے یا جان ستاں پریوں کے انتظار میں اسے کچھ ایسا مزا ملنے لگا تھا کہ اب اسے نہ وطن یاد ہے اور نہ وہ ارادہ حج۔ زمرد کا خیال اس کا قبلہ ہےاور وہ مشترک قبر اس کی مسجد۔ گھاس پات یا کبھی کبھی چڑیوں کے شکار پر زندگی بسر ہوتی ہے۔اور پیامِ مرگ کا ہر گھڑی انتظار رہتا ہے۔ جب کبھی اندوہ و غم کا زیادہ ہجوم ہوتا ہےتواپنی نازنین معشوقہ کی قبر سے لپبٹ کے اور رو دھو کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔
اس حالت میںرہتے اور موسٰی اور زمرد کی تربت کا مجاور بنے اسے چھ مہینے گزر گئے۔ جاڑوں کا پورا موسم ان پہاڑوں پر بسر ہوا، جہاں ایک عرصے تک ان مظلوم شہیدان حسرت کی قبر پر برف کی چادر چڑہی رہی۔ موسم کی سخت سردی اور برف باری اس نے صبر شکر کے ساتھ جھیل لی۔ اب بہار کا زمانہ ہے اور ہر طرف پہاڑوں کے پہلو، نشیبی وادیاں اوریہ سارا مرغ زار پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہوا کے جھونکے ہمیشہ معطر اور مشکبار رہتے ہیں اور دل کا ولولہ ساعت بہ ساعت زیادہ بڑھتا جاتا ہے۔ حسین کا غم اب پہلے سے زیادہ جوش و خروش پر ہے۔اب اس بہار کو دیکھ کے اسے پریوں کے آنے کا زیادہ یقین ہے، اور ان ظالم پری وشوں کے انتظار میں بے صبری اور بے چینی پیدا ہو چلی ہے: “افسوس! موسٰی اور زمرد کا کام تو پریوں نے ایک ہی دن میں تمام کر دیااورمیں ایسا بدنصیب ہوں کہ انتظار ہی انتظار میں چھ مہینے گزر گئے اور وہ کیوں ادھر کا راستہ ہی بھول گئیں۔“
ایک دن صبح کو سو کے اٹھا تو خلاف معمول زمرد کی قبر پر ایک کاغذ پڑا ملا۔ حیرت و شوق سے دوڑ کے اسے اٹھایا اور پڑھاتو چند لمحے تک نقشِ حیرت بنا کھڑا رہا بار بار تحریر کو غور کر کے دیکھتااورکہتا:“نگاہ تو نہیں غلطی کر رہی؟“۔ مگر ساعت بہ ساعت یقین پختہ ہوتا جاتا کہ خاص زمرد کے ہاتھ کی تحریرہے۔ اس خط کی عبارت یہ تھی:
“حسین! میں اس عالم میں نہایت خوش ہوں۔ یہاں کی مسرتیں تیرے وہم و قیاس سے بالا ہیں۔ میں اسی باغ فردوس میں ہوں جس کا قرآن اورتمام کتب سماوی میں ہر مسلمان اور خدا شناس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ سب لذتیں خدا کی مہربانی سے مجھے حاصل ہیں۔ زہرہ و مشتری جن کے حسن کی شعائیں تجھے دور سے نظر آتی ہیں میرے مونس و جلیس ہیں۔ ان کا قصہ تو سن چکا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ اس عالم نور اور اس مرکز لاہوت کی مسرتیں کتنی دل فریب ہیں کہ انھیں ہاروت و ماروت کی جاں بازی کا خیال بھی نہیں آتا۔مگر میں یہاں بھی تیرے لیے حیران اور تجھ سے ملنے کی مشتاق ہوں۔ فرشتوں اور دیگر آسمانی روحوں کے ذریعے مجھے برابر معلوم ہوتا رہا کہ تومیری قبرکامجاور بنا بیٹھا ہے۔ وہ مادی کشش جو ایک عرصے تک روح کو عالم عناصر کی طرف متوجہ رکھتی ہے، مجھے بارہا میری قبر پر لے گئی۔ میں نے تجھے اپنی قبر سے لپٹ کے روتے دیکھااور خود بھی گھنٹوں تیرے ساتھ کھڑی ہو کے رویا کی۔مگر افسوس نہ تیری دنیاوی آنکھیں میری صورت دیکھ سکتی تھیں اور نہ تیرے مادی کان میرے رونے کی آواز سن سکتے تھے۔ تو ناحق موت کا منتظر ہے؛ ابھی تجھے بہت دنوں دنیا میں رہنا ہے۔ وہ وقت دور ہےجب کہ مجھے تیرے وصال کی خوشی حاصل ہوگی۔ وہ باغ جہاں تو ہے پریوں ک نشیمن تھا مگر تیرے سبب سے وہ وہاں نہیں آسکتیں اور چوں کہ ابھی تیرے مرنے کا وقت نہیں آیا،لہٰذہ تجھے قتل بھی نہیں کر سکتیں۔۔ یہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی طرح اپنےتفریح گاہ کو تجھ سے خالی نہیں کروا سکتیں۔ مجبورًا خود ان ہی کو اپنا نشیمن چھوڑ دینا پڑا۔ افسوس تو نے میری وصیت پر عمل نہ کیا۔ بدنام کرنے والے اور میرے نام پر تہمت لگانے والے اسی طرح ذلیل کررہے ہیں ۔ جن کے الزاموں کا طومار مجھے بہت ستاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں تجھے پھر اپنی وصیت یاد دلاتی ہوں اور نہایت ہی آرزو کے ساتھ کہتی ہوں کہ جا اور میری وصیت پوری کر۔
تجھ سے دور اور تیری دل دادہ
--------زمرد“
حسین نے ہزارہا دفعہ اس خط کو پڑہا۔ اس کے طرز تحریر اور الفاظ کوٍقریب سے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھا، کسی طرح سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مضمون کیا ہے۔ایک دفعہ گھبرا کے بولا:“کیا زمرد زندہ ہے“پھر آپ ہی کہنے لگا، “نہیں ، یہ ممکن نہیں اور وہ خود ہی لکھ رہی ہے کہ دوسرے عالم میں ہےاور فردوسَ بریں کی سیر کر رہی ہے۔ پھر یہ خط کیوں کر آیا اور کون لایا۔“ دیر تک غور کرتا رہا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ پہلے دل میں آئی کہ زمرد کی ہدایت کے بموجب واپس چلا جائے مگر پھر آپ ہی بولا؛ “نہیں، یہ بالکل بے حاصل ہوگا۔ اول تو وہاں تک جایا کس سے جائے گااور با لفرض اگر جاؤں بھی تو اس قصے کا یقین کس کو آئے گا؛ سب مجھے جھٹلا کے بے وقوف بنائیں گے۔ نہیں میں نہیں جاسکتا۔ اب تو میں عہد کر چکا کہ زندگی کے باقی ماندہ دن اسی قبر اور زمرد کی یادگار کے پاس بسر کروں گا۔ زمرد کہتی ہے کہ ابھی مجھے بہت دنوں ایڑیاں رگڑناہیں؛بہتر؛ رگڑوں گا، اور جہاں تک جھیلا جائےگا جھیلوں گا۔ اس جگہ ایڑیاں رگڑنا بھی زمانے کی خاک چھاننے سے اچھا ہے۔افسوس زمرد دل میں خفا ہوگیکہ اب بھی اس کی وصیت نہ پوری کی، لیکن میں اپے عذرات پیش کیے دیتا ہوں۔ جو فرشتے میری روز روز کی خبر اس تک پہنچاتےہیں، میرا عذر بھی اس کے گوش گزار کر دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت وہ کھڑی مجھے دیکھ رہی ہو۔ میری باتیں اپنے کانوں سے سن رہی ہو۔ممکن کیا معنی بالکل قریں قیاس ہے، اب اپنے خط کاجواب سننے اسکی روح ضرور یہاں آئی ہوگی؛ہاں تو جو کچھ کہنا ہے اسی سے کیوں نہ کہہ دوں۔“
یہ خیال اس کے دل میں جم گیا اور زمرد کی قبر کی دیکھ دیکھ کے یوں کہنا شروع کیا:
“پیاری زمرد! نہ میں اس عالم نور میں ہوں جس میں تو ہے اور نہ میرے پاس وہ نورانی نامہ بر ہیں جو مجھ خاکی پیکر کا خط تجھ تک پہنچا دیں۔ اپنی نورانی اورنوری توجہ سے کام لے اور خود میری زبان سے میرا عذر سن۔ او حور وش اور خود مقبولِ الٰہی نازنیں! او غواص دریائے رموز وحدت و کثرت! کیا عجب کہ اپنے نور اور تجرد کی آنکھوں سے تو اس وقت میری ستم زدگی کا تماشا دیکھ رہی ہویا یہ میری آہ وزاری کی جگر دوز آواز تیرے روحانی کانوں تک پہنچ رہی ہو۔ زمرد! مجھے ان لوگوں کے پاس نہ بھیج جن کے فہم و ادراک سے تیری نورانیت اور تیری مقبولیت اور معصومیت کا قصہ بالا تر ہے۔ وہ میرے کہنے کو سچ نہ مانیں گے، لہٰذا اپنے عشق میں مجھے اس ذلت و رسوائی سے بچا اور اگر بارگاہ لم یزل میں تیری آواز کچھ بھی اثر رکھتی ہو تو مجھے کوشش کرکے اپنے پاس بلا۔ ان پریوں کو بھیج اور جلدی بھیج کہ اپنے تفریج گاہ کو مجھ سے خالی کر لیں۔ میری روح تیرے شوق میں ایک ذبح کیے ہوئے طائر کی طرح تڑپ رہی ہےاور اس مادی پنجرے سے نکلنے کےلیے پھڑکتی ہے۔ او محبت والی نازنین! مجھے کہیں اور نہ بھیج بلکہ اپنے پاس بلا۔“
اس قسم کے خیالات ظاہر کرتے ہوئے حسین کا جوش اس قدر بڑھ گیا کہ بے تاب ہو کے زمین پر گرا اور لوٹنے اور تڑپنے لگا۔ اور جب ناتوانی زیادہ ہوئی تو قبر سے لپٹ کر بے ہوش ہوگیا۔ اس اس خط نے اس کا جوش بڑھا دیا تھااور اس کے دن پہلے سے زیادہ غم و اندوہ میں گزر رہے تھے۔ زمرد نے عالم سروشستان سے جو مراسلت کی تھی اس نے دل کے جذبات یکایک ابھار دیا تھا۔ روز مینونشین معشوقہ کو خواب میں دیکھتا اور روز ایک نیا خیال پیدا ہوتا۔ شاید عالم آخرت کا اتنا علم الیقین کسی مسلمان کو کم ہوگا جتنا کہ فی الحال حسین کو تھا۔دنیا اسکی نظر میں ہیچ تھی اور اپنے آپ کو عالم نور و ظلمت کے مابین ایک برزخ میں پاتا اور بےصبری و خود فراموشی کے ساتھ چاہتا تھا کہ کسی طرح اس مادی اور جسمانی جامے کو چاک کر کے عالم نور میں جا پہنچے۔جواب دیے کو بھی ایک مہینہ ہوگیا، جس کی ہر گھڑی زمرد کے نئے خط کے انتظار میں گزری تھی، آخر انتظار کا زمانہ ختم ہوا ور ایک اور خط ملا جس کا مضمون یہ تھا:
“اے محبوس ظلمت کدہ ارض! میری جستجو میں توحد سے گزرتا جا تا ہے۔ اور یہ نہ سمجھ کہ مجھ پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ میرے تعلقات تیرے ساتھ روحانی تھے۔ اور یہی سبب ہے کہ اس عالم میں بھی جہاں ہر طرف مسرتیں ہجوم کیے ہوئے ہیں اور خداوند جل وعلا نے ایک خاص بعد از فہم و ادراک لذت میرے دل میں پیدا کر دی ہےمیں تیری طرف سے اپنا خیال نہیں ہٹا سکتی۔ تیری یاد میں یہ روحانی لذتیں بھی میرے دل سے غم کا کانٹا نہیں نکال سکتیں۔
خیر اب تو نے پورا امتحان دیا ہے اور کوئی چیز تیرے دل سے میرا خیال نہیں نکال سکتی۔ تو مایوس نہ ہو اور مجھ سے ملنے کا سامان کر۔ یاد رکھ کہ یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں تو مجھے پا سکے گا۔ میں تجھ سے قریب بھی ہوں اور دور بھی ہوںلیکن جس دروازے سے تو میرے پاس آسکے گا وہ بہت فاصلے پر ہےاور وہاں تک تو بڑی محنت وریاضت سے پہنچ سکے گا۔ اسکام کے لیے تجھے نفس کشی و ریاضت بھی کرنا ہوگی اور بڑے بڑے سفر بھی کرنا پڑیں گے۔ اس طرح بے مرشد وہ رہبر پہاڑوں سے ٹکرانا بے سود ہے، اور نہ اس رونے دھونے سے کچھ ہوگا۔ اگر مجھ سے ملنے کا سچا شوق رکھتا ہے تو اس وادی سے نکل اور کوہ جودی کی مغربی گھاٹی میں ایک بڑا غار ہے جس میں بڑے بڑے خدا شناس لوگ چلہ کشی کر چکے ہیں۔ لوگ نہیں جانتے مگر مجھے یہاں آکے معلوم ہوا کہ جس غار میں جناب ابراہیم علیہ اسلام نے کواکب کے طلوع و غروب سے نسخ کرکے خدا کو پہچانا تھا، وہ یہی غار ہے، اب لوگ اس غار کو ارض شام میں بتاتے ہیں لیکن یہ صریح جھوٹ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا بچپن شام میں نہیں گزرا بلکہ اس سرزمین میں جہاں ان کا وطن تھا اور جہاں نوح علیہ اسلام کی کشتی ٹھہرنے کے بعدانکی نسل سکونت پزیر ہوگئی تھی۔ اس غار میں تو چالیس دن تک بیٹھ کے چلہ کھینچ اور کوشش کر کہ اس مدت میں ہر چھوتھے دن تھوڑی سی نباتی قوت لا یموت پر زندگی بسر کرے۔ یہ بھی ضروری ہی کہ پورے چلے بھر میں صرف ایک صورت تیرے سامنےہو اور صرف ایک خیال تیرے دل میں۔وہ صورت تو میری ہو اور وہ خیال یہ ان مرشد سے ملنے کا جن کے مریدوں میں شامل ہونےکو تو غار سے نکل کے روانہ ہوگا ۔ اس چلے کی تنہائی میں تو اکثر دیکھے گا کہ میں تجھے اپنی طرف بلا رہی ہو؛ مگر خبردار اس خیالی پیکر کے دھوکے میں نہیں آنا۔ کہیں ذرا بھی تیرے قدم کو لغزش ہوئی تو سمجھ لے کہ مجھ سے ملنے کی کوئی امید نہیں۔ چالیس دن کے بعد پچھلی رات کو اس غار اور کوہ جودی کی گھاٹیوں سے نکل کے سرزمین شام کو روانہ ہو اور بغیر اس کے کہ کسی اور جگہ قیام کرے، بہ خط مستقیم شہر خلیل میں جا۔ وہاں کے مشہور تہ خانےمیں حضرت یعقوب و یوسف علیہم اسلام کے جنازے رکھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کی آنکھ بچا کے اتر ۔ لوگ تجھے روکیں گے مگر ایسی کوشش کر کہ نگہبانوں اور مجاوروں کو خبر نہ ہو اور تو اندر پہنچ جائے۔ چالیس دن تک ان دونوں جنازوں کے درمیان میں بیٹھ کے چلہ کھینچ۔ پھر وہاں سے نکل کے شہر حلب کو جا۔ وہاں محلہ ارامنہ کے عقب میں تجھے ایک چھوٹی سی مسجد ملے گی جو مسجد الشاسمین کہلاتی ہے۔ اس مسجد میں جا کے ٹھر۔ دوسرے ہی دن نماز فجر کی جماعت میں ایک شخص آئے گا جو صوف کے کپڑے پہنے ہوگا۔ اس کے بال لمبے ہوں گے اور ایک سیاہ کملی میں اپنا سارا جسم چھپائے ہوگا۔اس شخص کی چھوٹی ڈاڑھی میں نصف سے زیادہ بال سفید نظر آئیں گےاور اس کا عمامہ سبز ہوگااس لیے کہ سادات بنی فاطمہ سے ہے۔اس نورستان میں اگرچہ وہ کسی اور معزز خطاب سے یاد کیا جاتا ہے اس عالم عناصر میں اس کا نام الشریف علی وجودی ہے۔ یہ شخص اگرچہ بالکل منکسرانہ مزاج و وضع کا نظر آئے گا مگر اس کی آنکھوں سے ریاضت و نفس کشی اورجذبات روحانی زیادہ ہونے کی وجہ سے شعلے نکلتے ہوں گے۔ خوب یاد رکھ کہ جب تک تو شریف علی وجودی کے سامنے نہ جاپہنچےگا وہ تیری طرف نہ توجہ کریں گے۔ ان بتائی ہوئی نشانیوں سے تو ان کو پہچان لینااور ان سے حق کا خواستگار ہونا۔یہی شخص تجھ کو مجھ سے ملا سکتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہماری کامیابی ہے۔ اگر میرا شیدا اور میرا آرزومند ہے تو جب تک مقصد نہ بر آئے شیخ کی خدمت اور غلامی کرنا۔ اگر تو پورے ایک سال تک شریف علی کی خدمت میں رہے گا تو کوئی ایسا موقع ضرور پائے گا جب کہ وہ ایک جوش اور ولولے میں انسان کو ملاء اعلٰی کی سیر کردینے کا دعٰوی کریں گے۔ یہ دعوٰی سنتے ہی ان کے قدموں پر گر کے اپنی دلی آرزو ظاہر کرنا؛وہ بےشک منظور کریں گے۔ مگر اس کا خیال رہے کہ شیخ کے ہر حکم کی تعمیل خواہ تیری سمجھ آئے یہ نہ آئے بےعذراور بلا حجت کرنا۔
“بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید“
اگر یہ سب مراحل تو نے طے کر لیے اور شیخ کی اطاعت میں پوری سرگرمی اور گرم جوشی دکھادی تو جان لے کہ میرا آغوش تیرے لیے کھلا ہوا ہے۔ تجھ سے زیادہ میں تیرے لیے حیران ہوں۔بس اب جلدی اس وادی اور میری قبر کو چھوڑ اور مجھ سے ملنے کی کوشش میں استقلال و مستعدی دکھا۔
تیری دیدا اور مشتاق
زمرد“
حسین اپنے جوش محبت اور وطن و احباب سے متنفر ہوجانے کی وجہ سے زمرد کی پہلی وصیت اور اس کے بعد گزشتہ خط پر عمل نہیں کر سکتا تھا مگر اب اس خط کے بعد ممکن نہ تھا کہ ایک گھڑی بھر کے لیے بھی وہ اس وادی میں ٹھہر سکے ۔ زمرد کی محبت اور وفاشعاری یاد آئی، پلے نہایت ہی جوش و خروش کے ساتھ زمرد کی قبر سے رخصت ہوا پھر خط کو کئی بار چوم کے اور آنکھوں سے لگا کے سینے میں دل سے لگا کے رکھا اور کمر باندھ کے چل کھڑا ہوا۔ تنگ و تاریک گھاٹی سے بہ ہزار دشواری سنبھل سنبھل کے نکلا اور اسی مقام پر پہنچا جہاں اپنے اور زمرد کے گدھوں کو درختوں سے باندھ کر چھوڑ گیا تھا۔دونوں گدہے بندھے ہی بندھے سوکھ سوکھ کے سردی و برف باری کے صدمے اٹھا اٹھا کے مر گر گئے تھے۔ ان کی ہڈیاں درخت نے نیچے پڑی ہوئی تھیً۔ مگر یہ دیکھ کے وہ حیرین ہوا کی قدیم گدھے کے بدلے اب ایک نیا اور تازہ دم گدھا اُسی درخت میں بندھا اور کسا کھڑا ہے۔ خلاف امید اس سواری کو پا کر اس نے خداوند کریم کا شکریہ ادا کیا جس نے اس عالم نور کے بہت سے رموز سے اسے اسن دینا میں ہی آشنا کر دیا تھا۔ اور آگے کی راہ لی۔ جہاں تک راستہ خراب اور پیچیدہ تھا وہں تک تو وہ گدھے کا دہانہ پکڑے ہوئے پاپیادہ گیا اور جب صاف اور کشادہ زمین مل گئی تو اس خدا کی دی ہوئی سواری پر سوار ہو کے سیدھا مغرب کی طرف چل کھڑا ہوا۔ چونکہ اس کوہستان کا سلسلہ بھی مشرق سے مغرب کو گیا ہے لہٰذہ اس کے دام ہی دام میں بادیہ پیمائی شروع کی اور دو مہینے کی دشت نوردی کے بعد علاقہ آذر بائیجان کے شہر تبریز میں جا پہنچا۔ جہاں سے کوہ جودی دس بارہ دن کی مسافت پر ہے۔ تبریز ایسا بارونق شہر تھا کہ حسین کے دل میں آئی دودن ٹھہر کے سیر کرلے مگر زمرد کی تاکید یاد آئی اور بغیر اس کےکہ کارواں سرا میں کمر بھی کھولی ہو، آگے کی راہ لی اور دس روز کر دشت نوردی کے بعد کوہ جودی کی سر بہ فلک چوٹی کے نیچے جا کھڑاہوا۔
کوہ جودی بہت بلند پہاڑ ہے اور ایران و ایشیا ئے کوچک بلکہ سلسہ کوہ قاف کی اکثر چوٹیوں سے زیادہ بلند ہے۔ حینس پہلے ایک بڑا چکر کھا کےاس زبردیست اور برف سے ڈھکے ہوئے قلعے کے مشرق پہلو پر نکل گیا اور اس غار کو ڈھونڈنے لگا جس میں اسے چلہ کشی کرنا تھی۔ کئی روز تک چٹانوں اور گھاٹیوں میں ٹکراتے رہنے کے بعد غار ملا۔ دور دور کے گاؤں والے اکثر اس غار کی زیارت اور اس کے تاریک دہانے پر کچھ نہ کچھ چڑھانے کو آتے رہتے تھے جن میں اس کی قدیم برکتوں کے قصے بہت مشہور تھے اور یہود و نصارٰی اور مسلمان سب اس کو حرمت و ادب کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انھیں گاؤں والوں میں سے ایک زائر کی زبانی حسین کو اس کے حالات معلوم ہوئے اور سمجھ گیا کہ یہی وہ مقام ہےجہاں اسے اپنی ریاضت و نفس کشی کا امتحان دینا ہے، اور جہاں جناب ابراہیم علیہ سلام نے خدا کو پہچانا تھا۔
دن کو جب حسین اس غار کے دہانے پر پہنچتا ہے اضلاع و جوانب کے چند خوش عقیدہ زائروں کا مجبع تھا۔ شام کو ان کے واپس جانے کے بعد جیسے ہی آفتاب غروب ہوا وہ خدا کانام لے کر اندر گھسا ۔ غار میں جاتے ہی وہ ریاضت میں مشغول ہو گیا اورکوشش کرنے لگا کہ وہاں کی بھیانک تاریکی میں زمرد کی خیالی تصویر کو چراغ بنا کے ہمیشہ نظر کے سامنے رکھے ۔ ہر چوتھے دن پچھلی رات کو نکل کے گھاس اور پتوں سے بھوک کی حدت کم کرلیتا اور پھر اسی خلوت کدے میں جا بیٹھتا۔
آخر چلہ پورا کر کے ہمارے پرجوش نوجوان نے شام کی راہ لی۔ تین مہینے کے سفر کے بعد مقدس خلیل کی عمارتیں نظر کے سامنے تھیں ۔ آبادی میں داخل ہو کے سیدھا اس تہ خانے پر پہنچا۔ مگر یہاں نیچے اترنا بہت دشوار تھا اس لیے کہ ہر وقت لوگوں کا مجمع رہتا اور خرابی یہ تھی کہ جوکوئی اس مقدس غار میں اترنے کا ارادہ کرے عام مجاوروں کے عقیدے میں واجب القتل تھا۔ حیسن نے اپنے ارادے کو چھپایا اور مجاورین کو دوست بنا کے اس بات کی اجازت حاصل کرلی کہ اترنے کے راستے کو قریب ہی شب باش ہو۔ کئی راتیں جاگ کے کاٹیں مگر موقع نہ ملا۔ اس لیے کہ اکثر لوگ یہاں پاس ہی شب بیداری کرتے تھے اور ایسا کوئی وقت نہ ملتا جب لوگ مصروف عبادت و دعا نہ ہوں۔ دوتین ہفتے کے بعد ایک مرتبہ پچھلی راات کو اٹھ کے دیکھا تو میدان صاف تھ، اور جو لوگ تھے ، سو رہے تھے۔ چپکے چپکے دبے پاؤں تہ خانے کے دروازے پر گیا اور چاروں طرف دیکھ کے جب اطمینان کر لیا کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ہے تو بےتکلف نیچے اتر گیا۔
اس مقام پر جانا بڑی جراءت کا کام تھا۔ ان انبیائے عضام کا رعب ساعت بہ ساعت دل پر غالب آتا جاتا تھا۔ پاؤں کانپ رہے تھےاور دل دھڑکتا تھا۔ تاہم زمردکا شوق ان تمام دلی کمزوریوں پر غالب آیا اور وہ برابر بڑہتا چلا جاتا تھا۔ بار بار اسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے فرشتے روک رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مقدس جگہ کو اپنے قدموں سے ناپاک نہ کر۔ مگر اس سب خیالات کو مٹا مٹا کے وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھوں اور پاؤں سے ٹٹولتا ہوا تہ تک پہنچ گیا۔ رات کا وقت اور پھر وہ تاریک مقام، حسین نیچے پہنچ کے پریشان ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ تو سوجھائی نہیں دیتا ان برگزیدہ پیغمبروں کے جنازے کیوں کر نظر آئیں گے۔ عرصے تک ایک ہی جگہ پر کھڑا سوچتارہا۔ اور اب دل مضبوط کرکے آمادہ ہوا تھا کہ ٹٹول ٹٹول کے آگے بڑہےناگہاں صبح کی ہلکی ہلکی روشنی کی شعائیں اوپر سے پہنچیں اور وہ ٹھہر گیا کہ روز روشن ہولے تو شاید زیادہ آسانی سے اپنے معبودہ مقام پر پہنچ سکوں گا۔ اورر یہی ہوا دن کی رروشنی نے اندھیرا کم کردیااور اسے کئی لاشیں چبوتروں پر رکھی نظر آئیں جن میں سب کے درمیان میں حضرت یعقوب و حضرت یوسف علیہم سلام کے جسم تھے۔ ان کا انتقال چوں کہ مصر میں ہوا تھا لہٰذہ قدیم مصریوں کے مذاق پر انکی ممیاں بنائی گئی تھیں۔۔ جسم تو گلی تابوتوں میں تھے مگر چہرے کھلے ہوئے تھے جن سے اس تاریکی میں عجیب رعب و جلال برستا نظر آتا تھا۔ حسین یہ مقدس چہرے دیکھ کے سر سے پاؤں تک کانپ گیا اور کسی طرح قدم آگے بڑہانے کی جراءت نہ ہوتی تھی۔ چند لمحے تک مرعوب اور سہما کھڑا رہا، مگر پھر جی کڑا کرکے قدم آگے بڑھایا اور دونوں تابوتوں کے درمیان میں جاکے چپکے سے بیٹھ گیا جہاں دونوں باہیبت چہرے ہر وقت پیشں نظررہتے۔ اور ان کا رعب اس قدر غالب تھا کہ زمرد کے خیال کو وہ بہت مشکل سے آنکھوں کے سامنے متشکل کر سکتا تھا۔ مگر کوہ جودی کے چلے کی کوششوں نےوہ پیاری صورت زیادہ استقلال سے نظر کے سامنے قائم کر دی تھی۔ اور تھوڑی دیر ہی کوشش سے ان دونوں متبرک چہروں کے درمیان وہ اپنی معشوقہ کا چہرہ دیکھ لیا کرتا تھا۔
الغرض یہاں بھی وہ چلہ کشی میں مشغول ہو گیا۔ مگر یہاں کوہ جودی کےغارکی طرح یہ ممکن نہ تھا کہ کسی وقت نکل کے قوت لایموت حاصل کرلے۔ اس کا اسے پہلے ہی سے خیال تھا اور اس ضرورت سے تھوڑا سا پنیر چادر میں باندھ کر لیتا آیا تھا۔ دو تیں ٹکڑے چوتھے دن کھا کر خدا کا شکر گزار ہوتا۔ خدا خدا کرکے یہ چلہ بھی پورا ہوا اور اکتالیسویں رات کو وہ چپکے چپکے اور دبے پاؤں باہر نکلا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو اور وہ حلب کی راہ لے۔ مگر لوگ جاگ رہے تھے جن میں سے بعض اسے پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے غل مچا کے حملہ کیا اور حسین غار سے نکلتے ہی مجاوریں کے ہاتھ میں گرفتار تھا۔ ایک بڑی سخت بے ادبی اور گستاخی کا الزام اس پر لگایا گیا تھا۔اور قریب تھا کہ قتل کر ڈالا جائے مگر اتفاق یا اس کی خوش قسمتی شہر خلیل کا حکمران اسی روزایک باطنی فدائی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ لوگ اگرچہ باطنیہ لوگوں سے ڈرتے تھے مگ یہ اتنا بڑا اہم معاملہ تھا کہ انتقام کے درپے ہوگئے۔ اور باطنیوں کے ایک گاؤں پرتاخت کرنے کا سامان ہی کر رہے تھے کہ باطینوں کا ایک بڑا بھاری گروہ خود ان پر آپڑا۔سخت قتل و خون ہوا۔ بہت سے لوگ مارے گئے اور اسی بے امنی کی حالت میں حسین مجاوروں کی قید سے چھوٹ کے حلب کو روانہ ہوا۔
آٹھویں دن شام کے وقت حلب میں داخل ہوا۔ راہ گیروں سے پوچھتا ہوا محلہ ارامنہ میں اور پھر مسجد الشماسین میں پہنچا۔ پہاں آتے ہی کمر کھول دی؛ سرشام ہی کچھ کھاپی لے عشاء کی نماز پڑہی اور پڑکے سوگیا۔ اگرچہ تھکا ماندہ تھا مگر زمرد کے وصال کا شوق سب پر غالب تھا۔ آدھی رات سے زیادہ نہ گزری ہوگی کہ آنکھ کھل گئی اور صبح تک نماز فجر کے انتظار میں کروٹٰیں بدلتا رہا۔ صبح کی اذان سے پہلے ہی وضو کر کے تیار ہوگیا اور دروازے پر بیٹھ کے ہر آنے والے کی صورت کا مطالعہ کرنے لگا۔ آس پاس کے مکانوں والے نیند کے خمار میں لّڑکھڑاتے اور ٹھوکریں کھاتے ہوئے آتے اور وضو میں مشغول ہو جاتے۔ حسین کو اکثر لوگوں پر شیخ شریف علی وجودی کی صورت کا گمان ہوتا تھا۔ہر آنے والے میں اگر کوئی ایک علامت ہوتی تو اور علامتیں نہ پائی جاتیں۔ آخر دل ہی دل میں پریشان ہونے لگا اور خود اپنے سے خطاب کرکے چپکے سے کہا: “مجھے یقین نہیں کہ شیخ کو پہچان سکوں“ ۔ یہ جملہ اس کی زبان سے نکلا ہی تھی کہ اسی حلیے اور وضع کا ایک شخص آیا اسکی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کے کھڑا ہوگیا اور مسکرا کے نہایت ہی تسلی وتشفی کےلہجے میں بولا: “حیسن! میں جانتا ہوں کہ تو میری تلاش میں آیا ہے“
اتنا سننا تھا کہ حسین قدموں پر گرپڑا اور شیخ شریف علی وجودی کے قدم چوم چوم کے اور ان کے پاؤں کو اپنے آنسوؤن سے دھو دھو کے کہنے لگا: “یا حضرت! میری مدد کیجیے۔ صرف آپ ہی کی رہبری سے مجھے حق کا راستہ مل سکتا ہے۔ جس صراط مستقیم پر چل کے انسان خدا اور عالم ارواح کو پہچان سکے وہ صرف آپ ہی جانتے ہیں۔“
شیخ: (جلال میں آکے) اے بحر وجود اور دریائے وحدت کے ذلیل و ناپاک قطرے! تیرا کیا حوصلہ کہ اس وجود غیر وجودٰ اور اس لاہوت غیر متنوع کی رموز سمجھ سکے؟
|١=باطنین کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا کی طرف کسی صفت کا منسوب کرنا کفر ہے۔ اور بظاہر جو صفات قرآن میں اس مذکور ہیںوہ اس اعتبار سے ہیں کہ یہ صفات اس نے مخلوق کو عطاکیے۔یہعنی خدا کو نور کہیں تو منور بصیر کہیں تو مبصر بصرت دینے والا اور اسی طرح موجود کہیں تو موجود کرنے ولا مراد ہے۔ اسی سے وہ صفات کو منسوب کرکے پھر نفی بھی کردیا کرتے تھے۔ یعنی کہتے تھے موجود غیر موجود، نور لانور وغیرہ۔|
حسین: بے شک میری کوئی ہستی نہیں مگر جب آپ کے سے شناورِ بحر وحدت کا ہاتھ پکڑلوں گاتو کیاعجب کہ اس طوفان خیز دریا سے پار ہوجاؤں۔
اور رو رو کے پھر سے شیخ کے قدم چومنے لگا۔
شیخ کا جلال کسی قدر کم ہوا۔ انھوں نے حسین کو ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔ اپنا سینہ کئی دفعہ خوب روز سے اس کے سینے سے رگڑا اور کہا: “اچھا آمیرے ساتھ چل؛ میں تیرے ضبط و ظرف کا اندازہ کروں گا، اور جب معلوم ہولے گا کہ تیری طلب کہاں تک صادق ہے،اس وقت تجھے اپنے حلقہ ذوق میں شریک کروں گا۔“
حیسن نے یہ سن کے شکر گزاری کے طریقے سے سر اٹھایا؛شیخ کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور ان کے ساتھ جا کے نماز میں شریک ہوا۔ نماز کے بعد شیخ علی وجودی اسے اپنی خانقاہ میں لے گئے جو شہر سے فاصلے پر ایک غیر آباد مقام میں تھی۔ حیسن کو یہ خیال کر کے تعجب ہوا کہ مسجد شماسین کو کیا خاص تخصیص ہے کہ شیخ وہاں فجر کی نماز ادا کرنے کو گئے تھے۔اس کا راز دریافت کرنے کوپوچھا: “کیا حضرت ہر روز نماز کے لیے اسی مسجد میں تشریف لے جاتے ہیں؟“
شیخ: (لاپروائی سے) نہیں صرف آج ہی گیا تھا!
حسین: تو شاید کسی خاص کام کے لیے ادھر تشریف لے جانے کا اتفاق ہوا ہوگا؟
شیخ: (ذرا ہرہمی سے)“ولا تجسسو|قرآن کی آیت ہے۔ مراد یہ ہے کہ لوگوں کے افعال کی جستجو نہ کیا کرو|!ان رموز معنی کے پیچھے نہ پڑنا چاہیے۔ اگر سچا شوق ہے تو کبھی خود ہی سارا راز کھل جائے گا۔ اب حرف سوال تیرے منہ سے نکل ہی گیا تو لےبتائے دیتا ہوں ۔ سن! جو لوگ خدا کے انوار ازلی و سرمدی کا انعکاس اپنے دل پر کرتے ہیں ان کی آنکھوں سے حجاب کا پردہ گر جاتا ہے ۔اورجہاں جہاں وہ نور لانور اپنی کرنیں ڈالتا ہے وہاں ان کی آنکھوں کی شعاعیں بھی پیہنچ جاتی ہیں ۔ میرا یہ جسبم مادی اسی خانقاہ میں تھا۔مگر ان آنکھوں کی تیز شعاعیں کوہ البرزکےپہلو میں تھیں جب تو زمرد کی قبر سے لپٹا ہوا رو رہا تھا۔ پھر جبل جودی کے غار ابراہیم میں تھیں جب زمرد کی تصویر تیرے سامنے اور میری جتجو تیرے دل میں تھی۔ پھر یہ شعاعیں اس تیرہ و تارتہ خانے میں تھیں جہاں یعقوب و یوسف علھم اسلام کے چہروں کے درمیان میں تو زمرد کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ پھر میں نے تیری اس بے کسی کو بھی دیکھا جب تو شہر خلیل کے مجاوروں کے ہاتھ میں اسیر تھا۔ تیری ہی مدد کے لیے میں نے اپنے دوستوں کو بھیجا۔ انھوں نے شہر والوں پر حملہ کر کے تجھے ادھر آنے کا موقع دیا۔ یہ کہتے وقت شیخ کی آنکھیں اس تیزی سے چمکیں کہ حیسن بالکل سہہ نہ سکااور شیخ کے قدموں پر سر رکھ کے ایک مجذوباتی جوش کے ساتھ کہنے لگا: “آپ سب جانے ہیں کوئی راز آپ سے پوشیدہ نہیں ۔ میری آرزو و تمنا بھی آپ کو معلوم۔۔۔۔۔“
شیخ: (جوش و خروش سے) سب جانتا ہوں، مگر ابھی اسکے اظہار کا وقت نہیں آیا۔ اس شوق کا تیری زبان سے ظاہر ہونا کسی خاص وقت اور خاص حال و کیفیت ہر موقوف ہے۔ بس اب اس وقت خاموش رہنا چاہیے۔
یہ حکم سن کے حسین اس قدر مرعوب ہوا کہ زمین پر پڑے ہی پڑے کانپنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ نے اسے اٹھا کے بٹھایا۔ سینے اور آنکھوں پر اپنا دست برکت پھیر کے اسکے دل کو تسلی دی اور کہا: “حیسن تو میری خانقاہ میں اور خاص میری صحبت میں رہا کر، اور جس قدر زیادہ خدمت کرے گا اور جس مستعدی سے بلاعذر و حجت میرے احکام کی جو اصل میں احکام الٰہی ہیں کی تعمیل کرے گا اسی قدر جلد کامیاب ہوگا۔ مگر یہ خوب سمجھ لے کہ ابھی تیرا ظرف اور تیرا دل اس قابل نہیں ہوا کا تنوعات ربانی اور انقلابات قدرت کے اسباب و علل سمجھ سکے۔ موسٰی و خضر کا قصہ ہر وقت پیش نظر رکھنا اوریہ یقین کر لے کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے، نتائج ہمیشہ باطن پر مترتب ہوتے ہیں ۔ ظاہر پرست رموز قدرت کو نہیں سمجھ سکتے ۔ سزا و جزا روح کے لیے ہے جو باچن پر منصرف رہتی ہے اور ہمیشہ دل کے اندر اورنیت پر حکمران ہے۔ یہ ظاہری ارکان و جوارح اسی مادے میں مل جائیں گےاور یہیں رہیں گے۔ لہٰذہ اس کی حرکات کا کوئی اعتبار نہیں۔وہ قاضی و مفتی جاہل و لانور یزدانی سے دور ہیں جوظاہری افعال و حرکات پر حکم دیتے ہیں۔ خضر و موسٰی کے قصے میں اس لاہوت اکبر نے موسٰی کے کی تائید نہیں کی جو ظاہر پرستی کر رہے تھے، بلکہ خضر کے موافق فیصلہ کیا جو رموز باطنی اور ارادہ صمدانی کو سمجھ رہےتھے۔ اسی طرح دیکھو ابراہیم علیہ سلام نےجب بی بی کو بہن بتایا تو ظاہر پرست بہت بہت گھبرائے کہ پیمبر کی عصمت میں فرق آگیا۔ مگر ان کی جہالت ہے۔ خدا ابراہیم علیہ اسلام کے دل کو دیکھ رہا تھا۔
الحاصل اے حسین! توخوب سمجھ لے کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے اور خدا باطن کا طرف دار ہے۔ تجھے شیخ اور مرشد کی اطاعت آنکھیں بند کرکے اسی طرح کرنی چاہیے جیسی اطاعت کی خواہش خضر نے موسٰی سے کی تھی۔ “
حسین : (سینے پر ہاتھ رکھ کے) بے شک میں ایسی ہی اطاعت کروں گا۔ مگر کیا معاصی اور برے کاموں کابھی بے سمجھے ارتکاب کر لینا چاہیے؟
شیخ : (نہایت ہی جلال کے ساتھ اور آنکھیں سرخ کر کے)کیا تجھے یہ گمان ہے کہ مرشد برے کام کا حکم دے گا؟
حسین: (ڈر کےاور اخلاقی کمزوری کی شان سے) نہیں لیکن ممکن ہےکہ مرید اور عقید کیش کو وہ فعل گناہ نظر آتا ہو؟
شیخ :ممکن ہے۔ مگر اس کا باطن گناہ نہیں اور نتائج صرف باطن پر مترتب ہوتے ہیں۔
حیسن : مگر اسی باطن پر جو مرتکب اور کرنے والے کے دل میں ہو۔ میں ایک فعل کا ارتکاب کروں تو اس کے نتائج اسی نیت پر مترتب ہونگے جو میرے دل میں ہے۔ اگر مجھے اس کا باطنی اچھا رخ معلوم نہیں تو خواہ مخوہ میری نیت بھی بری ہی ہوگی۔ اور جب میری نیت بری ہوگی تو نتیجہ بھی اس نیت کے مطابق برا ہونا چاہیے۔
شیخ : (ذراجوش میں آکے اور آنکھیں سرخ کر کے) تو کیا تیرے نزدیک شیخ کی نیت پر شبہ کیا جاسکتا ہے؟ اوراسی پہلے رازِ لاہوتی کو تسلیم کرنے سے تجھے انکار ہے؟
حیسن : (شیخ کے قدمون پر گر کے) ہر گز نہیں مگر میری یہ باتیں محض اس لیے ہیں کہ “لیطمئن قلبی|قرآن کی آیت ہے تاکہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہوجائے|“ اور خدا وہ روزِ بد نہ لائے کہ میں شیخ کی نیت پر شبہ کروں ۔
یہ جواب سن کے شیخ نے حیسن کو اٹھا کے سینے سے لگایا اور اس کی پیٹھ پر شفقت کا ہاتھ پھر کے کہا: “سن! بے شک تیرے دل میں ابھی شکوک آتے ہوں گے مگر اس راہِ باطن میں جو جو قدم آگے بڑہانے کا تجھے نظر آتا جائے گا کہ مرید کی وقعت ایک بے جان آلے سے زیادہ نہیں ۔ مرید بعینہ ایک تلوار ہے جس کے قبضے پر شیخ کاہاتھ ہو۔ اور تو سمجھ سکتا ہے کہ تلوار برے بھلے جس کا سر چاہے اڑا دے۔ مگر الزام یاتحسین کی نسبت تلوار سے نہیں کی جاسکتی، بلکہ یہ چیزیں اسی کی طرف منسوب ہوتی ہیں جو اس تلوار کو ہاتھ میں لیے ہو۔ یقین ہے کہ اب تیرا شک رفع ہو گیا ہوگا اور تو سمجھنے لگا ہو گا کہ مرید کے افعال کا باطنی پہلو شیخ کی نیت سے متعلق ہے نہ خود مرید کےارادے سے۔ جب اس طرح اطاعت و مستعدی دکھا کے انسان ارادت کے مدارج طے کر چکتا ہے اس وقت ارشاد کے درجے کو پہنچتا ہےاور اسی وقت اس کی نیت قابلِ اعتبار اور بنائے نتائج ہوتی ہے۔ لیکن جب تک وہ ارادت کے درجے طے کر راہا ہے اس کے ارادوں اور اس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس وقت تک اس کے ہر قول و فعل کا ذمہ دار شیخ اور مرشدہے۔“
حسین: (جوش و خروش سے شیخ کا ہاتھ چوم کر) بے شک بجا ہے ۔ اب میری آنکھوں کے سامنے سے حقیقت کا پردہ اٹھ گیا اور مجھے کسی حکم کی تعمیل میں عذر نہ ہوگا۔
شیخ: “حیسن! مرید کے سر پہ بڑی نازک ذمہ داری ہے اس سے زیادہ نفس کشی کیا ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے دل اور اپنی عقل کو اپنے افعال سے بالکل الگ کردے؛ مگر تو غور کرے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ احکام الٰہی اور رفتار زمانہ کے بالکل موافق ہے۔ جن کاموں کی تعمیل خضر نے کی اور جن میں موسٰی سے مدد لی ان کا باطنی پہلو صرف خضر کے دل میں تھا اور موسٰی کی نیت میں وہ قطعی معاصی و گناہ تھے۔ مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ موسٰی نے گناہ کیا اور اتنے اتنے بڑے کبائر میں شریک ہوئے۔ ایسا کیوں ہوا؛ محض اس لیے کہ اس عالم باطنی میں خضر مرشد اور موسٰی مرید تھے۔ اس کی تعمیل خود ظاہر پرستوں میں روز ہوتی رہتی ہے۔ طبیب بظاہر نہایت حار بلکہ سمی دوا دیتا ہے اور مریض اگرچہ اسکے منافع سے بے خبر ہے مگر بلا تامل کھالیتا ہے اورنتیجہ وہی ہوتا ہے اور وہی سمجھا جاتا ے جو طبیب کی نیت میں ہے۔ ماں باپ لڑکے کو کسی کام پر مارتے ہیں ، لڑکا اس کام کو اپنے دل میں اچھا سمجھ کے کرتا ہے مگر ماں باپ اپنے ہی دل اور اپنے ہی خیال کی مضرت کی بنیاد پر مارتےہیں۔ اور اس مار کا نتیجہ ہر ایک کے نزدیک اچھا۔۔۔۔۔“
یہ تقریر ایسی موثر تھی کہ حسین اس سے زیادہ سننے کی تاب نا لا سکا اور ایک نہایت بے خودی کی وضع سے جوش میں آکے چلا اٹھا: “بے شک آپ بجا فرماتے ہیں ۔ میرے دل کو اطمینان ہوگیا اورکبھی کسی حکم سے سرتابی نہ کروں گا۔“
اس علم غیب اور اس مدلل تقریر نے حیسن کو شیخ علی وجودی کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ اس کی نظر میں اب سوا شیخ کے اور کسی چیز کی ہستی نہ تھی۔ اس کے کانوں میں ہر وقت شیخ کی آواز گونجتی، اس کی آنکھوں کے سامنے ہر گھڑی شیخ کی تصویر بھرتی اور اس کے دل میں ہر لحضہ شیخ کے احکام کا انتظار رہتا ۔ زمرد کی تصویر بھی اب اسی طرح ہمیشہ پیش نظر نہ تھی بلکہ کبھی کبھی خانقاہ کے حجرے میں لیٹ کے وہ زمرد کو خیال کی طرف متوجہ ہو کے کہتا: “پیاری زمرد! تو نے مجھے کہاں بھیجا ہے کہ خود تجھے بھولا جاتا ہوں؟“الغرض اب پورے کمال کے ساتھ اسے فنا فی الشیخ کا درجہ حاصل تھا۔
حیسن کو ارادت و عقیدت مندیکےساتھ شیخ کی خدمت کرنے گیارہ مہینے گزر گئے؛ اس نمانے میں ایک مرتبہ شیخ تین مہینے کے لیے غائب رہے اور کسی ایسے سفر پر گئے جس کو انھوں نے بالکل راز رکھا۔ حیسن ا نکی غیر موجودگی میں خانقاہ ہی میں رہا مگر اتنی مدت می اسے معلوم ہوگیا کہ شیخ علی وجودی کے مرید و معتقد کن کن شہروں اور کتنی کتنی دور پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کا معمول تھا کہ سال میں ایک مرتبہ دور دراز کا سفر کر کے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نئے نئے عجیب و غریب احکام سن کے واپس جاتے اور ان کی فورًا تعمیل ہوتی۔ ایک طرف خراسان، مکران، سیستان،فارس، رودبار،آذر بائجان،عراق عرب اور عراق عجم کے مرید آتے اور دوسری طرف عمان،حضرت موت،حجاز،یمن، زنجبار، مصر ، طرابلس الغرب،الجزیرہ اور تمام علاقہ افریقہ و ایشیائے کوچک کے معتقد۔ یہ سب لوگ مختلف وضع و لباس میں ہوتے اور پوشیدہ ہی پوشیدہ اکثر راتوں کو شیخ سے مل کے صبح ہونے سے پہلے ہی چلے جاتے۔ حسین اس امر کو نہایت ہی وقعت کی نظر سے دیکھتا کہ شیخ کےخوشہ چین اور ارادت مند کن کن اقطار عالم میں پھیلے ہوئی ہیں اور اتنے بڑے اژر اور حکومت کے ساتھ بظاہر کس سادگی اور بے نفسی کی زندگی بسرکرتے ہیں۔
ایک رات کو شیخ کے گرد دس بارہ مریدوں کا مجمع تھا، حیسن بھی نہایت ہی ادب کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھا تھا اور شیخ کی زبان فیض ترجمان بہت بڑے بڑے رموز حکمی اور روحانی کھول رہی تھی۔ ایک شخص نے جو مصر سے آٰیا ہوا تھا ادب سے مگر شک کرنے کے لہجے می کہا: “میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان جب اس جسم خاکی کو اسی خاک دان میں چھوڑ جاتا ہے تو جنت کی مسرتوں میں اسے کیوں کر لطف آتا ہے؟“
اس کے جواب میں شیخ نے کسی قدر برہمی سے کہا: “بعینہ ایسے ہی جس طرح کہ تم دنیا میں اس جسم کے ساتھ مزہ اٹھاتے ہو“
شخص : کیوں کر؟ جب لذت اور درد تو صرف جسم کے لواحق میں سے ہیں؟
شیخ : (ذرا اور جوش میں آکے) روح تو بے جسم ہوتی ہے مگر اسے معلوم یہی ہوتا ہے کہ گویا جسم میں ہے۔
شخص : یہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ جب مادے کی کثافت ہی نہیں تو اسے متشکل اور متحیز کون چیز کرتی ہے؟
یہ سن کے شیخ کی برہمی اعتدال سے زیادہ ہوگئی۔ انھوں نے حیسن کو پکار کے قریب بلایا اورکہا: “بتا جب تو کوہ البرز کی گھاٹی،کو جودی کے غار اور شہر خلیل کے تیرہ و تار تہ خانے میں تھا اس وقت تجھے میرے وہاں موجود ہونے تیری حالت دیکھتے رہنے کا یقین ہے؟“
حسین: (سینے پر ہاتھ رکھ کے) بے شک ہے۔ گو میری ناتواں آنکھیں نہ دیکھتی ہوں مگر حضرت کا جلوہ ضرور موجود تھا ورنہ وہاں کے رموز حضرت کو کیوں کر معلوم ہوسکتے۔
یہ سن کے شیخ نے ذرا فخر ونازکی شان سے گرد کے لوگوں کو دیکھا اور سب کے بعد اس شخص کے چہرے پر جس نے شک کیاتھا اپنی تیز نظریں جما دیں۔ مگر اسکے دل کو ابھی اطمینان نہیں ہوا تھا۔ شیخ علی وجودی کی اتنی برہم مزاجی دیکھ چکنے پر بھی معترضانہ طریقے سے بول اٹھا: “بے شک آپ وہاں موجود ہونگے اور حیسن کے ہر حال کو دیکھ رہے ہوں گے مگر صرف آپ کی روح تھی اور متشکل نہیں ہوئی تھی۔ ایسا ہوتا تو حسین آنکھوں سے بھی آُپ کے نورانی جلوے کو دیکھ لیتا۔“
یہ سنتے ہی شیخ کو تاب نہ رہی؛ زرو میں آکے اٹھ کھڑے ہوئے ، آنکھوں کی چمک دو چند ہو گئی منہ میں کف بھرآیا ور اس شخص کی طرف دیکھ کے کہا: “یہ مشت خاک نہایت ہی سرکش ہے یہ اس نور لانور کے شہود و وجود کو نہ سمجھتی ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ کسی کو یہ راز بھی نہیں معلوم کہ دنیا کیوں ہے اور یہ روح لطیف اس پیکر خاکی میں ایک مدت تک کیوں قید رکھی جاتی ہے؟ اس کا راز مجھ سے سنو۔ میں وہ شخص ہوں جو سروشستان اور عالم لاہوت کا ایک آن میں دورہ کرتا ہوں ۔ اور ان رموز کو جو اس اولی تنوع نور لاہوتی یعنی عرش اعلٰی کے اطراف میں لکھے ہیں پڑھ آتا ہوں۔ اصل یہ ہے کہ جسم میں آنے سے پیشتر روح مجرد میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ کسی مادی مسرت سے لطف اٹھا سکے۔ اس وقت وہ محض مفر ہوتی ہے اور حظوظ و لذاذ سے فائدہ یاب ہونے کے طریقوں سے بالکل بے خبر۔صرف اسی چیز کا سبق لینے کے لیے وہ اس جسم خاکی میں رکھی جاتی ہے۔ وہ ًحدود زمانہ جسے تم زندگی کہتے ہو اورہم روحوں کے کمال حاصل کرنے کا مدرسہ صرف اسی لیے ہے کہ روح لطیف اس مادے کے ساتھ علائق پیدا کر کے ہر قسم کی لذتوں اورہر قسم کے الموں سے اتنی آشنائی پیدا کرلے کہ اس سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی جب چاہے اپے آپ کو متحیز و متشکل اور لذت و الم سے متاثر کرسکے۔ جس طرح کوئی شخص مدارج روحانی طے کرنے کے بعد یہ صلاحیت اور قوت حاصل کر لیتا ہے کہ اس جسم میں رہنے کی حالت میں بھی اپنے آپ کو غائب یا روح مجردہ کی طرح غیر متشکل و غیر متحیز بنا لے اسی طرح روح انسانی عمومًااس جسم خاکی کے حجرے میں بند ہو کے اتنا چلہ کھینچ لیتی ہے کہ اس کے چھوڑنے کے بعد بھی جب چاہے اور جیسی شکل میں چاہے نمودار اور آشکارا ہوجائے۔ بہت سے باکمال بزرگوں یا شہیدوں کو سنا ہوگا کہ ان کے جسم تو قبر کے کونے میں پڑے سڑ رہے تھے مگر روح اکثر لوگوں کی نظر کے سامنے اپنی سی یا کسی دوسری شکل میں نمودار ہوگئی۔ صرف ایک روح ہے جس نے بغیر جسم میں آئے اس کمال کو حاصل کر لیا۔ اس سے مراد جبرائیل علیہ سلام ہیں جو کبھی وحیہ کلبی اورکبھی دیگر پیکروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نمودار ہوئے۔ مگر اس رازکاجاننے ولا اس عالم میں میرے سوا کوئی نہیں کہ جبرائیل نے یہ کمال روح کیوں کر حاصل کیا۔ سنو! مسیح کی ولادت کو اسی رمز سے تعلق ہے۔ جبرائیل ہی تھے جو مریم صدیقہ کے جسم میں حلول کر کے مسیح کو صورت میں متحیز ہوئے اور تھوڑے ہی زمانے میں اپنا روحی کمال حاصل کرکے چلے گئے۔ مسیحیوں کو دھوکا ہوا کہ خدا تھا۔ مگر نہیں، وہ صرف ایک روح تھی جو ایک جسم سے جس میں دوسری روح بھی موجود تھی ، کمالات جسمانی حاصل کر کے آسمان پر چلی گئی۔ مسیح کو روح ایک دوسری روح تھی جو اس کے جسم میں تھی۔ مگر اسی کے ساتھ جبرائیل کی روح بھی انکے پیکر میں اتر کے چند روز رہی اور مسیح کے جسم سے الوہیت کی شان نمودار کرکے غائب ہوگئی۔ مردوں کو زندہ کر دینا یہ مسیح کا کام نہ تھا بلکہ صرف جبرائیل کی ملکوتی وقت کا مشہور ومسلم نتیجہ تھا جس کا تجربہ لوگوں کو موسٰی کے عہد میں بھی ہوچکا تھا|بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جب موسٰی علیہ سلام نے بحر قلزم میں قدم بڑہائے تو فرعون نے تعاقب میں بڑہنا چاہا مگر اس کا گھوڑا نہ بڑہتا تھا۔ پھر جبرائیل ایک گھوڑی پر سوار نمودار ہوئے اور بڑھےجن کے ساتھ فرعون کا گھوڑا بھی آگے بڑھا۔ سامری نے جبرائیل کی گھوڑی کے قدم کے نیچے کی مٹی اٹھا کے رکھ لی تھی اور اس مٹی کے ڈالنے سے وہ گوسالا بولنے لگا جس کی بنی اسرائیل نے پرستش کی تھی۔|۔ مگر جن کو خدا نے چشم بینا نہیں دی آج بھی نہیں سمجھ سکتے اور مسیح کے اس معجزے کو یاد کرکے پریشان ہوتے ہیں ۔ الغرض یہ متحیز اور متشکل ہوسکنے کا کمال ہے اور جس کے حاصل کرنے کے لیے ہر روح دنیا میں آئی ہے اور یہاں سے جانے کے بعد اسی کمال کے مطابق جنت و دوزخ میں اپنے کردار کا جزا و ثواب پاتی ہے۔
تم میرے کمالات سے ناواقف ہو ۔ میں وہ شخص ہوں کہ خود ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو اس ملااعلی پر پہنچا کے وہاں کی ہر چیز دکھا سکتا ہوں ۔ اورمیرے اختیار میں ہے کہ مجت کےروحانی پیکروں کو اس جسم خاکی کے سامنے لاکے کھڑا۔۔۔۔۔۔“
شیخ نے یہیں تک کہا تھا کہ حیسن روتا اور التجا کرتا ہوا ان کے قدموں میں گرا اور کہا: “یا حضرت! مجھے کسی مسئلے میں شک نہیں مگر اتنی تمنا کے کہ اس شروشستان اور جنت میں ہو آؤں۔ وقت آگیا کہ اپنی التجا آُ پکے سامنے پیش کروں اور یقین ہے کہ محروم نہ رہوں گا۔“
حیسن دیر تک شیخ کے قدموں پر لوٹتا رہا، مگر شیخ اس قدر جوش میں بھے ہوئے تھے کہ چند ساعت تک خاموش کھڑے رہے، پھر اس کو اٹھا کے بٹھایا اور کہا: “حیسن ! میرے اس وقت کے جوش سے تو نے بہت بڑا فائدہ اٹھایا۔ خیر، اب اس وقت تو تامل کر؛ کل تنہائی میں پھر درخواست کرنا۔ بے شک وقت آگیا ہے کہ تجھے اس محنت و ریاضت کا پھل ملے ۔ مگر ابھی تیرا امتحان باقی ہے اور سخت امتحان ۔ مجھے ابھی دیکھنا ہے کہ تو نے کہاں تک اپنے آُ پکو مرشد کے ہاتھ میں دیا ہے اور یاد رکھ کہ جس قدر تجھے مرشد کا حکم بجالانے میں تامل ہوگا اسی قدر اپنا مقصد حاصل کرنے میں دیر ہوگی۔“
سب مرید رخصت ہو کے چلے گئے؛ حسین بھی اپنے بچھونے پر لیٹا۔ مگر یہ رات اسے نہایت ہی انتظارواضطراب سے بھرپور لگی اس لیے کہ“آتش شوق تیز تو گردد“ کا مضمون تھا۔ صبح کو نماز کے بعد جیسے ہی شیخ شریف علی وجودی نے وظیفے سے فراغت پائی،اوراد ختم کر کے بیٹھے ہی تھے کہ حیسن جاکے قدموں میں گرپڑا اور چلایا: “اب زیادہ صبر کی تاب نہیں ۔ آپ کو سب حالات خود ہی معلوم ہیں۔ مجھے کہنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ مگر خدا کے لیے زمرد سے جلدی ملائیے۔“
شیخ: بہتر تو زمرد سے ملے گا اس کے وصل سے کامیاب ہوگا۔ مگر اس کے لیے اچھی طرح تیار ہے؟
حسین: دل و جان سے تیار۔
شیخ: دیکھ تجھے تامل نہ ہو؟
حسین: ذرا نہیں۔
شیخ: تیرے دل میں شک اور بد عقیدگی پیدا نہ ہو؟
حسین: ہر گز نہیں۔
شیخ: جرات کا کام ہے!
حسین: میں جان لڑا دوں گا۔
شیخ: اس میں خطرےبھی ہیں؟
حسین: ہوں۔
شیخ: تو سن!
حسین: ارشاد؟
شیخ: یہی نہیں دل مضبوط کرلے۔
حسین: خوب
 

دوست

محفلین
باب 3 ملاءِ اعلٰی کا سفر

ملاءِ اعلٰی کا سفر​
امام نجم الدین نیشا پوری اس عہد کے بہت بڑے امام تھے۔تمام زمانے میں ان کی اور ان کے علم و فضل کی شہرت تھی اور شاید کوئی مقام نہ ہوگا جہاں ان کے شاگرد مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کی مقتدائی نہ کر رہے ہوں۔حسین کے وہ استاد و مرشد ہی نہیں بلکہ چچا بھی تھے، ان کا اصلی وطن شہر آمل میں تھا مگر کم عمری ہی میں طلبِ علم کے شوق میں گھر سے نکل گئے تھے۔ دنیا کی بڑی بڑی درس گاہوں میں شریک ہوکے بغداد پہنچے! ایک مدت دراز تک مدرسہ نظامیہ میں طالب علمی کی ۔ پھر مشرقی بلاد علم کی سیاحت میں مشغول ہوئے بخارا و ہرات کی علمی صحبتوں میں شریک ہوکے اور وہاں کے علماء کی درس گاہوں سے خوشہ چینی کر کے نیشا پور میں آئے اور وہں متوطن ہوگئے۔ آپ ان دنوں وہ علم و فضل کے بڑے مرکز اور خدا شناسی کے نام ورقطب بنے ہوئے تھے ۔ حسین نے ایک ایسے نیک نفس اور باخدا عزیز کے قتل کرنے کا حکم سنا تو یکایک کچھ ایسی حیرت وہ پریشانی غالب ہوئی کہ بے ہوش ہوگیا۔
شیخ علی وجودی نے اس کے ہوش میں لانے کی کوئی تدبیر نہ کی بلکہ اسی طرح زمین پر پڑا رہنے دیا۔ تھوڑی دیر تک تو وہ انتظار کرتے رہے کہ حسین خود ہی ہوش میں آکے حکم بجالانے کا وعدہ کرے مگر جب اسے ہوش آنے میں دیر ہوئی تو اسی طرح چھوڑ کے ایک دوسرے حجرے میں چلے گئے۔ شاید دوگھنٹوں کے بعد حسین کو ہوش آیا اور اس کے ساتھ ہی شیخ کا واجب التعمیل حکم بھی یاد آیا۔ قریب تھا کہ دریائے غفلت میں پھر ایک غوطہ لگا ئے مگر سنبھلا اور اٹھ کر چاروں طرف دیکھا: شیخ علی وجودی غائب تھے اور تنہا وہی وہ تھا۔ گزشتہ باتوں کو یاد کرکے حیرت کرنے لگا: “کیا مجھے شیخ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی؟ بے شک ایسا ہی معلوم ہوتاہے۔ ایسے نیک نفس اور حقیقت بین شیخ نے تو اس قسم کے سخت ظلم اور گناہ کا حکم نہ دیا ہوگا۔ مجھے قتل عمد کی ہدایت اور قتل بھی کس کا؟ شیخ نجم الدین نیشا پوری کا، جن سے بڑا عالم و فاضل اس وقت صفحہءِ ہستی پر نہیں! یقینًا مجھ سے غلطی ہوئی۔ مگر فرض کیا جائے کی شیخ نے یہی حکم دیا ہے تو کیا مجھ سے یہ ہوسکے گا کہ اپنے استاد،مرشد اور باخدا چچا کو قتل کر ڈالوں؟(کانپ کر) بہت مشکل معلوم ہوتاہے۔ دنیا کیا کہے گی؟ اور پھر دین میں بھی تو ہے کہ“من قتل مومناًمتعمدًا فقد کفر۔“اس حکم کو بجا لاکے سوا اسکے کہ روسیاہی دارین حاصل کروں اور کوئی فائدہ نہیں نظر آتا۔ لیکن ہاں شیخ نے کہا تھا کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے؛اس میں بھی کوئی فائدہ ضرور پوشیدہ ہوگا۔ حقیقت بینی اور رموز قدرت جاننے میں امام نجم الدین، شیخ علی وجودی ک مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ یہ خیال میں آتاہے کہ شیخ علی وجودی کی نیت بری ہوگی۔ کوئی تعجب نہیں اگر کسی روحانی مصلحت سے انھوں نے بہ ظاہر ایسے مکورہ کام کا حکم دےدیا ہو۔اس میں بھی کوئی فائدہ ضرور مقصود ہوگا۔ حقیقت بینی اور رموز قدرت جاننے میں‌امام نجم الدین،شیخ علی وجودی کا مقابلہ نہیں‌کر سکتے۔ اور نہ یہ خیال میں‌آتا ہے کہ شیخ‌علی وجودی کی نیت بری ہے۔ کوئی تعجب نہیں‌اگر کسی روحانی مصلحت سے انھوں‌نے بہ ظاہر ایسے مکروہ کام کا حکم دے دیا ہو۔واقعی اگر یہ ہی حکم ہوا ہے تو مجھے تامل نہ کرنا چاہیے،یہ میرا پہلا امتحان ہے، اگر ذرا بھی عذر کیا تو گناہ گار بھی ہوں‌گا اور زمرد کے وصال سے بھی محروم رہوں گا۔اس تعمیل حکم میں‌دینی فائدہ تو بدیہی ہے کیوں کہ شیخ کا امر واجب‌الاذعان ہے۔ باقی رہی دنیاوی بدنامی،اول تو اس کی کوئی ہستی نہیں، اور اگر کسی قدر ہے بھی تو اس کے عوض یہ کتنا بڑا فائدہ ہے کہ پیاری زمرد کی ہم کناری اسی زندگی میں‌نصیب ہوجائے گی۔بے شک مجھے کسی قسم کا عذر نہ کرنا چاہیے۔
دل میں‌ی خیالات جما کے حسین حجرے سے نکلا اور مختلف حجروں‌میں‌ڈھونڈتا ہوا اس حجرے میں‌پہنچا جس میں‌شیخ‌علی وجودی تھے۔ ان کی صورت دیکھتے ہی قدموں پر سر رکھ دیا اور چلایا:“مجھے وہ حکم نہیں‌یاد رہا۔جلدی بتائیے کہ تعمیل کو روانہ ہوں۔“
شیخ: دیکھو تمہیں اب کی تامل نہ ہو۔مجھے اندیشہ ہے کہ تمھارے دل میں بدگمانی پیدا ہو اور تم اپنی ساری محنت ضائع کردو۔ خوب یاد رکھو کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے۔
حسین :خوب یاد ہے اور مجھے ذرا تامل نہ ہوگا۔
شیخ: تو جاؤ امام نجم الدین‌نیشاپوری کو قتل کردو۔
حسین: (دل کو مضبوط کرکے)بہتر، اگر میں‌ مار ڈالا گیا؟
شیخ: کوئی مضائقہ نہیں،بلا زحمت زمرد سے جاملوگے۔مگر مجھے معلوم ہے ایسا نہ ہوگا۔
حسین:تو میں‌رخصت ہوتا ہوں۔
شیخ: ٹھہرو!(ایک تیز خنجر نکال کے) لو! اس خنجر کو اپنے پاس چھپا کے رکھو اور جس وقت موقع ملے اسی سے کام لینا۔
وہ مرشد کا عطا کیا ہوا خنجر لے کے حسین نے اپنے استاد کی جان لینے کے لیے مشرق کی راہ لی۔ ڈیڑھ مہینے بعد بغداد پہنچا؛وہاں‌سے چل کے اصفہان اور اصفہان سے ایک مہینے بعد نیشا پورپہنچ گیا۔حلب سے نکلے چار مہینے ہوئے تھے کہ وہ امام نجم‌الدین کی درسگاہ میں‌داخل ہوگیا۔ امام موصوف پہچانتے ہی بغل گیر ہوئے اور بےانتہا شفقت سے پیش آئے۔
گھر کے خطوط سےانھیں‌یہ خبر معلوم ہو چکی تھی کہ حسین ایک شریف لڑکی کو ساتھ لے کے بدنامی کے ساتھ نکل گیا۔ جس کا تذکرہ کرکے انھوں‌نے افسوس کیا اورکہا :“ حسین!مجھے ایسی امید نہ تھی کہ علم کو اس ذوق و شوق سے حاصل کرکے تم اس کی بے حرمتی کروگے۔“
حسین: یا عم! میں‌کسی بری نیت سے نہیں‌گیا تھا؛ زمرد کا عقد میرے ہی ساتھ ہونے والا تھا اور وہ حج کی بے انتہا مشتاق تھی۔ اسی علم دین کی وجہ سے مجھے نہ گوارہ ہوا کہ اس کی اس دینی خواہش کا لحاظ نہ کروں، بے تامل ساتھ لے کے چل کھڑا ہوا۔
امام: اوراب کہاں ہے؟
حسین: جبال‌طالقان کی گھاٹیوں میں‌پریوں‌کے ہاتھ سے مارڈالی گئی۔
امام: (مسکرا کر) ایسا مہمل و بے سروپا قصہ بنانے سے کیا حاصل جسے کوئی تسلیم ہی نہ کرے گا؟
حسین: جس بے تکلفی سے میں‌نے یہ قصہ بیان کردیا ہے؛ اسی سے آپ اندازہ فرما سکتے ہیں‌کہ میرے بیان میں‌کسی بناوٹ کو دخل نہیں۔
امام: خیر اب یہاں‌کس غرض سے آئے ہو؟
حسین: آپ کے حلقہ درس میں‌شریک ہونے کے لیے۔زمرد کے غم میں‌میں‌نے ارادہ کر لیا ہے کہ علائق دنیوی کو چھوڑ دوں‌ اور چاہتا ہوں‌کہ یہ باقی ماندہ زندگی تحصیل علم میں‌ہی صرف ہوجائے۔
امام: اگر ایسا ہے تو خدا تمہارے ارادے میں‌برکت دے اور تمہیں توفیق ہو کہ میرے بعد اس درسگاہ کے مالک بنو۔
الغرض حسین امام نجم الدین نیشا پوری کے خوشہ چینوں‌میں‌شامل ہوگیا،اورچوں کہ بھتیجا تھا،ان کے دل میں‌روز بروز اپنا زیادہ اعتبار پیدا کرتا گیا۔مگر اس کے ساتھ ہی وہ اپنا موقع بھی ڈھونڈ‌رہا تھا۔ امام اکثر اوقات طلبا اور معتقدین کے مجمع میں‌رہتے جس کی وجہ سے تین مہینے گزرگئے اور حسین کو خنجر نکالنے کا موقع نہ ملا۔ چوتھے مہینے میں‌چھ دن ہی گزرے تھے کہ اتفاقًا امام کو بخار نے شدت سے آلیااور کئی دن تک درس وہ تدریس کاسلسلہ موقوف رہا۔ اس بیکاری کے زمانے میں اکثر طلبا تو ادھر ادھر سیر میں‌رہتے مگر حسین نے شیخ‌کی تیمارداری میں‌انتہا سے زیادہ گرم جوشی اور سعادت مندی کا مظاہرہ کیا۔ شب وروز ان کی دیکھ بھال اور خدمت گزاری میں‌مصروف رہتا۔
امام کو بخار آئے چھٹا دن تھا کہ ایک رات کو اتفاقًا ان کے حجرے میں اکیلا حسین ہی تھا۔ رات زیادہ آچکی تھی اور امام بچھونے پر لیٹے ناتوانی کی آواز میں‌باتیں‌کررہے تھے۔ حسین خلاف معمول آج زیادہ خاموش تھا۔ ان کی باتوں‌پر ہنکاری تو ضرور بھرتا تھا مگر اس کے سواکوئی لفظ اس کی زبان سے نہ نکلتا تھا۔ کئی مرتبہ امام کو تعجب بھی ہوا،بلکہ ایک مرتبہ پوچھنے لگے: “حسین آج تم خاموش کیوں ہو؟“ مگر حسین نے “یوں‌‌ہی“ کہہ کے ٹال دیا۔حسین ساکت تھا اور بار بار باہر نکل کے تاروں سے دریافت کرتا تھا کہ رات کتنی آئی۔ آخر آدھی رات گرزگئی اور حسین کو اطمینان ہوگیا کہ اب صبح تک کوئی نہیں‌آئے گا۔ اس بات کا یقین کرکے اس نے حجرے کا درواذہ خوب مضبوطی سے بند کرلیا اور پاس جاکے دیکھا توامام کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ دیر تک کھڑا ان کی صورت دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں‌میں‌خون اترتا آتاتھا ساعت بہ ساعت اپنے بزرگ اور استاد پر کاری وار کرنے کے لیے تیار ہوتا جاتا تھا۔ اس قسم کے خوں‌ریز کاموں‌سے وہ کبھی آشنا نہ تھا؛دل کو زور دے دے کے ابھارتا تھا مگر خیالات ایسا پلٹا کھاتے کہ بار بار ہمت ہار دیتا۔ حجرے میں ہر طرف اسے ایسی خیالی صورتیں‌دکھائی دیتیں‌اور انکا رعب پڑتا تھا کہ معلوم ہوتا جیسے فرشتے یا کسی اور قسم کی غیر جسمانی مخلوق امام کی حفاظت پر مامورہے ۔خود امام کا چہرہ اس کے خیال کی آنکھوں‌میں‌کبھی نہایت ہی نورانی بن کے سفارش کرتا اور کبھی بھیانک اور مہیب نظر آکے ڈرادیتا۔ مگر ان سب خیالات کو اس نے مٹایا؛شیخ علی وجودی کا عطا کیا ہوا خنجر نکال کے اس کی باڑھ دیکھی اور یکایک دل مضبوط کرکے امام کے سینے پہ چڑھ بیٹھا۔ امام نے چونک کے آنکھ کھولی ہی تھی اور چلانے ہی کو تھے کہ اس کا بایاں ہاتھ اُن کے منہ پر اورخنجر ان کے دل میں‌تھا۔ چند ہی لمحے میں‌امام کی روح پرواز کر گئی۔ خون تمام حجرے میں پھیلا ہوا تھا۔ بے جان لاش خون آلود کپڑوں میں‌لپٹی بستر پر پڑی تھی۔ اور گو یہ کوئی روز آوری کاکام نہ تھا مگر حسین کے دل کو اتنی بڑی شدید حرکت ہوئی تھی کہ کھڑا ہانپ رہا تھا اور بار بار اپنے ہاتھ کے معصوم شہید کی مظلومانہ صورت کو ڈرڈر کے دیکھتا۔ آخر حسین نے ان سب چیزوں کو اسی حال میں‌چھوڑا،حجرے میں‌خوفناک سین پر سہمی ہوئی آنکھوں‌سے آخری نظر ڈالی اور دروازہ کھول کے نکلا۔حجرے کا درواذہ باہر سے بند کردیا اور چپکے چپکے قدم اٹھاتا ہوا چلا۔ شاید زیادہ وقت نہ صرف ہوا ہوگا کہ وہ شیخ کی خانقاہ سے دور نکل گیا۔
نیشا پور کے گرد نہایت ہی مضبوط فصیل تھی اور پھاٹک رات کو بند ہوجاتے تھے جس کے سبب سے اس وقت اسے شہر سے باہر نکلنے میں‌بہت دشواری نظر آئی۔ مگر وہ جان پر کھیل کے ایک تیرہ و تار بدرو سے باہر نکلا،اور نکلتے ہی نہایت تیزی سے بھاگا، تاکہ صبح ہونے سے پہلے ہی اتنی دور نکل جائے کہ اسے کوئی پا نہ سکے۔
دوسرے دن جب وہ شوق کے پروں‌سے اڑتا ہوا خراسان کے مغربی میدان اورجنگل قطع کرتا چلا جاتا تھا، اس وقت اس کے حواس ذرا ٹھکانے ہوئے اور اپنا ظلم و گناہ یاد آیا جو ہر پہلو سے برا نظر آتا تھا۔ اس خیال کے مٹانے کی برابر کوشش کرتا تھا مگر بار بار زبان سے ایک آہ کے ساتھ یہ جملہ نکل ہی جاتا تھا کہ “میں‌بڑا گناہگار ہوں!“ اس کا دل اور اس کا ایمان اس پر لعنت کررہا تھا۔ لعنت اور پھٹکار کی آواز کان میں‌آتی تھی اور وہ چونک چونک کے کہتا کہ “ اس فعل کے ذمہ دار شیخ‌علی وجود ہیں“ مگر خود ہی دل میں‌قائل ہوجاتا کہ امام کا کام تو میرے ہاتھ اور میری سنگدلی نے تمام کیا ہے، ذمہ داری کسی اور کے سر کیوں‌کر جاسکتی ہے۔اب اس کے دل نے شیخ‌کے اس اصول میں‌بھی شک پیدا کیا کہ مرید مرشد کے ہاتھ میں‌صرف ایک بے جان اور غیر ذمہ دار آلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آپ ہی آپ کہنے لگا:“ انھیں‌علمائے روحانین کا یہ مسئلہ اگر صحیح‌ہے کہ ثواب اور عذاب اسی لذت و الم کا نام ہے جو اپنے کردار کے نتائج میں‌خود اپنے کانشس اور دل کی تحسین و ملامت سے پیدا ہوتے ہیں تو انسان کے فعل کا کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں‌ہوسکتا۔ فرض‌کرو کہ میں‌نے ایک کام کیا اور گووہ کسی مشیر و صلاح‌کار کے خیال میں اچھا ہو مگر میرے نزدیک برا اور قابل ملامت ہے تواسکے ارتکاب پر میرا دل مجھ پر ضرور لعنت کرے گا۔ اور جب اسی لعنت کے الم کو اصطلاح ِشرع میں‌عذاب سے تعبیر کیا ہے، تو بے شک میں‌دوزخ‌اور عذاب سے نہ بچ سکوں‌گا۔“الغرض‌ خود حسین کے دل نے اسے قائل کیا؛اب وہ پچھتا رہا ہے اور سخت روحانی تکلیف میں‌مبتلا ہے مگر اس کے ساتھ ہی شیخ‌علی وجودی کی وقعت بھی ساتھ ہی دل میں‌ موجود ہے۔شیخ‌کی وہ ایسی ایسی کرامتیں‌دیکھ چکا ہے کہ ان پر بدگمانی نہیں‌کرسکتا،بلکہ بعض‌اوقات ڈرجاتا ہے کہ کہ شیخ‌غیب کے اور دلوں کے حالات سے واقف ہیں،میرے یہ شکوک کہیں‌ان کو معلوم ہوگئے تو غضب ہوجائے گا۔ ادھر سے بھی جاؤں‌گا اور ادھر سے بھی۔ اتنے بڑے گناہ کے ارتکاب کے بعد بھی زمرد کے وصال سے محروم رہا تو حسرت ہی رہ جائے گی۔
حسین اسی قسم کے خیالات دل میں‌لیے ندامت کے دریا میں‌غرق اپنے فعل پر پچھتاتا ہوا شہر حلب میں‌داخل ہوا اور شیخ‌کے سامنے جاتے ہی قدموں پر گرنے کوتھا کہ انھوں نے اُٹھا کے گلے سے لگالیا اور نہایت ہی جوش سے کہا: “حسین!تو اپنے امحتان میں‌ پورا اُترا اوراب زمرد تجھ سے زیادہ تیری مشتاق ہے۔ اُس نورلانور نے انوارازلی نے تیرے دل پر پوارا انعکاس کیا اور تیرے جسم کی اس مشت خاک نے یہ صلاحیت پیدا کرلی کہ اس عالم نور اور سروشستان کی تجلیات کی متحمل ہوسکے۔“
حسین: مگر یا حضرت! میرے دل میں اپنے اس ظالمانہ فعل کی نسبت طرح‌طرح‌کے شبہات پیدا ہوتے ہیں؟
شیخ: (جوش میں آکر) بے شک پیدا ہوتے ہوں‌گے۔ روح‌اس مادے کی کثافت سےبڑی دشواریوں‌سے علیحدہ ہوسکتی ہے اور صرف یہی چیز ہے جو ان شکوک و شبہات کو پیدا کرتی ہے ۔ وہ مرکز اشراقی جو باوجود لاحی ہونے کے حیات سرمدی کا سرچشمہ ہے، اس جسمانی روح‌پر جوقفس عنصری میں‌مقید ہے، اپنے تنوعات کوبمشکل آشکارا کرسکتاہے۔
حسین: مگر ایسے اطمینان بخش نصائح ارشاد ہوں‌کہ دل سے یہ شبہات نکل جائیں۔
شیخ: سن اے حسین!استقلال تیرے شکوک کو دور کردے گا،بشکطیکہ تو ان کو دفع کرنے کی کوشش میں‌مشغول رہے۔ مگر تیرے اطمینان کے لیے میں‌کہہ سکتا ہوں‌کہ دنیا میں‌تکمیل نفس اسی کا نام ہے اور یہی منشاءالہٰیات ہے کہ روح‌کے تعلقات اس جسم سے علیحدہ کیے جائیں۔ جسمانی افعال پر تصرف کرتے کرتے روح عادی ہوجاتی ہے کہ بلااستعانت مادہ کوئی کام نہ کرسکے۔ اور وہ روحییں‌جو جسم کے چھوڑتے وقت تک انھِیں‌مادیات میں پھنسی رہ گئیں وہ بعدمیں‌بھی ہر وقت اپنے گرد مادے کا تیرہ وتار غبار پاتی ہیں۔ اور یہی چیز اصطلاح‌شرع میں اِن کا دوزخ‌ہے۔ نجات کی کوشش یوں‌ہونی چاہیے کہ زندگی ہی میں روح‌کے علائق جسم سے کم کردیے جائیں۔اس کوشش میں‌ابتدا اس سے ہوتی ہےکہ جسم سے ایسے کام لیے جائیں‌جن سے روح‌کو تعلق نہ ہو۔ روح بیتاب ہو ہوکے اُن کی طرف متوجہ ہونا چاہے اور انسان بہادری اور مضبوطی سے اُسے جبراًروکے۔یہی الہٰیات کی تعلیم اولٰی ہےدوسری یعنی تعلیم وسطٰی یہ ہے کہ روح‌ایسے کام کرے جن سے جسم کو کوئی تعلق نہ ہو۔ جو لوگ دور دراز شہروں‌میں اپنی روح سےاثر ڈال دیا کرتے ہیں ان کی نسبت سمجھ لینا چاہیے کہ وہ عالم روحانیات کے اس درمیانی درجے کو طے کررہے ہیں۔ اس کے بعد تیسرا درجہ یہ ہے کہ روح جسم سے اتنی علیحدگی حاصل کرلے کہ اس نورلانور کے انکشافات کی جستجو میں‌مادے سے مبرا و منزہ ہوکے ملکوت اور عالمِ لاہوت کی سیر کرے۔ اوراس تیسرے درجے یا اس اعلٰی جستجو کے زمانے میں جو کوئی مرجاتاہے وہ جسم خاکی کو الوداع کہتے ہی اس نقطہ اولٰی یا ذات واجب الوجود اور علت العلل سے جاملتا ہے۔ اس وقت اُسے وہ اعلٰی کمال روحانی حاصل ہوتا ہے جس کی تحصیل کے لیے اس نے عالم مادی کی یہ قید اٹھائی تھی اور اس آخشیجستان کے مصائب میں‌مبتلاہواتھا۔۔ اب اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو تعلقات جسدی کی مادی تعلیمات سے اس میں‌یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جب چاہے اہل عالم کے سامنے اپنے آُ کو متہیز اور متشکل کرکے دکھادے اور دوسری طرف اس میں‌کمال روحانیت و تجرداس درجے کا ہوتا ہے کہ جب چاہے اس نقطہءازل اور اولٰی مرکز نورلانور سے جاملے۔لہٰذہ اے حسین! تو اس مدرسہءروحانیت کی ابتدائی جماعت میں‌ ہے اور ابھی اسی امر کی مشق کررہا ہے کہ تیرے ارکان و جوارح سے ایسے افعال و حرکات صادرہوں‌ جن کی طرف روح بے صبری سے متوجہ ہواور تو اسے زبردستیاں‌اور نفس کشیاں کرکرے دوسری طرف منسوب کرے۔یہ لعنت و ملامت جوتیرا نفس اور تیری روح‌تجھ پر کررہی ہے،اسی تعلق روحی کا نام ہے جس کے قطع کرنے کی تجھے کوشش کرنا چاہیے۔اور جس تو یہ کمال حاصل کرلے گا کہ تیری روح‌تیرے اعضاء کے کسی فعل کی طرف توجہ ہی نہ ہواُس وقت تُو درجہ توحید میں‌قدم رکھے گا۔
حسین: تو میں ان الزاموں‌اورملامتوں‌کی پرواہ نہ کروں‌جو خود میرے دل سے مجھ پر پڑرہی ہیں؟
شیخ: ہرگز نہیں، اسی امر کی تجھے مشق کرنا ہے اور اس نورولانور کیطرف توجہ کرنے کا یہی پہلا زینہ ہے۔
حسین: حضرت!‌اس خداوند جل وعلا کو نورلانور کیوں‌فرماتے ہیںِ اس کا رمز میں‌نہیں‌سمجھ سکا۔ وہ حضرت رب العزت بے شک نور ہے مگر لانور کیوں؟
شیخ: (برہم ہوکے) وہ نقطہ وحدت اور وہ سر چشمہ تکوین اس سے بالکل منزہ ہے کہ ہم اپنے مادی خیال کے صفات کواس کی جانب منسوب کریں۔ وہ ایسا ہے کہ “لیس کمثلہ شئی“۔
حسین: مگر جب خود اللہ جل شانہ ہی نے ان صفات کواپنی طرف منسوب کرلیا تو ہمیں‌کیا تامل ہوسکتاہے؟
شیخ‌علی وجودی کی برہمی کی اب کوئی انتہا نہ تھی۔ انھوں‌نے اب کے حسین کے غضب آلود اور آتش بار آنکھوں‌سے گھور کے دیکھا اور بولے: “بےشک انسان ظلوم وجہول ہے!یہ تیرے خیال مین نہیں‌آتا کہ ہم بھی محض اسی کے ارشاد کے موجب ان صفات کو اس کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ہم اسے نور کہتے ہیں‌مگر چوں‌کہ ہمارے خیال کے نور سے وہ منزہ ہے،لہٰذہ پھر اسے لانور بھی کہہ دیتے ہیں۔“
حسین: بے شک صحیح‌ ہے؛ اب میرا اطمینان ہوگیا؛اور انشاءاللہ کبھی اپنے افعال پر نہ پچھتاؤں‌گا۔لیکن اُمیدوار ہوں‌کہ اب مجھے وہ سروشستان دکھادیا جائے جہاں‌میری زمرد ان اجرام فلکی کے پہلو میں‌ بیٹھی جلوہ افگنی کررہی ہے۔
شیخ: بہتر۔
یہ کہہ کے شیخ‌نے اٹھ کے اپنا کتابوں کا صندوق کھولا،اس میں‌سے ایک چھوٹی سی کتاب نکالی،پھر اس کے ورق الٹ کے ایک خط نکالا اور اس خط کو حیسن کے ہاتھ میں دےکر کہا: “لے!اس خط کو احتیاط سے رکھ اور اسی وقت روانہ ہوکے شہر اصفہان کی راہ لے۔یاد رکھ کہ اصفہان کے شمالی پھاٹک کے باہر ایک شکستہ اور قریب الانہدام مسجد ہے۔ اس مسجد میں‌ تُو ایک فقیر کو پائے گا جو بظاہر تو بھیک مانگتا ہے مگر باطن میں‌بڑا خدا شناس شخص ہے۔یہ فقیر ہر وقت ایک دنبے کی کھال اوڑھے رہتا ہے اور انکسارًا یہ صدا لگاکے راہ گیروں‌سے مانگتا ہے کہ “دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ“۔ کاظم جنونی|نسخہ مطبوعہ قومی پریس دہلی 1321ھ میں ‌کاظم جنونی کو بعض مقامات پر کاظم جنوبی لکھا گیاہے۔کاظم جنوبی بھی صحیح‌ہوسکتاہے۔ لیکن چوں‌کہ بیشتر مقامات پر جنونی ہے،اس لیے زیر نظر نسخے میں‌لفظ جنونی کو ترجیح‌دی گئی ہےاور ہر جگہ کاظم جنونی لکھا گیاہے۔| اس کا نام ہے۔ یہ خط لے جاکے اُس شخص کے ہاتھ میں‌دے اور میرا سلام کہہ۔ رات کو وہ تجھے ایک غار میں‌لے جائے گا،جہاں‌تو ایک بڑے واقفِ اسرارِسرمدی سے ملے گا اور اسی وقت تو جنت کے مدارج طے کرنا شروع کرے گا اور چند ہی روز کی زندگی میں‌جو زیادہ تر خواب کی سی ہوگی،فردوس بریں کی اعلٰی منازل میں‌جاپہنچے گا۔“
حسین نے یہ خط لے کے شیخ کے ہاتھ کو بوسہ دیا، پھر رخصت ہونے کے طریقے سے اس کے قدم چومے اور اصفہان کے طرف رخ کرکے چل کھڑا ہوا۔اس کا یہ سفر زیادہ اطمینان بخش تھا۔ گناہ کی ندامت و ملامت کے اثر کو شیخ علی وجودی کی تقیریر نے اس کے دل سے بالکل محو کردیا تھا۔ امید و آرزو کا باغ اس کی آنکھوں‌کے سامنے تھااور معلوم ہوتا تھا کہ گویا زمرد آکے ہم کنار ہواہی چاہتی ہے۔الغرض اسی اطمینان اور انھی مسرتوں‌کے ساتھ بغداد ہوتا ہوا اصفہان پہنچا۔شمالی پھاٹک کے باہر مسجد کے دروازے پر متردد کھڑا تھا کہ کان میں آواز آئی“دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ“ فورًا دوڑ کے مسجد میں‌گیا ور شیخ‌کا خط نکال کے کاظم جنونی کے ہاتھ میں‌دے دیا جو دنبے کی کھال اوڑھے بیٹھا زورو شور سے صدائیں لگارہا تھا۔
کاظم جنونی نے حسین کو حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھا اور ایک جوش وحشت کے لہجے میں‌چلا اُٹھا:“حذر! حذر! از اہل عالم حذر!!“ مگر جب خط کو پڑھا تو فورًا اٹھ کے بغل گیر ہوا اور کہا“‌میں‌نہیں‌سمجھا تھا کہ شجر معرفت کی ایک شاخ‌تم بھی ہو۔ آؤ بیٹھو، کھا پی کے آرام لو،رات ہوتوتم کو شیخ الجب|جب غار کو کہتے ہیں۔شیخ الجب سے مراد ہے غار والا شیخ| کے پاس لے چلوں۔ انھوں‌نے غیابتہ الجب|یعنی غار میں‌چھپ جانا| اختیار کرلی ہے۔ دن چوں‌کہ مظہرنور ہے لہٰذہ دن بھر وہ اپنے اوپر انوارلاہوت اکبر کاانعکاس کرتے ہیں‌اور رات چوں‌کے تیرہ وتار اور نمونہء ظلمت ہے لہٰذہ اسی ظلمت میں‌وہ مادی پیکروں سے ایک گونہ علاقہ پیدا کرلیتے ہیں۔“
حسین: مگر معلوم نہیں‌مجھ سے گناہ گاروں اور سیہ کاروں‌سے وہ ملنا بھی پسند کریں‌گے یا نہیں؟
کاظم جنونی: ضرور ملیں‌گے؛شجر معرفت کی ایک شاخ‌تم بھی تو ہو۔
حسین دن بھر اسی مسجد میں‌رہا اور شام کے بعد جب ایک ثلث رات گزر گئی تو کاظم جنونی اسے ساتھ لے کے بیرونی کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔بہت سے نشیب و فراز طے کرکرے اور کئی گھاٹیوں‌سے گزر کے کاظم ایک بڑے غار کے دہانے پر ٹھہر گیا اور زور سے چلّایا: “یاشیخ الجب! ظلمت مادہ میں ایک جگنو چمکا ہے۔“ مگر کچھ جواب نہ ملا۔ پھر کاظم جنونی نے پکار کے کہا: “ایک آئینے سے پردہ اُٹھا جو تجلیات انوار لاہوتی سے منعکس ہونا چاہتا ہے۔“ اب بھی کوئی آواز نہ آئی۔ کاظم جنونی پھر پکارا: “ایک آخشیجی پیکر کا مقید اسرارِسروشستان جاننے کے لیے بے صبر ہے۔“ اس تیسری صدا پر غار کے اندر سے چٹانوں میں‌گونجتی اور اندھیرے میں سنسناتی ہوئی آواز آئی: “مرحبا! جوان آملی مرحبا! جنت کی ایک حور دو سال تیرے سے تیرے فراق میں بے تاب ہے۔ میں‌نے اپنی سیر لاہوتی میں ایک طرف اس حور کو فردوس بریں‌کے کوشکوں‌میں‌روتے اور دوسری طرف تجھے راہ طلب میں قدم مارتے دیکھا ہے۔ اب یہیں‌سے تجھے لذائد سوشستانی حاصل ہونے لگیں‌گے؛آ اور قدرت کے کرشمے دیکھ۔“
اس جملے کے ساتھ ہی غار کی تہ میں‌ایک روشنی نمودار ہوئی اور کاظم جنونی نے حسین سے کہا: “ بس اب آگے میں نہیں‌چل سکتا،مجال نہیں کہ ایک قدم بھی آگے بڑھاؤں۔“
حسین: کیوں؟
کاظم جنونی: اگر یک سرموے برتر پرم
فروغ تجلی بسوز پرم
جاؤ اور یقین جانو کہ تم شجر معرفت کی ایک شاخ‌ہو۔
یہ سنتے ہی حسین نے کاظم جنونی کو اوپر چھوڑا اور خود جوش دل کی بے خودی میں‌امید و آرزو کے خواب دیکھتا ہواغار میں اترا۔ تھوڑی دورتک تو ادھر اُدھر کی چٹانوںسے ٹکریں‌کھاتا رہا مگر جب انتہا پر پہنچ گیا جہاں‌اُسے روشنی نظر آئی تھی تو داہنی طرف ایک زینہ ملا۔اس زینے کے ذریعے وہ اور زیادہ نیچے گیا تو اپنے وہم وگمان کے خلاف اس خوفناک کوہستان اور درندوں کے مسکن کے نیچے ایک نہایت ہی وسیع،عالی شان اور بہت بارونق مکان نظر آیا جس میں‌ہر طرف کافوری شمعیں‌روشن تھیں۔ عود و لوبان سلگ رہا تھا۔ در و دیوار پر طلائی رنگ پھیر کے نقش و نگار بنائے گئے تھے اور انھیں‌ بیل بوٹوں میں رنگین پتھر اور شیشے کے ٹکڑے جڑے تھے۔ جن پر شمعوں‌کا عکس پڑ کے ہر سمت ایک عجب عالم نور پیدا کررہا تھا۔ حسین اس تمام سامان عیش کو دیکھ کے مبہوت و ازخود رفتہ ہوگیا ور ایک بے صبری کے جوش میں‌چلاّ اٹھا“کیا فردوسِ بریں ‌یہی ہے؟“
کہیں‌قریب ہی سے تسلی آمیز لہجے میں‌آواز آئی:‌“ نہیں‌،مگر سروشستان کی سیر کرنے والوں‌کے لیے یہ پہلی منزل ہے جس میں‌ٹھہرا کے وہ اس قابل بنائے جاتے ہیں‌کہ جنت کی مسرتو ں‌کو یکایک دیکھ کے ازخود رفتہ نہ ہوجائیں۔‘
حسین: مگر آُپ کون‌ہیں اور کہاں‌ہیں کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکے شکر گزار ہوں؟
آواز: میں تیرے قریب ہی ہوں۔
ناگہاں‌ایک لاجوردی منقش پردہ جو پہلے دیوار کا دھوکا دے رہا تھا، کھنچ کے نظر سے غائب ہوگیااور ایک معمر مگر قوی الجثہ اور نہایت ہی نورانی صورت کا آدمی نظر آیا جو زرتار مسند پر گاؤ تکیے سے لگا ہوا عجب بے پروائی اور بے نیازی کی شان سے بیٹھاتھا۔اُس کا نورانی چہرہ آئینے کی طرح‌صاف تھا ور اس وقت چاروں طرف سے شمعوں اور نیز در و دیوار کے شیشوں‌کی ضو پڑنے سے آفتاب کی مثل چمک رہا تھا اور سفید لمبی ڈاڑھی مقیش کی جھالر یا آفتاب کی کرنوں‌کا دھوکا دیتی تھی۔
حسین یہ نورانی صورت دیکھتے ہی پروانے کی طرح‌دوڑ کے قدموں‌ پر گرا اور کہا: “ آپ کون ہیں؟ شاید رضوان آپ ہی کا نام ہے؟“
پیر مرد: نہیں‌، ابھی تُو اس تیرہ خاک دان عنصری ہی کی حدود میں‌ہے۔ مگر ہاں‌تیری آنکھوں‌پر سے پہلا پردہ اُٹھا ہے۔ اہل دنیا مجھے شیخ الجب کہتے ہیں‌ مگر اہل حقیقت کی اصطلاح‌میں‌طور معنی کہلاتا ہوں۔
حسین: (حیرت سے)طور معنی! حقیقت میں‌یہ نور ہوگا جو موسٰی کو طور پر نظر آیا تھا۔
طور معنی: مگر تُو اسے ستر ہزار حجابوں‌ کے اندر سے دیکھ رہا ہے۔
حسین: للہ وہ سب پردے بھی اُٹھا دیجیے۔
طور معنی: ابھی ان مادی کثیف آنکھوں‌میں‌اس کی قابلیت نہیں، مگر صبر کر،اسی کا سامان ہورہا ہے اور یہ سب پردے اُٹھ جائیں‌گے۔
یکایک ایک خوبصورت نوعمر لڑکے نے آکے ایک شربت کا لبریز جام طور معنی کے ہاتھ میں دیا اور طور معنی نے اُسے اپنے ہاتھ سے حسین کی طرف بڑھا کے کہا:“ لے اس جام کو پی اور ملکوت سے ایک درجہ اور قریب ہوجا۔“ حسین نے فورًا وہ جام پی لیا جس کے ساتھ ہی اس کا دماغ چکر کھانے لگا اور وہ طور معنی کے سامنے لیٹ کے غافل سو گیا۔
اس غفلت اور ازخود رفتگی کی نیند میں‌کئی دفعہ اس کی آنکھ کھلی اور ہر مرتبہ وہ اپنے آپ کو ایک نئے مقام میں‌پاتا تھا۔ کبھی سرسبز و شاداب میدانوں‌میں‌ہوتا اور کبھی وحشت ناک اور پُرخطر گھاٹیوں‌میں‌۔ ہر بیداری میں فرشتے یا انسان تھے مگر کسی غیر معمولی قسم کے لوگ اسے سروشستان سے اور زیادہ قریب ہونے کا یقین دلاتے اور وہ یقین کر لیتا۔آخر ایک مرتبہ اس کی آنکھ کھلی تو اوہ ایک نئے جوان شخص کے سامنے تھا۔ یہ شخص حریر سرخ‌کے کپڑے پہنے تھا جس پر سنہرا کام تھا۔ اسکے سر پر نہایت ہی قیمتی اور بیش قیمت تاج تھا اور اس میں‌اعلٰی درجے کے جواہرات ٹکے ہوئے تھے۔حسین کی آنکھ جیسے ہی اس خوبصورت نوجوان کے سامنے کھلی جو شاہانہ لباس پہنے اور مرصع تاج سر پر رکھے تھا،نہایت ہی التجا اور عاجزی کے لہجے میں‌کہنے لگا: “ امید و انتظار نے بے صبر کردیا ہے۔“
شخص: ‌اے جسم خاکی! تو مراحل تجرد کو طے کرچکا۔تجھے نہیں‌خبر کہ تو‌آسمان کے قریب اور فردوس بریں‌کے دروازے پر ہے۔ اب نہ گھبرا؛ملائکہ مقربین تیرے انتطار میں ہیں‌اور حوریں‌تیرے لیے بناؤ سنگار کررہی ہیں۔
حسین: اور آپ کون‌ہیں؟
شخص: میں‌وہ برزخ ہوں جو لاہوت و ناسوت میں واسطہ ہے۔ یہی میرا جسم ہے جو کبھی نور بن کے طور سینا پر چمکا تھا۔ یہی وہ نور ہے جو مسیح کے جسم سے خدائی کی شان دکھاتا رہا تھا اور مُردوں‌میں‌زندگی کی چراح روشن کردیتا تھا۔ یہی وہ نور ہے جو ازراق مجرد کی شان سے رسول آخر الزمان(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سینے میں چمکا اور یہی وہ نور ہے جو امامت کی مشعل روشن کرکے معصوم جسدوں‌کو بدلتا رہا۔
حسین: تو آپ ہی جبرئیل ہیں؟
شخص: جبرئیل بھی‌میرے ہی تنوعات کی ایک چھوٹی سی شمع ہے۔
حسین: شایدآپ ہی وہ حی لایموت ہیں؟
شخص: حی لایموت نہیں، حی لاحی۔ مگر اس تشخص‌کے ساتھ میں یہ دعوٰی نہیں کرسکتا ، گویہ ضرور کہوں‌ گا کہ
“انا خالق الارواح،انافائق الاصباح“|میں‌ہی پیدا کرنے والا ہوں‌روحوں کا اور میں‌ہی چاک کرنے والا(دامان) سحر کا ہوں۔|
لیکن اس وقت تو ایک پیکر متحیز میں‌ہوں‌اور وہ امام بن کے نمودار ہوا ہوں جس پر ایمان لانا ہر مکلف پر فرض ہے۔
حسین: (ہاتھ سے ہاتھ ملاکے) تو میں‌بھی آپ کی امامت اور اس مظہر نقطہءوحدت کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔
شخص: حسین سن! تو منرل مقصود کو پہنچ گیا ۔ مدارجِ صعود طے ہوگئے اور عنقریب اُ س پر شوق آغوش میں‌ہوگا جو دوسال سے تیرے لیے کھلا ہوا ہے۔اگرچہ اب کوئی دنیاوی عبادت تجھ پر فرض‌نہیں۔تاہم ارضی کثافت کا باقی ماندہ اثر دل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سروشستان کے پھاٹک پر تین دن تک بیٹھ کے تو ایک مختصر سی عبادت کرے۔ لیکن شبانہ روز تیری زبان سے صرف یہ ہی کلمہ نکلنا چاہیے کہ“ یا مرکز النور اغرقی فی بحار انوارک“|اے مرکز نور! مجھے اپنے نوروں‌کے سمندر میں‌غرق کر!| مگر شرط یہ ہے کہ چاہے کچھ کھالے مگر ان تین دن میں‌پانی کا کوئی قطرہ تیرے حلق سے نہ اترے۔
اتنا کہہ کے تاجدار شخص چند روٹیاں‌چھوڑ کے چلا گیا اور اس کے جاتے ہی مکان کے سب دروازے یکایک اور ایک ساتھ بند ہوگئے۔حسین پہلے تو یہ حالت اور اپنی تنہائی دیکھ کے گھبرایا مگر فورّا اس کے آخری مرشد و امام کی نصیحت یاد آئی اور ریاضت و وظیفے میں مشغول ہوگیا۔ علی الاتصال ایک ہی جملہ کہتے رہنے اور پھر پانی نہ پینے کا ہہ نتیجہ نکلا کہ تیسرے روز پیاس نے مجنوں بنا دیاتھا۔ہونٹوں سے لے کے سینے تک سارا گلا خشک تھا اور سوا سائیں‌سائیں‌کے کوئی آواز نہ نکلتی تھی،مگر زمرد کے شوق میں‌وظیفے سے زبان نہ رکی اور اسی استقلال اور خود فراموشی سے دعا پڑھے جاتا تھا۔
تیسرے روز حسین زبان حال سے العطش پکار رہا تھا کہ وہ تاج دار نوجوان شاہانہ لباس پہنے ہوئے آیا اور کہا: “ لے! اب سفر جنت کے لیے تیار ہو۔ تیری ریاضت پوری ہوئی، تُو نے سب مراحلِ یقین طے کر لیے اور کوئی چیز نہیں‌باقی رہی جو اس راہ میں تیری مزاحم ہو۔مگر ہاں تو پیاسا ہے،ذرا اپنے آپ کو تازہ دم کرلے۔“اس شخص کی زبان سے یہ جملہ پوری طرح نکلنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک نہایت ہی حسین و نازنین عورت ایک سونے کا مرصع جام ہاتھ میں لیے جو ایک خاص قسم کے لطیف و خوش رنگ شربت سے ملبب تھا، حاضر ہوئی؛اس شخص نے جام کو اس حسینہ کے ہاتھ سے لے کر حسین کی طرف بڑہایا اور کہا: “ لے یہی وہ شراب طہور ہے جس کے دور فردوس بریں‌میں‌ ہمیشہ چلتے رہتے ہیں۔اس کے پینے سے تیری پیاس،ماندگی،تھکن اورجملہ بدمزگیاں‌جاتی رہیں‌گی اورتو نہایت ہی نورانی و روحانی سرور کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا۔“
حسین نے فورًا وہ جام لے کے منہ سے لگا لیا اور پیاس کی ایسی شدت تھی کہ دو ہی تین گھونٹ‌میں‌اُتار گیا۔ایک لحظہ نہ گزرا ہوگا کہ اُسے اپنے سر میں ایک گرانی سے معلوم ہونے لگی جس کے ساتھ ہی خمار آلود آنکھیں‌چھپک جھپک کے بند ہوگئیں۔وہ بے ہوش تھا اور بے ہوش بھی ایسا کہ سرو پا کی خبر نہ تھی۔
 

دوست

محفلین
باب نمبر 4 فردوس بریں

فردوس بریں​
حسین کو نہیں‌خبر کہ یہ غفلت کتنی دی تلک اُس پر طاری رہی،لیکن مدہوشی تھوڑی تھوڑی کم ہوئی تھی اور نشہء غفلت اُترنا شروع ہوا تھاکہ ایک نہایت ہی دل کش اور وجد پیدا کرنے والے نغمے کی آواز کان میں آئی اور ایسا معلوم ہوا کہ گویا دل فریب و دلربا پری پیکروں‌کا ایک طائفہ عجیب و غریب اور انتہا سے زیادہ پر لطف باجوں‌اور مزامیر کے ساتھ اپنے نور کے گلوں سے ولولہ خیزی اور بہار کی مسرت انگیز دھن میں‌یہ ترانہ مبارکباد گارہا ہے کہ “سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین“۔ ایک جوش مسرت کی بے اختیاری سے اس نے گھبرا کے آنکھیں کھول دیں۔ ہر طرف ایسا سماں‌نظر آیا کہ جدھر نظر جاتی ہے “ کرشمہ دامن دل میکشد کہ جاایں جاست“۔
حسین نے اس وقت اپنے آُ پکو اس حالت میں‌پایا کہ ایک طلاکار اور مرصع کشتی میں سوار ہے اور نازک بدن پری جمال لڑکوں کی کوشش سے وہ کشتی ایک پتلی مگر بہت ہی دل کش نہر کے کنارے ابھی ابھی آکے ٹھہری ہے۔ نرم اور نظر فریب سبزے کو شفاف اور پاک و صاف پانی اپنی روانی میں چومتا ہوا نکلا جاتاہے۔ بعض مقامات پر گنجان اور سایہ دار درخت ہیں‌جو پیچیدہ اور خم دار زلفوں‌کی طرح‌نہر کی گوری مگرخم آلود پیشانی پر دونوں‌طرف سے جھک پڑے ہیں مگر جہاں پر کشتی آکے کنارے لگی ہے وہاں‌ایک کشادہ مرغزار ہے۔ ان خوبصورت ملاحوں‌کے کہنے کے بموجب وہ کشتی سے اتر کے سبزہ زار کی سیرکرنے لگا۔ وہاں جاکے دیکھا تو اور حیرت ہوئی۔ پانی کے پاس ہی سبزے کا ایک پتلا اور برابر حاشیہ چھوڑ کے شگفتہ اور خوش رنگ پھولوں‌کا سلسلہ شروع ہوگیاہے جو نہر کے دونوں‌جانب حد نظر تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ اگرچہ پھولوں‌میں‌شادابی و خوش رنگی کی وہی شان ہے جو صرف خودرو پھولوں‌میں‌نظر آتی ہے مگر اس قدرتی بہار کےساتھ یہ لطف بھی ہے کہ نہایت ہی لیاقت بلکہ بظاہر مافوق‌العادت ہوشیاری و دانائی سے چمن بندی کی گئی ہے۔ چمنوں‌کی بعض‌قطاریں تو ایسی ہیں‌ جن میں‌ایک ہی قسم اور ایک ہی رنگ کے پھول ہیں‌اور معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک ہی قوم اورایک ہی وردی کی فوج مختلف کمپنیوں پر تقسیم ہوتی حد نظر تک چلی گئی ہے۔ مگر اکثر چمن ایسے ہیں‌ جن میں‌مختلف رنگ کے پھولوں‌کو ترتیب دے کے زمین پر ایسی ایسی گلکاریاں‌کی گئی ہیں‌کہ عقل انسانی حیرت میں آجاتی ہے۔ سارا مرغزار اور ساری وادی جو کوسوں‌تک پھیلی ہوئی ہے اور جسے خوب صورت ،متوازی اور سرسبز و شاداب پہاڑوں‌نے اپنے حلقے میں‌کرلیا ہے، ازسرتاپا ان ہی چمنو‌ں‌اور پھولوں سے بھری ہے۔ اور مختلف نہریں‌جو آبشاروں‌کی شان سے اور پانی کی چادریں‌بن بن کے پہاڑوں‌سے اتری ہیں اور انھی ہی چمنوں‌اور پھولوں‌کے درمیان‌میں‌جابجا بہ رہی ہیں۔ اور ان کے پانی نے خواہ پھولوں‌کو خوش بو سے متاثر ہوکے یا کسی اور وجہ سے گلاب اور کیوڑے کی شان پیدا کرلی ہے۔ یہ نہریں‌زبان حال سے پکار پکار کے کہہ رہی ہیں‌کہ ہم ہی تسنیم و سلسبیل ہیں۔ راستوں‌اور روشوں کی ترتیب میں‌یہ معجز نما کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ ہر چمن کے ایک پہلو کو نہر دھوتی ہے تو اس کے دوسرے پہلو کو ایک چھوٹی سی خوش نما سڑک اپنے آغوش میں‌لیتی ہے۔یہ سڑکیں‌چمن سے بھی زیادہ کمال صناعی دکھارہی ہیں۔ مختلف قسم اور مختلف رنگ کے سنگریزوں سے ان سڑکوں‌کی تعمیر میں‌کام لیا گیا ہےاور ہر سڑک پر ایک خاص رنگ کے سنگ ریزے بچھا کے کوئی سڑک فیروزے کی،کوئی زمرد کی،کوئی یاقوت کی اور کوئی نیلم کی بنا دی گئی ہے۔ پھر ترتیب میں‌یہ لطف ہے کہ جس رنگ کے پھولوں کا چمن ہے اسی کے مناسب و موزوں رنگ کی پتلی خوش نما سڑک اس کے پہلو سے گزری ہے۔ نغمہ سجن طیور ان چمنوں‌میں‌اڑتے پھرتے ہیں،پھولوں‌کے قریب بیٹھ بیٹھ کے عشق و محبت کی داستان سناتے ہیں اور خدا جانے کس کمال استادی سے تعلیم دی گئی ہے کہ اکثر آنے جانے والے جہاں‌دیگر اطراف سے پری پیکروں کے نوران گلوں‌سے خیر مقدم کا ترانہ سنتے ہیں،وہاں‌اس نغمہ سنج طیور کا بینڈ بھی اپنے قدرتی ارغنون سے یہی کلمہء خیر مقدم سناتا ہے کہ “ سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین“۔
حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ ان ہی چمنوں‌میں‌جابہ جا نہروں‌کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑون کا فرش ہے۔ لوگ پر تکلف اور طلائی گاؤ تکیوں‌سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں‌کو پہلو میں‌لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔خوب صورت خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں‌تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں‌اور کہیں‌ نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں‌سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں‌سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔پھل ہی نہیں ، یہ خوش نما طیور کپڑوں‌میں‌لپٹے کبابوں‌کی پوٹلیاں‌بھی لاتے ہیں اور ان لوگوں‌کے لیے مے کشی و شاہد پرستی کا پورا سامان فرام کردیتے ہیں۔ سب سے زیادہ جس چیز نے حسین کو متوجہ کیا وہ یہ بات تھی کہ یہ سب لوگ بے غل و غش نہایت بے فکری و اطمینان سے ان لذتوں‌کے مزے لوٹ رہے تھےاور خبر بھی نہ ہوتی تھی کہ پاس سے کون گزرتاہےاور انھیں‌کس نظر سے دیکھتا ہے۔ نہ کسی کو کسی سے حسد تھا اور نہ کسی کو کسی لطف کے چھپانے کی ضرورت تھی:
بہشت آنجا کے آزارے نباشد
کسے را با کسے کارے نباشد
یہ عالم دیکھ کے حسین کے کےدل میں‌ایک جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ اس نے کسی قدر بلند آواز میں‌ کہا: “ بے شک فردوس بریں‌یہی ہے ! یہیں‌آکے نیکوں‌کاروں اور ایمان داروں کو اپنے اعمال نیک کا صلہ ملتا ہے۔ مگر افسوس! اے زمردتو کہاں ۔۔۔۔۔؟“ یہ جملہ ناتمام ہی تھا کہ پاس کے چمن کے پھولوں‌کے نیچے سے ایک شیریں‌ ودلکش آواز میں‌کسی نے کہا: “‌تو ابھی جنت کے چمنوں‌ہی کو دیکھ رہا ہے، ذرا محلوں اور قصروں‌کو بھی نظر اُ‌ٹھا کے دیکھ!“ پہلو سے تو اس نے یہ آواز سنی اور سامنے سے ایک نہایت ہی نازک اندام اور قیامت خرام نازنین نے آکے گلے میں‌بانہیں ڈال دیں اور مسکرا کے کہا:“میں‌بھی تیرے لیے ہوں۔“ حسین ذرا جھجک کے اس سے علیحدہ ہوا اور غور سے اس کو صورت دیکھ کے کہا:“مگر میں‌پیاری زمرد کے سوا کسی کو نہیں‌چاہتا؛بتاؤ وہ کہاں‌ہے؟“
نازنین: وہ بھی مل جائیں‌گی۔ آُ پ کی خوشی کا پیمانہ تنگ ہے۔ ذرا ان سرمدی مسرتوں‌سے نگاہ اور دل آشنا ہولیں‌تو اُن سے ملیےگا۔وہ جو سامنے موتی کا قصر ہے، آپ ہی کے لیے ہے اورزمرد اسی میں‌ ہے۔
حسین نے نظر اٹھا کے اس رفیع‌الشان قصر کو دیکھا اور اس کے ساتھ ہی اس کی نظر دیگر عمارتوں‌پر بھی جاپڑی اور اُسے نظر آٰیا کہ یہ عمارتیں باغوں‌سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہیں۔ بعض بالکل سونے کی،بعض‌چاندی کی،بعض‌مونگے کی اور بعض‌موتیوں‌کی نظر آتی ہیں۔ یہ تمام مکانات جو حسب حیثیت محل، قصر اور کوشک کے لفظ سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔مذکورہ اشیا کے علاوہ ان میں‌کوئی فیروزے کا،کوئی زمرد کا،کوئی یاقوت کااور کوئی ہیرے کا ہے۔ موتی کے محل جن میں‌سے ایک خاص حسین کے لیے ہے،کچھ ایسے آب دار رنگ میں‌رنگے ہوئے ہیں کہ نیچے سے اوپر تک ایک ہی موتی میں ترشے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں‌جابجا صدف صادق کے جھلکتے ہوئے ٹکڑے جڑے ہیں۔تمام محلوں‌پر علاوہ اس رنگ کے جس کی طرف وہ محل منسوب ہیں، ہر در و دیوار کے گرد بلور اور شیشے کے ٹکڑوں‌کا حاشیہ بنا ہواہے اور ان شیشیوں‌کے نیچے ڈاک دی ہوئی ہے۔ یہ آئینے دن کو آفتاب کی ضو میں‌اور رات کو ہزارہا کافوری شمعوں کی روشنی میں‌اس قدر جگمگا اٹھتے ہیں‌کہ تیز سے تیز نگاہ خیرگی کرنے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ ان ہی دیواروں‌میں‌اندر باہر جواہرات بھی جڑے ہیں‌جو اپنی کرنیں‌چمکا چمکا کے ایک عجیب لطف پیدا کرتے ہیں۔ بہر تقدیر اس مجموعی سامان ، سنہرے،روپہلے اور رنگ برنگ قصروں، ان کے آئینوں‌اور جواہرات نے ہر چہار طرف ایک ایسی نور کی کیفیت پیدا کررکھی ہےکہ نظر پڑتے ہی انسان کے دل میں ایک جوش اور ولولہ پیدا ہوجاتاہے۔
حسین ان محلوں‌کو دیکھ کے ذرا تھوڑی دیر تک تو مبہوت کھڑا رہا مگر ہوش آتے ہی اس خاص‌محل کی طرف دوڑا جس کی نسبت اس پری پیکر حور کی زبانی سنا تھا کہ خاص اس کے لیے ہےاور جس میں پیاری زمرد کے ملنے کی امید تھی۔اب اس کے جذبات دلی اور اس جوش و خروش سے زمرد کی طرف متوجہ تھے کہ اس نے کسی چیز کیطرف نظر نہ اٹھائی، نہ کس سامان عشرت کو دیکھا اور سیدھا اس قصر دُری کے دروازے پر جاپہنچا۔ زمرد بھی استقبال کے لیے محل سے باہر نکل آئی تھی اور ایک غیر معمولی مگر نہایت دل ربا وضع سے بال کھولے اور زلفوں‌کو شانوں‌اورپیٹھ پر بکھرائے کھڑی تھی۔ آنکھیں‌دوچار ہونا تھیں کہ بے اختیاری جوش میں‌ایک دوسرے کا نام نکلا اور دوڑ‌کے لپٹ‌گئے۔ حسین تومحو حیرت تھا ہی،زمرد کے چہرے سے بھی ایک غیر معمولی مسرت و جوش اور کسی قدر حیرت کے آثار نمایاں‌تھے۔ دیر تک دونوں‌لپٹے رہے اور حسین دل کی پرجوش حرکت سے بے اختیار ہوکے رونے لگا۔ اس کی سانس سے رونے کا پتا پا کے زمرد نے اپنے آُپ کو علیحدہ کیا اور کہا: “ حسین یہاں‌رونا حرام ہے،بس اب آنسو پونچھ ڈالو۔“
حسین: (آنسو پونچھ کے)زمرد! یہی فردوس بریں‌ہے؟
زمرد“ یہی!
حسین: تم یہاں‌چلی آئیں‌اور مجھے اسی درد و الم میں چھوڑ دیا؟
زمرد: یہ میرے اختیار کی بات تھی؟ مجھے تو ایک اتفاقی شہادت نے یہاں‌پہنچا دیا مگر تمہاری زندگی باقی تھی اور ضرور تھا کہ اتنے مدارج وہ مراحل طے کرکےیہاں‌آؤ۔ مگر سچ کہتی ہوں‌کہ اس جنت میں بھی تمھارے فراق نے کبھی چین نہ لینے دیا۔ کیا کہوں‌کن دشواریوں‌ سے مجھے اتنی اجازت ملی ہےکہ تمھیں‌اپنے پاس آنے کا راستہ اور طریقہ بتاؤں۔
حسین: میرے تو ایسے اعمال تھے کہ شاید مرکے بھی یہاں‌نہ پہنچ سکتا؛ صرف تمھاری محبت تھی جو خضرِطریقت بن کے لائی۔
زمرد: لیکن اگر تمھارے دل میں‌طلب صادق نہ ہوتی تو میں کیا کرسکتی تھی؟
حسین:‌مگر اس طلب سے یہ تھوڑا ہی ممکن تھا کہ میں اس ملاءاعلٰی میں آپہنچتا۔میں‌تو دل میں‌ٹھان چکا تھا کہ اس قبر کے پاس اور اس چٹان کے سامنے جس پر تمھار پیارا نام کندہ ہے، پڑے پڑے دم توڑ دوں‌گا۔
زمرد: خیر یہ باتیں‌تو ہوتی ہی رہیں‌گی،اب اندر چل کے آرام سے بیٹھو، شراب طہور کے دو ایک جام پیو اور دیکھو اس خداوند جل و علا نے تمھارے لیے کیسے کیسے سامان راحت اور کیسی کیسی لذتیں فراہم کر رکھی ہیں۔۔
یہ کہہ کے زمرد حسین کو اندر لے گئی۔
جس وقت حسین نہرکے کنارے کشتی سے اُترا ہے۔ سرشام کا وقت تھا، مگر اب رات ہوگئی تھی۔ ہر طرف کافوری شمعیں‌روشن ہوئیں اور ایک خاص قسم کی ٹھنڈی روشنی جسکا پتا نہ چلتا تھا کہ کہا‌ں سے آتی ہے اور کیوں‌کر پیدا ہوتی ہے،دروازوں،بلند کھڑکیوں‌اور چھت کے روشن دانوں‌سے رہ رہ کے چمک اُٹھتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا یکایک ہرازہا مہتابیں‌چھوڑ دی گئیں۔اس تیز روشنی میں شمعیں‌ماند پڑجاتی تھیں اور پیارے ہم صحبتوں‌کا چہرہ ایک دوسرے کو زیادہ بھلا اور دل فریب نظر آنے لگتا تھا۔ اس غیبی روشنی کو حسین نے حیرت سے دیکھا اور دریافت کرنے کے لیے کہ یہ کیسی روشنی ہے،وہ باربار دروازے سے جھانک کے باہر دیکھتا مگر کچھ حال نہ کھلا؛صرف اتنا معلوم ہواکہ اس روشنی کا مرکز و منشا گرد کی پہاڑیوں‌کی چوٹیوں‌پر ہے، جہاں‌وہ زیادہ چمکتی ہے اور وہیں‌سے اس کی کرنیں آ کے تمام مکانات کو روشن کر دیتی ہیں۔ ایک یہ بات بھی اس نے دیکھی کہ یہ روشنی جب پوری تیزی اور کمال پر آجاتی تو چاروں‌طرف سے لوگ چلاّ اٹھتے: “ ہٰذا الذی ما وعدی ربی“ بلکہ سب کے ساتھ ایک بے اختیاری کے جوش میں‌ یہی کلمہ خود حسین کی زبان سےبھی کئی بار نکل گیا۔ جب اس روشنی کا راز حسین کے حل کیے حل نہ ہوسکا تو اس نے زمرد سے پوچھا“یہ کیسی روشنی ہے؟“۔
زمرد: تم نے نہیں‌پہچاناِ یہی تو وہ نور الٰہی ہے جو موسٰی کو وادیِ ایمن میں‌نظر آیا تھا۔ تم نے قرآن و احادیث میں‌پڑھا ہے کہ جنت میں‌خدا کا دیدار ہوگا،اُس سے یہی نور عبارت ہے۔
حسین: تو یہی خداوند جل و علا ہے؟
زمرد: یہ تو نہیں‌کہہ سکتے مگر ہاں‌اس کے تنوع اولٰی کی سب سے زیادہ مکمل اور سچی تصویر یہی ہے۔
یہ جواب سن کے حسین اس نور کے سامنے سجدے مین گر پڑا مگر زمرد نےاُٹھایا اور کہا: “ یہاں‌عبادت کی تکلیف نہیں؛یہ نور صرف اس غرض‌سے ہے کہ لوگوں‌کے دل میں اطمینان کی مسرت پیداہو۔“
اب حسین نے مکان کے فرش اورتمام سامان کو دیکھااور اُسے یقین ہوگیا کہ یہ سب نوری سامان ہے جو دنیا میں‌نہ کبھی انسان کے دل میں گزرا ہے اورنہ کسی کے قیاس و گمان میں آسکتاہے۔زمرد اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیے یہاں‌کی تمام عجوبہ چیزیں اُسے دکھاتی پھرتی تھی،اور ہر چیز پر وہ خدائےذوالجلال والاکرام کی قدرت و مرحمت کا جوش و خروش سے اعتراف کرتا۔اورآخر پھرتے پھرتے ایک مقام پر رک کے وہ نہایت گرم جوشی کے ساتھ زمرد سے لپٹ گیا اور کہا: “ یہ سب لطف اور یہ سارے سامان عیش ہیں‌مگر زمرد میرے لیے کوئی تجھ سے بڑی نعمت نہیں ہوسکتی۔“
زمرد: یہی محبت تمھیں‌یہاں‌لائی ہے،ورنہ یہ وہ مقام ہے جہاں‌کسی زندہ انسان کا بہت کم گزر ہوا ہے۔یہ تمھاری بڑی فصیلت ہے کہ اس جسم خاکی کے استھ اس نورستان میں آ پہنچے۔
حسین کو جنت میں پھرتے اور زمرد کے حسن و جمال سے فائدہ اٹھاتے ایک پورا ہفتہ گزر گیا اور یہ ہفتہ اس حالت میں‌ گزرا کہ دل کش اور نشاط انگیز نغموں‌کی آواز اکثر کانوں‌میں‌گونجتی رہتی،اور بہت سی حوریں‌اس کی خدمت کو حاضر تھیں اور سب پری جمال و زاہد فریب تھیں، مگر اُسے زمرد کے سوا کسی سے کچھ علاقہ نہ تھا۔ ہر وقت زمرد کی بغل میں ہاتھ رہتا اور دونوں‌ہمیشہ فرحت بخش وادیوں اور روح افزا مرغزاروں‌میں‌ٹہلتے رہتے۔ زمرد نے اتنے ہی زمانے میں اسے یہاں‌کی تمام نزہت گاہیں‌اور سب دل چسپ مقامات دکھادیے۔ ایک مرتبہ حسین نے کہا: “ زمرد!میں‌تو سنتا تھا کہ جنت میں‌ہمیشہ صبح‌کا وقت رہتا ہے مگر آکے دیکھا تو یہاں‌بھی وہی دنیا کے سے تغیرات زمانہ موجود ہیں۔؟“
زمرد:‌اس امر میں‌لوگوں‌سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر وقت صبح‌رہتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں‌کہ اور کسی وقت کا لطف انسان‌اٹھا سکتا ہی نہیں ایسا ہوتو جنت سے ایک بڑالطف اٹھ جائے اصل مطلب یہ ہے کہ یہاں‌ہر وقت کوئی ایسا مقام ضرور مل جائے گا جہاں‌انسان جس وقت کا چاہے لطف اٹھالے۔
حسین: یہ کیوں‌کر؟
زمرد: زبان سے کہنے کی نہیں، میں چل کے تمھیں‌آنکھوں‌سے دکھائے دیتی ہوں۔
یہ کہہ کے زمرد اسے ساتھ لیے ہوئی قصردُری سے باہر نکلی اور کہا: “ دیکھو‌ یہاں‌دوپر کا سماں، اب آگے چلو۔
تھوڑی دیر بعد دونوں ایک ایسے درختوں‌سے گھرے ہوئے سبزہ زار میں پہنچے جہاں‌ آفتاب کی روشنی کو درخت روکے تھے۔ہر طرف سے اندھیرا جھکا ہوا تھا اور مشرق قلہ ہائے کوہ سے ایک ہلکی ہلکی روشنی نمودار تھی۔ زمرد یہاں ‌پہنچ کے بولی: “ دیکھو یہ صبح کا وقت ہے؛ ہے نا؟“
حسین:‌بے شک ہے۔
زمرد: آگے چلو۔
یہاں‌سے روانہ ہوکے تھوڑی دیر میں‌دونوں‌ایک ایسی چھوٹی سے وادی میں‌ پہنچے جو ہر طرف سے پہاڑیوں‌میں‌گھری ہوئی تھی۔ یہاں‌بھی درختوں‌نے حفیف تاریکی پیدا کردی تھی اورذرا فاصلے کے مقامات پر ہلکا ہلکا دھواں‌اُٹھتا نظر آرہا تھا؛ کہیں‌کہیں‌چراغ جلنے لگے تھے؛طیور کے چہچہانے کا شور بلند تھا۔ اور مغرب کے قلے پر آفتاب غروب ہونے کی سی شعاع نظر آرہی تھی۔ زمرد نے یہاں‌رک کے کہا“ اور یہ شام ہوئی۔“
حسین: اس میں‌کسے شک ہوسکتا ہے!
زمرد : دن کا سماں دیکھ چکے،صبح دیکھ چکے اور شام بھی دیکھ لی؛ صرف رات کالطف باقی ہے، چلو وہ بھی دکھائے دیتی ہوں۔
یہاں سے واپس آکے زمرد حیسن کو لیے ہوئے ایک پہاڑ‌کے غار میں‌داخل ہوئی جہاں‌نہایت خوبی سے ایک نشیبی راستہ بنا ہوا تھا۔ زینے نہ تھے بلکہ زمین جو پختہ،مسطح اور رنگ برنگ تھی، ساعت بہ ساعت نیچی ہوتی جاتی تھی۔ اسی زمین دوز راستے میں جاتے جاتے دونوں‌ایک نہایت ہی عالی شان اور پر تکلف قصر میں پہنچے جس میں‌ہر جگہ کافوری شمعیں‌روشن تھیں۔ جھاڑ اور فانوس کثرت سے لٹک رہے تھےاور درودیوار پر بلور اورشیشیے کے رنگ برنگ ٹکڑوں‌کو ان شمعوں‌کی شعاعیں‌کچھ ایسی عجیب و غیرب روشنی سے چمکارہی تھیں کہ نظر خیرہ ہوئی جاتی تھی۔
زمرد: دیکھو یہ رات ہے اور کیسی پیاری رات!
حسین: پیاری زمرد! اگر تو ساتھ ہوتو ہر چیز پیاری ہے۔
یہ سب سامان دیکھ کے دونوں‌اپنے قصر میں واپس آئے اور باہم عشق و محبت کی باتیں کرنے لگے، مگر پیشتر کے برخلاف زمرد اکسی قدر افسردہ سی تھی۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہواتا تھا کہ گو زبردستی کوشش کرکرے چہرے کو بشاش بناتی ہے مگر اندر سے دل بیٹھا جاتا ہے۔حسین نے اس امر کو حیرت سے دیکھا ور کہا: “ زمرد! اس فردوس بریں‌میں‌بھی آج تم مجھے ملول نظر آتی ہو؟“
زمرد: نہیں، مگر ہاں! گزشتہ مفارقت کسی کسی وقت یار آجاتی ہےتو خواہ مخواہ دل بھر آتا ہے۔
حسین: مگر خدا نے وہ مصیبت کاٹ دی اور اب امید ہے کہ ہم دونوں‌ہمیشہ یوں‌ہی ایک دوسرے کے وصل سے لطف اٹھاتے رہیں‌گے۔
زرمد:‌خرا کرے ایسا ہو، مگر حسین ابھی مجھے اس کی امید نہیں۔
حسین: (حیرت سے) امید نہیں؟ یہ جنت ہے جس کے لطف سرمدی وابدی ہیں۔یہاں‌کسی دشمن کا اندیشہ ہوسکتا ہے،نہ کسی حاسد کا حسد۔ پھر ناامیدی و حسرت نصیبی کا کیاسبب؟“ ولاتقنطوا من رحمۃ اللہ۔“
زمرد: بے شک، مگر حسین تم یہاں‌قبل از وقت آئے ہواور ابدی اور سرمدی لطف اُ ٹھانے کے لیے وہی لوگ آتے ہیں جو مرنے کے بعد دنیا سے قطع تعلق کرکے آئیں۔تم نےابھی اسی مادی دنیا کے علائق قطع نہیں کیےاور اُ‌س مادی جسم کو ساتھ لائے ہو جس کو وہیں دنیا میں چھوڑنے کے لے تمھیں‌ایک دفعہ اس عالم میں‌ضرور جاناہے۔ دیکھوحضرت مسیح (ع) یہاں‌زندہ آئے اوراب تک ہیں‌مگر انھیں کبھی کسی لطف میں‌پوا مزہ نہیں‌آتا،اس لیے کہ جانتے ہیں‌یہ قفس عنصری چھوڑنے کےیے ایک مرتبہ دنیا میں پھر جانا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کثافت مادہ اس نورستان میں‌رہ ہی نہیں‌سکتی۔
حسین: افسوس! پھر میں‌کب جاؤں گا؟
زمرد: جب حکم ہوجائے، مگر مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جلدی جانا پڑے گا، اس لیے کہ وہاں‌کی کئی شدید ضرورتیں تمھیں‌بلا رہی ہیں۔
حسین یہ سن کے آبدیدہ ہوگیا اور نہیات ہی جوش دل سے ایک آہ سرد کھینچ کے بولا: “ آہ! روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد! مجھے تو ابھی تیرے وصال کابھی لطف نہیں‌حاصل ہوا۔ مگر زمرد مجھ سے تو اب نہ جایا جائے گا۔ اب اس وقت سے میں ہر وقت تیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے رہوں‌گا تاکہ کوئی مجھے تجھ سے جدا نہ کردے۔“ یہ سن کے زمرد بھی آبدیدیہ ہوگئی اور بولی: “ حسین! یہ امر تمھارے اختیار سے باہر ہے۔ جب وقت آئے گا خبر بھی نہ ہوگی، اور ادنٰی غنودگی تمھیں‌وہاں‌پہنچا دے گی۔“
حسین: (روکر) پھراب تو مجھ سے تمھارے فراق کی مصیبت برداشت نہ کی جائے گی۔ جاتے ہی اپنے آپ کو ہلاک کرڈالوں گا اور تم سے چھوٹے ایک گھڑی بھی نہ گزری ہوگی کہ تمھارے پاس آپہنچوں‌گا۔
زمرد: کہیں ایسا غضب بھی نہ کرنا۔ خود کشی کر لی تو جنت تم پر حرام ہوجائے گی۔ پھر تو قیامت تک بھی ملنے کی امید نہ رہے گی۔
حسین: ( زور سے سینے پر ہاتھ مار کے)‌ہائے مجھ سے کیوں‌کر زندہ رہاجائے ا۔ زمرد! خدا کے لیےکوئی تدبیر بتا ورنہ یہ سمجھ لے کہ ہمیشہ کے لیے مایوسی ہے،اسلیے کہ اب میں‌دنیا میں‌جاکے زندہ نہیں‌رہ سکتا۔ ہزار روکوں‌مگر میرا خنجر میرے سینے پر اُٹھ ہی جائےگا۔اچھا! اگر یہ نہیں‌تو تم بھی میرے ساتھ چلو؟
زمرد: یہ تو کسی طرح‌ممکن ہی نہیں۔ حسین! یہ نہ سمجھو یہ میں‌اپنے بس میں۔۔۔۔۔۔۔
اتنا ہی لفظ زبان سےنکلا تھا کہ کانپنے لگی اور اٹھ کے ادھر اُدھر دیکھا کہ کوئی سن تو نہیں‌رہا ہے، مگر جب کوئی نظر نہ آیا تو اطمینان سے آکے پاس بیٹھ گئی اور بولی: “ حسین! اب ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں،تمھارا واپس جانے کا وقت آگیا۔
حسین: (بے صبری سے چلاّ کے) آگیا؟ ابھی سے؟ نہیں‌میں‌ابھی نہیں جاؤں‌گا۔ یہ کہ کے زمرد کودونوں‌‌ہاتھوں‌ سےبھینچ کے پکڑ لیا۔
زمرد: ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں۔ جتنی زیادہ بےصبری دکھاؤ گے، اتنے ہی زیادہ خراب ہوگے۔ اس وقت تنہائی میں باتیں‌کرنے کا ذرا موقع مل گیا ہے، غنیمت سمجھو اورجو کچھ کہتی ہوں‌سنو؛ کوئی آگیا تو یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر عمر بھر کف افسوس ملو گے؛ ساری دنیا میں‌بھٹتے پھرو گے اور مطلب نہ نکلے گا۔
حسین: ( اپنے آپ کو سنبھال کر) اچھا سنتا ہوں۔ پیاری زمرد تم ہی کوئی تدبیر بتاؤ گی تو کام چلے گا۔ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ جملہ نہیں‌پورا ہونے پایا تھا کہ جی بھر آیا اور زار وقطار رونے لگا۔
زمرد: ( اپنے نازک ہاتھ سے اس کا منہ بند کرکے) کیا غضب کرتے ہو! خدا کے لیے سنبھلو؛ دنیا میں جاکے جی بھر کے رو لینا، مگر ابھی میری ایک بات ذرا ہوش و حواس درست کرکے سن لو۔
حسین: ( نہ رکنے والے جوشِ گریہ کو روک کے) کہو پیاری زمرد! دل و جان سے سن رہا ہوں۔
زمرد: یہاں‌سے جانےک ے بعد پہلے توتم کوشش کرنا کہ وہی لوگ جن کی مدد سے اس دفعہ یہاں‌آئے، انھیں‌لوگوں‌کی اطاعت کرکے اور انھیں‌خوش کرکے پھر یہاں‌آنے کا موقع پاؤ۔اپنی حاجت روائی کے لیے تم ان کے کسی حکم سے انحراف نہ کرنا۔ لیکن اگر وہ تمھیں‌یہاں‌دوبارہ بھیجنے کا کسی طرح‌وعدہ نہ کریں‌اور سب طرف سے مایوس ہوجاؤ‌تو پھر اسی وادی میں آکے ٹھہرنا جہاں‌میری قبر ہے اورجہاں‌خط بھیج کے میں‌نے تمھیں‌یہاں آنے کی تدبیر بتائی تھی۔
حسین: کوہ طالقان میں
زمرد: ہان ہاں‌وہیں۔ اگر تم ایک مہینے تک وہاں‌ٹھہرو گے تو میں‌پھر کوئی تدبیر بتاؤں‌گی۔ دیکھو خبردار کسی کو خبر نہ ہوکہ میں‌نے وہاں‌بلایا ہے۔
حیسن: مگر پیاری زمرد! وہ تدبیر اسی وقت نہ بتا دو کہ یہاں‌سے جاتے ہی اُس پر عمل درآمد شروع کردوں؟
زمرد: افسوس! تم نہیں‌سمجھ سکتے۔ بس تمھیں وہی کرنا چاہیے جو میں‌بتاتی ہوں۔ وہ تدبیر اس وقت بتانے کی نہیں۔
حیسن:‌دیکھوں‌اب کتنے دنوں‌ٹھوکریں‌کھانی پڑتی ہیں۔
زمرد: صبر کرو اور ضبط سے کام لو! اور خبردار ایسی کم زوری اوربزدلی نہ دکھانا کہ خود کشی کا ارادہ کرلو۔
حسین: میں‌اسی کو ڈرتا ہوں۔ پیاری زمرد! تیرے عشق میں‌بعض‌وقت نہ اپنے ہوش میں‌ہوتا ہوں‌اور نہ اپنا نیک و بد سمجھتا ہوں۔ یہ تیرے ہی لیے تھا کہ میں نے اپنے چچا اور شیخ‌وقت امام نجم‌الدین نیشا پوری کو قتل کرڈالا۔
زمرد: جانتی ہوں مگر اس میں مجھ کو نہ شریک کرو (کچھ آہٹ‌پاکے)بس اب خاموش ہو رہو۔
ناگہاں چھ سات حوریں‌ناز و انداز سے قدم رکھتی ہوئی سامنے آئیں‌اور محبت کے لہجے میں حسین سے کہنے لگیں: “‌اب چلے کے باھر کی سیر کیجیے اور ان نورانی تختوں‌پر جلوہ افروز ہوجیے جو چمنوں‌کے درمیان‌میں‌ میں‌ہیں۔ اس وقت کی بہار دیکھنے کے قابل ہےاور شرابِ طہور کے جاموں‌میں‌خاص مزہ ہے۔“
حسین:‌میں‌تو یہاں‌تنہا ہی اچھا ہوں۔
زمرد:‌تو وہاں‌چلے چلنے میں کیا مضائقہ ہے؟ چلو مین بھی ساتھ چلتی ہوں۔
حسین: اگر تمھاری بھی یہی مرضی ہے تو مجھے کا عذر ہوسکتاہے!
رشتہء در گردنم افگندہ دوست
مہ برد ہر جا کہ خاطرخواہ اوست
چلو!
اتنی دیر میں‌اورسب حوریں بھی آگئیں اور زمرد حسین کو ساتھ لیے قصر دُری کے باہر نکلی ۔ سب کے سب لالہ زار کے درمیان‌میان طلائی تختوں‌پر جا کے بیٹھے۔ تخت کے دونوں‌جانب دو حوض‌تھے جن میں‌ایک میں‌میٹھا دودھ بھرا تھا ور دوسرے میں‌شراب ارغوانی چھلک رہی تھی اور بغیر کہے صرف واقعات سے یقین دلایا جاتا تھا کہ ایک حوض‌کوثر اور دوسرا شراب طہور کا حوض‌ہے۔ سامنے چند حوریں‌ بیٹھ کے عجب دل ربا ور وجد میں لانے والی دھن میں‌گانے لگیں۔دو چار غلمان یعنی خوب صورت کم عمر لڑکے سونے کے جام و صراحی لاکے کھڑے ہوگئے اور نغمہ و سرود کے ساتھ دور بھی چلنے لگا۔ دو چار جاموں‌نےحسین پر ازخود رفتگی کی کیفیت پیدا کردی اور جب وہ اس عالم نور کو بے خودی کی نیم باز آنکھوں‌سے دیکھ رہا تھا،اُسے نظر آیا کہ زمرد ایک ہاتھ تو اس کے گلے میں ڈالے ہے اور دوسرے ہاتھ سے ایک چھلکتا ہوا جام اس کے منہ سے لگا رہی ہے۔حسین اس لطف صحبت کا دل ہی دل میں‌مزا اُٹھا کے اس جام کو پی گیا مگر پینے کے بعد معلوم ہوا کہ جیسے زمرد کی آنکھوں‌سے موتوں‌کی طرح‌آنسو ٹپک رہے ہیں۔ بےخودی کے جوش میں‌پیاری دل ربا کی دل دہی کے لیے بڑھنے ہی کو تھا کہ مدہوش گر پڑا۔ بس اس کے بعد اسے اپنے پرائے کی خبر نہ تھی۔
 

دوست

محفلین
باب نمر5 پھر وہی عالمِ عناصر

پھر وہی عالمِ عناصر
دیر کی آزاد رساں‌غفلت اور بے ہوشی کے بعد حسین ذرا ہوشیار وہنے لگا تھا کہ کان میں‌آواز آئی: “ اے جسم خاکی! اُٹھ اور اس برزخ کبرٰی کا ہاتھ چوم جو تیرا امام ہے اور جس نے صرف تیرے لیے باوجود مجردِمحض ہونے کے صورتِ مادی اختیار کر لی ہے۔“
حسین نے بےساختہ آنکھ کھول دی اورباغ جنت یا زمرد کے پہلو کے بدلے اپنے کو اُ س تاجدار شخص کے سامنے پایا جس کے ہاتھ پر اسنے بیعت کی تھی اور جو اس سفر جنت کی آخری منزل پر ملا تھا۔ حسین آنکھیں ملتا ہوا ادب سے اُٹھ بیٹھا اور اس کے قدموں‌پر گر کے سر رگڑ کے کہنے لگا“ ممکن بیدار ازیں‌خوابم خدارا۔“
شخص: نہیں، تجھے پھرعالم ارضی میں‌جانا ہے۔ ہوشیار ہو جا کہ مشائخ‌باطن سے ہرگز گریز نہ کرنا۔ میرا یہ ہاتھ جس میں‌نور کے سوا مادے کا بہت ہی کم جز ہے ، تیرے ہاتھ سے مل چکا ہے اور ہمیشہ ان لوگوں‌کے ہاتھ پر رہتا ہے جن کے وسیلےسے تیری اس ملاء اعلٰی تک رسائی ہوئی۔
حسین: مگر میں ابھی اور چند روز جنت میں رہنے کا آرزو مند ہوں۔
شخص: اس مادی عالم کی زندگی میں‌یہ بھی تیرے حوصلے اور تیری ہوس سے زیادہ تھا، اب اس زندگی میں‌ممکن نہیں‌کہ تو پھر اس روحانی عشرت کدے میں‌آسکے۔جا اور اس وقت کا منتظر رہ جب کہ کسی دینی کوشش میں‌یا امام و مرشد کےحکم سے تو جام فنا پیے گا۔
حسین : تو آپ میرے امام ہیں‌اور آپ ہی جام فنا پلا کے مجھے فردوس بریں‌میں پہنچا دیجیے۔
شخص: ابھی ملاء اعلیٰ کی سرحد ہے اوریہاں‌فنا نہیں۔
اتنے میں‌ وہی پہلی پری وش نازنین لبریز جام ہاتھ میں‌لیے ہوئی آئی جس کے دیکھتے ہی اس شخص نے کہا: “بس اب زیادہ حجت نہ کر اور لے، یہ شراب طہورکا آخری جام پی۔“
یہ کہہ کے اس نے جام اپنے ہاتھ سے حسین کی طرف بڑھایا۔
حسین اب جانتا تھا کہ یہ شراب طہور داروئے بے ہوشی کا اثر رکھتی ہےاور جس طرح ‌اس کا نشہ پہلے عالم بالا میں‌لے آٰیا، اب حضیضِ ظٌلمت میں‌لے جائے گا، مگر مایوسی کی تکلیف نے پیاس اس قدر تیز کر دی تھی کہ انکار کی جرات نہ ہوئی؛ بےتکلف لے کے پی گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ مدہوشی تھی اور وہی خود فراموشی۔ پھر اسی طرح‌تھوڑی تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کے وہ مختلف سین دیکھنے لگا۔حیرت زدہ آنکھوں‌کے سامنے کبھی دشت و در تھے اور کبھی پہاڑوں‌کی بلندی و پستی۔ آخر ایک شب کو اس کی آنکھ شیخ الجب کے سامنے کھلی۔راہ جنت کےاس پہلے نگہبان نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کے کہا: “حسین! تو پھر اس تیرہ خاک دان عنصری کی حدود میں آگیا، اوران آنکھوں‌سے جو انوار محضہ و مجردہ کو دیکھ چکی ہیں،پھر نور سینا کو اسی طرح‌ستر ہزار حجابوں‌میں‌دیکھ رہا ہے۔“
حسین: (آب دیدہ ہوکر) مگر میں‌تو اس ظلمت کدہ خاکی میں‌نہیں‌آنا چاہتا تھا۔
طور معنی: بے شک نہ چاہتا ہوگا۔ جذبات نور وحدت ایسی ہی کشش رکھتے ہیں مگر کیوں ‌کر ممکن تھا کہ اس جسم خاکی کادھبا اس نورستان مین ہمیشہ قائم رہتا۔
حسین: تو لِلّہ کوشش کیجیے کہ اسی وقت اس جسم خاکی کو چھوڑ کے اس سروشستان اعلٰی کا راستہ لوں۔
طورمعنی: ان امور میں‌شیخ علی وجودی ہی تمھارا اطمینان کرسکتے ہیں‘ اُن کے پاس جاؤ اور وہ جو کہیں اُس پر عمل کرو۔
حسین: ( جوش دل سے نوحہ وہ بکا کرکے) افسوس! میری اتنی ریاضت اور یہ مدتوں ‌کی آرزومندی صرف اتنے مختصر زمانے کے لیے تھی؟ آہ کیاکروں‌کہ پھر زمرد کا وصال نصیب ہو؟
اس کے بعد حیسن پھوٹ‌پھوٹ کے اور زاروقطار رونے لگا اوریہاں ‌تک رویا کہ ہچکیاں‌بندھ گئیں۔
طور معنی: اے بلند حوصلہ مشت غبار! میرے عزلت کدے کو خالی کر اور صفحہ ارضی پرجاکے اُس میعاد کو پوراکر، جتنے دنوں کے لیے تو ظلمت کدہءِارض میں گرفتارہے۔
حسین: کاش یہی معلوم ہوتا کہ اس مشت غار کوکب تک اس عالم میں سرگرداں ‌پھرنا اور خاک اڑانا ہے۔
طور معنی: تیرے لیے ان رموز کاحل کرنا شیخ علی وجودی کاکام ہے، اس لیے وہی تیرے مرشد ہیں۔ مگر ہاں،میں تجھے ایک راز بتاسکتاہوں؛وہ یہ کہ پھر اس عالم نور کی زیارت فقط امام کے اختیار میں ہے جس کے ہاتھ پر تو بیعت کرچکا ہےجو لاہوت و ناسوت کا برزخ ہےجو مختلف جسد ہائے امامت ونبوت میں‌ظاہر ہوتی رہی۔
حسین: مگر ان تک رسائی کیوں‌کر ہوسکتی ہے؛وہ ملاءاعلٰی پر ہیں‌اور میں اس قعر ظلمت میں پھینک دیاگیا؟
طور معنی: گو انکا مرکز و مقروبی نورستان اعلٰٰی ہے مگر ایک گونا تعلقات مادہ،جنکی وجہ سے انھوں‌نے بہت سے جسم ہائے امامت بدلے،انھیں‌اکثر اوقات اس آخشیجستان میں کھینچ لاتے ہیں۔لیکن بغیر مرشد کے اس غرض‌میں کامیابی نہیں حاصل ہوسکتی۔اگر تواصرار کرےگا تو تیرے مرشد شیخ علی وجودی اس امر میں تیری مدد کریں‌گے۔بس اب تو اس خلوت کدہءنور کو خالی کر اور مرشد کی قدم بوسی کے لیے روانہ ہو۔
اس تقریر نے امید کا ایک دھندلا سا چراغ پھر اس کے سینےمیں روشن کیا، جس کی روشنی میں وہ غار کے باہر نکلا۔لیکن اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی، جب دیکھا کہ کاظم جنونی غار کے دھانے پراُسی وضع و حالت میں کھڑا ہے جس وضع و حالت میں‌ کہ وہ اسے چھوڑ کے گیا تھا۔کاظم جنونی اُس کی صورت دیکھتے ہی بولا: “ اب توتم کو اطمینان ہوگیا کہ شجرِ‌معرفت کی ایک شاخ تم بھی ہو۔“
حسین: اور آپ یہاں‌کب آئے؟
کاظم جنونی: ابھی تمھارے ساتھ ہی آیا تھا۔
حسین: ابھی؟
کاظم جنونی: ہاں‌ابھی!
حسین: مجھے تم سے رخصت ہوئے کئی ہفتے گزرگئے۔
کاظم جنونی: ( ہنس کر) اُس عالم اور اس عالم میں ‌بڑا فرق ہے یہاں کا ایک دن وہاں‌کے ستر برس کے برابر ہے۔
حسین: وہ ایک گھڑی سہی مگر تم یہاں‌ٹھہرے کیوں‌رہے؟
کاظم جنونی: امام قائمِ قیامت کا حکم یوں ہی تھا۔
حسین: امام قائم قیامت کون؟
کاظم جنونی: وہی جن کےہاتھ پر اس عالم نور کے سفر میں‌تم نے بیعت کی ہوگی‌۔
حیسن: مگر ان کے احکام تم تک کیوں ‌کر پہنچ گئی؟
کاظم جنونی:‌ان ہی مرشد کے ذریعے سے جو راہ حقیقت طے کرنے کے لیے میرے ان کے درمیان میں‌واسطہ ہیں۔
حسین: تو شاید تمھارے مرشد یہاں‌آئے ہوں گے؟
کاظم جنونی: اس کی کچھ ضرورت نہیں؛وہ ایک توجہ سے اپنے خیالات میرے دل میں‌پیدا کر دیتے ہیں۔
حسین: افسوس میں‌جنت سے زبردستی کھینچ نکالاگیا!
کاظم جنونی:‌ان رموز ربانی کی شکایت نہ کرو! اور ان کے مصالح‌دریافت کرنا ہیں تو اپنے مرشد شیخ علی وجودی کے پاس چلے جاؤ۔ مگر یاد رکھنا کہ اب تم عالم نور کی سیر کرآئے ہو لہٰذہ ان کو اسی روحانی لقب سے یاد کرنا جو اس سروشستان میں مشہور ہے۔
حسین: کیا ان کا کوئی اور لقب بھی ہے؟ میں نے ‌تو نہیں‌سنا۔
کاظم جنونی: ہاں، اس عالم عناصر میں‌تو ان کا یہی نام ہے جو تم جانتے ہو مگراس عالم نور میں‌وہ وادیِ ایمن کہے جاتے ہیں۔
حسین: (تعجب سے) وادیِ ایمن! (اور پھر ذرا سوچ کے) بے شک انھیں ‌وادیِ ایمن ہی کہنا چاہیے ان ہی کے پہلو میں‌مجھے نور اور حقیقت کی پہلی شعاع نظر آئی۔
کاظم جنونی: بس اب چلو اور حلب کا ارادہ کرو۔
حسین: مگر مجھے اتنا ضرور بتا دیجیے کہ اس عالم نور میں‌کبھی پھر بھی میرا گزر ہوسکےگا؟
کاظم جنونی: اس امر میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر ہاں‌یہ یقینی ہے کہ اگر تمھارے مرشد کی توجہ ہوتو سب باتیں‌ممکن ہیں۔
کاظم جنونی نے اس جملے سے حسین کےسینے میں امید کے چراغ کو ذرا اور اُکسا دیا۔آخر دونوں‌نے اس وحشت ناک مسکن دام ودد کو چھوڑا اور شہر اصفہان میں آئے۔ کاظم جنونی نے اپنی مسجد کے دروازے پر پہنچتے ہی‌آواز لگائی“ دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ“ جس کے بعد حسین نے اسے رخصت کیا اور شہر حلب کی راہ لی۔
اس سفر میں‌حسین ہر وقت جنت اور اُس کی حوروں‌کی ادھیڑ بن میں‌رہتا۔ اگرچہ اس کا جسم اس دنیا میں‌تھا لیکن اُس کے خیالات اوراس کے اعتقاد میں اس کی روح‌علی الدوام اس دوسرے عالم نور کے مزے لیتی رہتی۔وہ دل میں‌کہتا:‌“ اتنے انقلابات کے بعد اب مجھے یہ تو معلوم ہوگیا کہ ‘موتو قبل ان تموتو‘ کے کیا معنی ہیں؛یا اس دنیا میں‌رہنے سہنے کے ساتھ انسان اس عنصرستان سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ عالم ملکوت میں‌کیوں‌ کرصرف کرتا ہے۔ اب اس مرتبہ جب کہ اصفہان سے حلب کو جارہا تھا،اُسے ایک بہت ہی نئی اور حیرت میں ڈالنے والی چیز نظر آئی ۔وہ جس گاؤں‌سے گزرتا یا جس دشت و در میں‌گزرتا، اکثرلوگ خودبخود اسے پچان لیتے کہ جنت کی سیر کرآیا ہے اور پاس آ آ کے مبارکباد دیتے۔وہ دل ہی دل میں‌پریشان تھا کہ یہ کیا بات ہے اور کون سی علامت ہے جس کی وجہ سے لوگوں‌کو میری حالت معلوم ہوجاتی ہے۔ بعض‌لوگوں‌سے اس راز کو دریافت بھی کیا مگر کسی نے کچھ نہ بتایا۔ زمرد اب اس کے دل و دماغ پر پہلے سے زیادہ حاوی تھی۔اُٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے ہر حالت میں اس کی دل فریب تصویر پیش نظر رہتی۔ وہ کبھی اپنی طرف بلاتی تھی اور کبھی صبر وتحمل کی تاکید کرتی تھی۔یہی مزیدار اور پریشان کن خواب دیکھتا ہوا وہ شہر حلب میں‌پہنچا اور شیخ علی وجودی کے سامنے جاتے ہی اُ ن کے قدموں‌پر گر پڑا۔ شیخ نے اُٹھا کے اُس کی پیشانی چومی اور پیٹھ ٹھونک کے اپنے برابر بٹھایا اورکہا: “اے حسین! تو لاہوت اکبر کی سیر کرآیا؟“
حسین: یا شیخ! اس عالم نور کی میں نے پوری کیفیت دیکھ لی۔ اور اے وادیِ ایمن! تیرے پہلو میں مجھے وہ جلوہ نظر آگیا جس کے اشیاق کے سوال پر موسٰی کو بھی لن ترانی کا جواب ملا تھا۔ مگر کیاکہوں
‌کہ میں‌نے کن حسرتوں‌سے اس حیّز نور کو چھوڑا ہے!۔
شیخ: اے تیرہ و تار مشت غبار! بتا تو، توُ نے وہاں‌کیا دیکھا؟
حسین: ایسا کچھ دیکھا کہ آنکھوں کو تمنا رہ گئی۔
شیخ: جذبات نور ایسے ہی ہوتے ہیں۔ زمرد سے ملاتھا؟
حسین: ( شیخ کے قدم چوم کے)‌ملا تھا، مگر ابھی سیری نہیں‌ہوئی۔ آہ! جی بھر کے دیکھنے بھی نہ پایا تھا کہ وہ نظر کے سامنے سے غائب ہوگئی۔
شیخ: مگر تیرا یہ جسم خاکی اس نورستان میں‌زیادہ نہیں‌ٹھہر سکتا تھا۔ اگرچہ تو کہتا ہے اور تجھے یقین ہے کہ اس عالم نور کو تو نے آنکھوں‌سے دیکھ لیا مگر اےحسین میں کہتا ہوں‌کہ تو نے نہیں‌دیکھا۔
حسین: نہیں اے شیخ‌اور اے وادیِ ایمن! میں‌نے دیکھا ور اپنے خیال کی آنکھوں‌سے اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں۔
حسین کا یہ جواب سنتے ہی شیخ‌کو جلال آگیا۔ منہ میں کف بھر آیا،آنکھیں‌سرخ‌ہوگئیں‌اور ایک دفعہ جوش میں‌آکے اُٹھ کھڑے ہوئے۔حیسن مارے خوف کے سر سے پاؤں تک کانپ گیا اور انھوں‌ نے کہنا شروع کیا: “ اے متکبر و مغرور مشتِ خاک! تیری کیا مجال کہ اس نور لم یزل کو ان ذلیل آنکھوں‌سے دیکھ سکے۔ تو ان مادی آنکھوں‌سے دیکھ رہا تھا جن میں‌انوار ازلیہ کی اشعاع لامعہ آدھی ضو کے ساتھ بھی نہیں چمک سکیں۔تیرے جسم کے سامنے وہ نور غیر متحیز متحیز بن کے نمایاں‌ہواتھا۔ اس کی اصلی کیفیات کو تیری یہ آنکھیں کسی طرح‌معلوم نہیں‌کرسکتی تھیں۔مگر ہاں‌توان انوار کو دیکھے گا اور ان کی اصلی حالت و کیفیت میں دیکھے گا،مگر کب؟ جب اس جسم خاکی کو چھوڑ کےاور مجرد محض‌بن کے اس حیز نور میں‌جائے گا۔ اس وقت تجھے یہ بھی نظر آجائے گا کہ اسی نور ازل کا ایک چراغ تو بھی ہے۔“
حسین: (کانپتی ہوئی آواز سے) مگر میں‌تو ابھی وہاں‌سے آنا نہیں‌چاہتا تھا۔
شیخ: ‌بے شک نہ چاہتا ہوگا، مگر یہ ممکن نہ تھا۔ نور محض کثافت مادہ کا متحمل نہیں‌ہوسکتا۔
حسین: لیکن اے شیخ! آپ وادیِ ایمن ہیں؛اگر آپ چاہیں‌تو میں ‌پھر اس عالم نور میں جاسکتا ہوں۔آہ! زمرد کے لیے بہت پریشان ہوں۔
شیخ: (پھر طیش میں ‌آکے) اگر ہوس است ہمیں‌قدر بس است۔اُس سروشستان کو مادے کے قبول کرنے کی اس سے زیادہ زحمت نہیں‌دی جاسکتی۔آگ میں کسی مادی چیز کو ڈال دو تو اپنا تصرف کرنے کے بعد باقی ماندہ کثافت کو الگ پھینک دیتی ہے۔ اسی طرح‌اس نورستان نے تیرے جسم کو اپنے حیز سے نکال کے پھینک دیا۔
حسین: تو پھر آپ اپنے ہی ہاتھ سے مجھے اس جسم خاکی کی قید سے آزاد کیجیے تاکہ تجرد اختیار کرکے جاؤں‌اور پیاری زمرد کو اپنے آغوش میں‌لے لوں۔ کیا عجب کہ اس وقت تک وہ میرے شوق میں‌اپنا آغوش پھیلائے ہوئے ہو۔
شیخ: اب وہاں‌تک تیری رسائی صرف امام قائم قیامت کی دستگیری سے ہوسکتی ہے۔
حسین: گو میں‌اس برزخ کبرٰی کے ہاتھ پر بیعت کرچکا ہوں مگر اس درگاہ میں‌میری رسائی اسی وقت ہوگی جب آپ میری مدد کریں‌گے۔ آپ کی دستگیری سب پر مقدم ہے۔
شیخ: اچھا مایوس نہ ہو۔ مجھے تیرا ایک دفعہ اور امتحان لینا ہے؛ اگر تواس امتحان میں پورا اترا تو میں تجھے اس دربار امامت میں‌سفارش کے ساتھ پہنچا دوں گا۔
حسین: جلدی فرمائیے، جو حکم ہو اُ‌س کے بجا لانے کو تیار ہوں۔ میں‌موت کا سب سے زیادہ آرزو مند ہوں۔ اگر اس امتحان ہی میں‌مجھے موت نصیب ہوگئی تو اس سے زیادہ میری کیا خوش قسمتی ہوگی۔
شیخ: اسی وقت شہر دمشق کی راہ لے اور جس طرح بنے امام نصر بن احمد کو جو ہم باطنین کے خلاف وعظ کہا کرتے ہیں،قتل کرکے واپس آ۔
حسین: ابھی چلا، مگر مجھے اتنااوربتا دیجیے کہ کیا ہم ہی وہ باطنین ہیں‌ جنھیں‌کبھی لوگ قرامطہ اور کبھی ملاحدہ کے نام سے یاد کرتے ہیں؟
شیخ: بے شک! ہم اسماعل بن جعفر صادق علیہ السلام کی امامت کے مدعی ہیں،اور چونکہ امامت ظاہر ہوگئی،لہٰذہ ہم پر فرض ہے کہ اس کی تبلیغ و تقابت،خفیہ اورباطنی طریقوں سے کریں۔انوار ازل نے یہ قدیم ہی سے فیصلہ کردیا ہے کہ جب تک امامت ظاہر رہتی ہے تقابت و تبلیغ خفیہ ہوتی ہےاور جب امامت مخفی و باطن ہوجاتی ہےتو نقابت‌وتبلیغ اعلانیہ ہونے لگتی ہے۔
حسین: مگر اس کا سبب میری ناقص فہم سے بالا ہے۔
شیخ: بے شک بالا ہے( زور سے گھور کے) اور تیرے جاہلانہ شکوک اور زیادہ بالا کرتے جاتے ہیں۔خود خدا کی طرف اپنا خیال لے جا وہ مخفی ہے اور اسی لے اس کی توحید کی تبلیغ اعلانیہ ہوتی ہے۔
حسین: مگر یا وادیِ ایمن! نبوت تو ظاہر رہی اور اس کے ظہور کے زمانے میں برابر اعلانیہ تبلیغ ہوتی تھی۔
شیخ علی وجودی کے منہ میں پھر کف بھر آیا اور سخت برہمی کے لہجے میں‌وہ چلائے: “ابھی تک شیطان تیرے دل میں بیٹھا ہے، وہ تجھے بہکا رہا ہے اور تو پھرعالم نور میں جانے کی آرزو کرتا ہے؟اس نظام کا تعلق صرف امامت سے ہے۔ نبوت ہمیشہ ظاہر رہی اور ظہور کے زمانے میں اعلانیہ تبلیغ بھی ہوتی رہی؛ تاہم نبوت اوررسالت کس چیز کی طرف لوگوں‌کو بلاتی ہے؟ خدا کی طرف اور فردوس بریں کی طرف اوریہ دونوں‌دنیا کی نظر سے مخفی ہیں۔“
حسین: (ڈرتے ڈرتے) مگر امامت بھی تو انھی دو چیزوں کی طرف بلاتی ہے؟
اب تو شیخ کو غصے نےآپے سے باہر کر دیاتھا، ایک دفعہ چمک کے اُٹھے کھڑے ہوئے اور کہا: تو عالم نور کی سیر کر آنے پر بھی شکی اور جاہل ہے۔عہد نبوت میں‌جنت اور وہ نورلانور اس قدر نمایاں نہ تھے جتنے کہ اب عہد امامت میں ہیں۔ رسالت نے کبھی کسی مادی پیکر کو اس سروشستان میں‌نہیں‌بھیجا اور امامت برابر بھیج رہی ہے،جس کا قطعی نتیجہ ہے کہ فردوس بریں‌اور وہ نور ازلی پہلے مخفی تھے اور اب نمایاں‌ہیں۔ اور چوں کہ اب نمایاں‌ہیں‌،لہٰذہ تبلیغ و نقابت کو خفیہ طریقے سے ہی اپنا عمل کرنا چاہیے۔“
حسین: یا وادیِ ایمن! اب مجھے اطمینان ہوگیا، اور ضرور تھا کہ اپنےا ن شکوک کو دفع کرتا، اسلیے کہ میں‌نے اس مذہب کی نسبت بہت سی بے سروبا باتیں‌ستی تھیں،اور سنا تھا کہ التمونت کے قلعے میں لوگ طرح‌طرح کے فریبوں‌سے اس مذہب کے پابند بنائے جاتے ہیں۔
شیخ: یہ دشمنوں‌ اور جہلا کی افترا پردازیاں‌ہیں۔ایسے لوگ جن کو چشم بصیرت نہیں‌اور جو ان انوار ازلیہ کے سامنے خفاش سے زیادہ وقعت نہیں‌رکھتے،ان کے کہنے کا کیا اعتبار؟اتنے مدارج یقین طے کرکے تجھے یقین آگیا ہوگا کہ ہم کس ملاءِاعلٰی پر ہیں‌اور آسانی سے سروشستان کی سیر کر اتے ہیں۔ اور وہ کس قعر جہالت میں پڑے ہیں‌اور کس طرح تحت‌الثرٰی کی طرف روز بروز زیادہ دھنستے چلے جاتے ہیں۔
حسین:‌مجھے معلوم ہے۔
یہ کہہ کے حسین شیخ‌سے رخصت ہوا اور امام نصر بن احمد کی جان لینے کے لیے دمشق کی راہ لی۔
حسین اب ایسے کاموں‌کے لیے زیادہ جری تھا۔پہلے موقع پر جو شبہات اس کے دل میں‌پیدا ہوئے تھے، اب نام کو بھی نہ تھے۔اس کو یقین تھا کہ جنت یقینًا انھیں‌لوگوں‌کے ہاتھ میں ہے جن کا وہ معتقد ہے اوران کے اشارے پر ہر برے یا بھلے کام کا کرنا ہی ذریعہِ نجات ہے۔باوجود اس کے کے ایک جلیل القدر عالم کے قتل میں اس کے دل نے کسی قدر پس‌وپیش ضرور کیا،مگر شیخ‌اور زمرد کے خیال نے پھر اس کا دل آگے بڑھایا۔وہ نہایت ہی سنگدلی کے ساتھ مرشد کے وحشیانہ حکم کی تعمیل کے لیے دمشق پہنچا اور امام نصر کے عقیدت کیشوں میں‌شامل ہوگیا۔
اس سفر میں‌بھی وہ حیرت سے دیکھتا تھا کہ بعض‌لوگ راہ چلتے پہچان لیتے اور اس سے بغل گیر ہوتے اور یک جہتی و اخوت کا ثبوت دیتے،جس سے اُسے یہ بھی نظر آجاتا تھا کہ اُس کے ہم عقیدہ و ہم خیال کس کثرت سے دنیا میں‌پھیلے ہوئے ہیں۔خوش نصیبی یا دل کی بے صبری سے مہینے بھر میں‌اسے اپنی غرض‌حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ ایک پچھلی رات کو جب کہ امام نصر پڑوس کی مسجد میں‌اور سب سے چھپانے کے لیے اندھیرے میں‌تن تنہا کھڑے نماز تہجد ادا کررہے تھے،حسین کا خنجر ان کے دل میں‌اُتر گیا۔حسین نے ایک ہاتھ سے ان کا منہ بند کرلیا تھا اور قتل کرکے گراتے ہی سینے پر چڑھ بیٹھا اور انھیں نیچے دبا کے بیٹھ گیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ان کی آواز نکلنے پائی اور نہ تڑپنے پائے۔ جب لاش بالکل ٹھنڈی ہوگئی تو وہ پچھلی رات کے سناٹے ہی میں‌ مسجد سے نکلا چلا گیا۔ راستے میں ایک نہر کے کنارے کپڑے دھوئے اور حلب کو روانہ ہوا۔
شیخ علی وجودی نے اس کی کارگزاری کی داد دی اور اس کی پیٹھ ٹھونک کے کہا: “حسین! تو مراحل یقین کو بہت جلد طے کررہا ہے، امید ہے کہ اپنے اغراض میں کامیاب ہو۔“
حسین: یا وادیِ ایمن! مجھے ایک امر پر بڑی حیرت ہے؛میں‌جہاں‌جاتا ہوں اورجس جگہ ہوتا ہوں میرے ہم خیال و ہم عقیدہ صورت دیکھتے ہی مجھے پہچان لیتے ہیں اور میں‌ان کو نہیں‌پہچان سکتا۔
یہ سنتے یہ شیخ نے اپنے صندوق سے ایک آئینہ نکالا اور اُسے دکھا کے کہا: “اپنی صورت دیکھ ،تجھے اپنے چہرے پر کوئی چیز نظر آتی ہے؟“
حسین: ہاں‌پیشانی پر ایک داغ‌ہے، مگر معلوم نہیں کیا داغ ہے؛شاید بچپن میں کبھی گر پڑا ہوں گا۔
شیخ: (مسکراکے) نہیں، یہ حورکے بوسے کانشان ہے، یہی ایک مہر ہے جو ہمیشہ اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ انسان اپنے اس قفس عنصری کے ساتھ فردوس بریں کی سیر کر آیاہے۔
حسین: تو جن لوگوں‌نے مجھے پہچانا،غالبُا ان کی پیشانیوں ‌پر بھی یہ حور کے بوسے کا نشان موجود ہوگا؟
شیخ: بے شک ہوگا؛میری پیشانی پر بھی موجود ہے۔
حسین: ( شیخ‌کی پیشانی پر بھی وہ اپنا سا داغ دیکھ کے) بے شک یہ مدارج یقین طے کرنے کا تمغہ ہے۔
شیخ: حسین! یہ بہت بڑی چیز ہے۔ مرنے کے بعد سب مومنین جنت میں‌جائیں‌گے،مگر جولوگ دنیاوی زندگی ہی میں اُس مرکز نور کی سیر کرچکے ہیں،انکا یہ فخروہاں‌‌بھی موجود رہے گا۔یہ داغ وہاں ‌پیشانیوں پر نور کی طرح چمکے گااورعام ناجیوں میں‌ہم لوگوں کو ممتاز ثابت کرے گا۔
حسین:‌مگر مجھے یہ داغ اس دنیا ہی میں‌عزیز ہے۔کاش! میرے لب میری پیشانی تک پہنچ سکتے کہ میں‌اس داغ کو بوسے دے دے کے اپنے دل کی تسلی کرتا۔میری پیشانی پر سوا زمرد کے اور کسی کے بوسے کا نشان نہیں ہوسکتا۔اگر میرے بوسے لیے ہیں‌تو صرف اسی کے لبِ‌لعلیں نے۔
بوسم منِ بے برگ ونوا برگِ حنارا
تا بوسہ یہ پیغام دبم آن کف پا را
مگر افسوس ! جس طرح‌زمرد میرے دل میں‌ہے لیکن ہاتھ نہیں‌ آسکتی اسی طرح‌اس کے بوسے کا نشان ہر وقت میرے پاس ہے اورمجال نہیں ‌کہ اپنے مشتاق ہونٹوں‌وہاں‌تک پہنچا سکوں۔
شیخ: اب ان شاعرانہ خیالات کو دور کرو اورامام قائم قیامت کی قدم بوسی کے لیے تیار ہو۔
حسین: لبیک!‌مگر یا وادیِ ایمن!اتنا اور بتا دیجیے کہ ان کو امام قائم قیامت کیوں‌کہتے ہیں؟
شیخ: یہ بھی رموز ربانی میں‌سے ایک رمز ہے۔ تجھے شاید ابھی تک اُن ائمہ کے نام بھی نہ معلوم ہوں گے جو نور لم یزلی کی شعاعیں‌ہیں اور مختلف اوقات میں‌مختلف جسدوں‌میں‌ میں نمایاں ہوتی رہیں۔یہی ائمہ ہمیشہ ناسوت اکبر ہوتے رہے ہیں۔وہی نور جو آدم‌ع،نوح‌ع،ابراہیم‌ع،موسٰی‌ع،داوودع،سلیمان‌ع،عیسٰی‌ع اور محمد صلواۃ اللہ علیھم کے اجساد مطہرہ سے لمعہ افگن ہوتا رہا تھا،آخرعلی مرتضٰی کے جسد انور میں نمودار ہوا،اور چوں کہ اب نبوت ختم ہوچکی تھی، لہٰذہ اُس ایک نور یا ایک روح‌‌نے مختلف اجساد بدلنے شروع کیے۔ پھر حسین و علی و زین العابدین و محمد باقر علیھم اسلام کے اجساد کی سیر کرتے کرے وہ نور جناب جعفر صادق کے جسد انور میں نمایاں ہوا اور وہ زندہ ہی تھے کہ ان کے پیکر جسدی کو چھوڑ کے پہلے جناب اسماعیل میں‌پھر محمد مکتوم ابن اسماعیل میں جو سابع نام تھے آیا۔ چند روز تک وہ نور سلسلہ وار امام منصور بن محمد مکتوم،جعفر مصدق اور حبیب بن جعفر کے اجساد مطہرہ میں‌خفیہ ہی خفیہ لمعہ فگن رہا۔جناب اسماعیل سے اس وقت تک امامت مخفی رہی تھی۔اب یاکت اس نور نے عبیداللہ مہدی کی ذات سے نمایاں‌ہوکے اپنی پوری تنویر دکھادی اور امامت ظاہر ہوگئی۔ اس کے بعد وہ نور برابر علانیہ طور پر مختلف اجساد طاہرہ کو بدلتا رہا۔ پہلے قائم بامراللہ کے جسم سے،پھر منصور کے،پھر المعزالدین اللہ کے،پھر عزیز باللہ کے،پھر حاکم بامراللہ کے،پھر الظاہر الاعزاز دین اللہ کے، پھر المستنصر باللہ کے جسم سے چمکا۔مستنصر باللہ کے بعد نزار،پھرحسن بن محمد یعنی علی زکرۃالسلام،پھر محمد اب علی زکرۃالسلام کے جسموں‌ نے لاہوتیت کبرٰی کا درجہ پایا،اور فی الحال وہی انوار ازلی رکن الدین خورشاہ کے جمال جہاں‌آرا سے نمودار ہیں جو فرمانروائے النمونت ہیں۔ اور وہی امام قائم قیامت البرزخ بین الاہوت و الناسوت اور وہ تجلی ہیں‌جو مختلف جسد ہائے امامت و نبوت سے لمعہ افگن رہی تھی۔
حسین: ( حیرت سے) وہی جن کے ہاتھ پر میں‌نے اس عالم لاہوت میں بیعت کی تھی؟
شیخ: وہی!
حسین: مگر آپ تو فرماتے ہیں کہ وہ التمونت کے فرمانروا ہیں؟
شیخ: بے شک ہیں! مگر یہ علائق دنیوی ان کے تجرد اور ان کی اس نورانیت کو جو عالم سروش میں‌لے جاتی ہے،دھندلا نہیں‌کرسکتے۔ امامِ دینی و عام لوگوں‌مین‌یہی فرق ہے کہ جس چیز کو ہم محنت و ریاضت سے حاصل کرتے ہیں انھیں‌فطرتًا بدرجہ اُتم حاصل رہتی ہے۔اسی لحاظ سے وہ عالمین کے برزخ کہے جاتے ہیں۔
حسین:‌اور وہ امام قائم قیامت کیوں‌کہلاتے ہیں؟
شیخ: (کسی قدر برہم ہوتے ہوئے رک کر)‌ہاں‌میں‌ نے اس کا راز ابھی تک نہیں‌بتایا۔ امامین مستنصر و نزار کے عہد میں انھیں‌انواز ازلی کی ایک نئی اور غیر معمولی شمع روشن ہوئی تھی۔ گویہ شمع دراصل اسی قدم نور امامت کا انعکاس تھی مگر اتنا بڑا انعکاس کامل کہ اس کی ضو سے تمام ممالک ارض‌چمک اُٹھے۔اس سے وہ چراغ نور مراد ہے جو احسن بن صباح کے جسم صافی میں ‌چمکا تھا۔ یہ لقب قائم قیامت اسی آئینہ پرتو ایزدی کا ہے جس نے یکایک صعود مدار اعلٰی اور نورستان میں پہنچ جانے کے اتنے صحیح‌ذریعے مخلوق میں‌پیدا کردیے کہ ادنٰی ادنٰی لوگوں‌کو وہ کمال حاصل ہوگیا جوگزشتہ کئی عہدوں میں میں‌ سوائے انبیا اور ائمہ کے کسی کو حاصل نہ تھا۔پہلے کوئی فردوس بریں میں‌جانے کا خیال بھی نہ کرسکتا تھا مگر اب اس اعلیٰ پرتو ایزدی کے ظہور کے بعد یہ حالت ہے کہ میں‌آنکھیں‌بند کرکے ایک دم میں اس عالم نور کی سیر کرآتا ہوں اور تم اورتم سے صدہا مومنین اس سروشستان میں‌ جاکے حووں کی ہمکناری کا مزا اُٹھا آئے ہیں۔قیامت کے معنی ظاہر پرستوں‌میں اس وقت کے ہیں جب دنیا کی زندگی ختم ہوجائے گی مگر حقیقت شناس جانتے ہیں‌کہ قیامت صرف اس حالت یا وقت کا نام ہے جب کہ مخلوق کو خالق سے یا پرتو کے نور سے قربت ہوجائے۔حسن بن صباح‌نے چونکہ اپنے عہد سے مخلوق کوتقرب کے ایسے درجے پر پہنچا دیا،لہٰذہ وہ امام قائم قیامت کہلاتے ہں، یعنی وہ امام جس کی بہ دولت مخلوق و خالق میں‌قربت ہوگئی۔اور اسی قربت کا نتیجہ ہے کہ ان کے چند ہی روز بعد امام علی زکرۃ السلام میں‌وہ امامت قدیمہ جو جناب علی المرتضٰی سے نسلًا بعد نسل چلی آتی تھی اور نیز وہ امامت قائم قیامت جس کا چراغ پہلے پہل حسن بن صباح‌کے حیز میں روشن ہوا تھا،دونوں‌امامتیں|دونوں‌امامتیں‌اس طرح‌جمع ہوئیں‌کہ قائم قیامت کی امامت توحسن بن صباح کی جانشینی سے ملی اور دوسری امامت قدیمہ اس طریقے سے کہ علی زکرۃالسلام نے بڑی تاویلوں اوررکیک توجیہات سے دعوٰی کیا تھا کہ میں اس کا بیٹا نہیں‌جس کی طرف منسوب ہوں‌بلکہ دراصل میں‌نزار بن مستنصر فاطمی کے ایک بیٹے کا بیٹا ہوں جو قلعہ التمونت میں چھپا ہوا تھا۔اس طرح اپنا سلسلہ نسب بنی فاطمہ سے ملا کے اس نے خود سیاد ہونے اور امامت موروثی پانے کا دعوٰی کیا تھا۔| جمع ہوگئیں اور یکایک انوار لم یزلی ہیجان میں آگئے۔بس اسی وقت سے تمام تکلیفات شرعیہ بندوں‌پر سے اُٹھا دیے گئے۔رمضان کی 27 کو اس قربت نور پرتو کا یہ جلوہ نظر آیا تھا،یعنی مومنین شرعی قیدوں‌سے آزاد ہوئے تھے۔ اسی سبب سے وہ دن ہمارے لیے عید ہے،اور اس کی یاد میں یہ وظیفہ ہر وقت اور ہمیشہ ہماری زبان پر رہتا ہے:
برداشت غل شرع بہ تائید ایزدی
مخدوم روزگار علی ذکرۃ اسلام
حسین: (متحیر ہوکے) مگر میں تو دیکھتا ہوں‌کہ آپ شب و روز ریاضت ہی میں‌مشغول رہتے ہیں اور آپ ہی کی طرح‌اس فرقہء ناجیہ کے جتنے پیرو مجھے ملے سب پابند شرع،بڑے محتاط اور بڑے متقی و پرہیز گار نظرآئے۔
شیخ: جو لوگ عرفان و حقیقت کے مدارج طے کرنا چاہتے ہیں ان کو بےشک عبادت و ریاضت کرنی پڑتی ہے،مگر مومنین پر فرض اب کوئی عبادت نہیں۔خاصۃً ان برگزیدگان بارگاہ لم یزلی کے لیے جو امام قائم قیامت سے تقرب رکھتے ہیں۔
حسین: مگر یا وادیِ ایمن! میرا دل پھر آپ کی توجہ کا محتاج ہے۔ تکلیفات شرعیہ کا اٹھا دینا ایک ایس چیز ہے جس سے میرے دل میں‌شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
شیخ: ( برہمی کے ساتھ) اتنے مدارج حقیقت طے کرنے پر بھی شک؟سروشستان اور عالم نور کی سیر کرچکنے کے بعد بھی شک؟ اب یہ شک نہیں‌گستاخی ہے۔جانتا ہے کہ ساری عبادتیں خداوند جل وعلا کی قربت حاصل کرنے کے لیے ہیں اور جب وہ قربت حاصل ہو جائے تو پھر کسی عبادت کی ضرورت نہیں‌ رہتی،تم نے سنا ہے اور دیکھ بھی لیا ہوگا کہ فردوس بریں میں‌کوئی شخص عبادت کا مکلف نہیں۔ اس لیے کہ جس تقرب انوار لم یزلی کے لیے وہ عبادت کرتے ہیں وہ وہاں ‌پر ہر ایک کو یونہی حاصل ہے۔
حسین: بے شک! وہ مرکز نور منزل مقصود ہے۔اور عبادت اس کا راستہ ہے۔جنت میں پہنچ جانے کے بعد کسی عبادت کی ضرورت نہیں‌رہتی لیکن مومنین ابھی اس کے باہر ہیں ان کی نسبت نہیں کہ وہ منزل مقصود کو پہنچ گئے۔ وہ چل رہے ہں،راستے میں‌ہیں،لہٰذہ ان کو عبادت کرنے کاحکم بھی ہے۔
شیخ: (انتہا سے زیادہ ازخود رفتہ ہوکے اور منہ میں‌کف لاکے)اس پیکر خاکی کوشہبات ہی نے خراب کیا یہ برابر شک کرتاہےاور اپنے شکوک میں غرق ہوجاتا ہے۔سن اے حسین!امام قائم قیامت نے یہ بتایا ہے کہ وہ اس عالم نور میں ہیں‌عالم عنصری سے باہر،اس سے یہی معنی تھے کہ ظاہرًا ان کا جسد اس عالم مادی میں نظر آتاہے دراصل وہ ان مادیات سے دور اوراس سروشستان اعلٰی میں ہیں۔ ان سے ملنے اور ان کے جوار میں جانے کے یہی معنی ہیں‌کہ گویا انسان اس تیرہ ظلمت سے نکل کے لاہوت اکبر کے قریب جاپہنچے پھر وہاں پہنچ جانے کے بعد عبادت کیسی؟
حسین: بجا ہے میرا شبہ دور ہوگیا۔آپ کی تقریریسے ہمیشہ میرے دل کے شکوک دور ہوجاتے ہیں۔اور اسی اطمینان حاصل کرنے کےلیے میں اپنے شبہوں‌کو بلا تامل آپ کی خدمت میں عرض‌کردیتا ہوں۔
شیخ: تم اس امتحان میں بھی پورے اترے۔ اب میں تم کو امام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجتا ہوں۔جاؤ اور ان کے احکام کی بلاعذر اطاعت کرو۔آج صفر کی 20 ہےرمضان کی 27 کو عید قائم قیامت ہوگی؛ اس تاریخ‌کو میں بھی وہاں آؤں گا اورشیخ طور معنی بھی وہاں موجود ہونگے۔ اگر اتنے دنوں‌میں‌تم نے امام قائم قیامت پر اپنی اطاعت کیشی و عقیدت کا پورا اثر ڈال دیا تو میں بھی تمھاری سفارش کروں‌گا اور طور معنی بھی کریں‌گےاور اسی وقت تم کو زمرد سے ملنے میں کامیابی بھی حاصل ہوگی مگر خیال رکھو کہ اس اعلٰی دربار امامت میں انسان کے سر سے بہت سے تکلیفات شروعیہ اٹھ جاتے ہیں۔وہاں‌کی عبادت صرف اطاعت و انقیاد ہے۔ اور اس میں کوتاہی ہوئی تو پھر اسکا علاج نہ میرے پاس ہے اور نہ کسی اور شخص کے پاس۔اس در کا راندہ مردود ازلی اور رحمت الٰہی سے ہیشہ کے لیے محروم ہے۔
حسین: میں کسی حکم سے سرتابی نہ کروں‌گا۔
شیخ:‌وہ ایسا مقام بھی نہیں جہاں‌تم اپنے دل کے شکوک اسی بے تکلفی سے ظاہر کردیا کرو جس طرح‌میرے سامنے کرتے رہے ہو۔
حسین:‌کبھی کسی امر میں شک نہ کروں گا۔
شیخ: اگر اتنے مضبوط ہو تو کل صبح کو تم یہاں سے روانہ ہوکے التمونت کی راہ لو۔ میں‌ایک خط دوں‌گااُسے لےامام کی خدمت میں‌حاضر ہونا اور جب تک وہاں‌سے یا مجھ سے کوئی اور حکم نہ ملے اس دربار کو نہ چھوڑنا۔
حسین: ہرگز نہیں۔اور یہ کہہ کے اس نے پھر شیخ‌کے قدم چوم لیے۔
دوسرے دن علی الصباح‌وہ شیخ علی وجودی سے خط سفارشی لے کے رخصت ہوااور مشرق کی راہ لی۔چند روز میں‌ اصفہان ہوتا ہوا علاقہ رودبار میں‌پہنچا۔ اس سفر میں‌وہ اپنے ہم مذہبوں‌کو حوروں‌ کے بوسے کے نشان سے کہے سنے اور بنائےبغیر پہچان لیا کرتا تھا جو ہر شہر اور گاؤں ‌میں‌اسے ملتے اوراس کے ساتھ نہایت ہی خلوص اور عقیدت سے پیش آتے۔
دیلم کے ایک گاؤں‌میں‌ایک باطنی شخص جواپنی پیشانی کے نشان سے بتا رہا تھا کہ وہ بھی جنت الفردوس کی ہوا کھا آیا ہے،حسین کو نہایت ہی خلوص و پاک دلی سے اپنے گھر لے آیااور کئی دن تک مہمان رکھا۔
اس شخص کے گھر پر ایک صحبت میں کئی ایسے باطنی ہوئے جن کو اسی دوسال کے اندر جنت کی ہوا کھلائی گئی تھی۔لوگوں‌نے صحبت کو اغیار سے خالی اور اپنے ہم خیال لوگوں ہی پر محدود دیکھ کے باہم جنت کا بیان شروع کیا۔اثنائے کلام میں ایک شخص بولا: “ مگر مجھے جنت میں‌بھی ایک تمنا رہ گئی۔“
دوسرا: (حیرت سے) وہ کیا؟
پہلا: وہاں‌ایک ایسی دلفریب نازنین نظر آئی کہ دل بےاختیار ہاتھ سے نکل گیا،لیکن خدا جانے کیا بات تھی کہ ہزار کوشش کی مگر اس آفت زمانہ حور نے بات کا جواب تک نہ دیا۔
دوسرا: واقعی تعجب کا مقام ہے۔جنت میں‌تو ایسا نہ ہونا چاہیے۔کسی حور کی طرف تمھارے دل کو میلان ہواور وہ التفات نہ کرے تو یقینًا سارا لطف خاک میں‌مل جائے گا۔یہ سن کے ایک تیسرا شخص بول اُٹھا: “حقیقت میں اس قسم کے بعض‌تقصانات وہاں‌انسان کو نظر آجاتے ہیں۔اس مسئلے کو میں نے شیخ‌کےسامنے بھی پیش کیاتھا جنھوں‌نےبہت آسانی سے میرا اطمینان کردیا۔اُنھوں نے بڑے جوش و خروش سے کہا تھا اور گویا اس وقت بھی میرے کانوں‌میں‌کھڑے کہہ رہے ہیں: “ تم اپنے مادی پیکر کے ساتھ ہزارہا کثافتیں اور دنائتیں لے کر تو اس عالم نور میں جاتے ہو اور پھر امید کرتے ہو کہ سروشستان کو اسی پاک و مجرد حثیت سے دیکھو جس طرح‌غیر مادی آنکھیں‌دیکھتی ہیں۔یہ خود تمھارے تقصان اور تمھارے مادی عجز ہیں‌جو اس حیز نور کو معیوب دکھاتے ہیں۔“
پہلا: اور ہاں‌میں نے یہ بھی سنا تھا کہ اس حور کووہ تجرد بھی حاصل نہیں‌ہوا جو اوروں‌کو ہے،اس لیے کہ اس کے مادی تعلقات منقطع نہیں‌ہونے پائے تھے۔
دوسرا: بےشک یہی سبب ہوگا،اول تو اس حور میں ذاتًا یہ نقصان موجود تھا، پھر تمھیں اپنی مادی آنکھوں‌سے اورزیادہ بدنما نظر آیا۔
حسین: (کسی قدر تعلق خاطر سے) اور کچھ یہ بھی معلوم ہواکہ اس حور کا نام کیا تھا؟
پہلا:‌ ہاں‌مجھے بتایا گیا کہ اس کا نام زمرد ہے اور میری حور نے جس کے آغوش کا مزہ مجھے زندگی بھر نہ بھولے گا،یہ بھی بتایا کہ اسے کسی خاکی پیکر سے اسقدر تعلق ہے کہ جنت کی سیر کرنے والوں‌میں‌کسی کی طرف التفات نہیں کرتی۔
دوسرے دن حسین یہاں‌سے رخصت ہوکے آگے روانہ ہوا اور دو ہی چار روز میں‌ قلعہ التمونت کے پھاٹک پر کھڑا تھا۔
 

دوست

محفلین
باب نمبر 6 مردودِ ازلی

مردودِ ازلی
قلعہ التمونت کے پھاٹک پر حسین کو روکا گیااور چوں کہ اندر داخل ہونے کا اجازت نامہ پیش نہیں‌ کرسکا، لہٰذہ وہی خط جوشیخ علی وجودی نے دیا تھااس سے لے کے پہلے قلعہ دار کے پاس بھیجا گیا، پھر رکن الدین خور شاہ کے ملاحظے میں‌پیش ہوا،جو ان دنوں‌تمام باطنین کا امام اور علی ذکرۃ السلام کا پوتا تھا۔خورشاہ کا ہنوز عنفوان شبات تھا مگر چوں کہ ان لوگوں کے عقیدے میں امام پیدا ہوتے ہی امام ہوتا ہے، لہٰذہ اس کے تقدس و وجاہت میں نو عمری سے کوئی فرق نہیں آنے پاتا۔ ان کے نزدیک اگر رتبہء امامتحاصل ہوتو ایک چھ برس کا بچہ اور ساٹھ برس کا بوڑھا دونوں‌یکساں معصوم ہیں اور دونوں‌کے احکام یکساں واجب التعمیل ہیں۔یہ سلطنت اورمذہب دونوں حسن بن صباح کی بے نظیر کوششوں سے قائم ہوئے تھےجس کو اب ڈیڑھ سو برس گزرچکے ،اور باوجود یکہ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات ہوگئے مگر اس خاندان کا وہی دور دورہ رہا۔ بعض دلیر اور اولولعزم حملہ آوروں نےدو ایک مرتبہ یہاں‌کی پولیٹیکل قوت کو ضرد پہنچادیا مگر مذہبی اثراب پہلے سے بھی زیادہ ترقی پر ہے اور اتمونت کا قلعہ اسی طرح‌محفوظ اور مامون چلا آتاہےجس پر مخالفت کے ساتھکوئی پرندہ بھی پر نہیں‌مار سکتا۔
مذہبی مقتدائی کا تاج تو یہاں‌کے تاج داروں‌کے سر پر ابتدا ہی سے تھا مگر علی ذکرۃالسلام کے عہد سے یہ لوگ اپنے آپ کو امام اور یادگار خاندان بنی فاطمہ بھی کہنے لگے اس لیے کہ ذکرۃاسلام نے دعوٰی کیا کہ میں جب بچہ تھا،نزار بن مستنصر فاطمی کے پوتے سے مخفی طور پر بدل لیا گیا۔اس وقت سے ان لوگوں‌نے علانیہ امامت کا دعوٰی کردیااوراب اپنے آپ کو نور محض اور لوہوت و ناسوت کا برزخ ظاہرکرتے ہیں۔جو لوگ بادشاہ یاامام کے احکام کو بے عذر و بےحجت آنکھیں بند کرکے بجالاتے ہیں اور جن کے خنجر سے سارا زمانہ کانپ رہا ہے ،فدائی کہلاتے ہیں۔اور ان کی یہ حالت ہے کہ مقتدا اور فرمانروا کے حکم پر جان دینا اور‌خودکشی کرلینا بھی ذریعہء نجات سمجھتے ہیں۔انھیں‌فدائیوں‌کی وجہ سے جو رعب داب رکن الدین خورشاہ کے دربار میں‌ہے،شاید اس عہد کے کسی بادشاہ کے دربار میں‌نہ نظر آتا ہوگا۔یہاں‌کسی کی اتنی مجال بھی نہیں‌ کہ بادشاہ کے امنے بے ادبی و مخالفت کا خیال بھی دل میں‌لاسکے۔
شیخ علی وجودی کا خط دیکھتے ہی حیسن کو باریابی کی اجازت دی گئی۔بڑے بڑے قوی ہیکل اورمہیب شکل وشمائل کے فدائی اُسے پکڑ کے خورشاہ کے سامنے لے گئے۔حسین نے سامنے جاکے جیسے ہی فرمانروائے التمونت کی صورت دیکھی دوڑ کے قدموں‌پر گر پڑااور چلایا: “ ہٰذا امامی! ہٰذا امامی!“رکن الدین اس کو اٹھانے کے لیے جھکنے ہی کو تھا کہ اہل دربار میں‌سے بعض ممتاز لوگوں‌ےاسے اٹھا کر کھڑا کیا اور کہا: ‌“‌بے شک یہی امام زمانہ اور نور محض ہیں‌مگر ادب و صبر سے کام لو اور جوالتجا ہو پیش کرو۔“
خورشاہ: اے نوجوان آملی!تجھ میں‌کیا بات ہی کہ وادیِ‌ایمن تیری انتہا سے زیادہ تعریف کرتے ہیں؟ وہ تیرے علم و فضل کے بھی مداح‌ہیں‌اور تیری بہادری و جان بازی کےبھی؟
حسین: (ادب سےزمیں چوم کے)صرف اس سبب سے کہ میں‌نے ان کی خدمت گزاری میں موئی دقیقہ نہیں‌اٹھارکھا،اور کبھی اس بحر حقیقت کے حکم سے انحراف کرنے کی جرات نہ کی۔
خورشاہ: اور اب شیخ‌نے یہاں‌کس غرض‌سے بھیجا ہے؟
حسین: یاامام قائم قیامت! میں فردوس بریں‌کو ایک نظر اوردیکھنا چاہتا ہوں۔
خورشاہ: (غورکرکے) ابھی تک تو ان اشعات انوار لم یزلی سے یہی آواز آرہی ہے کہ “لن ترانی!“
حسین: مگر امام قائم قیامت کی توجہ نے شفاعت کی تو ممکن نہیں کہ میری آرزو بر نہ آئے۔
خورشاہ: اے بوالہوس پیکر خاکی! ابھی اس کے متعلق تجھے کسی قسم کی امید نہیں‌دلائی جاسکتی۔
یہ کہ کے خور شاہ ایک اور شخص کی طرف متوجہ ہونے کو تھا کہ حسین نے آب دیدہ ہوکے اورنہایت ہی پردرداورمایوسی کی آواز میں‌کہا: “تواس ادنٰی جانثار کوبارگاہ امامت سے اجازت ملے کہ اسی آستانے پر ٹھہر کے اس وقت کا انتظار کرے جبکہ یہ آرزو برآئے گی۔آئندہ عید قائم قیامت کے موقع پر وادیِ‌ایمن بھی ہاں‌تشریف لائیں گے۔ کیاعجت کہ اس دن جب کہ میرے مرشد اور امام یکجا ہوں گے اور مخلوق کو خالق یا پرتو کو نور سے زیادہ قوت فربت ہوگی،میری دعا قبول ہوجائے۔“
خورشاہ: اچھا ٹھہرو،مگر یہ خیال رہے کہ یہاں ‌کے امتحان زیادہ سخت ہیں۔
حسین: میں‌ہر قسم کا امتحان دینے کو تیار ہوں۔
خور شاہ نے اس کے بعد دوسرے شخص کی طرف توجہ کی اور پوچھا“دیدار! تم کب آئے؟“
دیدار: ( ہاتھ جوڑ کے) آج ہی صبح‌کو!
خورشاہ: اورجس کام کے لیے گئے تھے و پورا ہوگیا؟
دیدار: میراخنجر کبھی خالی گیا ہے؟ اگرچہ یہ مہم دشوار تھی مگر میں‌جنت کے شوق میں‌وہاں‌پہنچا اورامام کے حکم کو نہایت ہی کامیابی کے ساتھ پورا کیا۔
خورشاہ: ہاں‌بیان کرو تم نے چغتائی خان کو کیوں‌کر قتل کیا؟
دیدار: یا امام قائم قیامت! ترکستان میں اس جاں‌نثارکا نام متقہ تاھ۔ وہاں‌کی مختلف صحبتوں‌میں‌شریک ہوکے فدوی نے اسی ہر دل عزیزی پیدا کی کہ منقو خان چغتائی خان بہادر کے بیٹے کے دل میں‌مجھ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔اس نے مجھے بلواکے اپنے گھر میں‌رکھا اور کئی مہینے تک یہ حالت رہی کہ جب تک میں‌یہ ہوتا کسی بات میں‌اس کا دل نہ لگتا۔اس نے مجھےاپنے باپ سے ملایا۔اب چغتائی خان بھی میری باتوں ‌کا دیوانہ تھا۔
چند روزبعد دونوں‌باپ بیٹوں‌کا میرے سوا کوئی انیس وجلیس نہ تھا۔چغتائی اپنی ذات سے ایسا زبردست اورقوی واقع ہوا تھا کہ اس پر حملہ کرکے کامیاب ہون مجھے نہایت دشوار نظر آیااور اسی وجہ سے مجھے کئی مرتبہ موقع ملنے پر بھی جرات نہ ہوئی۔آخر ایک روز رات کو جب کہ ہلاکوخان کسی بڑی مہم سے واپس آیا تھا اور منقو خان اس کے ملنے کو گیا تھا،چغتائی خان مجھے تنہا سوتا ہوا مل گیا۔ اس سے زیادہ مناسب موقع ملنے کی امیدنہیں ‌ہوسکتی تھی۔میں‌نے چپکے ہی چپکے پہلے اسکے ہاتھ پاؤں باندھے اور پھر سینے پر چڑھ کے اس کا کام تمام کیا۔ چغتائی خاں ‌کے قتل کع بع میں واپس چلا آتا،مگر مجھے حکمتھا کہ ان لوگوں‌کو یہ بتا بھی دوں کہ چغتائی خاں کے قتل کی وجہ کیاہے۔اس غرض‌کےلیے ان تمام حالات کو ایک خط میں‌لکھ کر میں نے پہلے ہی اپنے پاس رکھ لیا تھا،اب اسی خط کولے کر ہلاکو خان کی فرودگاہ کیطرف چال، خوش نصیبی سے چغتائی خاں ‌کی بیٹی راستے میں‌مل گئی جو ہلاکو خاں سے مکل کےاپنے گھر کو آرہی تھی۔راتکے اندھیرے میں‌میں‌نے وہ خط اس کے ہاتھ میں‌چپکے رکھ دیا ور بھاگ کے قریب کے جنگل میں‌چھپ رہا۔صبح دوسرے دن مجھے معلوم ہوا کہ قراقرم|تاتاریوں کا قدیم دارالسلطنت جو کشغر کے قریب ہے| ماتم کدہ بنا ہواہےاور ہر شخص کو میری جستجو ہے ۔بعد موقع پاکے میں نے ایک غار میں‌ پناہ لی اور پورے آٹھ دن اسی حالت میں‌چھپا بیٹھا رہا۔نویں‌دن جب میدان خالی نظر آیا تو اس غار سے نکل کر ادھر کو روانہ ہوا،جس کے تین مہینے بعد اب آستاں‌بوسی کی عزت حاصل کررہا ہوں۔
خورشاہ: بے شک دیدر تم نے بڑاکام کیااور مستحق ہوکہ تمھیں‌آض ہی جبکی سیر کرائی جائے۔
یہ سنتے ہی دیدار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا،گمر خورشاہ نے خود اسے اپنے ہاتھ سے اٹھایااور ساتھ لے جانے کو تھاکہ حسین نے ازخود رفتگیکے جوش کےساتھ کہا: “اے بے رحم بادشاہ!میں سب سے زیادہ جنت میں جانے کاآرزومند ہوں۔اگر یوں‌نہیں‌تو میرا کوئی امتحان ہو۔ بتایا جائے کہ میں‌بھی کسی کو قتل کروں، مگر آہ1!زمرد کے فراق میں‌صبر نہیں ہوسکتا۔
خورشاہ: ابھی نہ تمھارا امتحان لیا جاسکتاہے اور نہ تم کو باغ فردوس میں‌جانے کا کوئی استحقاق ہے۔
حسین: ( جوش و خروش سے)‌مجھ سے زیادہ کوئی مستحق نہیں! میں‌نے امام نجم‌الدین نیشاپوری کی زندگی کا چراغ‌گل کیاہے،امام نصر بن احمد کے خون میں‌ہاتھ رنگ چکا ہوں،اب اس کے بعد بھی کیاکوئیمجھ سے زیادہ مستحق ہوسکتاہے؟میں صرف اپنی بے صبری کی وجہ سے مستحق نہیں‌بلکہ ایک میں و نشین حور بھی میرے لیے حیران و پریشان ہے۔
یہ گستاخانہ جمہ سنتے ہی سب لوگ چونک پڑے۔بعض‌حسین پر حملہ کرنے کو جھپٹے۔ قریب تھا کہ گرد کے قوی ہیکل غلام اس کی بوٹیاں اڑا دیتے ،مگر خور شاہ نے خود ہاتھ کے اشارے سے سب کو روکا اور نہایت ہی متانت کے ساتھ حسین کی طرف دیکھ کے بولا: “اس گستاخی اور بدتمیزی کی سزا میں تم سے کہا جاتا ہے کہ فورًا قلعے سے باہر نک جاؤ،اور تم ہرگز اس کے مجاز نہیں‌کہ اس فردوس بریں کی پاک زمیں تمھارے قدم سے ناپاک کی جائے۔تمھاری سزا قتل تھی،چند ایسے اباب ہیں‌جن کی وجہ سے میں‌تمھارے قتل تو مناست خیال نہیں‌کرا۔مگر اب یہ نہیں‌ہوسکتا کہ تم اس قلعے میں اک گھّی کےلیے بھی ٹھہرنے پاؤ۔“
حسین کو فورًا اپنی گستاخی کا خیال آیا۔ ایک بے اختیاری کی شان سے وہ زمیں پر گر پڑا ور عاجزی کے لہجے میں‌رو و کے کہنے لگا: “ یا امام قائم قیامت! میری خطا معاف ہو! میں‌جوش عشق میں‌بے اختیار و بے خود ہوگیا تھا۔“ لیکن بالکل شنوائی نہ ہوئی۔ خورشاہ دیدیر کو لیے ہوئی اپنے محل میں‌ چلا گیا۔اور اس کے جاتے ہی لوگوں‌نے حسین کو زبردستی قلعے سے دھکے دے کے قلعے سے نکال دی۔ اُس نے ہزار منت و سماجت کی مگر ایک پیش نہ گئی، بلکہ بعض‌لوگوں‌نے کہا کہ : “ تم بڑے خوش نصٰب تھے کہ صرف خارج‌البلد کیے جاتے ہو،ورنہ یہاں‌گستاخی کی سزا قتل ہے۔“
حسین:‌پھر اب میں‌کیا کروں‌اور کہاں‌جاؤں؟
لوگ:‌ہم نہیں‌جانتے،تمھیں‌اختیار ہے۔
حیسن کی مایوسی کی اس وقت کوئی انتہا نہ تھی۔ صرفت یہی نہ تھا کہ وہ زمردکے وصالسے مایوس ہوگیا بلکہ اپنے آُ کو رحمت باری اور نجات سرمدی سے بھی دور سمجھتا تھا۔ اُس کے عقیدے میں ںتھا کہ جب میں‌اس درگاہ سے مردود ہوگیا تو پھر کہیں ٹھکانانہ لگے گا۔التمونت کے باہر پہاڑوں‌میں‌روتا اور چٹانوں‌سے سرٹکراتا تھا۔دل میں‌آئی کہ اپنے شیخ‌شریف علی وجودی کے پاس جاے ان سے معافی کی درخواست کرے۔ مگر خیال کہ اس بارگاہ امامت سے نکالے جانے کے بعد وہ بھی اپنے وہاں‌پناہ نہ دیں‌گے۔ خیال ہر برف لے جاتا اور ہر طرف مایوسی کے آثار نظر آتے۔آخر اسے زمرد کی نصیحت یاد آئیاور اس کے ساتھ ہی کوہ البرز کی اس گھاٹی اور زمرد کی قبر کی تصویر آنکھوں‌کے سامنے پھر گئی۔ یکایکآُ ہی کہہ اُٹھا: “ تو مجھے وہیں‌چلنا چاہیے؛بس اب میرے لیے وہاں‌کے سوا اور کوئی پناہ کی جگہ نہیں۔“ مگر اس کے ساھت ہ ی دل میں‌خیال گزرا کہ اب تو وہاں‌بھی مقصد وری کی امیدنہیں۔جب اس نورستان اور سروشستان سے میرے تعلقات مطلقًا منقطع کردیے گئے تو وہ بھی مجھ سے ناخوش ہوگی۔ اور اگر بالفرض‌خوش بھی ہویا قدیک محبت ُس کے دل میں‌باقی بھی ہوت ویہ کیوں‌کر ممکن ہوگا کہ امام اور مرشد کے حکم کے خلاب وہ مجھے کسی قسم مدد دے سکے؟ اب تو اتنی بھی امید نہیں‌نظر آتی کہ پہلے کی برح‌اور اپنے وعدے کے مطابق وہ مجھے کامیابی کا کوئی راستہ بتا سکے۔“یہ خیال کرکے وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔بار بار دل میں‌آتی تھی کہ انھیں‌پہاڑوں‌سے ٹکرا کے خودکشی کرلے مگر اس میں‌اور شیادہ مایوسی کا یقین تھا۔آخر اس نے دل میں‌یہی فیصلہ کیا کہ چلو زمرد ہی کہ قبر پر چل کے بیٹحوں۔ اگر مایوسی ہوگی تو بھی یہ کیاکم ہے کہ دل کی الجھن زیادہ بڑھے گی تواس حور وش کی قبر کو سینے سے لگا لوں گا۔
یہ فیصلہ کرکے وہ روتا اور س دھنتا ہوا پہلے قزوین گیا ور پھر قزوین سے نکل کے کوہ زلبرز کی اُسی پرانی گھاٹی میں پہنچا اور وہیں‌مقیم ہوگیا۔اتنے القلابات اور اتنی سرگردانی کے بعد اب پھر وہ معشوقہء دل ربا کی تربت کا مجاور ہے۔ اُسی طرح‌شب و روز عبادت و فاتحہ خوانی میں مصروت رہتا ہے۔قبر کے پاس بیٹح بیٹح کے گھنٹوں‌زمرد کے خیال سے باتیں‌کرتا ہے اور بار بار روکے کہتا ہے:‌“اے میں و نشین نازنین!‌خدا کےلیے اپنی قبر کی طرف توجہ کر اور دیکھ کہ میں‌کیسا حیران و پریشان ہون!آہ تیرے عقق اور تیرے فراق کی بے صبری نے دونوں‌جہان سے کھویا۔نہ ادھر ک ہوا نہ اُدھر ۔نہ اس دنیا ہی کے کام کا رہا اور نہ اس عالم کے کام کا۔مگر او معشوقہءباوفا! او بارگاہ لم یزل کی مقبول نازنین! میرے حال زار پر توجہ کر۔ اس درگاہ میں‌میری شفاعت کر اور اپنی محبت کا صدقہ مجھے اپنے وصل سے مایوس نہ رکھ۔“
یہی خیالات تھے جن کو وہ قبر کے سامنے ظاہر کرتا اور یہی دعا تھی جو ہر وقت اس کے لب پر رہتی۔آخر ایک دن اُس کی امید بر آئی۔صبح سویری آنکھ کوھل کے دیکھا تو قبر پر زمردکا خط رکھا وہا تھا۔ایک ہی نہیں
‌بلکہ دو خط،جن میں‌سے ایک تو سادے لفافے میں بند تھا اور دوسرا کھلا ہوا۔حیسن نے دونوں خطوں‌کو اٹھا کے چوما،آنکھوں‌سے لگایا اورکھلے خط کوپڑھنے لگا،جس کا مضمون حسب ذیل تھا:
“حسین! تو نے بڑی غلطی کی امام قائم قیامت کی خدمت میں اور گستاخی!۔ غنیمت ہے تو بچ گیا۔افسوس! میں‌اپنے دل کو تیری طرف سے نہیں‌پھیر سکتی۔ چند روز کے لیے یہاں‌آکے تو اور مجھے بے تاب کر گیا اور اسی بے تابی کا نتیجہ ہے جو میں‌تجھےیہ خط لکھ رہی ہوں۔افسوس! میں‌وہ کام کرنے پر آمادہ ہوگئی جو مجھے نہ کرنا چاہیے تھی۔مگر مجبوری تھی؛جو بات ہونے الی تھی اکیوں‌کر رکتی۔خیر، اب تو استعدی سے میری تدبیر پر کاربند ہو۔ مگر یہ سمجھ لے کہ یہ بہت ہی نازک کامہے جسے بہت ضبط اور تحمل سے انجام دینا چاہیے۔اگر تو نے ذرا بھی میرے مشورے کے خلاف کیا تو تجھے بھی ضرر پہنچے گا اور مجھے بھی اور پھر ہم کبھی نہ مل سکیں‌گے۔یہ آخری اور سخت تدبیر ہے اور اس کے عمل میں‌لانے پر میں‌اس وقت مجبور ہوئی ہوں جب یقین ہوگیا کہ اب تیرے لیے امید و آرزو کے سب دروازے بند ہوگئے۔ یہ دوسرا خط جو تجھے اس خط کے ساتھ ملے گا اور بند ہے،اسے اسی طرح‌بند رکھ،اس کو لے کے مزق کی طرف روانہ ہو اور سیدھان شہر قراگرم میں‌جا جو کہ کاشغر کے قریب ہے اور وہاں‌مغلوں‌خے شاہی خاندان کی ایک ملکہ ہے بلغان خاتون،کوشش کرکے اس سے تنہائی میں‌مل اور مریا خط اسے دے دے۔ تو اس امر کیکوشش نہ کر کہ اس میں‌کیا اور اور نہ اسامر کو بلغان خاتون کو پوچھنا وہ تجھ سے جو سوال کرے پس اس کا صحیح‌جواب دےدے۔اور ملکہ بلغان خاتون جس امر کاارادہ کرے اس میں‌اس کی مدد کر۔اگر وہ تیرے ساتھ آنا چاہے تواُسے اور جولوگ اس کے ساتھ ہوں‌اُنس سب کو میری قبر پر لاکے کھڑا کردے۔بلغان خاتون غالبًا تجھ سے اخلاق سے پیش آئے گی،اور یقین ہے کہ اپنی قوم کے ایک لشکر کے ساتھ ادھری آنے ک ارادہ کرے۔ تو خموشی سے اُس کی رہبری کرنا۔ اور منتظر رہ کہ پردہء غیب سے کیا ظاہر ہوتاہے۔
بس تیری دل دادہ۔۔۔۔زمرد“
حسین نے یہ خط پڑھنے ہی دوسرے خط کو احتیاط سے اپنے سینے میں‌رکھ لیاور فورًا قراقرم کی طرف چل کھڑا ہوا۔ راسے مں بار بار اس کے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ مجھے وہاں‌بھیجنے سے سمرد کیکیاغرض‌ہے؟ مگر اس خیال کو وہ خود ہی مٹایا اورکہتا: “ ان معاملات کے تجسس سے زمرد نے منع کیا ہے۔“تاہم ایک چیز کی اسے بڑی فکر تھی۔ وہ یہ کہ زمرد نے ملکہ کے سوالوں‌ کا سچ سط جواب دیدے کی ہدایت کہ ہے اور میں‌ایسے ایسے کام کرچکا ہوں‌جن کے ظاہر کرنے میں‌ ہر جگہ جان کااندیشہ ہے۔کیایہ بتادوں‌کہ میں نے امام نجم ‌الدین نیشا پوری کو بے خظا و بے قصور قتل کیا،یا مام نصر بن احمد کی نماز پڑھنے میں‌جان لی؟ اور سب باتیں‌ درکنار وہاں‌تو شاید اگر یہ بی معلوم ہوگیا کہ مجھے فرقہ باطنیہ سے کوئی تعلق ہے تو واجب‌القتل قرار دے دیا جاؤں۔
کئی مہینے جو اسے منازل سفر طے کرنے میں‌صرف ہوئے انھیں‌خیالات اور اسی قسم کے ترددات میں گزرے آخڑ وہ ہرات ہوتا ہوا ترکستان کی حدود میں داخل ہوا اور چند روز بعد خاص شہر قراقرم میں ‌وارد ہوا،جو تاتاریوں‌کا مرکز اور پائے تخت تھا۔قراقرم پہنچ کے بھی اُسے کئی مہینے ہوگئے مگر شاہ زادی بلغان خاتون تک رسائی نہ ہوئی جس کے حسن و جمال کے قصے سارے شہر میں مشہور تھےاور کہا جات تھا کہ وہ اپنے باب کے مارے جانے کے صدمے سے تمام لذائذ‌دنیوی سے علیحدہ ہوگئی ہے۔آبادی سے باہر اس کا ایک باغ تھا جس میں‌ایک وسیع اور دل چسپ شکارگاہ بھی بھی ہوئی تھی،مگر باپ کے غم نے ایسا پژمردہ کردیا تھا کہ اس نے اب اس باغ میں آتان بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایک دن حسین وسط شہر میں کھڑا تھا کہ ناگہاں‌غل ہوا: “شاہزادہ بلغان خاتون آتی ہے۔“ وہ سڑک ے کنارے ٹھہر گیا اور زیادہ انتظار نہیں‌کرنا پڑاتھا کہ ملکہ کئی سہیلیوں‌کےس اتھا گھوڑوں‌پر سوار آئی اور نکل گئی۔حسین شاید جرات کرکے اور جان پر کھیل کر خط اسکے ہاتھ مٰ دے دیتا مگر زمرد نے تاکید کی تھی کہ تنہائی میں دینا۔ مایوسی کیصورت بنائے خاموش کھڑا رہ گیا۔ اور جب شاہزادی نکل گئی تو دل میں‌کہنے لگا: “‌ی تو مشک نظرآتا ہےکہ اس ناز آفریں‌ملکہ کہ خواب گاہ تک میری رسائی ہو۔“
اور چند روز گزرگئے اور اب سنا گیا کہ شاہزادی نے مدت کے بعد باغ اور شکار گاہ میں ‌جانے کا ارادہ کیا ہے۔حسین کو امید پیدا ہوئی کہ غالبًا وہاں‌موقع مل جائے۔اسی خیال سے وہ پہلے ہی سے جاکے شکارگاہ میں‌چھپ رہا۔ وہاں‌بھی ملکہ بلغان خاتون آئی اورچلی بھی گئی مگر حسین کو مقع نہ ملنا تھ انہ ملا۔ کئی دفعہ وہ ملکہ سے دوچار ہوا مگر ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی سہیلی ضرور موجود تھی۔
اب حیسن کو زیادہ مایوسی ہوئی۔ آخری تدبیر یہ تھی کہ نوکری کا امیدوار بن کے ملکہ کی ڈیوڑھی تک پہنچا اور ملازمت کی درخواست دی۔ اتنے دنوں‌قراقرم میں‌رہ کے اس نے چند ایسے دوست بھی پیدا کر لیے تھے جنھوں‌نےاس کی سفارش کیا ور اُسے بہ دشواری ملکہ کے داروغہء اصطبل ہونے کی عزت حاصل ہوگئی۔ اس نوکری کے بعد بھی دومہینے تک اسے تنہائی میں‌ملنے کا موقع نہ ملا۔آخر ایک مرتبہ صبح سویرے جب کہ ملکہ اپنے بستر ناز سے اُٹھ کے غلس خانے کو جارہی تھی اور بالکل اکیلی تھی،وہ سامنے گیااور جھک کے سلام کیا۔بلغان خاتون حسین کو غیر معمولی طور پر سادراہ دیکھ کے ٹھہر گئی اور پوچھا: “کیوں؟“
حسین:‌ (سامنے زمیں چوم کے) سب خیریت ہے مگر شاہ زادی کی خدمت میں‌ایک خط پہنچانا ہے اجس کو لیے ہوئی چھ مہینے سے قراقرم میں پھر رہا ہوں‌اور صرف اس وجہ سے کہ بغیر تنہائی کے مجھے اس خط کے پیش کرنے کی اجاز تنہ تھی،اتنی تاخیرہوئی۔اسی غرض کے لیے مجبورًا میں‌نے شاہزادی کی ملازمت اختیار کیا۔بڑی بڑی نامرادیوں‌کے بعد خوش نصیبی سے آج اس خط کے پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔
یہ کہہ ک اس نے زمرد کا خط نکال کے شہزادی کی طرف بڑھایا۔
شاہد زادی بلغان خاتون تاتاری عورتوں‌میں‌نہیں،تاتاری روءسا کے خالف بھی ایک نہایت ہی شائستہ اور تعلیم یافتہ ملکہ تھی۔وہ فارسی زبان میں بے تکلف گفتگو کرتی تھی۔ اسی قدر نہیں‌بلکہ شعرائے فارس کے کلام کیاچھی طرح‌داد دے سکتی تھی اور مشک سے مشکل اوربلیغ سے بلیغ فارسی کو بوجہ احسن سمجھ لیتی تھی۔خط کو ہاتھ میں لیتے ی اس نے غور سے دیکھ اور لفافے کو سادہ پا کے تعجب سے حسین کو صورت دیکھ اور پوچھا: “ اوریہخط بھیجا کس نے ہے؟“
حسین: شاہ زادی کو پڑھنے کے بعد خود ہی معلون ہوجائےگا۔مجھے صرف اتنا ہی معلوم ہے کہیہ خط کسی انشانکا نہیںبلکہ ایک حور کی طرف سے ہے جس کا نشیمن اس سروشستان اعلٰٰی اور حیز نور میں ہے۔
بلغان خاتون یہ جواب سن کے اورحیرت زدہ ہوگئی ،حسین کی صورت دیکھی اور پوچھا: “ اگر فردوس بریں‌کی کسی حور کا خط ہے توتم کو کیوں‌کر ملا اور تم سے اس کو کیا تعلق؟“
حسین: بس اتنا ہی تعلق ہے کہ میں اس کی یاد میں‌سر دھنتا ہوں ،اورکبھی کبھی وہ کوئی خط کسی روحانی ذریعے سے میرے پاس پہنچا دیتی ہے۔
تاتاری شاہ‌زادی یہ جواب سن کے اور متحر ہوئی۔دیر تکحیسن کو غور سے دیکھتی رہی اور پھر دل میں‌کچھ سوچ کے بولی: “اچھا، اب اسوقت تم جاؤ؛ اس خط کو اطمیں ان سے پڑھ کر میں تم پھر بلاؤں گی اور جو کچھ پوچھا ہوگا پوچھ لوں گی۔“
حسین: (سینے پر ادب سے ہاتھ رکھ کے) بتر،مگر اتنا خیال رہے کہ اس بارے میں جو کچھ دریافت فرمانا ہو،شاہ‌زادی اسی طرح‌تنہائی میں بلا کے دریافت فرمائیں۔میں اپنے راز کسی اور کے سامنے صحیح‌طور پر نہیں عرض‌کرسکتا۔
بلغان خاتون: میں اکیلی ہی ملوں‌گی۔
یہ خط ار حیسن کا بیان ایسی غیر معمولی چیزیں‌تھی کہ شاہزادی بلغان خاتون نہانا بھی بھول گئی۔ حیسن کے واپس جاتے ہی پھر اپنی خواب گاہ کی طرف پلٹ گئی۔تنہا بیٹھ کے خط کو کھولا اورنہایت توجہ و مستعدی سے پڑھنے لگی۔مضمون حسب ذیل تھا:
“ اوغم زدہ اور نیک دل شاہ ‌زادی! تو اپنے باپ کے غم میں‌مبتال ہے جوباطنین کے فدائی دیدار کے ہاتھ سے نہایت دغابازی سے قتل ہوا۔مجھے تیرے رجنو الم سے ہم دردی ہےاور اسی لیے اپنے منصب کے خلات تجھے خبر دیتی ہوںکہ دیدار یہاں التمونت میں‌بیٹھا جنت کے مزے لوٹ رہا ہے۔اگر اپنے باب کا انقام لینا چاہتی ہے،اگر اس جنت کا لطف دیکھنا چاہتی ہے،اگر دنیا کے پردے سے ایک بہت بڑا فتنہ دور کرنا چاہتی ہے تو اسی حیسن کے ساتھ جو میرا خط لایاہے،اورجو جنت کی زیارت کے شوق میں عقل و ہوش بلکہ دین و ایمان تک کھو چکا ہے،کوہ البرز کی وادی میں‌میری تربت پر آ؛قبر کے پتھروں‌کو میں الٹ،اُس کے نیچے تو میرا دوسرا خط پائے گی جو تیری رہبری کرے گا اور تواپنے باپ کے انتقام کےساتھ ایک بہت بڑے طلسم کو توڑ کے دنیا کا سب سے بڑاراز کھولے گی۔اس وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ دنیا اورملاء اعلٰٰی میں کتنا فرق ہے۔حیسنسے تو اس کے حالات پوچھ سکتی ہے جسسے تجھے معلوم ہوگا کہ اس کے دل پر اس فردوس بریں‌کا کتنا اثر ہے جہاں‌میں‌ہوں۔یہی جنت میں‌تجھے بے منت دکھاؤں‌گی۔اور تیری مجرم تیرے ہاتھ میں‌ہوگا۔مگر خیال رہے کہ زمضان کی صبح کو تو میری تربت پرموجود ہو۔اس کےساتھ یہ بھی ضرور ہے کہ کافی تعداد میں‌ایک تاتاری لشکر بھی تیرے قریب ہی موجود رہے۔لیکن میری قبر پر تجھے اپن ےساتھ میں چار آدمیوں‌سے زیادہ گروہ کو نہ لانا چاہیے۔
میں و نشین۔۔زمرد“
بلغان خاتون کے حق میں یہ خط کسی جادو یا تسخیر کے تعقیذ سے کم اثر نہ رکھتا تھا جس کو پڑھتے پڑھتے کبھی وہ انتہا سے زیادہ غضب ناک ہوجاتی اور کبھی کسی خاص مگر حیرت و خیال سے اس کے دل کو گونہ تسکین ہوجتی اوتعجابکی کوئی انتہا نہ تھی۔اس نے خط کو اول آخر تک کئی مرتبہ پڑھا اورکچھ سوچنے لگی،پھر پڑھا اور پھر غوطے میں‌آگئی؛پھر پڑھا،پھر متفکر چہرہ بنا یا اور نازک بلابی رخساروں‌کو ہاتھ پر رکھ کے سوچنے لگی۔ آخر دیر تک تردد و انتشار کے بعد اُس نےحینسکو اپنے سامنے بلوایا اور پوچھنے لگی: “ تم جانتے ہو اس خط میں کیا لکھا ہے؟“
حسین: نہیں‌، مجھے ایکلفظ کی بھی خبر نہیں ۔
یہ جواب پا کے بلغان خاتون نے متجسس نگاہ سے حسین کو گھورکے دیھ اور پوچھا:‌ “ تم مذہب باطنیہ کے پابند ہو؟“
حسین: (ڈرکے)جہ ہاں۔
بلغان خاتون: تم نے جنت کی بھی سیر کی ہے؟
حسین‌: ایک بار دیکھا ہےاور دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے۔
بلغان خاتون: اچھا تمھاری یہ ہوس پوری ہوجائے گی، مگر کیا تمھارا شمار بھی فدائیوں میں‌ہوتاہے؟
حسین: البتہ!
یہ جواب سن کے بلغان خاتون نے حسین کو پھر گھور کے دیکھا اور پوچھا: “‌توتم نے کتنے لوگوں‌کی جان لی ہے؟“
حسین: صرف دو شخصوں‌کی۔ مگر بہت بڑے بڑے شخص،جن کے قتل کرنا مجھے بھی افسوس ہے۔
بلغان خاتون: ان پر خنجر چلاتے وقت تمھیں ترس نہ آیا؟
حسین: آٰیا تھا،مگر مرشد کے حکم سے میں انحراف نہ کرسکتاتھا۔
بلغان خاتون: (‌تعجب سے) مرشدکے حکم سے اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرلینے میں‌کیاتمھیں اپنے نیکو بد کا بھی خیال نہیں آتا؟
حسین: نیک وہ بد ہمیں‌نظر ہی کب آسکتاہے؟ ہم ہر چیز کے ظاہر کودیکھتے ہیں اور شیخ‌ی نگاہینں بابن پر ،یایوں‌کہنا چاہیے کہ اصلی حقیقیت پر پڑتی ہیں۔
بلغان خاتون: اگر مرشد کنویں‌میں‌گرنے کوکہے تو تم گر پڑوگے؟
حسین:‌بلا تامل! یہی ہمارا پہلا عقیدہ اور پہلی ریاضت ہے۔مرشد جس خوبی کودیکھ کےحکم دیتاہےاس کے سامنے برائی یامضرت کی کوئی ہستی ہی نہیں جو ہیں نظرآتی ہے۔
بلغان خاتون: زمرد سے تم سےکیوں‌کر مفارقت ہوئی؟
حسین: میں‌منع کرتا رہا،اس نے مانا نہیں اور کوہ البرز کی اس گھاٹی میں چلی گئی جہاں‌کبھی کابھی پریوں‌کا گزر ہوتا ہے۔ہمارے جاتےہی پریاں‌بھی آ پہنچیں۔ انھون‌ے آتے ہی اسے مار ڈالا۔ اس کی وہاں قبر بنادی جس پر میں مدتوں‌آہ‌و زاری کرتا رہا۔شہادت نے زمرد کو فردوس بریں‌میں پہنچا دیا اور میں‌قبر پر پڑا اپنی موتکا منتظر تھا کہ زمرد نے فردوس بریں‌سے ایک خط بھیج کے مجھے فرقہءناجی باطنیہ میں‌داخل ہونے کی ہدایت کیاوراپنے پاس پہنچنے کا طریقہ بتایا۔اس کی ہدایتوں‌کے مطابق عمل کرکے میں ایک بار اسکے دیدار سے شرف یاب ہوچکا ہوں،مگر افسوس! پھر ملنے کی امید نہیں۔اب دوبارہ یہ کوشش اسی کی زیارت کے لیے آُ کے ذریعے سے شروع وئی ہے،مگر چوںکہ مجھےکچھ پوچھنے کی اجازت ہیں لہٰذہ میں‌آُ کےسامنے اپنی کوئی آرزو بھی پیش نہیں کرسکتا۔
بلغان خاتون حسین کو اس سادہ مزاجی پر حیرت سی ہوئی؛وہ کسی قدر مسکرائی اور کہا: “ بے شک تم اپنی آرزو میں‌بارمراد ہوگےاور تمہاری تمنا بر آئے گی۔لین مجھے بھی اسی مقام تک پہنچا دو جہاں‌زمرد کی قبرہےاور جہاں‌تمکہتے ہو پریوں‌کا نشیمن ہے۔“
حسین: اس امر کا تو مجھے وہیں‌سے حکم ہوچکا ہے‘شاہ‌زادی جس تشریف لے چلیں، یہ غلام ہم رکاب ہوگا۔
بلغان خاتون: حسین:‌اگر میں‌کسی شخص کے قتل کرنے کو کہوں‌تو تم اسے قتل کر ڈالوگے؟
حسین: بے شک!بشیطیکہ اس کے قتل کرنے میں‌کوئی مضائقہ نہ ہو۔
بلغان خاتون:‌یہ قید تم مرشد سے بھی لگاتے ہو؟
حسین: نہیں،مرشد کے تعلقات مرید کے ساتھ اورقسم کے ہیں۔اُن کے ہاتھمیں مرید کو ایک بے جان آلے کی طرح‌رہنا چاہیے۔
بلغان خاتون: خیر تواب میں‌سفر کا سامان کرتی ہوں،تم بھی تیار ہوجاؤ۔
حسین: میں ہر وقت تیار ہوں۔
یہ کہہ کے شاہ‌زادی نےحسین کو رخصت کیا اور خود حمام میں‌گئی۔مگر اسکی حیرت کسی طرح‌کم ہونے کو نہ آتی تھی۔لوگ اس کے مزاج میں‌ کوئی غیر معمولی تغیر پاتے تھےجس کے متعلق ہر شخص سوال کرتا مگر وہ خاموش تھی اور حیرت زدہ۔دوسرے دل علی‌الصباح اس نے ایک سانڈنی سوار کو اپنا ایک خط دے کے کسی طرف روانہ کیا اور کود بھی روانگی کا سامان کرنے لگی۔مگر اس کے لیے ضرور تھا کہ اپنے ابن عم اور شہنشاہ ترکستان منقو خاں سے اجازت حاصل کرے،جس کے لیے وہ ایک ترددمیں‌تھی۔|منقو خاں کو بلغان خاتون کا ابن عم کہا گیا ہے اورچغتائی خاں کی بیٹی۔اس طرح وہ منکو خاں ‌،قبلائی خاں،ہلاکو خاں (پسران تولی خان) کی چچا زاد بہن ہوئی۔ تاہم تاریخ‌میں‌یہ کردار نہیں‌ ملتا۔ شرر کا یہ کردار فرضی ہے۔|
 

دوست

محفلین
باب نمبر 7 بلغان خاتون کا سفر

بلغان خاتون کا سفر
جس روز حسین نے اپنی مینو نشین معشوقہ زمرد کا خط بلغان خاتون کو پہنچایا ہے، اس کے ایک ہفتے کے بعد صبح‌کے وقت وہ تاتاری شہزادی اپنے بھائی منقو خاں کے پاس گئی۔ منقوخاں‌کے پاس اس وقت خاندانِ تاتاری کے کئی معزز رؤسا موجود تھے،جن کے سامنے کچھ کہتے ہوئی وہ جھجھکی اور دیر تک خاموش بیٹھی رہی۔اس کو چپ دیکھ کے منقو خاں‌نے کہا: “ بہن!‌یہ غیر معمولی سکوت کیسا؟“
ایک درباری: شاہ‌زادی اپنے والد کے غم کو ابھی تک نہیں‌بھولیں۔
منقو خاں: ہاں‌بلغان!‌اب تو اس غم کو چھوڑ دو۔ اتنے دنوں‌تک غم و الم میں‌مبتلا رہنا ہماری قومی شجاعت کے خلاف ہے۔
بلغان خاتون: آہ!بھائی! یہ غم بھول سکتاہے؟ ( تھوڑے سکوت کے بعد) خیر،اب یہ باتیں‌تو ہوتی ہی رہیں‌گی،اس وقت میں‌ایک ضروری کام کو آئی ہوں۔
منقو خاں: وہ کیا؟
بلغان خاتون: بھائی! آپ نے تو بہت سی مہمیں سر کی ہیں،مگر اب ارادہ ہے کہ ایک مہم کو میں‌خاص‌اپنے ہاتھ سے انجام دوں۔
اس جملے کے سنتےہی سب لوگ حیرت میں آگئے اور منقو خاں‌نے اُسے گھور کے دیکھا ور پوچھا :“ بہن خیر!‌تو ہے؟کیسی مہم؟ کیا میرے اسلحے نے جواب دے دیا؟فقط تمھارے کہہ دینے کی ضرورت ہے؛ جس ملک یا قوم کوکہو، تم توتم ہو،میرے جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ہمارے بہادر سپاہی جائیں ‌گے اور ایک آن میں‌تہ و بالا کردیں ‌گے۔“
بلغان خاتوں: یہ صحیح ہے،مگر میں‌چاہتی ہوں‌کہ اس کام کو خاص اپنے ہاتھ سے انجام دوں۔
منقوخاں:‌آخر کون سا کام ہے؟ اور کس ملک پر فوج کشی کا ارادہ ہے؟
اس کے جواب میں‌بلغان خاتون نے زمرد کا خط اس کے سامنے رکھ دیا اورکہا: “پہلے اسے پڑھ لیجیے،پھر پوچھیے گا۔“
منقو خاں نے خط کو اول سے آخر تک پڑھا،لیکن ختم کرنے سے پہلے ہی اس کی آنکھوں‌سے شعلے نکلنے لگے۔اس نے غضب آلود چشم و ابرو اور خم شدہ ہونٹوں‌سے خط کو تمام کر کے غصے سے پھینک دیا اور کہا: “ بہتر بہن! تم مطمئن رہو؛ میں‌کل ہی ہلاکو خاں‌کو لکھتا ہوں۔“
بلغان خاتون: نہیں، یہ میرا کام ہے اور میرے ہی ہاتھ سے پورا ہوگا۔
منقو خاں: تم جاکے کیا کروگی؟ جنگ و پیکار تمھارا کام نہیں۔
بلغان‌خاتون:‌اسی خیال کو دنیا سے مٹا کے میں‌ثابت کرنا چاہتی ہوں ‌کہ عورتیں بھی ویسی ہی بہادر ہیں‌جیسے مرد۔اگر موقع دیا جائے تووہ بھی کسی معاملے میں‌مردوں‌سے کم نہ رہیں‌گی۔اورابھی تو یہ بھی معلوم نہیں‌کہ وہاں‌لڑائی کی بھی ضرورت ہوگی یا نہیں۔
منقو خاں: بے شک ہوگی؛ بغیر اس کے کامیابی ممکن نہی۔ باقی رہی عورتوں‌کی شجاعت،میں‌تسلیم کرتا ہوں‌کہ عورتوں‌کی حکومت مردوں‌سے بڑھی ہوئی ہے۔بڑے بڑے تاج دار اور بڑے صف شکن جو عالم کے تخت الٹ دیتے ہیں اور ساری دنیا کے بہادروں‌کے دست و بازو کو تھکا دیتے ہیں، ان پر بھی جو حکومت کرتی ہے وہ عورت ہے۔مگرعورت کے اسلحہ دوسرے ہیں۔۔وہ تیراورخدنگ،شمشیر و خنجر سے نہیں‌لڑتی،بلکہ اپنے حریفوں‌پر تیرِ نظر،خدنگِ ناز،شمشیر ابراوار خنجر مژگاں‌سے فتح‌یاب ہوتی ہے۔ لیکن عورت کے یہ اسلحے میدانوں میں‌کارگر نہیں ہوسکتےجس میدان میں تم جانا چاہتی ہو۔ ایسے میدانوں‌کی فتح مردوں‌ہی کے اسلحے کے نام پر ہے۔
بلغان خاتون نے اس جواب پر شرمندہ ہو کے سرجھکا لیا، مگر نیچی نظروں‌ہی میں‌اس نے پھر متانت پیدا کی اور کہا: “ بھائی! ایسا نہ سمجھیے۔ میں اسی طرح‌بہادری اور جاں‌بازی سے مقابلہ کروں‌گی جس طرح کسی بہادر تاتاری لڑکی کو لڑنا چاہیے۔“
منقوخاں: یہ میں‌جانتا ہوں، مگر جس وقت تک ہم لوگ زندہ موجود ہیں‌تم سی نازنین کو میدان جنگ میں قدم رکھنے کی زحمت نیں دی جاسکتی۔اورآخر تمھارے جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
بلغان خاتون: صرف یہ میرا کام ہےاور اپنے فرض سے میں آپ ہی سبکدوش ہونا چاہتی ہوں۔
منقو خاں:‌خیر ایسا ہی شوق ہے تو چلو، مگر میں‌بھی ساتھ چلوں‌گا، یہ مجھے نہیں‌گوارا ہوسکتا کہ خاندان مغلیہ کی ایک معزز شاہزادی اپنے نامور عزیزوں‌کے ہوتے ہوئی تن تنہا میدان کارزار میں‌قدم رکھے۔
بلغان خاتون:‌مگر بھائی، وہاں‌کسی بڑی لڑائی کی امید ہی نہیں؛ہمارے چند سپاہی بھی ہوں‌گے توکامیاب ہوجائیں‌گے۔
منقوخاں: یہ نہ سمجھو۔جولوگ سردار کے ادنٰی اشارے پر جان دینے کو تیار ہوجائیں اُن سے ڈرنا چاہیے۔
بلغان خاتون: مگر تاتاریوں‌کا رعب آج کل دلوں‌پر اس قدر بیٹھا ہواہے کہ میں‌تو یہ سمجھتی ہوں‌وہ لوگ بے لڑے بھڑے ہتھیار رکھ دیں‌گے۔
منقو خاں:‌ بے شک ہمارا ایسا ہی رعب ہے،مگر پھر بھی ایک قدیم اور ڈیڑھ سو برس کے شاہی و مذہبی خاندان کو جڑ سے اکھاڑ کے پھینک دینا آسان نہیں۔
منقو خاں‌آخر تک اصرار کرتا رہا مگر شہزادی بلغان خاتون نے اس کی شرکت کسی طرح گوارا نہ کی ۔ جب دیکھا کہ تاجدار بھائی کسی طرح منظوری نہیں دیتا تو جھک کے اس کے کان میں کچھ کہا جسے سن کے تھوری دیرتک غور کرتا رہا،اورآخر بڑی دیر کی حجت وتکرار کے بعد قرار پایا کہ اُولعزم شاہزادی پانچ سو سوار ساتھ لے کو روانہ ہوجائے۔ بلغان خاتون واپسی کے لیے اٹھتے اٹھتے ٹھہر گئی اور خط کو دوبارہ بھائی کے سامنے پیش کرکے بولی: “ مگر ذرا دیکھ کے یہ بھی بتلا دیجیے کہ مجھے کب یہاں سے روانہ ہوجانا چاہیے؟زمرد نے کس تاریخ‌کو بلایا ہے؟“
منقو خاں: ( خط پڑھ کے) رمضان کی 27 تاریخ۔
بلغان‌خاتون:‌ خدا جانے اس تاریخ‌ کے معین کرے سے کیا غرض‌ہے،تو پھر مجھے کوچ کر دینا چاہیے؟
منقو‌خاں: اس میں بھی کوئی بات ضرور ہےاور میری سمجھ میں تویہ بھی نہیں آتا کہ اس گھاٹی میں پہنچنے کے بعد تمھیں‌کیا پیش آئے گا۔ممکن ہے اس عورت نے جواپنے آپ کو حور بتاتی ہے فریب کیا ہو۔
بلغان خاتون: اس کی تحریر اور اس کے اس بے تکلفانہ دعوت سے مجھے فریب کی امید نہی۔ باوجود اس کے محض‌اسی خیال سے میں‌نے تھوڑے سے سپاہی ساتھ لے جانے کا ارادہ کرلیا۔اور آپ تو جانتے ہیں‌ کہ اپنی حفاظت کا میں‌نے پورا بندوبست کر لیا ہے۔ہاں توزمرد نے رمضان کی 27 تاریخ‌کو مجھے بلایا ہےاور آج کون تاریخ‌ہے؟
منقو خاں:‌ جمادی‌الاول کی 20۔ قریب قریب چار مہینے باقی ہیں۔ راستہ بھی تین مہینے سے کم کا نہیں۔اگر جلدی پہنچ گئیں‌تو راستے میں کسی جگہ ٹھہر جانا۔ اگر جانا ہے تو کل ہی کوچ کر دینا چاہیے۔
اس کے بعد منقو خاں‌نے کچھ آپ ہی سوچ کے کہا: “ہاں! خوب یاد آیا،بلغان خاتون! ایک دو دن اورٹھہر جاؤ۔آج کے چوتھے دن ہلاکو خاں ‌کی کمک کو چالیس ہزار سپاہیوں‌کا بڑا بھاری لشکرجانے ولا ہےجس کو طولی‌خاں‌لے جائے گا؛ اسی کےساتھ تم بھی ہولینا۔یہ لوگ بھی اسی طرف جائیں‌گے جدھر تم جاتی ہو،بلکہ انھیں تم سے آگے جاناہے۔ہلاکو خاں دیلم میں‌ہے اور سلطان دیلم کی تخت گاہ پر قابض ہوچکا ہے ۔ فی‌الحال اُس کا تعاقب کررہا ہے۔اس فوج کے پہنچنے کے بعد وہ ارض عراق کا عزم کرے گا اور ارادہ ہے کہ خلیفہء بغداد کو بھی اس کی سرتابیوں اور غرور کی سزا دی جائے۔
بلغان خاتون:‌ایک دو دن کی بات ہے،میں‌ٹھہر جاؤں‌گی۔ان تمام امور کا تصفیہ کرکے بلغان خاتون اپنے مکان کو واپس آئی اور حسین کو بلا کے کہہ دیا:‌“ پرسوں‌کوچ ہے،تیار ہو رہو۔“حسین نے سینےپر ہاتھ رکھ کے اور ادب سے سر جھکا کے جواب دیا:‌ “ مجھے تو جس وقت حکم ہوحاضر ہوں۔“
دوسری طرف منقو خاں‌کا بیٹا طولی خاں بھی کوچ کا سامان کرنے لگا اور اس کےساتھ کے لیے چالیس ہزارجوانوں‌کو تیاری کا حکم دے دیا گیا۔ آخری رات سپاہیوں‌نے عجیب ذوق و شوق اور بڑی دھوم دھام میں‌بسر کی۔ قراقرم کےدر ودیوار سے جوش و خروش نمایاں‌تھا۔ہر طرف ایک چہل پہل تھی،لوگ اِدھر اُدھر دوڑتے پھرتے تھے۔جو اپنے گھروں‌اورخیموں‌میں‌تھے وہ خوشی خوشی اسلحہ بھی درست کرتے جاتے تھے اور عزیزوں‌یابیوی بچوں‌سے بھی رخصت ہوتے جاتے تھے۔صبح سویرے ہی کوچ کا طبل بجا اور تاتاریوں‌کے غول اپنے اپنے نشانوں‌اور بیرکوں‌کے نیچے جوش ومسرت میں کودتے،اپنے قومی گیتوں‌کو گاتے اور شور کرتے آگے بڑھے۔
یہ فوج مختلف حصوں‌میں‌تقسیم ہوکے روانہ ہوئی۔ قرافل کے پانچ ہزار جوان آگے بڑھ گئے۔ پھر جرانغار و برانغار پانچ پانچ ہزار کی ٹکڑیاں‌داہنے باہنے پھر گئیں،پانچ ہی ہزار کا ایک گروہ پیچھے قول میں‌رہا اور درمیان یا قلب میں پورے بیس ہزار ترک جدا جدا فوجوں‌اور پرچموں‌میں‌بٹے ہوئے آگے پیچھے روانہ ہوئے،جن کے بیچ میں طولی خاں اور بلغان خاتون دو مضبوط اور گھٹے ہوئے ترکی گھوڑوں‌پر سوار تھے۔ تاتاری کمانیں اورنیزے چاروں طرف سے حلقہ کیا ہوئے تھے۔اور ہر چہار طرف سے جوش و ولولے کی صدائیں اور فتح و نصرت کے نعرے بلند ہورہے تھے۔
تاتاریوں‌کا یہ طوفان ایک ٹڈی دل کی طرح‌راستےکی تمام چیزوں کو خراب و تباہ کرتا چلا جاتا تھا۔جو گاؤں‌ نظر آتا آدمیوں‌سے خالی ملتا،اسلیے کہ ان بے رحم و جری لٹیروں‌کی آمد کی خبر پاتےہی لوگ اپنے گھر چھوڑ چھاڑ کے بھاگ کھڑے ہوتے،جن کے ویران وغیر آباد گھروں‌ اور مکانوں‌کو آگ لگا دی جاتی۔یہ لوگ جوں‌جوں آگے بڑھتے شہر اور گاؤں‌مسمار و منہدم اور جل جل کے خاک سیاہ ہوتے جاتے۔رعایا میں‌سے مرد،عورت،بوڑھا،بچہ جو شخص‌ملتا ان انسان کا شکار کھیلنےوالے وحشیوں‌کے ہاتھ سے قتل ہوجاتا۔ الغرض یہ لوگ تمام علاقہ غزنی و خراسان کو تباہ کرتے بحر خزر کے کنارے کنارے چلے اور مازندران پہنچے۔ پھر وہاں‌کے گاؤ‌ں تخت تاراج کرکے آذربائیجان کی طرف نکل گئے اسلیے کہ ہلاکو کے اسی طرف ہونے کی خبر تھی،کیوں‌کہ وہ سلطان دیلم کے تعاقب میں شمال کی طرف زیادہ بڑھ گیا تھا۔مگر بلغان خاتون اپنے ساتھ کے پانچ سو سواروں کے ساتھ جبال طالقان کے دامن میں نہر ویرنجان کے قریب خیمہ زن ہوگئی۔ عین اس مقام پر جہاں‌اس ناول کی ابتدا میں‌ہم نے حسین و زمرد کو پایا تھا۔جس وقت یہ پانچ سو تاتاری اس سرزمیں پر پہنچے ہیں‌رمضان کی 18 تاریخ‌تھی۔مجبورًا چند روز اسی جگہ فروکش رہنا پڑا جس سے زیادہ کوئی مصیبت تاتاری لشکر کے لیے نہ تھی۔ان لوگوں‌کے لیے یہ معمول تھا کہ جب تک لوٹتے مارتے رہتے اسی وقت تک اچھے اور خوش حال رہتے اور جہاں‌کسی جگہ قیام ہوگیا،محض اس وجہ سے کہ نئے شہر اور قصبے لوٹنے کو نہ ملتے ،فاقے کرنے لگتے۔لیکن یہاں‌کیا کرتے؟ مجبوری تھی،سب نےانتظار کے دن فقر وفاقے سے بسر کیے،نویں‌دن ٹھیک 27 تاریخ‌کو بلغان خاتون صبح‌ہی سے کسی کے انتظار میں تھی اور جوں‌جوں‌دیر ہوتی جاتی تھی اس کی پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ آخر جب اس نے دیکھ کہ وقت نکلا چلا جاتا ہے تو بڑے پس وپیش کے بعد تین زبردست فوجی جوانوں‌کو ساتھ لے کے چل کھڑی ہوئی اور حسین اس کا رہبر ہوا۔باقی ماندہ تمام ہمراہی وہیں چھوڑ دیے گئے۔حسین اور تاتاری شہزادی سڑک چھوڑ کے نہرویرنجان کے کنارے کنارے چلے اور بہ دقت و دشواری گھاٹیوں‌اورجنگلوں‌سے گزر کے اس مرغزار میں جاپہنچے۔حسین نے زمرد کی قبر بتا کے فاتحہ خوانی کی اور کہا: “ یہی پتھر ہیں‌ جن کے نیچے میری زمرد کا پیکر عنصری آرام کررہا ہے۔“
بلغان خاتون نے زمرد کا خط نکال کے پھر پڑھا اور زمرد کی ہدایت کےمطابق قبر کے پتھروں‌کو خود اپنے ہاتھوں‌سے ہٹانے لگی۔ چار ہی پانچ پتھر ہٹے ہونگے کہ حسب وعدہ زمرد کا دوسرا خط مل گیا جسے کھول کے اس نے چپکے چپکے پڑھا اور ذرا متردد ہوکےسامنے کیطرف نظر بڑھا بڑھا کے دیکھنے لگی۔
چند ہی لمحوں‌کے بعد سوچا اور اپنے ایک ہمراہی کے کان میں کچھ کہنے کو جھکی۔ تاتاری سپاہی شاہزادی کا راز سنتے ہیں واپس روانہ ہوا اور وہ خود حسین کی طرف دیکھ کے بولی: “چلو“
حسین: ‌کہاں؟
بلغان خاتون: جہاں‌میں‌چلوں۔
اتنا کہتے ہیں‌باقی ماندہ سپاہیوں‌کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور چل کھڑی ہوئی۔حسین کو بھلا کیا مجال انکار تھی،بےعذر ساتھ ہولیا۔
بلغان خاتون اس وادی کے شمالی کونے کی طرف چلی۔اسی طرف جدھر سے حسین نے کبھی پریوں کو آتے دیکھا تھا۔جاتے جاتے تقریبًا دو گھنٹے کےبعد وہ ایک سرسبز پہاڑ کےدامن میں‌پہنچی،اور گواس طرف کوئی راستہ نہیں نظر آتا تھا مگر وہ برابر بڑھتی چلی جاتی تھی۔ حسین ایک عقیدت کیش مرید کی شان سے بےعذر اطاعت کر رہا تھا، مگر ہمراہی سپاہیوں‌کو حیرت تھی کہ شاہزادی انھیں‌کہاں‌لیے جاتی ہے بلکہ ایک نے آگے بڑھ کے ادب سے پوچھابھی کہ: “ادھر تو راستہ نہیں ہے؟“ جس کے جواب میں بلغان خاتون نے کہا: “کچھ بولو چالو نہیں، خاموش چلے آؤ۔“
پہاڑ‌کی جڑ میں‌پہنچ کے وہ ایک تیرہء تار غار میں‌گھسی اور ساتھیوں‌سے کہا: اس طرح چلو کہ کسی کو آہٹ معلوم نہ ہو۔“شاہزادی کے حکم کے مطابق سب لوگوں سے جہاں‌تک ممکن تھا آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے چلے۔غارکے اندر بالکل اندھیرا تھااور سب ہاتھوں‌سے ٹٹولتے اور دونوں‌طرف کی کنگروں سے بچتےچلے جاتے تھے۔پندرہ بیس منٹ کے بعد دوراوپر کچھ روشنی نظر آئی جس کی نسبت معلوم ہوا کہ غار کے اس طرف کا دھانہ ہے۔ آخر بلغان خاتون اس غار سے باہر نکلی مگرجب غار سے باہر نکل کے دیکھا تو یہ مقام بھی کچھ کم وحشت ناک نہیں، اس لیے کہ یہاں‌بہت ہی گھنا جنگل تھا،جس کے درخت اسطرح‌ملے اورجڑے تھے کہ آفتاب کی روشنی بمشکل زمیں تک پہنچتی تھی۔
شاہزادی اس جنگل میں پہنچتے ہی بائیں ہاتھ کی طرف مڑ گئی۔اب اُس کا رخ‌مغرب کی طرف تھا اور درختوں‌میں پھنستی اور کانٹوں‌میں‌الجھتی برابر آگے چلی جاتی تھی۔ ساتھ والے اس دشوار گزار راستے کو دیکھ کے گھبرا گئے تھے اور دل میں‌حیران تھے۔آخر یہ جنگل یکایک ایک پہاڑ کے پاس ختم ہوگیاجہاں‌پہنچ کے شاہزادی پھر داہنے ہاتھ کی طرف مڑی اور پہاڑ‌ کے دامن ہی دامن میں دور تک چلی گئی۔ ایک مقام پر پہنچ کے اسے نظر آیا کہ جیسے کسی ناگہانی صدمے کے باعث‌پہاڑ پھٹ گیا ہےاور درمیان میں ایک بہت ہی پتلی اور لمبی گلی پیدا ہوگئی ہے،جس سے ایک سے زیادہ آدمیوں‌کا گزرنہیں‌ہوسکتا۔
بلغان خاتون نے اس گلی کو غور سے دیکھا،چاروں‌طرف نظر دوڑائی اور جیسے دل ہی دل میں‌کچھ مطمئن ہوکے اس گلی کے اندر گھسی،مگر اندر جانے سے پہلے اس نے ایک اور ہمراہی سپاہی کے کان میں‌جھک کےکچھ کہاجس کے ساتھ ہی وہ بھی واپس چلا گیا۔ اب شاہزادی،حسین اور باقی ماندہ ایک جوان کو ساتھ لے کےگلی میں داخل ہوئی۔گلی کے اندر ایک مقام پر ایک گٹھڑی پڑی ملی جسے شاہزادی نے کھول کے دیکھا اس کے اندر ایک زنانہ کپڑوں‌کا جوڑا تھا ور دو مردانے جوڑے بالکل دہقانیوں اور گائے بھینس پالنے والوں‌کی وضع کے تھے۔شہازادی نے دونوں جوڑے حسین اور اپنے دوسرے ساتھ کو دے کے کہا: “ اپنے کپڑے اتار کے یہاں رکھ دو اور یہ کپڑے پہن لو۔“یہ کہہ کے وہ خود بھی ہو زنانہ جوڑا پہننے لگی۔ جب سب کپڑے پہن کے تیار ہوگئے تو اگرچہ یہاں ‌اندھیرا تھا،حسین کو شاہزادی کی وضع ولباس پر حیرت ہوئی اور وہ تعجب سے دیکھنے لگا۔
بلغان خاتون: کیوں‌حسین!‌تعجب کس بات کا؟
حسین:‌کیاعرض کروں،یہ لباس پہن کے تو آپ دنیاوی شاہزادی نہیں، آسمانی حور معلوم ہوتی ہیں۔
بلغان خاتون یہ سن کے مسکرائی اور بولی : “ بس چپکے سے چلے آؤ!“ اورآگے کو روانہ ہوئی۔یکایک معلوم ہوا کہ آڑی چٹان نے راستہ بند کردیا ہے۔ بلغان خاتون نےجب مڑ کےدیکھا تو نیچے ایک چھوٹا سا سوراخ‌نظر آیا جس میں‌سےایک آدمی بمشکل سمٹ سمٹا کے نکل سکتا تھا۔اسی سوراخ سے وہ نکلی اور ہمراہیوں‌کو بھی نکلنے کا حکم دیا۔اس دشواری کو جھیل کے شاہ‌زادی آگے بڑھی،لیکن ایک سب سے بڑی مشکل نظرآئی۔وہ یہ کہ ایک زبردست فولادی دروازہ تھا جو دوسری طرف سے بند تھا۔مگر بلغان خاتون نے دروازے کے داہنے بازو کے برابر سے ایک پتھر نکالاجس کے ہٹتے ہی ایک روشن دان سا ہوگیا اس روشن دان میں‌ہاتھ ڈال کے اس نے دروازے کی کنڈی کھول لی اور حسین کی روز آوری سے دروازہ اندر کی طرف ہٹ آیا اورجانے کا راستہ ہوگیا۔
اس دورازے سے نکلتے ہی بلغان خاتون نے حیرت سے دیکھا کہ عجب فرحت بخش اور راحت افزا چمن لگے ہوئے ہیں۔پھولوں ‌کی بہار اور طیور کی نغمہ سنجیاں‌دیکھتے ہی بے ساختہ اس کی زبان نکل گیا “واہ“۔مگر حسین جو اس مقام کو آنکھیں پھاڑ‌کے اور حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ شاہزادی کی زمان سےیہ لفظ سن کے بولا:‌‌ “ مجھے تو فردوسِ‌بریں‌یہی معلوم ہوتی ہے مگر کیوں‌کر کہوں؟“
بلغان خاتون: اب میں تمھیں‌حور نظر آئی ہوں‌تو ضرور ہے کہ یہ باغ‌جنت نظر آئے۔مگر پھر غور سے دیکھو کیا یہی وہ فردوس بریں ہےجس کی تم سیر کرچکے ہو۔“ یہ کہہ کے شاہ زادہ ذرا مسکرائی۔
حسین: بعینہ وہی مقام معلوم ہوتا ہے ۔خداوندا!‌میں‌ خواب دیکھتا ہوں‌یا بیدار ہوں؟ اور ہاں‌دیکھیے طیور کے نغمے سے بھی وہی آواز نکلتی ہے “ سلام علیکم طبتم فادخلوہا خالدین۔“
بلغان خاتون: اس کے کیا معنی؟
حسین: اللہ جل شانہ نے قر آن پاک میں‌وعدہ کیا ہے کہ جنت میں‌انھں الفاظ سے لوگوں‌کا خیر مقدم کیا جائے گا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ “ تم پر سلام ہو!پاک ہوگئے تم لوگ اور ہمیشہ کے لیے جنت میں‌داخل ہو!“
حسین نے زبان سے تو یہ جواب دے دیا مگر اس وقت دل و دماغ اور آنکھوں‌ پر ہر ساعت زیادہ حیرت مستولی ہوتی جاتی تھی۔ وہ ہر چیز کو گھبرا گھبرا کے دیکھتا اور بار بار کہہ اُٹھتا؛‌“ یا تو میں‌آسمان پر پہنچ گیا یا فردوس بریں‌نیچے اتر آئی۔یہ تو بعینہ وہی باغ‌ہے جس میں‌مَیں‌ زمرد کے ساتھ سیر کرتا پھرتا تھا۔“
بلغان خاتون:‌ فردوس بریں تو تم پہنچ ہی گئے،اب مطمئن رہو زمرد سے بھی ملا دوں‌گی۔
حسین کو جنت میں‌ پہنچ جانے کا تو یقین ہو ہی گیا تھا شاہزادی کی زبان سے یہ فقرہ سن کے اس کے قدموں‌پر گر پڑا اور کہنے لگا:‌ “ آپ نے اس راہ میں‌رہبری کی ہے جس میں اب شیخ‌علی وجودی سے بھی دست گیری کی امید نہ تھی۔یہ احسان ہمیشہ لوح‌دل پر نقش رہے گا۔“
بلغان خاتون: ( حسین کو زمین سے اٹھا کے) ذراصبر و تحمل سے کام لو۔ زمرد سے ملنے کے لیے شرط ہے کہ چپکے ساتھ چلے چلو۔ایسااضطراب ظاہر کرو گے تو کام بگڑ‌جائے گا۔
یہ کہہ کے شہزادی نے پھر زمرد کا خط نکال کے پڑھا اور دونوں‌ہمراہیوں‌کو ساتھ لیے ہوئے ایک جانب چل کھڑی ہوئی اور چند منٹ ‌میں‌وہ قصروں اور کوشکوں‌کے قریب تھی۔
حسین اس نظر فریب سین کو کھڑا نہایت ہی حیرانی و ازخود رفتگی سے دیکھ رہا تھا۔ ناگہاں‌ایک حسین و نازنین عورت شاہزادی کے سامنے آئی اور اس کے پاؤں‌چومنے کو جھکی۔
بلغان خاتون: ‌تم کون ہو؟ مگر اس کے ساتھ ہی حسین کی نظر جا پڑی؛ ایک بےاختیاری و خود فراموشی کے جوش میں‌اس کی زبان سے نکلا : “ زمرد!“ ااور دوڑ کے لپٹ‌گیا۔
زمرد: ( حسین کو اپنے سے علیحدہ کرکے) ذرا صبر کرو،پہلے مجھے شاہزادی کے سامنے اپنی احسان مندی ظاہر کرنے دو۔
بلغان خاتون: تو تم ہی زمرد ہو؟ یہ کہہ کے اس نے زمرد کو گلے سے لگا لیا اور بولی: “میں‌نے تو کیا احسان کیا ہے، ہاں‌تمھاری البتہ انتہا سے زیادہ شکر گزار ہوں۔اگر تم مدد نہ کرتیں‌ تو مجھے غم و الم سے کبھی نجات نہ ملتی۔“
زمرد: (ذرا مسکرا کےاور کسی قدر ندامت سے) مگر شاہ‌زادی! اس میں‌میری بھی خود غرضی شامل تھی۔
بلغان خاتون: اسے خود غرضی نہ کہنا چاہیے؛ یہ اس سادہ لوح‌نوجوان پر تمھارا احسان ہے کہ اپنی محبت سے اسے عزت بخشی اور اتنے بڑے اور اس قدر گہرے فریب سے نجات دلائی۔
اس کےبعد زمرد حسین کی طرف متوجہ ہوئی اور پوچھا: “ اب تو تم پر سارا راز کھل گیا؟“
حسین: ‌راز کیسا؟ میں‌نے تو شاہ‌زادی کے حکم کی اطاعت کی، اور صرف اس وجہ سے کہ تمھاری ہدایت یہی تھی۔
بلغان خاتون: نہیں میں‌ نے بھی ان سے کچھ نہیں کہا اور نہ تمھاراکوئی خط دکھایا ہے۔مگر جب سےیہ اس باغ میں‌داخل ہوئے ہیں‌انتہا سے زیادہ پریشان و بدحواس ہیں۔اب اپنے ساتھ لے جاؤ اورجو کچھ کہنا ہوکہہ دو،تاکہ یہ وحشت ذرا دور ہواور آدمی بنیں۔
زمرد: ‌افسوس!اس غلطی میں یہ ایسے ایسے کام کرچکے ہیں‌ کہ اطمینان تو انھیں بڑی مشکلوں‌سے نصیب ہوگا۔
بلغان خاتون: ‌لیکن اب یہی مصلحت ہے کہ انھیں‌اپنے قصر میں‌لے جاؤ اور کوشش کرو کہ ان کی آنکھوں‌ کے سامنے سے فریب کا پردہ ہٹے۔ مگر ہاں‌پہلے مجھے تو بتا دو کہ یہاں‌کسی کاخوف تو نہیں؟تمھارے لکھنے کے مطابق میں‌آنے کو تو چلی آئی مگر اندیشہ ہے کہ کوئی خرابی نہ اٹھ کھڑی ہو۔
زمرد: شاہزادی! آپ مطمئن رہیے،کسی بات کا اندیشہ نہیں۔آج شام تک آپ یہاں‌بے کھٹکے رہ سکتی ہیں۔مگر وہ جو میں‌نے لکھا تھا اس کا بھی بندوبست آپ نے کرلیا ہے؟
بلغان خاتون: سب سامان کرچکی ہوں، اگرچہ اس کے متعلق مجھے ذرا تردد ہے۔
زمرد:‌وہ کیا؟
شاہ‌زادی: خیر کوئی مضائقہ نہیں،اس کو پھر بیان کروں‌گی۔یہ کہہ کے اس نے باقی ماندہ جوان کو بھی جو ساتھ آیا تھا، کان میں کچھ کہہ کے واپس بھیج دیااور زمرد سے پوچھنے لگی:‌ “اوریہ توبتاؤ کہ قلعے پر کدھر سے حملہ ہوسکتا ہے؟“
زمرد: آپ قلعے میں ہی ہیں،مگر اتنا حصہ قلعے سے علیحدہ کردیا گیاہے۔اگرچہ غیر لوگ یہاں‌نہر ویرنجان کے ذریعے سے اور بیرونی دیوار کے نیچے سے لائے جاتے ہیں، مگر اسی نہر کے اُس طرف خور شاہ کا محل ہے۔
حسین:‌ ( چونک کے) خور شاہ کا محل! وہ یہاں‌کہاں؟ وہ تو قلعہ التمونت میں ہے؟
بلغان خاتون: ( ہنس کے) اب انھیں ان کے قصر دری ہی میں‌پہنچادو جس کے دیکھنے کا انھیں‌شوق ہوگا۔باقی باتیں‌پھر آکے کرنا۔یہ اگر یہاں‌موجود رہے تو بات نہ کرنے دیں‌گے۔
زمرد:‌بے شک شاہ‌زادی! آپ بجا فرماتی ہیں۔ میں انھیں وہاں‌بٹھا کے ابھی آتی ہوں۔
یہ کہہ کے اس نے حسین کا ہاتھ اپنےہاتھ میں‌لیا جو ابھی تک بے ہوشی کے عالم میں‌کھڑا تھااور شاہ زادی کو تنہا چھوڑ کےاسے کھینچتی ہوئی اپنے قصر دری میں‌لے گئی۔حسین راستے بھر اس سے طرح طرح کے سوالات کرتا رہا،مگر زمرد نے ہر سوال کے جواب میں یہی کہا کہ پھر بتا دوں‌گی،اور اسے قصر میں بٹھا کےشاہ‌زادی کے سامنے واپس آئی اور ادب سے کھڑی ہوگئی۔
بلغان خاتون: ہاں‌تو خور شاہ کے محل کو یہاں‌سے راستہ گیا ہے؟
زمرد:‌جی ہاں! وہ روز یہاں‌آکے عیش و عشرت میں‌مشغول ہوا کرتا ہے۔آپ اس راستے سے اپنے تمام ہمراہیوں‌کے ساتھ بآسانی پہنچ جائیں‌گی۔پہلے نہرکا سنہرا پل ہے، اس کے اترتے ہی آپ کو ایک سیدھا راستہ ملے گا جو خور شاہ کے حرم سرا کو گیا ہے،جس میں داخل ہوتے ہی آپ سجھ لیجیے کہ التمونت میں‌پہنچ گئیں۔آج عید کا دن ہےاور معمول یہ ہے کہ اس زمانےمیں‌کوئی شخص جنت میں‌نہیں لایا جاتااور نہ خود خورشاہ آسکتاہے،اس لیے کہ اس علاقے کے تمام معززو مقرب لوگ اور نیز دور دورکے سربرآوردہ اور نامی نقیب امام کی زیارت کو آتے ہیں اور قلعے میں عام معتقدین کا بڑا بھاری مجمع رہتا ہے۔اسی خیال سے میں نے آپ کو رمضان کی 27 تاریخ کو بلایا،کیوں‌کہ اس دن لازمی طور پر یہ باغ غیروں‌سے خالی رہتا ہے اور خود خورشاہ کو بھی تین چار دن تک یہاں‌آنے کی فرصت نہیں ملتی۔اگر اور کوئی زمانہ ہوتا تو اب تک آپ کے آنے کا حال قلعے میں‌معلوم ہوگیا ہوتا۔
بلغان خاتون: تو ابھی کسی کو ہمارے آنے کی خبر نہیں؟
زمرد: بالکل نہیں۔ اول تو یہاں‌کوئی مرد نہیں جولوگوں‌کو خبر کرکے لڑائی کا سامان کرے؛اور شاید کوئی عورت بھاگ کے چلی بھی جاتی،مگر میں‌نے آج صبح سے ہی سنہرے پل کے پھاٹک میں قفل لگا دیا ہےاور کنجی میرے پاس ہے۔ لہٰذہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی بھاگ کے پھاٹک کے قلعے میں‌جاسکا ہو۔اورلطف یہ کہ ان دنوں‌ادھر سے بھی کوئی آنے والا نہیں۔
بلغان خاتون: یہ تو بہت اچھی بات ہوئی۔تم کہتی ہو آج عید ہے جب کہ قلعے میں‌خوشی کا جوش و خروش ہوگا۔ بس کوئی فکر نہیں۔آض شام سے پہلے ہی ہمارا حملہ ہوجائے گا۔مگر زمرد مجھے ایک بات کا تردد ہے۔جس فوج کو میں نے اپنی مدد کےلیے بلایا تھا اس کا ابھی تک پتا نہیں۔ میرے ہمراہ صرف پانچ سو سپاہی ہیں جو شاید کافی نہ ہوسکیں۔
زمرد: میں‌تو سمجھتی ہوں‌کہ پانچ سو جوان بھی قلع پر ادھر سے جاکے قبضہ کر لیں‌گے۔
بلغان خاتون:‌ مگرمجھے یقین ہے کہ ہماری کمک ضرور آئے گی،صرف شام تک کی مہلت چاہیے۔
زمرد: ‌شام کیا معنی آپ کل تک یونہی مخفی رہ سکتی ہیں۔کوئی اندیشے کا مقام نہیں۔بس جب تک وقت آئے یہاں‌آرام فرمائے ۔ آپ تھک بھی گئی ہونگی سستانے کے لیے اچھی مہلت مل گئی۔
اس کے بعد شاہ‌زادی نے پوچھا: “ اور زمرد!یہ لباس جو تم نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں‌ کے یے تجویز کیا،اس میں‌کیا مصلحت تھی؟“
زمرد: شاہزادی! آپ کا لباس تو وہی حوروں‌ کا لباس ہے جس کو لوگ یہاں‌حلہء جنت سمجھتے ہیں۔اس لباس کی وجہ سےکسی کوآپ پر بدگمانی نہیں ہوسکتی۔
بلغان خاتون: شاید اسی لیے مجھے وہ کپڑے پہنے دیکھ کے حسین نے کہا تھا کہ آپ حورمعلوم ہوتی ہیں۔“
یہ جملہ سن کے زمرد بہت ہنسی اور بولی: ‌ “ مگر اپنے لباس کے متعلق انھوں نے کچھ نہ کہا؟“
بلغان خاتون:‌اور ہاں‌، مردوں‌کے بارے میں‌تم نے ایسا بیہودہ لباس کیوں تجویز کیا؟
زمرد: اس لیے کہ مردوں‌میں‌عمومًا یہاں‌وہی دودھ والے آیا کرتے ہیں جو یہاں‌کی نہروں میں دودھ اور شراب بھرتےہیں۔اگر کوئی مرد اس لباس کو پہنے ہوئےیہاں‌آئے تو کسی کو خیال بھی نہ ہوگا کہ کوئی غیر ہے۔
شاہ‌زادی:‌مگر ایسا نہ ہو کہ کسی کو خبر ہوجائےاور قبل از وقت راز کھل جائے۔
زمرد: کسی کو خبر نہ ہوگی،آپ شوق سے یہاں‌فروکش ہوں۔عید کے دن کسی کو یہاں‌آنے کی فرصت ہی نہیں‌ہوتی۔
بلغان‌خاتون: بہتر! میں‌یہیں‌ٹھہر جاؤں‌گی،مگر مجھے چل کے ذرا جنت کی سیر کرادو اور وہ پل اور سڑک بھی دکھا دو تاکہ راستہ خوب پہچان لوں۔
زمرد: چلیے!
اس تجویز کے بعد دونوں‌حسین و نازنین عورتیں قصروں اور کوشکوں کو قطع کرتی اور باغوں‌اور چمنو‌ں‌کی بہار دیکھتی ہوئیں اس بڑی نہر کے کنارے پہنچیں‌جہاں‌ سے لوگ سونے کی کشتی میں بٹھا کے جنت میں‌لائے جاتے تھے۔اس سنہرے پل کے پھاٹک میں‌قفل لگا ہوا تھا،جسے زمرد نے کھولا اور دنوں لڑکیاں‌دوسری طرف کے میدان میں‌اتریں۔ادھر بھی پھولوں‌کا ایک مسطح تختہ دور تک پھیلا ہوا تھا اوردرمیان سے ایک سڑک گزری تھی جو تھوڑی دور جاکر سایہ دار درختوں‌کے ایک جھنڈ میں غائب ہوگئی تھی۔انھیں درختوں کی دوسری طرف حرم سرا کا راستہ تھا۔
یہ دلچسپ سیر کرکےشاہزادی واپس آئی اور زمرد کے انتخاب کے مطابق ایک عالی شان فیروزئی کوشک میں‌جا کے فروکش ہوگئی۔زمرد دیرتک اس کے پاس بیٹھی رہی،اورجب دیکھا کہ شاہزادی بلغان ‌خاتون لیٹ کے آرام کرنا چاہتی ہے تو اس سے رخصت ہوکےدروازہ اندر سے بند کروالیا اور اپنے قصر کی طرف واپس روانہ ہوئی۔
 

دوست

محفلین
باب نمبر 8 افشائے راز

افشائے راز​
حیرت زدہ و حواس باختہ نوجوان حسین کو زمرد شاہ زادی کی تجویز کے مطابق قصر دری میں‌چھوڑ‌کے واپس گئی تو وہ گھبرا کے ایک ایک چیز کو دیکھتا اور اپنے دل سے پوچھتا تھا کہ کیا حقیقت میں‌یہ وہی مقام ہے جہاں‌میں‌امام قائم قیامت کی مدد سے آیا تھا؟ مگر وہ تو ملاء اعلی پر تھا اور یہ زمین ہی پر ہے! لیکن کیوں‌کر شک کیا جائے!خود زمرد بھی تو موجود ہے۔ اگر یہ کوئی دنیاوی باغ ہے تو وہ کیوں‌کر چلی آئی؟ خود اسی نے لکھا تھا کہ جنت میں‌ہوں اور فردوس بریں‌کی سیر کررہی ہوں۔آخر اسے جھوٹ بولنے سے فائدہ؟ اس کے بعد وہ محل کے برآمدے پر آکے کھڑا ہوا ور ایک ایک عمارت،ایک ایک چمن کو غور سے اور آنکھیں‌ پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے لگا۔ ہر چیز وہی اور ویسی ہی تھی جیسی کہ پہلے نظر سے گزری تھی۔ قصروں‌کے روکار پر اسی طرح‌جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ ان کی وضع بھی ویسی ہی تھی جیسی کہ پہلے نظر سے گزری تھی۔چمنوں‌کا بھی وہی رنگ اور نقشہ تھا۔سڑکیں‌اور روشیں‌بھی اسی طرح‌رنگ برنگ اور نظر فریب تھیں۔سونے چاندی کے تخت آج بھی اسی پہلی شان سے بچھے تھے ۔ نہریں‌بھی اسی طرح‌مستانہ روی سے بہ رہی تھیں۔ ہاں‌صرف ایک چیز کی کمی تھی کہ وجد میں لانے والا گانا نہ تھا۔ مگر جب طیور کی زبان سے وہی قرآنی ترانہ خیرمقدم سن لیا تو ادھر سے بھی شک جاتا رہا۔ وہ اسی پس و پیش میں‌تھا ایک طائر نے ایک تازہ و شاداب سیب اپنی چونچ میں‌لاکے اس کے سامنے ڈال دیا ور وہ چونک کے بول اُٹھا: “‌یہ بھی خاص‌فردوس بریں‌کی علامت ہے۔“
حسین کے خیالات میں ایک عجیب قسم کا تردد و اضبراب تھا اور یہ معما کسی طرح‌حل ہونے کو نہ آتا تھا کہ سامنے سے زمرد آتی نظر آئی جو شاہزادی سے رخصت ہوکے اس کے پاس آرہی تھی۔اس کی دل ربا اور ناز آفرین صورت دیکھتے ہی وفور جوش سے حسین کا دل دھڑکنے لگا اور عشق کے جذبات نے یک بہ یک ایسی بےاختیاری کی حالت طاری کی کہ برآمدے سے اتر کے استقبال کو دوڑا اوردونوں ‌ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
حسین: پیاری زمرد! للہ بتا کہ میں‌کس عالم میں ہوں؟ اور یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟
زمرد؛‌ (مسکرا کے)وہی دیکھ رہے ہو جو ایک دفعہ دیکھ چکے ہو۔
حسین: وہی!‌یعنی ملاء اعلٰٰی پر ہوں۔
زمرد؛ واقعی جو ساز و سامان نظر آرہا ہے وہ اس کے لحاظ سے اس جگہ کو ملاء اعلٰٰی ہی کہنا چاہیے۔
حسین: کہنا چاہیے؟ تو کیااصل میں نہیں‌ہے؟
زمرد: تم ہی اپنے دل سے پوچھو۔تم نے اس مقام کو زمین پر پایا یا آسمان پر؟
حسین: آیا تو زمین کے راستے سے ہی ہوں‌۔
زمرد: تو زمین پر ہی سمجھو۔
حسین: مگر کیوں‌کر سمجھوں؟‌تمھاری قبر، تمھارے وہ خطوط، یہاں‌تک آنے کے وہ گزشتہ ذریعے، ان تمام باتوں‌میں‌سے جس چیز کا خیال کرتا ہوں اسی امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ کوئی اور عالم ہے اور یہاں‌کی مسرتیں‌دنیاوی مسرتوں‌سے بالا ہیں۔
یہ باتیں‌کرتے ہوئی دونوں‌قصر میں داخل ہوئے اور زمرد نے کہا:‌“‌یہاں‌کی مسرتیں‌تو بے شک دنیا کی عام مسرتوں‌سے بالا ہیں مگر یہ نہ سمجھو کہ تم دنیا سے نکل کے کسی اور جگہ آگئے ہو۔“
حسین:‌ پھر وہ سب واقعات جو گزر چکے ہیں‌ان کی نسبت کیا خیال کروں؟
زمرد:‌وہ سب میری مجبوری،میری بے دست وپائی اور تمھاری سادہ لوحی کا نتیجہ تھے۔
حسین: میں‌اس کا مطلب نہیں سمجھا؟
زمرد: گھبراؤ نہیں، سب سمجھ جاؤ‌گے۔ مگر افسوس جس قدر زیادہ سمجھو گے اسی قدر زیادہ پریشان ہوگے اوراپنے کیے پر پچھتاؤ‌گے۔
حسین: زمرد! اب مجھے تیری صورت پر بھی شبہ ہوتا ہے۔ تووہی زمرد ہے جو میرے ساتھ آمل سے آئی تھی؟
حسین کی زبان سے یہ سادگی کا یہ سوال سن کے زمرد کو ہنسی آگئی مگر ضبط کیا،اور ایک عجیب دل فریب ادا کے ساتھ پُر معنی اور شوخ‌چتونوں‌سے دیکھ کے بولی: “نہیں،دوسری ہوں۔“
اس جواب کوحسین نے سنا ہی نہیں۔اس نے زمرد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں‌لیا اور غور سے دیکھ کے بولا:“ یہ وہی نورانی جسم ہے یا میرے جسم کا سا مادی پتلا؟“
زمرد: “ ہوش کی باتیں‌کرو۔ تم بالکل ازخود رفتہ ہوئے جاتے ہو۔اور تمھاری آنکھوں کے سامنے سے ایک بڑا طلسم ٹوٹا ہے۔ جس کے اثر سے تمھارے حواس نہں‌ٹھکانے رہے۔ذرا ہوش میں‌آؤ اورحواس کی باتیں‌کرو کہ سارا راز اور تمام سرگزشت بیان کروں۔
حسین: پیاری زمرد! جلدی بیان کر۔ اس لاعلمی اور ناواقفی نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔
زمرد: سنو! اس وادی میں ہم دونوں‌نے جن پریوں‌کو دیکھا تھا وہ پریاں‌نہ تھیں‌بلکہ اسی مصنوعی جنت کی حوریں۔۔۔۔
حسین: ‌(حیرت سے بات کاٹ کے) مصنوعی جنت؟‌تو یہ وہ جنت نہیں ہے جس کا مومنین سے وعدہ کیا گیا ہے؟
زمرد:‌ ذرا صبر کرو۔ خیر تم تو وہاں‌بے ہوش ہوگئے اور مجھے وہ یہاں پکڑ لائیں۔ نہ میں‌ماری گئی اور نہ شہید ہوئی، مگر صرف اسلیے کہ تم کو میرے مرنے کا یقین آجائے،انھوں‌نے واپسی سے پہلے بھائی کی قبر میں‌ذرا تغیر پیداکیا اور اسی وقت رات کو مجھ سے پوچھ کے بھائی کے نام کے برابر میں میرا نام بھی کندہ کردیا۔ اس غرض سے کہ تم مجھ سے مایوس اور میرے خیال سے دست بردار ہوکے چلے جاؤ؛ اس وادی کی خطرناک حالت ہر ملنے والے سے بیان کرو اور یہاں‌کی پریوں کی ہیبت ہر شخص کے دل میں‌بٹھا دو۔
حیسین:‌تو تم زندہ ہو؟ اور یہ کہہ کے زمرد کو سر سے پاؤں‌تک گھور گھور کے دیکھنے لگا۔
زمرد: (جھنجھلا کے)‌نہیں‌چڑیل ہوگئی ہوں۔ حسین نے اس کا کچھ جواب نہیں دیا ور زمرد نے ایک لمحہ توقف کے بعد پھر سلسلہ کلام شروع کیا: “ تو تم کو یہ دھوکا دیا گیا اور میں‌یہاں‌لائے جانے کے بعد انھِیں‌عورتوں‌میں‌شامل کر دی گئی جو یہاں‌حوریں‌کہلاتی ہیں۔چند روز بعد دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ تم اسی طرح‌میری قبر کے مجاور بنے بیٹے ہواور جانے کا نام ہی نہیں‌لیتے۔ آخر یہاں‌غور کیا گیا کہ وہ وادی تم سے کیوں‌ کر خالی کروائی جائے۔اکثروں کی رائے تھی کہ قتل کر ڈالنا چاہیے مگر اتفاق سے میری ایک تدبیر کارگر ہوگئی اور تجویز قرار پائی کہ کسی ایسے طریقے سے تمھیں‌وطن واپس جانے کی ہدایت کی جائے کہ کسی کا لگاؤ‌ثابت نہ ہو، اورتم بغیر اس کے کہ کسی قسم کی بدگمانی کرو وہ وادی چھوڑ دو۔ اسی تجویز کا نتیجہ میرا پہلا خط تھاجس میں‌تم سے میری وصیت پوری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔وہ خط میرے ہی ہاتھ سے لکھوایا گیا اور مجھ (ہی)سے حالات دریافت کرکےاس کے مضمون کا مسودہ تیار کیا گیا۔مگر حسین!‌وہ خط صاف کرتے وقت میں‌چپکے چپکے بہت روئی تھی،اس لیے کہ جانتی تھی خود اپنے ہاتھوں‌دائمی مفارقت کا سامان کررہی ہوں۔ خیر وہ خط تمھارے پاس گیا اور یقین تھا کہ تم چلے جاؤ گے مگر تین چار روز بعد جب دریافت کیا گیا معلوم ہوا کہ تم اب بھی وہیں‌اسی طرح ‌بیٹھے ہو۔اور گویا تمارے ارادے میں‌کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔“
حسین:‌ بےشک نہیں‌ہوئی تھی۔ زمرد! میں‌مرجاتا ور وہاں‌سے نہ ہٹتا۔
زمرد: “ جب یہ معلوم ہوا تو لوگوں کو پھر فکر پیدا ہوئی،اب کیا کیا جائے؟ اب کوئی تدبیر میرے ذہن میں ‌نہ آتی تھی اور دل می‌ڈر رہی تھی کہ کہیں‌یہ غضب نہ ہو کہ لوگ تمھارے مار ڈالنے پر آمادہ ہوجائی۔اتفاقًا انھیں‌دنوں‌میں‌خبر آئی کہ امام نجم‌الدین نیشا پوری باطنین کے خلاف زورو شور سے وعظ‌کررہے ہیں، اور تدبیریں‌کی جارہی تھی کہ کسی فدائی کے ہاتھوں‌وہ قتل کرا دیے جائیں۔کمبختی یا شامت اعمال میری زبان سے نکل گیا کہ وہ تمھارے چچا اور تمھارے استاد و مرشد ہیں۔ یہ خبر جیسے ہی یہاں‌کے باد شاہ خورشاہ کے کان میں‌پہنچی اس نے خیال کیا کہ وہ امام عالی مقام تمھارے ہاتھ سے قتل ہوں‌تو زیادہ مناسب ہوگا۔اس طرح زمانے بھر کو معلوم ہوجائے گا کہ مذہب باطنیہ دلوں ‌پر کس قدر گہرا اثرا ڈالتا ہے کہ انسان اپنے عزیزو اقارب،استادو مرشد تک کی پروا نہیں کرتا۔تمھارے خنجر سے ان کا قتل ہوان ایک ساتھ اتنی باتوں کا ثبوت دے سکتا تھا کہ بھتیجے نے چچا کو،شاگرد نے استاد کو،مرید نے مرشد کو بلاتامل ثواب سمجھ کے قتل کر ڈالا۔
زمرد نے یہیں‌تک کہا تھا کہ حسین نے بےاختیار ایک ٹھنڈی سانس لیاور آب دیدہ ہوکے بولا: “ افسوس! میں‌نے کتنا بڑا ظلم اور گناہ کیا۔ آہ! ایسے معصوم امام،شفیق بزرگ اور خدا شناس مرشد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے،زمرد! یہ تیرے ہی شوق میں‌اور تیری ہی ہدایت کی وجہ سے تھا،ورنہ میں‌اتنے بڑے ظلم کی جرات ہرگز نہ کرتا۔“
زمرد: حسین! میں‌نے پہلے بھی کہا تھا ور اب بھی کہتی ہوں‌کہ اس گناہ میں‌مجھے نہ شریک کرو۔۔ مجھے جب اس کا خیال آجاتا ہے کانپ اٹھتی ہوں مگر خیر اب یہ ذکر جانے ہی دو۔ایک ہونے والی بات تھی جس کو کوئی نہ روک سکتا تھا۔ میں‌نے اگر تمھیں‌اس کام کے لیے تیار کیا تو اپنے بس میں نہ تھی،اورتم اگر آمادہ ہوگئے تو اپنے ہوش میں‌نہ تھے۔
حسین: ( زور سے سینہ پیٹ کر)‌مگر افسوس، زمرد!‌یہ عذر خدا کے سامنے نہ سنے جائیں‌گے۔ میں‌نہ مجنون تھا، نہ بے ہوش؛ صاف نظرآ‌رہا تھا کہ ایک گناہ عظیم کررہا ہوں‌میگر تیرا شوق بار بار دل کو ابھار کے آمادہ۔۔۔۔۔
زمرد:‌ ( بے تابی سے بات کاٹ‌کے) ہائے پھر میرا نام۔۔۔۔۔!خدا کے لیے حسین! مجھے اپنے ساتھ نہ گنو (‌روکے اور آنسو بہاکے) میں‌نے جو کچھ کیا ہے مجبوری اور بےبسی سے۔افسوس! خود اپنے دل سے تو لعنت کی آواز سن رہی تھی، اب تمھاری زبان سے بھی وہی سنتی ہوں۔“
یہ کہہ کے زمرد زار و قطار رونے لگی۔حیسن نے بے اختیاری کی جلدی سے اس کے آنسو پونچھے اورکہا: “زمرد! بے شک تو بےخطاہے۔ اگر میں‌نے تیرا دل دکھایا تو معاف کر اور آگے بتا کہ پھر کیا ہو؟“
زمرد: (‌رومال سے آنسو پونچھ کر) پھر تم کو دوسراخط ملا جس میں‌تمھیں‌کوہ جودی کے غار اور شہر خلیل کے تہ خانے میں‌چلہ کشی کرنے اور پھر حلب میں‌جاکے شیخ‌علی وجودی سے ملنے کی ہدایت کی گئی تھی۔وہ خط بھی اسی طرح‌بھیجا گیا کہ اس کا مسودہ لکھ کے مجھے دیا گیا اور جب میں‌نے اپنے ہاتھ سے صاف کردیا تو میری قبر پر رکھوا دیا گیا۔
حسین:‌ لیکن اگر اتنا ہی کام تھا کہ امام‌نجم‌الدین نیشا پوری قتل کر ڈالے جائیں‌تو مجھے اتنے چکر کیوں‌دیے گئے اورمیرے راستے میں یہ بےکار کی دشواریاں‌کیوں ‌پیدا کی گئیں؟
زمرد: اس لیے کہ تمھارے شوق میں‌ہیجان اور بےصبری پیدا ہو۔ اگر بغیر اتنے چلے کھنچوائے اور بغیر علی وجودی کے پاس ایک سال تک انتظار کرائے کہہ دیا جاتا تو تم اتنے بڑھے گناہ کے ارتکاب پر ہرگز آمادہ نہ ہوتے۔
حسین: زمرد! تیرا شوق میرے دل میں‌اس قدر تھا کہ جس کام کو کہاجاتا اسی وقت پورا کرنے کو تیار ہوجاتا۔
زمرد: (ہنس کے) خیر تو ان کو نہیں ‌معلوم تھا کہ تم اتنے بووقوف ہو اورتمھارے اخلاق اس قدر کمزور ہیں۔
حسین:‌ مگر کیوں‌کر کہوں؟‌زمرد! مجھے تیری باتوں‌کا یقین نہیں‌آتا۔ان آنکھوں‌سے ایسی ایسی کرامتیں‌اور عقل انسانی سے اس قدر بالا باتیں‌دیکھ چکا ہوں‌کہ ان لوگوں‌کی خدا شناسی سے انکار کرنے کی کسی طرح‌جرات نہیں ہوتی۔ جن گدھوں‌پر ہم دونوں‌سوار ہوکے آئے تھے وہ تو مر چکے تھے،مگر مجھے ایک نیا تازہ دم گدھا اسی درخت میں‌بندھا ملا۔ اور ایسا خوب صورت،توانا تندرست اور تیز رو کہ اس وقت تک میں‌یہی سمجھتا ہوں‌کہ میری سواری کے لیے خاص‌خدا کے پاس سے آیا تھا۔
زمرد: وہ گدھا یہیں‌س بھیجا گیا تھا۔ جس وقت تمھارے نام کا خط قبر پر رکھوایا گیا ہے،اسی وقت وہ گدھا ایک دوسرے راستے سے بھیج کے اس درخت میں‌بندھوا دیا گیا تھا۔
حیسن نے اس جواب کو حیرت سے سنا اور بولا: “عجب! مگر پھر بھی میرے شبہات دور نہیں ‌ہوتے۔ آخر شیخ‌علی وجودی کو میرے سب حالات کیوں‌کر معلوم ہوگئے،وہ یہاں‌سے ہزارہا کوس کے فاصلے پر ہیں؟“
زمرد: تمھارے روانہ ہونے کےساتھ ہی ان کوتمام واقعات کی خبر کردی گئی تھی۔ ان کو لکھ بھیجا گیا تھا کہ تم امام نجم الدین کے بھتیجے،شاگرد اورمرید ہو۔ انھیں ‌کے قتل کا تم سے کام لینا ہے ،اوروہاں‌پہنچنے سے پہلےتم کوہ جودی کے غار اور خلیل کے تہ خانے میں چلہ کھینچو گے۔ یہ سب باتیں‌ان کو دوسے ذریعوں‌سے معلوم ہوچکی تھیں،مگر انھوں‌نے غیب دانی اور کرامت کی شان سے بیان کرکے تمھیں‌اپنا فریفتہ بنایا۔
حیسن اب نہایت ہی متعجب تھا،وہ حیرت کے دریا میں‌غرق تھا اور کسی طرح‌تھاہ نہ ملتی تھی۔ زمرد اپنی بات پوری کرکے خاموش ہوئی اور وہ سوچ میں پڑا تھا۔ آخر اس نے سخت حیرت زدگی کی شان سے آنکھیں‌اٹھا کے کہا: “زمرد سچ بتا،یہ سب باتیں‌تو سچ کہہ رہی ہے یا مجھےدھوکا دے رہی ہے؟ مجھے تو اپنی تمام گزشتہ زندگی ایک خواب کی سی معلوم ہوتی ہے۔متردد ہوں ‌کہ تیری اس ملاقات اور ان سب باتوں‌کو خواب سمجھوں یا ان تمام واقعات کو جو تجھ سے جدا ہونے کع بعد پیش آئے،کیا حقیقت میں‌ میں‌اتنا بڑا بے وقوف ہوں‌کہ ایسے عظیم الشان فریب اور جعل میں ‌مبتلاہوگیا؟لیکن زمرد! اگر یہ سب سکھائی پڑھائی باتیں‌تھیں‌تو علی وجودی کو اسی قدر معلوم ہوتا جس قدر کہ یہاں‌سے بتایا گیا تھا؛ انھیں‌یہ کیوں‌کر معلوم ہوگیا کہ میں‌شہر خلیل کے مجاوروں‌کے ہاتھ میں‌گرفتارہو گیا تھااور باطنین کے ناگہاں‌آپڑنے سے چھوٹ کے بھاگا؟“
زمرد: حسین! تم حقیقت میں‌بڑے سادہ لوح‌ہو۔اس کا سبب میں ‌بغیر جانے سمجھ گئی اور تم نہیں‌سمجھ سکتے؟ لیکن حقیقیت میں تم مجبور ہو۔تمھارے دل و دماغ پر ہر طرف سے اتنا اثر ڈال گیا کہ اب بمشکل تم ان باتوں کواپنے دماغ سے نکال سکتے ہو۔کیا تم کو نہیں‌معلوم کہ باطنین دنیا کے ہر کونے میں‌پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی سازشوں‌کا جال ہر گاؤں‌اور چھوٹے سے چھوٹے قریےتک پر پڑا ہواہے؟علی وجودی کے پاس تم پورے ایک سال رہے،ممکن نہیں‌کہ اس کا حال تمھیں‌نہ معلوم ہوگیا ہو۔
حسین:‌ ہاں‌! میں‌نے البتہ یہ دیکھا کہ ان کے معتقد تمام اطراف عالم میں‌پھیلے ہوئے ہیں‌اور ہر سال میں‌ایک دفعہ ان کی زیارت کو بھی آتے ہیں۔ اور مجھے یہ بھی نظر آیا کہ وہ لوگ پوشیدہ طور پر اور صرف رات کو مل کے چلے جاتے ہیں۔
زمرد: اسی سے سمجھ سکتے ہو کہ ان کے ہاتھ میں‌خبریں‌پہنچے کے کتنے بڑے ذریعے موجود ہیں۔ تم نے جس وقت اس وادی کو چھوڑا تھا اس وقت سے آخر ورود حلب تک ہر منزل اور ہر مقام پر تمھاری نگرانی ہوتی ہوگی اور تمھاری روز روز کی خبر علی وجودی کو پہنچتی ہوگی۔ کچھ تم ہی پر منحصر نہیں،ان باطنین کے پنجے میں ‌جو شخص پڑتا ہے اسی طرح‌نظروں‌میں‌رکھا جاتا ہے۔پھر کون تعجب کی بات تھی کہ اگر تمھاری خلیل کی گرفتاری کا حال ان کو معلوم ہوگیا؟
حسین:‌مجھے اس پر حیرت نہیں؛ حیرت تو یہ بات ہے کہ شیخ‌کہتے تھے کہ انھیں‌کے اشارے سے باطنین نے حملہ کرکے مجھے قید سے آزادکرایا۔
زمرد:‌کوئی تعجب کی بات نہیں۔ بے شک علی وجودی نے تمھارے چھڑانے کے لیے اپنے معتقدوں‌کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا ہوگا۔
حسین:‌مگر کیوں‌کر حکم دے دیا ہوگا؟‌میری گرفتاری کی خبر پہنچنے اوروہاں‌سے حملے کا حکم آنے میں بھی تو آخر کچھ زمانہ لگتا؟وہاں‌تو یہ واقعہ پیش آیا کہ جس رات کومیں‌نکلنے والا تھاور میرے باہر آنے سے پیش تر ہی خلیل کا حاکم باطنین کےہاتھ سے قتل ہوا،اور پھر میں گرفتار ہوا تواس کو بھی پورا ایک دل نہیں‌گزرنے پایا تھا کہ ان کا ایک بڑا گروہ شہر پر آپڑا۔ان تمام باتوں کی تکمیل اتنی جلدی کیوں‌کرہوسکتی تھی؟
زمرد: (ذرا تامل کرکے) یہ کون مشکل ہے؟ باطنین کو معلوم ہوگا کہ تم کس روز تہ خانے میں اترے تھے اور کس روز نکلو گے،اور یہ بھی سمجھتے ہوں‌گے کہ جس روز نکلو گے یہ مشکلات ضرور پیش آئیں گی۔ بس اس زمانے میں انھوں‌نے شیخ علی وجودی کو خبر کرکے مددکا اشارہ پایا ہوگا۔اسی کے مطابق دن گنتے رہے اور ٹھیک چالیسویں‌دن،جس دن تم نکلنے والے تھے،انھوں نے رئیس شہر کو قتل کر ڈالا کہ لوگ دوسری فکر میں‌رہیں‌اورتم چپکے سے نکل کے بھاگ جاؤ۔ مگر جب انھیں‌خبر پہنچی کہ اس رئیس کے قتل سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا اور تم مجاوروں کا ہاتھ سے گرفتار ہوگئےتو انھوں‌نے یکایک حملہ کرکے شہر میں‌کھلبلی ڈال دی اور تمھیں چھوٹ کے بھاگ جانے کا موقع مل گیا۔
حسین:‌ ( زور سے آہ سرد بھر کے )‌تو زمرد افسوس! یہ سب جھوٹ تھا؟ شیخ‌علی وجودی کا سا شخص اوراتنا بڑا مکار کیوں‌کر کہوں؟ زمرد! ان کرامتوں‌اوراس غیب دانی کے علاوہ ان کا علم و فصل اس پائے کا ہے اوران کے ہر ہر لفظ سے ایسی خدا شناسی اور آشنائے رموز وحدت ہونے کی بو آتی ہے کہ چاہتا ہوں، مگر ان پر بدگمانی کرنے کی جرات نہیں‌ہوتی۔اتنا بڑا عالم و فاضل،ایسا نکتہ سنج اور دقیقہ رس اور اتنا بڑا فریبی! میں امام نجم الدین کی صحبت میں‌رہ چکا تھا،مگر پیاری زمرد! سچ کہتا ہوں کہ جو بات مجھے شیخ علی وجودی میں نظر آئی اور جس آسانی سے وہ دل کے شکوک رفع کردیتے ہیں‌امام نجم الدین میں‌اس کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔
زمرد: بے شک ایسا ہی ہوگا! مگر بات یہ تھی کہ امام نجم الدین کے دل میں جو آتا ہوگا سادگی اور بے تکلفی سے کہہ گزرتے ہونگے۔انھوں‌نے اپنا بنانے اوراپنا اثر ڈالنے کے لیے کبھی کوئی کوشش نہ کی ہوگی۔اور شیخ‌علی وجودی کا ہر لفظ بنا ہوا اور دل پر اثر ڈالنے کے لیے ہوتاہے۔اس کے ہر فقرے میں پوری ریاکاری ہوتی ہے۔ جھوٹ اور سچ میں‌یہی فرق ہے۔ اوراسی سبب سے ہمیشہ قاعدہ ہے کہ کیاد و فریبی کی باتیں‌ایک راست باز اور سادہ مزاج شخص کی باتوں سے زیادہ دل چسپ اور زیادہ دل نشین ہوا کرتی ہیں۔یقین ہے کہ شیخ‌علی وجودی سے مل کے تم کو خدا شناسی کا بہت عمدہ سبق مل گیا ہوگا۔
حسین: ( زور سے سینے پرہاتھ مار کے)‌ہاں! خوب سبق ملا،مگر خبر اس وقت ہوئی ہے جب کہ پورا جادو اثر کرچکا،اور میں ساری دنیا سے زیادہ ظالم،سیہ کار،بے دین اور بے وقوف بن چکا،افسوس! تمام عمر پھچتاؤں‌گا اور نہ پچھتا چکوں‌گا،مگر زمرد! کیاکہوں، اب بھی یہ سب باتیں خواب معلوم ہوتی ہیں۔طور معنی اوراس کے نورانی قصر کی صورت اس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے۔
زمرد: ہاں‌وہ بھی اس مذہب کا ایک بڑا رکن ہے۔اس وقت تک صرف دوہی شخص شاہ التمونت کو ملے ہیں‌جن سے اچھا نقیب و داعی اس مذہب باطنیہ کو نہیں نصیب ہوسکا۔طور معنی اور علی وجودی،جو یہاں‌وادیِ ایمن کے نام سے یاد کیےجاتے ہے۔ان دونوں‌نے اپنی گہری سازشوں‌سے صدہا امرا،وزرا اور علما و فضلا قتل کراڈالے۔ اور چوں‌کہ اس جنت اور ملاء اعلٰٰی کی اصلیت کو اچھی طرح‌جانتے ہیں لہٰذہ ان پر سارا فریب کھلاہوا ہےا ور وہ لوگوں‌کو جان بوجھ کر گمراہ کرتے ہیں۔طور معنی بھی لوگوں سے کم ملتا ہے مگر وادیِ‌ایمن نے لوگوں‌ کو بہت خراب کیا۔دین کوجتنا بڑا ضرر اس شخص کے ہاتھوں پہنچا شایدکبھی کسی کے ہاتھ سے نہ پہنچا ہوگا۔
حسین:‌تو کیا وہ طور معنی کا وہ زمین دوز قصر بھی کوئی قدرتی کرشمہ نہیں؛ اسی جنت کی طرح وہ بھی لوگوں‌کے فریب دینے کے لیے بنادیا گیا ہے؟
زمرد:‌ (‌مسکراکے)‌کیا تمھیں‌اب بھی شک ہے؟
حسین:‌شک نہیں؛ پیاری زمرد! تیری باتوں‌کا یقین ہے مگر کیا بتاؤں‌ان آنکھوں کے سامنے کیسی کیسی کیفیتیں‌گزر چکی ہیں‌اور ان کانوں‌نے کیسے کیسے روشن اور دل فریب الفاظ سنے ہیں! خیر یہ بھی نہ سہی۔مگر طور معنی کا قصر تو اصفہان میں‌ہے،وہاں‌کے غار سے میں‌یہاں‌کیوں‌کر پہنچ گیا؟
زمرد: التمونت کا نام چوں‌کہ کسی قدر مشہور ہوگیا ہے اور بعض‌لوگ بھڑک گئے ہیں لہٰذا جن لوگوں‌کی نسبت ایسا خیال ہوتا ہے،وہ اصفہان اور طور معنی ہی کے ذریعے سے یہاں‌لائے جاتے ہیں۔اور سارا راز مخفی رکھنے کے لیے یہ تدبیر عمل میں‌آتی ہے کہ طور معنی انھیں‌بے ہوش کرکے اونٹوں‌کی محملوں‌پر سوار کراتا ہے جو رازدار اور معتبر ساربانوں‌کے ذریعے سے التمونت پہنچادیے جاتے ہیں‌۔ہر منزل پر رات کو کسی جگہ ان لوگوں‌کو ہوش میں‌لاکے کچھ کھلا پلا دیتے ہیں اور پھر بے ہوش کرکے آگے روانہ ہوتے ہیں۔
حسین: (چونک کر) تو میں‌جو اپنے آپ کو کبھی جنگل میں‌پاتا تھاور کبھی پہاڑوں‌میں‌وہ یہی تھا کہ اصفہان سے روانہ ہوکے التمونت کے منازل قطع کررہا تھا؟
زمرد: اور کیا؟
حسین: ( حیرت سے) اور یہ لوگ انسان کو بے ہوش کیونکر کرتے ہیں؟
زمرد: ایک پتی ہے حشیش (بھنگ) اسے کے ذریعے۔کبھی اسکا شربت پلا کے اور کبھی اسے غذاؤں اور مٹھائیوں‌میں‌ملا کے۔
حسین: (بے صبری سے)تو طور معنی نے جو جام شراب پلایا وہ اسی حشیش کا جام تھا؟
زمرد: بے شک!
حسین: افسوس! مجھے مسکرات بھی پلائے گئے؟ آہ! کوئی گناہ نہیں‌جو اٹھ رہا ہو۔ زمرد! تو ناراض‌نہ ہو،کیوں‌کہ صرف تیرے وصال کی آرزو نے اندھا کر دیا تھا،ورنہ میں‌اتنا مجنون و فاترالعقل نہ تھا۔ تیری محبت کی کہ حالت ہے کہ دیکھ تیرے بوسے کا یہ نشان جو میری پیشانی پر موجود ہے، مجھے جان و دل سے زیادہ عزیز ہے۔چاہتا تھا،کہ اس نشان کے بوسے لے لے کے اپنے دل کی تسلی کروں‌مگر یہ مشتاق ہونٹ کسی طرح‌وہاں‌تک نہ پہنچ سکے۔
حیسن کی ان باتوں ‌پر زمرد کچھ ایسی شرما گئی تھی کہ اسکے خاموش ہوجانے کے بعد بھی دیر تک آنکھیں‌نیچی کیے رہی اور کئی منٹ کے بعد جذبات شرم کو دبا کے بولی: “ حسین! نہ بوسہ لینے سے کسی شخص کے جسم پر داغ‌بن جاتا ہےاور نہ میں‌اتنی بے حیا ہوں۔“
حسیں: (بات کاٹ کے) اچھا،تمھارے سوا اور کسی نے میرا بوسہ لیا ہوگا؟‌میں‌نے کسی کو منہ تک تو لگایا نہیں!
زمرد:‌ (اسی طرح‌نظریں‌جھکائے جھکائے)‌اب مجھ سے بے شرمی کی باتیں ‌نہ کہلواؤ۔یہ تم کو فریب دیا گیا ہے۔ نہ یہ بوسے کا نشان ہے اور نہ عشق بازی کی پہچان،بلکہ یہ ایک علامت ہے جو پر شخص‌کی پیشانی پر لوہے سے داغ کے بنا دی جاتی ہے جو اس جنت میں‌لایا جاتا ہے۔
حسین: داغ ہوتا تو مجھے یاد نہ ہوتا؟
زمرد: یہ داغ بے ہوش کرکے بنایا جاتا ہے۔ اور تم جب التمونت سے اصفہان کو جارہے ہوگے اسی وقت بنایا گیا ہوگا۔
حسین:‌ ( زور سے سینہ کوٹ کے) افسوس! گل لینے گئے تھے داغ لائے!
اس کے بعد حسین دیر تک دل ہی دل میں‌اپنی حالت پر افسوس کرتا رہا اور پھر ایک دفعہ چونک کے بولا“ “زمرد! افسوس بڑا دھوکا ہوا؛ تو نے مجھے اسی وقت کیوں‌نہ بتا دیا جب میں‌تیرے پاس لایا گیا تھا۔ اس وقت تو تو بھی مجھے یقین دلا رہی تھی کہ یہ سب ملاء‌ اعلٰٰی کی چیزیں‌ہیں۔“
یہ سن کے زمرد آب دیدہ ہوگئی اور ایک درد کی آواز میں‌بولی: “میری قسمت ہی میں‌یہ لکھا تھاکہ تمھیں‌دھوکا دوں‌گی۔“ زمرد کو آب دیدہ اور ملول دیکھ کے حسین کے دل پر ایک چوٹ سی لگی اور بےاختیاری کے ساتھ باوفا معشوقہ کے آنسو پونچھ کے کہنے لگا: “‌زمرد مجھے یہ خیال نہ تھا کہ اس سوال سے سے تیرے دل کو صدمہ پہنچے گا۔اچھا جانے دے،وعدہ کرتا ہوں‌کہ پھر ایسی باتیں‌نہ پوچھوں‌گا۔“
زمرد: ‌تم زخم پر اور نمک چھڑکتے ہو۔ اس وقت تک تم نے سب کچھ پوچھا مگر یہ نہ پوچھا کہ تم سے چھوٹ کے مجھ کم بخت کےسر پر کیا گزری۔ تم تو آزاد تھے،دنیا میں پھر رہے تھے مگر آہ میں‌قید تھی،اور کیا کہوں‌کہ کس عذاب میں‌مبتلا تھی۔یہ بات میرے اختیار میں‌نہ تھی کہ کسی راز کا ایک ذرا سے اشارہ بھی دے سکوں۔“ اتنا کہہ کے زمرد رار و قطار رونے لگی۔
حسین: (گلے لگا کر اور آنسو پونچھ کے)‌بے شک مجھ سے غلطی ہوئی کہ ان باتوں‌کا پوچھنا بھول گیا مگر سچ کہتا ہوں ‌کہ میں‌نے اس وقت تک کوئی بات سوچ سمجھ کے نہیں‌پوچھی۔ یہ جو کچھ پوچھا ہے،میں‌نے نہیں‌پوچھا بلکہ حیرت و بے خودی پچھوا رہی تھی۔ایسی ازخود رفتگی کی حالت میں کوئی فرو گزاشت ہوئی ہوتو معاف کر۔
زمرد: خیر اب تم نے یہ داستان چھیڑی ہے تو لو سنو۔یہ باغ فدائیوں‌ اور باطنیوں‌کے اعتقاد میں تو جنت الفردوس اور ملاء‌اعلیٰ یا سرمدی عشرت کدہ ہے مگر سچ پوچھو تو شاہان التمونت کی عشرت سرا یا حرم سرا کی حیثیت رکھتا ہے۔ڈیڑھ سو برس کی متواتر کوششیں‌روز بروز اس کی رونق بڑھاتی رہیں،اور چوں‌کہ اس سے مذہبی کام لیا جاتاتھا لہٰذا ہر چیز کے بنانے میں‌بھی کوشش کی گئی کہ اس کی خوش نمائی اور دل فریبی انسان کے حوصلے سے زیادہ اور اس کے محو حیرت کردینے کے لیے کافی ہو۔یہ محل جو دیکھتے ہو کہ سونے چاندی اور مونگے موتی کے نظر آتے ہیں،صرف نقرئی طلائی اور ان کے جواہرات کے رنگ میں‌رنگ دیے گئے ہیں،ورنہ وہی اینٹ اور چونا ہے جس سے ہر جگہ مکان بنائے جاتے ہیں۔نہروں کو جاری کرنے میں‌البتہ بڑی محنت سے کام لیا گیا۔ مگر یہاں‌قدرتی طور پر پہاڑوں‌سے آبشار اور نہریں‌جاری کرنے کا سامان موجود تھا۔یہ بڑی نہر جواس باغ کے درمیان میں بھی ہے اور جس پر ایک سنہرا پل قائم ہے،وہی نہر ویرنجان ہے جس کے کنارے تم نے مدتوں‌آہ و زاری کی ہے۔
حسین: (حیرت سے) یہ وہی نہر ہے؟
زمرد: “ وہی! یہ نہر خاص شاہی قصر سے بہتی ہوئی یہاں‌آئی ہے اور یہاں‌سے چند ایسی گھاٹیوں‌میں‌ہوکے جن میں‌گزرنا غیر ممکن ہے،اس فرحت بخش وادی میں‌پہنچ گئی ہے۔“
حسین: اور زمرد وہ روشنی کیسی تھی جسے تونے نور یزدانی بتایا تھا؟
زمرد: وہ روشنی صرف یہ تھی کہ گرد کی پہاٹیوں‌پر رات کو بہت تیز روشنی اور پوری قوت کی مہتابیں‌چھوڑی جاتی تھیں‌جن کا عکس یہاں‌کے آئینوں‌اور شیشوں‌پر لے کے قوی اور تیز کیا جاتا تھا۔ اس روشنی کا سامان صرف اس زمانے میں کیا جاتا ہے جب یہاں‌کوئی شخص معتقد بنانے کے لیے لیا گیا ہو۔ اس وقت سب کو حکم رہتا ہے کہ جب وہ روشنی تیزی سے چمکے تو چلا کے کہیں “ھٰذا الذی ما وعدنی ربی“۔اور وہ دودھ اور شراب کے حوض بھی اسی ضرورت کے موقع پر لبریز کیے جاتے ہیں۔ لوگوں‌کا تختوں پر بیٹھنا،غلمانوں‌ کا شراب پلانا اور ان کی بے فکری و خالص مسرت کے تماشے بھی اسی موقع پر دکھائے جاتے ہیں۔
حسین: ‌اور یہ طیور کا نغمہ اور ان کا پھل توڑ توڑ کے لانا؟
زمرد: یہ کون بڑی بات ہے۔ چند سدھائے ہوئی طیور چھوڑ دیے گئے ہیں‌جن کو پھلوں کے توڑ لانے اور بغیر بھڑکے ہوئے لوگوں‌ کے سامنے رکھ کے اڑ جانے کی مشق کرا دی گئی ہے۔ اسی طرح‌یہاں‌کے طیور کو قرآن پاک یہ یہ آیت بھی “سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین“‌یاد کرادی گئی ہے جس کو ہر وقت رٹا کرتے ہیں۔
حسین: بڑا گہرا فریب ہے! بھلا کوئی کیوں‌کر سمجھ سکتا ہے ۔ اور ہاں! زمرد جنت کے راز بتانے میں‌تو اپنی سرگزشت کہنا تو بھول ہی گئی؟
زمرد: میری مصیبت کیا پوچھتے ہو! میں ہی تھی جو ان سب آفتوں کو جھیل گئی۔کوئی اور ہوتا تو اب تک خاک میں‌مل چکا ہوتا۔
حسین: نہیں‌پیاری زمرد! ایسی باتیں‌زبان سے نہ نکال،میرے دل کو صدمہ ہوتا ہے۔ خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ وہ سب مصیبتیں‌کٹ گئیں‌اور ہم اب پھر سے ایک دوسے کے آغوش میں ہیں۔
زمرد: اصل میں‌میں‌یہاں‌صرف ایک حور بنائے جانے کے لیے لائی گئی تھی۔ خورشاہ،اس کے ہم راز اہل دربار اور یہاں‌کی تمام حوروں‌کو ہمیشہ کسی خوب صورت عورت کی جستجو رہتی ہے تاکہ اس کے حسن و جمال سے جنت میں‌زیادہ سے زیادہ دل چسپی پیدا کریں۔ جب میں ‌خور شاہ کے سامنے پیش کی گئی تو بد نصیبی سے اس کی نظر میں‌معمول سے زیادہ اور جنت کی تمام حوروں سے بڑھ کے خوبصورت ثابت ہوئی۔ اس نے ارادہ کیا کہ مجھے خالص اپنے لیے مخصوص کرلے۔ میں‌یہ خبر سن کے انتہا سے زیادہ پریشان ہوئی اور آخر دل میں فیصلہ کر لیا کہ چاہے مار ڈالی جاؤں‌مگر اس بے عزتی کو نہ گوارا کروں‌گی۔ابتدا میں‌مجھے طرح طرح‌کے لالچ دیے گئے۔ بتایا گیا کہ اس کی بی بی ہونے کے بعد تاج میرے سر پر رکھا جائے گا اور ایک عالی مرتبہ ملکہ بنوں‌گی،مگر میں‌نے کسی طرح‌نہ منظور کیا،اور جب اسے میری رضامندی سے مایوسی ہوگئی تو وہ ظلم پر آمادہ ہوا اور طرح طرح‌کی تکلیفیں‌دی جانے لگیں۔ دو ڈھائی مہینے اسی حال میں گزرگئے کہ میں ہر وقت موت کا انتظار کرتی تھی۔
معشوقہء باوفا کی یہ مصیبت و وفا کیشی سن کے آنکھوں‌میں‌انسو بھر آئے اور ٹھنڈا سانس لے کے کہنے لگا“ “ زمرد! میرے لیے تو نے بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔“
زمرد:‌یہ مصیبت نہ تھی بلکہ اسے میں‌راحت سمجھتی تھی،اس لیے کہ ابےعزتی اور آبروریزی سے بچی ہوئی تھی۔اب خورشاہ ناکامی کے غصے سے میرے ققل پر آمادہ ہوگیا تھا،لیکن اتفاقًا کسی دوست نے رائے دی کہ ایسے کام جو کہ کسی کے دل میں‌محبت پیدا کرنے سے تعلق ہو،ظلم و جور و زبردستوں سے نہیں‌نکلتے؛ بہتر یہ ہوگا کہ چند روز کے لیے زمرد کو جنت کے ایک محل میں‌چھوڑ دیجیے؛ وہاں‌جب ایک عرصے تک راحت وعیش میں‌رہے گی تو اپنے رنج و غم کو بھول جائے گیا اور آخر جوانی کے جذبات غالب آکے اسے خود ہی آپ کی معشوقہ بننے پر آمادہ کردیں ‌گے۔ یہ رائے اسے پسند آگئی اور میں‌اس کے محل سے لاکے اس جنت اور اسی قصر دری میں‌رکھ دی گئی۔ یہ ایسا محفوظ مقام ہے کہ خور شاہ کے خیال میں بھی نہ تھا کہ یہاں‌کبھی پرندہ پر مارسکے گا۔ باہر کا کوئی شخص‌یہاں‌آنہ سکتا تھا اور جو معتقد بنانے کے لیے لائے بھی جاتے تھے تو ان کی ہر وقت نگرانی ہوتی تھی اور کوشش کی جاتی تھی کہ سوا ایک آدھ بات کرلینے کے میں ان سے زیادہ مل بھی نہ سکوں۔ اوروں ‌پر کیا منحصر ہے،جب میں‌تم سے ملی ہوں،اس وقت بھی ان امور کی پوری نگرانی کی جاتی تھی اور مجال نہ تھی کہ سوا تمھارے بہلانے اور بہکانے کے میں‌تم سے ذرا بھی بے تکلف ہوسکوں۔یہاں مجھے ہر بات کا آرام تھا۔رات دن عیش و عشرت میں گزرتی تھی،اور خورشاہ کے اشارے پر یہاں کی تمام حوریں‌میری لونڈیاں‌بنی رہتیں اور ہر وقت میرا دل بہلانے کی کوشش کرتیں۔ حسین یہ سب سامان مسرت موجود تھا مگر میرے دل کو کسی طرح‌چین نہ آتا۔ تمھاری صورت ہر گھڑی آنکھوں‌کے سامنے رہی اور طرح‌طرح‌کی تدبیریں‌سوچا کرتی کہ کسی طرح‌یہاں‌سے نکلا بھاگوں‌۔ انھیں‌دنوں‌تمھارے قتل کے بارے میں‌بھی مشورے ہوتے اور روز میرا لہو خشک ہوا کرتا۔ایک رات کو میں نے خواب میں‌دیکھا کہ جیسے ایک لق و دق میدان میں‌کھڑی ہوں؛ ناگہاں‌سامنے سے تم نظر آئے اور مجھ سے ملنے کو بے تحاشا دوڑے۔یکایک کسی شخص نے ایک درخت کی آڑ سے نکل کے تمھارے سینےمیں‌ایک چھری ماری۔ تم وہ زخم کھاتے ہی سینہ پکڑ کے کھڑے ہوگئے اور میں‌بے اختیار روتی اور چیخیں‌مارتی تمھاری طرف دوڑی۔ بس اسی حال میں چیختے چیختے میری آنکھ کھل گئی۔اب کہاں‌چین پڑسکتا تھا،باقی رات میں‌نے روکے بسر کی،اور صبح کو حیران و پریشان بیٹھی تھی کہ مرجان نام کی یہاں‌کی ایک حور جو مجھ سے کسی قدر مانوس ہوگئی تھی اور جس سے میں کبھی کبھی دو ایک باتیں‌کرلیا کرتی تھی،میرے پاس آئی اور ادھر اُدھر کی باتوں‌کے بعد بولی: “ زمرد! تم نے کچھ اور بھی سنا؟ وہ نوجوان حسین جو تمھارے ساتھ تھا اب تک اسی وادی میں تمھاری قبر سے لپٹا بیٹھ ہے۔“اس موقع پر مجھے ضبط سے کام لینا چاہیے تھا مگر نہ رہا گیا؛ بےاختیار ایک ٹھنڈی سانس لے کے بول اٹھی: “ حسین ابھی تک وہیں‌ہیں؟“
مرجان:‌ہاں۔ مگر اب یقین ہے کہ دو ہی ایک روز میں‌وہ مقام ان سے خالی ہو جائے گا۔
میں‌نے گھبرا کے پوچھا : “کیوں؟“
مرجان: وہ مقام ہم لوگوں‌کی سیر گاہ ہے اور اسی سبب سے خور شاہ چاہتے ہیں‌کہ وہاں‌کوئی ایسا شخص‌نہ رہے جو ہمارا راز نہ جانتا ہو۔ تمھارے ساتھی نوجوان کی نسبت پہلے تو یہ خیال تھا کہ جب بالکل مایوسی ہوجائے گی تو چلا جائے گا،اوراسی غرض‌سے تمھاری قبر بنادی گئی ہے،پتھر پر تمھارا نام کندہ کردیا گیا کہ تمھارے مرنے کا اسے یقین ہوجائے اور واپس جاکے اور لوگوں‌کو بھی ادھر آنے سے روکے،مگر یہ تدبیر بےکار گئی۔لہٰذا مجبو ہوکے اب یہ تجویز قرار پائی ہے کہ جس طرح‌بنے اس کا کام تمام کردیا جائے۔“ حسین! میں‌نہیں‌کہہ سکتی کہ یہ جملہ سنتے ہی میرے دل کی کیاحالت ہوئی۔گھبرا کے اور بالکل بے اختیاری کے ساتھ کہہ اٹھی: “ تو پھر مجھے بھی مار ڈالو“۔ میری بدحواسی دیکھ کے مرجان بولی: “ اگر اس کو بچانا چاہتی ہوتو ایک کام کرو؛ خور شاہ کے سامنے چل کے خود اپنی زبان سے سفارش کرو۔“ یہ ایسی بات تھی کہ جس کو میں‌ہرگز نہ مانتی مگر فقط اتنے خیال سے کہ تمھاری جان بچتی ہے طوعًا وکرہًا گئی۔ اورجب اس نے مسکرا کے مجھ سے کچھ بات کرنے کا ارادہ کیا تو میں‌نے آہ و زاری سے کہا“ “خدا کے لیے اس نوجوان کی جان نہ لیجیے جو میری یاد میں‌ پڑا رورہا ہے۔“میری درخواست سنتے ہی اس نے نہایت متین صوت بنائی مجھے بہت گھور کے اور غصے کی نگاہ سے دیکھا،اس لیے کہ میرے تمھارے تعلقات نے اس کے دل کو بڑا صدمہ پہنچایا اور نہایت ہی برہمی کی آواز سے پوچھنے لگا:‌“‌وہ تمھارا کون ہے؟“
میں‌:‌ وہ میرا عزیز ہے۔اسی کے ساتھ کھیل کود کے اور اسی کے ساتھ پڑھ لکھ کے میں‌بڑی ہوئی ہوں اور اسی سے میری شادی ہونے والی ہے۔اس سبب سے اکیلا وہی میری جان و مال کامالک ہے۔
خورشاہ: تمھاری شادی ابھی اس کے ساتھ نہیں‌ہوئی؟
میں‌نے نظر نیچی کرکے جواب دیا: “نہیں!“
یہ جواب سن کے خورشاہ نے مجھے بدگمانی کی متجسس نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا: “‌مگر شادی سے پہلے ہی تمھارےاس کے ایسے تعلقات ہوگئے کہ گھر بار چھوڑ کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ تمھاری عفت میں داغ‌لگ گیا؟“
اس کا جواب دیتے وقت مجھے بے انتہا شرم معلوم ہوئی۔ کسی طرح کوئی لفظ میری زبان سے نہ نکلتا تھا مگر صرف اپنی اورتمھاری جان بچانے کی غرض‌سے میں‌نے دل کڑا کرکے اور بے حیائی گوارا کرکے جواب دیا: “‌میں‌ایک توااپنے بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کو اور دوسے حج کے لیے گھر سے نکلی تھی،مگر ہاں‌یہ البتہ ارادہ تھا کہ قزوین پہنچ کے عقد کرلوں‌گی۔“
خور شاہ: نکاح‌کی رسم تو خیر قزوین میں‌ادا ہوتی مگر غالبًا تم میں اس میں‌میں‌بی‌بی والے تعلقات پہلے ہی قائم ہوچکے تھے؟
اس سوال پر میں‌اس قدر شرمائی کہ سارا جسم پسینے پسینے ہوگیا اور نظر نیچی کرکے بلکہ یوں‌کہنا چاہیے کہ شرم کے مارے آنکھیں‌بند کرکے جواب دیا: “ نہیں‌میری عصمت میں‌ کوئی فرق نہیں آیا۔“
اتنا سنتے ہی خور شاہ ایک بےاختیاری کے جوش سے یہ کہتا ہوا میری طرف دوڑا :‌ “‌شکر ہے میری نازنین کے پاک جسم کو ابھی کسی کا ہاتھ نہیں‌لگا!“ قریب تھا کہ وہ ججھے گلے لگا لے مگر میں‌نے دونوں‌ہاتھوں‌ سے الگ ہی روکا اور اس کے ہاتھ سے بچنے کے لیے پاؤں‌کے پاس زمین پر گر کے کہنے لگی:‌“‌اس نوجوان کی جان نہ لیجیے ورنہ میں‌بے موت مر جاؤں‌گی۔“ خور شاہ دیر تک سوچتا رہا۔پھر مجھے اٹھا کے بولا:‌“ زمرد! یہ بہت ضروری ہے کہ وہ وادی اس ضدی شخص‌سے خالی کی جائے۔“
میں‌:‌آہ! میں نے اسے وصیت کردی تھی کہ مرجاؤں‌ تو گھر جاکے عزیزوں‌کو میری عفت و پاک دامنی کا یقین دلاؤ۔مگر افسوس اس نے نہ مانا!“
یہ سنتے ہی خور شاہ چونک پڑ ااور بولا: “ کیا تم نے اسے گھر جانے کی وصیت کی تھی؟“
میں‌:‌جی ہاں‌۔وصیت کیسی،بہت تاکید اور اصرار سے کہا تھا۔
خور شاہ: تو خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ایک نہایت عمدہ تدبیر ہے۔وہ وادی بھی اس سے خالی ہوجائے گی اور اسے کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچے گا۔ مگر زمرد! یہ صرف تمھاری نظر محبت کی امید پر منحصر ہے۔
اس کے جواب میں‌کچھ کہنا مجھے بالکل بے موقع معلوم ہوا۔خاموش کھڑی رہی۔اور خور شاہ نے قلم دوات منگوا کے ایک خط کا مسودہ لکھا اور اسے میری طرف بڑھا کے کہا: “اسے تم اپنے ہاتھ سے صاف کردو۔“ میں نے اسے وہیں‌اس کے سامنے زمین پر بیٹھ کے صاف کردیااور واپس نہیں آنے پائی تھی کہ ایک دودھ لانے والے دہقانی کو بلوا کے خور شاہ نے وہ خط اس کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ تمھاری غفلت میں‌قبرپر رکھوا دیا جائے۔یہ میرا پہلا خط تھا۔ میں‌ اسی کا حال پہلے بھی بیان کر چکی ہوں۔ مگر پھر کہتی ہوں‌کہ کیسے کیسے مظالم ہوئے ہیں‌اور کیسی کیسی مجبوریں پیش آئیں ہیں‌جب میں‌نے تم کو وہ خط لکھا ہے۔ اس خط کے روانہ ہوچکنے کے بعد جب میں جنت میں واپس آئی تو انتہا سے زیادہ حیران تھی۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ اب مجھ سے مایوس ہوکے تم گھر چلے جاؤ گے۔روز اسی ادھیڑ بن میں‌رہتی تھی کہ تمھاری زبان سے میری موت کا قصہ سن کے اماں‌اور ابا کے دل پر کیا گزری ہوگی۔کئی ہفتے اسی حالت میں‌گزر گئے ۔ وہ حور جس کانام مرجان تھا،روز میرے پاس آتی اور ہمیشہ ہم دردی ظاہرکرتی،مگر مجھے بعد میں‌معلوم ہوا کہ وہ خور شاہ کی سکھائی پڑھائی تھی اوراس سے روز جاجا کے کہہ دیا کرتی تھی کہ میں‌تمھارے لیے کس قدر حیران رہتی ہوں۔ایک دن اس نے باتوں‌باتوں‌میں‌پوچھا: “ زمرد! تمھارا مکان آمل میں‌ہے؟“ میں‌چونک کے بولی: “ہاں‌!کیوں؟“
مرجان:‌وہیں‌ایک زبردست عالم، جو فی الحال نیشا پور میں‌رہتے ہیں، لوگوں‌کو ہمارے خلاف بہکا رہے ہیں اور اس جنت کو فریب بتاتے ہیں۔
میں‌: کون؟امام نجم الدین نیشا پوری تو نہیں؟
مرجان: ‌ہاں‌ہاں‌وہی۔ ان کے قتل کی تجویز ہو رہی ہے۔
میں‌: (چونک کر)ہائے یہ تو بڑا ظلم ہوگا! وہ بڑے باخدا عالم ہیں‌‌۔حسین کے استاد ہیں‌اور انھیں‌کے وہ مرید بھی ہیں۔
مرجان: ‌(تعجب کرکے) حسین ان کے شاگرد اور مرید ہیں؟
میں: اتنا ہی نہیں،ان کے بھتیجے بھی ہیں‌وہ۔
اس کے بعد میں دل میں افسوس کرتی رہی کہ یہ ظالم ناحق ایک باخدا شخص کی جان لیتے ہیں۔اور انھیں‌خیالات کی وجہ سے رات کو کئی پریشان اور مہیب خواب دیکھے۔دوسرے دن اٹھ کے بیٹھی ہی تھی،اور آفتاب اچھی طرح بلند نیہں ہونے پایا تھا کہ مرجان آئی اور کہنے لگی: “چلو زمرد! تمہیں‌ خورشاہ نے بلایا ہے۔“
میں‌: (‌پریشانی کی صورت بنا کے)‌ کیوں؟
مرجان:‌ یہ میں‌کیا جانوں،مگر اسی وقت چلو۔ مجبورًا میں اس کے ساتھ گئی۔ وہاں‌جا کے دیکھا تو ایک خوب صورت لڑکی کے ہاتھ سے لے لے کے جام شراب پی رہا تھا۔میری صورت دیکھتے ہی بولا:‌“زمرد! تم کسی طرح‌حسین کے خیال کو نہیں‌چھوڑتیں۔اگر میری آرزو پوری کرے کا اقرار کرو تو تمھیں حسین سے ملانے کا وعدہ بھی کرتا ہوں۔“ یہ الفاظ سنتے ہی میرے دل میں‌ایک خفیف سی مسرت پیدا ہوئی مگر اس کی شرط بالکل ایسے تھی جیسے شربت کے جام میں‌زہر ملا ہو۔تاہم میں‌نے اور کسی خیال کو دل ہی دل میں دبا کے کہا: “ اگر آپ کے رحم نے مجھے ان سے ملا دیا تو زندگی بھر لونڈی رہوں‌گی۔“ میرے اس جواب سےوہ خوش ہوا اور فورًا ایک دوسے خط کا مسودہ دے کر کہا:‌“اس کو اپنے قلم سے صاف کردو۔:‌میں‌نے مسودہ ہاتھ میں لے کے قبل اس کے کہ پڑھا ہو خور شاہ کی طرف دیکھ کو پوچھا: “ اب تو حسین اس وادی سے چلے گئے ہوں‌گے؟“
خور شاہ: نہیں،اس نے تمھارے پہلے خط کی ذرا بھی پرواہ نہیں‌کی۔اسی طرح قبر کا مجاور بنا بیٹھا ہے۔تم اسے اپنا باوفا اور سچا عاشق سمجھتی تھیں‌مگر وہ تمھاری پروا بھی نہیں‌کرتا۔اس دل کش وادی میں اس کا ایسا دل لگا کہ اب تھارے حکم کو بھی نہیں‌مانتا۔
میں:‌ نہیں۔ وہ ایسے ہی باوفا ہیں‌جیسا کہ میں‌سمجھتی ہوں۔ جس طرح‌میری جدائی نہ گوارا کی تھی،اسی طرح‌اب انھیں میری قبر کی مفارقت بھی گوارا نہ ہوگی۔
حسین: (‌جوش میں‌آکر) بے شک زمرد! صرف اسی خیال سے میں‌نے تیرا پہلا حکم نہیں‌مانا۔
زمرد: ‌خیر، میری زبان سے یہ باتیں‌سن کے اس نے ایک حیرت کے ساتھ مجھے گھور کے دیکھا اور کسی قدر پست آواز میں‌بولا: “ یہ مسودہ جلدی صاف کردو کہ وہ تم سے ملنے کا سامان کرے۔“ مجھے اس مسودے کے پڑھتے ہی حیرت ہوگئی۔ پڑھتی جاتی تھی اور دل میں‌کہتی جاتی کہ کہ یہ لوگ کس قدر مکار اور فریبی ہیں۔بہرحال میں‌نے خط صاف کرکے دیا ور چلی آئی۔ دوسے دن مجھے مرجان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ خط تمھارے پاس بھیج دیا گیا۔ اور اس سے غرض‌یہ تی کہ تمھیں‌شیخ‌علی وجودی کا معتقد بنا کے انھیں کے ذریعے تمھارے ہاتھ سے امام نجم الدین نیشاپوری تمھارے ہاتھ سے قتل کرائے جائیں اس کے صلے میں تم جنت کی سیر کرو اور مجھے تم سے ملنے کا موقع ملے۔حیسن! کیا کہوں‌کہ یہ حال معلوم ہوتے ہی میں‌نے اپنے اوپر کتنی لعنت و ملامت کی ہے۔ میں‌دل میں ڈرتی تھی کہ کہیں‌ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے ان کے خون میں‌اپنے ہاتھ رنگ لو دعا کرتی تھی کہ خد کرے پہلے خط کی طرح‌تم اس خط پر بھی عمل نہ کرو۔ مگر جب معلوم ہوا کہ یہاں‌کے بھیجے ہوئے گدھےپر سوار ہوکے تم روانہ ہوگئے ہو تو دل میں‌اور ڈری اور دعا کرنے لگی کہ خداوندا! حسین کو اس گناہ سے بچا! مگر مدت کےبعد جب معلوم ہوا کہ اب دو ہی تین دن میں‌تم جنت میں‌آیا چاہتے ہو تو مجھے یقین ہوگیا کہ تم ان ظالموں‌کے پھندے میں‌پھنس گئے۔ جب تم اس وادی کو چھوڑ کے چلے گئے تو یہاں کی حوریں پھر‌اکثر اوقات سیر و تفریح‌کے لیے وہاں‌جانے لگیں۔ جن کے ساتھ خور شاہ کی اجازت سے کبھی کبھار میں بھی چلی جاتی تھی،اور اپنی قبر کو دیکھ کے تمھارے خیال سے اکثر دل ہی دل میں ‌روتی ۔ جب تم جنت میں‌آئے ہو اس سے پہلے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ تم سے کیوں‌کر ملوں‌،کس قسم کی باتیں‌کروں‌اورتمھارے اعتقاد کو کس طرح‌بڑحاؤں۔تاکید تھی کہ اگر اسکے ذرا بھی خلاف ہوا اور ذراسا بھی راز تم پر ظاہر ہوگیا تو پہلے تم مارڈالے جاؤ گے اور پھر میں۔ہر وقت یہاں‌میری اور تمھاری نگرانی ہوتی رہتی تھی اور مجھے تم سے ایک لفظ کہنے کا موقع بھی نہ ملتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے تمھاری یہ حالت نظر آئی کہ جیسے تم پر کوئی سخت جادو چلا ہواتھا اور اپنے ہر نیک و بد سے بےخبر تھے۔ایسی حالت میں اس کی بھی امید نہ تھی کہ تم سے کچھ کہوں‌گی تو تم اسے ضبط کرکے چھپا سکو گے۔اسی خیال سے میں نے کچھ نہ کہا ۔ تاہم موقع پا کر اتنا بتا دیا کہ ناامیدی کی حالت میں‌مری قبر پر آنا،اورآخراسی تدبیر سے خدا نے کامیاب کیا۔ مگر حسین! میں‌نے تمھارے لیے خور شاہ کے ہاتھ سے بڑ بڑے ظلم اٹھائے۔برائے نام جنت تھی۔ تمھارے جانے کے بعد اور زیادہ سختیاں‌ہوئیں‌اور اب خور شاہ کو خیال ہوچلا تھا کہ میں‌کبھی اس کے موافق نہ ہوں گی،مگر لوگوں‌کے کہننے سننے اور اس کے دلی میلان‌کا نتیجہ تھا کہ اس وقت زندہ ہوں۔
حسین: (زمرد کو گلے لگا کے)‌غنیمت ہے کہ اتنی مصیبتوں‌کے بعد ہم پھر مل گئے۔مگر اب مجھے ضرور ہے کہ ان ظالموں‌سے ان باتوں‌کا انتقام بھی لوں۔جب تک انتقام نہ لوں گا کبھی آرام سےبیٹھنا نہ نصیب ہوگا۔ میرے گناہوں کا کفارہ یہی ہے کہ دنیا کو خور شاہ،علی وجودی اور طور معنی کی نجاست سے پاک کروں‌۔جس طرح ابھی تک ان لوگوں‌کا فدائی تھا، اب دین کا سچا فدائی بنوں‌گا۔ہر ایک مستقر پر جاؤں‌گا اور اسی طرح‌فریب و مکر سے ان لوگوں‌کو جنت کے بہانے دوزخ میں‌ بھیجوں‌گا۔
زمرد: تمھیں‌ کہیں‌جانے کی ضروت نہیں‌، فی الحال عید قائم قیامت ہے؛ یہ سب لوگ یہیں‌آئے ہوئے ہیں،اسی قلعے میں‌ موجود ہیں،اور انکی سزا دہی کا بھی پورا انتظام ہوگیا ہے۔آج ہی شام تک تمھیں‌موقع مل جائے گا کہ شاہ‌زادی بلغان خاتون کے ساتھ خور شاہ کے محل اور قلعے میں گھس کے ایک ہی وقت میں‌تینوں‌ شخصوں‌کا کام تمام کردو۔
حسین: زمرد! تجھے یہاں کے سب حالات کیوں‌کر معلوم ہوگئے؟
زمرد: حوروں‌اور جنت والوں‌سے کوئی راز چھپا تھوڑی ہی ہے۔ مرجان کی طرح یہاں‌کی بعض‌حوریں‌خور شاہ کے محل میں‌جاتی ہیں‌اور ان میں‌سے ایک ہر وقت اس کی صحبت میں‌موجود رہتی ہے۔یہ حوریں‌جب واپس آتی ہیں تو جو دیکھتی سنتی ہیں‌دوسروں‌سے کہہ دیتی ہیں۔ اس طرح‌تھوڑی ہی دیر میں‌ہر بات سب میں‌مشہور ہواجاتی تھی،اور کسی نہ کسی ذریعے سے میں‌بھی سن لیتی تھی۔اور ہاں‌حسین! یہ تو بتاؤ کہ شاہزادی کے ساتھ کتنی فوج ہے؟
حسین: فوج! تھوڑے سے جوان ہونگے۔
ناگہاں‌ایک شور و ہنگامے کی آواز بلند ہوئی۔ دونوں‌گھبراکے محل سے باہر نکل آئےاور ہزارہا سپاہیوں‌کا عظیم الشان لشکردیکھ کے اس محل کی طرف دوڑے جس میں‌شہزادی بلغان خاتون آرام کر رہی تھی۔‌
 

دوست

محفلین
انتقام
حسین اور زمرد نے اپنے قصر دری سے نکل کے دیکھا تو عجب عالم نظر آیا۔ جنت کے آرام و اطمینان میں‌فرق آگیا تھا اور معلوم ہوتا تھا گویا فردوس بریں‌میں‌قیامت آگئی۔خوب رو اور پری چہرہ حور و غلمان جوا پنے حسن و جمال سے ہر ایک کو نورانی پیکر ہونے کا دھوکا دیتے تھے قصروں‌اور کوشکوں‌سے نکل نکل کے بد‌حواس بھاگے اور ایک دوسرے کی آڑ میں‌چھپنے لگے۔ ہر طرف ایک تہلکہ پڑگیا۔جہاں‌رونا حرام بتایا جاتا تھا وہیں‌ہر طرف رونے پیٹنے اور نوحہ و بکا کی آواز بلند ہوئی۔ ایک عظیم الشان اور بڑا بھاری تاتاری لشکر جنت میں‌داخل ہوگیا تھا جس کے سپاہی ہر چہار طرف پھیلتے جاتے تھے ۔قصروں اور کوشکوں‌میں‌لوٹ مار مچ گئی تھی۔ خوبصورت لڑکیاں‌اور پری جمال لڑکے گرفتار ہورہے تھے۔جن کی سہمی ہوئی صورتوں‌، چیخ‌و پکار کی آوازوں نے عجب نازک گھڑی کا سماں‌پیدا کر رکھا تھا۔
یہ وحشت انگیز اور بدحواس کرنے والا سماں‌ دیکھتے ہی زمرد اور حسین دوڑتے ہوئے اس قصر میں‌ پہنچے جہاں‌شاہزادی آرام کر رہی تھی۔ زمرد شہزادی کی آرام گاہ کے قریب پہنچ کے دستک دینے ہی کو تھی کہ ایک وحشی و غارت گر تاتاری اس کی صورت دیکھ کے چھپٹ پڑا۔ قریب تھا کہ اور سب حوروں‌کی طرح‌وہ بھی گرفتار ہوجاتی۔ مگر حسین‌سے یہ دیکھ کے رہا نہ گیا؛ اور کوئی ہتھیار تو پاس نہ تھا،وہی اپنا فدائیت کا خنجر لے کے دوڑا۔قریب تھا کہ اس میں اور تاتاری میں‌لڑائی ہو جائے کہ ناگہاں کمرے کا دروازہ کھلا اور خوبصورت شاہ زادی بلغان خاتون اپنے بکھرے ہوئے لٹکتے بالوں‌‌کے ساتھ لباس کے لمبے لمبے دامنوں‌کو زمین پر لٹاتی ہوئی نکلی اور تاتاری زبان میں‌چلا کے بولی: “ ٹھہرو!“شاہ زادی کی صورت دیکھتے ہی تاتاری دوڑکے اس کے قدموں‌پر گر پڑا اور عرض‌کیا: “ ہم حضور کی تلاش میں‌تھے۔“
شاہزادی: تم میرے ساتھ والوں‌میں‌سے ہو؟
تاتاری: نہیں!
شاہزادی: (خوش ہوکے)تو بھائی آگئے؟
تاتاری: جی ہاں۔
ناگہاں‌تاتاریوں‌کا ایک بڑا بھاری غول نظر آیا ،جن کے درمیان میں‌خود ہلاکو خاں بھی موجود تھا۔شمشیر برہنہ اس کے ہاتھ میں‌تھی۔ عمامے میں‌کلغی لگی تھی،جس پر مغلئی نیزے اور تاتاری بیرقیں‌سایہ کیے ہوئے تھی۔ اس شان سے اس کے شاہی خاندان‌میں‌ہونے اورنیز تمام فوج کے سردار ہونے کا پورا پتہ چلتا تھا۔ہلاکو‌خاں‌کو آتے دیکھ کے بلغان خاتون کمرے سے نکل کے استقبال کو دوڑی۔ بہن بھائی جوش و خروش سے ملے، وحشی اور غارت گر جوانوں‌نے ایک گھڑی کے لیے مہذب بن کے اور مرتب ہوکے اپنی حسین و نازنین شاہ زادی کو سلام کیا اور ہر طرف سے خوشی و مسرت کے نعرے بلند ہونے لگے۔
بلغان خاتون: (ہلاکو خان سے) بھائی آپ کب آئے؟ مجھے تو تردد پیدا ہوچلا تھا۔
ھلاکو خان: تم لکھتیں اورمیں نہ آتا؟ اس میں‌شک نہیں‌کہ اس وقت سلطان دیلم کے تعاقب میں عجلت کرنے کی ضروت تھی،مگر تمھارا خط دیکھتے ہی مجبور ہونا پڑا۔ میں نے تھوڑی سے فوج اس کے تعاقب میں ‌چھوڑ دی اور باقی لوگوں‌کو ساتھ لے کے چلا آیا۔
بلغان خاتون: میں ‌روانہ ہونے سے کئی دن پہلے آہ کو اطلاع دے چکی تھی،اسی خیال سے زیادہ فوج اپنے ہمراہ نہیں‌لائی، لیکن آج صبح سے جوں‌جوں آُ پ کے پہنچنے میں ‌تاخیر ہوتی تھی،میرا تردد بڑھتا جاتا تھا۔
ہلاکوخاں: میں‌نے بہت کوشش کی کہ صبح تڑکے پہنچ جاؤں‌مگر کسی طرح‌نہ پہنچ سکا۔ خیر اب بھی چنداں‌دیر نہیں‌ہوئی۔
اس کے بعد بلغان خاتون نے زمرد اورحسین کو ہلاکوخاں‌کے قدموں‌پر گرایا اور کہا: “ یہی لوگ ہیں‌جن کی مدد سے میں‌ یہاں تک آسکی ۔“ ہلاکو خاں نے دونوں کو اٹھا کے گلے لگایا اور کہا: “ اپنی بہن کی طرف سے میں‌بھی تمھارا شکر گزار ہوں۔“ دونوں‌نے پھر جھک کے اس کےقدم چومے اور کہا:“ حضور ہی کی وجہ سے ہم کو اس قید سے نجات ملی،ورنہ زندگی بھر نجات کی امید نہ تھی۔“
بلغان خاتون: اور بھائی آپ کے ہمراہ کتنی فوج ہے؟
ہلاکو خاں: میں‌پچاس ہزار فوج لے کے چلا تھا،راستے میں‌وہ چالیس ہزار جوان اور مل گئے جو تمھارے ساتھ آئے تھے۔ اب کل نوے ہزار جانباز تاتاری میرے ہمراہ ہیں،مگر ان میں سے صرف پانچ ہزار آدمی اندر لایا ہوں،اس لیے کہ راستے کی دشواریوں کے باعث اس سے زیادہ فوج کا یہاں‌لانا غیر ممکن تھا۔
بلغان خاتون: اور باقی ماندہ فوج وہیں‌نہر کے کنارے ٹھہری ہوگی؟
ھلاکو خاں“ نہیں، میں‌نے کئی منزل پیشتر سے اپنی فوج کے چالیس ہزار آدمی قلعہ التمونت پر بھیج دیے تھے،جو آج ہی پہنچ گئے ہونگےاور قلعے کے اندر سے ہمارے طبل و قرنا کی آواز سنتے ہی یورش کردیں‌گے۔ نہر ویرنجان کے کنارے پہنچ کے جب مجھے معلوم ہوا کہ زیادہ آدمی یہاں‌تک نہیں‌پہنچ سکتے تو میں‌نے طولی خاں‌کو تمام باقی ماندہ فوج پر سردار مقرر کرکے حکم دے دیا کہ وہ بھی التمونت ہی پر جاکے حملہ کرے۔ اس کے ساتھ 45 ہزار فوج ہے۔مجھے اندیشہ تھا یہ لوگ وقت پر نہ پہنچ سکیں ‌گے مگر اتفاقًا خوش قسمتی سے ایک یہیں‌کا کوہستانی مل گیا جس نے بتایا کہ التمونت بہت قریب ہے اورزیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے میں‌یہ پورا لشکر وہاں‌ پہنچ سکتا ہے۔طولی خاں‌اس شخص کوساتھ لے کے گیا ہے اور یقین ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں‌وہ بھی قلعے کے پھاٹک پر پہنچ گیا ہوگا۔ خیر اب یہ بتاؤ کہ قلعے کا راستہ کدھر سے ہے؟
بلغان خاتون: تو بھائی! تھوڑی دیر یہاں‌ٹھہر کے سستا لو،پھر چلنا ، تم ابھی منزل مارے اور تھکے ماندے چلے آتے ہو۔
ہلاکو خاں:‌ (ہنس کے) ہمارا آرام اسی میں‌ہے کہ جوہر شجاعت دکھانے کو کوئی اچھا میدان جنگ ملے ۔جب تک فتح نہ حاصل ہولے اس وقت تک کوئی چیز ہماری تھکن کو نہیں‌مٹا سکتی۔ ہاں‌تمھارے تھکنے کا البتہ مجھے لحاظ‌ہوتا،مگر تم مجھ سے پہلے ہی یہاں‌پہنچ چکی تھیں‌اور اچھی طرح سستا چکی ہو،لہٰذا اب کسی بات کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔
حسین: (جوش و خروش سے قدم آگے بڑھا کے) حضور! بے شک انتظار نہ کرنا چاہیے۔مجھے ان لوگوں‌نے اتنا بڑا فریب دیا ہے،اور میرے ہاتھ سے ایسے ایسے گناہ کرائے ہیں کہ جب تک ان میں سے خاص‌تین شخصوں‌کی جان نہ لے لوں‌گا، چین نہ پڑے گا۔ہر وقت میرے دل سے انتقام کی آواز نکلتی ہے اور پریشان ہوجاتا ہوں۔
ہلاکو‌خاں: (مسکرا کے) ہاں‌ذرا بیان تو کروکہ تمھیں‌کیوں‌کر فریب دیا گیا تھا؟
شاہی حکم کی تعمیل میں حسین نے اپنی ساری سرگزشت مختصر الفاظ میں بیان کی اور آخر میں‌آبدیدہ ہوکے کہنے لگا: “افسوس! زمرد کی محبت کے نام سے مجھے اتنے بڑے اور ایسے ایسے فریب دیے گئے ہیں کہ جب تک زندہ ہوں‌اپنے اوپر لعنت کرتا رہوں‌گا۔“
ہلاکوخاں: (حیرت سے) عجب! واقعی ان لوگوں‌نے دنیاپر ریاکاری ومکاری کا عجیب جال ڈال رکھا تھا۔اب اس قلعے کی فتح کے بعد میرا ارادہ ہے کہ ملاحدہ کی نجاست سے ساری دنیا کو پاک کردوں۔
حسین: اگر ایسا ہوا تو خدا آپ سے بہت خوش ہوگا،اور دنیا ہمیشہ کےلیے آپ کے مبارک اسلحہ کی ممنونِ احسان رہے گی۔
ہلاکو‌خاں: تو چلو، اب تاخیر میں نقصان ہے۔ہماری فوج جو قلعے کے گرد اتری ہوئی ہے،متردد و پریشان ہوگی۔
زمرد: یہ کام میرے ذمے ہے۔ حضور! آپ کی اس لونڈی کے سوا کوئی اس راستے سے واقف نہیں ہے۔مگر اپنے ہمراہیوں‌کو حکم دے دیجیے کہ جب تک محل کےاندر نہ داخل ہولیں، نہایت خموشی سے چلیں۔کہیں‌پہلے سے خبر ہوگئی تومحل سرا کا پھاٹک بند کر لیاجائے گا اور پھر قلعے سے نکل جانے میں بڑی بڑی دشواریاں پیش آئیں‌گی۔
زمرد کی ہدایت کی مطابق ہلاکو‌خاں‌نے اپنے تمام ساتھیوں‌کو ساکت و صامت رہنے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھانے کا حکم دے دیا۔ وہ پانچ سو تاتاری جو قراقرم سے شاہ زادی کے ہمراہ آئے تھے اور اب اس پانچ ہزار فوج کے بعد وہ بھی جنت کے اندر داخل ہوگئے تھے،یہیں جنت میں‌چھوڑ دیے گئے تاکہ اسیر شدہ حور و غلمان کی حفاظت کریں۔اورہلاکوخاں‌التمونت کےقصر شاہی کیطرف اس شان سے روانہ ہوا کہ آگے آگے سے حسین تھا۔ اسے اب کسی تاتاری جوان سے ایک تلوارمل گئی تھی جسے وہ غضب اورانتقام کے ارادے سے علم کیے ہوئے تھا۔اسکے پیچھے خود ہلاکو خاں‌جس کے داہنی جانت بلغان خاتون تھی اور بائیں‌طرف زمرد اور ان کے پیچھے پانچ ہزار تاتوریوں کا غول تھا جو باوجود اژدحام اور جوش خروش کے نہایت ہی سکوت و متانت کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا جاتا تھا۔
نہر ویرنجان کے اس طرف کے تمام چمن اور دل کش قطعات باغ طے کرکے یہ پُر سطوت گروہ سنہرے پل پر پہنچا۔زمرد نے بڑھ کے پل کا قفل کھولا اس لیے کہ اس نے آج صبح کو راستہ روکنے کے لیے اس پل میں قفل ڈال دیا تھا۔ پل کا پھاٹک کھلتے ہی سب لوگ نہر سے اتر کےاُدھر کے پرفضا اور دل کش مرغزار میں ‌داخل ہوئےاور زمرد کے بتانے کے موافق ایک خوش نما اور خوش سواد راستے سے گزر کے بڑے بڑے سایہ دار درختوں کی ایک جھنڈ میں‌پہنچے۔انھیں درختوں‌کے گھونگٹ میں‌رکن الدین خور شاہ کی محل سراکا خوبصورت چہرہ(دروازہ) چھپا ہوا تھا۔دروازے کی صورت دیکھتے ہی یہ لوگ دوڑ کے اندر گھس پڑے اور قبل اس کے کہ کسی کو خبر ہو،ایک طولانی ڈیوڑھی کو قطع کرکے خوش نما اور نزہت بخش خانہ باغ میں جاپہنچے،جو اپنی شادابی و دل کشی میں التمونت کی جنت سے کم نہ تھا۔
ان غیر خلل اندازوں‌کی صورت دیکھتے ہی چند سپاہی جو پہرے پر متعین تھے،اپنے اسلحہ لے لے کے دوڑے،مگر جب دیکھا کہ تاتاریوں‌کا ایک لشکر ہے تو بدحواس بھاگنے لگے دوچار تو مارے گئے اور بقیۃ السیف نے بھاگ کے سارے محل اور قلعے میں ہلچل مچادی۔قلعے میں مذہبی عید کی رسمیں‌بجا لائی جارہی تھیں اور بیرونی اور نیز یہاں‌کے لوگوں‌کا ایک بڑا بھاری مجمع تھا۔اگر حواس سے کام لیا جاتا تو ممکن تھا کہ ایک معرکے کی لڑائی ہوتی ،مگر تاتاریوں‌کی ہیبت ان دنوں‌ساری دینا میں‌ببیٹھی ہوئی تھی۔ ان کے قلعے میں داخل ہوجانے کا نام سنتے ہی سب کے ہاتھ پاؤں ‌پھول گئے۔ خود خورشاہ جو کھڑا خطبہ پڑھ رہاتھا،منبر سے اُتر کے بدحواس بھاگا کہ کسی کونے میں‌جا چھپے،مگر جانے نہ پاتا تھا،اس لیے کہ محل کی نازک اندام و پری جمال عورتیں برہنہ سر اور بر ہنہ پا بھاگ بھاک کے آتی تھیں اور قدم قدم پر اس کے دامن سے لپٹ کے پناہ مانگتی تھیں۔اس وقت تک یہاں‌اس کی خبر نہ تھی کہ قلعے کے گرد بھی ایک بڑا بھاری اور عظیم الشان تاتاری لشکر محاصرہ کیے ہوئے ہے۔ بادشاہ اور معتقدوں‌کو بدحواس دیکھ کے تمام سپاہی اور اہل قلعہ،داعی اور فدائی قلعلے کے پھاٹک کھول کے بزدلی اور خوف کی آوازیں‌بلند کرتے ہوئے باہر نکلے جن کے نکلتے ہی قلعے کے اندر سے مغلئی طبل و قرنا بجے اور تاتاریوں‌کے باہر والے لشکر نے اپنے قومی باجوں‌کی آواز سنتے ہی خود اپنا طبل بجا دیا اور فورًا حملہ کردیا۔ بھاگ کے باہر جانے والے،تاتاری لشکر کے متلاطم سمندر کو ایک طوفان کی طرح اپنی طرف آتے دیکھ کے نہایت ہی ازخود رفتگی کے ساتھ الٹے پھرے،جن کا طولی خاں‌کے لشکر نے بڑی پھرتی سے تعاقب کی اور باہر کے مغلئی جان باز ان کو قتل کرتے ہوئے قلعے کے اندر گھس پڑے۔
اب قلعے کے اندر سخت طوفان بپا تھا۔ہر طرف قتل عام کا سماں‌نظر آرہا تھا۔بوڑھے،بچے،زن و مرد،اہل حرفہ اور سپاہی سب بلا استثناو امتیاز قتل ہورہے تھے۔ایک عجب ہنگامہ تھاجس میں‌تیر اورنیزے،تلوار اور چھری اور گزر اور تبر کی ہوش ربا آوازوں‌کے ساتھ تاتاری لٹیروں‌کی وحشت ناک چیخیں،عورتوں‌اور بچوں‌کی آہ و زاری اور رونے پیٹنے کی آوازیں‌ایک ساتھ سنی جاتی تھیں۔
ہلاکو خان اور بلغان خاتون کے ہمراہی خور شاہ کے محل کے ایک ایک کمرے اور دالان میں‌گھس گھس کے خوف زدہ عورتوں‌اور مردوں‌،بوڑھوں‌اور بچوں کو نکال نکال کے ہنکاتے ہوئی اس بڑے میدان میں‌لائے جہاں‌ابھی چند منٹ پہلے عید کا جشن ہورہا تھا اور عیش و مسرت کے پر جوش نعرے بلند تھے۔دوسری طرف سے باہر بھاگنے والوں‌کو طولی خان کے ہمراہیوں‌نے نہایت ہی بدحواسی کے ساتھ بھگا بھگا کے اندر کیا۔اور وہ بھی اسی میدان میں‌ آکے اپنے مظلوم و پریشان دوستوں‌سے اندھوں‌کی طرح‌ٹکرانے لگے۔ کسی کو اپنے پرائے کا ہوش نہ تھا۔ہر شخص کے حواس غائب تھے اور جو دوست دشمن میں سے کسی کو پاتا مجنونوں یاڈوبنے والوں‌کی طرح‌اس کے دامن سے لپٹ کے پناہ مانگتا۔یہ دل خراش سین زمرد کے دل پر نہایت ہی اثر کر رہا تھا۔اور ان لوگوں‌کی بے کسی دیکھ دیکھ کے رو اُٹھتی تھی۔کئی مرتبہ قلعے کی بعض‌ستم زدہ عورتوں‌کے ساتھ اس کی زبان سے بھی چیخ‌کی آواز نکل گئی۔ زمرد کی پریشانی دیکھ کے بلغان خاتون اس کےقریب آئی اور کہنے لگی: “زمرد! میں‌نہ جانتی تھی کہ تمھارا دل اس قدر کمزور ہے،ورنہ تم کو یہاں نہ لاتی۔“
زمرد: (روکے) شاہزادی! یہ سب میرا کیا ہوا ہے۔ ہر خون کا قطرہ جو اس وقت قلعے میں گر رہاہے اور گرے گا،اس کےگناہ میں میرانام بھی لکھا جائے گا۔اور ممکن نہیں‌کہ اسکے انتقام سے میں بچ سکوں۔
بلغان خاتون: یہ صرف تمھارے دل کا بودا پن ہے،ورنہ ان لوگوں کا قتل کرنا ہرگز گناہ نہیں‌۔ ذرا یہ تو خیال کرو کہ اس وقت ہم کیسے کیسے مقدس بزرگوں‌اور نامور لوگوں‌کا بدلہ لے رہے ہیں۔جتنے لوگ یہاں‌مارے جائیں‌گے،ان سے زیادہ روحیں‌اس وقت خوش ہورہی ہونگی اور ہمارے لیے خدا سے مغفرت کی خواست گار ہونگی۔
زمرد: (ہچکیاں‌لے لے کے) جو کچھ ہو،مگر شاہزادی مجھ سے یہ ظلم و جور نہیں‌دیکھا جاتا۔
بلغان خاتون:‌ جب یہ ظلم و جور دل پر اثر کرے تو ان مظالم کو یاد کر لو جو ان ظالموں‌ کے ہاتھ سے دنیا پر ہوتے رہے۔
تھوڑی ہی دیر میں قلعے کی نصف سے زیاد آبادی قتل ہوگئی۔ لاشیں‌ہر طرف تڑپ رہی تھی۔ ہر طرف پھڑکتی ہوئی آ آ کے ایک مقام پر بہت سی جمع ہوجاتیں، اور ایک دوسری کو اپنے خون میں رنگتیں، اور لپٹ لپٹ کے اچھلتی تھیں؛ مگر قاتلوں‌کا خیال بھی اس طرف نہ جاتا تھا۔وہ برابر نئے بے سر دھڑوں‌کو گرا گرا کے انھیں تڑپتی ہوئی لاشوں‌کے تودوں‌کی طرف بھیج رہے تھے۔
اب ہلاکوں‌خاں‌اسی منبر پر جاکھڑا ہوا تھا جس پر سے خور شاہ خطبے کو ناتمام چھوڑ کے اترا تھا۔ برہنہ و خون آلود تلوار اس کے ہاتھ میں تھی اور اس کی بہن شہزادی بلغان خاتون منبر کے نیچے اس کے قریب ہی کھڑی تھی۔ حسین اگرچہ فوجی آدمی نہ تھا مگر اسے انتقام کا پورا موقعہ ملاتھا اور دل کی آگ ملاحدہ کے قتل کی پیاس کو تیز کررہی تھی۔ تاتاریوں‌کی بھیڑمیں گھس گھس کے اوہ ان خاص‌لوگوں‌کو ڈھونڈتا پھرتا تھا جنھیں‌اس نے پہلے سے اپنا شکار تجویز کر لیا تھا۔ ناگہاں ایک شخص ‌دوڑ کے اس کے دامن سے لپٹ گیا اور اس کے منہ سے آواز نکلی: “ حسین، مجھے بچا! میں‌جانتا ہوں کہ ‌تو شجر معرفت کی ایک شاخ ‌ہے۔“ حسین سمجھ گیا کہ کاظم جنونی ہے۔دل میں‌ آئی کی ایک ہی وار میں اس کا سر اڑا دے مگر خود ہی سوچا کہ اس سے طور معنی اور علی وجودی کا پتہ لگ جائے گا۔یہ خیال آتے ہی اس نے ذرا دوستی کی شان سے کاظم جنونی کے کان کیطرف جھک کے پوچھا: “اور طور معنی کہاں‌ہیں؟“
کاظم جنونی نے یہ سنتے ہی سر اٹھا کے ادھر ادھر دیکھا اور شکستہ حال بڈھے کی طرف جو کئی آدمیوں کے درمیان زمیں پر ننگے سر بیٹھا تھا،اشارہ کیا،اور پھر زمیں پر گر کے کہنے لگا: “ اے شجر معرفت! مجھے پناہ دے!“ حسین نے غضب آلود تیوروں‌سے اس کی اس ذلیل خوشامد کو دیکھا ور یہ کہہ کے کہ :“تجھ سے ذلیل فریبی کے لیے پناہ نہیں‌ہے“ اسکا سر اڑا دیا۔ کاظم جنونی کو تڑپتا چھوڑ کے وہ اس بڈھے کی طرف گیا اور دیر میں پہچان سکا کہ طور معنی وہی ہے۔حسین نے اس مجمع کے اندر ہاتھ ڈال کے اسے باہر کھینچا اور کہا: “ آج تو میں‌نے وہ ستر ہزار حجاب خود ہی چاک کرڈالے اور نور سینا کو بے حجاب دیکھ رہا ہوں۔“یہ جملہ سنتے ہی طورمعنی نے حیرت و استعجاب سے حسین کی طرف دیکھا اور کہا:“ اے نوجوان! تو کون ہے کہ رمز حقیقت سے آگاہ معلوم ہوتاہے؟“
حسین: ہاں‌خوب آگاہ ہوں، مگر اپ نے شاید مجھے نہیں‌پہچانا؟
طور معنی: نہیں،بالکل نہیں۔
یہ جواب سنتے ہی حسین نے غصے میں آ کے اسکے منہ پر تھوک دیااورکہا:‌“ یا تو وہ کشف تھا کہ بغیر اس کے کہ میری صورت دیکھے اور میری آواز سنے تو نے کہا تھا: “ اے نوجوان آملی مرحبا!“ یا آج مجھے دیکھ کے بھی نہیں‌ پہچان سکتا؟ تیری سب سازشیں‌کھل گئیں اور معلوم ہوگیا کہ تو کتنا بڑا مکار و بدمعاش ہے۔“ اس جواب پرطور معنی جھک کے حسین کے قدم چومنے لگا اور رقت و بدحواسی کی آواز میں ‌بولا: “ رحم اے جوان آملی رحم!“
حسین: ہرگز نہیں! تو ایک فتنہ ہے جس سے دنیا کو جہاں‌تک جلدہوسکے خالی کرنا چاہیے۔“
یہ کہہ کے حسین طور معنی کے سینے پرچڑھ بیٹھا؛ تلوار زمیں پر ڈال دی اور کمر سے خنجر نکال کے بولا:‌“یہی وہ فدائیت کا خنجر ہے جو میری کمر میں‌بندھوایا گیا تھا۔ اسی سے میں نے امام نصر بن احمد کے سے نیک بزرگ کی جان لی تھی اور اسی سے آج تیرا سینہ چاک کرتا ہوں۔“
طور معنی کچھ کہنے کو تھا کہ حسین کا خنجر اسکے سینے کے اندر تیر گیا۔ ایک ہی وار میں ایڑیاں ‌رگڑ کے اس نےایک آہ کے ساتھ جان دی اور حسین اپنی تلوارلے کے کھڑا نہیں‌ہونے پایا تھا کہ دیکھاکسی قدر فاصلے پر ہلاکوخاں‌کے قریب ہی ایک تاتاری شخص کسی ضعیف العمر بڈھے کو اسی کے عمامے سے باندھ کے کھینچ رہاہے۔حسین نے دور سے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ علی وجودی ہے؛ بے اختیار دوڑا ہوا گیا اور پگڑی کو درمیان میں پکڑ‌کے چلایا: “یہ میرا مجرم ہے۔“
تاتاری: کیوں؟گرفتار میں‌نے کیا اور مجرم تمھارا ہوگیا؟
حسین: ہاں،اس لیے کہ میرا قدیمی مجرم ہے۔“
اس جملے کے ساتھ ہی ہلاکوخاں‌نے بھی اس تاتاری کو اشارہ کیا کہ اس قیدی کو حسین ہی کے سپردکردے۔حسین علی وجودی کو اسی طرح اس کےعمامے سے کھینچتا ہوا ایک طرف لے گیا اور جب دیکھاکہ لوگوں‌کے ہجوم سے باہر نکل آیا ہے تو عمامے کو جھٹکا دے کےپوچھا :“‌مجھے پہچانا؟“
علی وجودی کچھ ایسی مایوسی و ازخود رفتگی کی حالت میں تھا کہ اس وقت تک اس نے دیکھا بھی نہ تھا کہ اسکے سر پر کیا گزررہی ہے اور کس کے ہاتھ میں‌گرفتا ہے۔حسین کی آواز سن کے اس نے سر اُٹھایا اور پہچانتےہی ایک دفعہ چلا اٹھا: “آہا حسین! مجھے تیری جستجو تھی۔جب قلعہ التمونت سے تیرے نکالے جانے کی خبر معلوم ہوئی تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔افسوس! اگر تو میرے پاس چلا آتا تو اس طرح‌ناکام نہ رہتا۔“
دراصل علی وجودی یہ نہیں‌سمجھتا تھا کہ حسین اب اس کے عقائد کے خلاف ہے۔اسے خیال گزرا کہ یہ اب تک میرا معتقد ہے اور اسی وجہ سے مجھے تاتاریوں‌کے ہاتھ سے چھڑا کے یہاں لایاہے۔
حسین: (عقیدت کی شان سے عمامے کا سرا چھوڑ کے) مگر آپ تو غیب کی باتیں‌معلوم کرلیا کرتے ہیں۔آپ نے اپنی سیر لاہوتی میں بے شک دریافت کر لیا ہوگا کہ میں‌کن پہاڑوں‌اور گھاٹیوں‌میں‌ سر ٹکراتا پھرتا تھا؟“
یہ سن کے علی وجودی نے حسین کو بدگمانی کی نظر سے دیکھا اور کہا:“وہ سیر لاہوتی اسی وقت ہوتی ہے جب آدمی توجہ قلبی سے کام لے۔ دراصل میں‌نے تیرا حال دریافت کرنے کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں‌کی تھی۔“
حسین: مگر یہ امید نہ تھی کہ مجھ سے عقیدت کیش کو آپ بالکل چھوڑ دیں‌گے۔
علی وجودی: اور حسین یہ فتنہ کیوں‌کر بپاہوا؟ یقین ہے تجھے معلوم ہوگا،اسلیے کہ تیرے کہنے سے تاتاریوں‌نے میری جان چھوڑ دی؟
حسین:‌آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟آپ کو ہر امر ایک ادنٰی توجہ قلبی سے معلوم ہوجاتا ہے۔
علی وجودی: اتنا جاننے پر بھی تو عالم ارواح‌کے رموز سے ناآشنا ہے؟ جن لوگوں‌کو ان رموزمیں‌کمال حاصل ہوتا ہے انھیں‌کو کبھی اپنی خبر بھی نہیں رہتی ۔سنا نہیں‌کہ:
گہے بر طارم اعلٰی نشینم
گہے بر پشت پائے خود‌نہ‌ بینم
حسین‌: رکن الدین خور شاہ نے مجھے جنت میں‌بھیجنے سے انکار کیا،اپنے قلعے سے نکلوا دیا،جسکے بعد مجھے مایوسی تھی اور عجب بے کسی کی حالت میں‌تھا۔ا فسوس!اس وقت آپ نےبھی خبر نہ لی۔مگر معاملہ دگرگوں‌ ہونے والا تھا۔تقدیر نے مجھے ایک اور شخص سے ملایا اور اب اس کی برکت و رہبری سے میں جنت میں‌ پہنچا اور زمرد کی ہم کناری نصیب ہوئی۔افسوس! کہ اب میں آپ کے مریدوں سے نکل گیا اور اس کے مریدوں‌اور معتقدوں‌میں‌شامل ہوں۔
علی وجودی: وہ کون شخص‌ہے؟
حسین: تاتاریوں‌کا سردار ہلاکو‌خاں۔اور اس کے شرائط بہت سخت ہیں۔
علی وجودی نے یہ سنتے ہی سر سے پاؤں ‌تک کانپ کے حسین کی صوت دیکھی اور پوچھا: “وہ شرائط کیا ہیں؟“
حسین: وہ یہ کہ آپ اور آپ کے سے جتنے مکار اور سیہ کار ملاحدہ ملیں، ان کا سر تن سے اُڑا دوں۔
علی وجودی: (سہم کے) اور ایسے ظالمانہ احکام بجا لانے میں‌تامل نہیں؟
حسین: بالکل نہیں! اس کا سبق تو آپ ہی سے مل چکا ہے کہ مرید کو مرشد کے ہاتھ میں ایک بے جان آلے کی طرح‌رہنا چاہیے۔ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے۔ اور اس کا باطن میرے مرشد کے نزدیک بہت ہی اچھا اور خدا کی درگاہ میں‌مقبول ہے۔
علی وجودی نے شرما کے اور لاجواب ہوکے سر جھکا لیا اور کہا: “ مگر جو کچھ ہو تمھیں‌رحم سے کام لینا چاہیے۔ ظلم خدا کو نہیں‌ پسند ہوسکتا۔“
اس جواب پر حسین کو بہت غصہ آیا مگر اس نے ضبط کرکے اپنے تئیں ‌روکا اور کہا : “ بے شک خدا کو ظلم نہیں‌پسند ہے،اور اسی وجہ سے امام نجم الدین نیشا پوری کی روح آج تک پکار پکار کے کہہ رہی ہے کہ میرا خون علی وجودی کے گردن پر ہے۔ یہ سنتے ہی علی وجودی سر سے پاؤں‌تک کانپنے لگا،اور تھوڑی دیر کے بعد جب اس کے دل کو ذرا سکون ہولیا تو بولا: “‌مگر مجھ کو تمھارے ساتھ ایسے تعلقات رہ چکے ہیں‌کہ مجھے تم سے کسی بے رحمی کی امید نہیں۔“
حسین:‌امام نجم الدین نیشا پوری سے زیادہ مجھے آپ سے تعلق نہیں‌رہا ہے؛وہ میرے چچا تھے،استاد تھے اور مرشد تھے۔
اب علی وجودی کو خوف نے اس کے اختیار سے باہر کردیا تھا؛وہ ایک دفعہ روتا ہوا حسین کے قدموں‌پر گرا اور چلایا: “رحم رحم!“
حسین: ہرگز نہیں! ہزار ہا پاک اور مقدس روحیں‌فریاد کررہی ہیں‌جو یقینًا اب تمھاری نظر کے سامنے ہوں‌گی اور تمھیں‌چاروں طرف سے دھمکارہی ہونگی۔
اور بے شک علی وجودی کی اس وقت یہی حالت تھی۔ وہ بار بار چاروں‌طرف گھبرا گھبرا کے دیکھتا تھا اور ہر طرف اسے کسی اپنے ہی مظلوم کی تصویر چھریوں‌اور خنجروں‌سے دھمکاتی نظر آتی تھی۔
عین اسی حالت میں‌جب کہ اُسے چاروں‌ طرف چھریاں‌ہی چھریاں‌ نظر آرہی تھیں،حسین نے اپنا وہ خنجر کمر سے نکالا اور اس کی آنکھوں‌کے سامنے کرکے کہا: “یہی وہ خنجر ہے جو مجھے تم سے ملا تھا اور جو امام نجم الدین نیشا پوری اور امام نصر بن احمد کے سینوں‌میں‌خاص‌تمھارے حکم اورمیرے ہاتھ سے تیر چکا ہے۔یہ خنجر آج تک باقی ہے اور صرف اسی لیے کہ تمھارے سینے میں ‌خاص‌میرے ہاتھ سے اُتر جائے۔اسے اچھی طرح‌پہچان لواورتیار ہوجاؤ کہ انتقام کا وقت آگیا ۔
یہ کلمات سن کے علی وجودی پھر کانپ گیا اور رو رو کے کہنے لگا: “‌مجھے نہ مارو، اب میں‌کبھی اس مذہب باطنیہ کی طرف داری نہ کروں‌گا۔“
حسین: مگر تمھارا یہ عہد میرے دامن سے وہ خون کے دھبے نہیں‌چھڑا سکتا جو تمھاری سیہ کاریوں‌سے لگے ہیں۔یہ کہہ کے حسین نے علی وجودی کو زمیں پر گرا دیا اور اس کے سینے پر چڑھ کے پھر اس کا خنجر اس کی آنکھوں‌کے سامنے پیش کیا اور کہا: “دیکھ لو اور خوب پہچان لو کہ یہ وہی تمھارا خنجر ہے۔“
درحقیقت علی وجودی کی موت بہت بری موت تھی۔اس وقت تمام گناہ طرح‌طرح کی بھیانک صورتوں‌کا جامہ پہن کے اس کی آنکھوں‌ کے سامنے کھڑے تھے۔ وہ ہزار ہا مظلوم روحوں‌کو دیکھ رہا تھا جو خنجر دکھا دکھا کے اسے ڈرا اور دھمکا رہی تھیں۔اس نے ان تمام چیزوں‌سے گھبرا کے آنکھیں‌ بند کر لیں‌اور حسین کو کہا:‘ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دے اور میری بے کسی پر ترس کھا!“
حسین: ‌نہیں! جس کے دل میں‌خود ہی خدا کا خوف اور ترس نہیں،اس پر ترس آنا گناہ ہے۔
علی وجودی: ‌تو کمبخت کہیں جلدی کام تمام کر؛ ان بلاؤں سے پیچھا چھُوٹے جو مجھے گھیرے ہوئے ہیں۔
حسین: میں‌فقط اتنے ہی کے لیے تامل کر ہا ہوں‌کہ تجھے موت کی نازک اور پر خطر گھڑی کا اچھی طرح‌مزا مل لے تو تیراکام تمام کروں۔
اب علی وجودی بہت بے تاب تھا۔ حسین کے نیچے دبا ہوا تھا اورحسین اس کا دیا ہوا خنجر اسکی آنکھوں‌کے سامنے پیش کر رہا تھا،جس کی ڈراؤنی صورت سے ڈر ڈر کے وہ اپنا منہ ادھر اُدھر ہٹا لیتا تھا اور کہتا تھا: “ خدا کے لیے اس چیز کو میری نظروں‌کے سامنے سے دور کرو۔“
آخر بڑی دیر کے بعد جب حسین نے دیکھا کہ اب بہت دیر ہوگئی اور قریب قریب قلعے کی ساری رعایا قتل ہوگئی تو اس نے بھی خنجر بھونک بھونک کےاور آزار دے دے کر علی وجودی کا کام تمام کیا۔اپنے سب سے بڑے بہکانے والے سے یوں‌انتقام لے کے وہ پھر ہلاکو خاں‌کے قریب گیا۔ اب تاتاریوں‌کے قتل کرنے کے لیے کوئی شخص‌نہ ملتا تھا۔اتنے بڑ قتل عام کے بعد انکی آنکھوں‌میں‌خون اتر آیاتھا اور وہ مجنونوں، کتوں‌ یا وحشی درندوں‌ کی طرح‌ادھر اُدھر دوڑتے پھرتے تھے کہ کوئی ملے تو اس کو قتل کرکے دل کا بخار نکالیں۔ سوائے چند خاص‌کم سن اور حسین عورتوں‌کے جو لونڈیاں‌بنانے کے لیے بچا لی گئی تھیں قلعہ التمونت میں‌کوئی شخص‌باقی نہیں‌رہا تھا۔
اب خود فرماں‌روائے التمونت رکن الدین خور شاہ کی جستجو تھی۔ لوگ دیر سے ڈھونڈھ رہے تھےاور کہیں‌پتا نہ لگتا تھا۔ آخر ایک تاتاری کسی تہ خانے میں‌گھس کے اسے پکڑ لایا۔جیسے ہی وہ ہلاکو خاں‌کے سامنے پیش ہوا اور تاتاری سالار فوج کے آگے سر جھکا کے کھڑا ہوا،حسین نے چھپٹ کے ارادہ کیا کہ اپنے خنجر سے اس کا کام بھی تمام کردے،مگر ہلاکو خاں نے چلا کے روکا اور کئی مغلوں‌نے بڑھ کے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
ہلاکو خاں: یہ یہاں کا بادشاہ ہے اور بے کسی کی صورت بنا کے پناہ مانگتا ہواآیا ہے،لہٰذا اسے کی جان بخشی کرنی چاہیے۔
حسین: حضور! اگر یہ بچ رہا تو دنیا میں‌بہت بڑا فتنہ رہ جائے گا۔یہ ساری سازشیں‌ اور تمام خرابیاں‌اسی کی ذات سے تھیں۔
ہلاکو خاں:‌ اب وہ سازش کرنے والے ہی نہیں‌رہے تو یہ کیا کرلے گا۔سب کیاد اور فریبی خاک و خون میں‌لوٹ رہے ہیں۔ یہ ایک نا تجربہ کار نوجوان دنیا کو ضرر نہیں‌پہنچا سکتا۔
حسین: ایسا نہیں ہے کہ کوئی معتقد نہ رہا ہو؛ مصر و شام سے لے کے سندھ تک اس کے معتقد ہر جگہ پھیلے ہوئی ہیں۔
ہلاکوخاں:‌ میں ان مقامات میں بھی جاؤں‌گا اور اس کے معتقدین سے دنیا کو‌خالی کردوں‌گا۔ مگر اس کے لیے یہی سزا کافی ہے کہ جلا وطن کر دیا جائے۔ اس کے بعد اس نے خور شاہ کی طرف دیکھ کے کہا: “ بے شک تمھار فتنہ بہت بڑا تھا،مگر اس بے کسانہ خموشی پر ترس کھا کے تمھاری جان بچائی جاتی ہے،مگر اس کے ساتھ حکم دیا جاتاہے کہ ترکستان میں‌، جہاں‌تم کو کوئی مرید و معتقد نہ مل سکے گا،جا کے اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن بسر کرو، یہ جتنی عورتیں‌یہاں‌ہیں، ان میں‌سے کوئی تمھیں‌نہ دی جائے گی۔ممکن ہے اس کے ذریعے سے پھر تمھارا فساد دنیا کو فریب دینے لگے ۔ ترکستان میں‌جا کے تم کو اختیار ہے کہ چاہنا تو کسی تاتاری لڑکی سے عقد کرلینا۔
اس حکم کے ساتھ ہی ایک مغلئی دستے نے اسے اپنی حراست میں‌لے لیا۔جس نے التمونت کے آخری تاجدار کو بحر حزر کے اس پار ترکستان کے کسی گم نام گاؤں میں‌پہنچا دیا۔ اور یہاں‌جب قلعہ آدمیوں‌سے خالی ہوگیا تو تاتاری لٹیرے دولت لوٹنے،محلوں‌کو کھودنے اور آگ لگانے میں‌مشغول ہوگئے۔محل اور جنت میں‌ہر جگہ آگ لگادی گئی۔ وہ قصر اور کوشکیں‌کھود کھود کے زمین کے برابر کر دی گئیں اور باغ اور محل جو جنت بنے ہوئی تھے اور جنت ہی سمجھے جاتے تھے،محض مٹی اور اینٹوں‌کے ڈھیر رہ گئے اور تاتاریوں‌نے انھیں آنًا فانًا ایسا کردیا کہ نہ کوئی رہنے والا تھا اور نہ کوئی رونے والا۔
حسین اپنے دل کی آگ بجھا کے اور انتقام لے کے جب زمرد کے قریب گیا تو وہ نہایت ہی پریشان اور بدحواس تھی۔ وفا کیش معشوقہ کو اس قدر پریشان دیکھ کے اُس نے پوچھا: “زمرد! اب پریشانی کس بات کی؟‘
زمرد: (رونی آواز میں) اتنا قتل عام، ایس خون ریزی ہوچکی اور پوچھتے ہو پریشانی کس بات کی؟
حسین: ان ظالموں‌ کی تباہی اپر خوش ہونا چاہیے یا غمگین؟
زمرد:‌ تم خوش ہولو،جس کا دل خدا نے پتھر کا بنایا ہے۔ایسا وحشت ناک سماں‌دیکھنا کیا معنی،کبھی میر ےخیال میں‌بھی نہ گزرا تھا۔میں ایسی حالتوں‌ کے دیکھنے کی عادی نہیں۔
حسین: خیر اب بتاؤ کی ارادہ ہے؟
شاہ‌زادی بلغان خاتون قریب کھڑی تھی، یہ جملہ سنتے ہی پاس آئی اور بولی: “ ارادہ کیا! اب تم دونوں‌میرے ساتھ چلو۔زمرد کو اپنی بہن سے زیادہ عزیز رکھوں‌گی اور تم کو بھی کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔“
زمرد:‌ نہیں‌شا‌ہزادی! ہم دونوں‌نے بڑے بڑے گناہ کیے ہیں۔حج کا ارادہ کرکے گھر سے نکلے تھے ،تقدیر نے ان مصیبتوں‌ میں‌ مبتلا کردیا۔ اب ہمارا فرض‌ہے کہ پہلے حج کر لیں‌تو پھراور کوئی کام کریں۔ اگر زندگی باقی ہے تو یہ فرض‌دا کرکے ہم دونوں‌وہیں‌قراقرم میں‌آپ کی خدمت میں‌حاضر ہو جائیں‌گے۔ میں‌جب تک وہاں‌خاص خانہء خدا میں‌ اپنے لیے دعائے مغفرت نہ کروں‌گی ،اس وقت تک یہ ندامت نہ مٹے گی جو ہر وقت دل میں‌موجود رہتی ہے اور کوئی وقت نہیں گزرتا کہ نہ ستاتی ہو۔
حسین:‌‌ بے شک زمرد کا کہنا ٹھیک ہے۔میرا دل ہمیشہ مجھ پر لعنت کیا کرتاہے؛ شاید وہاں جاکے اور اس مقدس مقام میں‌دعا کرکے یہ بات دور ہوجائے۔
بلغان خاتون: کیوں‌کر کہوں، دل تو نہیں‌چاہتا کہ تم کو جدا کروں۔مگر اب تم کو اصرار ہے اور مکے جانے کو اپنا فرض سمجھتے ہو تو مجھے روکنا بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔لیکن میری ایک بات مان لو۔
زمرد: جو حکم ہوآپ کا ہر حکم بجا لانا ہمارا فرض‌ہے۔
بلغان خاتون: ‌تم دونوں‌باہم عقد کرنے کی غرض‌سے گھر سے نکلے تھے؛ میں‌چاہتی ہوں‌ کہ جدا ہونے سے پہلے تم دونوں‌کا عقد کردوں ‌تاکہ وطن واپس جانے کے قبل ہی مجھے معلوم ہوجائے کہ تم دونوں‌میں باہمی اتفاق کی صورت پیدا ہوگئی ہے اور یہ بات یاد کرکے میں‌اپنا دل خوش کر لیا کروں‌کہ تمھاری آرزوئیں‌ میرے ہی ہاتھ سے پوری ہوئیں۔
یہ ایسی درخواست نہ تھی جس سے کسی کو انکار ہوتا،حسین نے تو صاف الفاظ میں رضامندی ظاہر کردی،مگر زمرد مسکرائی اور ایک شرم کی آواز میں‌سر جھا کے بولی: “ اب میں آپ کی لونڈی ہوں‌اور جو حکم ہو اس سے انکار نہیں‌ کرسکتی۔“
دوسرے دن علی الصباح‌ہلاکو خاں‌نے فتح‌کی خوشی میں‌اور مال غنیمت نقسیم کرنے کے لیے بڑا بھاری جشن کیا،جس کے لیے فوج کے معزز افسروں‌کی ایک محفل مرتب کی گئی۔گزشتہ فتح‌پر بڑے جوش و خروش سے اظہار مسرت کیا گیا،اور اسی کامیاب و ظفر کی یادگار میں بلغان خاتون کی درخواست اور ہلاکو خاں کے حکم سے شیخ‌‌نصیر الدین طوسی سے محقق زمانہ اور علامہء روزگار نے ، جن کی تاتاریوں‌ میں بڑی عزت،قدر و منزلت تھی اور جو اس موقع پر موجود تھے،حسین اور زمرد کا نکاح پڑھایا۔
اس کاروائی کے بعد سب آپس میں‌‌رخصت ہوئے۔بلغان خاتون نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ قراقرم کا راستہ لیا۔ ہلاکو خاں‌اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ آذر بائیجان کی طرف کوچ کرگیا۔حسین اور زمرد پھر اسی شان سے جس طرح پہلے گھر سے نکلے تھے،ارض حجاز کی طرف روانہ ہوئے۔اور التمونت کے کھنڈروں ‌اور ان کی تمام لاشوں‌پر صرف گدھوں اور مردار خوار طیور کے بڑے بڑے غول چھوڑ گئے۔
زمرد اور‌حسین نے مکہ معظمہ پہنچ کر اور غلاف کعبہ پکڑ کے نہایت ہی رقت قلب اور جوش دل سے مغفرت کی دعا مانگی کہ : “ یا بار الٰہا! ہمیں ‌تمام گناہوں‌سے نجات دے! اگرچہ ہم نے تیری نافرمانیاں‌کیں،تیرے مقبول بے گناہ بندوں‌ کی جانیں‌لیں،مگر ایک بڑے فریب میں مبتلا تھے۔شیطان کا ہم پر اس قدر تصرف تھا کہ گناہوں‌کی برائیاں‌نظر میں‌ نہ آتی تھیں۔ہم نے گناہ کیے مگر ثواب سمجھ کے،ہمارے قدم کو لغزشیں‌ہوئیں‌مگر ایک بڑے فریب میں‌مبتلا ہوکے۔تو عالم الغیب ہے،دلوں‌کی باتیں‌جانتا ہے؛ ہماری بے کسی و بے بسی کو دیکھ اور ان سخت گناہوں‌ سے درگزر!“ اس طرح‌گناہوں‌کا دل سے زنگ مٹا کے واپس روانہ ہوئے۔چند روز اپنے وطن شہر آمل میں‌رہے اور باقی زندگی قراقرم میں‌جاکے شہزادی بلغان خاتون کی صحبت میں‌صرف کردی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمت بالخیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی: 1- منقو کو چغتائی خان کا بیٹا کہا گیا ہے۔منکو قاآن یا منگو،چنگیز خان کے چھوٹے بیٹے تولی خان کا فرزند ہے۔اور اوکتائی یا اغتائی یا اغدائی خلف چنگیز خان کے بعد خاقان بنا۔روضۃ الصفا جلد پنجم مطبوعہ نول کشور طبع چہارم 1905 ع ‌ میں‌منکو قاآن نام ملتا ہے اور یہ تولی (یا تولوئی) ابن چنگیز کا (جو چنگیز خان کا چھوٹا بیٹا تھا) بیٹاہے۔کیوک خاں‌خلف اغتائی خان کے بعد جانشین مملکت چنگیز خان ہوا۔شرر کا یہ کہنا کہ منقو (منکو یا منگو )چغتائی کا بیٹا ہے ،درست نہیں۔
2-تولی خان چنگیز خان کا چھوٹا بیٹا ہے اور منگو خان کا باپ ہے شرر کو تسامح ہواہے۔
مزید تفصیلات کےلیے:: روضۃ الصفا جلد پنجم مطبع نول کشور ص 41 تا 75 ۔
تاریخ اسلام جلد اول (عمدۃ الکلام فی تاریخ اساطین الاسلام)ص 105 از ذاکر حسین جعفر،مطبوعہ جے،اینڈ سنز پرنٹنگ ورکس دہلی 1918ع۔
چنگیز خان از ہیرلڈ لیم مترجم عزیز احمد ناشر مکتبہ جدید ص 215 تا 219
تاتاریوں کی یلغار،ناشر غلام علی اینڈ سنز ص 88تا217
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top