عورتوں کی مساجد میں حاضری (احادیث صحیح بخاری کی روشنی میں )تحقیق امام احمد رضا خان بریلوی

احسان اللہ

محفلین
عورتوں کی مساجد میں حاضری

کسی شی کا حکم دو قسم کا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔اول :ذاتی ،دوم:عرضی
ذاتی :جو نفس ذات کے اعتبار سے ہو
عرضی :جو کسی خارجی عارضے کی وجہ سے ہو
تمام احکام جو سد ذرائع کیلئے دیے جاتے ہیں ،اسی قسم دوم سے ہوتے ہیں
یہ دونوں قسمیں بعض اوقات نفی و اثبات میں مختلف ہوتی ہیں ،مگر ہر گز متنافی نہیں
اس کی مثال عورتوںکی مساجد میں حاضری ہے۔۔۔۔۔۔ذاتی طور پر یہ ہر گز منع نہیں ،بلکہ ان کو روکنا ممنوع ہے ۔۔۔۔۔۔حدیث میں ہے:
(لا تمنعوا اماء اﷲ مساجد اﷲ)
اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو
(صحیح بخاری ،کتاب الجمعۃ)
مگرزمانہ موجودہ کی خواتیں کودیکھا جائے تو منع ہے ،جیسے کہ فقہاء کرام نے اسکی تصریح کی ہے ،
بلکہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :
(لورای رسول اﷲ ما احدث النساء ،لمنعھن المساجد ،کما منعت نساء بنی اسرائیل)
عورتوں کی موجود ہ حالت ،اگر رسول اللہ ؐ دیکھ لیتے ،تو انھیں مساجد سے ایسے ہی منع فرما دیتے ،جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا
(صحیح بخاری ،کتاب الاذان ،باب خروج النساء الی المساجد)
(ھذا الکلام مخلص من الفتاوی الرضویہ )
 
Top