غمِ روزگار

پہلے پہل ۔۔۔دسمبر!
ہجر ساعتوں کو دہراتا تھا
تو ہوش سے بیگانہ ہوئے وصل ساعتوں کا ہر لمحہ
ایک خلش بن جاتا تھا
ٹھٹھرتے لمحے رگِ جاں کو بے کیفی سے ہمکنار کرتے تھے
ایک امیدِ غلط کو دہرا کر مسمار کرتے تھے
من ۔۔۔ہمیں سے روٹھ جاتا تھا
کچھ اندر ٹوٹ جاتا تھا
دسمبر!اب بھی آتا ہے
پر فرصت کہاں مجھ کو
کہ وبالِ جان سے نکلوں
کہیں اور کچھ سوچوں
پیٹ کا ہاتھ چھوڑوں میں
منھ اس کی جانب موڑوں میں!



خرم!​
 
Top