غالبِ خستہ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غالب کے کچھ شعر سنئے

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
مرے دُکھ کی دوا کرے کوئی

سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چُھوٹا جائے ہے مجھ سے

فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی​

غالب کے مشہور شعروں میں سے یہ محض چند شعر ہیں جنہیں روزمرہ گفتگو میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ان شعروں کو گفتگو میں استعمال کرنے والے ان شعروں کے ذریعے کن جذبات و کیفیات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آیا ان اشعار کے ذریعے واقعی اپنے گہرے جذبات اور اہم کیفیات کی ترجمانی کی جا رہی ہے یا ان کے استعمال سے گفتگو میں محض شعر کا مزہ لیا جارہا ہے اور گفتگو کرنے والے ان اشعار کی معنوی گہرائی تک پہنچنے کی نہ قدرت رکھتے ہیں اور نہ کوشش کرتے ہیں یعنی یہ شعر جن جذبات اور کیفیات کی ترجمانی کرنے کا حق ادا کر سکتے ہیں انہیں سمجھنے کی بجائے انہیں محض سرسری انداز میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ درحقیقت اگر ہم اپنے آس پاس نظر ڈالیں تو ہمارے آس پاس بے شُمار لوگ بلکہ شاید ہم خود بھی یہی کر رہے ہیں یعنی ہم نے غالب کے شعروں کو بھی اپنی روز مرہ گفتگو کا حصہ یا یوں کہیے کہ محض Phatic Communication کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
 
سلام
محترم آپ کی اس کاوش میں کچھ کہنے کے قابل تو نہیں ظاہر کے اب میرا اتنا مطالعہ نہیں ہے این وجہ کے میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں کہوں گا بس اتنا ہے کہ آج کل کے اس دور میں کوئی بھی شخص پہلی بات وہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح غالب کو نہیں جانتا کیا میں کیا آپ کیوں کہ وہ اس دور کی باتیں تھیں دور حاضر میں تو اردو ہی نہیں رہی بات نکلی نہیں کہ انگریزی چھڑنے لگی قومی زبان ہی سہی مگر شاید کسی میوزیم میں ملے وہ بھی اگر کسی ڈھوس یا کسی مائع حالت میں بدل گئی تو ورنہ تو شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر یہ ایک بات تھی کہنے کی وہ کیا ہے کہ اردو کا حال ہی سہی "وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے"

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شاید یہی وجہ ہے کہ ہم ان شعروں میں چھپے اُس گہرے رنج و غم پر غور ہی نہیں کرتے جس ےن غالب سے ایک تواتر کے ساتھ اس قسم کے شعر کہلوائے۔ ہم اس مایوسی اور ناامیدی پر بالکل بھی توجہ نہیں دیتے جو غالب کے شعروں میں بار بار جھلکتی نظر آتی ہے ۔ ہم اس درد و کرب سے سرسری طور پر گذر جاتے ہیں جس نے غالب کے ہونٹوں سے حقیقی ہنسی چھین لی تھی اور بنا کسی کے ستائے غالب کو رونے پر مجبور کر دیا تھا ۔ ہم غالب کے ایسیے اشعار میں الم پسندی اور یاسیت کو دیکھتے ہوئے بھی توجہ دیئے بغیر گذر جاتے ہیں کہ یونہی سرسری انداز میں بنا غوروفکر کے گذر جانا ہمارے معاشرے کا چلن بن گیا ہے ہم دراصل افادیت پسندی کا شکار ہوچکے ہیں۔ یعنی جب تک ہمیں کسی چیز میں اپنا کوئی فائدہ نظر نہ آئے ہم اس پر توجہ دینا فضول اور تضیح اوقات تصور کرتے ہیں ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے خیال میں
غالبؔ کے اشعار ایک طرح کا ٹریژر ہنٹ ہیں، پڑھ تو ہر کوئی لیتا ہے، لیکن
جس طرح قدیم مصری مقبروں کو چوروں کی زد سے بچانے کےلیے اقدامات کیے جاتے تھے ٹھیک ویسے اقدامات غالبؔ نے اپنے اشعار میں مد نظر رکھے
تاکہ بندر کے ہاتھ ماچس نہ لگے
اب صورت یہ ہے،
اول تو جیسے قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامے میں اردو کے ماسٹر صاحب اور ان کے تشریح کے انداز کا ذکر کیا
سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل سےجرات آزما پایا
ماسٹر صاحب اس کی تشریح یوں کرتے تھے
" سادگی تے اسدے نال پرکاری، بے خودی تے اس دے نال ہوشیاری۔ شاعر کہندا اے کہ اس نے حسن نوں تغاف نال جرات آزما پایا۔ لو جی انی جئی گل سی، تے غالبؔ شعر بناندا مر گیا تے میں تشریح کردے کردے مر جانا، پر تہاڈے جئے کوڑھ مغزاں دی سمجھ وچ ککھ نئیں آنا"
اب اس طرح کے ماسٹر صاحبان ہوں تو کون سمجھے غالبؔ کی عظمت اور ان کی شاعری کو
دوم یہ کہ
ہم کچھ زیادہ ہی ظاہر بیں اور ظاہر پرست ہو چلے ہیں، غالبؔ کی عظمت کا تاج محل ایک بوتل کے پیچھے اوجھل پاتے ہیں، ہم خود چاہے اپنے لبرل ہونے پر فخر کریں مگر غالبؔ کا نام آتے ہی ہمارے اندر ایک مولانا بیدار ہو جاتاہے
سوم یہ کہ
غالبؔ کے اشعار جیسا کہ میں نے کہا کہ ٹریژر ہنٹ ہیں، شوخیوں، آزادگیوں کی غلام گردشیں راہ میں حائل ہیں، لیکن ہم میں سے اکثر سہل پسند اس مشکل میں پڑنا ہی نہیں چاہتے، شعر سمجھ میں آتا ہے تو ٹھیک نہیں تو بھاڑ میں جائے (یہ ایک عمومی رویہ ہے)
چہارم یہ کہ
جیسے کھیل کئی قسم کے ہیں
جینٹل مین ٹائپ لوگ گولف یا زیادہ سے زیادہ ٹینس ، کرکٹ پر گزارہ کر لیتے ہیں
وہ بھی کھلاڑی کہلاتے ہیں
مگر کچھ سرپھرے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بقول غالبؔ "اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے"اسکیٹنگ، کوہ پیمائی وغیرہ کا انتخاب کرتے ہیں
وہ بھی کھلاڑی کہلاتے ہیں
اسی طرح غالبؔ کو مہم جو طبیعت کے لوگ ہی پڑھ پاتے ہیں، باقی وصی شاہ، فرصت عباس شاہ کو پڑھ کے ہی اپنے اندر چھپے ادبی بچے کو لوری دے لیتے ہیں
غالبؔ ہی کے بقول " دھمکی میں مر گیا، وہ جو باب ِ نبرد تھا ٭٭ عشق نبرد پیشہ طلبگار مرد تھا" بس کچھ ایسی ہی بات ہے
غالبؔ کا کلام بھی طلبگار مرد ہے
 
Top