غزل: چشمِ وحشت، یہ تری گریہ گزاری کم ہے ٭ عارف امام

چشمِ وحشت، یہ تری گریہ گزاری کم ہے
غم زیادہ ہے مگر سینہ فگاری کم ہے

اتنا چلّائیں کہ قاتل کی رگیں پھٹ جائیں
رونے والو! ابھی آواز ہماری کم ہے

اس لیے بڑھتی چلی جاتی ہے لاشوں کی قطار
میری فرصت کے لئے زخم شماری کم ہے

چیختے ہیں بدنِ طفل سے زخموں کے نشان
اتنی شمشیروں میں شمشیر تمھاری کم ہے

کیوں نہیں ہوتا عدو پر مرے حملوں کا اثر؟
ہاتھ ہلکا ہے کہ تلوار یہ بھاری کم ہے؟

چپّے چپّے پہ ہے کچلی ہوئی کلیوں کا لہو
اس گلستاں کے لیے بادِ بَہاری کم ہے

میرے غم خانے کا موسم ہے بدلنے والا
ہے رجزخوانی فزوں، نوحہ نگاری کم ہے

میرے چہرے سے نہ اندازہ لگانا کہ یہ عمر
مجھ پہ بیتی ہے بہت، میں نے گزاری کم ہے

رخشِ جاں! مجھ کو قیامت کا سفر ہے درپیش
اس مسافت کو فقط ایک سواری کم ہے

قافلہ کوچ کو تیّار ہے گھر کی جانب
سب ہیں موجود مگر ایک عماری کم ہے

٭٭٭
عارف امام
 
Top