غزل برائے اصلاح

عروض داں تو ان کو بھی درست قوافی نہیں مانتے، لیکن میں کم از کم اتنی رعایت روا سمجھتا ہوں۔ سنبھلا اور گزرا میں اصل قوافی ہوں گے ’را نہیں ‘ اور ’لا نہیں‘ اپنے متحرک syllable کی وجہ سے۔ کیونکہ یہاں ’ر اور ل متحرک ہیں۔
چلتا‘ اور بدلتا‘ میں متحرک سلیبل ’چلتا اور ’دلتا‘ درست قوافی ہوں گے۔ لیکن ’چلتا‘ اور گزرتا‘ میں نہیں۔ حرف روی اور اس سے ما قبل با معنی لفظ ہونا زیادہ کڑی شرط ہے، جس میں میں رعایت روا سمجھتا ہوں
جناب محترم الف عین صاحب بہت مہربانی آپ نے وضاحت فرمائی۔ میں اپنی کم علمی کی وجہ سے جتنا اس موضوع کر کریدنے کی کوشش کررہا ہوں اتنا ہیں یہ میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کا مضمون پڑھ کر جو مجھ کم عقل کو سمجھ آئی تھی اس لیے سوال کیا تھا، گزرا اور سنبھلا کے بارے میں۔ جس کی آپ نے وضاحت فرمادی۔
ایک سوال اور پیدا ہو رہا ہے ذہن میں کہ "چلتا" اور "بدلتا" میں اگر قوافی "چلتا" اور "دلتا" ہیں تو "چلتا" اور "گزرتا" میں "چلتا" اور "زرتا" نہیں ہو سکتے؟ "دلتا" میں "د" متحرک ہے اور "زرتا" میں "ز" پھر ان میں فرق مجھ کم عقل کو سمجھا دیجیے بہت مہربانی ہوگی۔
 

الف عین

لائبریرین
چلتا" اور "گزرتا" میں "چلتا" اور "زرتا" نہیں ہو سکتے؟ "دلتا" میں "د" متحرک ہے اور "زرتا" میں "ز" پھر ان میں فرق مجھ کم عقل کو سمجھا دیجیے بہت مہربانی ہوگی۔
ان میں مشترک تو محض ’تا‘ ہے، یہ قوافی کیسے ہو سکتے ہیں؟ چلتا، بدلتا میں مشترک ’لتا‘ ہے۔ اور اس سے قبل چ اور د متحرک۔ چلتا اور گزرتا میں مشترک محض ’تا‘ ہے۔ اور اس سے پہلے کے حروف ساکن ہیں ل، اور ر۔ اسی لیے میں ’روی‘ لفظ استعمال نہیں کرتا۔ مشترک حروف کہہ رہا ہوں۔ بسمل اور ریحان تو عروض داں ہیں۔ وہ مجھ سے متفق نہیں ہوں گے۔ میں تو زبردستی اصلاح کر دیتا ہوں۔ اور روزانہ یہی سوچتا ہوں کہ بس، اب بس کروں، بہت ہو گئی استادی!!
 
ان میں مشترک تو محض ’تا‘ ہے، یہ قوافی کیسے ہو سکتے ہیں؟ چلتا، بدلتا میں مشترک ’لتا‘ ہے۔ اور اس سے قبل چ اور د متحرک۔ چلتا اور گزرتا میں مشترک محض ’تا‘ ہے۔ اور اس سے پہلے کے حروف ساکن ہیں ل، اور ر۔ اسی لیے میں ’روی‘ لفظ استعمال نہیں کرتا۔ مشترک حروف کہہ رہا ہوں۔ بسمل اور ریحان تو عروض داں ہیں۔ وہ مجھ سے متفق نہیں ہوں گے۔ میں تو زبردستی اصلاح کر دیتا ہوں۔ اور روزانہ یہی سوچتا ہوں کہ بس، اب بس کروں، بہت ہو گئی استادی!!
بہت شکریہ جناب محترم الف عین صاحب آپ نے بہترین انداز میں سمجھا دیا۔ آپ نے جو رعایت رکھی ہے ہم جیسے خطاکاروں کے لیےاللہ تعالی آپ کو اس کی جزا دے ورنہ جیسے آپ نے فرمایا حرف روی سے قبل بامعنی لفظ کی شرط واقعی کڑی شرط ہے۔
اپنی غزل کی طرف آتا ہوں جناب وآپس اگر مطلع اس طرح ہو تو قابل قبول ہو گی غزل؟ اشعار میں تبدیلی بھی کردی ہے جیسا آپ نے فرمایا تھا کے باقی سارے اشعار "تا نہیں" پر ختم ہورہے تھے تو ان میں بھی کم از کم ایک مختلف قافیہ کا فاصلہ کردیا ہے۔

گر کے تیری گلی میں وہ سنبھلا نہیں​
تھام کر دل یہاں سے جو گزرا نہیں​
اب محبت کا جو تیری انداز ہے
یہ ہنر بے وفا میں نے سیکھا نہیں
ماند تارے ہوئے ہیں غمِ سحر میں
ناز بامِ فلک ان پہ کرتا نہیں
کب تلک یہ رہے گا محبت کا غم
دل ابھی تک تجھے بھول پایا نہیں
جب سے ہے زندگی کی مجھے جستجو
اب کسی میں ستم گر پہ مرتا نہیں
میرے خوابوں میں آ کر ستاتے تھے وہ
جب سے ناراض ہیں خواب آیا نہیں
دوستوں کے سبب ہی میں رسوا ہوا
فن مرے دشمنوں کو یہ آتا نہیں
جب سے کلمہ پڑھا ہے ترے عشق کا
دل یہ تیرے سوا اب کسی کا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب یہ قوافی کے اعتبار سے درست ہو گئی ہے۔ اس کا تفصیلی جائزہ جب موڈ ہوا تب۔ پہلے دوسروں کو موقع دو اپنے مشوروں کا
 
Top