غزل: دو قدم ساتھ چل کے لوٹ گئے : از : محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن
دو قدم ساتھ چل کے لوٹ گئے
لوگ رستہ بدل کے لوٹ گئے
ہم سمجھتے تھے ساتھ ساتھ ہیں وہ
پھر سنا یہ کہ کل کے لوٹ گئے
وہ جو خوگر تھے گرم موسم کے
ٹھنڈی چھاؤں میں جل کے لوٹ گئے
آپ مشکل میں میرے پاس آئے
چار دن میں سنبھل کے لوٹ گئے
جانے کیوں اتنے پیش و پس میں تھے آپ
گھر سے باہر نکل کے لوٹ گئے
وہ جو آئے تھے اپنا عکس لئے
تیرے پرتو میں ڈھل کے لوٹ گئے
ڈھونڈنے آئے تھے تجھے ہم بھی
کفِ ا فسوس مل کے لوٹ گئے
لوگ آئے تھے آپ سے ملنے
مجھ کو دیکھا تو جل کے لوٹ گئے
 

پپو

محفلین
وہ جو آئے تھے اپنا عکس لئے
تیرے پرتو میں ڈھل کے لوٹ گئے
سب زبردست شعر ہے
 
Top