غزل ۔ زیست میں ہو کوئی ترتیب ضروری تو نہیں

زیست میں ہو کوئی ترتیب ضروری تو نہیں
لوگ ہوں تابعِ تہذیب ضروری تو نہیں

مہربانوں نے بلایا ہے محبت سے مگر
راس آ جائے وہ تقریب ضروری تو نہیں

آپ جھٹلائیں مجھے، آپ کا ہے ظرف مگر
میں کروں آپ کی تکذیب، ضروری تو نہیں

دوست بھی تو مری تعمیر سے خائف ہوں گے
ہوں عدو ہی پسِ تخریب، ضروری تو نہیں

مجھ کو بچنا ہے جدائی کے کٹھن لمحوں سے
گارگر ہو مری ترکیب ضروری تو نہیں

آپ ہو جائیں محبت میں وفا پر مائل
رنگ لائے مری ترغیب ضروری تو نہیں

بہتری لائیے کچھ اپنے رویے میں فصیح
بات بے بات ہو تادیب، ضروری تو نہیں

شاہین فصیح ربانی
 
Top