غزل: (رمل ) فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

شکیل عباس

محفلین
آنکھ سے آنسو کوئی نکلا نہیں
پھول کوئی شاخ پر آیا نہیں

میں نے تو امید رکّھی تھی بہت
آپ نے دامن مرا تھاما نہیں

جب بلایا کامیابی نے مجھے
پیچھےمڑ کر میں نے پھر دیکھا نہیں

موت کب کس کو کہاں پر آئیگی
مسٔلہ یہ وہ ہے جوسلجھا نہیں

اک ترے غم کے سوا اے جانِ غم
اس جہاں میں کوئی بھی اپنا نہیں

ہر طرف ہیں جھوٹ کی پرچھائیاں
کوئی بھی منظر یہاں سچا نہیں

فائدہ کیا اس میں اور نقصان کیا
یہ محبت ہے کوئی سودا نہیں

دل میں نفرت اور ہونٹوں پر ہنسی
میں نے ایسا کوئی فن سیکھا نہیں

اک کھنڈر ہے، دل نہیں ہے وہ شکیلؔ
یاد کا جس میں دیا جلتا نہیں​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top