جگر غزل: جب تک انساں پاک طینت ہی نہیں

جب تک انساں پاک طینت ہی نہیں
علم و حکمت، علم و حکمت ہی نہیں

وہ محبت، وہ عداوت ہی نہیں
زندگی میں اب صداقت ہی نہیں

سینۂ آہن بھی تھا جس سے گُداز
اب دِلوں میں وہ حرارت ہی نہیں

آدمی کے پاس سب کچھ ہے، مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

بچ کے رہ جائے، وہ غنچہ ہی کہاں؟
گھُٹ کے رہ جائے، وہ نکہت ہی نہیں

حُسن کو سمجھا ہے کیا، اے بُو الہوس!
حُسن معنی بھی ہے، صورت ہی نہیں

صرف نقالی ہے مغرب کی جگرؔ
شعر میں اب مشرقیت ہی نہیں

٭٭٭
جگرؔ مراد آبادی
 
Top