غزل اصلاح کے لیے

جناب محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ اکرام، آپ سے اصلاح کی گذارش ہے۔

فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

حشر کرتے بپا ہر کوئی دیکھتا
یہ زمیں دیکھتی آسماں دیکھتا
یوں تڑپنے کا اب ہم بھی لیتے مزہ
ہم اسے دیکھتے وہ ہمیں دیکھتا
اس کو شکوہ ہے بے اعتنائی کا تو
خوں سے رنگین یہ آستیں دیکھتا
اس کی رسوائی کا ڈر نہ ہوتا اگر
راز کھلتےجو پھر یہ جہاں دیکھتا
بے ادب یہ نظر اس کو تکتی رہی
اجنبی بزم میں اور کیا دیکھتا
عشق کرتا اگر حسن کا سامنا
وہ یقیں دیکھتا یہ گماں دیکھتا
نیند سے قبل وہ نام لیتا اگر
خواب میں پھر ہمیں رو برو دیکھتا
 

عاطف ملک

محفلین
بہت عمدہ خیالات ہیں عظیم بھائی۔۔۔۔۔۔۔ڈھیر ساری داد قبول فرمائیں۔
البتہ یہ رہنمائی کر دیجیے گا کہ قوافی کون سے ہیں؟؟؟
ہممم شاید یہیں مار کھا گیا۔ ردیف پر اتنا زور رہا ہے پچھلی غزلوں میں کہ ساری توجہ ردیف پر مرکوز ہے۔ لگتا ہے نئے سرے سے کہنی پڑے گی یہ غزل۔
 
جی عاطف ملک بھائی، امید ہے اب قافیہ واضح ہے

حشر کرتے بپا تو جہاں دیکھتا
یہ زمیں دیکھتی آسماں دیکھتا
یوں تڑپنے کا اور بڑھ ہی جاتا مزہ
سامنے آ کے جو وہ سماں دیکھتا
اس کو شکوہ ہے بے اعتنائی کا تو
خون کے آستیں پر نشاں دیکھتا
اس کی رسوائی کا ڈر نہ ہوتا اگر
راز کھلتےجو پھر یہ جہاں دیکھتا
بے ادب یہ نظر اس کو تکتی رہی
اجنبی بزم میں اور کہاں دیکھتا
عشق کرتا اگر حسن کا سامنا
وہ یقیں دیکھتا یہ گماں دیکھتا
نیند سے قبل وہ نام لیتا اگر
خواب میں بھی ہمیں پھر عیاں دیکھتا
 

الف عین

لائبریرین
طفقافیہ تو درست ہو گیا ہے اب

حشر کرتے بپا تو جہاں دیکھتا
یہ زمیں دیکھتی آسماں دیکھتا
÷÷درست

یوں تڑپنے کا اور بڑھ ہی جاتا مزہ
سامنے آ کے جو وہ سماں دیکھتا
۔۔پہلا مصرع رواں نہیں۔ ’اُر‘ کی وجہ سے
یوں کہو تو
یوں تڑپنے کا کچھ اور بڑھتا مزا
یا
کچھ تڑپنے کا کچھ اور بڑھ جاتا لطف

اس کو شکوہ ہے بے اعتنائی کا تو
خون کے آستیں پر نشاں دیکھتا
÷÷پہلا مصرع آخر کا ’تو‘ روانی کو بگاڑ رہا ہے۔” چھ ربط بھی واضح نہیں ہے۔

اس کی رسوائی کا ڈر نہ ہوتا اگر
راز کھلتےجو پھر یہ جہاں دیکھتا
۔۔درست، اگرچہ واضح نہیں

بے ادب یہ نظر اس کو تکتی رہی
اجنبی بزم میں اور کہاں دیکھتا
÷÷یوں کہو ےو
اجنبی بزم تھی، میں کہاں دیکھتا!!

عشق کرتا اگر حسن کا سامنا
وہ یقیں دیکھتا یہ گماں دیکھتا
÷÷درست، لیکن یہ اور وہ کو ادلا بدلی کرو تو کیسا رہے؟

نیند سے قبل وہ نام لیتا اگر
خواب میں بھی ہمیں پھر عیاں دیکھتا
÷خیال دلچسپ ہے لیکن اتنی چھوٹی بحر میں ادا کرنا مشکل ہے۔
 
طفقافیہ تو درست ہو گیا ہے اب
محترم الف عین صاحب بہت شکریہ، یہ تو عاطف ملک بھائی کی مہربانی ہے انھوں نے بروقت نشاندہی کردی اور میں آپ کی خلوص بھری ڈانٹ سے محروم رہ گیا۔

یوں تڑپنے کا اور بڑھ ہی جاتا مزہ
سامنے آ کے جو وہ سماں دیکھتا
۔۔پہلا مصرع رواں نہیں۔ ’اُر‘ کی وجہ سے
یوں کہو تو
یوں تڑپنے کا کچھ اور بڑھتا مزا
یہ بہتر ہے جناب
یوں تڑپنے کا کچھ اور بڑھتا مزا

اس کو شکوہ ہے بے اعتنائی کا تو
خون کے آستیں پر نشاں دیکھتا
÷÷پہلا مصرع آخر کا ’تو‘ روانی کو بگاڑ رہا ہے۔” چھ ربط بھی واضح نہیں ہے۔
یہ مناسب ہے؟
دیکھنی تھی اسے غم کی جو داستاں
آستیں پر وہ خوں کے نشاں دیکھتا

اس کی رسوائی کا ڈر نہ ہوتا اگر
راز کھلتےجو پھر یہ جہاں دیکھتا
۔۔درست، اگرچہ واضح نہیں
اگر تھوڑی تبدیلی کردیں تو مناسب رہے کا یہ شعر؟
اس کی رسوائی کا ڈر نہ ہوتا اگر
راز کھلتے وفا کے جہاں دیکھتا

بے ادب یہ نظر اس کو تکتی رہی
اجنبی بزم میں اور کہاں دیکھتا
÷÷یوں کہو ےو
اجنبی بزم تھی، میں کہاں دیکھتا!!
جی بہتر ہے۔

عشق کرتا اگر حسن کا سامنا
وہ یقیں دیکھتا یہ گماں دیکھتا
÷÷درست، لیکن یہ اور وہ کو ادلا بدلی کرو تو کیسا رہے؟
اس میں جناب میرے حساب سے ’وہ‘ اول الذکر یعنی ’عشق‘ کے لیے استعمال کیا ہے یعنی عشق یقینی حسن کو مشاہدہ کرتا اور حسن دیکھتا کہ ایک اور ایسا ہے جس کو عشق کا گمان ہے۔ اب آپ فرمایے، جیسا مناسب لگے آپ کو، ویسے پہلا مصرع کچھ یوں بھی سوچا تھا اس میں ’یہ یقیں‘ کی ترکیب اچھی نہیں لگ رہی تھی اس لیے مصرع بدل دیا تھا۔
حسن آتا اگر عشق کے سامنے

نیند سے قبل وہ نام لیتا اگر
خواب میں بھی ہمیں پھر عیاں دیکھتا
÷خیال دلچسپ ہے لیکن اتنی چھوٹی بحر میں ادا کرنا مشکل ہے۔
جناب یہ کیسا رہے گا؟
نیند سے قبل جو نام لیتا مرا
خواب میں وہ مجھے پھر عیاں دیکھتا
 

الف عین

لائبریرین
میری یہ خواہش ہے کہ محفل کے ہر مبتدی ہر مصرع کا متبادل خود سوچا کریں اور خود ہی منتخب کریں۔ اب اس مصرع کو ہی لو
دیکھنی تھی اسے غم کی جو داستاں
غم کی جو داستاں‘ کے الفاظ بہتر ہوں گے یا یوں
دیکھنی تھی جو روداد غم گر اسے
یا کچھ اور

یہ یقین وہ گماں کا اس لیے کہا تھا کہ یقین ہی سامنے کی چیز ہوتی ہے، گمان ہی غائپب ہوتا ہے۔ بہر حال تمہاری مرضی۔

نیند سے قبل جو نام لیتا مرا
خواب میں وہ مجھے پھر عیاں دیکھتا

زیادہ واضح ہے پچھلے شعر کی بہ نسبت
 
جناب محترم الف عین صاحب بہت شکریہ
میری یہ خواہش ہے کہ محفل کے ہر مبتدی ہر مصرع کا متبادل خود سوچا کریں اور خود ہی منتخب کریں۔ اب اس مصرع کو ہی لو
دیکھنی تھی اسے غم کی جو داستاں
غم کی جو داستاں‘ کے الفاظ بہتر ہوں گے یا یوں
دیکھنی تھی جو روداد غم گر اسے
یا کچھ اور
جی بہتر ہے آپ کے رائے میں ان میں سے کون سا بہتر رہے گا
دیکھنی تھی اگر اس کو رودادِ غم
یا
دیکھنا تھا اگر کیسے گزری ہے شب
آستیں پر وہ خوں کے نشاں دیکھتا​
یہ یقین وہ گماں کا اس لیے کہا تھا کہ یقین ہی سامنے کی چیز ہوتی ہے، گمان ہی غائپب ہوتا ہے۔ بہر حال تمہاری مرضی۔
آپ کی رائے سر آنکھوں پر، میں تو یہ عرض کر رہا تھا کہ 'یہ یقین' میں شاید 'ی' کی تقرار اچھی نہ لگے۔ اب آپ نے فرمایا تو ایسے ہی ہوگا۔
حسن آتا اگر عشق کے سامنے​
یہ یقیں دیکھتا وہ گماں دیکھتا​
 

عاطف ملک

محفلین
ایک بار پھر بہت سی داد پیارے بھائی!
بہت خوبصورت اشعار ہوئے ہیں ماشااللہ۔۔۔۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ :)
 
ایک بار پھر بہت سی داد پیارے بھائی!
بہت خوبصورت اشعار ہوئے ہیں ماشااللہ۔۔۔۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ :)
بہت شکریہ عاطف بھائی، بس اپنے مفید مشوروں سے آگاہ کرتے رہیے گا۔ اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے۔
 
Top