علی پور کا ایلی (606-635)

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 606

میں صرف ڈیڑھ مہینہ باقی تھا۔ ان حالات میں گوریوں کے سگنل کو دیکھنے کے لیے لازم تھا کہ جمال یا ایلی ان میں سے کوئی دو بجے تک جاگے۔ چونکہ جمال جاگنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس لیے یہ ذمہ داری ایلی کو اپنے سر لینی پڑی۔ وہ دو بجے تک مطالعہ میں مصروف رہتا اور پھر روشنی کر دیکھ کر جمال کو جگاتا اور پھر دونوں مخصوص مقام پر پہنچتے اور وہاں اندھیرے میں ادھر ادھر کی بات چل نکلتی اور ایلی بے تکی ہانکتا۔ گوریاں فقرے چست کرتیں اور ہنستیں اور جمال کبوتر سی آنکھیں بنا کر گوریوں کی طرف دیکھتا۔ ان جانے میں کھجاتا اور جب ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو بھکاری کی حیثیت سے سلاخوں کے قریب جا کھڑا ہوتا۔ “ خدا کے لیے، خدا کے لیے۔“ وہ چلاتا اور گوریوں کے ماتھے پر شکن پڑ جاتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

دروازہ

دراصل جمال کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ وہ ان ملاقاتوں اور بیکار کی باتوں سے اکتا چکا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ گھنٹوں کھڑے ہو کر باتیں کرتے رہنے کا مطلب کیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ بار بار ایلی کو کہتا رہا۔

“ ایلی یار کچھ کرنا چاہیے۔ اگر ہم کسی طرح اس دروازے کو کھول لیں جو باہر گلی میں کھلتا ہے تو اندر جا سکیں گے۔“ ایلی کو یہ تجویز ناپسند نہ تھی۔ لیکن وہ اس کے لیے بیتاب بھی نہ تھا۔ درحقیقت دل ہی دل میں ایلی ان لڑکیوں کے قرب سے ڈرتا تھا۔ اس کی وجہ غالباً اس کا جذبہ کمتری تھی جو عورت سے متعلق اس کے دل کی گہرائیوں میں جا گزین ہو چکا تھا۔ شاید اسی وجہ سے وہ جمال کے اس مطالبے کو ٹالتا رہا۔ لیکن آخر کار اسے جمال کی بات ماننا ہی پڑی۔

ایک روز گوریوں سے ملاقات کے اختتام پر وہ دونوں وہاں رک گئے۔ انہوں نے ٹارچ جلا کر تالے کی ساخت کو بغور دیکھا اور لیوروں کی تعداد معلوم کی اور بالاخر موم کے ایک گولے پر جو وہ جاتے ہوئے ہمراہ لے گئے تھے تالے کے سوراخ کا نقش حاصل کر لیا۔

اس روز وہ دونوں بازار میں تالوں کی دکانوں پر گھومتے رہے اور انجام کار ویسے ہی چار تالے خرید کر لے آئے۔ اگلے روز ملاقات کے بعد انہوں نے وہ چاروں چابیاں اس تالے پر آزمائیں۔ خوش نصیبی سے ایک چابی لگ گئی اور تالہ کھل گیا۔ انہوں نے کنڈی کھولی اور دروازے کو کھولنے کی کوشش کی مگر اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی۔

“ اب کیا ہو گا۔“ جمال کہنے لگا۔ “ ساری محنت اکارت گئی۔ اگر ہم نے تالہ کھول بھی لیا تو وہ اندر سے چٹخنی نہیں کھولیں گی۔“

“ جلدی نہ کرو۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ یہ بات مجھ پر چھوڑ دو۔“

“ یار کچھ کرو۔“ جمال نے منتیں کرنا شروع کر دیں۔ “ ایسی چالاکی کرو کہ بات بن جائے۔“

اگلی رات وہ دو بجے سے پہلے ہی وہاں جا پہنچے۔ انہوں نے تالہ اور کنڈی کھول دی۔

پھر وہ گوریوں کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران میں ایلی نے اچھی طرح جمال کو تاکید کر دی کہ دروازہ کھولنے کے بارے میں گوریوں کا انتظار نہ کرئے۔ جب وہ دونوں کھڑکی میں ائیں تو ایلی نے حسبِ معمول ادھر ادھر کی بات چھیڑ دی اور دیر تک وہ یوں باتوں میں محو رہا جیسے دروازے کی تفصیل بھول چکا ہو۔ پھر دفعتاً وہ زمین پر بیٹھ گیا۔

“ ہائیں آپ بیٹھ کیوں گئے۔“ وہ بولی

“ ہوا لگتی ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ ہوا تو بلکہ اچھی لگتی ہے۔“ وہ بولی۔

“ اسے کل سے بخار آتا ہے۔“ جمال نے کہا۔

“ ارے۔“ وہ بولی۔ “ تو آپ نے بتایا کیوں نہیں۔“

“ بتا دیتا تو کیا کرتیں آپ؟ کیا دروازہ کھول کر اندر بلا لیتیں۔“

“ ہاں ہاں کیوں نہیں۔“ وہ ہنسی۔

“ جبھی تو بتایا نہیں۔ ڈر تھا کہ مجھے اندر نہ بلا لو۔“

“ اگر باہر تالہ نہ پڑا ہوتا تو میں ابھی آپ کو اندر لے آتی۔“

ایلی نے قہقہہ لگایا۔ “ آپ میں اتنی جرات کہاں۔ آپ ------۔“

“ کیوں۔“ اندر سے آواز آئی۔

“ بس - قرائن سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ آپ شاید اس خوش فہمی میں ‌ہیں۔“ وہ بولا۔ “ کہ آپ لڈو ہیں اور ہم بھوکے جاٹ۔“ وہ ہنسنے لگی۔ “ بھوکے جاٹ نہیں البتہ بھکاریوں سے سابقہ ضرور پڑا ہے ہمیں۔“

“ تو بھکاریوں سے ڈرتی ہیں آپ۔“ ایلی نے قہقہہ لگایا۔

“ ہم تو کسی سے نہیں ڈرتے۔“ وہ بولی۔

“ تو پھر اندر کی چٹخنی کھول دکھائیے۔“ اس گفتگو کے دوران میں جمال تھوکنے کے بہانے گلی کی طرف نکل گیا تھا۔ لیکن ایلی اپنی جگہ پر جما رہا۔

“ لو اس میں کیا ہے۔“ اندر کوئی بولی اور پھر چٹخنی کھولنے کی آواز سنائی دی اور پیشتر اس کے کہ وہ اسےپھر سے بند کر لیتیں، جمال نے دروازے کو دھکیل کر کھول دیا۔ دروازہ کھلتا دیکھ کر وہ دونوں چیخیں مار کر بھاگیں اور ایک دوسری پر گرتی پڑتی نظر سے غائب ہو گئیں۔ سلاخ دار کھڑکی کے پیچھے وہ جگہ جسے وہ کمرہ سمجھتے تھے درحقیقت زینے کا نچلا حصہ تھا۔

سامنے ایک دروازہ عمارت کے اندر کھلتا تھا۔ دوسری طرف زینہ تھا۔ جس میں گھر کا کاٹھ کباڑ بھرا ہوا تھا۔ ٹوٹی ہوئی میزیں کرسیاں کھوکھے اور جانے کیا کیا۔ دوسرے کونے میں اندرونی دروازے کے پاس دو پاٹ رکھے ہوئے تھے۔ کمرے کی چوڑائی زیادہ نہ تھی۔

اگلے روز دروازہ کھولنے کا جھگڑا از سر نو شروع ہو گیا۔ آخر میں وہ جلال میں آ گئیں۔ “ دیکھیے صاحب۔“ ایک بولی، “ ہمیں دروازہ کھولنے میں کوئی عذر نہیں۔ آپ شوق سے تشریف لائیں لیکن ------ “ ایلی نے اس کی بات کاٹ کر کہا، “ اگر اس لیکن کی وضاحت ہمیں اندر بلانے کے بعد کی جائے تو بہتر ہو گا۔“

جب دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہو گئے تو وہ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگی۔ “ دیکھیے ممکن ہے آپ ہمارے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوں۔ شاید آپ سمجھے بیٹھے ہیں کہ آپ کو ملاقات کی دعوت دینے سے ہمارا کچھ مقصد ہے۔ یہ خوش فہمیاں دل سے نکال دیجیئے تو بہتر ہو گا اور اگر آپ نے کوئی نامناسب حرکت کی تو ہمیں بے حد دکھ ہو گا۔“

“ ذرا پیچھے ہٹ جائیے محترمہ مجھے بُو آتی ہے۔“ ایلی نے کہا۔ یہ کہہ کر وہ زمین پر بیٹھ گیا۔

“ بُو۔“ وہ بولی، “ نہیں یہ پاٹ تو خالی پڑے ہیں۔“

“ نہیں پاٹ والی بُو نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ لیکن ہم نے کوئی خوشبو تو لگائی ہوئی نہیں۔“

“ لگائی ہو یا نہ بہر صورت آتی ہے۔“ ایلی نے کہا۔ “ آپ کی ساری قوم سے آتی ہے۔“

“ بڑے بدتمیز ہیں آپ۔“ وہ ہنسی۔

“ یہ تو ٹھیک ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ الٹا مجھے آپ سے شکایت ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ باتمیز ہیں۔“

عین اس وقت جمال نے دیا سلائی سے موم بتی جلائی جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا اور پھر اسےکمرے کے پرلے کونے میں رکھدیا۔

“ ارے۔“ وہ چلائیں۔ لیکن جلد ہی سنبھل گئیں۔

“ تو آپ شکل و صورت دیکھنا چاہتے ہیں ------ “ کچھ دیر تک وہ خاموش روشنی میں کھڑی رہیں۔ پھر ایک بولی۔

“ کیوں پسند ہے آپ کو۔“

اس کے انداز میں اتنی طنز تھی کہ ایلی پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ لیکن جمال ہنسے جا رہا تھا۔

“ اونہوں بالکل پسند نہیں۔“ ایلی بولا۔ “ معصوم اور پاکیزہ چٹ کپڑیاں بڑی خطرناک ہوتی ہیں۔ ان سے کہیں بہتر ہیں جو آنکھیں مٹکاتی ہیں، لجاتی ہیں، شرماتی ہیں اور کولھے ------ “

“ کیا مطلب ہے آپ کا۔“ وہ بولی۔

“ مطلب یہ ہے محترمہ کہ کم از کم مجھے باہر نکال دیا جائے۔ میرا تو یہ خیال تھا کہ اندر میری پوزیشن باہر کی نسبت بہتر ہو جائے گی۔ لیکن یہاں آ کر تو اپنی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔ صورت حال خطرناک ہو گئی ہے۔“

“ تو خود ہی باہر نکل جائیے۔“ وہ جلال میں بولی۔

خود نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایلی نے کہا۔

“ اچھا۔“ کہہ کر وہ آگے بڑھی۔

“ نہیں نہیں نہیں نہیں۔“ ایلی نے شور مچا دیا۔ “ خدا کے لیے مجھے چھونا نہیں۔ میرا دل پہلے ہی کمزور ہے۔“

وہ ہنس پڑی۔ “ آپ بھی عجیب ہیں۔ لیکن آپ انہیں تو بات کرنے دیتے ہی نہیں۔ آپ بھی کوئی بات کیجیئے نا۔“ اس نے جمال کو مخاطب کر کے کہا۔

“ جانِ من میں تو ------ “ جمال نے آگے بڑھتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی۔

“ وہیں سے بات کیجیئے۔“ وہ بولی اور خود پیچھے ہٹ گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

چھوٹی بڑی

اس روز روشنی میں ایلی نے پہلی مرتبہ انہیں دیکھا۔ شکل و صورت طبیعت اور انداز میں وہ دونوں ایک دوسری سے مختلف تھیں۔ بڑی کا چہرہ کتابی تھا نقوش ستواں تھے۔ جسم دبلا پتلا، موٹی موٹی سیاہ آنکھوں میں غم کی جھلک، ہونٹ پتلے اور یوں بھنچے ہوئے تھے جیسے کراہ دبائے ہوئے ہوں۔ چھوٹی کا چہرہ متبسم اور زندگی سے بھرپور تھا۔ اس کا جسم بھرا بھرا تھا۔ ہونٹ یوں کھلے ہوئے تھے جیسے کوئی لطیفہ سن کے بیٹھی ہو۔ بڑی خاموش تھی۔ نہ تو کھیل کی متمنی تھی نہ اس میں احتجاج کی صلاحیت تھی۔ چھوٹی میں جلال اور جمال کی عجیب آمیزش تھی۔ دفعتاً ------ ہنستے ہنستے وہ سنجیدگی اختیار کر لیتی اور پھر جلد ہی آپ ہی آپ ہنسنے لگتی۔ ان دونوں کا لباس سادہ تھے اور بظاہر سنگار سے عاری تھیں۔

“ آپ بیٹھ کیوں گئے۔“ چھوٹی نے کہا، “ اٹھ کر کوئی بات کیجیئے نا۔“

“ اونہوں۔“ ایلی نے جواب دیا۔ “ اب جمال کی باری ہے۔“

“ انہیں تو صرف ایک بات آتی ہے۔“ چھوٹی نے کہا۔

“ وہ بھی سن لیجیئے کیا حرج ہے۔ جب تک میری باچھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔“

“ باچھیں ٹھیک ہونے کا مطلب؟“

“ محترمہ۔“ وہ بولا، “ بول بول کر میری باچھیں دکھنے لگی ہیں۔“

“ ارے۔“ وہ دونوں ہنسنے لگیں۔

“ میں گاؤں کا رہنے والا ہوں محترمہ۔“ وہ بولا۔ “ ہم تو کبھی کبھار عید شبرات کو اردو بولتے ہیں۔ یا جب کبھی غصہ آ جائے۔ آپ سی اہل زبان کو ملنے کا مجھے موقعہ نہیں ملا کبھی۔“ پھر ازراہ مذاق وہ پنجابی میں کہنے لگا۔

“ ہن مینوں ساہ لے لین دیو۔“

“ لے لو جی ساہ ڈھڈ بھر کے۔“ وہ ٹھیٹھ پنجابی میں بولتے ہوئے ہنسی۔

“ ارے۔“ ایلی اٹھ کر حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ “ پنجابی؟“

“ ٹھیٹھ ------ پنجابی۔“ وہ بولی۔

“ پنجابی، فارسی، اردو، انگریزی ------ یا اللہ۔“ ایلی مسخروں کی طرح منہ بنا کر چلایا۔

“ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔“ دفعتاً وہ غصے سے چلائی۔ جمال صاحب ایسی فضول حرکتیں نہ کیجیئے۔“

“ میری جان۔“ جمال بولا، “ میں کیا کروں میں مجبور ہوں۔“

“ چلو باجی چلیں۔“ اس نے بڑی بہن سے کہا، “ چلو۔“

“ خدا کے لیے۔“ جمال چلایا، “ میں تباہ ہو جاؤں گا ------۔“ اور پھر دھڑام سے فرش پر گر پڑا۔

“ ارے۔“ ایلی اس کی طرف لپکا۔ “ یہ کیا کر رہے ہو؟“

“ دیکھیئے۔“ چھوٹی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بولی، “ جب یہ ہوش میں آ جائیں تو انہیں یہاں سے اٹھا کر لے جائیے گا۔ خدا حافظ۔“

واپس جاتے ہوئے ایلی نے جمال سے کہا، “ یہ کیا کیا تم نے۔ سارا کیا کرایا تباہ کر دیا۔“

جمال قہقہہ مار کر ہنسا۔ “ یار ایلی یہ لڑکیاں یونہی کیا کرتی ہیں۔ تمہیں کیا خبر۔“

“ نہیں یار۔“ ایلی نے چڑ کر کہا۔ “ وہ ایسی باتیں پسند نہیں کرتیں۔“

“ وہ یہی ظاہر کیا کرتی ہیں۔“ جمال نے پہلی مرتبہ ایلی کے خیال سے اتفاق نہ کیا۔ “ تم اس معاملے کو نہیں سمجھتے۔ دو ایک بار احتجاج کریں گی پھر۔“ وہ معنی خیز انداز میں ہنسنے لگا۔

ایلی کو غصہ آ رہا تھا لیکن وہ خاموش رہا۔

“ تمہاری مرضی۔“ وہ بولا۔ “ آخر یہ ساری رچنا تمہاری ہی رچائی ہوئی ہے۔“

“ بس تو۔“ جمال بولا۔ “ اس معاملے میں تم دخل نہ دو۔ بس دیکھتے جاؤ۔“

تین دن گزر گئے۔ نہ تو گوریوں نے خط لکھا اور نہ انہوں نے رات کے وقت انہیں بلایا۔ اس پر جمال گھبرا گیا اور اس نے از سرِ نو برساتی سے انہیں دیوانہ وار اشارے کرنے شروع کر دیئے۔ جمال کو دیکھ کر وہ ہنسے جاتیں اور جب وہ رات کی ملاقات کے لیے اشارہ کرتا تو نفی میں سر ہلا دیتیں۔

تیسرے روز ان کا ایک لمبا چوڑا خط موصول ہوا۔ جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ جب تک آپ یہ یقین نہ دلائیں گے کہ بھونڈی اور قبیح حرکات کے مرتکب نہ ہوں گے ملاقات نہیں ہو گی۔ البتہ آپ کے دوست آ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ ہمیں یقین دلائیں کہ وہ آپ کو ساتھ نہیں لائیں گے۔“

“ ایلی۔“ جمال نیم چھتی میں بیٹھ کر کہنے لگا۔ “ یار تم مجھے چھپا کر ساتھ لے چلو۔ میں صرف ایک بار ان سے ملنا چاہتا ہوں۔“

“ انہیں یقین کیوں نہیں دلا دیتے کہ تم ایسی حرکت نہ کرو گے۔“

“ ایسی حرکت نہ کرنی ہو تو پھر راتوں کی نیند حرام کرنے کا فائدہ۔“ وہ بولا۔

وہ دونوں سارا دن اس موضوع پر بحث کرتے رہے۔ جمال چاہتا تھا کہ ایلی اکیلا آنے کا یقین دلا کر ساتھ اسے لے جائے۔ لیکن ایلی کو یہ بات منظور نہ تھی۔ آخر جمال کر ایلی کی بات ماننا پڑی اور انہوں نے ایک مختصر خط میں انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ کوئی ایسی حرکت نہ ہو گی جو انہیں ناپسند ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ورنہ

اس روز پہلی مرتبہ ایلی کا جی چاہا، وہ اپنی طرف سے ایک رقعہ لکھے۔ نہ جانے کیوں اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ کچھ کہے۔ ایسی بات کہے جو تاروں کو چھیڑ دے۔ ایسی بات جو کچھ بھی نہ کہہ رہی ہو اور سبھی کچھ کہہ دے۔ اس اس بات کا شعور نہین تھا کہ کہ کیا کہنا چاہتا ہے۔

ایلی نے پہلی مرتبہ یہ خواہش محسوس کی کہ وہ جمال کو نہ بتائے بلکہ چپکے سے رقعہ ملفوف کر دے اور جمال کو علم بھی نہ ہو۔ چونکہ شعوری طور پر اس کا کوئی خاص مقصد نہ تھا اس لیے ایلی نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیا کہ یہ تو محض چھیڑ چھاڑ ہے۔ لیکن دراصل اس رنگین چھیڑ چھاڑ کے بہانے وہ اس محفل میں اپنے لیے ایک مقام پیدا کر رہا تھا۔ اس جان بوجھ کر ایسی بات کرتا تھا۔ ایسا انداز اپناتا تھا۔ جس سے جمال اور ایلی کا فرق نمایاں ہو۔ دونوں کا موازنہ ہو جائے۔ ایلی نے کبھی اپنے آپ کو اس سلسلے میں موردِ الزام نہ ٹھہرایا تھا۔ نہ ہی اس نے سوچا تھا کہ وہ چالاکی سے اپنے دوست کو بھونڈی شکل میں پیش کر رہا ہے۔ اس کی ایسی حرکات اور ایسی باتوں کا مقصد کیا تھا۔ یہ اسے خود بھی معلوم نہ تھا۔ شاید وہ گوریوں سے انتقام لے رہا تھا۔ جنہوں نے اس پر ناقابلِ التفات کا لیبل لگایا تھا۔ جو تمسخر سے اس پر ہنستی رہی تھیں یا شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ ان کی رنگین باتیں سن کر ان کی خودداری اور ذہنی عظمت کو محسوس کر کے وہ درپردہ ان سے محبت کرنے لگا تھا۔

جب جمال خط نقل کر کے چوبارے میں چلا گیا تو ایلی اپنا رقعہ لکھنے کے لیے بیٹھ گیا۔ اس نے چار ایک سطور لکھیں۔ لیکن دوبارہ پڑھنے پر اس نے محسوس کیا کہ وہ سطور بے معنی تھیں۔ اس نے وہ وہ ورق پھاڑ دیا اور پھر سے لکھنے لگا۔ لیکن سات آٹھ الفاظ لکھنے کے بعد اس نے پھر محسوس کیا کہ مضمون تاثر سے خالی ہے۔

گھڑی نے ایک بجا دیا اور ابھی وہ اپنا رقعہ مکمل نہ کر پایا تھا۔ یہ پہلا دن تھا جب ایلی کے لیے انہیں خط لکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ حالانکہ وہ انہین سوچے سمجھے بغیر بیسوں خط لکھ چکا تھا۔ ان خطوں پر اسے سوچنا ضرور پڑتا تھا۔ لیکن اس نے کبھی لکھے ہوئے خط کو پھاڑا نہ تھا۔ کبھی محسوس نہ کیا تھا کہ خط کا مضمون تاثر سے خالی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلا دن تھا۔ جب کہ ایلی گوریوں سے لگاؤ محسوس کر رہا تھا۔ اگرچہ اسے اس لگاؤ کی شعوری احساس نہ تھا۔

ڈیڑھ بجے کے قریب ایلی نے محسوس کیا کہ جو کچھ بھی وہ کہنا چاہتا ہے اسے لفظوں میں نہیں لایا جا سکتا اس لیے اس نے صرف ایک سطر لکھ کر ایک چھوٹا سا پرزہ جمال کے خط میں ڈال دیا۔ لکھا تھا۔

“ اب نہ ملیے محترمہ۔ اب ملاقات کی ہمت نہیں رہی۔ جب سے آپ سے متعارف ہوا ہوں، دعائیں مانگتا ہوں کہ ملاقات کا سلسلہ مسدود ہو جائے ورنہ ------ “

ایلی کا ورنہ رنگ لایا۔ اگلے روز دورانِ ملاقات جب ایلی نے کہا۔ “ اللہ کرئے اب کی بار تم اس قدر ناراض ہو جاؤ کہ ملاقاتوں کا امکان ہی ختم ہو جائے۔“

“ کیوں؟“ بڑی نے پوچھا۔ “ آپ کو کیا تکلیف ہے؟“

“ بڑی تکلیف ہے۔“ ایلی نے کہا۔ “ کتنے سادہ لوح ہیں ہم کہ آگ سے کھیلنے کے لیے گھر سے چل کر آتے ہیں۔“

“ کہاں ہے آگ؟“ چھوٹی ہنسی۔

“ اب ملاقات کی ہمت نہیں رہی۔“ ایلی نے کہا۔ “ اور ------ “

عین اس وقت ایلی نے اپنے ہاتھ پر نرم سا دباؤ محسوس کیا۔

ایلی سمجھتا تھا کہ اس دباؤ کا مطلب اسے خاموش کرنا ہے۔ لیکن نہ جانے اسی دباؤ کی وجہ سے اس خاموش یقین دہانی کی وجہ سے جو اس دباؤ میں پنہاں تھی۔

اس کو اپنانے کے جذبہ کی وجہ سے جو اس دباؤ سے ظاہر ہوتا تھا۔ ایلی جوش میں آ گیا۔

“ یہ کس نے مجھے چھیڑا۔ کون چھیڑ رہا ہے مجھے؟“ اس نے دہائی مچا دی۔

“ کون چھیڑ رہا ہے بھئی۔ مت چھیڑو انہیں؟“ چھوٹی ہنس کر بولی۔ ساتھ ہی ایلی نے دباؤ پھر محسوس کیا۔

دفعتاً اس نے بات کا رخ بدلا۔ “ ساز نہ چھیڑو۔“ وہ بولا۔ “ مجھ میں تو پہلے سے ہی نغمے بے قرار ہیں۔ مجھے کوئی نہ چھیڑے۔“

“ اچھا۔“ بڑی بولی۔“ بڑا زعم ہے آپ کو اپنے آپ پر۔“

“ زعم تو نہیں، اگر میں گِر کر بے ہوش ہو گیا تو پھر ہوش میں نہ آؤں گا اور لاش ------ “

اندھیرے میں کسی نے ایلی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

ایلی پر ایک نشہ سا طاری ہو گیا اور وہ گھبرا کر بیٹھ گیا۔

دیر تک کمرے پر خاموشی طاری رہی۔ جمال ادھر دوسرے کونے میں باجی کے پاس چپ چاپ کھڑا تھا۔ ایلی کے قریب چھوٹی کھڑی تھی۔

“ آپا یہ خاموش کیوں ہو گئے؟“ بڑی نے چھوٹی سے پوچھا۔

“ پتہ نہیں۔“ وہ ہنسنے لگی۔

“ ہر مظلوم آدمی پہلے چلاتا ہے پھر خاموش ہو جاتا ہے۔“ ایلی نے کہا۔ ہلکی سی ہنسی کی آواز آئی پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ ایلی کے سر پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔

پھر اس نے محسوس کیا کہ اس کے قریب ہی سلیپروں میں نیم چھپے پاؤں رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جھک کر پاؤں دیکھنے لگا۔ اس نے پاؤں کو چھوا۔

“ یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟“ آپا چلائی۔

“ مجھے خزانہ مل گیا ہے اسے کھود کر نکال رہا ہوں۔“ وہ بولا۔

وہ ہنسی۔ “ یہ زمین پر بیٹھنے کا کیا مطلب ہے؟“ وہ بولی۔ “ آپ تو سراسر جاٹ ہیں۔“

ایلی نے اس کی بات کا جواب نہ دیا بلکہ پاؤں سلیپر سے نکال کر ہاتھوں میں تھام لیا۔

“ میرا پیر تو چھوڑیئے۔“ آپا چلائی۔

“ اوہ ------ میں سمجھا میرا پاؤں ہے۔“ وہ بولا۔

“ آپ کی زبان قابل قطع ہے۔“ وہ ہنسنے لگی۔

“ ٹھیک ہے رنگ روپ اللہ نے نہیں دیا۔ رہی سہی ایک زبان ہے وہ آپ کاٹ لیجیئے۔“

وہ ہنسی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔

“ آج جمال صاحب نے اپنی بات نہیں دہرائی۔“ آپا نے کہا۔

“ دہرا رہے ہیں۔“ ایلی نے کہا۔

“ کیا مطلب؟ وہ بولی۔

“ دہرا رہے ہیں مگر منہ زبانی نہیں۔ آج انہیں اپنا مقام مل گیا ہے۔“

آپا قہقہہ مار کر ہنسی۔ “ ابھی تو انڈر کانسیڈریشن ہوں۔“

اس روز کمرے کی خاموشی بے حد متکلم تھی۔ اس خاموشی میں نہ جانے کیا کیا ہو رہا تھا۔ کوئی ہاتھ ایلی کے بالوں کو تھپک رہا تھا۔ منہ کو سہلا رہا تھا۔ کمرے کے دوسرے سرے پر عجیب سی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔ عجیب سی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے کسی کے ہاتھ کا جھنجھنا ہو اور اس اضطراب سے نجات پانے کے لیے جی چاہتا تھا کہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائے اور جاتے ہوئے کہے، “ محترمہ ظلم کی حد ہوتی ہے۔“

اس روز جب وہ ناؤ گھر لوٹ رہا تھا تو پہلی مرتبہ اس کے دل میں کچھ ہو رہا تھا۔ اس رات پہلی مرتبہ وہ بے تعلق فاتح کی حیثیت سے نہیں لوٹ رہا تھا۔ بلکہ جیسے اس کا کچھ حصہ وہیں اس زینے میں رہ گیا ہو۔ دل میں کچھ کچھ ہو رہا تھا۔ دل کے تاروں کو کوئی چٹا سفید گدگدا ہاتھ چھیڑ رہا تھا اور جسم کے تار بج رہے تھے۔ اس روز اسے یہ بھی یاد نہ رہا تھا کہ اسے جمال کے برتاؤ کی کسی تفصیل پر بحث کرنا ہے۔ جیسے واپسی پر وہ روز کیا کرتے تھے۔ بلکہ اس روز وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اکیلا ہو۔ جب جمال نے بات چھیڑی تو ایلی تو وہ یہ بھی بھول چکا تھا کہ اس کھیل کا ہیرو جمال ہے اور اس کی اپنی حیثیت کوئی نہیں۔

“ یار میں تو بھولا ہی رہا۔“ جمال نے ایلی کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا۔

“ ہوں ------ “ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

“ بڑی والی تو بہت ہی اچھی ہے۔ کیا کہتے ہیں اسے ہاں باجی؟ اور وہ آپا وہ تو ظالم کچھ کرنے ہی نہیں دیتی تھی اور میں بھی ایسا بیوقوف ہوں کہ میں نے کبھی باجی کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی۔“

“ ہوں۔“ ایلی اپنے خیال میں مگن تھا۔

“ وہ اتنی تیز نہیں اور وہ چھوٹی آپا تو پولیس کی افسر معلوم ہوتی ہے۔“

“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔

“ تم نے ٹھیک کہا تھا۔“ جمال نے ہنستے ہوئے کہا۔

“ کیا؟“

“ کہا تھا نا میرے بارے میں کہ آج اسے اپنا مقام مل گیا ہے۔ یار تم بات دیکھے بغیر بھانپ لیتے ہو۔“

“ میں نے تو ویسے ہی بکواس کی تھی۔“

“ لیکن یار۔“ جمال بولا۔ “ خدا کے لیے وہاں ایسی بات نہ کیا کرو۔“

“ کیوں؟“

“ تمہاری بات سن کر وہ پیچھے ہٹ گئی اور پھر دیر تک ------ “ وہ ہنسنے لگا۔

“ تو مبارک ہو۔“ ایلی نے کہا۔ “ تمہاری بات بن گئی ناں؟“

“ بات تو نہیں بنی۔“ وہ بولا۔ “ یار یہ دونوں عجیب لڑکیاں ہیں۔ کسی کو قریب آنے نہیں دیتیں۔ میں نے ایسی لڑکیاں آج تک نہیں دیکھیں۔“

“ کیسی دیکھی ہیں؟“ ایلی نے بے توجہی سے پوچھا۔

جمال نے قہقہہ مار کر ایک بھر پور ہاتھ ایلی کے شانے پر مارا۔ “ یار لڑکیاں تو چمٹ جایا کرتی ہیں، جھینپتی بھی ہیں، لجاتی بھی ہیں، نہ نہ بھی کرتی ہیں، لیکن ساتھ ہی چمٹی بھی جاتی ہیں۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔

“ اچھا۔“ ایلی بولا۔ “ ہمیں بھی پتہ بتاؤ کسی ایسی لڑکی کا۔“

“ مذاق نہ کرو یار۔“ جمال بولا۔ “ یہ باجی بھی خاموش لڑکی ہے اور نہ نہ کرتے ہوئے بھی بہت کچھ برداشت کر لیتی ہے۔“

“ تو یار۔“ ایلی نے نجانے کس خیال سے کہا۔ “ کل ہم اپنی جگہ بدل نہ لیں۔“

“ نہ نہ نہ۔“ وہ شور مچانے لگا۔ “ آپا تو مجھے ڈانٹے گی۔“

“ مجھے تو نہیں ڈانٹتی۔“ ایلی نے کہا۔

“ تمہاری بات اور ہے۔“ وہ بولا۔

“ وہ کیسے؟“

جمال ہنسنے لگا۔ “ برا نہ ماننا۔ تمہیں دونوں ہی پسند نہیں کرتیں اس لیے۔

“ چلو یہ بھی اچھا ہے۔“ ایلی بولا۔ “ جان بچی لاکھوں پائے۔“

یہ باتیں ایلی شاید اس لیے کر رہا تھا کہ وہ بات کو راز بنا کر محفوظ کر لینا چاہتا تھا۔ اس کا اسے راز بنانا بذات خود اس بات کا شاہد تھا کہ وہ آپا سے تعلق محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جمال کے روبرو کوئی ایسی بات کرئے جس سے آپا پر حرف آئے۔

اس روز ایلی سارا دن مضطرب رہا۔ وہ پہلا دن تھا جب اس نے اس کھیل کو اہمیت دی تھی۔ ان کیفیات کے متعلق سوچ رہا تھا۔ جو اس نے سفید منزل کے زینے میں محسوس کی تھیں۔ اس روز وہ ایک لفظ بھی نہ پڑھ سکا۔

شام کو جب وہ دونوں نیم چھتی میں بیٹھے تھے تو نیچے سے بھا آیا۔ “ یہ تمہارا تار ہے۔“ بھا نے تار جمال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ “ تمہاری بیوی بیمار ہے تمہیں بلایا ہے۔ لیکن یار۔“ بھا نے حیرت سے کہا۔ “ تم شادی شدہ ہو جمال یہ مجھے آج ہی معلوم ہوا؟“

“ کئی لوگوں کو اب تک معلوم نہیں۔“ ایلی نے بامعنی انداز سے کہا۔

جمال تار پڑھ کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے چہرے کی حالت بدل گئی۔ “ یار مجھے جانا ہو گا۔ ابھی۔ بھا کوئی گاڑی جاتی ہے اس وقت؟“

“ لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں، بیماری عام سی معلوم ہوتی ہے۔“

“ نہیں یار۔“ جمال بولا۔ “ مجھے اپنی بیوی سے بڑی محبت ہے۔“ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔

گاڑی میں بیٹھ کر پہلی مرتبہ جمال کو خیال آیا۔ کہنے لگا۔ “ یار ایلی تم تو شاید اب ان سے ملنے نہ جاؤ گے۔ لیکن ایک مرتبہ تو جانا ہی پڑے گا۔ ضرور جانا کہیں ان سے یہ نہ کہہ دینا یار کہ بیوی بیمار ہے۔ بلکہ کہنا والدہ کی بیماری کا تار آیا تھا یار انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ میں شادی شدہ ہوں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

ہولڈ اپ

رات کو جب گوریوں نے دیکھا کہ ایلی اکیلا ہی آیا ہے تو باجی بولی۔ “ وہ کہاں ہیں؟“

“ اسے گاؤں جانا پڑا۔“ ایلی نے انہیں تار کے متعلق بتایا۔ پھر وہ باتوں میں مصروف ہو گئے۔ دونوں اس کے دائیں بائیں آ کھڑی ہوئیں۔

“ یہ بات تو غلط ہے۔“ اس نے شور مچا دیا۔ “ آپ دو اور میں اکیلا۔“ دونوں نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھدیئے۔

“ ہاتھ لگانا فاؤل ہے۔“ وہ چیخنے لگا۔ پھر اسے دفعتاً “سوجی“ دیکھیئے جی۔“ وہ بولا۔ “ شاید آپ نے میرے متعلق کوئی خوش فہمی پال رکھی ہو۔ شاید آپ سمجھے بیٹھی ہوں کہ ملاقات سے میرا کوئی خاص مقصد ہے۔ مہربانی یہ خیال دل سے نکال دیں۔“

“ انتقام لینے میں تو آپ کا جواب نہیں۔“ آپا ہنسنے لگی۔

“ نہیں نہیں انتقام کی بات نہیں۔ ابھی کل کی مصیبت سر سے نہیں ٹلی۔“

“ کل کی مصیبت کیا؟“ انہوں نے پوچھا۔

“ کل رات کسی کی لاپرواہی سے ایک خوشبودار رنگین ہاتھ میرے چہرے سے چھو گیا تھا یا شاید کسی نے شرارت کی ہو۔ ایمان سے ابھی تک جھنجھنا بنا ہوا ہوں۔ اصل میں میرا دل بہت کمزور ہے اور محترمہ شاید آپ کو معلوم نہیں میں اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ زمین پر بیٹھ گیا۔

“ یہ کیا کرتے ہیں آپ؟“ وہ چلائیں۔ “ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اس طرح۔“

“ آپ نے بندوقیں جو اٹھا رکھی ہیں۔ کھڑا رہوں تو زد میں رہتا ہوں۔“

“ بندوقیں۔ کون سی بندوقیں؟“ بڑی نے پوچھا۔

“ جو آپ نے بغلوں میں دبا رکھی ------- “ ایلی رک گیا۔

“ چپ چپ۔“ چھوٹی چلائی۔ “ آپ بھی غضب کرتے ہیں۔“

“ لیکن ------ “ ایلی نے کچھ کہنا چاہا۔

اندھیرے میں پھر وہی ہاتھ اس کے منہ پر آ ٹکا۔

“ جھن جھن جھن جھن۔“ وہ شور مچانے لگا۔

“ کیا ہوا۔“ باجی نے پوچھا۔ آپا نے چپکے سے ہاتھ اٹھا لیا۔

“ جھنجھنا بن گیا ہوں۔ مجھے بچائیے۔ خدا کے لیے مجھے کوئی بچائے۔“

دیر تک وہ ہنستی رہیں۔ پھر کسی نے چپکے سے اسے چٹکی بھری۔

“ تمہارے گھر میں آیا ہوں جو جی میں آئے کر لیجئے اور پھر آج ہی کا تو دن ہے۔“

“ کیوں؟“ آپا بولی۔

“ میں تو صرف یہ پیغام دینے آیا تھا کہ جمال نہیں آ سکے گا کچھ روز کے لیے۔“

“ لیکن آپ تو آئیں گے نا؟“ چھوٹی نے کہا۔

“ آنے کا مطلب؟“ ایلی نے کہا۔

“ تو کیا آنے کا کوئی مطلب نہیں؟“ آپا بولی۔

آپا نے چٹکی بھری اور بولی۔ “ آپ ہی بتائیے۔“

“ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میری حیثیت کھانے میں نمک کی سی ہے۔ کھانا نہ ہو تو خالی نمک پھانکنا ہے۔“

وہ خاموش ہو گئیں۔ “ اب آپ سے کون بحث کرئے لیکن آنا پڑے گا۔ روز آنا پڑے گا۔ سمجھے آپ ورنہ۔“

“ ورنہ کیا؟“ ایلی نے پوچھا۔

“ ورنہ کیا بتایا نہیں جاتا عمل میں لایا جاتا ہے۔“ آپا ہنسی۔

اس وقت اوپر سے ایسی آواز آئی جیسے کسی نے بڑا سا برتن دیوار سے دے مارا ہو۔

“ یہ کیا تھا باجی؟“ آپا نے پوچھا۔

“ معلوم نہیں۔“ باجی نے کہا۔ “ میں دیکھتی ہوں ابھی آئی۔ “ کہہ کر وہ دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

ایلی باہر کھڑکی سے جھانک رہا تھا کہ باہر تو کوئی نہیں۔

دفعتاً آپا نے پیچھے سے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

“ ارے۔“ ایلی چلایا۔

“ خاموش کھڑے رہیے۔“ آپا ہنس کر بولی۔

“ لیکن یہ کیا ہے“ ایلی نے بھولے بن کر کہا۔

“ کچھ نہیں صرف آپ کو آنے کا مطلب سمجھا رہی ہوں۔“

“ لیکن میں تو کچھ بھی نہیں سمجھ رہا۔“ ایلی نے کہا۔

“ یہ تو اور بھی اچھا ہے۔“ وہ بولی۔

“ مجھے تو ایسے معلوم ہو رہا ہے جیسے اپنا ہولڈ اپ ہو گیا ہو۔ لیکن میری کمر میں دو پستول کی نالیاں رکھنے کا مطلب؟“

“ خاموش۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ ایلی کے منہ پر رکھ دیئے۔

دیر تک وہ دونوں خاموش کھڑے رہے۔

پھر سیڑھیوں سے باجی کی آواز سنائی دی۔ “ آپا جلدی آؤ۔ جلدی۔“

اس نے ایلی کو زور سے بھینچا۔

“ کل ضرور آئیے گا۔“ وہ بولی۔ “ ضرور۔“

“ اور اگر نہ آؤں تو؟“ ایلی نے کہا۔

“ کیسے نہ آئیں گے آپ۔“ وہ بولی۔ “ نہ آئے تو میں خود ناؤ گھر آؤں گی۔“

“ اتنی جرات۔“ ایلی نے کہا۔

“ اس سے بھی زیادہ۔“ وہ بولی۔ “ آپ نے سمجھا کیا ہے؟“

“ میں تو صرف یہ سمجھتا ہوں کہ ایک خوبصورت شوخ رنگین اور دست دراز لڑکی ------ “

“ دست دراز۔ اچھا تو یہ لیجیئے۔“ اس نے پیار سے ایلی کے منہ پر چپت ماری۔ “ضرور آئیے گا۔“ اور پھر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ ایلی نے لپک کر اس کا دوپٹہ کھینچ لیا۔

“ یہ کیا بدتمیزی ہے؟“ وہ بولی۔

“ بدتمیزی نہیں ضرورت ہے میں اس کے رومال بنواؤں گا۔“

“ اچھا۔“ وہ ہنسی۔ “ تو بنوا لیجیئے۔“ اور سیڑھیوں میں گم ہو گئی۔

سارا دن ایلی سوچتا رہا اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ رومان کا کھیل جو تفریحاً شروع ہوا تھا۔ یکدم کیسی کروٹ لے گیا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کون تھیں وہ تو ان کے ناموں سے بھی واقف نہ تھا۔ اس نے کئی مرتبہ ان سے پوچھا تھا۔

“ اپنا نام تو بتا دیجیئے۔“ اور جواب میں انہوں نے کہا تھا۔

“ نام سے کیا فرق پڑتا ہے، جی کچھ سمجھ لو۔“

“ صرف یہ سمجھا ہوں کہ تم میں ایک ہاں جی ہے اور ایک نہ جی۔ اب یہ تم خود فیصلہ کر لو کہ ہاں جی کون ہے اور نہ جی کون۔“

سارا دن وہ سوچتا رہا تھا کہ اس ڈرامے میں جو سفید منزل کے زینے میں کھیلا جا رہا تھا اس کا کردار کیا تھا۔ وہ ان گوریوں کے کردار کا معترف تھا ان کی جرات ان کی علمیت اور رنگینی ان کے ادبی ذوق پر متعجب تھا لیکن ------ ؟

ایلی اس لیکن کا جواب نہ دے سکتا تھا۔

نیم چھتی میں لیٹے ہوئے اس طرف کھڑکی میں سے چھوٹی جھانکتی۔ “ لیجیئے میں آ گئی ناؤ گھر میں آ گئی۔ آپ سے ملنے کے لیے نہیں ویسے ہی۔“ اس کے چہرے سے عجیب سی مسرت تازگی اور زندگی کا اظہار ہوتا تھا۔ “ اٹھیئے اٹھیئے آپ اداس کیوں ہیں؟ یوں لیٹے ہوئے ہیں جیسے سبھی کچھ ہار کر آئے ہوں۔ آپ نے کچھ بھی نہیں ہارا۔ جنہوں نے ہارا ہے ان سے پوچھیئے۔“

اس طرف زینے میں شہزاد آ کھڑی ہوئی۔ اس کا چہرہ مغموم تھا۔ میں جانتی تھی۔ یہی انجام ہو گا اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ ہماری کہانی ہی ایسی تھی۔ جس کا انجام نہیں ہو سکتا چلو اچھا ہوا۔ تمہیں مناسب ساتھ مل گیا۔“

ایلی گھبرا کر اٹھ بیٹھتا اور پھر سوچ میں پڑ جاتا۔

گھڑی نے نو بجائے تو وہ چونکا اور پھر سوچے سمجھے بغیر اس نے پہلی بار محبت بھرا خط لکھا اور اسے پڑھتے وقت پہلی مرتبہ شدت سے محسوس کیا کہ اس کے دل میں کس قدر جذبات ابل رہے تھے۔ خط لکھ کر اس نے اس کا گولہ سا بنا کر اپنی جیب میں ڈال لیا اور پھر لیٹ گیا۔

اس رات جب وہ سفید منزل میں داخل ہوا تو اکیلی چھوٹی موجود تھی۔

“ تم اکیلی ہو کیا“ ایلی نے پوچھا۔

“ ہاں۔“ وہ بولی۔ “ باجی کی طبیعت اچھی نہیں۔“

نہ جانے کیوں یہ سن کر ایلی گھبرا گیا۔

“کیوں آپ ڈرتے ہیں۔“ وہ بولی۔

“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ تم نہیں جانتی کہ میں تم سے کتنا ڈرتا ہوں۔ میں تمہارے حسن سے نہیں ڈرتا، تمہارے جسم سے نہیں ڈرتا۔“ ایلی کی آواز بھرا گئی۔ “ میں تمہاری نگاہِ کرم سے ڈرتا ہوں۔ میں تمہاری رنگینی سے ڈرتا ہوں، میں تمہاری جرات سے ڈرتا ہوں۔“

“ آپ عجیب باتیں کرتے ہیں۔“ وہ ہنسنے لگی۔

“ ہاں۔“ وہ بولا۔ “ سچی باتیں عجیب معلوم ہوتی ہیں۔ ہم سچ سے اس قدر بیگانہ ہو چکے ہیں۔“

“ چھوڑیئے ان فلسفوں کو۔“ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔ “ کوئی ہنسی خوشی کی بات کیجیئے۔“

“ آج مجھے سچی باتیں کہہ لینے دو پھر شاید کبھی موقعہ نہ ملے۔“ ایلی کے انداز میں اس قدر تاثر تھا کہ وہ خاموش بت بنے کھڑی رہی۔

“ تم سمجھتی ہو کہ میں مسخرا ہوں۔“ وہ بولا۔ “ مسخرا پن تو خفت مٹانے کے لیے تھا۔ میرے بال سنہرے نہیں نا اس لیے۔ میرا رنگ ------ “

“ خاموش ہو جائیے۔“ وہ چیخ کر بولی۔ “ خاموش ورنہ میں منہ پر ہاتھ رکھ دوں گی۔“

“ منہ پر ہاتھ رکھنے سے دل کی بات تو نہیں کٹتی۔“ ایلی نے کہا۔

“ ہم نہیں سنتے آپ کے دل کی بات۔“ وہ بولی۔

ایلی نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے شانوں پر رکھ دیئے۔

“ اچھا نہ سنو۔“

دیر تک وہ دونوں خاموش کھڑے رہے۔

“ کوئی بات کیجیئے نا۔“ وہ چلائی۔

“ کر تو رہا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔

“ کہاں آپ تو خاموش کھڑے ہیں۔“ وہ بولی۔

“ یہ خاموشی بھی تو اک اظہار ہے۔“ وہ بولا۔ میرا منہ بند کر دو گی تو میرے ہاتھ بولیں گے۔“

“ یہ تو ساکت پڑے ہیں۔“ اس نے ایلی کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔

“ یہ اپنے ہاتھ اٹھا لو۔“ وہ بولا۔

“ کیوں؟“

“ یہ مجھ سے باتیں کرتے ہیں اور پھر سارا دن گھر بیٹھے ہوئے مجھے ان کی باتیں یاد آتی ہیں۔“

“ آج آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔“ وہ چلائی۔ اس کی آواز میں بلا کا اضطراب تھا۔ “ تم کہو گی تم پر بھی ایک ہی دھن سوار ہے۔“

“ نہیں۔ نہیں۔“ وہ چلائی۔

“ جیسے سنہرے بالوں کے بارے میں کہتی تھی۔“ ایلی نے کہا۔ “ مجھ کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کرو نا۔“

“ نہیں تو۔“ وہ تڑپ کر بولی۔ “ آپ تو بڑے اچھے ہیں۔ جمال صاحب کی بات اور ہے۔“

“ وہ تو مجھے معلوم ہے۔“ ایلی نے طنز بھرا تیر چلایا۔

“ ہائے اللہ کیا اب آپ مجھے کبھی معاف نہ کریں گے۔ جمال تو یہ سمجھتے ہیں۔ جیسے ہم دو لڈو ہوں۔“ وہ ہنسنے لگی۔ “ اور وہ سوچتے ہیں کہ کس طرح منہ میں ڈال لوں۔ سگرٹ پئیں گے آپ۔“ غالباً وہ بات بدلنے کے لیے کہنے لگی۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

سلگا سگریٹ

“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ پیوں گا بشرطیکہ تم سلگا کر دو۔“

“ یہ کیا ضد ہے۔ آپ ہر مرتبہ یہی کہتے ہیں۔“

“ ضد تو نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ درخواست ہے۔“

“ یہ کبھی ہو سکتا ہے کیا؟

“ کیا نہیں ہو سکتا۔“ وہ بولا۔

“ بہت زعم ہے آپ کو۔“

“ جی ہے۔“

“ تو پی کر دکھایئے وہ سگریٹ جو میں نے سلگایا ہو۔“ وہ ہنسنے لگی۔

“ مجھ سے ضد نہ کیجیئے۔ میں بہت ضدی ہوں۔“ ایلی نے کہا۔

“دیکھیں۔“ وہ بولی۔

“ اچھا۔“ وہ بیٹھ گیا۔ “ اب یہاں سے اس وقت اٹھوں گا جب آپ کا سلگایا ہوا سگرٹ میرے ہاتھ میں ہو گا۔“

“ چلئے یونہی سہی۔“ وہ جوش میں آ گئی۔ “ تو لیجیئے میں چلی خدا حافظ۔“ یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ “ اب بھی مان جاؤ ضد چھوڑ دو۔“ وہ سیڑھیوں سے بولی۔

“ سگرٹ سلگا دیجیئے۔“ ایلی نے کہا۔

کچھ دیر تک اس کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی رہی پھر خاموشی چھا گئی۔ ایلی چپ چاپ بیٹھا رہا۔

پہلے تو اسے امید تھی کہ وہ ابھی لوٹ آئے گی۔ آخر وہ ان کے مکان میں بیٹھا تھا اور اس کا تحفظ ان کی ذمہ داری تھی۔ اس لیے وہ اطمینان سے بیٹھا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے دل میں شکوک پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اگر وہ نہ آئی تو ------ اگر کوئی پاٹ استعمال کرنے کے لیے اس کمرے میں آ گیا تو ------۔

ایلی بنیادی طور پر بے حد ڈرپوک واقع ہوا تھا۔ لیکن کبھی اس کی زندگی میں ایسے موقعے بھی آئے تھے۔ جب وہ نتائج سے لاپرواہ ہو کر اسی حد تک نڈر ہو جاتا تھا۔ جس حد تک بنیادی طور پر وہ ڈرپوک تھا۔

کچھ دیر تک وہ بے حد متذبذب رہا۔ پھر اس نے اپنا دل کڑا کر لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس روز وہ اپنی بات منوانے میں ناکام رہا تو اس کے دل میں اس کے لیے تحقیر کا جذبہ پیدا ہو جائے گا اور اس رنگین لڑکی کے دل میں اپنے لیے تحقیر کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھا۔ وہ اس بات سے خائف تھا کہ وہ کیا کہے گی۔ آہستہ آہستہ یہ ڈر حاوی ہوتا گیا۔ فوراً کسی کے آ جانے کا خوف مدھم پڑتا گیا۔ حتٰی کہ وہ وہاں یوں بیٹھا تھا جیسے سفید منزل نہیں بلکہ نیم چھتی ہو۔

ایک گھنٹہ گزر گیا دو گھنٹے گزر گئے دور کسی مسجد سے پہلی اذان کی آواز سن کر وہ ٹھٹھکا۔ ارے وہ سوچنے لگا صبح ہو گئی۔ پھر چاروں طرف سے مؤذنوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ گلی میں دروازے کھلنے لگے۔ نمازیوں کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔

دفعتاً قریب ہی پاؤں کی چاپ سنائی دی وہ ٹھٹھکا۔ پھر کسی نے دیا سلائی جلائی۔ باجی کو قریب کھڑے دیکھ کر وہ مطمئن ہو گیا۔

“ یہ کیا حماقت ہے؟“ باجی نے کہا۔ “ آپ جاتے کیوں نہیں؟ اگر کوئی آ گیا تو۔“ اس کا چہرہ خوف زدہ ہو رہا تھا۔

“ ابھی چلا جاتا ہوں۔“ وہ بولا۔

“ تو پھر جائیں نا۔ آپ کو ہماری عزت کا خیال نہیں کیا؟“ وہ بولی۔

“ سلگا کر سگرٹ پلا دیجیئے تو ابھی چلا جاؤں گا۔“ ایلی نے کہا۔

“ یہ کیا فضول سی ضد ہے؟“ وہ غصے میں بولی۔

“ ہے کیا کیا جائے؟“

“ لیجیئے میں سلگائے دیتی ہوں سگرٹ۔“ باجی نے کہا۔

“ اونہوں۔“ ایلی نے نفی میں سر ہلا دیا۔

“ کیوں میری سلگی ہوئی پسند نہیں؟“ اس نے عجیب انداز سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

“ تم نے ہمارا اپمان نہیں کیا۔“ وہ یوں بولا جیسے جتی ستی یوگی ہو۔

“ ہئے میں کیا کروں؟“ وہ چلائی۔ “ اوپر سادی ضد کیئے بیٹھی ہے۔“

“ سادی۔“ ایلی نے دہرایا۔

“ ہاں گھر والے اسے سادی کہتے ہیں۔“ باجی نے کہا۔

“ اور آپ کو مرصع کہتے ہوں گے؟“

“ نہیں تو۔“ وہ ہنسی۔ “ مجھے تو باجی ہی کہتے ہیں۔ لیکن اب آپ جائیں گے بھی یا نہیں۔ یہ کیا بچوں کی سی ضد ہے۔“

“ بچے کبھی نہیں سمجھا کرتے۔“ ایلی نے کہا۔

“ تو پٹتے بھی ہیں۔“ وہ بولی۔

“ پیٹنے کے لیے کوئی اور آئے گا۔“ وہ بولی۔ “ ہئے کوئی آ گیا تو سمجھے گا چور ہے۔“

“ تو کہہ دینا ڈاکو ہے چور نہیں۔“ ایلی بولا۔

“ خدا کے لیے چلے جائیں۔“ وہ منتیں کرنے لگی۔

“ سلگا ہوا سگریٹ، سلگا ہوا سگریٹ۔“ ایلی نے رٹ لگا دی۔

“ مان جائیے۔“ باجی نے منت کی۔

“ سلگا ہوا سگریٹ۔“ ایلی گویا وظیفے میں مشغول ہو گیا۔

تنگ آ کر وہ چلی گئی اور ایلی تنہا رہ گیا۔

اتفاقاً اس کی نگاہ کھڑکی کی طرف پڑی۔ باہر صبح کی سپیدی پھیلی ہوئی تھی۔

اب اس کا ڈر قطعی مفقود ہو گیا تھا۔ چونکہ اب عزت کا معاملہ تھا اور وہ بھی ایک گوری کے دل میں۔ اس وقت وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ہر خطرے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ سفید منزل میں داخل ہو کر چلا چلا کر کہہ سکتا ہے میں چور ہوں مجھے پکڑ لو۔ میں چور ہوں۔

قریب ہی کسی گھڑی نے چھ بجائے۔ دفعتاً اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں محبت نامہ تھا جو وہ لکھ کر گھر سے لایا تھا۔ جب وہ اس کی تلاشی لیں گے تو خط برآمد ہو جائے گا اور راز کھل جائے گا۔ اس میں گوریوں کی عزت کا سوال ہے۔ نہیں نہیں میں ان کی عزت پر آنچ نہ آنے دوں گا۔ اس نے خط کا وہ گولہ جیب سے نکالا اور قریب پڑے کاٹھ کباڑ میں اسے چھپا دیا اور پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔

گھڑی نے سات بجائے۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ کھڑکی سے سورج کی شعائیں اندر داخل ہو رہی تھیں۔ اس نے کھڑکی بند کر دی اور درز سے باہر دیکھنے لگا۔ قبرستان سنسان پڑا تھا۔ گلی میں چند بچے کھیل رہے تھے۔ پرلے بازار میں اکا دکا لوگ چل پھر رہے تھے۔ دیر تک وہ وہاں کھڑا دیکھتا رہا۔ پاؤں کی آہٹ سن کر وہ مڑا۔ زینے میں کوئی آ رہا تھا۔ وہ جھٹ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔

اس کے روبرو سادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ “ آپ بڑے ہٹ دھرم ہیں۔“ وہ بولی۔

“ جو کچھ بھی ہوں۔ حاضر ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔

“ اب آپ جائیں گے کس طرح؟“ سادی نے پوچھا۔

“ جانے کا سامان ہو جائے گوری تو بھکاری چلے جائیں گے۔“ ایلی نے کہا۔

“ اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ سادی بولی۔

“ سمجھے گا بھکاری ہے بھکشا لے کر جا رہا ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ شکل سے تو بھکاری نہیں دکھتے۔“ وہ ہنسی۔

“ ہاں شکل سے تو چور دکھتا ہوں۔ لیکن شکل کون دیکھتا ہے۔“

“ آپ بڑے نڈر نکلے۔“ سادی کی نگاہ میں تحسین جھلک رہی تھی۔

“ اونہوں۔“ ایلی نے کہا۔ “ مقابلہ ایسے مہادیو سے تھا کہ اسے دیکھ کر اپنے میں بھی کچھ کچھ جرات پیدا ہو گئی۔“

“ آپ کی باتوں نے مجھے ------۔“ وہ رک گئی۔ اس کی آواز آبدیدہ ہو گئی تھی۔

“ آپ کے انداز نے مجھے ------“ وہ بھی رک گیا۔

“ کیا؟“ وہ بولی، “ پوری بات کیجیئے نا۔“

“ مجھے کیا سے کیا کر دیا۔“ اس نے کہا۔

“ سگریٹ کہاں ہیں؟“ وہ بولی۔

“ مجھے کیا معلوم۔“

“ میں سارا پیکٹ سلگا کر دوں گی۔“ وہ سگریٹ سلگانے لگی۔

“ دان کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔“ ایلی نے کہا۔

“ چپ کرو جی۔“ وہ غصے میں بولی۔ اس کا غصہ پیار سے بھیگا ہوا تھا۔

“ سادی۔“ وہ کچھ دیر کے بعد کہنے لگا۔

وہ چونکی ------ “ سادی، اپ کو کیسے معلوم ہوا؟“

“ تمہاری اس دیا کے عوض میں ایک تحفہ پیش کروں۔“

“ دیا۔“ وہ ہنسی۔ “ ہم تو ہر گئے۔“

“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ کچھ لوگ ہار کر جیت جاتے ہیں اور کچھ۔“ اس نے آہ بھری۔ “ کچھ جیت کر بھی ہار جاتے ہیں۔ تمہارا ہاتھ کہاں ہے؟ دکھاؤ۔“

سادی نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔ ایلی نے وہی کاغذ کا گولا اٹھا کر اس کے ہاتھ میں رکھا اور پھر مٹھی بند کر دی۔ “ برگ سبز است ------ “ وہ بولا۔

“ یہ لیجیئے اپنے سگریٹ۔“ وہ بولی۔ “ اب آپ جائیں۔ لیکن آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پھر نہ ایسا کیجیئے گا کبھی وعدہ کرو۔“

“ کیوں؟“ وہ بولا۔

“ میں بہت ضدی ہوں۔“ سادی نے کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ “ مجھے ڈر ہے کہ ------ “ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ “ وعدہ کیجیئے۔“

“ وعدہ کرتا ہوں۔“ وہ بولا۔

“ تو خدا حافظ۔“

“نہیں۔“ ایلی نے کہا، “ تم جاؤ پھر میں باہر نکلوں گا۔“

“ نہیں۔“ سادی نے کہا۔ “ اگر کچھ ہو گیا تو میں قریب تو ہوں گی۔“

“ نہیں۔“ ایلی نے کہا۔ “ تم اوپر جنگلے میں جا کر کھڑی ہو جاؤ۔“

“ نہیں۔“ وہ چلائی۔ “ پھر وہی ضد۔“

“ اچھا۔“ وہ اٹھ بیٹھا۔ وہ اس کے قریب تر ہو گئی۔

ایلی چپ چاپ باہر نکلا۔ کچھ دیر دروازے میں رکا۔ وہ وہاں سے یوں اطمینان سے نکلا جیسے اس کا اپنا گھر ہو۔ پھر خراماں خراماں گلی میں چل پڑا۔ دروازے کی درز میں سے ایک پرنم آنکھ اسے دیکھ رہی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

رنگی سادی

اس سلگے ہوئے سگریٹ نے گویا آگ لگا دی اور اس گولے خط نے اس پر بارود چھڑک دیا۔ اگلے روز ایلی کے سامنے سادی کا خط پڑا تھا۔ ایسا خط پہلے انہیں کبھی موصول نہ ہوا تھا۔ وہ خط سولہ صفحات پر مشتمل تھا۔ جس میں سادی نے سبھی کچھ شامل کر دیا تھا۔ کونسی بات تھی جو رہ گئی تھی۔ کبھی وہ اسے چھیڑتی، مذاق کرتی، کبھی بہلاتی پھسلاتی، کبھی جرات دلاتی، کبھی تعریف کرتی کبھی ہنستی ہنساتی کبھی روتی رلاتی۔ وہ خط ایک کائنات تھی جسے پڑھ کر ایلی ساکت و جامد رہ گیا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے ایک طوفانی رو بہہ رہی تھی۔ لیکن جھولا جھلا رہی تھیں، تھپیڑے مارتی تھیں بڑھتی تھیں۔ سمٹتی تھیں ساکن ہو جاتی تھیں۔

خط پڑھ کر وہ شرابور ہو گیا۔ تحریر کس قدر برجستہ اور بے تکان تھی۔ اشعار کس قدر موزوں اور بلند پایہ تھے۔ اشارے کسی قدر رنگین اور لطیف تھے۔ بات سے بات نکلتی تھی اور ہر بات کی اوٹ میں وہ ان کہی بات چھپی تھی جو ان کے نئے تعلق کی مظہر تھی۔ بات بات میں وہ ان کہی بات عیاں تھی واضح تھی اجاگر تھی۔ اس حد تک واضح ہو جاتی تھی کہ کہی بات پس پشت پڑ جاتی۔

سارا دن وہ اس خط کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتا رہتا۔ رات کو وہ اس شوخ مگر خوددار شخصیت میں ڈوبا رہتا اور اگلے روز ایک نیا خط اس کے سامنے پڑا ہوتا۔

رات کو جب باجی اور سادی دونوں موجود ہوتیں تو وہ باجی کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو جاتا اور باجی سے مخاطب ہو کر کنایہ کی مدد سے سادی سے باتیں کرتا۔ وہ مزاح کے پردے میں آنسو بہاتا۔ حاضر جوابی کی اوٹ میں اپنے گنگے پن کا دکھڑا روتا اور سادی اس کی ہر بات کو پا جاتی اور اس کے قریب ہوتے ہوئے تڑپتی۔ ماہئی بے آب کی طرح تڑپتی اور پھر چیخ کر کہتی آپ باتیں نہ کریں نہ کریں۔ لیکن اس کے اضطراب کا باجی پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ محسوس کرتا کہ اس کے ہاتھوں تلے باجی پگھل کر چھلک رہی ہے۔ اس کی اس چھلکن کی وجہ سے ایلی پر چھینٹے پڑتے جو اس کے لیے مشکلات پیدا کر دیتے، آسانیاں نہیں۔ باجی چھلک چھلک کر ہار جاتی اور اس پر جھاگ آ جاتا اور پھر وہ محروم نگاہوں سے ان دونوں کی طرف دیکھتی اور اس کی نگاہیں اور بھی اداس ہو جاتیں۔

“ آپ میری باجی کو تنگ کر رہے ہیں“ سادی قریب تر آ جاتی۔ “ چھوڑ دیجیئے باجی کو۔ یہ بہت برے ہیں باجی ان کی باتوں میں نہ آؤ۔ ان کی باتیں نہ سنو۔ ورنہ تم پانی ہو کر بہہ جاؤ گی۔ یہ وہ تیراک ہیں جو اس پانی میں تیر کر نکل جائیں گے۔ یہ ڈوبتے نہیں۔“

“ ہاں۔ “ ایلی نے کہا۔ “ میں ڈوبتا نہیں بلکہ ڈوبے جاتا ہوں۔ ڈوبے جاتا ہوں۔ ڈوب جاؤں تو کتنا اچھا ہو۔“

“ پھر وہی باتیں۔“ سادی چلاتی اور پھر بات کو رخ بدلنے کے لیے کچھ نہ کچھ کہہ دیتی۔

“ باجی آپ نے انہیں میرا نام کیوں بتایا؟“

ایلی جواب دیتا۔ “ ہاں تم بھی انتقام لو باجی سے۔ تم اس کا نام بتا دو مجھے۔“

سادی ہنستی۔ “ کتنے چالاک ہیں آپ۔“

“ سادی کیا نام ہے ------ ؟ ایلی چلایا۔

“ مجھے بہت پسند ہے۔“ سادی ہنس کر کہتی۔

“ مجھے نہیں۔“ ایلی منہ بنا دیتا۔

“ کیوں؟“

“ غلط نام ہے۔“

“ غلط کیسے؟“

“ رنگی ہونا چاہیے۔ رنگی کو سادی کہیں دیکھ کبیرا ہنسے۔“ ایلی قہقہہ مار کر کہتا۔

اس طرح وہ بچوں کی طرح باتیں کرتے رہتے۔

اور اگر سادی اکیلی آتی تو ایلی کو پسینہ آ جاتا۔ سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کہے۔

اس کی آواز میں وہ بے پروائی بے نیازی ختم ہو جاتی اور وہ بھیگی گھیگی آواز میں یوں ادھورے جملے بولے جاتا جیسے لکنت کا مریض ہو۔

“ سادی جمال آئے گا تو۔“

“ تو کیا؟“

“ کیا ہو گا؟“

“ کچھ بھی نہیں۔ باجی بڑی بیتابی سے اس کا انتبظار کر رہی ہیں۔“

“ تم اور باجی اس قدر مختلف کیوں ہو؟“

“ کیسے؟“

“ تم نہ جی ہو وہ ہاں جی۔“

“ میری باجی ایسی نہیں۔“ وہ غصے میں بولی۔ “ میں آپ کی سب باتیں سمجھتی ہوں۔“

“ چلو کوئی ہمدرد تو ملا۔“

“ ہمدرد۔“ وہ چلاتی۔

“ تو کیا ہو تم؟“

“ آپ ہمیں نہیں جانتے۔ آپ نہیں سمجھتے۔ نہیں سمجھ سکتے؟“ سادی چیختی۔

“ معمہ ہو۔“ ایلی پوچھتا۔

“ نہیں۔“

“ تو پھر۔“

“ بس کہہ جو دیا آپ ہمیں نہیں سمجھے۔“

“ تو سمجھا دیجیئے۔“

“ اس گھر کی ہر موم بتی دونوں سروں پر جلتی ہے۔“ سادی مسکرا کر کہتی۔

“ تو کیا یہاں دیوالی ہے؟“

“ ہاں ہر سمے دیوالی ہے۔ میرے ہنستے چہرے پر نہ بھولیئے۔“

“ تو کیا آپ روتی ہیں؟“

“ مجھے ٹسوے بہانا نہیں آتا۔ آنسو بہانا نہیں آتا۔“

“ تو پھر۔“

“ بند کیجیئے اس موضوع کو۔ آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔“

“ تو سمجھ کر کرنا ہی کیا ہے؟“ ایلی کہتا۔ “ تم تم ہو اور یہی کافی ہے۔“

پھر وہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی اور ایلی چلاتا جھن جھن جھن جھن ------۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

واپسی

آٹھ روز کے بعد جب ایک روز ایلی نیم چھتی میں بیٹھا سادی کا تازہ خط پڑھ رہا تھا، دفعتاً اس نے نگاہ اٹھائی، زینے میں جمال کھڑا تھا۔ جمال کو دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا۔ وہ آٹھ دنوں میں جمال کے وجود ہی کو بھول چکا تھا۔

جمال نے آتے ہی کئی ایک سوالات کر دیئے۔

“ بتاؤ یار ان کا حال کیا ہے۔ لیکن تم تو صرف ایک بار اطلاع دینے گئے ہو گے۔

انتظار کر رہی ہوں گی۔ کوٹھے پر ٹہلتی ہوں گی دیکھنے کے لیے کہ آیا ہے یا نہیں اور تم تو برساتی میں جاتے ہی نہیں۔، تمہیں کیا معلوم کوئی چٹھی آئی ہے کیا۔ لیکن چٹھی کیسے آتی میں تو گیا ہوا تھا۔ یار میرا جی تو چاہتا تھا کہ جلدی لوٹ آؤں لیکن کیا کرتا وہ مجھے آنے نہیں دیتی تھی میری بیوی اور تم جانتے ہو مجھے اپنی بیوی سے عشق ہے۔ ایمان سے۔“

جمال کی باتیں سن کر ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ مجرم ہو۔ جیسے ان نے ایک بچے کو دھوکہ دیا ہو۔ وہ چپ چاپ اس کی باتیں سنتا رہا اور مختصر جواب دیتا رہا۔

“ آؤ نا، آؤ نا۔“ جمال چلانے لگا۔ “ وہاں برساتی میں بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ ذرا دیکھوں تو شاید وہ سامنے ہی ہوں۔ انہیں تسلی ہو جائے گی کہ میں آ گیا ہوں۔“

برساتی میں پہنچ پر جمال کھڑکیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور ایلی ایک کونے میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ایلی کبھی کھڑکیوں میں نہ کھڑا ہوا تھا۔ دو ایک بار انہوں نے کہا بھی تھا، “ آپ سامنے کیوں نہیں آتے اپنی برساتی میں۔“ اس نے کہا تھا “ ایک بار جو آیا تھا۔“ “ ہائے اللہ“ اس پر سادی یوں تڑپی تھی۔ جیسے آتش بازی کو آگ دکھا دی گئی ہو۔ درحقیقت ایلی وہاں کھڑے ہو کر اشارے کرنے کے خلاف تھا۔ اس لیے کہ اسے ڈر تھا کہ کہیں ناؤ گھر کا کوئی لڑکا دیکھ نہ لے۔ وہ جاہ سے ڈرتا تھا۔ جاہ کو معلوم ہو گیا تو وہ کہے گا۔ “ ہاں بھئی یہ بھی ایک فن ہے۔ اور اگر ایلی کو یہ فن پسند ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ ذرا یہ سستا کام ہے میرا مطلب ہے چیپ ہے۔“ ایلی اس جملے اور نگاہ سے ڈرتا تھا۔ اس کے علاوہ جب روز ملاقات ہوتی تھی اور وہ باتوں کے ذریعے اپنی نمائش کر سکتا تھا تو دور کھڑے ہو کر بے کار اشارے کرنے سے اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ اس کے برعکس جمال کو یہ شغل اس لیے پسند تھا کہ وہاں کھڑے ہو کر اسے بات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی اس لیے وہ روز بلا ناغہ برساتی میں حاضری دیا کرتا تھا۔

“ اونہوں اس دھوپ میں بھلا کون آتا ہے کوٹھے پر۔“ وہ چلایا۔ “ اور یار اب پھر دھندلکے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ پہلے تو مشق ہو گئی تھی نا اب آٹھ روز کے وقفے کے بعد پھر وہی روز اول والی بات ہے۔“

تین بچے کے قریب جمال دوڑتا ہوا نیم چھتی میں داخل ہوا۔ اس کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں، منہ پر سرخی پھیلی ہوئی تھی۔

“ یار ایلی انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ میں آ ‌گیاہوں۔ ایک کو پتہ چلا تو وہ بھاگی دوسری کو خبر دینے کے لیے اور پھر وہ دونوں آ گئیں۔ میں نے سلام کیا بہت خوش ہوئیں مجھے دیکھ کر۔ آج رات کو بڑا مزہ رہے گا۔ میں پھر جاتا ہوں وہاں شاید وہ پھر آئیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

مسدود راہیں

آدھ گھنٹے کے بعد وہ پھر نیم چھتی میں آیا۔ اس کا رنگ زرد تھا۔ بازو لٹک رہے تھے۔

“ یار ایلی غضب ہو گیا۔ میں وہاں گیا تو سامنے کوئی بیٹھی تھی۔ میں نے سمجھا انہیں میں سے ایک ہو گی۔ میں نے اشارے کرنے شروع کر دیئے وہ بھی اشارے کرتی رہی۔ پھر دفعتاً اس نے دوپٹہ اتار کر رکھ دیا اور نیچے سے سوٹ والا ایک نوجوان نکل آیا۔ غالباً ان کا بھائی ہو گا۔ اب کیا ہو گا یار -------- ایلی بتاؤ نا۔؟“

“ مجھے کیا معلوم۔“

رات کو وہ دونوں نیم چھتی میں بیٹھے روشنی کا انتظار کرتے رہے۔ تین بجے کے قریب ان پر مایوسی چھانے لگی اور ساڑھے تین بجے جمال کرسی میں بیٹھا بیٹھا سو گیا۔ لیکن ایلی چپ چاپ سفید منزل کی طرف ٹکٹکی باندھے بیٹھا رہا۔ وہ غم یا مایوسی محسوس نہیں کر رہا تھا۔ کچھ بھی محسوس نہ کر رہا تھا۔ اس کا ذہن قطعی طور پر خالی تھا -------- کھڑکی میں سادی ہنس رہی تھی۔ “ کوئی بات کیجیئے نا۔ آپ تو اتنی باتیں کیا کرتے ہیں۔“ زینے میں شہزاد کھڑی کہہ رہی تھی۔ “ نہیں میں تو کچھ نہیں کہتی۔“ درمیان میں جمال آرام کرسی پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔

اگلے روز سفید منزل کے چوبارے میں مزدور کام کر رہے تھے۔ سیڑھیوں والی دیوار میں جو اینٹوں کے جنگلے بنے ہوئے تھے۔ جن کی وجہ سے سیڑھیوں کا دروازہ کھلنے پر ناؤ گھر سے سفید منزل کے چوبارے کا ایک حصہ دکھائی دیتا تھا انہیں سیمنٹ سے پُر کیا جا رہا تھا۔

“ ایلی ایلی۔“ جمال چلانے لگا۔ “ یہ دیکھا تم نے انہوں نے وہ جنگلے بند کر دیئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے معاملہ دور تک پہنچ گیا ہے۔“

“ ہوں۔“ ایلی نے کھڑکی کی درز سے دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر وہ دونوں دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ پھر جمال بولا۔

“ لیکن شاید ملاقات پر پابندی نہ لگے۔ گھر والوں کو اس کا علم تو نہیں ہوا ہو گا۔ اور ایلی خط تو وہ بھیجیں گی۔ ضرور بھیجیں گی۔“

جب جمعدارن آئی تو ایلی نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں بلکہ ماتھے پر رہی پرانی والی شکن پڑی تھی۔ اس نے فوراً محسوس کر لیا کہ اب خط و کتابت ممکن نہ ہو گی۔ کچھ دیر کے بعد جمال آیا۔

“ یار وہ جمعدارن تو بات ہی نہیں کرتی۔ کہتی تھی نہ بابو جی وہاں ان کے گھر مین تو فساد پڑا ہوا ہے۔ لڑکی کو دورے پڑ رہے ہیں۔ دورے میں لڑکی کے ہاتھ پاؤں مڑ جاتے ہیں۔ اب بتاؤ؟“ جمال نے پوچھا۔

ان حالات کے باوجود وہ دل ہی دل میں امید رچائے بیٹھے رہے کہ شاید کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ شاید وہ کوئی ترکیب لڑائیں۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ عید آ گئی لیکن گوریوں کی طرف سے نہ کوئی پیغام موصول ہوا اور نہ ہی سفید منزل میں کسی جگہ ان کی جھلک دکھائی دی۔

جمال کو اس بات کا قلق ضرور تھا کہ ایک دلچسپی کی صورت ختم ہو گئی۔ اس کے علاوہ اسے کوئی دکھ نہ ہوا۔

جس روز وہ واقعہ رونما ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کا سلسلہ ملاقات ٹوٹ گیا تھا۔ اس روز ایلی نے محسوس کیا تھا۔ جیسے وہ خالی الذہن ہو پھر حسبِ عادت دکھ بوند بوند اس کے دل میں بھرتا گیا۔ دنیا ویران ہوتی گئی۔ چیزیں مفہوم سے خالی ہوتی گئیں۔ مناظر دھندلے پڑتے گئے اور لوگ یوں گھومتے پھرتے دکھائی دینے لگے۔ جیسے ویرانے میں بھوت پریت چل پھر رہے ہوں۔

وہ محسوس کر رہا تھا جیسے اس نے کوئی نعمت عظمٰی کھو دی ہو۔ جیسے امید کی کرن گم ہو گئی ہو۔ تعجب کی بات تھی کہ ایلی کو سادی سے وہ محبت پیدا نہ ہوئی تھی جس میں آرزو کا عنصر ہوتا ہے۔ اسے اس کی شخصیت کا بے پناہ احساس تھا۔ اس کی رنگین باتیں اس کا ادبی ذوق اس کی بے پناہ جرات سادی سے محروم ہو جانے پر وہ محسوس کر رہا تھا۔ جیسے وہ دنیا کی تمام اچھی چیزوں سے محروم کر دیا گیا ہو۔ جیسے لطافت ختم ہو گئی ہو اور صرف دھندلی کثافت باقی رہ گئی ہو۔ ایلی نے کبھی یہ آرزو محسوس نہ کی تھی کہ وہ سادی کو آغوش میں لے یا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لے یا اس سے حسن کی بھیک مانگے یا ملاپ کی خواہش کرئے۔

ایلی روز سادی کے خط نکال لیتا اور انہیں پڑھتا۔ بار بار پڑھتا اور پھر حیرت میں ڈوب جاتا۔ یہ جانے یہ لڑکی کون ہے۔ نہ جانے وہ لوگ کتنے اونچے ہوں گے نہ جانے --------- پھر وہ شدت سے کمتری کا جذبہ محسوس کرتا۔ نہیں کہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارا میل ہو سکے اور ہو بھی جائے تو وہ جلد مجھ سے اکتا جائے گی۔ مجھ میں ہے ہی کیا جو اتنی بڑی شخصیت کو جذب کر سکوں۔ ایلی نے سادی کو کبھی عورت کی حیثیت سے نہ دیکھا تھا اور نہ ہی اس کی آرزو کی تھی۔

اس لیے ایلی کا غم عجیب سا تھا۔ ایسا غم جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ یہ محسوس نہیں کرتا تھا جیسے کھو گیا ہو بلکہ جیسے کچھ کھو دیا ہو۔ جیسے روشنی کی کرن بجھ گئی تھی۔ جیسے رنگ ختم ہو گئے تھے اور محض ایک خاکستری دھندلکا باقی رہ گیا تھا۔

دس روز کے بعد جمال کے نام پھر ایک تار آ گیا۔ لکھا تھا، “ فوراً پہنچیئے۔“

“ کیا بات ہے؟“ ایلی نے جمال سے پوچھا۔ “ یہ کیسا بلاوا ہے؟“

“ بچہ ہونے والا ہے۔“ جمال ہنسنے لگا۔ “ میں کہہ آیا تھا مجھے تار دے دینا۔“

جمال کے جانے کےایک دن بعد ایلی کو ڈاک سے ایک خط موصول ہوا۔

اس نے اس لیے خط کو کچھ اہمیت نہ دی۔ پتہ نامانوس خط میں لکھا ہوا تھا۔ نہ جانے کس کا خط ہے اس نے سوچا۔ طرزِ تحریر جانی پہچانی سی تھی لیکن -----------

دراصل اسے یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ سادی اسے ڈاک کے ذریعے بھی خط لکھ سکتی ہے۔ لفافہ چاک کر کے اس نے کط باہر نکالا تو دفعتاً حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ارے سادی کا خط۔ لکھا تھا :

“ گھر والوں کو پتہ چل گیا ہے۔ ملاقات کے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے ہیں۔ اب میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ سوموار کو رات دو بجے اسی جگہ میرا انتظار کیجیئے اور مجھے ساتھ لے جائیے۔ اگر آپ نہ آئے تو ----- ضرور آئیے گا ضرور ورنہ ------- “

ایک کونے میں جلدی مین چند الفاظ لکھے تھے :

“ جس روز آپ کو یہ خط ملے اس روز رات کو بارہ سے ایک بجے تک اپنی برساتی کی بتی جلائے رکھیئے تاکہ مجھے علم ہو جائے کہ آپ کو میرا خط مل گیا ہے۔ وہ بتی ہمارے سبز جنگلے سے دکھائی دیتی ہے۔“

خط پڑھ کر ایلی سن رہ گیا۔ اس کا ذہن پھر سے ایک خلا میں تبدیل ہو گیا۔ وہ اٹھ بیٹھا اور پھر برساتی میں ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر گھومنے لگا۔ پھر وہ باہر نکل گیا۔

سارا دن وہ آوارہ گھومتا رہا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے کہاں جا رہا ہے۔ کس وجہ سے سرگرداں ہے۔ اسے سادی کا بھی خیال نہ رہا تھا۔ وہ بھول چکا تھا کہ سوموار کو رات کے دو بجے اسے بلایا گیا ہے اور اسے کسی کو ساتھ لے کر چلے جانا ہے۔ نہ جانے کہاں چلے جانا ہے۔ کیسے چلے جانا ہے مگر چلے جانا ہے ورنہ ۔

اس کے ذہن میں کوئی بات نہ تھی کوئی فکر نہ تھا کوئی پریشانی نہ تھی۔ البتہ وہ بذات خود پریشان تھا۔ اس کی شخصیت گویا بکھر گئی تھی۔ شعور شل ہو چکا تھا۔ وہ دیکھتا تھا لیکن سمجھتا نہ تھا۔ بلکہ اس کے دیکھنے کی قوت دھندلائی ہوئی تھی۔ کان بند ہو چکے تھے۔ وہ ایک مدھم مگر مسلسل شور سن رہا تھا۔ جیسے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ جیسے ساری کائنات مکھیوں کے ایک عظیم چھتے میں تبدیل ہو گئی ہو۔

دوپہر کے وقت وہ ایک ویران سڑک پر چل رہا تھا۔ پھر شام کو اس نے دیکھا کہ وہ باغ میں ایک بینچ پر بیٹھا ہے۔ پھر وہ سڑک کے عین درمیان میں کھڑا تھا۔ ایک موٹر کے قریب کھڑا تھا اور ارد گرد چند لوگ کھڑے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

بخشی بخاری

پھر دو شخص اس سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ اور چوک میں کھڑا سپاہی اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

لمبا شخص اس کے اوپر جھکا ہوا تھا۔

“ تم الیاس ہو؟“ وہ پوچھ رہا تھا۔

الیاس ------- ایلی کو وہ لفظ کچھ مانوس سا معلوم ہو رہا تھا۔ ہاں الیاس ایلی ۔ علی پور کا ایلی - وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔

“ چلو۔“ ٹھگنا شخص بولا۔ “ سامنے چائے کی دوکان میں بیٹھ کر بات کریں گے۔“

وہ تینوں چل پڑے۔

ایلی نے غور سے لمبے آدمی کی طرف دیکھا۔ ہاں یہ شخص، اس نے محسوس کیا جیسے اسے کہیں دیکھا ہو۔ لیکن کوشش کے باوجود وہ سمجھ نہ سکا کہ وہ کون تھا۔

“ مجھے جانتے ہو نا۔“ لمبے آدمی نے مسکرا کر کہا۔

“ ہاں۔“ ایلی نے سر ہلایا۔ لیکن اس کا ذہن سر کے اشارے سے بیگانہ رہا۔ “ میں ناؤ گھر میں‌کئی بار گیا ہوں۔“

“ ناؤ گھر --------- “ ایلی کے ذہن میں روشنی کی ایک اور کرن جھلملائی۔

“ میں جاہ کا دوست ہوں۔“ لمبا آدمی بولا۔

جاہ --------- ایک اور کرن۔

“ مجھے جانتے ہو نا۔“ لمبے آدمی نے دہرایا۔

“ ہاں۔“ ایلی نے کہا۔ “ جانتا ہوں -------- “ لیکن اس کی نگاہیں اسےجھٹلا رہی تھیں۔

“ نہیں نہیں۔“ چھوٹے آدمی نے اشارہ کیا۔ “ ابھی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ ابھی ہوش میں نہیں۔“

“ تم نے کچھ استعمال تو نہیں کیا؟“ لمبے آدمی نے ایلی سے پوچھا۔

“ استعمال۔“ ایلی نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔

“ اونہوں۔“ چھوٹے آدمی نے اشارہ کیا۔ “ یہ بات نہیں۔“

“ تمہاری طبیعت تو اچھی ہے؟“ لمبے آدمی نے چائے کی میز پر بیٹھتے ہوئے ایلی سے پوچھا۔

“ ہاں نہیں مجھے توکچھ بھی نہیں کچھ بھی تو نہیں۔“ ایلی نے اپنے آپ کو جھنجھوڑ کر بات کرنے کی کوشش کی۔

“ ہم تمہارے دوست ہیں۔“ چھوٹا بولا۔ “ میرا نام بخشی ہے اور یہ بخاری ہیں۔“

“ ہاں ہاں۔“ ایلی نے سر ہلایا۔ “ اور یہ کیا ہے؟“ بخشی نے پوچھا۔
 
Top