غزل اور اس کی بحر

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم
میں آج کچھ شاعری پڑھ رہا تھا اب جب میں شاعری پڑھتا ہوں تو میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں پتہ کروں کے یہ غزل کس بحر میں ہے یا اس کے ارکین کیا ہیں کبھی کبھی تو کامیاب ہو جاتا ہوں لیکن زیادہ تر میں ناکامیاب ہوتا ہوں یہ دھاگہ میں نے اس لے شروع کیا ہے کے آپ یہاں پر غزلیں ارسال کریں اور اس کے ساتھ اس کے اوپر اس کی بحر یا رکن بھی لکھ دیں اس سے مجھے اور نئے لکھنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اور میں وارث صاحب سے درخواست کروں گا کے وہ بحر کے بارے میں تفصیل سے بتاتے جائے تاکہ ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو اور اگر ممکن ہو سکے تو کم از کم ایک شعر کی تقطع بھی کر دیں بہت شکریہ
خرم شہزاد خرم
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مثال کے طور پر

بحرِ رمل
اس بحر کا مختصر تعارف:

'رمل' کا مطلب ہوتا ہے 'گِھرا ہوا ہونا' اس بحر میں چونکہ رکن 'فاعلاتن' کا وتد 'علا' دو سببوں 'فا' اور 'تن' میں گھرا ہوا ہے، اسی طرح 'فاعلاتن فاعلاتن' میں دو سبب 'تن' اور 'فا' دو وتدوں 'علا' اور 'علا' میں گھرے ہوئے ہیں اس لیئے اسے رمل کہتے ہیں۔

یہ ایک مفرد بحر ہے (متقارب کی طرح) یعنی اسی میں ایک ہی رکن 'فاعلاتن' کی تکرار ہے۔

رمل مثمن سالم کا وزن 'فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن' ہے یعنی فاعلاتن چار بار ایک مصرعے میں، لیکن سالم حالت میں یہ بحر مستعمل نہیں ہے، بلکہ مزاحف ہی استعمال ہوتی ہے۔

مزاحف کا مطلب یہ ہے اس میں کسی 'زحاف' کا استعمال کر کے اس کے رکن کی شکل بدل دی جاتی ہے۔

زیرِ نظر بحر، رمل مثمن محذوف کا مطلب یہ ہے کہ آخری رکن 'فاعلاتن' میں سے آخری سبب یعنی 'تن' خذف کر دیا گیا ہے، باقی رہا 'فاعلا' تو اس کو 'فاعلن' سے بدل لیا اور یوں اسکا وزن ہوا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

اس بحر میں عمل تسبیغ جائز ہے یعنی 'فاعلن' کو فاعلان یا فاعلات بھی بنا سکتے ہیں۔ اسطرح اس بحر میں یہ دو وزن کسی بھی ایک شعر یا مختلف اشعار کے مختلف مصرعوں میں جمع کیئے جا سکتے ہیں۔


فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان (یا فاعلات) اس وزن کو رمل مقصور بھی کہتے ہیں۔

رمل کی کئی مزاحف شکلیں مستعمل ہیں جیسے رمل مثمن مخذوف، مخبون، مقصور، مشکول وغیرہ۔ اسی طرح مسدس اوزان بھی بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں جن میں سب سے مشہور رمل مسدس مخذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) ہے۔

رمل مثمن مخذوف میں کہی ہوئی غالب کی ایک غزل کی نشاندہی میں کر چکا، مزید کی آپ کریں۔
بشکریہ محمد وارث صاحب

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2212 2212 2212 212

غزل

نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت اچھا موضوع شروع کیا ہے، بہت خوب خرم بھائی،
کیا ہم اسمیں ایسی پسندیدہ غزل بھی ارسال کرسکتے ہیں جسکی بحر کے بارے میں جاننا مقصود ہو؟
 

الف عین

لائبریرین
مکمل غزل کی ضرورت نہیں۔ دو چار اشعار ہی کافی ہیں۔ ازور پسندیدہ کی شرط بھی نہیہں ہے۔ نا پسندیدہ اشعار بھی پوسٹ کریں، مقصد محض تقطیع کی مشق کرنا ہے نا، وہ جس طرح بھی ممکن ہو سکے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
یہ مطلع اور شعر جو کہ کہیں پر لکھا ہوا ملا ہے کس بحر میں ہے،
غمِ عشق سے غمِ افلاس بڑا ہے
ہمیں اس کی محبت کا پاس بڑا ہے

گھر ہے میرا جو خالی تو کیا ہے
جینے کو یہاں اس کا احساس بڑا ہے
اگر کسی صاحب کو شاعر کا پتہ ہو تو وہ بھی بتا دیں۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
قسمت میں مری' صلہ نہیں ہے


مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

مندرجہ بالا دونوں مطلع پروین شاکر مرحومہ کی دو خوبصورت غزلوں کے ہیں، کس بحر میں ہیں، انکا وزن کیا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
قسمت میں مری صلہ نہیں ہے

بحر: ہزج مسدس اخرب مقبوض مخذوف

وزن: مفعول مفاعلن فعولن (اس بحر میں دیگر وزن بھی آ سکتے ہیں، جیسے تسکینِ اوسط کے زخاف کی مدد سے مفعولن فاعلن فعولن)۔

تقطیع:

تجھ سے تُ - مفعول
کُ ئی گلہ - مفاعلن
نہیں ہے - فعولن

قسمت مِ - مفعول
مری صلہ - مفاعلن
نہیں ہے - فعولن

اسی بحر میں دیگر اشعار: ریاض خیر آبادی کی مشہور غزل

جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے خلد مقام ہو گئی ہے



مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ، مرے ہونے کی گواہی دیں گے


بحر: رمل مثمن مخبون مخذوف مقطوع

وزن: فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن (اس بحر میں دیگر وزن بھی آ سکتے ہیں، جیسے فاعلاتن کی جگہ فعِلاتن، اور فعلن کی جگہ فَعِلن اور فعِلان اور فعلان، گویا اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں)

تقطیع:


مر بِ جاؤں - فاعلاتن
تُ کہاں لو - فعلاتن
گ بھلا ہی - فعلاتن
دیں گے - فعلن

لفظ میرے - فاعلاتن
مِ رِ ہونے - فعلاتن
کِ گواہی - فعلاتن
دیں گے - فعلن

اسی بحر میں دیگر اشعار: فراز کی مشہور غزل

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
کوئی نا جان سکا ساز و رخت ایسا تھا


شکیب صاحب کا شعر ہے اس کی بھی تقطع کر دیں شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو
بحر کا نام تو میں نہیں بتا سکتا۔ اپنے وارث ہی ہیں بحر الفساحت کے حافظ!!
یہ بحر ویسے
فاعلن مفاعیلن
ہے۔
ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
کوئی نا جان سکا ساز و رخت ایسا تھا

یہ بحر ہے
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن
وارث۔ خود تقطیع نہ کریں، مجھ میں تو خیر صبر بھی نہیں ہے، لیکن راجا اور خرم کو کرنے دیں کہ ان کو مشق بہم ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو

میں تو وہ نہیں‌رہا
ہاں مگر وہی ہے تو

سر جی اس کی بحر بھی بتا دیں شکریہ

یہ بحر ہزج مثمن اشتر مقبوض کی مربع شکل ہے، مربع وہ بحر ہوتی ہے جس کے ایک مصرعے میں دو رکن (شعر میں چار رکن) ہوتے ہیں۔

مثمن بحر کے افاعیل 'فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن' ہیں لیکن شاعر نے اسے آدھا کر کے 'فاعلن مفاعلن' وزن استعمال کیا ہے۔

تقطیع

غم ہِ یا - فاعلن
خُ شی ہِ تو - مفاعلن

مے رِ زِن - فاعلن
د گی ہِ تو - مفاعلن


میں تُ وہ - فاعلن
نہیں رہا - مفاعلن

ہا مگر - فاعلن
وہی ہِ تو - مفاعلن

نا صِ رِس - فاعلن (الفِ وصل کا خوبصورت استعمال نوٹ کریں)
دیار میں - مفاعلن

کت نَ اج - فاعلن
نبی ہِ تو - مفاعلن



ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
کوئی نا جان سکا ساز و رخت ایسا تھا


شکیب صاحب کا شعر ہے اس کی بھی تقطع کر دیں شکریہ

بحر: مجتث مثمن مخبون مخذوف مقطوع

افاعیل: مَفَاعِلُن فَعِلاتُن مَفَاعِلُن فَعلُن (عین ساکن کے ساتھ) اس بحر کے آخری رکن میں چار وزن آ سکتے ہیں۔ تفصیلات دیکھیئے۔

ادھر سے گز - مفاعلن
رَ تَ ملکے - فعلاتن
سخن کَ شہ - مفاعلن
زا دہ - فعلن

کُ ئی نہ جا - مفاعلن
ن سکا سا - فعلاتن
ز رخت اے - مفاعلن
سا تھا - فعلن

اس بحر میں دیگر اشعار: فراز مرحوم کی خوبصورت غزل

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
معذرت چاہتا ہوں اعجاز صاحب آپ کا پیغام پہلے نہ دیکھ سکا، میں اس وقت شاید لکھ رہا تھا، آئندہ محتاط رہونگا، یہ بات صحیح ہے کہ افاعیل بتا دیئے جائیں اور تقطیع سوال کرنے والا خود کرے :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت شکریہ چلے اب کے بعد بحر آپ بتایا کریں تقطع ہم خود کیا کریں گے

بازیجہِ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

غالب

جہاں تلک یہ صحرا دیکھائی دیتا ہے
مری طرح اکیلا دیکھائی دیتا ہے

شکیب

ابھی تو پڑ بھی نہیں تولتا اوڑان کو میں
بلا جواز کھٹکتا ہوں آسمان کو میں

اختر عثمان


اسلوب و میر و مرزا قیامت سہی مگر
رہنا ہے گر غزل میں تو لہجہ بنائیں

اختر رضا سلیمی

جی سر اب شروع ہو جائے شکری
 

الف عین

لائبریرین
بازیجہِ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
پہلی بات۔ بازیچہِ غلط ہے، درست استعمال بازیچۂ ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن/فعولان

غالب

جہاں تلک یہ صحرا دیکھائی دیتا ہے
مری طرح اکیلا دیکھائی دیتا ہے
شعر غلط ہے شکیب کا۔ جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائ دیتا ہے۔۔ مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن/فعلان

شکیب

ابھی تو پڑ (پر( بھی نہیں تولتا اوڑان کو میں
بلا جواز کھٹکتا ہوں آسمان کو میں
وہی شکیب کے دکھای دیتا ہے والی بحر ہے۔

اختر عثمان


اسلوب و میر و مرزا قیامت سہی مگر
رہنا ہے گر غزل میں تو لہجہ بنائیں
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے، شاید آخر میں ’ہم‘ بھی ہوگا۔ اس صورت میں بحر ہوی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات/ فاعلن

اختر رضا سلیمی
 
Top