علی پور کا ایلی (141- 155)

جاویداقبال

محفلین
۔۔۔۔۔۔‘‘دادی اماں پوچھ رہی تھیں۔’’لڑکے میٹھی روٹیاں پکادوں تجھے۔ساتھ لے جانااے ہے گاڑی میں بھوک لگے گی توکیاکرے گا۔‘‘
چندایک گھنٹوں میں ایلی کی تیاری مکمل ہوچکی تھی۔اس کے پاس تھاہی کیاکہ سنبھالنے میں دیرلگتی۔دوقمیض چارایک پاجامے ایک پراناکوٹ اورایک گھساہواجوتا۔
لاہورپہنچ کرعلی احمدنے اسے تانگے پربٹھایاوہ تانگہ انہیں گندے اوربھیڑسے بھرے بازاروں میں گھماتاہوابھاٹی دروازے لے گیا۔یہ کیسالاہورتھا۔کیایہ وہی لاہورتھا۔جہاں موتی نے اسے سیرکرائی تھی۔یہ لاہوراس لاہور سے کس قدرمختلف تھا۔
ایلی کی سمجھ میں نہ آیاپھربھی تسلی تھی کہ وہ لاہورآگیااب اسے گھرمیں دبک کررہنے کی کوفت سے نجات مل جائے گی۔اب اس سے کوئی نہ کہے گا’’ایلی حقہ بھردو۔‘‘اب اسے کنوئیں سے بوتل میں پانی بھرنانہیں پڑے گااورعلی احمدکاکمرہ دورہوگا۔بہت دور۔۔۔۔اب کوئی آساصحن میں بیٹھ کرتنکے سے زمین پر لکھنے میں مصروف دکھائی نہ دے گا اور نیم وا دروازے سے رضامندی بھر ے سفید دانت نہ چمکیں گے۔ اب اسے ہر چیز خریدنے کے لئے علی احمد کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہ پڑیں گے۔ جب وہ علی احمد سے پیسے مانگتا تھا تو ۔۔۔ توبہ ہے وہ ایک جملہ کتنادوبھر ہو جاتا تھا اور ۔۔۔ اور جب وہ کچھ کہہ چکتا تو علی احمد کے جواب دینے سے پہلے دنیا پر سناٹاچھایارہتا۔ زندگی گویا کو برف کی سل بن جاتی اور پھر جب علی احمد اچھا کہتے تو گویا’’کن ‘‘ کی آواز آتی اور وہ انجماد اور تعطل ختم ہوجاتا اور چاروں طرف زندگی ازسرنو بیدار ہوجاتی۔ لیکن علی احمد اچھا کہاں کہتے تھے۔ اب اس کی اپنی جیب میں پیسے ہوں گے اوروہ مونگ پھلی خرید سکے گا اور گڑ کی ریوڑیاں۔۔کتنی کڑاکے دار ہوتی ہیں گڑ کی ریوڑیاں۔عیش خالص عیش۔اتنی آزادی۔ اتنی آزادی اسے مل جائیگی کیا۔وہ حیران تھا۔
گلیاں ہی گلیاں
رات علی احمد اور ایلی نے ایک عزیز کے یہاں بسر کی اور صبح سویرے ایلی کو ساتھ لے کر علی احمد کالج کی طرف چل پڑے۔۔۔’’ہائیں یہ ابا کدھر جارہے تھے۔‘‘ایلی سوچنے لگا۔یہ تو گلیاں ہیں۔ تنگ و تاریک گلیاں۔۔۔۔کیاکالج گلیوں میں ہوتے ہیں اورگلیاں فضول گھومے جارہی تھیں۔ لیکن وہاں کالج تو نہ تھا کوئی۔ وہاں تو عورتیں ہی عورتیں تھیں ۔کھڑکیوں سے لٹکتی ہوئی عورتیں ۔ منڈیروں سے جھانکتی ہوئی عورتیں۔ چوکیوں پربیٹھی ہوئی عورتیں ۔ بال بناتی ہوئی۔۔۔ دانتوں پردنداسہ ملتی ہوئی دوپٹے سنبھالتی ہوئی۔لجاتی ہوئی۔ گھورتی ہوئی۔چیختی ہوئی۔چلاتی ہوئی عورتیں۔۔۔۔اوروہ گلیاں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں ایک ختم ہوتی تودوسری شروع ہوجاتی۔ ایک مڑ جاتی تو دوسری کھل جاتی ۔ گلیاں ہی گلیاں۔ تنگ کھلی۔ بودارگلیاں۔جہاں علی احمد کے سوامرد گردن جھکائے گزرتے تھے اور مٹیاریں سینہ ابھار کر چل رہی تھیں ۔۔ وہ تھک گیا مگر گلیاں چلے جارہی تھیں اور ان میں علی احمد سر اٹھائے منڈیروں کی طرف دیکھتے ہوئے شاہانہ انداز سے یوں چل رہے تھے جیسے باغ میں ٹہل رہے۔ دفعتاً گلیاں ختم ہوگئیں۔ چوڑی سڑک آگئی۔ ’’وہ تمہارا کالج ہے ۔ایلی‘‘علی احمد نے سامنے سرخ عمارت کی طرف اشارہ کیا’’اور دیکھا یہ ۔‘‘وہ گلیوں کی طرف اشارہ کرکے بولے ’’یہ لاہور ہے لاہور۔ خوب جگہ ہے لاہور۔‘‘وہ ہنسنے لگے۔
مال کا لال
علی احمد دو دن ٹھہرے۔ ایلی دعائیں مانگتارہا کہ وہ جلد رخصت ہوں اور اسے آزادی حاصل ہو لیکن جب سب کام مکمل ہوگیا۔ فیسیں ادا کردی گئیں۔ کتابیں مہیا کردی گئیں بورڈنگ میں 17نمبر کے کمرے میں اس کی چارپائی رکھوا دی گئی اور علی احمد رخصت ہونے لگے تونہ جانے کیوں وہ گھبرا گیا۔
بورڈنگ میں لڑکے ہی لڑکے بھر ے پڑے تھے۔ بڑے بڑے لڑکے۔ اونچے لمبے بھرے بھرے جسم کے مرد نما لڑکے عجیب سے چہروں والے لڑکے بڑی رعونت سے گھورنے کے عادی تھے۔ جو ڈانٹ کر یوں بات کرتے جیسے تھانے دار ہوں۔ ’’اے لڑکا۔ادھرآؤ۔‘‘اور’’اے تم کون ہو۔ کون ہو تم۔‘‘وہ ہروقت مونچھیں مروڑتے۔ اپنے تہہ بند جھاڑتے رہتے۔ کیونکہ پاجاموں کی جگہ انہوںنے بڑی بڑی چادریں لپیٹ رکھی تھیں۔ جن کے تلے طلائی جوتے تھے۔ جنکی نوکیں نکلی رہتی تھیں۔ ان لڑکوں کے ساتھ عمر رسیدہ نوکر تھے جو انہیں حقہ پلانے کے علاوہ مٹھی چاپی میں مصروف رہتے۔ ایلی انہیں دیکھ کر ڈر گیا اور پھر سہم کر سترہ نمبر کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔
’’اے تو کون ہے ؟‘‘ایک لمبا تڑنگا لڑکا کمرے میں آگھسا’’کون ہے تو؟‘‘
’’جی ۔ جی۔جی۔۔‘‘ایلی گھبرا گیا۔
’’جی جی کیا۔سیدھی بات کرو۔‘‘
وہ چلا گیاتو ایلی اٹھ بیٹھا۔اس کے اردگرد دیواریں گھوم رہی تھیں۔ ہوسٹل میں ہر طرف اونچے لمبے جاٹ قسم کے لڑکے اس کا مذاق اڑار ہے تھے ۔ ’’ٹھہراولونڈے ۔ کہاں جا رہا ہے تو مار رہے تھے۔ منہ چڑا رہے تھے۔‘‘ ایلی بھاگنے لگا۔ ایک بھدی سی آواز پیچھے سے چلا رہی تھی۔ ’’ٹھہر او لونڈے ۔‘‘
ارے یہ لڑکیاں کہاں سے آگئیں۔ ‘‘ایک لڑکا ایلی کا راستہ روک کر کھڑ اہو گیا۔ اس نے زبردستی ایلی کی ٹھوڑی پکڑ لی اور اس کے منہ کو چاروں طرف گھما کر بولا’’یہ دیکھو ماں کا لال۔ ابھی ماں کا دودھ پینا نہیں چھوڑا اور آئے ہیں یہاں کالج میں داخل ہونے کے لئے ۔ ماں پیٹ ہی سے دسویں کرکے آتے ہیں۔‘‘
خوف سے ایلی کی حرکت قلب بند ہوئی جارہی تھی۔ اس کی کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔’’جا اپنی ماں کی گود میں جا کر بیٹھ ۔‘‘اس نے دھمکی دے کر کہا۔’’دوڑا می کی گود میں جا کر بیٹھ ۔‘‘ پھر ایلی کو کچھ معلوم نہیں۔وہ بھاگ رہاتھا۔ سڑکوں پر بھاگ رہاتھا۔ بھیڑ کوچیرتا ہوا جارہا تھا۔ لوگ اس کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے وہ زیر لب ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ’’ماں کی پیٹ سے دسویں پاس کرکے آتے ہیں۔‘‘’’یہ دیکھو مائی کا لال۔ہا ہا ہا۔‘‘
سارا لاہور اس کے راز سے واقف تھا۔ سبھی اس پر ہنس رہے تھے ’’پکڑ لو۔ پکڑ لو۔‘‘ وہ پھر بھاگ اٹھتا۔ لڑکیاں نفرت سے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتیں ۔ عورتیں ہاتھ چلا چلا کرباتیں کرتیں۔ تانگے والے اس کا مضکحہ اڑا رہے تھے ۔ ’’ہٹ بابو۔‘‘
اس کا جی چاہ رہاتھا کہ بھاگ کر دادی اماں کے پاس جا پہنچے اور وہ اسے تھپک تھپک کر سلا دے۔’’کیا ہے تجھے ایلی۔ سو جا۔ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور پھر مطمئن ہوکر وہ رضا کی دکا ن میں جا بیٹھے۔ ’’آؤ بابو ایلی۔ بیٹھ جاؤ۔‘‘ اور وہ پروقار انداز سے بیٹھ جائے یا ارجمند کے پاس جا کر کھڑا ہو۔’’ایلی وہ دیکھو بین بجی اور ناگ مست ہوا ہے نا۔‘‘ وہاں اس کی اہمیت تھی۔ وہاں لوگ اسے ماں کا لال نہیں سمجھتے تھے وہاں اس کی باتیں ایک حیثیت رکھتی تھیں۔ بازار میں جگہ جگہ چھابڑی والے مونگ پھلی، ریوڑیاں اور چنے بیچ رہے تھے لیکن اسے کچھ بھی تو دکھائی نہ دے رہا تھا۔ چاروں طرف بھیانک دھند لکا چھایا ہوا تھا اونچے اونچے کھمبے سروں پر ٹمٹماتی بتیاں اٹھائے ناچ رہے تھے۔
نہ جانے کب تک وہ بازاروں میں آوارہ گھومتا رہا لیکن آخر کار اسے واپس ہوسٹل میں آنا ہی پڑا ۔ واپس آنے کو اس کا جی تو نہ چاہتا تھا۔ اس گنوار خانے کی نسبت سٹیشن کے پلیپ فارم پر بیٹھ کر وقت کاٹنا کہیں بہتر تھا۔ لیکن سٹیشن بھی تو ایک اجنبی مقام تھا جہاں پولیس کے سپاہی ہر بیٹھے اور لیٹے مسافروں کو شک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اسے کسی عزیز کے گھر کاراستہ بھی معلوم نہ تھا۔
ڈرتے ڈرتے وہ بورڈنگ میں جا داخل ہوا وہاں برآمدوں میں گراؤنڈ میں جگہ جگہ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ حقے گڑاگڑا رہے تھے۔ سفید چادریں جھاڑی جاری تھیں۔’’او نذیرے۔ اوفقے۔‘‘ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
چپ چاپ وہ کمرہ نمبر سترہ میں جا پہنچا۔ہائیں وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔ نہ اس کا ٹرنک۔ نہ سوٹ کیس۔ نہ بستر نہ چارپائی کمرے کے دروازے کے قریب برآمدے میں ایک جاٹ کو بیٹھا دیکھ کر وہ اس کی جانب بڑھا۔
’’جی۔جی۔‘‘اس دل دھڑک رہاتھا’’یہاں اس کمرے میں یعنی کمرہ نمبر سترہ میں یہ والا میرا سامان بستر۔‘‘
جاٹ نے بے پروائی سے اس کیطرف دیکھا اورکھانس کر بولا’’معلوم نہیں۔‘‘
دومونچھوں والے جوان سامنے کوٹھے پر چارپائیوں پرپڑے تھے۔وہ ان کے قریب چلا گیا۔ لیکن ان سے بات کرنا کچھ آسان نہ تھا۔
’’کیوں بھئی۔ کیا دیکھتا ہے۔‘‘ ایک نے چلا کر کہا۔
’’کچھ نہیں جی۔ کچھ نہیں۔‘‘ ایلی نے کہا۔
’’ہوں۔کون ہے ۔ یہاں کیوں گھوم رہاہے۔‘‘
’’جی میں سترہ نمبر میں فرسٹ ائیر میں۔ میں ۔میں۔‘‘اس کی گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔’’جی میرا بستر چارپائی۔ٹرنک‘سب غائب ہیں۔‘‘
’’ہائیں۔کیا مطلب ہم چور ہیں۔‘‘ایک نے مونچھ مروڑتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ۔جی۔نہیں۔‘‘ایلی نے جھٹ انہیں یقین دلانے کی کوشش کی’’یہ تو اپنے ہوسٹل کا نئیں ہے۔‘‘ایک نے اسے کھنکھار کر کہا’’ادھر آبے۔ ‘‘’’چوری کرنے آیا ہے تو۔‘‘
’’جی جی نہیں۔میں تو۔‘‘
’’بھاگ جا یہاں سے ورنہ پولیس کو بلائیں گے۔ دوڑ۔‘‘
ایلی پھر بھاگ رہا تھا۔ نہ جانے کہاں کس طرف ۔ لوگ اسے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ پولیس مین کے سامنے پہنچ کر وہ گھبرا جاتا اور آنکھ بچا کر نکل جانے کی کوشش کرتا۔ نہ جانے کیوں وہ اپنے آپ کو چور سمجھنے لگا تھا۔ آوارہ۔چور پلیٹ فارم پر وہ ایک بنچ پر پڑ گیا۔ اسے مسافر خانے کے بنچ پر پڑے دیکھ کر پویس والا آدھمکا۔
’’ہے ۔کون ہے ۔تو۔کہاں جائے گا؟‘‘
’’جی جی۔‘‘وہ اٹھ بیٹھا۔
’’کہیں بھی نہیں۔‘‘وہ بولا۔
’’تو یہاں کیوں پڑا ہے؟‘‘
’‘میں ۔میں۔‘‘وہ گھبرا گیا اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہے۔ نہ جانے اسے کیا کہنا چاہئے تھا۔ وہ اٹھ بیٹھا۔
’’بھاگ یہاں سے۔‘‘ حوالدار نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
ایک بار پھر وہ ویران لاہور کی سڑکوں پر گھوم رہاتھا۔ جہاں خوفناک شکلوں والے کتے بھونک رہے تھے۔ ہرقدم پر وہ ٹھٹھک جاتا۔ رک جاتا۔ نہ جانے کہاں سے کوئی آنکلے گا۔ کتا بھونکے گا یا کوئی حوالدار مونچھ مروڑ کر اسے گھورے گا۔ توبہ کس قدر ویران شہر تھا وہ کتنی چوڑی سڑکیں تھیں وہاں اورو ہ کھمبوں پر ٹنگی ہوئی بتیاں یوں ٹمٹما رہی تھیں۔ جیسے کسی ڈائن کی آنکھوں کی پتلیاں ہوں۔
پھر دفعتاً اسے خیال آیا آخر وہ پولیس والا یہی پوچھتاتھا نا کہ کہاں جائے گا۔ ٹکٹ کہاں ہے تیرا۔۔۔اس خیال پر وہ پھر سٹیشن کی طرف مڑ گیا۔ بکنگ آفس سے اس نے ٹکٹ خریدا اور ویٹنگ روم کی طرف چل پڑا۔
پھر جو اسے ہوش آیا تو وہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی علی پور کی طرف فراٹے بھرتی ہوئی جارہی تھی۔
پناہ گاہ
علی پور پہنچ کر وہ اپنی تمام گزشتہ تکالیف کو بھول گیا۔ اس نے محسوس کیا جیسے ویرانی ختم ہوگئی ہو اور وہ پھر سے ایک حیثیت سے مالک ہوگیا ہو۔
’’ایلی ۔ایلی ۔ایلی۔‘‘ چاروں طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔
’’ایلی۔‘‘دادی چلا رہی تھی ۔’’تیرا دل لگ گیا تھا وہاں لاہور میں ۔ توبہ اتنی دور تن تنہا جانا۔ نہ بھئی میں تو نہیں چاہتی تو وہاں اکیلا جائے۔‘‘
’’ایلی۔‘‘ ارجمند چلا رہاتھا۔ ’’تم آگئے ۔ اچھا ہوا تم آگئے۔ تم چلے جاتے ہو تو سب گڑ بڑ ہوجاتا ہے۔ اسٹنٹ نہ ہو تو بیچارہ ہیڈ کیا کرے۔ بڑی چیز ہوتی ہے اسٹنٹ ۔ ہاں تم جانتے دفتروں میں اس کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور پھر یہاں انکر اینڈی آفس ہے۔‘‘
’’آگے ۔‘‘ رضا نے اپنی لنگڑی ٹانگ کو گھماتے ہوئے کہا۔’’آؤ بیٹھو۔ اب تو کالج والے بن گئے۔ بابو بن گئے تم۔‘‘
’’ایلی۔‘‘ جمیل اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔’’آؤ اونچی گلی میں آؤ وہاں آج لالہ نے تازہ گلاب جامن بنائے ہیں۔آؤ۔‘‘
’’توآگیا ایلی۔‘‘سعیدہ نے اپنا خوشبودار دوپٹہ سر پر لیتے ہوئے کہا’’آ جا‘آج رات کو چور سپاہی کی بازی لگے گی۔ آئے گانا تو۔۔۔‘‘
’’ہاں ۔ ہاں۔ ‘‘ایلی نے کہا ’’ضرور آؤں گا۔‘‘
’’ایلی۔۔۔۔اب تو کالج کے ٹھاٹھ ہیں نا۔‘‘ حکیم صاحب اسے دیکھ کر طنزاً مسکرائے۔
چودھری یہ سن کر بولا ’’کیا فرق ہے حکیم صاحب۔ یہ تو جیسے پہلے تھا ویسے ہی اب بھی ہے ۔ وہی رضا کی دوکان۔ وہی تاش کی گڈی۔‘‘
چچا عظمت رک گئے ’’کیا کہا چودھری۔ تاش کی گڈی۔ تاش کھیلنے کے علاوہ ان لنڈوروں کو آتا ہی کیاہے۔ اللہ آپ کابھلا کرے۔ ‘‘رضا ہنسا’’یہی میں کہہ رہاتھا۔ چچا عظمت ۔‘‘تو چچا عظمت نے رضا کی طرف انگلی سے یوں شست باندھی جیسے اسے گولی کا نشانہ بنا رہے ہوں تمہیں تو نے لچ پنے کا اڈہ بنا رکھا ہے۔ یہ دکان تو محض ایک بہانہ ہے۔‘‘
’’ہاں ۔ ‘‘ رضا ہنسا’’چچا جی یہی بتارہاتھا میں انہیں۔ لیکن ان احمقوں کی سمجھ میں آئے بھی بات‘ بالکل بھس بھرے ہیں یہ سب اور اور یہ ایلی۔۔۔‘‘
علی پور آجانے سے ایلی کی ایک حیثیت پیداہو جاتی تھی۔ اگرچہ محلے کے بزرگ اور بوڑھیاں اکثر پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑے رہتے پھر بھی علی پور تھا اور لاہور۔ لاحول ولا قوۃ وہ تو ایک ویرانہ تھا۔ کھوے سے کھوا چھلنے کے باوجود ویرانہ۔
لاہور کا خیال آتے ہی ایلی گھبرا جاتا۔ اس کی پیشانی پر پسینہ چھوٹ جاتا۔ لیکن وہ دل ہی دل میں جانتا تھا کہ اسے لاہور جانا ہی ہوگا۔ علی پور میں رہنا ممکن نہ تھا۔ پھر بھی جتنے دن وہ علی پوررہ سکتا تھا۔ غنیمت تھا۔
’’اے ہے تیری چھٹی ابھی ختم نہیں ہوئی کیا۔‘‘ دادی اماں اسے چوتھے ہی روز گھورنے لگی ۔’’اب تو واپس بھی جائے گا یا یہیں آوارہ گردی کرتا رہے گا۔ میں تیرے ابا کو کیا جواب دوں گی۔‘‘
’’لیکن میں وہاں بورڈنگ میں جا کر بھوکوں مروں۔‘‘ ایلی کو سوجھی ’’لو وہاں تو بلکہ کھانے کو میوے ملتے ہیں تیرے ابا کہہ رہے تھے اس روز تو بھی پاس ہی تھا۔‘‘دادی نے جواب دیا۔
’’ہونہہ میوے۔ وہاں تو روٹی بھی نہیں ملتی۔ بڑے لڑکے سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ فرسٹ ائیر والوں کو کون پوچھتاہے ۔
پہلے تو دادی اماں نے ایلی کی بات کااعتبار نہ کیا لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاہور کے نام پر ایلی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں تو اسے یقین آ گیا۔
’’نہ بھئی میں تو ایلی کو بورڈنگ میں نہ بھیجوں گی۔ اے ہے اپنا فیروز جو رہتا ہے ۔ وہاں لاہور میں پھر لڑکا بورڈنگ میں بھوکوں کیوں مرے۔ نہیں بھئی میرا ایلی وہاں نہیں رہے گا کبھی بھی۔ اپنا گھر نہ ہوتو بھلا مجبوری ہوئی۔لیکن فیروز کے ہوتے ہوئے لڑکے کو بھوکوں مارنا۔‘‘
قہقہہ اور نعرہ
فیروز کی جوانی دیر سے ڈھل چکی تھی ۔ لیکن اس کے رخساروں پر سرخی کی جھلک ابھی تک نمایاں تھی۔ جسم بھرا ہوا تھا۔ چہرہ پروقار ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں بے جان سا محسوس ہوتا تھا شانے چوڑے تھے چال ایستادہ تھی اور جسم تنو مند اور مضبوط تھا۔ لیکن اس کے باوجود فیروز کو دیکھ کر محسوس ہوتا جیسے اس کی عظمت ماضی سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسے وہ گزشتہ جاہ و حشمت اور عیش و عشرت کی ایک داستان ہو۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور وقار دونوں خصوصیات بہ یک وقت موجود تھیں۔ لیکن ان میں ایک بے نام سے بے حسی کی جھلک تھی۔مبہم سی اکتاہٹ اور محرومی۔
فیروز کی زندگی اس ویرانی اور محرومی کے باوجود متوازن تھی۔ جسے پابندی اوقات سے خصوصی تعلق تھا۔ وہ صبح سویرے جاگ اٹھتا۔ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے بعد کپڑے پہن کر چہل قدمی کے لئے باہر نکل جاتا۔ واپسی پر چائے پینے کے بعد تھوڑا سا مطالعہ کرتا اور پھر کھانا کھا کر کپڑے اتار کر آرام کرتاحتیٰ کہ چائے کا وقت ہو جاتا اورچائے پینے کے بعد وہ کپڑے پہن کر باہر سیر کو چلا جاتا اور واپسی پر کھانا کھا کے لیٹ جاتا۔
فیروز کو باتیں کرنے سے قطعی دلچسپی نہ تھی۔ اس کی خاموشی کسی دلخراش المیہ کی شاہد تھی۔ فیروز کے کمرے کے قریب ہی ایک کوٹھڑی میں اس کی ہمیشرہ صابرہ رہتی تھی۔ وہ ہروقت چارپائی پر بیٹھی تسبیح پڑھتی رہتی تھی۔ اسکے سر پر خاکستری رنگ کی چادر پڑی رہتی۔ جس میں اس کا سرخ و سپید چہرہ یوں دیکھتا۔ جیسے کسی نے اندھیری کوٹھری میں کوئلے دہکا رکھے ہوں۔ اس کے سیاہ لمبے بال عام طور پر کھلے لٹکے رہتے۔ ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘وہ نووارد کی طرف مسکرا کردیکھتی اور بڑے اخلاق سے اس سے باتین کرتی اور پھر دفعتاً اس کا قہقہہ گونجتا ایک بے پروا بے نیاز۔ پروقار قہقہہ۔ وہ ہر تکلیف اور پریشانی پر قہقہہ مار کر ہنستی اور نووارد محسوس کرتا جیسے وہ دنیاوی تفکرات پر خندہ زن ہو۔صابرہ کا چہرہ پڑا پروقار اور بارعب تھا۔ اس کا انداز بے حد پر اثر تھا۔
اس کوٹھڑی کے اردگرد کئی ایک کوٹھڑیوں میں صابرہ کی بیٹیاں رہتی تھیں۔ سب سے چھوٹی لڑکی فیضہ کی شادی کسی سید سے ہونے والی تھی جو کسی گاؤں میں زمیندار تھا ۔ سرور کا خاوند ایک معمولی دوکاندار تھا جس کی دوکان لوہے کے کباڑ خانے پر مشتمل تھی وہ حسرت زدہ امید سے خاوند کاانتظار کرتی کہ کب دوکان سے چار پیسے کما کرلائے اور وہ ہانڈی روٹی کا انتظام کرے۔ سرور دن بھر کپڑے دھوتی بچوں کو پیٹتی اور خاوند کو زیر لب برا بھلا کہتی رہتی۔ بچے چپ چاپ حیران نگاہوں سے کبھی ماں اور کبھی سیڑھیوں کی طرف دیکھتے۔
ایک کوٹھڑی میں خاور اجلے کپڑے پہنے کوئی کتاب پڑھتی رہتی یا سرورکے بچوں کی طرف دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتی۔ فیضہ کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا۔جیسے وہ اس گھر کی فرد نہ ہو۔ اس کے انداز میں نہ تو مایوسی تھی اور نہ بے نیازی اس ویرانے میں فیضہ ایک سرسبز خطے کی طرح تھی۔ اسکے ہاتھ حنا کے رنگ سے چمکتے تھے۔ اس کے ہونٹ مسکراہٹ سے کھلے رہتے اور لبوں پر کسی ناکسی ڈھولک گیت دھن ناچتی۔ جب وہ ڈھولک کے ساتھ گاتی تو ایسا معلوم ہوتا جیسے بہار آگئی ہو۔
اوپروالی منزل میں انور اور اس کی بیٹی مینا رہتے تھے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں انور چولہے کے سامنے بیٹھی دیوار کی طرف تکتی رہتی۔ جیسے دیوار کے پار دور۔۔بہت دور نہ جانے کیا دیکھ رہی ہو۔ اس کی لٹ جھٹک کر منہ پر آ گرتی آنکھوں میں ان بہے آنسو چھلکتے اور وہ باربار آہ بھرتی اور ننھی مینا گڑیا تھامے کبھی ماں کی طرف دیکھتی اور کبھی دیوار کی طرف۔ یہ وہ مکان تھا جہاں لاہور میں ایلی کو قیام کرنا تھا۔
فیروز ایلی کا پھوپھا تھا۔ پھوپھی مر چکی تھی اور اب فیروز تنہائی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ابتدائی زندگی میں محکمہ پولیس میں اچھے عہدے پر فائز تھا پھر شاید وہ مسلسل حکومت سے اکتا گیا اور اس کے دل میں محکومیت کی آرزو چٹکیاں لینے لگی یا شاید یہ سب راگ رنگ اور رقص کا اعجاز ہو۔مسلسل عیش و طرب انسان کے دل میں نسائی آرزوئیں پیدا کردیتا ہے ۔ بہرحال اسے ایک رقاصہ سے محبت ہوگئی اور ایک روز شراب کے نشے میں خود کشی کی عملی مگر ناکام کوشش کی وجہ سے وہ ملازمت سے بر طرف کردیا گیا اور بالاخر ظہور اس رقاصہ کے چوبارے پر جا بیٹھا۔ بائی نے کئی ایک سال اس کی خدمت کی ۔ پھر بائی کی اچانک موت پر وہ اپنی ہمیشرہ کے گھر آنے پر مجبور ہوگیا تھا اور اب وہ سب اکٹھے ایک مکان میں رہتے تھے۔ فیروز خاموشی سے میز پر بیٹھا رہتا یا چارپائی پر لیٹ کر ماضی کی یاد میں کھو جاتا۔ ملحقہ کمرے میں صابرہ بیٹھی تسبیح کے دانے گنتی رہتی اور کبھی کبھار ایک بے نیاز اور پرجلال قہقہہ لگاتی۔ ساتھ ایک نعرہ بھی’’داتا۔‘‘ اس قہقہے میں بے نیازی اور زندگی تھی اس نعرے میں جذبہ اور جوش تھا۔ وقار سے بھر پور زندگی احترام سے بھر پور جذبہ۔
اوپر والی منزل میں انور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے دیوار کی طرف دیکھتی اور پھر آہ بھر کر کہتی ’’ایلی تم نہیں جانتے ساس اور نندوں نے مینا کے ابا کو ہاتھ میں لے رکھا ہے اور میاں آپ بھی تو جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ انہیں کسی بات کا ہوش ہی نہیں راجہ اندر بنے بیٹھے ہیں۔ ہائے ایلی ماں باپ نے مجھے کہاں جھونک دیا۔ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔‘‘ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے اور وہ انہیں پلو سے پونچھ کر پھر دیوار کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھنے لگتی۔ اس پر ننھی مینا اور بھی سہم جاتی اور اسے گڑیا کا کھیل بھول جاتا اور ایلی سوچنے لگتا یااللہ یہ سب کیاہے؟ یہ روئی روئی خوبصورت عورت،وہ سپنے دیکھنے والا سرخ و سپید بزرگ، اور ایک دوسرے سے بے خبر بے نیاز، بہنیں اور ان کے بلکتے ہوئے بچے۔۔۔وہ حیران ہوتا اور پھر سوچ میں کھو جاتا۔ پھر دفعتاً صابرہ کا قہقہہ گونجتا اور داتا کا نعرہ بلند ہوتا جیسے وہ غربت اور ان مصائب کا جو اس کے گھر پر مسلط و محیط تھے۔ تمسخر اڑا رہی ہو۔
فیروز کے مکان کے متصل بھنگی رہتے تھے۔ جن کی لڑکیاں گایاکرتی تھیں۔ انکے یہاں روز ایک نہ ایک تقریب رہتی ۔نہ جانے کیوں۔ ہفتے میں دو چار مرتبہ ڈھولک بجتی اور عورتیں دیر تک گاتیں ۔ جیسے سن کر فیروز چپ چاپ پتھر کی طرف چارپائی پر پڑا رہتا اور صابرہ کی تسبیح اور بھی تیزی سے چلتی اور انور کے دوپٹے کا پلو بالکل ہی تر ہو جاتا اور خاور ناک سیکڑ کر کہتی’’توبہ ہے کس قدر چیختی ہیں یہ بھگنیں۔ کیسا واہیات محلہ ہے۔‘‘ اور فیضہ شوق سے شاہ نشین پر جا بیٹھتی اور ان کے گیت سننے میں محو ہو جاتی یا مسحور ہو کر چلانے لگتی ’’ہائے آیا کیسی اچھی ڈھولک بجاتی ہیں یہ ہائے میں کیا کروں۔‘‘
دھندلکا:۔
صبح سویرے ایلی منہ ہاتھ دھو کر کالج کی طرف چل پڑتا۔ لیکن نہ جانے کیوں اسے جوں جوں کالج کے قریب پہنچتا اس کے دل میں ہول اٹھنے لگتے۔ دبی دبی گھبراہٹ ابھرتی اور اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ۔ کالج کی طرف چلتے ہوئے ہر قدم پر اس کی حیثیت کم تر ہو جاتی۔ حتی کہ کالج میں پہنچ کر وہ ایک ٹھنگنے میں بدل جاتا اور پھر چاروں طرف بڑے بڑے گلیور اس کے گرد گھومتے اسے گھورتے اس کا تمسخر اڑاتے۔ ایلی کی نگاہیں جھک جاتیں اس کا جی چاہتا کہ کہیں بھاگ جائے دور۔۔۔بہت دور جہاں کوئی نہ ہو۔ جہاں کوئی اس کا تمسخر نہ اڑائے۔ کوئی اسے دھمکی نہ دے جہاں لوگ اس قدر اونچے لمبے اور ہیبت ناک نہ ہوں پھر نہ جانے کیا ہوتا اس کے گردو پیش ایک دھندلکا سا چھا جاتا اور وہ دھند لکا ان گلیوروں کو ایلی کی نظروں سے چھپا دیتا۔ ان کے تمسخر بھرے قہقہے مدھم پڑ جاتے۔ پھر وہ دیکھتا کہ وہ بازاروں میں گھوم رہا ہے۔ ان جانے بازاروں میں ۔ نئی نئی سڑکوں پر یہ دیکھ کر اس کے دل کو اطمینان سا ہوجاتا۔ جیسے اس نے اپنی دنیا اور اپنی زندگی محفوظ کرلی ہو۔ جیسے وہ کسی بہت بڑے خطرے سے نکل آیا ہو۔
اس کے باوجود اس کے دل میں کھٹک سی لگی رہتی کہ وہ کالج میں حاضری نہیں دے رہا۔ کلاسز اٹنڈ نہیں کر رہا۔ بلکہ آوارہ گردی کررہا ہے۔ گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے۔ گناہ کا خیال آتے ہی اس کی نگاہوں میں دو حنائی ہاتھ لٹکنے لگتے اور وہ ازسر نو مضطرب ہوجاتا۔ اس اضطراب سے مخلصی پانے کے لئے اس نے کئی ایک طریقے ایجاد کررکھے تھے۔ وہ مونگ پھلی اور ریوڑیاں کھانے میں مصروف ہوجاتا لیکن مونگ پھلی اور ریوڑیاں ایسی چیزیں صرف وقتی مصروفیات بہم پہنچا سکتی تھیں ۔ اس نے اس سلسلے میں سگریٹ کو بھی آزمایا تھا۔ مگر سگریٹ بھی مفید ثابت نہ ہوئے تھے الٹا وہ تو گلے میں کھرکھری سی پیدا کرتے تھے۔ جس سے اس کا اضطراب اور بھی بڑھ جاتا تھا ان سب باتوں سے اکتا کر سڑکوں پر بھٹکتے پھرنے سے تھک کر وہ کسی سینما ہال میں چلا جاتا اور چار آنے کا ٹکٹ خرید کر دو ڈھائی گھنٹے تک ایلمواور پیڈرو بہادر کے کارنامے دیکھنے میں کھو جاتا۔ سینما ہال کا اندھیرا اسے لوگوں کی ٹٹولتی ہوئی جانچتی ہوئی پریشانی کن نگاہوں سے محفوظ کر لیتا اور پھر اطمینان سے پیڈرو بہادر کا روپ دھار کر وہ بدمعاشی کو پیٹتا اور بالاخر حنائی ہاتھوں والی حسینہ کو گھوڑی پر چڑھا کر ہوا ہو جاتا۔
لیکن سینما سے فارغ ہو کر جب وہ گھر پہنچتا تو وہ حنائی ہاتھ شہ نشین کو تھامے ہوتے۔ جھکی جھکی نگاہوں سے وہ انہیں دیکھتا اور پھر چپ چاپ نگاہ اٹھائے بغیر چوبارے میں جا پہنچتا جہاں انور چارپائی پر بیٹھی فضاکو گھور رہی ہوتی۔
اسے قریب بیٹھے دیکھ کر وہ چونکتی۔ ’’ہائے ایلی میری قسمت ہی پھوٹ گئی۔ کیا تھا اور کیا ہوگیا۔ ایلی۔۔۔ انہوں نے اس قدر ظلم کیوں کیا مجھ پر۔ میںنے ان کا کیا بگاڑا تھا۔‘‘ اور وہ ٹپ ٹپ رونے لگتی۔
پھر صابرہ کے قہقہے کی آواز سنائی دیتی اور وہی نعرہ’’۔۔۔داتا‘‘ اور پھر متصل کوٹھڑیوں سے بھنگنوں کی ڈھولک اور گیت کی آوازیں بلند ہوتیں ۔’’اگ بال کے دھوئیں دے پج روواں لکوواں سجناں دا۔ ہائے سجناں دا۔‘‘
لاہور کی زندگی عجیب زندگی تھی۔ ایلی محسوس کرتا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ یہ عالم خواب چند روزہ ہو۔
وہ دھندلکا جو اس نے اپنے گردوپیش بکھیر رکھا تھا۔ اس کے لئے کس قدر اطمینان بخش تھا ۔ کیونکہ اس دھندلکے کے وجہ سے وہ دلخراش حقائق سے بیگانہ رہ سکتا تھا۔ لوگوں کی نگاہوں سے بچ سکتا تھا۔ لوگوں کو تو ہر آتے جاتے کو نگاہوں سے کریدنے کی بری عادت تھی۔ ایلی کے لئے سب سے مشکل لوگوں کی نگاہیں تھیں۔ بازار میں چلتے ہوئے اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اپنی لٹکتی ہوئی بانہوں کو کیسے سنبھالے اور اکھڑی اکھڑی گردن کو کیسے قائم رکھے کہ لوگ اس پر تمسخر سے نہ ہنسیں۔
چار ایک لوگوں کے قریب سے گزرنا یا ان کے پاس کھڑا ہونا یا ان سے باتیں کرنا ایلی کے لئے بے حد مشکل تھا۔ بازار کے لوگ تو خیر اکثر بے پروائی اور بے توجہی سے اس کے پاس سے گزر جاتے لیکن کالج کا ہر لڑکا اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگتا اور لڑکوں کے گرد اس کا مذاق اڑاتے۔
اس زمانے میں کالج کے لڑکے بھی تو عجیب سے تھے۔ لڑکے معلوم ہی نہ ہوتے تھے۔ یوں لگتا جیسے بڑے بڑے زمیندار اور رئیس ہوں۔۔۔ جو پنچائت کے اجلاس پر آئے ہوئے ہوں۔
جب وہ گاؤ ں سے لاہور آتے اور پھر سٹیشن سے بورڈنگ تک تانگے میں پہنچتے تو ایک عجیب منظر نظر آتا۔ تانگہ کے پائدان پر ان کا نوکر غلام علی۔ فتایا کریما بیٹھا ہوتا جو ایک ہاتھ میں تمباکو کا تھیلا دوسرے میں گھی کاپیپا تھامے ہوتا۔ چودھری سیٹ پر یوں اکڑفوں بیٹھا ہوتا۔ جیسے وہ رئیسی تانگہ ہو۔ ایک ہاتھ سے مونچھ مروڑتا دوسرے سے سر کھجاتا۔ سیٹ پر ایک طرف مربے کا مرتبان ہوتا اور دوسری طرف فرشی حقہ جس کی نے بے حدلمبی اور چمکدار ہوتی تھی۔
ان کے قداونچے لمبے ہوتے تھے۔ انہوںنے کالے اچکن اور بھاری بھرکم شلواریں پہنی ہوتی تھیں اور انکے سر کی پگڑی کا طرہ گویاتانگے کی چھت کو اٹھائے ہوتا۔
اسکے برعکس ایلی کا چھوٹا اور پرانا کوٹ جو علی احمد کو الٹا کر بنایا گیا تھا۔ اس کی سستی اور مختصر سی پتلون اور معمولی ساجوتا۔یہ تمام چیزیں صاف تانگے کی معلوم ہوتی تھیں اور ایلی کا چھوٹا قد اور پندرہ سال کی عمر۔۔۔ شاید انہیں باتوں پر کالج کے لڑکے اسے دیکھ کر ہنستے تھے۔ لیکن وہ نہ بھی ہنستے تو بھی ایلی کے لئے کالج جانا مشکل ہوتا کیونکہ اس کے دل پر کمتری کااحساس مسلط اور محیط رہتا تھا۔ جوا س نے اپنی والدہ سے ورثے میں پایا تھا اور جسے علی احمد کے گھر کے ماحول نے پالا پوسا تھا گرچہ یہ احساس کسی وقت دب بھی جاتا۔ لیکن مناسب وقت پر دفعتاً دل کے کونوں سے نکل کر اس پر یورش کردیتا اس وقت اس کی انا کی ناؤ ڈولنے لگتی اور پھر وہ گویا صفحہ ہستی سے معدوم ہو جاتا۔ عین اس وقت اس کے گرد وہی دھندلکا چھا جاتا جو اسے لوگوں کی بے رحم نگاہوں سے محفوظ کرلیتا تھا اور اس دھندلے میں گھومتا گھومتا وہ سینما ہال میں جا پہنچتا اور وہ دھندلی دھندلی تصاویر اسے اپنی آغوش میں پناہ دے دیتیں۔
پیڈرو بہادر
ویسے تو اس زمانے کے لاہور میں بھی خوبصورت عمارات اور سڑکیں تھیں خوشنما دکانیں اور ہوٹل بھی تھے۔ اگرچہ تعداد میں بہت کم تھے۔ لیکن جس لاہور میں ایلی رہتا تھا وہ لاہور عظیم الشان عمارتوں بڑے بڑے ہوٹلوں اور دوکانوں سے سجے ہوئے باغات اور خوبصورت سڑکوں سے قطعی طور پر خالی تھا۔ فیشن ایبل علاقے میں جانے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ اس نے کئی مرتبہ بڑی دوکان میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کا دل دھک دھک کرنے لگا اور پیشانی پسینے سے بھیگ گئی تھی اور وہ چپ چاپ سر جھکائے وہاں سے چلا آیا تھا۔ مال روڈ پر جانا اس کے لئے قطعی طور پر ناممکن تھا۔ وہاں لوگ اکڑ کر چلتے تھے اور انہیں دیکھ کر ایلی محسوس کرتا جیسے اس کی ڈولتی ہوئی ناؤ کسی عظیم الشان جہاز سے ٹکرانے لگی ہو۔ وہ سہم جاتا۔ پٹڑی پر چڑھ جاتا اور پٹڑی سے اتر کر سڑک کے کونے پر سمٹ کر کھڑا ہو جاتا۔ سینما دیکھنے کے لئے وہ اس ہال میں جو عام سا ہو اور جہاں عام سے لوگ جاتے ہوں۔ جس کی عمارت عظیم الشان نہ ہو جس میں داخل ہوتے ہوئے وہ گھبراہٹ محسوس نہ کرے۔
اس زمانے میں لاہور میں صرف چار ایک سنیماہال تھے ایک بھاٹی دروازے کے باہر ایک ہیرا منڈی میں ایک شاہ عالمی کے باہر او ریہ تینوں ہال معمولی اور گھٹیا قسم کے تھے جہاں وہ آسانی سے جاسکتا تھا۔
میکلوڈ روڈ اس زمانے میں ایک ویران سڑک تھی ۔جس پر ایک بیٹھی سی عمارت میں ایمرسن سینما تھا۔ یہ عمارت اگرچہ چنداں عظیم الشان نہ تھی مگر وہاں جانے والے تماشائی قطعی طور پر مختلف تھے اور سینما کے ماحول سے انگریزیت اور فیشن کی بو آتی تھی۔ وہاںجانا ایلی کے بس کی بات نہ تھی ۔گیا تو وہ کئی بار تھا۔ ایک روپے کا ٹکٹ خریدنے کے لئے ٹکٹ گھر تک پہنچ بھی گیا تھا۔ مگر وہی دھندلکا چھا گیا اور پھر جب وہ دھندلکا چھٹا تو وہ شاہ عالمی گیٹ سینما کے ٹین ہال میں بیٹھا مسٹریز آف مائزہ دیکھتے ہوئے مونگ پھلی کھا رہاتھا۔ ان دنوں فلم خاموش ہوا کرتے تھے۔ ایک فلم مہینوں چلا کرتا تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں سیریل فلم دکھائے جاتے تھے۔ ممکن ہے برٹ انسٹی چیوٹ اور ایمپائر ہال میں ایسے فلم بھی دکھائے جاتے ہوں جو دس بارہ ریلوں میں ختم ہو جاتے ہوں۔ لیکن اس تفصیل کے متعلق ایلی کو کچھ معلوم نہ تھا۔بہرحال شہر کے سینما گھر میں بارہ پندرہ ایپی سوڈ دکھائے جاتے تھے ۔ جن کے اختتام پر ہیرو کسی بہت بڑی مشکل میں پھنس جاتا تھا اور بدمعاشوں کے نرغے میں ہیروئن اپنی عزت اور جان بچانے کی خاطر ہیرو کی امداد کے لئی دعائیں مانگ مانگ کر اس کا انتظار کرتے کرتے ہار کر مایوس ہو جاتی تھی۔
خاموش فلم دیکھنے میں ایک خوبی ضرور تھی۔ ہرچند ایک منٹ کے بعد چادر پر انگریزی میں مکالمے یا بیانیہ عبارت آ جاتی تھی اور ہال کے پچھلے حصے سے گنگناہٹ سی بلند ہوتی یہ مکالمے او رعبارتیں ایلی کے لئے واحد ذریعہ تعلیم تھیں۔ کیونکہ کالج میں لیکچر میں حاضر ہونا یہ سبق حاصل کرنا اس کے لئے ممکن نہ رہا تھا نہ ہی اسے یہ معلوم تھا کہ جماعتیں کہاں بیٹھتی ہیں اور کون پروفیسر انہیں پڑھاتے ہیں۔
پہلے دو سال کے دوران میں ایلی کا نام کئی ایک مرتبہ کالج سے خارج ہوا لیکن ہر بار کسی نہ کسی طرح علی احمد کو خبر مل جاتی اور علی پور کے کسی عزیز کو اطلاع دے دیتے اور جلد ہی محلے کا کوئی بزرگ علی پور سے آ پہنچتا اور دو ایک دن لمبے چوڑے لیکچر پلا کر اور ایلی کی فیس ادا کرکے واپس چلا جاتا اور ایلی کا نام ایک بار پھر کالج کے رجسٹر میں درج ہوجاتا۔ایک مرتبہ تو خود علی احمد اسے داخل کرانے کے لئے آگئے اور انہوںنے ایلی کو لیکچر پلانے کی جگہ ایک اور طریقہ اختیار کیا ۔ وہ باری باری ایلی کے تمام پروفیسروں اور کلرکوں سے ملے اور ایلی کو ان سب سے متعارف کرایا۔ پروفیسر حیران تھے کہ یہ کون لڑکا ہے کیونکہ انہوںنے ایلی کو جماعت میں کبھی نہ دیکھا تھا۔
اس واقعہ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ایلی کی جھجک کسی حد تک دور ہوگئی۔ وہ دھندلکا اب صرف کالج کے برآمدوں سیڑھیوں اور میدان تک محدود رہ گیا اور کلاس روم کا مطلع کھل گیا اب وہ بھاگ کر برآمدے سے گزرتا اور کلاس روم کی آخری بنچ پر بیٹھ جاتا اور پھر جب جماعت ایک لیکچر سے فارغ ہو کر دوسر ے کمرے کی جاتی تو وہ پہلے ہی بھاگ کر کسی کونے میں جا کھڑا ہوتا تاکہ لڑکوں کی نگاہیں اس پر نہ پڑیں۔ لیکن اس کے باوجود حاضر ی کے رجسٹر سے اس کا نام کٹنا بند نہ ہوا۔
طالب خیریت
خط لکھنے میں علی احمد کو کمال حاصل تھا انہیں ہر اس بات پر دلچسپی تھی جو لکھنے سے متعلق ہو مثلاً گھر میں ان کے لکھنے کے سامان کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ علی احمد میز پر بیٹھ کر نہیں لکھ سکتے تھے۔ لکھنے کے لئے انہیں فرش پر بیٹھنے کی ضرورت پڑتی۔ ان کی دوات ہمیشہ تھالی میں رکھی ہوتی۔ قلم کی نبیں گھس گھس کر اس قدر موٹی ہو جاتیں کہ دیکھنے والا شناخت نہ کرسکتا تھا کہ تحریر کلک سے لکھی گئی ہے۔ یا ریلیف کے نب سے لیکن علی احمد کو گھسی ہوئی نب سے لکھنے کا شوق تھاوہ ہر نئی نب کو گھس کر یا جانے کیسے موٹا کر لیا کرتے اور پھر اطمینان سے فرش پر بیٹھ کر لکھا کرتے اور اس شغل میں اس قدر کھو جاتے کہ انہیں گردوپیش کا احساس ہی نہ رہتا۔ یہ تو محض اتفاق کی بات تھی کہ لکھنے کے سلسلے میں ان کی توجہ حساب کتاب اور تاریخ پیدائش و وفات اور شادی بیاہ تک محدوو رہ گئی تھی۔ ورنہ اگر وہ تصنیف و تالیف کی طرف توجہ دیتے تو نہ جانے کیا نتائج ظہور میں آتے۔
خط لکھنے کے معاملے میں ان کی قابلیت کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک تو خط میں وہ مناسب القابات اور معقول انداز تحریر کے شدت سے قائل تھے ۔ ہر بات کو مناسب جزئیات اور حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر باقاعدہ طور پر انہیں نمبروار تحریر کرتے۔ ایلی اپنے خط میں چلاتا ’’جناب والا! آپ نے ابھی تک خرچ نہیں بھیجا میں سخت تکلیف میں ہوں۔ کالج کی فیس ادا کرنا ہے۔ جسم پر کپڑا نہیں۔ جیب میں پائی نہیں۔ از راہ کرم واپسی ڈاک خرچ بھیجئے تاکید مزید ہے‘ میں سخت تکلیف میں ہوں۔‘‘
بواپسی ڈاک ان کا گرامی نامہ ایک کارڈ پر موصول ہوتا کیونکہ وہ لفافہ لکھنے کے قائل نہ تھے ’’برخوردار الیاس تمہارا خط ملا۔ حالات سے آگاہی ہوئی یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی تم خریت سے ہو اور خوش و خرم ہو۔ یہاں سب خریت سے ہیں اور ہم سب تمہاری خریت کی خبر کے طالب ہیں۔ علی احمد۔‘‘
علی احمد کا خط پڑھ کر ایلی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔ غصے میں وہ پھر سے ایک لمبا چوڑا خط لکھتا ’’یہاں بالکل خیریت نہیں‘حالات بالکل نامساعد ہیں۔ میں مرا جارہا ہوں۔ میری خبر لیجئے۔ اگر آپ نے خرچ نہ بھیجا تو نہ جانے کیا ہوجائے گا۔ بواپسی ڈاک خرچ روانہ کیجئے۔‘‘
بواپسی ڈاک علی احمد کے طرف سے کارڈ موصو ل ہوتا۔ برخوردار تمہارا خیریت نامہ ملا۔ اسی طرح ہر دوسرے دن اپنی خیریت کی خبر بھیجتے رہا کروتاکہ باعث فکر نہ ہو۔
 
Top