غزل : راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص : از : منصور آفاق

منصور آفاق

محفلین
ایک تازہ غزل اردو محفل کے دوستوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں
راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص​
اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص​
قوسِ قزح پہ کیسے مرے پائوں چلتے تھے​
دھیمے سروں میں رنگ بہاتا تھا کون شخص​
مٹی ہوں جانتا ہوں کہاں کوزہ گر کا نام​
یہ یاد کب ہے چاک گھماتا تھا کون شخص​
بادل برستے رہتے تھے جو دل کے آس پاس​
پچھم سے کھینچ کر انہیں لاتا تھا کون شخص​
ہوتا تھا دشت میں کوئی اپنا جنوں نواز​
شب بھر متاعِ درد لٹاتا تھا کون شخص​
کوئی دعا تھی ، یا کوئی نیکی نصیب کی​
گرتا تھا میں کہیں تو اٹھاتا تھا کون شخص​
اس کہنہ کائنات کے کونے میں بیٹھ کر​
کارِ ازل کے کشف کماتا تھا کون شخص​
بہکے ہوئے بدن پہ بہکتی تھی بھاپ سی​
وہ جسم پر شراب گراتا تھا کون شخص​
ہونٹوں کی سرخیوں سے مرے دل کے چاروں اور​
داغ ِ شبِ فراق مٹاتا تھا کون شخص​
پائوں سے دھوپ گرتی تھی جس کے وہ کون تھا​
کرنوں کو ایڑیوں سے اڑاتا تھا کون شخص​
وہ کون تھا جو دیتا تھا اپنے بدن کی آگ​
بے رحم سردیوں سے بچاتا تھا کون شخص​
ماتھے پہ رکھ کے سرخ لبوں کی قیامتیں​
سورج کو صبح صبح جگاتا تھا کون شخص​
منصور بار بار ہوا کون کرچیاں​
مجھ کو وہ آئینہ سا دکھاتا تھا کون شخص​
ق​
صحرا کی سرخ آگ بجھاتا تھا کون شخص​
دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص​
تھا کون سوز سینہ ئ صدیق کا امیں​
خونِ جگر سے دیب جلاتا تھا کون شخص​
تھامے ہوئے عدالت ِ فاروق کا علم​
پھر فتح نو کی آس جگاتا تھا کون شخص​
تھا کون شخص سنتِ عثمان کا غلام​
تقسیم زر کا فرض نبھاتا تھا کون شخص​
وہ کون تھا شجاعتِ حیدر کا جانثار​
وہ آتشِ غرور بجھاتا تھا کون شخص​
ہر سمت دیکھتا ہوں سیاست کی مصلحت​
شبیریوں کی آن دکھاتا تھا کون شخص​
ہم رقص میرا کون تھا شہرِ سلوک میں​
رومی کی قبر پر اسے گاتا تھا کون شخص​
صدیوں سے جس کی قبر بھی بستی ہے زندہ ہے​
یہ کون گنج بخش تھا داتا تھا کون شخص​
ہوتا تھا کون وہ جسے منصور کہتے تھے​
دار و رسن کو چومنے جاتا تھا کون شخص​
۔۔۔​
آسیب میں چراغ جلاتا ہے کون شخص​
تنہائی کے مکان میں آتا ہے کون شخص​
جی چاہتا ہے اس سے ملاقات کو مگر​
اجڑے ہووں کو پاس بٹھاتا ہے کون شخص​
چلتا ہے کس کے پائوں سے رستہ بہار کا​
موسم کو اپنی سمت بلاتا ہے کون شخص​
جس میں خدا سے پہلے کا منظر دکھائی دے​
وہ کافرانہ خواب دکھاتا ہے کون شخص​
پھر اک ہزار میل سمندر ہے درمیاں​
اب دیکھئے دوبارہ ملاتا ہے کون شخص​
برسوں سے میں پڑا ہوں قفس میں وجود کے​
مجھ کو چمن کی سیر کراتا ہے کون شخص​
منصور صحن ِ دل کی تمازت میں بیٹھ کر​
ہر روز اپنے بال سکھاتا ہے کون شخص​
۔۔۔​
تھا کون ، صبحِ طور کا مسکن تھا کون شخص​
کچھ پہلے کائنات سے روشن تھا کون شخص​
تحریکِ کن فکاں کا سلوگن تھا کون شخص​
بعد از خدا وجود میں فوراً تھا کون شخص​
کس کا کہا خدا کا کہا ہے اک ایک لفظ​
لوح و قلم کا خاک پہ درشن تھا کون شخص​
بہتا ہے کس کے نام سے بادِ ازل کا گیت​
آوازِ کُن کی صبح شگفتن تھا کون شخص​
گجرے پُرو کے لائی تھی کس کے لئے زمیں​
چیتر کی پہلی عصر کا جوبن تھا کون شخص​
صحرا کی پیاس کون بجھاتا ہے اب تلک​
منصور ریگزار میں ساون تھا کون شخص​
۔۔۔​
دھکے ہوئے لحاف کا دامن تھا کون شخص​
جاڑے میں رنگ و نور کا ایندھن تھا کون شخص​
خود ہی میں گھیر لایا تھا اڑتا ہوا وہ تیر​
میرے علاوہ زخم کا ساجن تھا کون شخص​
کچھ یاد آرہا ہے محبت مجھے بھی تھی​
مری نظر تھا کون وہ دھڑکن تھا کون شخص​
ممکن نہیں ہے پھینکے وہ پتھر مری طرف​
کھڑکی میں یار کی مرا دشمن تھا کون شخص​
منصور بزمِ یار میں میری طرح وجیہہ​
برخاستن سے پہلے وہ گفتن تھا کون شخص​
 
منصور بھائی۔ اس خوبصورت غزل کو بزم میں سخن میں پیش کیجیے۔ داد تو ہر زمرے میں لوٹ ہی لیں گے لیکن بزمِ سخن میں اس خوبصورت غزل کے چرچے دنوں کیا مہینوں رہیں گے۔۔ واہ وا۔ بہت خوب
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ کیا بات ہے منصور صاحب، یہ خوبصورت غزل آپ کی قادر الکلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لاجواب۔ بہت داد قبول کیجیے محترم۔

امید ہے اپنے مزید کلام سے بھی ہمیں نوازتے رہیں گے۔

اور میں نے اس کلام کو مناسب زمرے میں منتقل کر دیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ ایک غزل کہاں ہے، ویسے تو تین غزلیں ہیں، لیکن تین سو غزلوں پہ بھاری!! واہ واہ، لطف آ گیا۔
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھائی، زمین ملتی جلتی ہے لیکن ایک ہی نہیں۔
اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص​
آسیب میں چراغ جلاتا ہے کون شخص​
کچھ پہلے کائنات سے روشن تھا کون شخص​
تینوں میں فرق محسوس نہیں کیا؟​
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! سبحان اللہ!
گو کہ ان چاروں غزلوں کی تخلیق کا چشم دید گوش سماعت گواہ ہوں اور ہر ہر شعر پر الگ الگ داد دے چکا ہوں لیکن یہاں ایک مرتبہ پھر بے پناہ مبارک باد اور داد قبول کیجیے۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
کوئی دعا تھی ، يا کوئی نيکی نصيب کی
گرتا تھا ميں کہيں تو اٹھاتا تھا کون شخص

بہکے ہوئے بدن پہ بہکتی تھی بھاپ سي
وہ جسم پر شراب گراتا تھا کون شخص

ہونٹوں کی سرخيوں سے مرے دل کے چاروں اور
داغ ِ شبِ فراق مٹاتا تھا کون شخص

وہ کون تھا جو ديتا تھا اپنے بدن کي آگ
بے رحم سرديوں سے بچاتا تھا کون شخص

ماتھے پہ رکھ کے سرخ لبوں کی قيامتيں
سورج کو صبح صبح جگاتا تھا کون شخص

صحرا کی سرخ آگ بجھاتا تھا کون شخص
دريا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص

منصور صحن ِ دل کي تمازت ميں بيٹھ کر
ہر روز اپنے بال سکھاتا ہے کون شخص

خود ہی ميں گھير لايا تھا اڑتا ہوا وہ تير
ميرے علاوہ زخم کا ساجن تھا کون شخص

کچھ ياد آرہا ہے محبت مجھے بھی تھی
مری نظر تھا کون وہ دھڑکن تھا کون شخص

منصور بزمِ يار ميں ميري طرح وجيہہ
برخاستن سے پہلے وہ گفتن تھا کون شخص

السلام عليکم جناب منصور صاحب
آج صبح ہی صبح محفل ميں آنے کا اتفاق ہوا ، اور يہاں آ کر آپ کا يہ بہترين کلام پڑھنے کو ملا تو جی خوش ہوگيا جناب
اور دیکھ لیجئے میرے پسندیدہ اشعار کی کتنی بڑی لڑی بن گئی۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ بہت خوب لکھتےہيں آپ اور آپ کی " وہ شخص" رديف کے ساتھ يہ چار الگ الگ غزليات آپ کی قادرالکامی کی
ايک بہترين مثال بھی ہے اور منہ بولتا ثبوت بھی
کن الفاظ ميں خراجِ تحسين پيش کروں آپ کی تخلیقات کو کہ شایان شان الفاظ ہی نہیں مل رہے
آپ کو بہت ساری داد اور دعائیں
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
 

محمداحمد

لائبریرین
منصور آفاق صاحب،

بہت شکریہ یہ خوبصورت کلام شاملِ محفل کرنے کا۔ ہر شعر ایک سے بڑھ کر ایک ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔ اوپر جن دوستوں نے آپ کو سراہا ہے اور جیسے سراہا ہے۔
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا​

بہت سی داد حاضر ہے۔

اللہ شاد آباد رکھے۔ (آمین)
 

مغزل

محفلین
رسید حاضر ہے قبلہ منصور صاحب بشرطِ فرصت حاضر ہوتا ہوں ۔۔روز باشید بخیر رو بخیر
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، واقعی میں ہی غلط تھا، یہ تین نہیں چار غزلیں ہیں۔ خلیل، در اصل ایک دو غزلہ ہے، اسے ایک مانو یا دو، یعنی دو غزلوں کی زمین بالکل ایک ہے، اسی لئے میں نے ان کے درمیان ایک خط اور دوسری غزل کے نئے مطلعے پر غور نہیں کیا تھا۔
 
Top