مکمل غبار ایّام ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
رفیقِ راہ تھی منزل ہر اِک تلاش کے بعد
چھُٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی
ملُول تھا دلِ آئنہ ہر خراش کے بعد
جو پاش پاش ہُوا اِک خراش بھی نہ رہی​
 

فرخ منظور

لائبریرین
پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے

صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے

خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا
اس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائے

دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائے

یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے

21، نومبر 1983ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
پھول مسلے گئے فرشِ گلزار پر
رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر

بزم برپا کرے جس کو منظور ہو
دعوتِ رقص، تلوار کی دھار پر

دعوتِ بیعتِ شہ پہ ملزم بنا
کوئی اقرار پر، کوئی انکار پر

(ناتمام)
23، فروری 1984ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے
اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے

دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا
اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے

ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے
اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے

دل میں وہ آگ فروزاں ہے عدو جس کا بیاں
کوئی مضموں کسی عنواں نہیں‌کرنے دیتے

جان باقی ہے تو کرنے کو بہت باقی ہے
اب وہ جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے

30 اکتوبر، 1984ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت مِلا نہ مِلا، زندگی سے غم کیا ہے
متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے

ہم ایک عمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں، ستم کیا ہے

کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف
کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم کیا ہے

لحاظ میں کوئی کچھ دور ساتھ چلتا ہے
وگرنہ دہر میں اب خضر کا بھرم کیا ہے

اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

سجاؤ بزم، غزل گاؤ، جام تازہ کرو
"بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے"

نومبر، 1984ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
شامِ غربت

دشت میں سوختہ سامانوں پہ رات آئی ہے
غم کے سنسان بیابانوں پہ رات آئی ہے
نورِ عرفان کے دیوانوں پہ رات آئی ہے
شمعِ ایمان کے پروانوں پہ رات آئی ہے
بیت شببر پہ ظلمت کی گھٹا چھائی ہے
درد سا درد ہے تنہائی سی تنہائی ہے
ایسی تنہائی کہ پیارے نہیں دیکھے جاتے
آنکھ سے آنکھ کے تارے نہیں دیکھے جاتے
درد سے درد کے مارے نہیں دیکھے جاتے
ضعف سے چاند ستارے نہیں دیکھے جاتے
ایسا سنّاٹا کہ شمشانوں کی یاد آتی ہے
دل دھڑکنے کی بہت دور صدا جاتی ہے​
 

فرخ منظور

لائبریرین
نعت

اے تُو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تُو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تُو
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ مُلک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تُو
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لقائے تُو
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تُو
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُند
روزے بسُوئے عدل و عنایت صَدائے تُو​
 
Top