فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ؟

سید عمران

محفلین
امید ہے کہ قومیت پرستی کی جڑ بھی نئے صوبے بننے سے کٹ جائے گی۔۔۔
ایک زمانے میں کسی نے تجویز دی تھی کہ ہر ڈویژن کو انتظامی لحاظ سے صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔۔۔
اس طرح عوام کو ہر لحاظ سے سہولت ہی سہولت ہوگی۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
بدقسمتی سے ہمارے مختلف سیاسی راہنماؤں کی سوچ نئی انتظامی سہولیات یا معاشی بہتری کے اقدامات پر کالا باغ ڈیم جیسی سیاست کی بهینٹ چڑھ جاتی ہے۔

نام نہاد سیاسی قد کاٹھ میں کمی اور سیاسی ناک کے کٹنے کے ڈر سے وہ انتہائی ضروری اہم انتظامی اقدامات کے سامنے بهی دیوار چین بن کر کهڑے ہوجاتے ہیں۔

ایسے شدت پسندانہ اور بیوقوفانہ رویوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفنانے کی ضرورت ہے۔ مجهے امید ہے کہ جہاں بہت کچھ آہستہ آہستہ بہتر اور تبدیل ہوتا جا رہا ہے وہیں صحت مند مشاورت سے ایسے رویوں والے سیاستدانوں اور ان کے انهے واہ لائی لگوں کی سوچ کو بهی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
 

یاز

محفلین
فاٹا کے متوقع انضمام کے بعد اگلا اہم مرحلہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبے کا درجہ دینے کا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں ذاتی طور پر پورے ملک میں نئے صوبے بنانے کے حق میں ہوں سوائے گلگت بلتستان کو نیا صوبہ تسلیم کرنے کے، ویسے تجویز اچھی ہے آپ کی کیوں نا نئے صوبے بنانے کے بارے میں ایک پول والی لڑی بنالی جائے؟ :)
اچھی تجویز ہے لیکن میرے کہنے کا مطلب اس فورم سے نہیں تھا، یہاں تو ماشاءاللہ سارے ہی باشعور دوست ہیں، میں masses کی بات کر رہا تھا اور یقینا صوبوں کی تقسیم مخالف جذبات بہت پُرجوش ہیں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
اسی بات کا خدشہ ہے اور اس کے بعد آزاد کشمیر کو بھی اسی طرح کا سٹیٹس دیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کا قصہ ختم۔
1972ء میں جب اندرا گاندھی اور ذوالفقار بھٹو کے درمیان شملہ مذاکرات ہو رہے تھے تو اندرا گاندھی کا سارا زور، اور اس زور میں 90 ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں کی قید کا زور بھی شامل تھا، اس بات پر تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنڑول کو مستقل انٹرنیشنل بارڈر مان لیا جائے۔ اگرچہ سخت گیر ہندو جماعتیں اُس وقت بھی اور اب تک اندرا گاندھی کی اس پوزیشن پر سخت تنقید کرتی ہیں کہ اس سے انڈیا کا مؤقف کشمیر پر کمزور ہوتا ہے کیونکہ ان کے بقول سارا کشمیر انڈیا کا ہے۔ لیکن اندرا گاندھی اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو اس طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بھٹو جانتا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ مان لینا اس کے لیے سیاسی خود کشی ہوگی، انہی وجوہات کی بنا پر جو آپ کے مراسلے میں بین السطور سمجھی جا سکتی ہیں۔

اسی سلسلے میں ایل کے آڈوانی نے اپنی خود نوشت میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ 1998ء میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن جیتی تو آڈوانی کے بقول اُس وقت پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر جو دہلی دورے پر تھے آڈوانی سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ الیکشن جیتے اور اب مسئلہ کشمیر حل ہو سکے گا۔ آڈوانی نے پوچھا کیسے؟ تو اُس نے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف اس طرح حل ہو سکتا ہے کہ انڈیا میں کوئی سخت گیر ہندو جماعت حکومت میں ہو اور پاکستان میں فوجی حکومت ہو۔

یہ بات بہت حد تک درست ہے، اور بعد میں وقت نے ثابت بھی کیا جب انڈیا میں بی جے پی اور پاکستان میں جنرل مشرف تھا۔ مشرف کے ایک وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی اپنی کتاب میں کشمیر کے مسئلے پر کافی بحث کی ہے اور بقول قصوری دونوں فریق اس حل کے بہت قریب تھے کہ 2004ء میں انڈیا میں بی جے پی کی حکومت ختم ہو گئی۔
 
1972ء میں جب اندرا گاندھی اور ذوالفقار بھٹو کے درمیان شملہ مذاکرات ہو رہے تھے تو اندرا گاندھی کا سارا زور، اور اس زور میں 90 ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں کی قید کا زور بھی شامل تھا، اس بات پر تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنڑول کو مستقل انٹرنیشنل بارڈر مان لیا جائے۔ اگرچہ سخت گیر ہندو جماعتیں اُس وقت بھی اور اب تک اندرا گاندھی کی اس پوزیشن پر سخت تنقید کرتی ہیں کہ اس سے انڈیا کا مؤقف کشمیر پر کمزور ہوتا ہے کیونکہ ان کے بقول سارا کشمیر انڈیا کا ہے۔ لیکن اندرا گاندھی اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو اس طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بھٹو جانتا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ مان لینا اس کے لیے سیاسی خود کشی ہوگی، انہی وجوہات کی بنا پر جو آپ کے مراسلے میں بین السطور سمجھی جا سکتی ہیں۔

اسی سلسلے میں ایل کے آڈوانی نے اپنی خود نوشت میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ 1998ء میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن جیتی تو آڈوانی کے بقول اُس وقت پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر جو دہلی دورے پر تھے آڈوانی سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ الیکشن جیتے اور اب مسئلہ کشمیر حل ہو سکے گا۔ آڈوانی نے پوچھا کیسے؟ تو اُس نے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف اس طرح حل ہو سکتا ہے کہ انڈیا میں کوئی سخت گیر ہندو جماعت حکومت میں ہو اور پاکستان میں فوجی حکومت ہو۔

یہ بات بہت حد تک درست ہے، اور بعد میں وقت نے ثابت بھی کیا جب انڈیا میں بی جے پی اور پاکستان میں جنرل مشرف تھا۔ مشرف کے ایک وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی اپنی کتاب میں کشمیر کے مسئلے پر کافی بحث کی ہے اور بقول قصوری دونوں فریق اس حل کے بہت قریب تھے کہ 2004ء میں انڈیا میں بی جے پی کی حکومت ختم ہو گئی۔
حامد میر نے اپنے کالموں میں بھی لکھا کہ مشرف کنٹرول لائن کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا تھا وہ تو بھلا ہو وکلاء تحریک کا جس نے مشرف کے بہت سے مذموم منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ مشرف نے کئی برس تک سالانہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں کیا پھر زرداری نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اقوام متحدہ میں سالانہ اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا جس کی بھارت کو بہت تکلیف ہوئی۔
 
حل یہ ہے کہ ایک نئی عمرانی تقسیم ہو کہ پاکستان ایک متحدہ ریاست ہائے پاکستان کی صورت میں پنپ سکے جہاں ہر کسی کو برابری حاصل ہو۔ اسکا دارلحکومت کراچی ہو۔
 
22 تا 24 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے جو قرارداد پیش کی پیش کی وہ کچھ یوں تھی:

’’قرار پایا کہ اِس اجلاس کی نہایت سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اِس ملک کے لیے کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول، جب تک اسے اِن بنیادی اصولوں پر استوار نہ کیا جائے اور ضروری علاقائی رد و بدل نہ کیا جائے اور یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں کی طرح جن علاقوں میں تعداد کے لحاظ سے مسلمان اکثریت میں ہیں۔ انہیں خود مختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ اکائی آزاد اور خود مختار ہوں گے۔ اُن یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔‘‘

(آزاد بن حیدر کی 11 سو صفحات سے زیادہ ضخیم تصنیف ’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ، سرسید سے قائداعظم تک‘ سے ماخوذ
’قراردادِ پاکستان‘ کا اصل جغرافیہ تھا کیا۔۔۔؟ - ایکسپریس اردو
فاٹا ایک الگ ملحق ریاست ہو جیسا کہ فاٹا کے لوگوں کا مطالبہ ہے
 

عثمان

محفلین
حامد میر نے اپنے کالموں میں بھی لکھا کہ مشرف کنٹرول لائن کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا تھا وہ تو بھلا ہو وکلاء تحریک کا جس نے مشرف کے بہت سے مذموم منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
وکلا تحریک مشرف کے اقتدار میں آنے کے آٹھ سال بعد نمودار ہوئی تھی۔ جبکہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں آگرہ سمٹ ۲۰۰۱ کا واقعہ ہے۔
 
کراچی دارالحکومت ہو؟
مجھے ان سب چیزوں کا زیادہ علم تو نہیں لیکن میرا خیال ہے کراچی کسی طور بھی ایک دارالحکومت کے طور پر اسلامآباد سے زیادہ محفوظ نہیں ہو سکتا

سلاماباد تو لٹیروں کی زد میں ہے
محفوظ تو ایبٹ آباد بھی نہیں کاکول بھی نہیں
کراچی دارلخلافہ جناح نے بنایا تھا
 
Top