عہدِ اکبری کا نوروز

حسان خان

لائبریرین
"عہدِ اکبری کا نوروز:
تمدن کی ترقی کے ساتھ اس جشن کی زینت و آرایش میں اضافہ ہوتا گیا۔ اکبر کے عہد میں یہ جشن انیس دن تک منایا جاتا تھا۔ ابوالفضل کا بیان ہے کہ ان ایام میں انواع و اقسام کی زینت و آرایش ہوتی جس کو دیکھ کر حاضرین فرطِ مسرت میں نعرے بلند کرتے۔ ہر پہر کے آغاز پر نقارے بجتے، مطرب اپنے نغموں سے لوگوں کو محظوظ کرتے، راتوں کو چراغاں کیا جاتا، اور جشن سے پہلے اور آخری دن بکثرت صدقہ دیا جاتا، [اور] تحفے بھیجے جاتے۔
اکبر کے ستائیسویں سالِ جلوس میں جو جشن منایا گیا، اس میں امراء کے مشورے سے سرایوں اور شفاخانوں کی تعمیر ہوئی، چھوٹی چھوٹی چڑیوں کے شکار کی ممانعت کر دی گئی تھی، بازاروں کی نگرانی کے لیے داروغہ کا تقرر ہوا، اور بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں وقائع نگار مقرر کیے گئے، بارہ برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی ممانعت ہوئی، شاہی حکم کی اجازت کے بغیر قتل کی سزا روک دی گئی وغیرہ وغیرہ۔
اکبر کے اٹھائیسویں سالِ جلوس کے نوروز کا ذکر کرتے ہوئے طبقاتِ اکبری کا مؤلف لکھتا ہے:
"اس سال نوروز کے موقع پر دیوانِ عام، اور دیوانِ خاص کے ایوانوں، ستونوں اور دیواروں کو قیمتی کپڑوں، مصوّر پردوں سے مزیّن کیا گیا، اور اس طرح آراستہ کیا گیا کہ دیکھ کر لوگ حیرت میں آ جاتے تھے۔ صحن میں زردوزی کا شامیانہ لگایا گیا، اس کو بھی زربفت سے آراستہ کیا گیا، اور اس پر ایک تخت بچھایا گیا، جو سونے یاقوت اور موتیوں سے مرصع تھا، اور فردوس کے لیے باعثِ رشک تھا۔
صفحۂ نُہ طاق بیاراستند
پردۂ زربفت فلک ساختند
تخت زدند و تتق آویختند
عرش دگر بر زمین انگیختند
اٹھارہ روز تک یہ آراستگی رہی۔ رات کو طرح طرح کے فانوس روشن کیے جاتے۔ امراء دن یا رات کو ایک یا دو بار بادشاہ کے پاس آ کر بیٹھتے۔ ہند اور فارس کے اربابِ نغمہ، امراء اور اہلِ خدمت شاہانہ عنایات سے سرفراز کیے جاتے۔ فتحپور اور آگرہ کے بازاروں کی بھی آئین بندی ہوئی تھی، اور اطراف [و] جوانب سے لوگ اس کا تماشہ دیکھنے آئے، جو انہوں نے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ سنا تھا۔ ہفتے میں ایک دن جو چاہتا بادشاہ کے پاس جا سکتا تھا۔ بقیہ دنوں میں صرف امراء اور خاص خاص لوگ آ سکتے تھے۔ نوروز کے دن جب بادشاہ تخت پر بیٹھتا تو امراء صف بستہ ترتیب کے ساتھ کھڑے رہتے۔ نوروز کے آخری دن بھی یہ مجلس اسی شان سے ہوتی اور امراء شاہانہ نوازشوں سے سرفراز کیے جاتے۔ کسی کو گھوڑے عنایت ہوتے، کسی کو خلعت ملتا، کسی کو علوفے میں اضافہ ہوتا، بہتوں کو جاگیریں ملتیں۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کو کچھ نہ کچھ نہ ملتا۔ امراء نذرانے پیش کرتے، بڑے بڑے امراء میں سے کوئی نہ کوئی محل کے اندر ضرور آتا جس کے ساتھ مہمانی کے تمام لوازم برتے جاتے۔ نذرانے میں عموماً ہندوستان، خراسان اور عراق کے کپڑے ہوتے۔ موتی، لعل، یاقوت، اور طلائی آلات بھی پیش کیے جاتے۔ عربی اور عراقی گھوڑے، کوہ پیکر ہاتھی اور بہت سے اونٹ بھی ہوتے۔ اس موقع پر شاہم خان جلائر بنگالہ، اور راجہ بھگوان داس لاہور سے آ کر قدم بوس ہوئے، اور یہ طے پایا کہ یہ جشن ہر سال اسی طرح منایا جائے۔
اکبر نے یہ بھی جدت کی تھی کہ دیوانِ خاص و عام کے گرد جتنے ایوان تھے، ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک امیر کے سپرد کیا کہ وہ اپنے ذوق کے مطابق اس کو آراستہ کرے۔ خود اس کے دولت خانۂ خاص کو شاہی ملازم سجاتے۔ اس کے در و دیوار پر پرتگالی بانات، رومی و کاشانی مخمل، گجراتی زربفت و کمخواب، تاش تمامی مقیش پیمک اور کشمیر کی شالیں لٹکائی جاتیں، فرنگ و چین کے زرنگار پردے لگائے جاتے، نیچے ایران و ترکستان کے قالین ہوتے، شیشۂ آلات میں عجیب و غریب آئینے، فانوس، کنول، قندیلیں اور قمقمے لٹکائے جاتے۔ صحن میں خیمے نصب ہوتے، اور صحنوں میں پھولوں کے تختے لگا کر ان کو رنگین و حسین بنایا جاتا۔ امراء اپنے ذوق کے مطابق اپنے اپنے ایوانوں کی آئین بندی کرتے۔ مثلاً شاہ فتح اللہ شیرازی اپنے ایوانوں کو علمِ ہیئت کے آلات، گھڑیالوں، گھنٹوں، نظامِ فلکی کے نقشوں، اصطرلابوں، جرِ ثقیل کی کلوں وغیرہ سے سجاتے۔ بعض امراء اپنے ایوانوں کو حربی اسلحے سے آراستہ کرتے، اور بعض اپنے ایوانوں کے ساتھ ایک باغچہ لگا دیتے۔ غرض اس جشن میں ایک بہت عمدہ نمائش بھی منعقد ہو جاتی، جس میں ہر قسم کی صنعتوں کے نمونے ہوتے تھے۔"

(سید صباح الدین عبدالرحمٰن کی کتاب 'ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے' سے مقتبس)
 
Top