غزل برائے اصلاح و تنقید (29)

امان زرگر

محفلین
خوں ناب اشک بام پہ آ کر سنبھل گئے
ہم لوگ بھی عجیب تھے، غم سے بہل گئے
وہ چارہ گر بھی ہم سے نگاہیں چرا گیا
دل کے بھی داغ شبنمی قطروں میں ڈھل گئے
آنکھوں میں آ بسے شب فرقت اجاڑ دی
جو موجزن تھے قلب میں ارمان جل گئے
اے دل کہاں تلک سہیں بے مائگی تری
اب تو سراب دشت بھی لہجے بدل گئے
مجھ کو امان دشت کی ویرانیوں سے کیا
آشفتہ تھی فضا سو بھٹکنے نکل گئے
 

امان زرگر

محفلین
خوں ناب اشک بام پہ آ کر سنبھل گئے
ہم کوچۂ حبیب میں ایسے بہل گئے

آنکھوں میں آ بسے شب فرقت اجاڑ دی
دل میں جو موجزن تھے سب ارمان جل گئے
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ پیشِ خدمت ہے

خوں ناب اشک بام پہ آ کر سنبھل گئے
ہم کوچۂ حبیب میں ایسے بہل گئے
وہ چارہ گر بھی ہم سے نگاہیں چرا گیا
دل کے بھی داغ شبنمی قطروں میں ڈھل گئے
آنکھوں میں آ بسی شبِ فرقت کچھ اس طرح
دل میں جو موجزن تھے سب ارمان جل گئے
اے دل کہاں تلک سہیں بے مائگی تری
لرزاں سی دھڑکنوں کے بھی لہجے بدل گئے
ویرانیوں میں دشت کی تھا کرب اک مگر
آشفتہ تھی فضا سو بھٹکنے نکل گئے

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
 
مراد کو پانے نکلا ہوں کوئی مجھ کو دعا دے
ضعیفی ہے ہمسفر میری کوئی مجھ کو عصا دے

شب و روز ڈھونڈتا پھرتا ہوں ایسا سوداگر
عقل کے بدلے عشق کا مجھ کو سودا دے

کبھی دھیمی نہ پڑ نے پائے میری طلب آشنائی
تشنگی عشق میں ایسی مجھ کو انتہاء دے

میری لکیروں سے کھچے وہ تصویر
نا خداوؤں کے جو تخت کو ہلا دے

میرے ہم خیال ہوں میرے ہم سفر
تصور میں میرے ایسی مجھ کو ضیاء دے

مجھ کو گر مان ہے تو تیری رحمت پر
خدایا تو ہی کوئی مجھ کو آسرا دے

میرا شعور تو ٹھہرا پابند سلاسل
اپنے فضل سے ہی تو کوئی مجھ کو پتا دے
 

الف عین

لائبریرین
سر تو کیا خوبصورت اشعار نہیں لگ رہے؟
مطلب یہی تھا کہ ربط باہم ہو تو شعر بن سکتا ہے، تمہارے اشعار میں ربط ڈھونڈھ کر لانا پڑتا ہے۔ کوئی قرینہ ایسا نہیں دیتے کہ قاری ڈائریکٹ اس ربط تک پہنچ جائے۔میرے خیال میں تم کو اس پر مشق کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جتنے متبادل اشعار کہو گے، ان سب میں وہی سقم ہو گا تو؟
پہلے دو اشعار میں تو ربط محسوس ہوتا ہے لیکن آخر کے تینوں اشعار مجھے اسی طرح محسوس ہوتے ہیں، اب بھی ترمیم کے بعد۔
 

الف عین

لائبریرین
مراد کو پانے نکلا ہوں کوئی مجھ کو دعا دے
ضعیفی ہے ہمسفر میری کوئی مجھ کو عصا دے

شب و روز ڈھونڈتا پھرتا ہوں ایسا سوداگر
عقل کے بدلے عشق کا مجھ کو سودا دے

کبھی دھیمی نہ پڑ نے پائے میری طلب آشنائی
تشنگی عشق میں ایسی مجھ کو انتہاء دے

میری لکیروں سے کھچے وہ تصویر
نا خداوؤں کے جو تخت کو ہلا دے

میرے ہم خیال ہوں میرے ہم سفر
تصور میں میرے ایسی مجھ کو ضیاء دے

مجھ کو گر مان ہے تو تیری رحمت پر
خدایا تو ہی کوئی مجھ کو آسرا دے

میرا شعور تو ٹھہرا پابند سلاسل
اپنے فضل سے ہی تو کوئی مجھ کو پتا دے
خوش آمدید۔ ایک نئی لڑی میں اپنے اشعار پروئیں، تو اصلاح بھی دی جا سکے۔ فی الحال تو یہی عرض ہے کہ بحر و اوزان سے واقفیت حاصل کریں
 

امان زرگر

محفلین
مطلب یہی تھا کہ ربط باہم ہو تو شعر بن سکتا ہے، تمہارے اشعار میں ربط ڈھونڈھ کر لانا پڑتا ہے۔ کوئی قرینہ ایسا نہیں دیتے کہ قاری ڈائریکٹ اس ربط تک پہنچ جائے۔میرے خیال میں تم کو اس پر مشق کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جتنے متبادل اشعار کہو گے، ان سب میں وہی سقم ہو گا تو؟
پہلے دو اشعار میں تو ربط محسوس ہوتا ہے لیکن آخر کے تینوں اشعار مجھے اسی طرح محسوس ہوتے ہیں، اب بھی ترمیم کے بعد۔
سر بہت بہتر مشق کرتا ہوں. شعر کے محاسن کے حوالے سے کچھ رہنمائی یا کوئی ربط مل جاتا تو مشق میں آسانی رہتی اور منزل کے حصول میں بھی آسانی رہتی
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم میں شاعری کا انسائکلو پیڈیا تو نہیں ہوں جو فوراً تم کو روابط دے دوں۔ اپنی طبع رسا کو ہی پہلا رہنما بناؤ اور مفہوم کے بارے میں خود ہی سوچو کہ جو تم کہنا چاہ رہے ہو وہ کس حد تک ادا ہو رہا ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ پیشِ خدمت ہے

خوں ناب اشک بام پہ آ کر سنبھل گئے
ہم کوچۂ حبیب میں ایسے بہل گئے
وہ چارہ گر بھی ہم سے نگاہیں چرا گیا
دل کے بھی داغ شبنمی قطروں میں ڈھل گئے
آنکھوں میں آ بسی شبِ فرقت کچھ اس طرح
صبح وصال یار کے امکان جل گئے
اے دل کہاں تلک سہیں بے مائگی تری
لرزاں ہیں دھڑکنیں سبھی لہجے بدل گئے
ویرانیوں میں دشت کی تھا کرب بھی مگر
آشفتہ تھی فضا سو بھٹکنے نکل گئے

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
[/CENTER‏[]​
 
آخری تدوین:
آنکھوں میں آ بسی شبِ فرقت کچھ اس طرح
صبح وصال یار کے امکان جل گئے
اچھا ہے.
اے دل کہاں تلک سہیں بے مائگی تری
لرزاں ہیں دھڑکنیں سبھی لہجے بدل گئے
درست.
ویرانیوں میں دشت کی تھا کرب بھی مگر
بندش کچھ سست ہے.
 

امان زرگر

محفلین
خوں ناب اشک بام پہ آ کر سنبھل گئے
ہم کوچۂ حبیب میں ایسے بہل گئے
وہ چارہ گر بھی ہم سے نگاہیں چرا گیا
دل کے بھی داغ شبنمی قطروں میں ڈھل گئے
آنکھوں میں آ بسی شبِ فرقت کچھ اس طرح
صبح وصال یار کے امکان جل گئے
اے دل کہاں تلک سہیں بے مائگی تری
لرزاں ہیں دھڑکنیں سبھی لہجے بدل گئے
ویرانیاں بھی کرب و بلا خیز تھی مگر
آشفتہ تھی فضا سو بھٹکنے نکل گئے
 
Top