غزل، احمد وصال۔۔

احمد وصال

محفلین
نظر کے سامنے اک مہ جبیں کا پیکر ہے
لگا یہ حسنِ مصور کا ایک مظہر ہے

اٹھایا ہاتھوں میں تم نے کیوں کہ پتھر ہے
پلٹ کے دیکھو ترا خود بھی شیشے کا گھر ہے

جہاں بھی لے کے چلے اس کی اپنی مرضی ہے
خیال اس کا دلِ ناتواں کا رہبر هے

نہیں نہیں مجھے اتنا غریب مت جانو
کہ نیلے آسماں کی چھت مجھے میسر ہے

ملا ہوں اس سے میں ہونٹوں پہ ابتسام لئے
نہ کہہ سکا میں اسے دل کا حال ابتر ہے

تمام زخم لگائے ہیں اس نے نشتر سے
جو میرے شہر کا سب سے بڑا رفو گر ہے

وہ جس کا شیشے سا دل ہے یہاں نہیں ٹھہرا
تمہارے شہر کا لگتا مزاج پتھر ہے

اکیلا میں ہی سزاوار اس کا ہوں احمد!
کہ مدتوں سے خزاں رت ہی کیوں مقدر ہے
 
Top