علامہ دہشتناک مکمل

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

گیارہ افراد ایک قطار میں دوڑے جا رہے تھے۔ اس طرح کہ ایک کے پیچھے ایک تھا۔ اور یہ لمبی سی قطار کہیں سے بھی ٹیڑھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس قطار میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی۔
سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ اوائلِ جنوری کی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔
سب سے آگے ایک قد آور جسیم آدمی تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہو گی اور چہرہ ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ البتہ سر پر گھنے اور لمبے لمبے بال لہرا رہے تھے۔ آنکھوں میں بے پناہ توانائی ظاہر ہوتی تھی۔
سڑک سے وہ بائیں جانب والے میدان میں اُتر گئے اور پھر انہوں نے دائرے کی شکل میں دوڑنا شروع کر دیا تھا۔ ۔ ۔ دائرے میں بھی تنظیم اس حد تک بر قرار رہی تھی کہ وہ کہیں سے بھی غیر متوازن نہیں معلوم ہوتا تھا۔
“ہالٹ۔” قد آور آدمی نے زور سے کہا۔
اور وہ سب رُک گئے لیکن دائرہ بدستور بر قرار رہا۔
“ڈیس پریس” قد آور آدمی کی آواز پھر بلند ہوئی اور وہ سب تتر بتر ہو کر گھاس میں بیٹھ گئے۔
سبھی گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔ قد آور آدمی جہاں تھا وہیں کھڑا رہا اس کی ظاہری حالت سے کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ نہ چہرے پر تھکن کے آثار تھے اور نہ سینہ دھونکی کی طرح چل رہا تھا۔ قطعی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے بھی دوسروں کی طرح یہ مسافت دوڑتے ہی ہوئے طے کی ہے۔
آدھے منٹ سے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ اس نے “ فال اِن” کی ہانک لگائی اور وہ سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور تیزی سے قطار بنا لی۔
“ایٹ ایز” کہہ کر اس نے ان پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور بولا۔
“دوستو۔۔۔۔ طاقت کا سر چشمہ۔”
“ذہانت۔!” سب بیک آواز بولے۔
“کیڑے مکوڑے۔۔۔۔!” وہ پھر دھاڑا۔
“غیر ذہین دو پائے۔!” انہوں نے ہم آواز ہو کر کہا۔
“اور یہ کیڑے مکوڑے۔!” وہ ہاتھ اُٹھا کر بولا “ذہین آدمیوں کے آلۂ کار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔۔۔۔ انہیں استعمال کرو اور صرف اتنا ہی تیل انہیں دو کہ متحرک رہ سکیں۔۔۔۔ اگر ان میں سے کوئی ناکارہ ہو جائے تو اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دو اور اس کی جگہ دوسرا پرزہ فٹ کر دو۔ انہیں قابو میں رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ حقارت سے دیکھا جائے۔۔۔۔ اگر تم نے انہیں آدمی سمجھا تو یہ خود کو اہمیت دینے لگیں گے۔۔۔۔ اور پھر تم انہیں اپنے قابو میں نہ رکھ سکو گے۔!”
وہ خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا تھا! سامنے دس افراد سر جھکائے کھڑے تھے۔ یہ سب جوان العمر تھے اور ان میں سے چار لڑکیاں تھیں۔
“بیٹھ جاؤ۔۔۔۔!” قد آور آدمی نے ہاتھ ہلا کر کہا۔
انہوں نے اس طرح تعمیل کی تھی جیسے وہ پوری طرح ان پر حاوی ہو! ان کی آنکھوں میں اس کے لئے بے اندازہ احترام پایا جاتا تھا۔
“آج میں تمہیں ایک کہانی سناؤں گا۔” اُس نے کہا اور وہ سب دم بخود بیٹھے رہے۔!
“یہ کہانی ایک گاؤں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔ ایک بچے کی کہانی ہے۔۔۔۔ لیکن بچے سے اس کی ابتدا نہیں ہو گی۔۔۔۔ اس گاؤں میں صرف ایک اونچی اور پکی حویلی تھی بقیہ مکانات کچے تھے۔۔۔۔ تم سمجھ گئے ہو گے کہ حویلی میں کون رہتا تھا اور کچے مکانوں میں کیسے لوگ آباد تھے۔ بہرحال ایک بار ایسا ہوا کہ حویلی کا ایک فرد قتل کے ایک وقوعے میں ماخوذ ہو گیا۔۔۔۔ اور کچے مکان کے ایک باسی نے اس کے خلاف عدالت میں شہادت دے دی۔کچے مکان کا وہ باسی ایک دیندار آدمی تھا۔ اس نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، عدالت میں بیان کر دیا۔ اس کی شہادت کے مقابلے میں جھوٹی گواہیاں کام نہ آ سکیں اور حویلی والے ملزم کے خلاف جرم ثابت ہو گیا۔ پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔!”
قد آور آدمی خاموش ہو کر پھر کچھ سوچنے لگا اور سننے والوں کے چہرے اضطراب کی آماجگاہ بن گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔! “اب یہاں سے اس دیندار آدمی کی کہانی شروع ہوتی ہے جو حویلی والوں کا مزارع بھی تھا۔ جانتے ہو اس پر حویلی والوں کا عتاب کس شکل میں نازل ہوا؟ ایک رات جب کچے مکان کے لوگ بے خبر سو رہے تھے۔۔۔۔ کچے مکان میں آگ لگا دی گئی اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کوئی باہر نہ نکلنے پائے۔ چھوٹے بڑے افراد جل کر بھسم ہو گئے تھے۔ جس نے باہر نکلنے کی کوشش کی، اسے گولی مار دی گئی۔ اس کنبے کا صرف ایک بچہ زندہ بچ سکا تھا۔ وہ بھی اس لیے کہ واردات کے وقت وہ اس کچے مکان میں موجود نہیں تھا۔
دوسرے گاؤں میں اس کی نانہال تھی۔ کچھ دنوں پہلے اس کا ماموں اسے گھر سے لے گیا تھا۔۔۔۔ اور وہ وہیں مقیم تھا۔۔۔۔ بہرحال حویلی والوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔ تھیلیوں کے منہ کُھل گئے تھے۔ پھر قانون کے محافظوں کے منہ پر تالے کیوں نہ پڑ جاتے۔ آگ حادثاتی طور پر لگی تھی اور آٹھ افراد اپنی بدبختی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ اس دیندار آدمی نے ایک درندگی کے خلاف شہادت دی تھی لیکن اس کے ساتھ جو درندگی ہوئی، اس کا کوئی عینی شاہد قانون کو نہ مل سکا!۔۔۔۔ ظاہر ہے جس بات کا علم ہر ایک کو تھا اسے کیوں نہ ہوتا۔کون نہیں جانتا تھا کہ کچا مکان کیسے بھسم ہوا تھا۔۔۔۔ کون اس سے نا واقف تھا کہ آٹھ بے بس افراد کس طرح جل مرے۔۔۔۔ لیکن کس میں ہمت تھی کہ اب حویلی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکتا۔۔۔۔ وہ ایک شخص کی جرأت کا انجام دیکھ چکے تھے! اب تم مجھے بتاؤ کہ اس بچے کی کہانی کیا ہونی چاہیے؟”
کوئی کچھ نہ بولا۔ وہ خاموشی سے ان کے چہروں کا جائزہ لیتا رہا۔ دفعتاً ایک لڑکی مٹھیاں بھینچ کر چیخی۔“انتقام”
قد آور آدمی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
“تمہارا خیال درست ہے !” اس نے کہا۔“لیکن لہجہ مناسب نہیں ہے۔۔۔۔اس لہجے میں اُٹھنے اور جھپٹ پڑنے کا سا انداز ہے۔ اس بچے نے انتقامی جذبے کی تہذیب کی طرف توجہ دی تھی۔ خنجر سنبھال کر ٹوٹ نہیں پڑا تھا دشمنوں پر۔۔۔۔ وہ کیڑے مکوڑوں میں سے نہیں تھا، ذہین تھا۔ اس نے پوری حویلی ویران کر دی لیکن قانون کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچ سکا تھا۔”
ایک نوجوان نے اپنا ہاتھ اُٹھایا۔
“ہاں کہو۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔۔” قد آور آدمی نے اُس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔
“حویلی والوں تک بھی تو قانون کا ہاتھ نہیں پہنچ سکا تھا۔۔۔۔” نوجوان بولا۔۔۔۔
“قانون کے محافظوں کی چشم پوشی اس کی وجہ تھی۔ اگر جلی ہوئی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا تو ایک آدھ کے جسم سے گولیاں ضرور بر آمد ہوتیں۔ لیکن اس بچے کے انتقام نے کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑا تھا جس سے اس کا سراغ قانون کے محافظوں کو مل سکتا۔ اس کے مقابلے میں حویلی والے بھی کیڑے مکوڑے تھے۔۔۔۔ تو کہنے کا مطلب یہ کہ ذہانت ہی برتری کی علامت ہے۔”
“کوئی اور سوال؟”
فوری طور پر کسی نے کچھ نہیں پوچھا تھا پھر ایک لڑکی نے ہاتھ اٹھایا۔
“ہاں۔۔۔۔۔ پوچھو۔۔۔۔”
“کیا اب اس حویلی کا کوئی فرد زندہ نہیں۔۔۔۔؟”
“صرف ایک فرد۔۔۔۔ جس کی موت سے پورے ملک میں تہلکہ مچ جائے گا۔ تم دیکھ ہی لو گے۔۔۔۔”
“ اور اس کا سراغ بھی کوئی نہ پا سکے گا؟”
“ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
کیا وہ کوئی اہم شخصیت ہے؟”
“ بہت زیادہ اہم بھی نہیں ہے۔ حکمران جماعت کی بساطِ سیاست کا ایک مہرہ سمجھ لو۔۔۔۔”
“تب تو اس کا امکان ہے کہ انہیں سراغ مل جائے۔ اُس سے وہ چشم پوشی نہیں کر سکیں گے۔۔۔۔”
“اس بچے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اب بھی یہی ہو گا۔۔۔۔”
“میں نہیں سمجھ سکی جناب۔۔۔۔”
“ان کی توجہ صرف اپوزیشن کی طرف مبذول ہو گی۔۔۔۔”
“ہاں یہ تو ہے۔۔۔۔” کسی نے کہا۔
قد آور آدمی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ “اس بچے کو کوئی نہیں جانتا کیونکہ وہ بہت چھوٹی عمر میں نانہال سے بھی بھاگ نکلا تھا۔ بڑی دشواریوں سے اس نے اعلٰی تعلم حاصل کی لیکن طبعیت کا یہ عالم تھا کہ شاعری شروع کی تو دہشت تخلص کیا۔۔۔۔ اور اب بھی یونیورسٹی میں علامہ دہشت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور اس کی غیبت میں بعض طالب علم اسے علامہ دہشت ناک بھی کہتے ہیں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ لڑکی تم کیا کہنا چاہتی ہو؟”
“آپ نے یہ کہانی ہمیں کیوں سنائی ہے؟”
“جن پر اعتماد ہو جاتا ہے انہیں یہ کہانی ضرور سناتا ہوں۔۔۔۔ تم جیسے بے شمار شاگرد پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں بھی ہیں، ذہانت کو بروئے کار لا کر بڑی بڑی پوزیشنیں حاصل کر چکے ہیں۔۔۔۔ کیا تم دسوں میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتے ہو؟”
“ہرگز نہیں۔” سب بیک زبان بولے۔ “آپ ہماری زندگی ہیں۔”
“اس سال پانچ ہزار میں سے تم دس منتخب کئے گئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ دس جو دس لاکھ پر بھی بھاری رہو گے۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ عہد۔۔۔۔” وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔۔۔۔
دسوں پھر قطار میں کھڑے ہو گئے اور بیک آواز کہنے لگے۔ “ہماری ذہانت کا سر چشمہ آپ ہیں۔۔۔۔ ہم کبھی آپ سے غداری نہیں کریں گے۔۔۔۔”
“لیکن مجھے اپنے سوال کا جواب نہیں ملا جناب۔۔۔۔” لڑکی پھر ہاتھ اٹھا کر بولی۔
“کس سوال کا جواب؟”
“ہمیں یہ کہانی کیوں سنائی گئی ہے۔”
“یہ بتانے کے لئے کہ جرم کی پردہ پوشی دو ہی طریقوں سے ممکن ہے۔ یا تجوریوں کے دہانے کھول دو یا ذہانت کو بروئے کار لاؤ۔۔۔۔ دولت کے بل بوتے پر کیے جانے والے تمام اقدام کا اثر دیر پا نہیں ہوتا۔ اس لئے اسے کیڑے مکوڑوں کے لیے چھوڑ دو۔۔۔۔ حویلی والوں نے دولت کے بل بوتے پر صرف اپنا تحفظ کیا تھا لیکن دوسرے ذہنوں سے اپنے جرائم کے نقوش نہیں مٹا سکے تھے۔ بے شک وہ عدالت تک نہ پہنچ سکے لیکن گاؤں کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ کچا مکان کس طرح تباہ ہوا۔ اب ذہانت کا کارنامہ دیکھو۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ حویلی کیسے تباہ ہوئی اور حویلی والوں کی اموات میں کس کا ہاتھ تھا۔۔۔۔”
“میں سمجھ گئی جناب۔۔۔۔” لڑکی نے طویل سانس لے کر کہا۔
“دوسری بات۔! کچا مکان تباہ ہو گیا۔۔۔۔ حویلی فنا ہو گئی لیکن وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے جنہوں نے حویلی والوں کو عدالت میں پیش ہونے سے بچا لیا تھا۔ لہٰذا اس ذہین بچے کو بھی ہمیشہ زندہ رہنا چاہئے۔”
“علامہ دہشت !” ایک پر جوش جوان نے ہانک لگائی۔
“زندہ باد” متفقہ نعرہ تھا۔
علامہ دہشت نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ “جرائم کی پردہ پوشی کرنے والے قانون کے محافظ اس وقت سے موجود ہیں جب قانون نے جنم لیا تھا اور اب جب تک قانون موجود ہے وہ بھی زندہ رہیں گے۔ لہٰذا انہیں بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ جس دن یہ بھی ختم ہوئے تم بھی ختم ہو جاؤ گے۔ جرائم کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ قانون کے محافظوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں۔”
وہ خاموش ہو کر ان کی شکلیں دیکھنے لگا تھا۔
دفعتاً ایک لڑکی کی طرف انگلی اٹھا کر بولا۔ “کیا تمہیں اس میں شبہ ہے۔!”
“نن۔۔۔۔ نہیں جناب۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔؟”
“میں نے یہ 'لیکن' تمہارے چہرے پر پڑھ لیا تھا۔!”
“میری دانست میں جرائم کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے۔”
“میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتی ہو۔” علامہ دہشت نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔” وہی گھسی پھٹی بات کہ کسی قسم کی اقتصادی بد حالی جرائم کو جنم دیتی ہے۔!”
“جج۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔ !”
“غلط ہے! یہ صرف جذبۂ انتقام کی کار فرمائی ہے۔ اگر کوئی ایک روٹی چراتا ہے تو یہ معاشرے کی اس مصلحت کوشی کے خلاف انتقامی کاروائی ہے جس نے اسے بھوکا رہنے پر مجبور کر دیا۔”
“معاشرے کی مصلحت کوشی سمجھ نہیں آئی جناب۔!”
“یہ مصلحت کوشی ان چند افراد کی ہوس ہے جو وسائلِ حیات کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اصل مجرم وہی ہیں لیکن صدیوں سے ان کی ذہانت ا ن کے اس بنیادی جرم کی پردہ پوشی کرتی آ رہی ہے۔۔۔۔!”
“وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟”
“دوسروں کو اپنے سامنے جھکائے رکھنے کے لیے۔ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے۔ ان کی ذہانت ان کے اس بنیادی جرم کو صدیوں سے خدا کا قانون قرار دیتی چلی آ رہی ہے۔”
“میں سمجھ گئی جناب۔۔۔۔!”
“لیکن مطمئن نہیں ہوئیں۔ میں تمہاری آنکھوں میں اب بھی شبہات کی جھلکیاں دیکھ رہا ہوں۔” لڑکی کچھ نہ بولی۔ علامہ اسے گھورتا رہا۔
“میں دراصل۔۔۔۔ یہ کہنا چاہتی تھی جناب کہ مذہب۔!”
“بس۔۔۔۔!” علامہ بات کاٹ کر بولا۔ “تم پر میری محنت ضائع ہوئی ہے۔!”
لڑکی سختی سے ہونٹ بھینچ کر رہ گئی اور وہ کہتا رہا۔ “تمہاری ذہانت مشتبہ ہے۔۔۔۔!”
“شش شاید۔۔۔۔ مم۔۔۔۔ میں۔”
“بات آگے نہ بڑھاؤ۔ اس مسئلے پر کئی بار روشنی ڈال چکا ہوں اور تم سب بھی سن لو کہ حویلی والے بڑے مذہبی لوگ تھے۔۔۔۔ اور کچے مکان کا وہ فرد بھی بڑا مذہبی تھا جو اپنے متعلقین سمیت جل کر بھسم ہو گیا تھا۔”
کوئی کچھ نہ بولا۔ وہ لڑکی بھی خاموش ہو گئی تھی۔ علامہ نے اس طرح ہونٹ سکوڑ رکھے تھے جیسے کوئی کڑوی کسیلی چیز حلق سے اتار گیا ہو۔
“واپسی۔۔۔۔!” دفعتاً اس نے کہا اوروہ ایک بار پھر قطار میں دوڑتے نظر آئے لیکن ترتیب پہلی سی نہیں تھی۔ علامہ سب سے پیچھے تھا۔۔۔۔ اور پھر وہ ایک نوجوان سمیت دوسروں سے بہت دور رہ گیا۔ اس نے اپنے آگے والے نوجوان کو پہلے ہی ہدایت کردی تھی کہ وہ اپنی رفتار معمول سے کم رکھے۔ اب وہ دونوں برابر سے دوڑ رہے تھے اور دوسروں سے بہت پیچھے تھے۔
“پیٹر۔!” علامہ نے نوجوان کا نام لے کر مخاطب کیا۔
“یس سر۔۔۔۔!” پیٹر بولا اور دوڑ برابر جاری رہی۔
“یاسمین کے خیالات سنے تم نے؟”
“یس سر۔!”
“تمھارا کیا خیال ہے ؟”
“وہ راستے سے ہٹ سکتی ہے۔۔۔۔ اس نے مذہب کا نام لیا تھا۔”
“مجھے تم پر فخر ہے پیٹر۔۔۔۔ تم بہت ذہین ہو۔”
“میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں جناب۔”
“ضرور کہو پیٹر۔”
“قبل اس کے وہ استے سے ہٹے۔۔۔۔ ہم خود ہی کیوں نہ ہٹا دیں۔”
“میں تمہارے علاوہ اور کسی میں اپنا نائب بننے کی صلاحیت نہیں دیکھتا۔”
“میں اسے راستے سے ہٹا دوں گا جناب۔”
“مگر اسے نہ بھولنا کہ تم ایک ذہین آدمی ہو۔”
“آپ مطمئن رہئے۔”
پھر انہوں نے رفتار بڑھائی تھی اور دوسروں سے جا ملے تھے۔۔۔۔ قریباً آدھے گھنٹے بعد وہ اس جگہ پر پہنچے جہاں ان کا کیمپ تھا۔ چھوٹی چھوٹی گیارہ چھولداریاں نصب تھیں۔ ایک ایک کر کے وہ اپنی اپنی چھولداریوں میں داخل ہوئے اور آرام کرنے لگے۔
یہ سب علامہ دہشت کے مخصوص شاگرد تھے یعنی اس کے نظریات سے اتفاق رکھتے تھے۔ وہ نظریات جن کا اظہار وہ سب کے سامنے نہیں کرتا تھا۔ ویسے پڑھے لکھے حلقوں میں خاصی بڑی پوزیشن رکھتا تھا۔ لوگ اس کی علمیت سے مرعوب ہو جاتے تھے۔ یونیورسٹی میں 'ذہنی دیو' کہلاتا تھا۔ اچھا شاعر اور اچھا نقاد بھی تھا۔ آئے دن اس کی قیام گاہ پر بزم شعر و سخن کا اہتمام ہوتا رہتا تھا۔
بعض بے تکلف احباب کبھی کبھی کہہ بیٹھتے کہ سوشیالوجی کے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کو تو دہشت ناک نہ ہونا چاہئے۔ لہٰذا اسے تخلص بدل دینا چاہئے کوئی فرق نہ پڑے گا۔ وہ ہنس کر کہتا “کتنے ہی تخلص تبدیل کروں کہلاؤں گا دہشت ہی۔”
سردیوں کی تعطیل شروع ہوتے ہی وہ ہر سال اپنے مخصوص شاگردوں کا کیمپ لگاتا تھا اور انہیں جسمانی تربیت کی طرف بھی توجہ دینے کی ہدایات کرتا رہتا تھا۔۔۔۔ ان دسوں شاگردوں کا تعلق اسی کے ڈپارٹمنٹ سے نہیں تھا۔ ان کے مضامین مختلف تھے۔۔۔۔ یہ تو اس کی گھریلوں نشستوں کے دوران میں اس کے حلقہ بگوش ہوئے تھے۔
علامہ کی شخصیت بے حد پر کشش تھی اور اس کی ساری باتیں عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتی تھیں۔ ہر معاملے میں اس کا نظریہ عام نظریات سے مختلف ہوتا تھا اور اپنی قوت استدلال سے کام کے کر وہ دوسروں کو اس سے متعلق مطمئن بھی کر دیتا تھا۔۔۔۔ پہلے پہل لوگ اس کے طر زِ تقریر کے جال میں پھنستے تھے۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس طرح گرویدہ ہوتے چلے جاتے تھے جیسے وہ پیغمبرانہ انداز میں ان کے درمیان آیا ہو۔۔۔۔ ان میں کچھ انتہائی درجہ کے جاں نثار ہوتے تھے اور انہی جان نثاروں کو خاص شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہو جاتا تھا۔
بہرحال ان مخصوص شاگردوں کو وہ ہر طرح کی تربیت دیتا تھا۔ کیمپنگ کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ بے سر و سامانی کی حالت میں بھی زندگی بسر کرنے کے طریقوں سے آگاہ ہو جائیں۔۔۔۔
غلیلوں سے پرندوں کا شکار ہوتا اور زمین سے مختلف قسم کی جڑیں کھود کر نکالی جاتیں۔ پرندے آگ پر بھونے جاتے اور جڑیں ابالی جاتیں۔ کیمپنگ کے دوران میں یہی ان کی خوراک ہوتی۔
چھولداریوں مین راتیں گذارتے۔ سردی سے بچاؤ کے لئے کم سے کم سامان ان کے ساتھ ہوتا تھا۔۔۔۔ ہر فرد اپنی چھولداری میں تنہا رات بسر کرتا تھا۔۔۔۔
اس وقت اس دوڑ دھوپ کے بعد انہیں چھولداری میں صرف آدھے گھنٹے آرام کرنا تھا پھر دوپہر کے لئے غذا فراہم کرنے کی باری آتی۔
علامہ دہشت اپنی چھولداری میں پہنچ کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں فکر مندی کے آثار پائے جاتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد اس نے چھولداری سے سر نکال کر یاسمین کو آواز دی تھی۔
وہ اپنی چھولداری سے نکل کر اس طرح اس کی طرف دوڑ پڑی تھی جیسے اس کی پالتو کتیا ہو۔
“اند آ جاؤ۔” وہ ایک طرف کھسکتا ہوا بولا تھا۔
وہ چھولداری میں داخل ہوئی اور اس کی اجازت سے ایک طرف بیٹھ گئی۔ وہ کچھ شرمندہ سی نظر آ رہی تھی۔ سر جھکائے بیٹھی رہی۔ علامہ دہشت اسے گھورتا رہا پھر بولا۔ “تم اب بھی کچھ کہنا چاہتی ہو؟”
“جج۔۔۔۔ جی۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ مذہب کا نام غیر ارادی طور پر زبان سے نکل گیا تھا۔ اس کی بھی وجہ غالباً نفسیاتی ہو سکتی ہے۔”
“تمہاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!”
“آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔”
“ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!”
“یہ میں بھول گئی تھی!” یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔
“حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!”
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔۔ مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
'مذہب!' وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ “محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!”
“مم۔۔۔۔ میں سمجھتی ہو جناب!”
“میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں، مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔ لہٰذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔”
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔ وہ کہتا رہا۔ “میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریۂ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔ لہٰذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔”
“میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!” وہ گھگھیائی۔
“غلطی نہیں، میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!”
“جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہارِ خیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔”
“اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔”!
“میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔”
“فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جاؤ آرام کرو۔!” ۔۔۔۔ وہ اٹھ گئی۔

***​
 

فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔ دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔! “مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!”
“آپ کون ہیں!” فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کر پوچھا۔
“ڈاکٹر زہرہ جبیں۔”
“اوہ۔۔۔۔ ہیلو ڈاکٹر۔۔۔۔ کیا پریشانی ہے۔۔۔۔؟”
“شش شاید۔۔۔۔ میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔۔!”
“خیریت۔۔۔۔؟”
“ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!”
“میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے؟”
“دوا خانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!”
“کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے؟”
“ایسی ہی کچھ بات ہے۔!”
“اچھا میں آ رہا ہوں۔۔۔۔ ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔ کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟”
“میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!”
“میں آ رہا ہوں۔” فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔ فیاض کو دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر اس کی طرف بڑھی۔
“وہ لوگ دوا خانے میں ہیں۔ دواؤں کی الماریوں کو سیل کر رہے ہیں۔!”
“ضابطہ کی کاروائی میں دخل اندازی نہیں کی جا سکے گی۔” ! فیاض نے کہا۔ “پہلے تم بتاؤ معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟”
“پرسوں میری ایک مریضہ اچانک مر گئی تھی۔!”
“کس طرح۔ کیا یہیں ڈسپنسری میں؟”
“نہیں اپنے گھر پر۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ دوا کی شیشی۔۔۔۔ یہیں ڈسپنسری سے دی گئی تھی۔ اعصاب کو سکون دینے والی ٹکیاں تھیں۔ بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ میرے پاس کچھ شیشیاں پہلے کی پڑی ہوئی تھیں۔ ایک میں نے اسے دے دی تھی۔۔۔۔!”
“اوہ۔۔۔۔ کہیں تم اس لڑکی یاسمین کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔۔۔؟”
“وہی۔۔۔۔ وہی۔۔۔۔!”
“خداوندا۔۔۔۔ تو وہ ٹکیاں تم نے فراہم کی تھیں۔!”
“ہاں۔۔۔۔ اس وقت اس کی بڑی بہن دردانہ بھی ساتھ تھی۔!”
فیاض سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ وہ اس کیس سے واقف تھا۔۔۔۔ لڑکی نے اپنے گھر ہی پر بیگ سے دوا کی شیشی نکالی تھی۔ دو ٹکیاں کھائی تھیں اور ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی تھی۔
“اگر شیشی تم نے فراہم کی تھی تو۔۔۔۔” وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔
“شیشی سر بند تھی۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اس میں کیا ہے۔ اس پر لیبل اسی دوا کا موجود تھا جس کی اسے ضروت تھی۔۔۔۔ اس کی بہن کو یاد نہیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں یہیں میرے سامنے کھائی تھیں۔ میری نرس شہادت دے گی کہ وہ اس کے لیے گلاس میں پانی لائی تھی۔”
“تم نے اسے شیشی کب دی تھی؟”
“مرنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔!”
“ٹکیوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ان میں پوٹاشیم سائنائیڈ کی آمیزش تھی اور بناوٹ کے اعتبار سے وہ اصل ٹکیوں سے مماثل تھیں۔!”
“کیا ساری ٹکیاں۔۔۔۔؟” ڈاکٹر زہرہ جبیں نے پوچھا۔!
“جتنی بھی اس وقت شیشی میں تھیں۔!”
“دو دن تک وہ انہیں ٹکیوں کو استعمال کرتی رہی تھی۔!”
“تم نے بہت دیر میں مجھے مطلع کیا۔!” فیاض مضطربانہ انداز میں بولا۔
“میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔ ابھی ایک گھنٹہ پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور دواؤں کی الماریوں کو سیل کرنا شروع کر دیا۔”
“خیر میں دیکھتا ہوں۔ کیا وہ سب ڈسپنسری ہی میں ہیں۔؟”
زہرہ جبیں نے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔ “اب کیا ہو گا؟”
“فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ مرنے سے دو دن قبل بھی اس شیشی کی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔!”
فیاض مطب سے اٹھ کر ڈسپنسری میں آیا جہاں ضابطے کی کاروائی جاری تھی۔ حلقے کے تھانے کے انچارج کی نگرانی میں ساری ادویات سیل کر دی گئی تھیں۔ فیاض کو دیکھ کر وہ پذیرائی کے لیے آگے بڑھا۔
“کیا وارنٹ بھی ہے؟” فیا ض نے پوچھا۔
“نہیں جناب عالی۔۔۔۔!” ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
“ٹھیک ہے۔”
“ویسے گرفتاری کا بھی امکان ہے۔!”
“ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ وارنٹ تمہارے پاس ہی آئے گا۔!”
“جی ہاں۔!”
“اس کا خیال رکھنا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔!”
“آپ بے فکر رہیں جناب۔ آپ کو اطلاع دیئے بغیر کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔!”
“شکریہ۔!”
“میں تو خادم ہوں جناب!”
فیاض پھر مطب میں واپس آ گیا۔
“کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔؟” زہرہ جبین نے گھٹی گھٹی سی آواز میں پوچھا۔
“خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دلوانے جا رہا ہوں۔”
“اگر تم اعتراف نہ کر لیتیں کہ یہ شیشی یہیں سے دی گئی ہے تو کوئی بات نہیں تھی پھر بھی بے فکر رہو۔ ضابطے کی کاروائیاں تو ہوتی رہتی ہیں۔”
“اس کی پبلسٹی بھی ہو گی۔”
“یہ مجھ پر چھوڑ دو۔اگر دوستوں کے لئے اتنے چھوٹے موٹے کام بھی نہ کر سکوں تو پھر میرے وجود کا فائدہ ہی کیا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ تمھارا نام پریس تک نہیں پہنچنے پائے گا۔”
پھر فیاض نے مطب ہی سے اپنے ایک دوست ایڈووکیٹ کو زہرہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کے لئے ہدایات دی تھیں اور زہرہ کو مزید تسلّیاں دے کر وہاں سے روانہ ہو گیا تھا۔
اُسے مرنے والی کی قیام گاہ کا پتہ معلوم تھا۔ لہٰذا وہ سیدھا وہیں پہنچا۔ یاسمین کی بڑی بہن دردانہ بنگلے میں موجود تھی۔ زہرہ کے بیان کے مطابق دوا کی شیشی اس کے سامنے ہی یاسمین کو دی گئی تھی۔
“یہ درست ہے جناب۔” دردانہ نے فیاض کو سوال کے جواب میں کہا۔ “میں موجود تھی اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں کھائی تھیں۔”
“لیکن اس کا حوالہ آپ کے بیان میں نہیں ہے۔۔۔۔ اس سے لیڈی ڈاکٹر کی پوزیشن خطرے میں پڑ گئی ہے۔”
“مجھے افسوس ہے اگر ایسا ہوا ہے۔ میں اپنے بیان میں اس اضافے کے لئے تیّار ہوں۔”
“تو انہوں نے دو دنوں تک اسی شیشی سے وہ ٹکیاں استعمال کی تھیں؟”
“جی ہاں۔”
“اور آپ کو یقین ہے کہ کوئی دوسری شیشی نہیں خریدی گئی تھی۔”
“سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ بازار میں دستیاب ہی نہیں ہے۔”
“کیا وہ آخری ٹکیاں استعمال کرنے سے قبل گھر ہی پر رہی تھیں؟”
“جی نہیں۔۔۔۔ تھوڑی دیر قبل باہر سے آئی تھی۔”
“بہرحال۔” فیاض پُر تفکّر لہجے میں بولا۔ “آپ لوگوں کے بیان کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وقوعے سے قبل شیشی سے اصل ٹکیاں نکال کر ویسی ہی شکل والی دوسری ٹکیاں رکھی گئی تھیں کیونکہ وہ ساری ہی زہر آمیز ثابت ہوئی ہیں۔ زہر بھی ایسا کہ دو ٹکیاں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنے دے سکتیں۔”
دردانہ کچھ نہیں بولی۔ اس کے پپوٹے متورّم اور آنکھیں سرخ تھیں۔ چہرے پر گہرا اضمحلال طاری تھا۔ فیاض نے دوسرے افرادِ خاندان سے متعلق پوچھ گچھ شروع کر دی۔
دردانہ کا باپ ایک متمول سرکاری ٹھیکیدار تھا۔ ماں سوتیلی تھی لیکن لا ولد تھی۔ یہی دونوں لڑکیاں باپ کے بعد جائیداد اور دوسری املاک کی حق دار ہوتیں۔ بھائی کوئی نہیں تھا۔
“سنئے جناب۔” دردانہ بولی۔ “اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کوئی غلط نظریہ قائم کر لیں۔”
“میں نہیں سجھا۔”
“کہیں آپ لوگ یہ نہ سوچیں کہ سوتیلی ماں۔۔۔۔” وہ جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہو گئی۔
غالباً کسی کی آہٹ سن کر بات پوری نہیں کی تھی۔ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔
ادھیڑ عمر کی ایک خوش شکل عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ انداز پروقار تھا۔
دردانہ کھڑی ہو گئی۔ فیاض بھی اُٹھا تھا۔ عورت نے دردانہ سے کہا۔ “تم اپنی بات جاری رکھو۔”
“یہ میری ماں ہیں۔” دردانہ نے فیاض سے کہا۔
“آداب قبول فرمایئے محترمہ۔ بعض معاملات کی وضاحت کے لئے آپ لوگوں کو تکلیف دینی پڑی۔”
“تشریف رکھئے۔” عورت نے مغموم لہجے میں کہا۔
“ہاں تو میں یہ کہہ رہی تھی جناب” دردانہ نے ان کے بیٹھ جانے کے بعد کہا۔ “گھر میں کوئی ایسا فرد نہیں جو یاسمین کی موت کا خواہاں ہوتا۔”
“آپ غلط سمجھیں” فیاض مسکرا کر بولا۔ “افرادِ خاندان کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔”
“ نہیں! آپ شوق سے امکانات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔” عورت نے کہا۔ “میں ان بچیوں کی سوتیلی ماں ہوں۔”
“خدا کے لئے ایسا نہ کہئے امی۔ !” دردانہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔ “آپ نے کبھی ہمیں یہ محسوس نہیں ہونے دیا۔!”
“دل کا حال صرف خدا جانتا ہے۔!” عورت بولی۔
“تب پھر میں بھی اس کی موت کا باعث ہو سکتی ہوں۔!” دردانہ نے کہا۔
“میں در اصل یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آخری ٹکیاں استعمال کرنے سے پہلے کہاں سے آئی تھیں۔” فیاض بول پڑا۔
“کم از کم مجھے علم نہیں۔!”
“ان کے قریبی دوستوں کے نام اور پتے مل سکیں گے؟”
“میں صرف ایک لڑکی کا نام اور پتا جانتی ہوں جو کبھی کبھی یہاں آتی رہتی ہے!”
فیاض نے جیب سے نوٹ بک اور قلم نکالتے ہوئے کہا۔”براہِ کرم نوٹ کروا دیجئے۔”
“شیلا دھنی رام۔۔۔۔ دھنی اسکوائر۔۔۔۔ ففتھ اسٹریٹ۔۔۔۔!”
فیاض نے مزید پوچھ گچھ نہیں کی تھی۔ دونوں سے ایک بار اظہارِ ہمدردی کر کے وہاں سے چل پڑا تھا۔
دھنی اسکوائر والا دھنی رام شہر کے متمول ترین لوگوں میں سے تھا تو اس کی لڑکی سے یاسمین کے اتنے گہرے مراسم تھے کہ وہ اس کے گھر بھی آتی تھی۔
فی الحال فیاض نے اس کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اس کی بھاگ دوڑ کا مقصد صرف اسی قدر تھا کہ ڈاکٹر زہرہ جبین کا تحفظ کیا جا سکے ورنہ ابھی یہ کیس سول پولیس ہی کے پاس تھا۔

***​
 

شیلا دھنی رام ان چار لڑکیوں میں سے تھی جنہوں نے علامہ دہشت کے ساتھ کیمپ کیا تھا۔۔۔۔ اس وقت وہ اسی مسئلے پر گفتگو کرنے کے لئے علامہ کے پاس آئی تھی کیونکہ پولیس نے اس سے بھی یاسمین کے سلسلے میں پوچھ گچھ کی تھی۔
“قدرتی بات ہے۔” علامہ سر ہلا کر بولا۔ “قریب ترین لوگوں سے ضرور پوچھ گچھ کی جائے گی۔”
“لیکن انہوں نے کیمپ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔”
“اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کیمپنگ کئی دن پہلے ختم ہو گئی تھی۔”
“اس کی ایک وجہ اور بھی ہے۔!” شیلا نے کہا۔
“وہ کیا ہے؟”
“اسے ایک ہفتے تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں مل سکتی تھی۔ میں نے یہ کہہ کر دلوائی تھی کہ میں اسے اپنے ساتھ شاہ دار لے جانا چاہتی ہوں جہاں میرے چچا رہتے ہیں۔”
“اوہ۔۔۔۔!”
“اسی لئے کیمپنگ کا ذکر نہیں آنے پایا۔!”
“میں نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنے بیک ورڈ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ تمہیں مجھ کو آگاہ کر دینا چاہئے تھا۔ تمہاری ہی سفارش پر میں نے اسے خصوصی حلقے میں شامل کیا تھا۔ تم جانتی ہو کہ یہاں بیک ورڈ گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کے لئے گنجائش نہیں ہے۔”
“لیکن وہ ذاتی طور پر بے حد آزاد خیال تھی اور خُود بھی اپنے خاندان والوں کی تنگ نظری سے متنفّر تھی۔!”
“ویسے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ان لوگوں نے تمہارے ہی ساتھ جانے کی اجازت کیوں دے دی جبکہ تم ان کی ہم مذہب بھی نہیں ہو؟”
“میرے باپ سے ان کے باپ کے گہرے مراسم ہیں۔!”
“اس کے باوجود بھی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ بیک ورڈ گھرانوں کی عورتیں بے حد تنگ نظر ہوتی ہیں۔!”
“گھر کا سربراہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ یاسمین کے ڈیڈی نے میری بات کبھی نہیں ٹالی۔!”
“کیوں۔۔۔۔؟” علامہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
“میں نہیں جانتی۔!”
“کیا تمہارے باپ اور اس کے باپ کی دوستی بہت پرانی ہے؟”
“میری پیدائش سے بھی پہلے کی بات ہے۔!”
پولیس اُس کے بارے میں کیا معلوم کرنا چاہتی تھی؟”
“آخری ٹکیاں استعمال کرنے سے پہلے وہ کہاں سے آئی تھی؟”
“ہاں۔۔۔۔ یہ ضروری سوال ہے” علامہ نے پُر تفکّر لہجے میں کہا۔
“سر کیوں نہ ہم اپنے طور پر پتہ لگانے کی کوشش کریں؟”
“وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔۔۔۔ وہ واپس تو نہیں آ سکتی۔!”
“میں اس کے لئے بہت مغموم ہوں۔!”
“شیلا۔!” وہ تیز لہجے میں بولا۔” یہ جہالت کی بات ہے۔! کسی کے مرنے کا غم اسے ہونا چاہئے جسے خود نہ مرنا ہو۔!”
“مم۔۔۔۔ میں نہیں سمجھی؟”
“ایک دن ہم سب مر جائیں گے۔ لہٰذا کسی کے مرنے کا غم احمقانہ اندازِ فکر ہے۔”
“یہ تو ٹھیک ہے جناب۔!”
“شعور نے جہاں ہمیں ذہانت عطا کی ہے، وہیں کچھ احمقانہ کیفیتیں بھی ہم پر مسلط کر دی ہیں۔ ہمیں ان سے پیچھا چُھڑانا چاہئے۔”
شیلا کچھ نہ بولی۔!
“یقیناً کوئی اس کا دشمن تھا جس کا علم خود اسے بھی نہیں تھا۔!”
“وہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ سر کوئی بھی اسے ناپسند نہیں کرتا تھا حتٰی کہ سوتیلی ماں کی لاڈلی تھی۔!”
“سوتیلی ماں دوسری بہن کو بھی اسی طرح ختم کرا دے گی اور دوسرے اسے فرشتہ سمجھتے رہیں گے۔ یہی ہے ذہانت۔۔۔۔ واہ۔”
“میں تصور بھی نہیں کر سکتی۔!”
“اس کی سوتیلی ماں کو میرے مخصوص حلقے میں ہونا چاہئے تھا۔!”
شیلا پھر خاموش رہی۔ اس کے چہرے پر تکدّر کے آثار تھے۔
علامہ اسے گھورتا ہوا بولا۔! “تم یقین نہیں کرو گی، وہ بہت ذہین عورت معلوم ہوتی ہے۔ پولیس اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کر سکے گی۔ بہرحال اب تم اس معاملے کی طرف سے اپنا ذہن ہٹا لو۔ اگر پولیس کیمپنگ کے بارے میں پوچھے تو تم صفائی سے ہر بات بتا سکتی ہو۔ میری کیمپنگ کوئی پوشیدہ معاملہ نہیں ہے۔!”
“میری زبان سے ہر گز نہ نکل سکے گا کہ میں شاہ دارا کے بہانے کہیں اور لے گئی تھی۔”
“تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔! لیکن اس کا افسوس ہمیشہ رہے گا کہ میں نے نادانستگی میں ایک بڑی غلطی کی تھی۔!”
“کیسی غلطی جناب؟!”
“یہی کہ ایک بیک ورڈ گھرانے کی لڑکی کو اپنے خصوصی حلقے میں جگہ دے دی تھی۔”
“مجھے اس پر شرمندگی ہے جناب۔!”
“خیر آئندہ احتیاط رکھنا۔”بس اب جاؤ۔۔۔۔ پولیس سے اس لئے خائف ہونے کی ضرورت نہیں کہ یاسمین تمہارے حلقے سے تعلق رکھتی تھی۔”
“میں خائف نہیں ہوں جناب صرف اس لئے آئی تھی کہ آپ کو آگاہ کر دوں۔”
“اگر پولیس کو یہ علم ہو بھی گیا کہ تم اسے وہاں نہیں لے گئی تھیں جہاں کا بہانہ کیا تھا تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک ہفتہ پہلے جو کچھ بھی ہوا تھا۔ اس کا اس کی موت سے کیا تعلق؟”
شیلا چلی گئی تھی اور علامہ نے فون پر کسی کے نمبر ڈائل کئے تھے اور دوسری طرف سے جواب ملنے پر ماؤتھ پیس میں بولا تھا۔
“پیٹر کو فون پر بلا دیجئے۔” تھوڑی دیر بعد پیٹر کی آواز آئی تھی۔
“تم کتنی دیر میں مجھ تک پہنچ سکتے ہو؟” علامہ نے پوچھا۔
“زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ میں۔”
“بس تو پھر آ جاؤ۔”
“بہت بہتر جناب۔!”
علامہ نے ریسیور کریڈل کر رکھ کر طویل سانس لی تھی اور ایک آرام کرسی پر نیم دراز ہو کر پیٹر کا انتظار کرنے لگا تھا۔
پیٹر ٹھیک تیرہ منٹ بعد کمرے میں داخل ہوا۔
“تم بہت شاندار جا رہے ہو پیٹر۔” علامہ سیدھا بیٹھتا ہوا بولا۔
“شکریہ جناب۔!”
“تم نے اس کی ٹکیاں کہاں اور کیسے تبدیل کیں تھیں۔۔۔۔؟”
“مجھے اس کی ایک کمزوری کا علم تھا“ اسی سے فائدہ اٹھایا۔ چائے پینے کے دس منٹ بعد باتھ روم ضرور جاتی ہے۔۔۔۔ اس دن ریالٹو کے قریب ملی تھی۔ میں اسے چائے پلانے کے لئے اندر لے گیا۔ ایک کیبین منتخب کر کے اس میں جا بیٹھے۔ چائے منگوائی اس کا علم تو پہلے سے ہی تھا کہ وہ بیگ میں اعصاب کو سکون دینے والی ٹکیاں ضرور رکھتی ہے۔ میں نے ویسی ہی زہریلی ٹکیاں اسی وقت سے اپنے پاس رکھنا شروع کر دی تھیں جب سے اس کا فیصلہ کیا تھا۔ جہاں بھی موقع ملتا مجھے یہی کرنا تھا۔ بہر حال چائے پی کر دس منٹ بعد اس نے باتھ روم کا راستہ لیا تھا۔ بیگ کیبن میں ہی چھوڑ گئی تھی۔ لہٰذا وہ کام بے حد آسان ہو گیا۔”
“کسی شناسا نے تمھیں اس کے ساتھ دیکھا تو نہیں تھا؟”
“میری دانست میں تو نہیں۔”
علامہ نے اسے شیلا سے گفتگو کے متعلق بتاتے ہوئے کہا۔ “اس نے ایک بیک ورڈ گھرانے کی لڑکی کی سفارش کرکے غلطی کی تھی۔۔۔۔”
“یاسمین بے حد آزاد خیال تھی۔”
“اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات اس کی ہے کہ وہ کسی اور بہانے سے اسے کیمپنگ کے لئے اجازت دلوا لائی تھی۔ ابھی پولیس کے علم میں نہیں آئی یہ بات۔”
“تو پھر شیلا بھی۔۔۔۔”
“جلد بازی کی ضرورت نہیں۔ بہرحال سوچنا پڑے گا۔ ویسے تم محتاط رہو۔”
“میں خائف تو نہیں ہوں جناب، مجھے ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے۔۔۔۔ یاسمین کی موت کی خبر سننے کے بعد گہری نیند سویا تھا۔۔۔۔”
“تم بہت اونچے جاؤ گے اسے لکھ لو۔”
“شکریہ جناب۔”
“شیلا کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے بعد تمھیں مطلع کردوں گا۔”
“بہت بہتر۔۔۔۔”

***​
 

فون کی گھنٹی بجی تھی اور کپیٹن فیاض نے ریسیور اٹھایا تھا لیکن دوسری طرف بولنے والے کی آواز پہچان کر بھنویں سکوڑ لی تھیں۔
“کیا بات ہے؟” اس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔ “اس وقت میں بہت مصروف ہوں۔”
“کیا آلو چھیل رہے ہو جسے بٹاٹا بھی کہتے ہیں۔۔۔۔؟”
دوسری طرف عمران کی آواز آئی۔
“بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ جلدی سے اصل موضوع کی طرف آجاؤ” ۔۔۔۔ فیاض نے غصیلے لہجے میں کہا۔۔۔۔
“تم بیگم تصدیق کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟”
“تم سے مطلب۔۔۔۔؟”
“بیگم تصدیق ان کے سمدھیانے سے تعلق رکھتی ہیں۔”
“میں نہیں سمجھا۔۔۔۔”
“ثریا کی چیچیا ساس کے بھانجے کی بہو کی خالہ ہیں بیگم تصدیق۔۔۔۔”
“فضول باتیں نہ کرو۔”
“اگر ڈاکٹر لق لقا قبلہ والد صاحب کے پاس پہنچ گئیں تو تمھاری والی ڈاکٹر صاحبہ خطرے میں پڑ جائیں گی۔۔۔۔ لہٰذا اصل مجرم کو گھر کے باہر تلاش کرو تو بہتر ہو گا”۔۔۔۔
“کیا تم کسی نتیجے پر پہنچ گئے ہو۔۔۔۔؟” فیاض نے نرم پڑتے ہوئے پوچھا۔
“مجھے اتنی فرصت کہاں۔۔۔۔” دوسری طرف سے آواز آئی۔ “بیگم تصدیق دل کی مریضہ بھی ہیں لہذا اب تم ادھر کا رخ بھی نا کرنا۔ میں نہیں چاہتا کہ تمھاری محبوبہ صاحبہ والد صاحب قبلہ کی بھی نظر میں آجائیں۔۔۔۔”
“کیوں فضول باتیں کر رہے ہو۔ کہاں ہو اس وقت؟”
“ جہنم میں بیٹھا سلیمان کی شادی پر پچھتا رہا ہوں۔”
“کہیں مت جانا۔۔۔۔ میں آ رہا ہوں۔”
“اب تم بھی آ جاؤ گے۔۔۔۔؟” مری مری سی آواز آئی۔
فیاض نے کچھ کہے بغیر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔۔۔۔ اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ہاتھ ہی میں لیے بیٹھا رہا۔
کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔ پھر ایک سگریٹ سلگا کر اٹھ گیا۔
چہرے پر پائے جانے والے آثار بتا رہے تھے کہ شرمندگی اور جھنجھلاہٹ کا بیک وقت شکار ہوا ہے۔
آدھے گھنٹے بعد عمران کے فلیٹ پر داخل ہوا تھا۔ جوزف سے مڈ بھیڑ ہوئی۔
“سلیمان ڈاکٹر کو بلانے گیا ہے۔” اس نے اطلاع دی۔
“کیوں بکواس کرتے ہو؟”
“یقین کرو کیپٹن ان پر غشی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ میں نے بہت منع کیا تھا ہر طرح سمجھایا تھا لیکن انہوں نے مجھے احمق سمجھا۔”
“قصہ کیا ہے؟”
“گھریلو ماحول سے بچنے کے لیے گھر چھوڑا تھا اور سلیمان کی شادی کرا کے پھر وہی ماحول پیدا کر لیا۔۔۔۔”
“لیکن غشی کے دورے۔۔۔۔ وہ ہے کہاں؟”
“ آئیے میرے ساتھ۔۔۔۔” وہ بیڈ روم کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
“کون آیا ہے رے کالیے۔۔۔۔؟” کچن کی جانب سے نسوانی آواز آئی۔
“دیکھا تم نے کیپٹن۔۔۔۔؟” جوزف بھنا کر بولا
“کیا دیکھا؟”
“آخر اسے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون ہے۔۔۔۔؟”
“چلو۔۔۔۔ چلو!” فیاض بیزاری سے بولا۔
وہ اسے بیڈ روم میں لایا تھا۔ سامنے ہی بستر پر چت پڑا نظر آیا۔ آنکھیں بند تھیں۔
“اب تم جاؤ” فیاض نے مڑ کر جوزف سے کہا۔
جوزف ہچکچاہٹ کے ساتھ واپس ہوا تھا۔ فیاض چند لمحے کھڑا عمران کو دیکھتا رہا۔ پھر آگے بڑھا ہی تھا کہ عمران نے مسکرا کر آنکھیں کھول دین۔ نہ صرف کھول دیں بلکہ بائیں دبائی بھی تھی اور اٹھ بیٹھا تھا۔
“کسی دن اسی طرح پاگل ہو جاؤ گے اور لوگ عادت ہی سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔” فیاض بھنا کر بولا
“ میرے پیارے دوست!” عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔ “مجھے یہاں سے نکال لے چلو خدا را!”
“تم تو بے ہوش تھے!”
“اسی طرح ڈوج دے دے کر زندگی بسر کر رہا ہوں لیکن وہ اول درجے کا بد معاش ہے۔ ڈاکٹر کو بلانے کے حیلے سے خود نکل بھاگا۔ گاڑی بھی لے گیا ہو گا۔۔۔۔ شادی کے پندرہ دن بعد ہی سے اختلاج قلب کی شکایت کرنے لگا تھا!”
“زندگی بھر اسی طرح مٹی پلید رہے گی تمہاری!” فیاض نے کہا۔
“اور تو اور مردود کہتا ہے کہ شادی اس لیے کی تھی کہ وہ کھانا پکائے گی اور میں آزاد ہو جاؤں گا!”
“تو اب تم بھی شادی کر کے آزاد ہو جاؤ!”
“مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش مت کرو سوپر فیاض!”
فیاض کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔” فون پرکیا بکواس کر رہے تھے؟”
“اب وہ بیچاری ایسی بھی نہیں ہے کہ تم اسے بکواس کہو!”
“میں بیگم تصدّق کی بات کر رہا تھا!”
“میں سمجھا شاید ڈاکٹر زہرہ جبین!”
“تم نے قبلہ والد کا حوالہ کیوں دیا تھا؟”
“یہ غلط نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہد کی رشتہ دار ہیں۔۔۔۔ اگر ڈاکٹر مہ لقا نے والد صاحب کے گوش گزار کر دیا تو تم زحمت میں پڑو گے!”
“میں صرف پوچھ گچھ کرتا رہا ہوں!”
“دن میں کئی بار؟”
“اتفاق سے!”
“خیر۔۔۔۔ تو کیا معلوم کیا تم نے؟”
“کچھ بھی نہیں۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو جائے کہ آخری ٹکیاں استعمال کرنے سے قبل وہ کہاں تھی، اسی نظریئے پر قائم رہنا پڑے گا کہ ٹکیاں گھر ہی میں کسی نے تبدیل کی تھیں!”
“دو دن بعد!” عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔ “گھر کا کوئی فرد اتنا احمق نہیں ہو سکتا، وہ اسی دن ٹکیوں کو بدلنے کی کوشش کرتا جس دن شیشی خریدی گئی تھی۔ اسی طرح وہ شبہے سے بالا تر ہو سکتا!”
“ہاں یہ سوچنے کی بات ہے۔”
“لہٰذا اسی پر زور دیتے رہو کہ وہ ٹکیاں استعمال کرنے سے قبل کہاں تھیں!”
“کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔۔ محض ڈاکٹر جبین کی وجہ سے مجھے توجہ دینی پڑی!”
“ٹھیک ہے۔! میں بھی ہر عمر میں عشق کرنے کا قائل ہوں۔۔۔۔!”
“عشق۔۔۔۔” فیاض دانت پیس کر بولا۔
“فرینڈ شپ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ چھوٹی عمر والوں کو ہنسنے کا موقع مل رہا ہو!”
“وہ میری بیوی کی معالج ہے!”
“اس طرح بیوی بھی خوش۔۔۔۔ واہ کپتان صاحب! اگر کبھی شادی کی توفیق عطا ہوئی تو بیوی کو دائم المرض بنا کر رکھ دوں گا۔۔۔۔ اور روزانہ نئی لیڈی ڈاکٹر!”
“بکواس سننے نہیں آیا!”
“میں وعدہ کرتا ہوں کہ ڈاکٹر جبین کو اس بکھیڑے سے صاف نکال لے جاؤں گا۔۔۔۔ مگر جاؤں گا کہاں؟ سیدھے تمہارے گھر!”
“تمہاری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے کوئی خاص بات معلوم کی ہے۔۔۔۔!”
“ابھی تک تو نہیں لیکن جلد ہی امید ہے۔”
ٹھیک اسی وقت کسی نے دروازے پر ہولے سے دستک دی تھی۔
“کون ہے؟” عمران نے اونچی آواز سے پوچھا۔
“صاحب کیا چائے بنانی پڑے گی۔۔۔۔؟” گل رخ کی آواز آئی۔
“اور سنئے!” عمران فیاض کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔ “بنانی پڑے گی۔۔۔۔ یہ تو اس مردود سے بھی دو جوتے آگے جا رہی ہے!”
“میں چائے نہیں پیؤں گا!” فیاض نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
“نہیں بنانی پڑے گی۔” عمران اونچی آواز میں بولا “ آرام فرمائیے!”
“میری سمجھ میں نہیں آتا آخر تم کس مٹی سے بنے ہو۔۔۔۔” فیاض بولا۔
“ملتانی مٹی سے۔۔۔۔ کافی چکنی ہوتی ہے۔” عمران نے سر ہلا کر کہا۔ چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔۔۔۔ “یاسمین کے دوستوں کو بھی تم نے ٹٹولا ہو گا۔”
“صرف ایک۔۔۔۔ شیلا دھنی رام۔۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی اور ایسا نہیں مل سکا جس سے اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو سکتا۔۔۔۔ لیکن وقوعے والے دن وہ شیلا سے بھی نہیں ملی تھی۔۔۔۔”
“اور کیا جانتے ہو شیلا دھنی رام کے بارے میں۔۔۔۔؟”
“اس کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت۔۔۔۔؟” فیاض نے سوال کیا۔
“دھنی رام کے گہرے دوستوں میں سے ہیں مسٹر تصدّق!”
“ہوں گے۔۔۔۔” فیاض نے لا پرواہی سے کہا۔
“اچھا۔۔۔۔ اچھا۔!” عمران نے اس طرح کہا جیسے فیاض کا جواب بالکل درست ہو۔۔۔۔
فیاض خاموش بیٹھا رہا۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد عمران نے کہا۔۔۔۔ “اب تم سوچ رہے ہو گے کہ یہاں کیوں آئے تھے!”
“تم ٹھیک سمجھے۔۔۔۔” فیاض اٹھتا ہوا بولا۔۔۔۔ “یہ بات تو فون پر طے ہو سکتی تھی کہ اب میں بیگم تصدّق وغیرہ سے مزید پوچھ گچھ نہ کروں!”
“عقل مند ہو لیکن کسی قدر لیٹ ہو جاتے ہو!”
“میں جانتا ہوں تم نے مجھے کسی معاملے میں اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔ خیر دیکھا جائے گا!”
“سنو پیارے۔ تمہیں اس کے علاوہ کسی بات سے سر و کار نہ ہونا چاہئے کہ ڈاکٹر جبین شبہے سے بالاتر ہو جائیں۔ اس کی ذمہ داری میں پہلے ہی لے چکا ہوں۔۔۔۔”
“گویا تم صاف الفاظ میں کہہ رہے ہو کہ میں دخل اندازی نہ کروں۔”
“اگر ڈاکٹر جبین کی خیر و عافیت خداوند کریم سے نیک مطلوب ہو گی۔۔۔۔ تو تم وہی کرو گے جو میں کہوں گا!”
“ٹھیک ہے۔۔۔۔ خدا حافظ!” کیپٹن فیاض فلیٹ سے نکلا چلا آیا تھا۔

***​
 

فیاض کے جانے کے بعد اس نے فون پر جولیانا فٹز واٹر کے نمبر ڈائل کئے تھے اور ایکس ٹو کی آواز میں بولا تھا! “رپورٹ؟”
“ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی جناب۔۔۔۔” دوسری طرف سے آواز آئی۔ “صفدر شاہ دارا گیا ہے!”
“شیلا سے متعلق یہاں کون معلومات فراہم کر رہا ہے۔۔۔۔؟”
“کیپٹن خاور جناب!”
“کیا اس نے رپورٹ دی نہیں؟!”
“ابھی نہیں دی جناب!”
“سست رفتاری سے کام ہو رہا ہے!” وہ ایکس ٹو کی آواز میں غرایا۔
“مجھے اعتراف ہے جناب!”
“جیسے ہی رپورٹ ملے مجھے مطلع کرنا!”
“ایسا ہی ہو گا جناب!”
عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ کر جوزف کو آواز دی تھی۔
دوسرے ہی لمحے میں وہ دروازہ کھول کر بیڈ روم میں داخل ہوا۔
“سلیمان واپس آیا؟”
“نن۔۔۔۔ نہیں باس۔ لیکن تمہیں کیا معلوم۔۔۔۔؟ وہ تو تمہاری بے ہوشی کے دوران میں گیا تھا!”
“خواب دیکھا تھا میں نے!” عمران دھاڑا۔
“میرا اس میں کیا قصور ہے باس۔۔۔۔؟”
“سارا قصور تیرا ہی تو ہے۔۔۔۔ کیوں ان دونوں کو لڑنے جھگڑنے دیتا ہے!”
“میں کیا کر سکتا ہوں؟ ویسے میرا بس چلے تو دونوں کو قتل کر دوں!”
“کیوں؟”
“لڑتے جھگڑتے ہیں اور پھر ہنسنے بولنے لگتے ہیں!”
“تیری دانست میں کیا ہونا چاہئے۔۔۔۔؟”
“قتل اور صرف قتل جس طرح دونوں ایک دوسرے پر دانت پیستے ہیں ہیں ، وہ قتل ہی کا متقاضی ہے!”
“یہ تجھ پر خون کیوں سوار ہے۔۔۔۔؟”
“یہ جھگڑے کی توہین ہے باس کہ وہ پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگیں!”
“جھگڑا کس بات پر ہوتا ہے؟”
“یہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔ ! بس ہنستے بولتے ایک دم سے ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں!”
“کیا دونوں کے دماغ چل گئے ہیں؟”
“خدا ہی بہتر جانے مجھے تو اب کہیں اور بھیج دو باس!”
“جنت الفردوس کے بارے میں کیا خیال ہے؟”
“ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے !”
“او بد بخت شادی شدہ لوگوں کے سے انداز میں کیوں گفتگو کر رہا ہے؟”
“سنجیدگی سے سوچو باس! کہیں سچ میرا دماغ الٹ نہ جائے!” عمران اسے ترحّم آمیز نظروں سے دیکھتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد جوزف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ “ہو گئی ہو گی شادی لیکن میں ان کے اولاد تو ہرگز نہ ہونے دوں گا!”
عمران اچھل پڑا۔ “تو یعنی کہ تو اولاد نہ ہونے دے گا؟”
“ہاں۔۔۔۔ یہ میرا فیصلہ ہے باس!”
“کیا تیری سفارش پر ہونے والی تھی اولاد؟”
“تم نہیں جانتے کالا جادو!”
“واقعی پاگل ہو گیا ہے!”
“الو کی کھوپڑی مل گئی ہے اور گیدڑ کی تھوتھنی کے لئے ہم شکار پر چلیں گے باس۔!”
“شاید اب تم لوگ مجھے زندہ نہیں رہنے دو گے۔”
“تم خود سوچو باس کیا یہ دونوں اس قابل ہیں ‌کہ والدین کہلائیں؟”
“او عقل مند اس دنیا میں ننانوے فیصد افراد اس قابل نہیں ہیں کہ والدین کہلائیں پھر بھی کہلاتے ہیں۔!”
“اسی لئے تو دنیا برباد ہوئی جا رہی ہے۔۔۔۔!”
“میں اپنا سر دیواروں سے ٹکرا کر مر جاؤں گا۔!”
“بس اتنا ہی ہے تیرے بس میں۔ جب دل چاہے کر گزر۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا، دفع ہو جا۔!” عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔
جوزف کے جاتے ہی فون کی گھنٹی بجی تھی۔ عمران نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
“ہیلو۔!”
“میں مہ لقا بول رہی ہوں۔۔۔۔!”
“اچھا اچھا سامالیکم۔!”
“آپ نے کیا کیا۔۔۔۔؟”
“سب ٹھیک ہے۔ اب ان لوگوں سے پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔!”
“لیکن مجرم کا سراغ تو ملنا ہی چاہئے۔”
“دعا تعویذ کرایئے۔ ہاتھ باندھے خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔!”
“کیا مطلب؟”
“ظاہر ہے کہ بیگم تصدّق دل کی مریضہ ہیں۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ خود ان کے ہاتھ صاف ہوں لیکن انہی کا کوئی ہمدرد بھی ہو سکتا ہے۔!”
“میں نہیں سمجھی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔!”
“اگر کوئی ہمدرد دونوں لڑکیوں کو ختم کر کے تصدّق صاحب کا وارث انہیں بنانا چاہتا ہو تو۔۔۔۔ پھر ان کے بعد خود مالک بن بیٹھنے کے امکانات پر غور کر رہا ہو تو۔”
“اتنی لمبی چھلانگ کون لگانا پسند کرے گا۔۔۔۔؟”
“کیا دس بیس سال کا فکسڈ ڈپازٹ کرا دینا انسانی فطرت کے خلاف ہے؟”
“بس تو پھر رختِ سفر باندھئے۔ بیگم تصدّق کے آبا و اجداد خراسان سے آئے تھے۔!”
“یہ لیڈی ڈاکٹر زہرہ جبین کیسی عورت ہے؟”
“دیکھئے اس بیچاری کو لپیٹے نہیں۔ یاسمین دو دن تک وہی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔!”
“میرا مطلب ہے کہ اس نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟”
“میں بھلا اس کا کیا جواب دے سکتی ہوں۔۔۔۔ ویسے آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟”
“شادی کرنے سے مجھے زکام ہو جاتا ہے۔!”
“کتنی کر چکے ہیں اب تک؟”
عمران خاموش رہا۔ ”ہیلو“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
“یاسمین ایک ایک ہفتے تک گھر سے غائب رہتی تھی۔!” عمران نے کہا۔
“مجھے اس کا علم نہیں۔”
“مرنے سے چار دن قبل بھی وہ ایک ہفتے بعد گھر میں داخل ہوئی تھی۔”
“خدا جانے۔!”
“بات بیگم تصدّق کی تھی۔!”
ایکس ٹو والے فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔ اور عمران نے ڈاکٹر مہ لقا سے کہا۔”جو کچھ بھی امکان میں ہے ضرور کیا جائے گا۔”
“آپ ہمارے گھر کب سے نہیں آئے۔!”
“عدیم الفرصتی کی وجہ سے اپنا ہی گھر چُھوٹا ہوا ہے۔” کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
“ایکس ٹو والے فون کا ریسیور اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس سے منسلک ٹیپ ریکارڈر کا سرخ بلب روشن ہو گیا۔ معینہ مدت میں ریسیور نہ اٹھانے کی بنا پر کال ریکارڈ ہونے لگی تھی۔”
وہ چپ چاپ فون کے پاس سے ہٹ آیا۔ پیغام ریکارڈ ہو جانے کی علامت ظاہر ہوتے ہی اس نے ٹیپ ریکارڈ کا بٹن دبایا تھا۔ اسپول ریوائنڈ ہونے لگا۔!”
تھوڑی دیر بعد جولیانا فٹز واٹر کی آواز آئی تھی۔ “کیپٹن خاور کی رپورٹ۔ شیلا دھنی رام، عمر چوبیس سال، ففتھ ایئر میں ‌سوشیالوجی کی طالبہ ہے! آزاد خیال اور سرکش ہے! خاندان کے کسی فرد سے قابو میں نہیں آئی۔ کئی دن گھر سے غائب رہتی ہے۔ بہت جلد بے تکلف ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر لڑ کے دوست ہیں۔ سیر و شکار کی رسیا ہے۔ اکثر اس کے احباب جنگلوں میں کیمپنگ کرتے رہتے ہیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے لیکن ان افراد کے زمرے میں نہیں آتی جو منشیات کا شوق رکھتے ہیں۔ ! ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکی جس کی بنا پر جنسی بے راہ روی کی شکار بھی کہی جاسکے۔ ماضی قریب میں بھی وہ ایک ہفتے کی کیمپنگ میں شریک رہی تھی۔ اس کیمپنگ میں ‌گیارہ افراد نے حصہ لیا تھا! او ور اینڈ آل۔!”
عمران نے ٹیپ ریکارڈر کا سوئچ آف کر دیا۔ اس کی آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ “ماضی قریب میں کیمپنگ۔۔۔۔!” وہ آہستہ سے بڑ بڑایا۔! “گیارہ افراد” اب وہ پھر جولیانا فٹز واٹر کے نمبر ڈائل کر رہا تھا۔ دوسری طرف سے فوراً ہی جواب ملا۔
“رپورٹ مل گئی۔ ان گیارہ افراد کے نام اور پتے درکار ہیں ‌جنہوں نے کیمپ میں ‌شرکت کی تھی۔ جتنی جلد بھی ممکن ہو۔” عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
“بہت بہتر جناب۔”
“دیٹس آل۔!” کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
چند لمحے کھڑا کچھ سوچتا رہا اور پھر سٹنگ روم میں ‌آ کر گل رخ کو آواز دی۔
“جی صاحب؟”
“دوپہر کا کھانا۔ دو بج رہے ہیں۔!”
“میں سمجھی تھی شاید آپ باہر جائیں گے۔ اب تو مسور کی دال کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔”
“اس سے پہلے کیا تھا؟”
“کھیری گردے اور آلو کے کباب۔۔۔۔!”
“خدا غریقِ رحمت کرے تم دونوں کو۔۔۔۔ وہ مردود واپس آیا کہ نہیں؟”
“واپس نہ آتا تو مسور کی دال ہی کیسے بچتی۔۔۔۔!”
“کہاں ہے۔۔۔۔؟”
“قیلولہ کر رہا ہے۔” وہ برا سامنہ بنا کر بولی۔! “کوٹھی میں ہوتا تو اب تک چندیا صاف ہو گئی ہوتی۔۔۔۔ میری تو تقدیر ہی پھوٹ گئی ہے چھوٹے سرکار۔۔۔۔!”
“مجھے نہیں معلوم تھا کہ شادی کے بعد قیلولہ بھی شروع کر دے گا۔!”
“آپ جیسے بادشاہ کا نوکر ٹھہرا۔”
“ارے مسور کی دال ہی لے آ بادشاہ کے لئے۔۔۔۔”
“مجھے بڑی شرمندگی ہے صاحب جی۔۔۔۔ اسی نے کہا تھا کہ آپ دوپہر کا کھانا نہیں کھائیں گے۔!”
“اب میں ‌کہہ رہا ہوں کہ کھاؤں گا۔!”
“صرف دال۔۔۔۔ ایک چپاتی بھی تو نہیں ‌چھوڑی۔!” گل رخ نے کہا۔
“صرف دال کھانے کی ترکیب یہ ہے کہ اگر پتلی نہ ہو تو اس میں ‌ایک گلاس پانی بھی شامل کیا جائے۔۔۔۔ اور چمچے سے” عمران نے داہنی ہتھیلی پر چمچہ فرض کر کے منہ کے قریب لے جاتے ہوئے کہا۔
“بڑا جی دکھتا ہے آپ کے لئے صاحب جی۔۔۔۔ ٹھہریئے میں گرم گرم چپاتیاں ڈالتی ہوں اور آملیٹ بنائے دیتی ہوں۔۔۔۔!”
“لیکن انڈے دینے والی مرغی اس وقت کہاں مل سکے گی؟” عمران نے مایوسی سے کہا۔
“انڈے تو ہیں۔!” وہ چہک کر بولی۔
“جا جلدی سے دیکھ کہیں اب تک ان میں سے بچے نہ نکل آئے ہوں۔!”
وہ کھی کھی کرتی ہوئی بھاگ گئی اور عمران دونوں ہاتھوں پر سر تھامے ہوئے ایک طرف بیٹھ گیا۔

***​
 

علامہ دہشت نے شیلا پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی تھی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے بکھرے ہوئے کاغذات کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ “تم میرے مشن کےبارے میں کیا جانتی ہو؟”
“آپ دنیا کو غیر ذہین افراد سے پاک کر دینا چاہتے ہیں۔!” شیلا نے جواب دیا۔
“مجھے خوشی ہے کہ مقصد تمہارے ذہن میں‌واضح ہے! بہر حال اس کے لئے پہلا قدم یہی ہونا چاہئے کہ ان غیر ذہین لہو گوں کا صفایا کر دیا جائے جو اپنی نااہلی کے باوجود بھی ذہین لہو گوں کی سطح پر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
“ہاں یہ بے حد ضروری ہے جناب۔!”
“اپنے باپ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟”
“میری دانست میں تو وہ ذہین آدمی ہیں۔”
“کس بنا پر کہہ رہی ہو۔۔۔۔؟”
“دولت مندی انہیں ورثے میں نہیں ملی تھی، اپنی ذہانت کے بل بوتے پر وہ اتنے دولت مند ہوسکے ہیں۔!”
“لیکن وہ سیاست میں حصہ لیتا ہے۔۔۔۔ الیکشن لڑتا ہے اور سیٹ بھی حاصل کرتا ہے دولت کے بل بوتے پر۔۔۔۔!”
“مجھے تسلیم ہے۔۔۔۔!”
“سیاست کے لئے نا اہل تسلیم کرتی ہو اسے۔۔۔۔؟”
“جی ہاں۔!”
“تب پھر کیا خیال ہے تمہارا؟”
“میں نہیں سمجھی جناب۔!”
“کیا اسے زندہ رہنا چاہئے؟ ہر بار وہ کسی ذہین آدمی کے حق پر قابض ہو جاتا ہے۔۔۔۔!”
“مم۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ کک۔۔۔۔ کیا عرض کروں۔۔۔۔!”
“میرے مشن کی روشنی میں دیکھو۔!”
“دد۔۔۔۔ دیکھ رہی ہوں۔!”
“اچھا تو پھر اسے سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھنے کی کوشش کرو۔!”
“کس طرح جناب؟!”
“جس طرح بھی ممکن ہو۔”
“بہت مشکل ہے۔۔۔۔!”
“یعنی وہ کسی طرح بھی باز نہیں آ سکتا؟”
“سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جناب۔۔۔۔!”
“تم نے وفا داری کا عہد کیا تھا۔!”
“میں اس پر قائم ہوں جناب۔!”
“تب پھر اپنے باپ کو قتل کر دو۔۔۔۔!”
“جنابِ عالی۔!” وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
“بیٹھ جاؤ۔”
وہ غیر ارادی طور پر بیٹھ گئی تھی۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہے۔
دفعتاً علامہ دہشت نے قہقہہ لگایا۔
وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ بالآخر وہ بولا۔! “تم بھی کیڑوں مکوڑوں سے بالا تر نہیں ہو۔ الفاظ کی قدر و قیمت جاننا سیکھو! جو کچھ زبان سے کہتی ہو اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ تمہارا باپ سیاست کے لئے غیر ذہین ہے۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ترک نہیں کرتا تو اسے مر جانا چاہئے۔”
“مم۔۔۔۔ میں ‌تسلیم کرتی ہوں۔۔۔۔!”
“میری تنظیم سے باہر رہ کر صرف تسلیم کرتی ہو۔! میری تنظیم میں‌ رہ کر تمہیں اس کو کسی ذہین آدمی کے لئے راستے سے ہٹانا پڑے گا۔!”
“آپ یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیجئے۔ میں‌ اپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔!” وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی۔!
“تم سچ مچ خوف زدہ نظر آنے لگی ہو۔!”
وہ کچھ نہ بولی۔ علامہ کہتا رہا۔ “حقیقتاً میں تمہارے باپ کی موت کا خواہاں نہیں ہوں۔ تمہیں صرف یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ تم ابھی کچی ہو۔ میری تنظیم میں نہ کوئی کسی کا باپ ہے نہ بیٹا ہے اور نہ بھائی۔ وہ صرف تنظیم کے لئے ہے۔ صرف تنظیم کا بیٹا ہے دوسرے غیر ذہین آدمیوں‌کا فنا کر دینے پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔ بس تمہارا باپ ان کے زمرے میں نہ آتا ہو۔!”
“میں تنظیم کے لائق نہیں ہوں۔!” وہ آہستہ سے بولی۔
“لہٰذا جب چاہو ہمارا ساتھ چھوڑ سکتی ہو۔ نہ میں کسی کو بلاتا ہوں اور نہ کسی کے ساتھ چھوڑنے کی پرواہ کرتا ہوں۔ اب تم جاسکتی ہو۔!”
وہ اٹھی تھی اور تیزی سے باہر نکل گئی تھی۔ علامہ مسکراتا رہا تھا اور پھر اونچی آواز میں‌ بولا تھا۔ “اب آ جاؤ۔!”
بائیں جانب کا دروازہ کھلا اور پیٹر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔!
“تم نے سنا۔!” علامہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
پیٹر نے سر کو اثباتی جنبش دی تھی۔!
“لیکن فی الحال اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔ پولیس شاہ دارا تک جا پہنچی ہے۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ شیلا کے چچا سے کسی نے براہِ راست اس سلسلے میں گفتگو کی تھی۔!”
“کس سلسلے میں؟”
“شاید تم کنفیوز ہو گئے ہو۔! بیٹھ جاؤ۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ شیلا یاسمین کو شاہ دارا لے جانے کے بہانے کیمپنگ کے لئے لائی تھی۔”
“مجھے یاد ہے جناب۔ شاید میں سچ مچ کنفیوز ہو گیا تھا۔!”
“میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس کے چچا نے لا علمی ظاہر کی ہو گی کیونکہ وہ سر ے سے وہاں گئی ہی نہیں تھی۔ لہٰذا اب شیلا سے دوبارہ گفتگو ہو گی“
“اور وہ بتا دے گی؟”
“اس سے پہلے ہی تمہیں یہ کام کرنا ہو گا۔!”
“کیا کام؟!”
“شیلا کو پاگل ہو جانا چاہئے! اسی طرح پولیس ہم سے دور رہ سکتی ہے۔ وہ سمجھے گی کہ شیلا نے جواب دہی سے بچنے کے لئے پاگل پن کا ڈھونگ رچایا ہے۔!”
“لیکن وہ پاگل کس طرح ہو گی جناب؟”
“آج شام کلب میں ‌سب کچھ ہو جائے گا۔!”
“لیکن پولیس طبعی معائنہ تو کرا سکے گی۔!”
“اسے جو چیز شراب میں دی جائے گی، اس کا اثر سسٹم پر دریافت نہ کیا جاسکے گا۔ اسی بنا پر تو پولیس باور کرے گی کہ وہ بن رہی ہے۔!”
“آپ ذہانت کا سرچشمہ ہیں جناب۔!”
“پھر وہ زندگی بھر جاگتی رہے گی۔ لیکن ہوش میں نہ ہو گی اور یہ زہر تم ہی اس کی شراب میں ملاؤ گے۔!”
علامہ نے میز کی دراز سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی تھی۔
“آج ہی یا کبھی نہیں!” پیڑ نے شیشی کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
“یقین کرو۔۔۔۔ اس گروپ میں تمہارے علاوہ مجھے اور کوئی بھی ذہین نہیں معلوم ہوتا۔”
علامہ اس کی ہتھیلی پر شیشی رکھتا ہوا بولا۔
پیٹر پلکیں جھپکائے بغیر اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔!
“اس کا طریقۂ استعمال بھی سن لو۔” علامہ نے کہا اور میز کی دوسری دراز کھول کر ایک بڑی سی انگشتری نکالی۔۔۔۔!
“یہ انگشتری۔۔۔۔ ذرا اپنی کرسی اور قریب لاؤ۔۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔۔ نگینہ۔۔۔۔ اس طرح اپنی جگہ سے ہٹا ہے۔ اس خالی جگہ میں‌وہ سیال بھرا جائے گا۔۔۔۔ اس طرح نگینہ دوبارہ اپنی جگہ پر آئے گا۔ انگشتری پہن لی گئی۔۔۔۔ انگشتری والا ہاتھ تم کسی بہانے سے اس طرح اس کے گلاس پر رکھو گے۔۔۔۔ اور بیچ کی انگلی سے اس طرح جگہ پر دباؤ ڈالو گے۔ سارا سیال گلاس میں ٹپک جائے گا۔۔۔۔ اسے یا پاس بیٹھے ہوئے کسی فرد کو احساس تک نہ ہو سکے گا کہ کب کیا ہو گیا۔!”
اس نے انگشتری بھی پیٹر کے حوالے کی تھی اور پیٹر نے ایک بار پھر اس کا طریقِ استعمال سمجھا تھا۔
“لیکن جناب!” اس نے کچھ دیر بعد کہا۔ “یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ہم نے کیمپنگ کی تھی اور اس میں کون کون شریک تھا۔”
“میری کیمپنگ کبھی ڈھکی چھپی نہیں ‌رہتی۔۔۔۔! اب بہتیرے جانتے ہوں گے کہ اس میں کس کس نے شرکت کی تھی۔ دراصل میں‌کالی بھیڑوں کو اپنے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ کسی طرح بھی برداشت نہیں ‌کر سکتا کہ کوئی اپنے گھر والوں کو دھوکے میں رکھ کر میرے حلقے میں شامل ہو۔! علی الاعلان آسکتے ہو تو آؤ۔۔۔۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔ تم شیلا کو کیا سمجھتے ہو۔ صرف ایڈونچر کے لئے ہمارے قریب آئی تھی۔ یاسمین احساس کمتری کا شکار تھی۔ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتی تھی کہ شیلا جیسی دولت مند لڑکی اسے گھاس ڈالتی ہے۔”
“تو پھر شیلا کو۔۔۔۔!”
“میں سمجھ گیا!” علامہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “تم یہی کہنا چاہتے ہو نا کہ پھر شیلا کو راستے سے ہٹا دینے سے کیا فرق پڑےگا؟”
“جی ہاں۔!”
“اگر وہ پاگل ہوگئی اور میڈیکل ٹیسٹ نے یہ ثابت کر دیا وہ پاگل نہیں ہے تو یاسمین والا معاملہ صرف اسی کے گرد گھوم کر رہ جائے گا۔۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ دونوں میری کیمپنگ میں شامل تھیں۔!”
“میں سمجھ گیا جناب۔!”

***​
 

علامہ دہشت کی کوٹھی سے نکل کر شیلا اپنی سپورٹس کار میں بیٹھی تھی اور اس کا تعین کئے بغیر کہ کہاں جانا ہے، چل پڑی تھی۔ عجیب طرح کا موڈ تھا۔ بڑی گھٹن محسوس کر رہی تھی۔
سوشیالوجی کی طالبہ ہونے کی بنا پر علامہ سے بالکل ہی قطع تعلق ممکن نہیں‌تھا۔ اب وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اسے یہ سال ضائع کرکے اپنا مضمون ہی بدل دینا چاہئے۔ علامہ کے تصور سے بھی وحشت ہو رہی تھی۔
بے خیالی میں گاڑی شہر سے باہر نکل آئی۔ دفعتاً وہ چونک پڑی پہلے اسے یہ خیال کیوں نہ آیا تھا۔ آخر علامہ اتنا دولت مند کہاں سے ہو گیا۔ کیمپ میں‌ وہ اس کی کہانی بھی سن چکی تھی۔
شہر میں‌علامہ کی کئی کوٹھیاں تھیں۔ روپیہ پانی کی طرح بہاتا تھا۔ درجنوں نادار طلبہ اس کی مدد سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بے راہ روی کا شکار ہو کر مقروض ہوجانے والے طلباء کی آخری امید گاہ بھی وہی تھا۔ بڑی فراخ دلی سے ان کی امداد کرتا تھا۔
کہاں سے آتی اتنی دولت؟ کیا وہ اپنی ذہانت سے کام لے کر غیر قانونی ذرائع سے دولت کما رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو تعجب کی بات نہیں۔ اور وہ جہنم میں جائے۔۔۔۔ وہ تو اس نے اس کی شخصیت میں‌ ایک خاص قسم کی کشش محسوس کی تھی جو عام طور پر لوگوں میں نہیں پائی جاتی ورنہ اس کے قریب رہنے کی خواہش ہی نہ پیدا ہوتی۔
وہ اپنے ذہن کو ٹٹولنے لگی۔ اس توقع کا تجزیہ کرنے لگی جس کی بنا پر وہ اس کے حلقے میں شامل ہوئی تھی۔ ادھیڑ عمر کے کسی بھی فرد میں اس نے آج تک نوجوانوں کے لئے اتنی کشش نہیں پائی تھی۔ وہ کیسی کشش تھی۔ ذہنوں میں کیسی توقعات کو جنم دیتی تھی۔۔۔۔!
“اوہ لعنت ہے۔۔۔۔!” ختم بھی کر۔۔۔۔ کیوں سوچ رہی ہے اس کے بارے میں۔۔۔۔! اور پھر اسے پولیس کا خیال آیا۔ آج ہی اس کے چچا نے شاہ دارا سے اسے فون کال کی تھی اور اس معاملے کے بارے میں پوچھا تھا۔ جس کا اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔ اس نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی کہ کوئی خاص بات نہیں۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ متوفیہ کو اس کے بہانے پکنک پر لے گئی تھی۔ لہٰذا پولیس اس سلسلے میں بھی پوچھ کرے گی۔ اس کی موت کا تعلق خود اس سے قطعی نہیں ہے۔
سپورٹس کار فراٹے بھرتی رہی۔ ویرانے کا سناٹا کسی قدر سکون بخش محسوس ہو رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی، کیوں نہ شاہ دارا ہی کی طرف چل نکلے۔ یہاں کے ماحول سے دوچار دن کے لئے چھٹکارا پا ہی لینا چاہئے۔ اس کے ذہن پر یاسمین کی موت کا بھی اثر تھا۔ وہ اس کی بہت قریبی دوست تھی۔ ہر بات پر اس سے متفق ہوجاتی تھی۔ کبھی کوئی کام اس کی مرضی کےخلاف نہیں کرتی تھی۔!
دفعتاً اسے بریک لگانے پڑے۔ کیوں کہ آگے کچھ دور ایک آدمی ہاتھ اٹھائے بیچ سڑک پر کھڑا تھا اور بائیں جانب ایک گاڑی بھی کھڑی نظر آئی۔ شاید یہ گاڑی کچھ ہی دیر قبل اس کے پاس سے نکلی تھی۔ اس نے اپنی کار روک دی۔۔۔۔!
“مم۔۔۔۔ محترمہ۔۔۔۔!” وہ قریب آ کر ہکلایا۔ خوش شکل تھا لیکن احمق بھی معلوم ہوتا تھا۔ چہرے پر ایسے ہی تاثرات تھے۔
“کیا بات ہے؟” شیلا نے تیکھے انداز میں پوچھا۔
وہ کچھ اور زیادہ بوکھلا گیا۔ منہ سے الفاظ ہی نہیں ‌نکل رہے تھے۔ بس ہکلائے جا رہا تھا اور پھر شیلا کو اس پر رحم آنے لگا۔
“بتایئے کیا بات ہے۔۔۔۔؟” اس نے نرم لہجے میں ‌پوچھا۔
اس ہکلاہٹ کے دوران میں اس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہنے لگے تھے۔
“مم۔۔۔۔ میری گاڑی۔۔۔۔ بند ہو گئی ہے۔” اس نے بدقّت کہا۔ “معافی چاہتا ہوں میں آپ کو مرد سمجھا تھا۔۔۔۔ ورنہ کبھی اس طرح نہ روکتا۔۔۔۔ معاف کر دیجئے۔”
“مرد سمجھ کر۔۔۔۔؟” شیلا ہنس پڑی۔
“جج۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔”
“اور میں چونکہ مرد نہیں ‌ہوں اس لئے آپ کو معاف کر دوں۔۔۔۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اپنا راستہ لوں؟”
“میں‌گڑگڑا کر معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔”
“میں ہرگز نہیں جاؤں گی۔ میں آپ کی مدد کروں گی۔”
“آپ۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔ یعنی کہ آپ کیا مدد کر سکیں گی؟”
“آپ گاڑی کے انجن کے بارے میں کچھ نہیں‌جانتے؟”
“جج۔۔۔۔ جی نہیں۔۔۔۔”
“میں جانتی ہوں” اس نے کہا اور اپنی کار سڑک کے کنارے لگانے لگی۔
“نہیں آپ جایئے۔۔۔۔ لوگ کیا سوچیں گے؟”
“کیا سوچیں گے؟”
“مم۔۔۔۔ میرا۔۔۔۔ مطلب یہ کہ کہیں کچھ غغ۔۔۔۔ غلط نہ سوچ لیں۔۔۔۔”
وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ادھر چہرے پر چھائی ہوئی حماقت کچھ اور گہری ہو گئی تھی۔ شیلا بے ساختہ ہنس پڑی۔ اپنی نوعیت کا ایک ہی آدمی معلوم ہوتا تھا۔
وہ گاڑی سے اُتر کر اس کی گاڑی کے قریب جا کھڑی ہوئی۔
“ بونٹ اٹھایئے۔” اس نے کہا۔
“جج۔۔۔۔ جی۔۔۔۔ بہت اچھا۔” اجنبی نے بوکھلائے ہوئے انداز میں تعمیل کی تھی۔
وہ تھوڑی دیر تک انجن ادھر ادھر ہاتھ لگانے کے بعد بولی تھی۔ “آپ اسٹارٹ کیجئے” لیکن پندرہ بیس منٹ گزر جانے کے بعد بھی گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی تھی۔
اس دوران میں بہیتری گاڑیاں گزر گئی تھی لیکن شیلا نے اسے کسی اور کو روکنے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ وہ اسی قسم کی لڑکی تھی، مردوں کے مقابلے میں شکست تسلیم کر لینا سیکھا ہی نہیں تھا۔
“اور۔۔۔۔ کسی کو۔۔۔۔ روکوں۔۔۔۔؟” اجنبی نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
“میری توہین نہ کیجئے۔” وہ جھنجھلا کر بولی۔ “آپ نے مجھے روکا ہے۔۔۔۔ اس لئے میں ہی آپ کے لئے کچھ کروں گی۔”
“جی بہت اچھا۔” اجنبی نے سعادت مندانہ انداز میں کہا جس میں بے بسی بھی شامل تھی۔ شیلا کو اس کا یہ رویہ بہت بھایا تھا۔ پہلا مرد تھا جو اس سے کسی طرح کا اختلاف ہی نہیں کر رہا تھا۔
“آپ کو کہاں جانا ہے؟”
“شش شاہ دارا۔۔۔۔”
“بس تو پھر ٹھیک ہے۔ میں بھی وہیں جا رہی ہوں، آپ کو بھی کھینچ لے چلوں گی۔”
“کھک۔۔۔۔ کھینچ۔۔۔۔؟”
“ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ آپ کی گاڑی اپنی گاڑی سے باندھتی ہوں۔۔۔۔”
“رسّہ کہاں سے آئے گا۔۔۔۔؟” اجنبی نے پوچھا۔
“پٹ سن کی کاشت کریں گے۔۔۔۔”
“جی بہت اچھا۔”
اس بار شیلا نے اسے شبے سے دیکھا تھا لیکن وہ سرجھکائے کھڑا رہا۔ چہرے پر بناوٹ کا شائبہ تک نہیں تھا۔
“تو شروع کریں پٹ سن کی کاشت؟”
“ضرور۔۔۔۔ ضرور۔۔۔۔ مم۔۔۔۔ مگر پٹ سن کیا چیز ہے۔۔۔۔؟”
“جوٹ۔۔۔۔”
“تب تو بہت دن لگ جائیں گے۔!” بڑی سادگی سے کہا گیا۔
“آپ کا نام کیا ہے جناب؟”
“عمران۔۔۔۔!”
“کیا کرتے ہیں؟”
“کاشت۔۔۔۔ مطلب یہ کہ ایگریکلچرل فارمز ہیں میرے۔۔۔۔!”
“اور آپ پٹ سن نہیں جانتے۔۔۔۔!”
“اُردو میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ ڈیوٹ کیا ہوتا ہے؟”
شیلا بے ساختہ ہنس پڑی تھی لیکن اس کی احمقانہ سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی سنجیدہ ہو کر بولی۔ “میرے لئے بھی یہ لفظ بالکل نیا ہے۔ شاہ دارا میں آپ کہاں جائیں گے؟”
“سٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ بیج خریدنے جا رہا ہوں۔”
“ارے۔۔۔۔ وہیں تو مجھے بھی ٹھہرنا ہے۔۔۔۔!” شیلا نے کہا۔۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس شخص سے راہ و رسم بڑھائے۔
“یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔!” اجنبی نے خوش ہو کر کہا۔ “تو پھر میں اپنی گاڑی یہیں چھوڑے دیتا ہوں۔!”
“یہ کوئی امریکن ہائی وے نہیں ہے! کل تک آپ کو یہاں ‌گاڑی کا ڈھانچہ بھی شاید نہ ملے۔!”
“میرے پاس رسہ ہے۔۔۔۔ ہمیشہ ساتھ رکھتی ہوں۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ ایک سیلانی قسم کی لڑکی ہوں۔ کبھی کبھی مجھے بھی اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے باندھنی پڑتی ہے۔!”
اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول کر رسّے کا ایک لچھا نکالا تھا۔!
“یہ تو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ مجھ مرد کی گاڑی کھینچیں۔!”
“کیا مرد مرد لگا رکھی ہے۔ کیا میں آپ سے کمزور ہوں؟”
“جی ہاں۔!”
“اچھی بات ہے تو کھڑے رہئے یہیں ، میں جا رہی ہوں۔۔۔۔!”
“ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ مم میری بات تو سنئے۔۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ آپ میری گاڑی میں بیٹھیں اور میں آپ کی گاڑی چلاؤں۔!”
“جی نہیں۔۔۔۔ آپ کو برابری تسلیم کرنی پڑے گی۔!”
“آپ کہتی ہیں تو تسلیم کئے لیتا ہوں۔!” وہ مردہ سی آواز میں بولا۔
“اس بات پر میں آپ کو اجازت دے دوں گی کہ آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں۔”
“شکریہ! مادام!”
ڈیڑھ گھنٹے بعد دونوں شاہ دارا پہنچ گئے تھے اور شیلا نے سچ مچ چچا کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ سٹار ہوٹل ہی میں کمرہ حاصل کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دونوں کے کمرے برابر ہی ہوں۔!
“کل صبح آپ کی گاڑی کسی مکینک کے حوالے کر دی جائے گی۔!” شیلا نے عمران سے کہا۔! “میں نے منیجر سے بات کر لی ہے۔”
“آپ کتنی اچھی ہیں۔!”
“خوشامد نہیں۔!”
“دیکھئے۔۔۔۔ اب آپ میری توہین کر رہی ہیں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ خوشامد نہیں کر رہا”
“کیا بُرا مان گئے؟”
“مان جاتا۔۔۔۔ مگر آپ واقعی بہت اچھی ہیں۔!”
“آپ نے میرے بارے میں کوئی بُری رائے کیوں نہیں قائم کی۔!”
“اس لئے کہ آپ بُری نہیں ہیں۔!”
“فرض کیجئے۔ میں آپ کے ساتھ کوئی فراڈ کرنا چاہتی ہوں تو؟”
“تو پھر؟”
“تو پھر کیا؟ جب تک آپ فراڈ نہ کریں۔ میرے لئے اچھی ہی رہیں گی۔!”
“اور آپ میری طرف سے ہوشیار رہیں گے؟”
“میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو تھکاتے رہنے کا قائل نہیں ہوں۔ جب جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔ اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔!”
“پھر میں کیا کروں؟ عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی گزرے چپ چاپ جھیلتے رہو اور مگن رہو۔!”
“آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سنا رہے ہیں” شیلا نے اسے گھورتے ہوئے حیرت سے کہا۔ وہ سوچنے لگی تھی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی۔!
“یہ نئی بات نہیں ہے محترمہ۔!”
“میرے لئے تو بالکل نئی بات ہے کوئی بھی دیدہ و دانستہ بے وقوف بننا پسند نہیں کرتا۔!”
“جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے، وہ اسی کش مکش میں مبتلا ہے۔!”
“کس کشمکش میں؟”
“اسے بے وقوف بننا چاہئے یا نہیں۔ جو بے وقوف نہیں بننا پسند کرتے وہ زندگی بھر جھلستے رہتے ہیں۔!”
“آپ بھی بے وقوف نہیں معلوم ہوتے۔!”
“جنہیں نہیں معلوم ہوتا وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ جنہیں معلوم ہوتا ہوں وہ مجھےمزید بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔!”
“اور آپ بنتے ہیں؟”
“بننا ہی پڑتا ہے۔۔۔۔ یہی ہے زندگی۔۔۔۔ اور بڑی خوبصورت زندگی ہے۔ اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔!”
“اوہ۔۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی آپ کیا پیتے ہیں؟”
“ٹھنڈا پانی۔!”
“میرا مطلب تھا مشروبات میں۔۔۔۔ اس وقت کیا پئیں گے؟”
“جو کچھ میسر آ جائے۔!”
“وہسکی منگاؤں آپ کے لئے؟”
“محترمہ۔۔۔۔ محترمہ۔۔۔۔ مشروبات سے میری مراد ہمیشہ چائے کافی یا کولڈ ڈرنک ہوتی ہے۔ میں شراب نہیں پیتا۔”
“معاف کیجئے گا۔۔۔۔”
“آپ کچھ پینا چاہیں تو منگوا لیں۔!”
“جب آپ نہیں پیتے تو آپ کے سامنے نہیں پیوں گی۔!”
“آپ خواہ مخواہ تکلف کر رہی ہیں، مجھے قطعی بُرا نہیں لگے گا۔!”
“میں بور ہو کر شہر سے بھاگی تھی۔!”
“کیا میں آپ کو بور کر رہا ہوں؟”
“ہرگز نہیں۔۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آپ تو بالکل ہی نئی قسم کے آدمی ہیں۔ آپ کے ساتھ بور ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ دراصل میں بہت پریشان ہوں۔!”
“آپ محض اس لئے پریشان ہیں کہ خود کو عقل مند سمجھتی ہیں۔!”
“کیا مطلب؟” وہ چونک کر اسے گھورنے لگی۔
“کیا میں آپ کے لئے مارٹینی منگواؤں؟”
“شکریہ شدت سے ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔!”
عمران نے فون پر روم سروس سے رابطہ قائم کر کے مارٹینی اور کافی طلب کی تھی۔!
“آپ نے ابھی تک میرا نام بھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔!” شیلا نے کہا۔
“مجھے نام یاد نہیں رہتے اسی لئے پوچھتا بھی نہیں ہوں۔!”
“میرا نام شیلا ہے۔۔۔۔ شیلا دھنی رام۔۔۔۔!”
“شکیلہ فضل امام ہوتا تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔!”
“میں نہیں سمجھی۔!”
“بس آدمی کا بچہ ہونا کافی ہے نام کچھ بھی ہو۔!”
“آپ مجھے بہت ذہین معلوم ہوتے ہیں۔!”
“سب سے بڑی حماقت وہی ہے جسے لوگ ذہانت کہتے ہیں۔!”
“یہ کیا بات ہوئی؟”
“ذہانت نے آدمی کو نظریات دیئے ہیں۔۔۔۔ اور وہ نظریات کی پوٹ بن کر رہ گیا ہے۔۔۔۔ آدمی نہیں رہا۔!”
نظریات ہی کی بنا پر آپ شیلا دھنی رام ہیں، شکیلہ فضل امام نہیں ہیں۔ نظریات ہی شیلا اور شکیلہ کے درمیان دیوار بن گئے ہیں اور دونوں ایک دوسری کو نفرت سے دیکھتی ہیں۔!”
“آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟”
“کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ خلا میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں۔!”
کسی نے دروازے پر دستک دی تھی۔
“آ جاؤ۔ !” عمران نے اونچی آواز میں کہا اور ویٹر طلب کی ہوئی اشیا سمیت كمرے میں داخل ہوا۔
شراب نوشی کے دوران بھی شیلا سوچتی رہی تھی۔ عجیب آدمی ہے۔ عجیب قسم کی باتیں کرتا ہے۔ کیا وہ اس کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر ڈالے۔ وہ بری طرح گھٹ رہی تھی۔
“میں بہت پریشان ہوں!” وہ بالآخر بولی۔
وہ اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“کسی نے میری سہیلی کو زہر دے دیا۔ وہ چپ چاپ مر گئی اور طریقہ بھی وہ اختیار کیا کہ اس نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے زہر کھایا۔!”
“میں نہیں سمجھا۔!”
“وہ اعصابی سکون کے لئے مستقل طور پر ایک دوا استعمال کرتی رہتی تھی۔ کسی نے شیشی میں اصل ٹکیاں نکال کر زہریلی ٹکیاں رکھ دیں جو بالکل اصل ٹکیوں کی شکل کی تھیں۔ اس طرح اس نے نادانستگی میں زہر کھا لیا۔”
“ویری سیڈ۔”
“وہ میری بہت پیاری سہیلی تھی۔!”
“واقعی آپ دکھی ہوں گی۔!”
“بہت زیادہ۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے مجھ سے ایک غلطی سر زد ہوئی تھی جس کی بنا پر پولیس نے مجھ سے کچھ زیادہ ہی پوچھ گچھ کر ڈالی۔”
“آپ سے کیا غلطی سر زد ہوئی؟”
“میں اسے کہیں اور لے جانے کے بہانے ایسی جگہ لے گئی تھی جہاں جانے کی اجازت اس کے گھر والے ہرگز نہ دیتے۔!”
“اور یہ بات کھل گئی؟”
“جی ہاں۔!”
“واقعی بری بات ہے ! پولیس تو یہی سمجھ لے گی کہ آپ ہی اصل مجرم تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکیں گی۔ لہٰذا قدرتی بات ہے کہ آپ ہی کو زیادہ سے زیادہ بور کیا جائے گا۔”
“میرا گھرانا بے حد آزاد خیال ہے۔۔۔۔ اتنا کہ کسی کو کسی کی فکر نہیں ہوتی۔ آپ یہی دیکھ لیجیئے کہ میں شاہ دارا آنے کے لئے گھر سے نہیں نکلی تھی۔ بس چلی آئی۔ اگر ایک ہفتہ بھی یہیں مقیم رہوں تو میرے گھر والوں کو تشویش نہ ہو گی۔”
“آزاد گھرانوں کا سرتاج گھرانا ٹھہرا۔!”
“لیکن میری سہیلی کے گھر والوں نے اسے محض اس لئے گھر سے ایک ہفتہ غائب رہنے کی اجازت دے دی تھی کہ وہ میرے ساتھ تھی اور میں نے اس کے گھر والوں سے کہہ دیا تھا کہ میں اسے اپنے چچا کے گھر لے جا رہی ہوں۔”
“پولیس نے تفتیش کی ہو گی تو بات غلط نکلی ہو گی۔”
“جی ہاں۔!”
“واقعی آپ دشواری میں پڑ گئی ہیں لیکن آپ اپنی سہیلی کو کہاں لے گئی تھیں؟”
“ہم گیارہ افراد نے کیمپنگ کی تھی۔ در اصل ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ بے سروسامانی کی حالت میں کس طرح زندہ رہا جا سکتا ہے۔!”
“کیا ان گیارہ افراد میں کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے جسے آپ کی سہیلی سے دشمنی رہی ہو؟”
“بظاہر تو ایسا کوئی بھی نہیں تھا۔ ہمارے ایک استاد بھی ساتھ تھے۔ شائد آپ نے نام سُنا ہو۔ علامہ دہشت۔۔۔۔!”
“وہ سوشیالوجی والے؟”
“جی ہاں وہی۔۔۔۔ دراصل وہ ہماری ذہنی تربیت کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں۔”
“میں نے سُنا ہے کہ ان کے لیکچر ز عام طور پر بہت دہشت ناک ہوتے ہیں؟”
“جی ہاں۔۔۔۔ لیکن ذہانت سے بھر پور۔۔۔۔ میں آپ کو ان کے بارے میں بھی سب کچھ بتا دینا چاہتی ہوں۔ میرے دل پر بڑا بوجھ ہے۔۔۔۔ میں نہیں سمجھ سکتی کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟”
عمران ہمہ تن توجہ بن گیا۔ وہ اسے علامہ دہشت کے بارے میں بتاتی رہی۔ اُسے بچے کی کہانی بھی سنائی جس کے والدین زندہ جلا دیئے گئے تھے۔
“بڑی دلچسپ کہانی ہے۔!”
“میں آپ کو یہ سب کچھ کبھی نہ بتاتی۔۔۔۔ لیکن میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی سوچتے سوچتے۔ میں اپنے باپ کو قتل نہیں کر سکتی۔ خواہ وہ کیسا ہی ہو۔!”
“لیکن علامہ نے تو امتحاناً آپ سے ایسی گفتگو کی تھی۔!”
“پتا نہیں کیوں۔۔۔۔ مجھے اس میں سچائی نظر آئی تھی۔!”
“تو آپ نے اس کے خصوصی حلقے سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا ہے؟”
“نکل چکی! اس نے خود ہی نکال دیا ہے۔۔۔۔!”
“ذرا ٹھہریئے۔۔۔۔ کیا آپ کی سہیلی نے بھی کبھی اس سے کوئی اختلاف کیا تھا؟”
شیلا چونک پڑی اور اس طرح آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی رہی جیسے اس کے سر پر اچانک سینگ نکل آئے ہوں۔
“آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔!”
“اس کی طرف تو میں نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔!” وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔
“غور کیجئے۔ شاید ایسی کوئی بات یاد آ جائے۔!”
“مجھے یاد آ رہا ہے۔۔۔۔ اسی کیمپنگ کے دوران میں یاسمین کی زبان سے مذہب کا نام نکل گیا تھا۔ اس پر وہ بھڑک اٹھا تھا اور شاید یہ بھی کہا تھا کہ یاسمین ابھی کچی ہے اور اس کے حلقے کے لئے موزوں نہیں۔۔۔۔ وہ مذہب کو ارتقا کی صرف ایک کڑی سمجھتا ہے اور علیحدگی میں یاسمین سے اس سلسلے میں باتیں کی تھیں۔۔۔۔!”
“کس قسم کی باتیں؟”
“نہ اس نے مجھے بتایا تھا اور نہ میں نے پوچھا تھا۔!”
“آپ سے علامہ کی آخری بات چیت کب ہوئی تھی؟”
“آج ہی اور میں اسی کی کوٹھی سے نکل کر سیدھی اسی طرف چلی آئی تھی۔ در اصل میرا ذہن اس طرح الجھا ہوا تھا کہ غیر شعوری طور پر شاہ دارا کی سڑک پر نکلی چلی آئی تھی۔”
“مظلوم بچے کی کہانی وہ ایسے ہی شاگردوں کو سناتا ہو گا جن پر اسے کلی طور پر اعتماد ہو۔”
“باقاعدہ طور پر اعتماد ظاہر کر کے سناتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ اگر وہ اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹ دے تو پولیس اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیوں کہ اس نے یہ سارے جرائم ذہانت سے کئے ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کا سا انداز اختیار نہیں کیا تھا۔”
“اچھا تو محترمہ اب آپ کی بھی خیر نہیں۔!”
“کیا مطلب؟”
“اپنی سہیلی ہی کی طرح آپ کا بھی پتا نہیں چل سکے گا کہ کب مر گئیں۔”
“نن۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔!” اس کا چہرہ فق ہو گیا۔
“لیکن میں آپ کو بچا لوں گا۔!”
“آپ؟”
“جی ہاں۔۔۔۔ آپ غائب ہو گئیں۔ ! مطلب یہ کہ خود کو غائب سمجھئے۔ اونہہ کس طرح آپ کو سمجھاؤں۔! بس یہ سمجھئے کہ میں نے آپ کو غائب کر دیا۔”
“مم۔۔۔۔ میں نہیں سمجھی۔!”
“آپ شہر واپس نہیں جائیں گی۔ کسی ایسی جگہ بھی نہیں رہیں گی جہاں آپ تک علامہ کا ہاتھ پہنچ سکے۔!”
“اب تو مجھے خوف معلوم ہو رہا ہے۔!”
“میں آپ کے لئے سب کچھ کر گزروں گا۔!”
“آخر آپ کیوں کریں گے میرے لئے اتنا کچھ؟ آج ہی تو ہماری جان پہچان ہوئی ہے۔!”
“نہ تو میں ذہین ہوں اور نہ خود کو کیڑوں مکوڑوں میں شمار کرتا ہوں۔۔۔۔ بس بیوقوف ہوں اور حماقت کی تبلیغ کرنا میرا مشن ہے۔۔۔۔!”
“آپ کیا کریں گے؟”
“آپ دراصل میرے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔!”
“میں بالکل نہیں سمجھ رہی۔۔۔۔!”
“کیا میری مدد کرنا بے وقوفی نہیں تھی۔۔۔۔! فرض کیجئے میں ہی فراڈ ہوتا۔ آپ سوچ سکتی تھیں لیکن کسی نہ کسی طرح مجھے یہاں تک کھینچ ہی لائیں۔ کسی دوسرے سے مدد نہیں لینے دی۔!”
“اچھا تو پھر۔”
“بس آپ خود بخود میرے قبیلے میں شامل ہو گئیں۔ میرا مشن یہ ہے کہ ساری دنیا کو بے وقوف بنا کر رکھ دوں۔۔۔۔ اسی طرح تیسری جنگ کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔”
“علامہ کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں۔ آپ کی نہیں آ رہیں۔!”
“اسی لئے میں کبھی یہ نہ چاہوں گا کہ آپ چپ چپاتے ختم ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر میں اپنی باتیں کیسے سمجھاؤں گا؟”
“آپ کیا کریں گے؟”
“آپ کو غائب کر دوں گا اور یہ دیکھنے کی کوشش کروں گا کہ علامہ پر اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے!”
“اگر پولیس کو میری تلاش ہوئی تو؟”
“میں یہی چاہتا ہوں کہ پولیس کو آپ کی تلاش ہو! اسی صورت میں علامہ کا رد عمل بھی ظاہر ہو سکے گا۔!”
“لیکن اس سے میرے خاندان والوں پر کیا اثر پڑے گا؟”
“وہ تو جتنا پڑنا تھا پڑ ہی چکا ہو گا۔”
“میری سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔!”
“آپ اپنی سہیلی کی موت کی ذمہ دار نہیں ہیں۔ آپ اسے بہت چاہتی تھیں۔ اس لئے آپ کا فرض ہے کہ اس کی موت کا معمّہ حل کرنے میں مدد دیں۔!”
“میں کیسے مدد دوں؟”
“جس طرح میں کہہ رہا ہوں۔ فی الحال پہلا قدم یہی ہو گا کہ آپ روپوش ہو جائیں۔ لیکن ٹھہرئے اس سے پہلے آپ اپنے باپ اور چچا کو فون پر مطلع کر دیں کہ پولیس کی پوچھ گچھ سے تنگ آ کر آپ کچھ دنوں کے لئے روپوشی اختیار کر رہی ہیں۔!”
“وہ مجھے ایسا نہیں کرنے دیں گے۔!”
“آپ صرف انہیں اطلاع دیں گی۔ یہ بتائے بغیر کہ کہاں سے بول رہی ہیں اور ان کا مشورہ سننے سے قبل ہی سلسلہ منقطع کر دیں گی۔!”
“میں سوچ رہی ہوں۔!”
“آب کیا سوچ رہی ہیں؟”
“راستے میں آپ بالکل بیوقوف تھے! لیکن اس وقت آپ کی عقل مندی کی انتہا نہیں۔!”
“ہر شخص بیوقوف بھی ہوتا ہے اور عقل مند بھی لیکن کوئی بھی اپنی بے وقوفیوں کا اعتراف نہیں کرتا۔۔۔۔ مثال کے طور پر اپنے ذہین ترین علامہ دہشت کی بے وقوفی بھی ملاحظہ کر لو۔۔۔۔ شاگردوں پر اپنی ذہانت کا سکہ جمانے کے لئے جہاں اس بچے کی پچھلی زندگی کی داستان سنائی تھی۔ وہیں اس کے مستقبل کا پروگرام بھی بتا دیا۔!”
“میں نہیں سمجھی۔!”
“حویلی کے باقی بچے ہوئے افراد کے خاتمے کا پروگرام اور ساتھ ہی یہ رائے بھی ظاہر فرما دی کہ اس کی موت کا الزام حزب اختلاف کے سر جائے گا۔۔۔۔ نتیجہ کیا ہوا۔۔۔۔؟ تم نے اس کی پوری کہانی مجھے سنا دی۔!”
“آپ کی توجہ دلانے پر محسوس ہو رہا ہے کہ اس سے حماقت ہی سرزد ہوئی تھی۔ آپ پولیس کو اطلاع دے سکتے ہیں۔ اور پولیس بہرحال اس بچے کو کھود نکالے گی۔!”
عمران کچھ نہ بولا۔
“سچ سچ بتائیے آپ کون ہیں۔ کیا آپ یاسمین ہی کے سلسلے میں میرے پیچھے نہیں لگے تھے۔! مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ آپ کی گاڑی میرے قریب ہی سے نکل کر آگے گئی تھی۔!”
“اس طرح تو میں علامہ دہشت کا بھی کوئی گرگا ہو سکتا ہوں۔”
یک بیک شیلا کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔!
“ارے آپ تو خوف زدہ نظر آنے لگی ہیں!” وہ اس کے چہرے کی طرف انگلی اٹھا کر بولا۔!
“نن۔۔۔۔ نہیں تو۔!”
“میں علامہ دہشت کا گرگا نہیں ہوں۔۔۔۔ اگر ہوتا تو اس سنسان سڑک ہی پر اپنا کام کر جاتا۔۔۔۔ یہاں تک آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔!”
“پھر آپ کون ہیں؟”
“ایک بیوقوف آدمی جس پر ایک چھوٹا سا احسان کر کے ایک بہت بڑا کام لینے والی ہیں۔!”
“میرا کام آپ خود ہی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ میں نے درخواست تو نہیں کی۔!”
“بیوقوفی کی علامت۔!”
“تو آپ مجھے کہاں لے جائیں گے؟”
“واپس شہر۔”
“وہاں میں کیسے چھپ سکوں گی؟”
“نہایت آسانی سے۔ بس کچھ دنوں کے لئے یہ بھلا دینا پڑے گا کہ آپ ایک بے حد سیلانی لڑکی ہیں۔!”

***​
 

“اگر وہ روپوش ہو گئی ہے۔” علامہ نے پر تفکر لہجے میں کہا۔ “تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا تو اسے شبہ ہو گیا ہے کہ یاسمین کی موت میں میرا ہاتھ ہے۔۔۔۔ یا پھر روپوشی کی وجہ محض خوف ہے۔ ڈرتی ہے کہ تنظیم سے علیحدگی کی بنا پر اسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔”
کوئی کچھ نہ بولا۔ اس وقت پیٹر سمیت وہ چھ نوجوان یہاں موجود تھے جنہوں نے علامہ کی کیمپنگ میں حصہ لیا تھا اور علامہ نے ذرا دیر پہلے انہیں بتایا تھا کہ ایک پولیس آفیسر اس سے کیمپنگ کے متعلق تفصیلات معلوم کرنے کے لئے آیا تھا۔
“لیکن جناب اسے یاسمین کی موت کے سلسلے میں آپ پر کیوں شبہ ہونے لگا؟” ایک نوجوان نے سوال کیا۔
“اس لئے کہ یاسمین کی موت میری ہی خواہش پر ہوئی تھی۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ وہ ایک بیک ورڈ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس لئے میرے حلقے کے لئے موزوں نہیں تھی۔!”
“میرے معیار پر پورے اُترو۔۔۔۔ ہمیشہ خوش و خرم رہو گے۔ مجھ سے رو گردانی کی سزا ہمیشہ موت ہوتی ہے۔ اور سنو میری اب تک کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پولیس آفیسر نے کسی سلسلے میں براہِ راست مجھ سے پوچھ گچھ کی ہے اور یہ شیلا کی حماقت کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ کہیں اور لے جانے کے بہانے اسے میرے کیمپ میں نہ لے آئی ہوتی تو پولیس اس طرف توجہ تک نہ دیتی۔!”
“ یہ حقیقت ہے!” پیٹر نے دوسروں کی طرف دیکھ کر کہا۔ “اور شیلا کی تلاش اب نا گزیر ہو گئی۔ ہمیں اسے تلاش کرنا چاہیے۔”
“پولیس آفیسر کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا جیسے میں ہی شیلا کی روپوشی کا بھی ذمہ دار ہوں۔!” علامہ نے کہا۔
“تم پانچوں ان مقامات کی نگرانی کرو۔!” پیٹر بولا۔ “جن کے بارے میں تمہیں بتا چکا ہوں۔۔۔۔ اور میں سیٹھ دھنی رام کو دیکھوں گا۔!”
“وہ شاہ دارا میں بھی نہیں ہے۔!” علامہ نے پر تشویش لہجے میں کہا۔
“آپ بے فکر رہیں جناب!” پیٹر نے کہا۔
“میں تم لوگوں کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتا ہوں۔۔۔۔!” علامہ بولا۔
“شکریہ جناب!” وہ بیک وقت بولے تھے۔
“تم پانچوں ان جگہوں کی نگرانی کرو جہاں اس کے ملنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ اور پیٹر تم یہاں ٹھہرو گے۔!”
“بہت بہتر جناب!” پیٹر نے کہا۔
وہ پانچوں چلے گئے تھے۔ پیٹر بیٹھا رہا۔
“اس نے کہیں سے فون پر اپنے باپ کو مطلع کیا تھا کہ وہ پولیس کی پوچھ گچھ سے بچنے کے لئے روپوش ہو گئی ہے اور پھر اپنے باپ کی کوئی بات سنے بغیر سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ یہ بات مجھے کیپٹن فیاض نے بتائی ہے۔!”
“کیپٹن فیاض۔۔۔۔؟”
“ہاں محکمۂ سراغ رسانی کا سپرنٹنڈنٹ! اس کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا جیسے میں نے ہی شیلا کو روپوش ہو جانے کا مشورہ دیا ہو۔”
“یہ تو بہت برا ہوا۔!”
“پرواہ مت کرو۔!”
“اگر وہ پولیس کے ہاتھ لگ گئی تو سب کچھ اگل دے گی۔۔۔۔ اس بچے کی کہانی۔۔۔۔ حویلی کی داستان۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ آپ حویلی کے آخری آدمی کی تاک میں ہیں اور اس کی موت کی ذمہ داری حزبِ اختلاف پر ڈالنا چاہتے ہیں۔!”
“اور یہ بھی کہ خود اس سے فرمائش کی تھی کہ اپنے باپ کو محض اس لئے قتل کر دے کہ وہ نا اہل ہونے کے با وجود بھی سیاست میں حصہ لیتا ہے!” علامہ کہہ کر ہنس پڑا۔
“جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔!”
“مجذوب کی بڑ۔۔۔۔ صرف اسی کا بیان۔۔۔۔ شہادت کے لیے تم آٹھوں کے نام لے گی۔ کیا تم لوگ اس کے بیان کی تصدیق کردو گے؟”
“سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ ہم اس کا مضحکہ اُڑائیں گے۔!”
“لہذا اس کی تو فکر ہی نہ کرو۔۔۔۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پاگل ہوجائے۔ اس طرح یاسمین کی کہانی اس کی ذات سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔!”
“آخر جائے گی کہاں اور کتنے دن روپوش رہ سکے گی۔ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔۔”
“ٹھہرو!” علامہ کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پولیس واقعی ہماری طرف متوجہ بھی ہے یا نہیں۔!”
“وہ کس طرح دیکھیں گے جناب۔۔۔۔!”
“نہایت آسانی سے۔ ہم معلوم کریں گے کہ ہماری نگرانی تو نہیں کی جارہی۔!”
“میں سمجھ گیا۔” پیٹر سر ہلا کر بولا۔ “اگر ہمارا تعاقب کیا گیا تو سمجھ لینا کہ پولیس سنجیدگی سے ہم سے متعلق کوئی نظریہ قائم کر چکی ہے۔!”
“بالکل ٹھیک ہے۔!”
تو پھر جیسا فرمایئے۔!”
“تم اپنی گاڑی میں بیٹھو اور روانہ ہو جاؤ۔۔۔۔کوئینس روڈ پہنچ کر بائیں جانب مڑ جانا۔۔۔۔ وہاں سے کنگٹن کی طرف کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی پارک کرنا اور اندر چلے جانا۔۔۔۔ پھرٹھیک پندرہ منٹ بعد وہیں کے فون پر تھری ایٹ نائین سکس پر رنگ کر کے صرف لفظ انفارمیشن کہنا، تمہیں صورت حال سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر یہیں میرے پاس واپس آ جانا۔”
“بہت بہتر جناب۔” پیٹر اٹھتا ہوا بولا۔
اس نے علامہ کی ہدایات اچھی طرح ذہن نشین کرلی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی روکی تھی اور اندر آیا تھا۔ داخلے کا وقت اس نے نوٹ کیا تھا کیونکہ پندرہ منٹ بعد فون پر بتائے ہوئے نمبر ڈائل کرکے معلومات حاصل کرنی تھیں۔ کافی کا آرڈر دے کر وہ گھڑی ہی پر نظر جمائے رہا تھا۔۔۔۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد اُٹھ کر کاؤنٹر پر آیا تھا اور کاؤنٹر کلرک سے فون کرنے کی اجازت لی تھی۔ نمبر ڈائل کئے تھے۔
“ہیلو۔۔۔۔!” دوسری طرف سے آواز آئی۔
“انفارمیشن۔” اس نےماؤتھ پیس میں کہا۔
“کوئی خاص بات نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہے۔!“
اس کے بعد سلسلہ منقطع ہونے کی آواز آئی تھی۔ پیٹر نے اپنی میز پر واپس آ کر کافی ختم کی اور بل ادا کرکے باہر آ گیا۔
اب اس کی گاڑی پھر علامہ کی کوٹھی کی طرف جا رہی تھی۔۔۔۔ ذرا ہی دور گیا تھا کہ سڑک کے کنارے ایک سفید فام غیر ملکی عورت گاڑی رکوانے کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑی نظر آئی۔
وضع قطع میں ہیپی معلوم ہوتی تھی۔
“مجھے لفٹ دے دو۔” اس نے کہا، جیسے ہی گاڑی اس کے قریب رکی۔
“کہاں جانا ہے؟”
لیکن جواب دیئے بغیر اس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا تھا اور اس کے برابر ہی بیٹھ گئی تھی۔ بڑی دل کشش عورت تھی لیکن بیٹھ جانے کے بعد بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کو کہاں جانا ہے۔
“کہاں چلو گی؟” پیٹر نے سوال کیا۔
“جہاں دل چاہے۔!”
“اگر کچھ پیسوں کی ضرورت ہو تو ویسے ہی بتا دو۔!” پیٹر بولا۔ “میں بہت مصروف آدمی ہوں۔!”
“مجھے تو تم آدمی ہی معلوم نہیں ہوتے۔!” عورت تلخ لہجے میں بولی اور پیٹر نے اندازہ لگا لیا کہ وہ کسی ایسے خطے سے تعلق نہیں رکھتی جہاں انگریزی بولی جاتی ہو۔
“میرے سر پر سینگ تو نہیں ہیں۔!”
“سارے جانور سینگوں والے نہیں ہوتے۔!”
“تم کہنا کیا چاہتی ہو؟” پیٹر جھنجھلا کر بولا۔
“یہی کہ میں تم سے بھیک نہیں مانگنا چاہتی۔ ایک آدمی میرے پیچھے لگا ہوا ہے اس سے بچنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ اوہ خدایا۔۔۔۔ وہ آ گیا۔!”
ایک دکان سے ایک دیسی آدمی نکل کر تیر کی طرح ان کی طرف آیا تھا۔
“یہ کون ہے؟” وہ قریب پہنچ کر غرایا۔ “تم تو میرے ساتھ ہی جا رہی تھیں۔!”
“کیا مطلب؟” عورت اسے گھورتی ہوئی بولی۔ “میں نہیں جانتی کہ تم کون ہو۔!”
“اچھا۔۔۔۔ ٹھہرو! بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں۔!”
اس نے اس طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ پیٹر کڑک کر بولا۔ “خبردار! اسے ہاتھ لگانے کی جرأت نہ کرنا۔!”
“اخاہ بڑے سورما لگتے ہو۔۔۔۔!”
“شٹ اپ۔!”
“ابے اتر تو نیچے پھر بتاؤں شٹ اپ کہنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔۔۔۔!”
پیٹر آپے سے باہر ہو کر گاڑی سے اُتر آیا۔
“ہاں تو کہنا یہ تھا کہ شٹ اپ نہیں کہا کرتے۔۔۔۔!” اجنبی نے احمقانہ انداز میں کہا۔
“تم مجھے اس کا انجام بتانا چاہتے تھے۔۔۔۔!” پیٹر آنکھیں نکال کر بولا۔
“شرمندگی۔۔۔۔ صرف شرمندگی۔۔۔۔ ہر قسم کی اکڑ بالآخر شرمندگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔” اجنبی کا لہجہ بے حد ڈھیلا ڈھالا تھا۔
اچانک پیٹر کی گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ انجن اس نے بند نہیں کیا تھا بوکھلا کر پلٹا تھا لیکن گاڑی اگلے موڑ پر پہنچ کر نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔
اجنبی نے قہقہہ لگایا اور بولا۔ “دیکھا شٹ اپ کہنے کا انجام؟”
“یہ سب کیا تھا؟” پیٹر جھینپے ہوئے لہجے میں بولا۔
“اول درجے کی فراڈ عورت ہے۔ آج میں اس سے اپنا پچھلا حساب بے باق کرنا چاہتا تھا کہ تم بیچ میں ‌آ کودے۔” اجنبی نے کہا۔
“اب کیا کریں؟” پیٹر بڑبڑایا۔
“یہ مجھ سے پوچھ رہے ہو۔۔۔۔؟” اجنبی نے غصیلے لہجے میں کہا۔
“خبر کہاں جائے گی، میں رپوٹ کئے دیتا ہوں۔۔۔۔”
“جتنی دیر میں رپورٹ کرو گے، شہر سے باہر جا چکی ہو گی میں جانتا ہوں وہ کہاں رہتی ہے۔”
“تو پھر میری مد د کرو۔ پولیس کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔” پیٹر بولا۔
“پہلے تم اپنی شٹ اپ واپس لو۔!” اجنبی نے احمقانہ انداز میں کہا۔
“جس طرح کہو واپس لینے کو تیار ہوں۔۔۔۔!”
“چلو کافی ہے۔” اجنبی سر ہلا کر بولا۔ “اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب اکڑ باقی نہیں رہی۔!”
“اچھی بات ہے۔۔۔۔ آؤ وہ رہی میری گاڑی۔۔۔۔!”
دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے اور اس طرف روانہ ہو گئے تھے جدھر وہ پیٹر کی گاڑی لے گئی تھی۔
“تم سے کیا کہہ رہی تھی؟” اجنبی نے پوچھا۔
“یہی کہ میں ایک آدمی سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ پھر جیسے ہی تم دکان سے برآمد ہوئے تھے اس نے تمہاری طرف اشارہ کیا تھا۔”
“بہر حال تم نے دیکھ ہی لیا ہو گا کہ وہ کیا چیز ہے۔”
“تم جانتے ہو کہ وہ کہاں رہتی ہے۔”
“تب پھر وہ شائد سیدھی گھر کی طرف نہ جائے۔”
“بس تو کوئی فائدہ نہیں۔ اتر جاؤ گاڑی سے اور تھانے جا کر رپوٹ درج کرا دو۔۔۔۔!” اجنبی نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
“کیا تم ایسا نہیں کر سکتے کہ کسی ٹیلی فون بوتھ کے قریب گاڑی روکو اور میں ایک کال کر لوں۔۔۔۔ اس کے بعد اس کا گھر بھی دیکھ لیں گے۔!”
“چلو یہی کر لو۔۔۔۔ مجھے تم پر رحم آ رہا ہے۔ وہ روز ہی کسی نہ کسی طرح ایک آدھ کو ٹھگ لیتی ہے۔!”
“میں تمہاری اس امداد کو ہمشہ یاد رکھوں گا۔!” پیٹر بولا۔
اجنبی نے گاڑی دوسری سڑک پر موڑ کر اسے ایک ٹیلی فون بوتھ تک پہنچا دیا تھا۔
پیٹر در اصل علامہ کو مطلع کرنا چاہتا تھا کہ وہ ہدایت کے مطابق فوری طور پر اس کے پاس واپس کیوں نہیں پہنچ سکتا؟
علامہ کے نمبرڈائل کر کے وہ اسے اپنی روداد سنانے لگا تھا۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
“تمہیں یقین ہے کہ وہ کوئی غیر ملکی عورت تھی؟”
“جی ہاں! اطالوی ہوسکتی ہے۔”
“اگر تمہیں یقین ہے تو دیکھ لو۔ لیکن ٹھہرو۔ اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے تمہاری جو مدد دے رہا ہے؟”
“ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔!”
اچھی بات ہے کوشش کرو۔۔۔۔ناکامی کے بعد رپورٹ درج کرا دینا۔!”
“لل۔۔۔۔ لیکن جناب میں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔!”
“تو پھر گاڑی جائے گی ہاتھ سے۔!”
“دیکھا جائے گا۔!” کہہ کر وہ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سننے کا منتظر رہا تھا۔ علامہ کے شاگردانِ خصوصی ایسے ہی تابعدار تھے۔ وہ ریسیور ہک سے لگا کر باہر آیا۔
گاڑی اب کسی نامعلوم منزل کی طرف جا رہی تھی۔ پیٹر تھوڑی تھوڑی دیر بعد کنکھیوں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
اجنبی نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا جیسے ہونٹ سی لئے ہوں۔
کچھ دیر بعد گاڑی کو ایک پرشکوہ عمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر پیٹر چونکا تھا۔
“ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ یہ تو رانا پیلس ہے۔” وہ بوکھلا کر بولا۔
“میں رانا تہور علی صندوقی ہوں۔۔۔۔!” اجنبی نے سخت لہجے میں کہا۔
“مم۔۔۔۔ مطلب یہ کہ۔۔۔۔؟”
گاڑی کمپاؤنڈ میں ایک جگہ رک چکی تھی۔ اجنبی نے پیٹر سے اترنے کو کہا۔
“لیکن آپ تو مجھے اس عورت کے گھر لے جا رہے تھے۔”
“اسے بھی یہیں پکڑوا بلواؤں گا۔ بے فکر رہو۔”
پیٹر چپ چاپ گاڑی سے اُتر آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس چکر میں پھنس گیا ہے۔ رانا تہور علی کا نام اس نے سنا تھا لیکن کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
“میرے ساتھ آؤ۔!” رانا نے عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
“پہلے میں پوری بات سمجھ لوں پھر کوئی قدم اٹھاؤں گا۔!”
“کیا سمجھنا چاہتے ہو؟”
“میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ رانا جیسی شخصیت ہیپی عورتوں کے چکر میں پڑے گی۔!”
“تو پھر؟”
“بھلا آپ کو میرے ساتھ کیا سروکار ہوسکتا ہے؟”
وہ مجھے دیکھ کر نروس ہو گئی تھی، اس سے تم کیا نتیجہ اخذ کرو گے؟”
“کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔!”
“اندر چلو۔ میں سمجھا دوں گا۔!”

***​
 

شیلا بے تحاشہ ہنس رہی تھی اور عمران کے چہرے پر حماقتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے۔
“میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔!”
“بتا چکا ہوں کہ ان چھ جوانوں کو بھی پکڑوا لیا ہے جو تمہاری کیمپنگ میں شامل تھے اور دونوں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوں۔!”
“آخر تم ہوکون؟”
“احمق اعظم۔۔۔۔اور عقل مندوں کا دشمنِ جانی۔۔۔۔!”
“اتنے شاندار محل میں رہتے ہو؟”
“محل میرا نہیں۔ میرے ایک دوست رانا تہور علی صندوقی کا ہے۔۔۔۔!”
“میں نے یہ نام سنا ہے لیکن آج تک نہیں سمجھ سکی کہ صندوقی سے کیا مراد ہے۔!”
“صندوق سے برآمد ہوا تھا۔ صندوق سے پہلے کی تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔!”
“میں نہیں سمجھی۔!”
“اس کی حماقت یہ کہ اب تک صندوق سے چمٹا ہوا ہے۔۔۔۔! ہاں تو میں نے ابھی تمہیں جو کچھ سمجھایا تھا یاد ہے یا نہیں؟”
“یاد ہے۔!”
“وہ سب الگ الگ کمروں میں بند ہیں۔ تم ہر ایک کے پاس جاؤ گی۔!”
“وہ سب میرے دشمن ہو رہے ہوں گے۔!”
“لیکن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ ان پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی۔!”
“کیا وہ تمہارے قیدی ہیں؟”
“سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سب بہت آرام سے ہیں۔ تم ان کے کمروں میں جا کر دیکھ ہی لوگی۔ ان کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں۔!”
“تو پھر بتاؤ مجھے کہاں جانا ہے؟”
“سامنے والے کمرے میں۔۔۔۔ اس میں پیٹر نامی لڑکا ہے۔!”
“کیا کمرہ مقفل ہے؟”
“نہیں ہینڈل گماؤ اور اند چلی جاؤ لیکن اس عمارت سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکے گا۔!”
“میں بھی نہیں؟”
“اگر موت کی خواہش ہو گی تو ضرور نکلنے کی کوشش کروگی۔!”
“یعنی مجھے جبراً نہیں روکا گیا۔!”
“ہرگز نہیں۔ جب چاہو جا سکتی ہو لیکن باہر موت تمہاری منتظر ہو گی۔!”
“میں کب جا رہی ہوں۔ میں نے تو صرف اپنی پوزیشن معلوم کی تھی۔۔۔۔ تو اب جاؤں اس کمرے میں؟”
“ہاں۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔ بس وہ سارے ڈائیلاگ یاد رکھنا۔!” عمران نے کہا اور دوسری طرف مڑ گیا۔
شیلا نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور “ارے” کہہ کر اچھل پڑی۔ پیٹر بھی اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد متحیر نظر آنے لگا تھا۔
“تت۔۔۔۔ تم۔۔۔۔؟”
“اوہ تو تم بھی۔” شیلا نے کہا۔
پیٹر خاموش رہا۔۔۔۔ شیلا جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔ “اب بات سمجھ میں آئی۔۔۔۔ میں علامہ کی قید میں ہوں۔۔۔۔ کیونکہ میں نے اپنے باپ کو قتل کر دینے سے انکار کیا تھا۔!”
“فضول باتیں مت کرو۔۔۔۔ علامہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن تم ان لوگوں کے ہتھے کیسے چڑھ گئیں؟”
“علامہ سے آخری ملاقات کے بعد شاہ دارا کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں میری گاڑی خراب ہو گئی۔ ایک غیر ملکی ہیپی کی مدد سے شاہ دارا پہنچی۔ چچا کے گھر جانے سے پہلے اسی ہیپی کے ساتھ شراب پی تھی۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ نہیں جانتی کہ اب کہاں ہوں۔!”
“تمہارا مطلب ہے ہیپی کے ساتھ شراب پی کر تم بے ہوش ہو گئی تھیں؟”
“اس کے علاوہ اور کیا سمجھوں؟”
“آخر ایسا کیوں ہوا۔ وہ تم سے کیا چاہتا ہے؟”
“کون کیا چاہتا ہے؟‘
“ہپی۔!”
“وہ تو پھر اس کے بعد دکھائی ہی نہیں دیا۔۔۔۔ یہاں مجھ سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا۔ سب اس طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جیسے ان کی مہمان ہوں۔!”
“بڑی عجیب بات ہے۔۔۔۔ لیکن اس کمرے میں کیسے پہنچیں؟”
“مجھ پر صرف عمارت سے باہر نکلنے کی پابندی ہے۔ اندر جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ لہٰذا گھومتی پھر رہی ہوں۔ دروازوں کے ہینڈل گھماتی ہوں مقفل نہیں ہوتے تو کھل جاتے ہیں۔!”
“کسی نے کچھ پوچھا ہی نہیں؟”
“نہیں! اس لئے تو الجھن بڑھ رہی ہے کہ آخر ہمارا معاملہ کیا ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟”
“یہ ایک ہیپی عورت کی کہانی ہے۔۔۔۔” پیٹر نے کہا اور اپنی داستان مختصراً دہراتا ہوا بولا۔ “میں جانتا ہوں کہ اس عمارت کا مالک وہی ہے جو مجھے یہاں لایا ہے۔!”
“وہ کون ہے؟”
“رانا تہور علی۔۔۔۔ یہ اُسی کا محل ہے۔!”
“مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے۔۔۔۔؟ ہو سکتا ہے یہاں دیکھا ہو لیکن مجھ سے تو ابھی تک کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ پہلے میں سمجھی تھی کہ شاید علامہ میرا امتحان لینے والے ہیں۔!”
“علامہ کا نام بھی نہ آنے پائے زبان پر۔!”
“اب تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہت اچھا ہوا کہ تم اس طرح مل گئے۔!”
“اوہ۔۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔ تم اب تک کھڑی ہوئی ہو۔۔۔۔ میں تمہارے لئے ایک پگ بنا لوں۔ شراب اور سگریٹ تک مہیا کی گئی ہے میرے لئے۔۔۔۔ لیکن مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔!”
“تم سے بھی کچھ نہیں پوچھا کسی نے؟”
“نہیں۔۔۔۔ لیکن میں ان کا قیدی ہوں۔۔۔۔!”
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم علامہ ہی کے کسی امتحان سے گزرنے والے ہیں۔!”
“اونہہ۔۔۔۔ دیکھا جائے گا۔!” اس نے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور الماری کھولنے سے قبل ہی کوٹ کی اندرونی جیب سے علامہ کی دی ہوئی انگشتری نکل آئی تھی۔۔۔۔ الماری کھولی اور انگشتری کے اندر کا سارا سیال ایک گلاس میں منتقل کر دیا۔ اس کی پشت شیلا کی طرف تھی۔ بوتل اٹھائی اور گلاس میں شراب انڈیلتا ہوا شیلا کی طرف مڑ کر بولا۔
“اسے یاد رکھنا کہ ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی ہیں۔!”
“خدا ہی جانے۔۔۔۔!” اس نے کہا اور گلاس شیلا کے سامنے چھوٹی میز پر رکھ دیا۔۔۔۔ شیلا نے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کمرے میں عجیب قسم کا شور گونجا اور دونوں ہی اچھل پڑے۔ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔۔۔۔ پھر شیلا بولی۔
“یہ کیسی آواز تھی اور کہاں سے آئی تھی؟”
“پتا نہیں۔!”
ٹھیک اسی وقت دروازہ کھلا تھا اور عمران کمرے میں داخل ہوا تھا۔
“کیا یہاں دستک دے کر اندر آنے کا رواج نہیں ہے۔۔۔۔؟” پیٹر بھنّا کر بولا۔
“نہیں تو۔۔۔۔ یہاں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔!” عمران نے بوکھلا کر کہا۔
“لیکن میرے کمرے میں دستک دیئے بغیر اب کوئی داخل نہ ہو۔!” پیٹر سخت لہجے میں بولا۔
“جی بہت اچھا۔۔۔۔!” عمران نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
شیلا نے گلاس کی طرف پھر ہاتھ بڑھایا تھا لیکن اس سے قبل ہی عمران نے جھک کر گلاس اٹھا لیا۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے خود پیئے گا۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟” پیٹر آگے بڑھتا ہوا بولا۔
“اچھا تو پھر تم ہی پی لو۔! شراب پیتی ہوئی عورتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔!” عمران نے کہا۔
شیلا خاموش بیٹھی رہی۔ بات اس کے پلّے نہیں پڑی تھی کیونکہ کئی بار عمران کے سامنے شراب پی چکی تھی لیکن اس نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
“تم ہو کون؟” پیٹر غصیلے لہجے میں بولا۔
“میں کوئی بھی ہوں۔۔۔۔ لیکن ان خاتون کو شراب ہرگز نہ پینے دوں گا۔۔۔۔!”
“میں تمہیں پیٹ کر رکھ دوں گا۔ !” پیٹر آستین چڑھاتا ہوا بولا۔!
“اچھی بات ہے۔۔۔۔ میں نہیں پیتا۔۔۔۔ تم ہی پی لو۔۔۔۔!”
“کیا مطلب؟!” پیٹر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
“میں نے کہا تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔!” عمران گلاس کو دوبارہ میز پر رکھتا ہوا بولا۔ تیور اچھے نہیں تھے اور لہجے نے بھی شائد پیٹر کی انا کو چھیٹر دیا تھا۔
جھپٹ کر عمران کا گریبان پکڑنا چاہا تھا لیکن اس کا ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ شیلا پھرتی سے اٹھی تھی اور ایک گوشے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔!
پیٹر نے پیچھے ہٹ کر یکلخت عمران پر حملہ کر دیا۔
ادھر عمران نے بڑی پھرتی سے چپراس ماری۔۔۔۔ پیٹر داہنے پہلو کے بل دھپ سے فرش پر گرا تھا۔۔۔۔ لیکن اس نے دوبارہ اٹھ بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔۔۔۔!
“ٹھہر جاؤ۔!” عمران دونوں ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “اس دھول دھپے سے کیا فائدہ۔۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ یہ شراب تم پی لو۔ گالی تو نہیں دی تھی۔!”
“تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے؟” پیٹر ہانپتا ہوا بولا۔! “میں رانا صاحب کا مہمان ہوں۔!”
“رانا صاحب ہی کا فرمان ہے کہ پیٹر صاحب اپنی انڈیلی ہوئی شراب خود ہی پئیں گے۔!”
“کک۔۔۔۔ کیا مطلب؟”
“مطلب میں نہیں جانتا۔ تمہیں یہ شراب پینی پڑے گی۔!”
“پی لو نا۔ کیوں جھگڑا کر رہے ہو؟” شیلا منمنائی۔
“میں تو ہرگز نہیں پیئوں گا۔ پھینک دوں گا۔!”
“خبردار۔۔۔۔! میز کے قریب بھی نہ آنا۔!” عمران کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکل آیا۔
“کک۔۔۔۔ کیا؟” پیٹر ہکلا کر رہ گیا۔
“شراب نہیں پیئو گے تو گولی ماردوں گا۔!”
“کک۔۔۔۔ کیا تم سنجیدہ ہو؟”
“بالکل۔ دس تک گنتا ہوں۔” عمران نے کہا۔ “اگر دس تک پہنچنے سے قبل تم نے گلاس خالی نہ کر دیا تو بے دریغ فائر کر دوں گا۔!”
“آخر کوئی وجہ بھی تو ہو۔!”
“قطرہ بھی نہ گرنے پائے۔۔۔۔ ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔۔!”
“نہیں۔۔۔۔ نہیں۔!”
“تین۔۔۔۔ چار۔!”
اب تو شیلا بھی سچ مچ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ اس منظر کے اس ٹکڑے سے وہ لا علم تھی۔ عمران نے ایسی کسی سچویشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
“پانچ۔۔۔۔ چھ۔!” عمران کی آواز سناٹے میں گونجی۔
“ٹھہرو رک جاؤ۔!” پیٹر ہذیانی انداز میں چیخا۔ اس کا چہرہ پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔
“سات۔!”
“نہیں۔!”
“یہاں جو کچھ بھی ہو گا اس کی بھنک بھی باہر والوں کے کانوں میں نہ پڑ سکے گی۔” عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔
“تت۔۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو؟”
“اس گلاس میں کیا ہے؟”
“شش۔۔۔۔ شراب۔!”
“بے ضرر؟” عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
پیٹر خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
“اگر یہ بے ضر ر ہے تو اٹھاؤ گلاس اور حلق میں انڈیل لو۔!”
“ز ز۔۔۔۔ زہر۔۔۔۔!” شیلا کی گھٹی گھٹی سی آواز کمرے میں گونجی تھی۔
“نہیں۔ زہر نہیں ہو سکتا۔!” عمران اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ “تم یہاں اس کے ساتھ تنہا تھیں۔ گلا گھونٹ کر بھی مار سکتا تھا۔!”
“پھر کیا ہے؟”
“یہی بتائے گا۔۔۔۔ آٹھ۔!”
“رک جاؤ۔۔۔۔ ٹھہرو۔!”
“نہیں زہر ہرگز نہیں ہو سکتا۔!” عمران بولا۔ “ورنہ زہر اور ریوالور کی گولی میں سے کسی کا انتخاب ضرور کر لیا جاتا۔!”
“میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ ٹھہر جاؤ۔۔۔۔ زہر نہیں ہے۔ اسے پی کر یہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو جاتی۔!”
“بیٹھ جاؤ۔۔۔۔!” عمران نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
پیٹر چپ چاپ پیچھے ہٹا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
“تم ذلیل کتے۔۔۔۔ کیوں میرا یہ حشر کرنا چاہتے تھے؟” شیلا آگے بڑھتے ہوئی بولی۔
“تم بھی خاموشی سے اس طرف بیٹھ جاؤ۔!” عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
پیٹر نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔
“میرے پاس وقت بہت کم ہے اس لیے ڈرامہ نہ کرو۔!” عمران نے سخت لہجے میں کہا۔ “تم آخر ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے؟”
“اس کے باپ سیٹھ دھنی رام نے اس کام کے صلے میں بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔!”
“بکواس ہے۔ جھوٹ ہے۔۔۔۔!” شیلا دہاڑی۔ “میرا باپ ایسا نہیں کر سکتا۔!”
“پانچ ہزار ایڈوانس دیئے ہیں اور پندرہ ہزار کامیابی کے بعد ملتے۔!” پیٹر نے غصیلے لہجے میں کہا۔
“سراسر بکواس۔ میرا باپ کیوں چاہے گا کہ میں پاگل ہو جاؤں۔!”
“بہت نام کماتی پھر رہی ہو نا باپ کے لئے۔!” پیٹر کے لہجے میں بے اندازہ تلخی تھی۔ وہ شیلا کو پھاڑ کھانے کے سے انداز میں گھورتا رہا۔
“یہ علامہ کا بہت ہی خاص آدمی ہے۔!” شیلا آپے سے باہر ہوتی ہوئی بولی۔ “ہو سکتا ہے۔۔۔۔ ہو سکتا ہے۔!”
وہ مزید کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی لیکن پیٹر کو بدستور قہر آلودہ نظروں سے گھورے جا رہی تھی۔
“تم کہنا کیا چاہتی تھیں؟” عمران بولا۔
“جتنی صفائی سے اس نے شراب کو آلودہ کیا تھا، کیا اسی طرح شیشی کی ٹکیاں نہیں بدل سکتا؟”
اچانک پیٹر نے بیٹھے ہی بیٹھے عمران پر چھلانگ لگائی تھی۔۔۔۔ عمران شاید اس کے لئے تیار نہیں تھا۔۔۔۔ پیٹر کا ہاتھ ریوالور والے ہاتھ پر پڑا۔ اگر سیفٹی کیچ ہٹا ہوا ہوتا تو لازمی طور پر فائر ہو گیا ہوتا۔۔۔۔ اور شیلا زخمی ہوئے بغیر نہ رہتی۔ پھر ریوالور تو عمران نے دور پھینک دیا تھا اور بائیں ہاتھ سے پیٹر کی گدی دبوچ کر داہنی کہنی سے اس کی ناک رگڑ ڈالی۔
کچھ بے ساختہ قسم کی آوازیں پیٹر کے حلق سے نکلی تھیں اور ناک سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔ گھونسہ پیٹ پر پڑا اور وہ دہرا ہو کر زمین بوس ہو گیا۔

***​
 

رات کے بارہ بجے تھے اور علامہ دہشت ابھی تک جاگ رہا تھا لیکن بستر سے بہت دور۔۔۔۔ اس وقت اگر اس کا کوئی شناسا قریب سے بھی دیکھتا تو ہرگز نہ پہچان سکتا کیونکہ اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی تھی اور آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ جسم پر سیاہ لبادہ تھا۔ اپنی کوٹھی میں بھی نہیں تھا۔ یہاں چاندنی کھیت کر رہی تھی اور سمندر کی پُر شور لہریں ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر جھاگ اڑا رہی تھیں۔
ساحل سے ایک فرلانگ ادھر دور تک لکڑی کے بے شمار ہٹ بکھرے ہوئے تھے۔ انہی میں سے ایک میں علامہ کا بھی قیام تھا اور ان ہٹوں کے باسی اسے ایک مدہوش رہنے والے نشے باز کی حیثیت سے جانتے تھے۔۔۔۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہٹ اس کی ملکیت ہے اور وہ کبھی کبھی وہاں آتا ہے۔ عام طور پر علامہ سنیچر کی شب اور اتوار کا دن اسی ہٹ میں گذارتا تھا لیکن اس کے خاص قسم کے ملاقاتی اس کے ہٹ میں نہیں آتے تھے۔ ملاقاتوں کے لئے وہ ساحل کے قریب کسی ویران جگہ کا انتخاب کرتا تھا اور نصف شب کے سناٹے میں یہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
اس وقت یہاں وہ ایسے ہی کسی ملاقاتی کا منتظر تھا۔ ٹھیک ساڑھے بارہ بجے ایک آدمی بائیں جانب سے ٹیکرے پر چڑھ کر اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا۔
“تم پندرہ منٹ دیر سے آئے ہو۔!” علامہ غرایا۔
“راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی باس۔!”
“کیا خبر ہے؟”
“آپ کے ان چھ آدمیوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔ ان کے گھر والے بھی پریشان ہیں اور اپنے طور پر تلاش کر رہے ہیں۔!”
“اور سیٹھ دھنی رام؟”
“اس کے یہاں حالات معمول پر ہیں۔ کسی کو ذرہ برابر بھی تشویش نہیں معلوم ہوتی۔ شاہ دارا میں بھی لڑکی کی تلاش جاری ہے البتہ آپ کے ایک آدمی پیٹر کی گاڑی پولیس کے قبضے میں ہے۔!”
“کیوں؟”
“تین دن سے ایک جگہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔!”
“تو اس کا مطلب ہوا کہ پولیس نے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا۔!”
“پولیس نے رجسٹریشن آفس سے گاڑی کے مالک کا پتہ لگایا ہے۔!”
“بڑی عجیب بات ہے۔ اگر وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگے تو پھر؟”
“ہمارا کوئی نادیدہ حریف بھی ہو سکتا ہے۔!”
“بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ زیر تربیت آدمیوں کا علم کسی حریف کو نہیں ہو سکتا۔!”
“میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں باس۔!”
“میرا طریق ایسا نہیں ہے کہ زیرِ تربیت آدمی میرے تجارتی حریفوں کی نظر میں آسکیں۔!”
“ہم انہیں تلاش کرنے کی انتہائی کوشش کر رہے ہیں۔!”
“بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔!”
“ہم محتاط ہیں جناب۔!”
“اس ماہ تمہارا کتنا کمیشن بنا ہے؟”
“بائیس ہزار۔!”
“اگلے مہینے سے میں کمیشن میں پانچ فیصد کا اضافہ کر رہا ہوں۔!”
“شکریہ باس۔!” نو وارد کا لہجہ مسّرت آمیز تھا۔
“جتنا بزنس بڑھے گا اتنا ہی کمیشن بھی بڑھتا جائے گا۔ میں اپنے کار پردازوں کو زیادہ سے زیادہ متمول دیکھنا چاہتا ہوں۔!”
“اسی لئے تو ہمارے کاروباری حریف ہم سے جلتے ہیں۔!”
“جل جل کر راکھ ہونے دو انہیں۔ وہ مجھ سے ٹکرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔!”
“ہمیں آپ پر فخر ہے باس۔!”
“اور مجھے اپنے کار پردازوں پر فخر ہے۔۔۔۔ وہ بہت ذہین ہیں۔!”
“ایک بات ہے باس۔!”
“کہو کیا بات ہے؟”
“آپ کے ان چھ آدمیوں کے بارے میں علامہ دہشت سے کیوں نہ پوچھ گچھ کی جائے؟”
“ہرگز نہیں ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔!”
“میں بھی تو انہیں کا تربیت یافتہ ہوں۔ ان کے لئے اجنبی تو نہیں۔!”
“اصول توڑو گے؟” علامہ نے حیرت سے کہا۔!” شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہ تربیت مکمل کر لینے کے بعد اس کے مخصوص شاگردوں نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا صرف میں اس سے براہِ راست رابطہ رکھتا ہوں۔ پہلے ہی معلوم کر چکا ہوں کہ وہ بھی کچھ نہیں جانتا غائب ہو جانے والوں کے بارے میں۔!”
“میں معافی چاہتا ہوں باس۔!”
“اسے ہمیشہ یاد رکھا کرو کہ میرے سارے معاملات اسی طرح الگ الگ ہیں جیسے حکومتوں کی وزارتیں شعبہ وار الگ الگ ہوتی ہیں۔!”
“میں سمجھتا ہوں باس۔!”
“بس اب جاؤ۔۔۔۔ اور ان کی تلاش جاری رکھو اور جیسے ہی اس کا علم ہو کہ وہ پولیس کے ہاتھ لگے ہیں، مجھے مطلع کر دینا۔!”
“وہ احتراماً جھکا اور ٹیکرے سے اترتا چلا گیا۔!”

***​
 

“ہر وقت کنگھی چوٹی۔ ہر وقت کنگھی چوٹی۔!” سلیمان اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر دھاڑا۔”پتیلی لگنے کی بو بھی ناک میں نہیں پہنچی۔!”
“ارے تو۔۔۔۔ تو ہی دیکھ لے۔۔۔۔!” گل رخ چنچنائی۔
“ہوش میں ہے یا نہیں؟”
“کیوں بکواس کر رہا ہے؟”
“ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ تو میری بیوی ہے۔۔۔۔ بد زبانی نہ کر۔!”
“تو میرا بی وا ہے۔۔۔۔ ٹائیں ٹائیں کیوں کرتا ہے؟”
“بیوا؟”
“ہاں ہاں بیوا ہی لگتا ہے۔۔۔۔ شوہروں جیسی تو شکل ہی نہیں ہے۔!”
“دماغ تو نہیں چل گیا؟”
“ہوش میں ہے یا نہیں۔۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا؟ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ڈائیلاگ یاد ہے یا نہیں؟”
“دیکھ گل رخ اچھا نہیں ہوگا۔ مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کر۔!”
“اسی لئے تو کہتا ہوں کہ تو ہی چولہا ہانڈی کرتا رہ۔۔۔۔ میں خود تجھ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔!”
“اور تو کیا کرے گی؟”
“ٹانگ پر ٹانگ رکھے پڑی فلمی رسالے پڑھا کروں گی۔!”
“میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کون تیرا دماغ خراب کیا کرتا ہے؟”
“وہی جس نے تجھے آسمان پر چڑھا رکھا ہے۔!”
“کیا مطلب؟”
“صاحب نے کہا ہے کہ دب کے نہ رہیو۔!”
“ارے۔۔۔۔ مارا گیا۔!” سلیمان پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔
“اور وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ سنۂ پچھتر عورتوں کا سال تھا۔ بہت دیر میں معلوم ہوا مجھ کو ورنہ بتاتی تجھے۔!”
“اب بتا دے۔۔۔۔!” سلیمان آنکھ نکال کر بولا۔
“کیا فائدہ۔۔۔۔ اب سنۂ چھیتر شروع ہو گیا ہے۔!”
“گردن مروڑ دوں گا کسی دن۔!”
“باتیں بھی باورچیوں ہی جیسی کرتا ہے۔! ارے پرائیویٹ ہی میٹرک پاس کر لے۔!”
“بس بس! بڑی آئی میٹرک والی۔ اب نام لیا میٹرک کا تو زبان گدی سے کھینچ لوں گا۔ بھول جا کہ میٹرک پاس ہے۔!”
“وہ تو بھول ہی جانا پڑے گا، صاحب نے میری تقدیر پھوڑ دی۔!”
“ہاں ہاں نہیں تو ڈپٹی کلکٹر ملتا تجھے۔!”
“ہیڈ کانسٹیبل تو مل ہی جاتا۔!”
“چپ بے غیرت۔!”
“اس میں بے غیرتی کی کیا بات ہے! تیرے مرنے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل ہی تلاش کروں گی۔!”
“تم بولے تو ہم ابھی اس کو مار ڈالے۔!” کچن کے باہر سے جوزف کی آواز آئی۔
“چل بے کالئے۔!” سلیمان حلق پھاڑ کر بولا۔
“او کم بختو اب مجھ پر رحم کرو۔!” دور سے عمران کی آواز آئی تھی۔
“چپ چپ۔!” گل رخ آہستہ سے بولی۔
“میں آج ہی اپنا بوریا بستر باندھتا ہوں۔!” سلیمان بڑبڑایا۔
“میں ساتھ نہ جاؤں گی۔!”
“چوٹی پکڑ کے گھسیٹتا ہوا لے جاؤں گا۔!”
“دیکھ اچھا نہ ہوگا اگر بد زبانی کی۔!” گل رخ بہت زور سے چیخی تھی۔
عمران کچن کے دروازے میں آ کھڑا ہوا تھا۔ اس حال میں کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں بائیں ہاتھ کی نبض پر تھیں۔
“تم دونوں کہیں نہ جاؤ میں خود ہی جا رہا ہوں۔!” اس نے مری مری سی آواز میں کہا۔
“شہ دے دے کر دماغ خراب کر دیا ہے سسری کا۔!” سلیمان بھنا کر بولا۔
“تو خود سسرا۔۔۔۔ تیری سات پشتیں سسریاں!” گل رخ دانت پیس کر بولی۔
“لیکن اس گھر کو تو سسرال نہ بناؤ۔!” عمران کراہا
“مجھے چھٹی دیجئے! میں اب یہاں نہیں رہوں گا۔!” سلیمان چولہے پر ہاتھ مار کر بولا۔
“کہاں جائے گا؟”
“جہاں خدا لے جائے گا۔!”
“اور اس بے چاری کا کیا ہوگا؟”
“میری بات نہ کیجئے صاحب۔!” گل رخ بولی۔
“اس بے چاری کو مرتبان میں رکھ کر اوپر سے سرسوں کا تیل انڈیل دیجئے گا۔!” سلیمان نے کہا۔
“اللّہ کرے تیرا ہی اچار پڑ جائے شلجم کے بچے!” گل رخ کلکلائی۔
اور عمران گھنٹی کی آواز سن کر ڈرائنگ روم کی طرف دوڑا گیا۔! کوئی آیا تھا۔ جوزف جو اس کے پیچھے تھا۔ آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے لگا۔
عمران ڈرائنگ روم میں ہی رک گیا تھا۔
“مسٹر صفدر ہیں باس!” اس نے جوزف کو کہتے سنا! ”آئیے مسٹر!”
“آئیے مسٹر!” عمران نے بھی ہانک لگائی۔ “لیکن چائے نہ پلا سکوں گا کیونکہ باورچی خانے کے حالات نازک ہیں۔!”
سلیمان اور گل رخ کے جھگڑنے کی آوازیں ڈرائينگ روم میں پہنچ رہی تھیں۔!
“یہ نیا روگ پال لیا ہے آپ نے!” صفدر ہنس کر بولا۔!
“اور اس روگ کے بچے بھی میں ہی پالوں گا۔!” عمران کی ٹھنڈی سانس دور تک سُنی گئی تھی۔!
صفدر نے بیٹھتے ہوئے کوٹ کی اندرونی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور عمران کی طرف بڑھا دیئے۔
“کیا ہے؟”
“علامہ کی ٹیپ کی ہوئی تقاریر سے کچھ نوٹ لئے ہیں۔ یہ تقاریر پچھلے پندرہ برسوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔!”
“تمہارا چوہا بہت ذہین ہوتا جا رہا ہے۔!”
“اب تو آپ بھی اسے چیف کہا کیجئے۔! کتنے دنوں سے کام کر رہے ہیں اس کے لئے۔!”
“تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔۔ میں سر سلطان کے لئے کام کرتا ہوں۔ ایکس ٹو کو صرف رابطے کی ایک کڑی سمجھتا ہوں۔! خیر تو یہ ٹیپ تمہیں کہاں سے ملے؟”
“کچھ یونیورسٹی سے اور کچھ مختلف کلچرل اداروں سے۔۔۔۔ اور ایکس ٹو کا یہ خیال قطعی درست نکلا کہ اس کی تقاریر سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوا تھا۔!”
“کیا معلوم ہوا؟”
“متعدد تقاریر میں اُس نے صرف ضلع احمد پور کی مثالیں یا حوالے دیئے ہیں۔۔۔۔ دس سال پہلے کی تین تقاریر میں ایک گاؤں کا نام بھی لیا ہے۔!”
“کیا نام ہے گاؤں کا؟”
“جھریام۔۔۔۔ چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ گاؤں ضلع احمد پور ہی میں واقع ہے۔!”
“گڈ۔۔۔۔! اور کچھ؟”
“احمد پور کے اس گاؤں کے تھانے کا نام بھی تھانہ جھریام ہی ہے۔۔۔۔ وہاں کا پرانا ریکارڈ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اڑتالیس سال پہلے جھریام میں آتش زدگی کی ایسی واردات ہوئی تھی کہ آٹھ افراد ایک مکان میں جل مرے تھے۔۔۔۔ خاندان کے سربراہ کا نام پیر علی تھا۔!”
“بہت اچھے جا رہے ہو۔!” عمران بولا۔
“وہاں آج بھی صرف ایک ہی حویلی ہے۔ تیرہ سال قبل پوری حویلی ویران ہو گئی تھی۔ اس کے سارے افراد دو ماہ کے اندر اندر ایک حیرت انگیز وباء کا شکار ہو کر مر گئے تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ وباء صرف حویلی ہی تک محدود رہی تھی۔ لیکن ٹھہرئیے اس خاندان کا ایک فرد آج بھی زندہ ہے۔ محض اس لئے کہ وہ اُن دنوں لندن میں زیرِ تعلیم تھا۔!”
“اب جلدی سے اس کا نام بھی لے ڈالو۔!” عمران بولا
“میاں توقیر محمد جھریام موجودہ حکمران پارٹی کے ایک سرگرم کارکن اور اپنے ضلعے کی شاخ کے صدر بھی ہیں۔!”
عمران نے سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سکوڑے تھے۔ پھر یک بیک وہ اچھل پڑا۔!
“کیا بات ہے؟” صفدر نے حیرت سے پوچھا۔
“تین دن بعد پارٹی کا کنونشن یہیں شروع ہونے والا ہے۔!”
“وہ تو ہے۔!”
“وہ اسی موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔! میاں توقیر محمد بھی کنونشن میں ضرور شرکت کریں گے۔!”
“تو پھر؟”
“کچھ نہیں۔۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔!”
“آپ دیکھیں گے؟”
“یہ مطلب نہیں تھا کہ انہیں دھماکے سے اڑتا ہوا دیکھوں گا۔!”
ٹھیک اسی وقت جوزف پھر کمرے میں داخل ہوا تھا۔
“باس! وہ جا رہا ہے۔۔۔۔ سامان اکٹھا کر رہا ہے اپنا۔!”
“اور وہ کیا کر رہی ہے؟”
“اس کا ہاتھ بٹا رہی ہے سامان سمیٹنے میں۔!”
“اچھا ہے دفع ہو جانے دو۔!”
“وہ نہیں جا رہی! کہتی ہے! اب میں کسی ہیڈ کانسٹیبل سے شادی کروں گی۔!”
“یہ تو اچھا نہ ہو گا۔۔۔۔ اگر وہ ہیڈ کانسٹیبل بھی یہیں رہ پڑا تو؟”
“یہ سب تم جانو باس۔!”
“جاؤ۔۔۔۔!” عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔
“کیا سلیمان جا رہا ہے؟” صفدر نے پوچھا۔ عمران نے مغموم انداز میں سر ہلایا تھا۔
“جا چکا۔۔۔۔!” صفدر مسکرا کر بولا۔
“کیوں نہیں جائے گا۔!”
“اس قابل کب چھوڑا ہے آپ نے کہ کسی اور کے کام آ سکے۔!”
“ڈپلومیسی!” عمران بائیں آنکھ دبا کر مسکرایا۔ پھر اٹھتا ہوا بولا۔! “چلو!”
“کہاں؟”
“کہیں بھی۔۔۔۔ خواہ مخواہ اتوار ضائع ہو رہا ہے۔!”
وہ دونوں نیچے سٹرک پر آئے تھے اور عمران نے صفدر ہی کی گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔
“کدھر چلیں گے؟”
“تفریح کا موڈ بھی ہے اور کام بھی کرنا ہے۔!”
صفدر نے گاڑی اسٹارٹ کی اور عمران نے کہا۔ “ساحل کی طرف۔ تمہیں آج علامہ کے ایک پرانے شاگرد سے ملواؤں گا۔!”
“یہ علامہ آخر ہے کیا بلا۔۔۔۔ بیک گراؤنڈ مظلوموں کی سی رکھتا ہے۔ لیکن کرتوت۔!” صفدر نے کہا۔
“ذہین آدمی ہے! لیکن غلط راستے پر جا نکلا ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی انتقام لے چکنے کے بعد بھی انتقام کی آگ نہیں بجھتی۔!”
“ان ساتوں کا کیا رویہ ہے؟”
“پیٹر کے علاوہ اور سب نے وہی کہانی سنائی ہے جو شیلا سُنا چکی تھی۔ پیٹر اسی پر اڑا ہوا ہے کہ دھنی رام نے شیلا کو ذہنی طور پر مفلوج کرا دینے کے لئے اس کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس کا اعتراف کرنا ہے کہ وہ علامہ کے حلقہ بگوشوں میں سے ہے اور اسے دنیا کا عظیم ترین آدمی سمجھتا ہے۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کے بیانات سے اس نے اتفاق نہیں کیا۔!”
“کنفیشن چیئر پر بٹھا دیجئے۔!”
“دیکھا جائے گا۔! فی الحال تو میاں توقیر محمد کا مسئلہ در پیش ہے۔!”
“اس سلسلے میں آپ کیا کریں گے؟”
“نگرانی اور صرف نگرانی۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔!”
“کیوں نہ علامہ کو حراست میں لے لیا جائے۔!”
“اس اسٹیج پر بھی ہمارے پاس ناکافی مواد ہے اس کے خلاف اور پھر وہ خاصی بڑی سوشل پوزیشن بھی رکھتا ہے۔!”
“کیا ان چھ افراد کے بیانات بھی ناکافی ہیں؟”
“شاعری پر کون پہرے بٹھا سکا ہے صفدر صاحب! ان کے بیانات محض علامہ کی بکواس تک محدود ہیں۔ شیلا سے اس نے جو گفتگو کی تھی وہ بھی قہقہوں میں اڑا دی جائے گی البتہ اگر پیٹر اعتراف کر لے کہ وہ زہر علامہ نے اسے شیلا پر استعمال کرنے کے لئے دیا تھا تب بات بنے گی۔!”
“میں نے کہا تھا کنفنشن چیئر۔۔۔۔!”
“وہ ناکارہ ہو گئی ہے۔۔۔۔ ابھی تک ٹھیک نہیں ہو سکی۔۔۔۔اس کا ایک پرزہ باہر سے امپورٹ کرنا پڑے گا۔!”
“تھرڈ ڈگری۔!”
“پیٹر کا ٹائپ کمیاب ہے۔ تھرڈ ڈگری کا اس پر اس حد اثر نہیں ہو گا کہ وہ اعتراف کر لے۔ ویسے کبھی کبھی مجھ سے بھی بھول چوک ہو جاتی ہے۔ اگر میں اسی وقت اس کے ہاتھ پیر باندھ کر زبردستی وہ شراب اس کے حلق میں انڈیلنے کی کوشش کرتا تو شاید کامیابی ہو جاتی۔!”
“شراب تو اب بھی محفوظ ہو گی۔!”
“نہیں شیلا اتنی خائف اور نروس تھی کہ بعد میں اس نے ہاتھ مار کر گلاس کو میز سے گرا دیا تھا۔۔۔۔ اور ساری شراب قالین میں جذب ہو گئی تھی۔!”
صفدر کچھ نہ بولا۔ گاڑی تیز رفتاری سے ساحلی علاقے کی طرف جا رہی تھی۔
“گرین ہٹس کی طرف چلنا ہے۔!” عمران نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
“کیا علامہ کا وہ پرانا شاگرد وہیں ملے گا؟”
“گمنام آدمی نہیں ہے تم بھی اس سے واقف ہو گے۔!” عمران نے کہا اور کچھ دیر خاموش رہ کر بولا۔!
“گرین بیچ ہوٹل کا مالک شہزاد۔!”
“ارے۔۔۔۔!” صفدر نے حیرت سے کہا۔ “وہ علامہ کا شاگرد تھا؟”
“دس بارہ سال پرانی بات ہوئی۔ مجھے بھی علم نہیں تھا لیکن ان پانچوں سے گفتگو کے دوران میں یہ بات معلوم ہوئی تھی۔!”
“گرین بیچ ہوٹل تو نشہ بازوں کا بہت بڑا اڈہ ہے۔۔۔۔ اور میری معلومات کے مطابق اسے محکمۂ آبکاری کے ایک آفیسر کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔!”
“ہو سکتا ہے کہ وہ آفیسر بھی علامہ ہی کا شاگرد ہو۔۔۔۔علامہ کی جڑیں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ شاید ہی کوئی محکمہ ایسا ہو جہاں اس کے شاگرد نہ موجود ہوں۔”
“کیا آپ اس سلسلے میں شہزاد سے پوچھ گچھ کریں گے؟”
“نہیں! صرف اپنی شکل دکھاؤں گا اسے۔۔۔۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔!”
“اس سے کیا فائدہ؟”
“پولیس کے علاوہ بھی کچھ لوگ علامہ کے ان شاگردوں کے بارے میں پوچھ کچھ کرتے پھر رہے ہیں جو میری حراست میں ہیں۔ علامہ کو علم ہو گیا ہو گا کہ وہ پولیس کی حوالات میں نہیں ہیں لہٰذا اب اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ حقیقتاً کہاں ہوں گے۔!”
“گویا آپ خود ہی جتانا چاہتے ہیں؟”
“کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔!”
“بھلا کیا بات ہوئی؟”
“اول درجے کا اُلو ہوں۔ بس تم دیکھتے رہو۔!”
“آپ اپنے بارے میں جیسی بھی رائے رکھتے ہوں، براہِ کرم مجھے باور کرانے کی کوشش نہ کریں۔!”
“بڑے سعادت مند ہوتے جا رہے ہو۔! سلیمان کی شادی کرا کے پچھتا نہ رہا ہوتا تو تمہاری بھی ضرور کرا دیتا۔!”
“تو آپ گرین ہوٹل میں بیٹھیں گے؟”
“نہ صرف بیٹھوں گا بلکہ تمہیں چانڈو بھی پلاؤں گا۔!”
صفدر کچھ نہ بولا۔ گاڑی گرین ہٹس کی طرف بڑھی جا رہی تھی۔ گرین ہوٹل بھی اسی نواح میں واقع تھا۔! اس وقت وہاں خاصی بھیڑ تھی۔ زیادہ تر غیر ملکی ہپّی اور جہاز ران نظر آ رہے تھے۔ بڑی تلاش کے بعد ایک میز خالی ملی تھی۔
عمران نے کاؤنٹر کے قریب رک کر خاصی اونچی آواز میں صفدر سے گفتگو کی تھی اور پھر اس خالی میز کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اس نے کھانے پینے کی کچھ چیزیں طلب کی تھیں اور ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ ایسے انداز میں لینے لگا تھا جیسے کسی کی تلاش ہو۔!
پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ہیڈ ویٹر میز کے قریب آ کھڑا ہوا اور ان دونوں کو بغور دیکھتا ہوا بڑے ادب سے بولا۔! “آپ صاحبان میں سے مسٹر علی عمران کون ہیں؟”
“مم۔۔۔۔ میں ہوں۔ سامالیکم۔۔۔۔!” عمران اٹھ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔
ہیڈ ویٹر نے غیر ارادی طور پر مصافحہ کیا تھا اور جھینپے ہوئے انداز میں بولا تھا۔۔۔۔ “شہزاد صاحب نے کہا ہے کہ اگر کوئی حرج نہ سمجھیں تو ذرا دیر کو آفس میں آ جائیں۔!”
“ضرور۔۔۔۔ ضرور!” اس نے چہک کر کہا اور صفدر سے بولا۔ “تم بیٹھو۔! میں ابھی آیا۔!”
شہزاد صورت ہی سے برا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ آنکھوں سے سفاکی عیاں تھی اور بھاری جبڑے مزید درندہ خصلتی کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
عمران کو دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اٹھ گیا تھا۔ مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا کر بولا۔! “کیا میں یہ سمجھ لو کہ تمہیں بھی کسی قسم کی لت لگ گئی ہے۔!”
“گدھے ہمیشہ گدھے ہی رہتے ہیں یعنی انہیں کوئی لت نہیں لگتی۔ خود چلاتے ہیں دولتیاں۔!” عمران مصافحہ کرتا ہوا بولا۔
“بیٹھو۔۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔ بہت دنوں کے بعد ملے ہو اور غالباً یہی کہنے آئے ہو کہ ابھی تک تم نے انہیں پولیس کے حوالے نہیں کیا۔!”
“پوری بات سنے اور سمجھے بغیر زبان کھولنے کا عادی نہیں ہوں۔!”
“اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو پھر کیا میں یہاں تمہاری موجودگی کا مقصد معلوم کر سکتا ہوں؟”
“تمہارا کیا خیال ہے؟”
“پہلے یہاں کبھی نہیں آئے؟”
“تفریح کے لیے آئے تھے کہ بھوک معلوم ہوئی۔!”
“ختم کرو۔” وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔ “ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ پہلے تم پارٹی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہو، کامیابی نہیں ہوتی توشکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔!”
“گرانی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔!” عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
“کس قدر بڑھی ہے گرانی؟ آخر کچھ معلوم بھی تو ہو۔!” شہزاد نے مسکرا کر کہا۔
“شاید میرے ستارے اچھے ہی تھے کہ وہ خوف زدہ لڑکی خواہ مخواہ ہاتھ لگ گئی۔!”
“تو میرا خیال غلط نہیں تھا۔!”
“بقول تمہارے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔” عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔
“مطالبہ؟” شہزاد کا لہجہ نا خوشگوار تھا۔
“ڈیڑھ لاکھ۔!”
“گھاس کھا گئے ہو؟”
“اونچی پوزیشن کا معاملہ ہے۔!”
“کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اب یہاں سے واپس بھی جا سکو گے؟”
“شادی کرا دو تو یہیں کا ہو رہوں گا۔!”
عمران کو شروع ہی سے احساس ہوتا رہا تھا کہ اس کی پشت پر دو آدمی موجود ہیں۔ شہزاد نے شاید اس کے سر پر سے انہی کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکتے ، عمران سینے کے بل میز پر پھسلتا ہوا شہزاد سے جا لگا جو میز کے دوسرے سرے پر تھا۔ اس کے ریوالور کی نال شہزاد کی کنپٹی پر تھی۔
“اب کہو تو یونہی پڑا رہوں یا اٹھ جاؤں؟” عمران نے آہستہ سے پوچھا۔
شہزاد کے دونوں آدمی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔
شہزاد بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ ریوالور کی نال اس کے کنپٹی سے ہٹائے بغیر عمران میز سے پھسل کر نیچے آیا تھا اور شہزاد کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا۔
“ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی باہر گیا تو تمہاری موت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہو گی۔!” عمران نے کہا۔ “انٹر کوم کے ذریعے ہیڈ ویٹر کو ہداہت دو کہ میرے ساتھی کو بھی یہیں لے آئے۔۔۔۔!”
شہزاد نے کسی سحر زدہ آدمی کے سے انداز میں عمران کے مشورے پر عمل کیا تھا۔
“تم دونوں دروازے کے پاس سے ہٹ کر ادھر کھڑے ہو جاؤ۔!” عمران نے دونوں آدمیوں سے کہا۔
“وہی کرو جو کہہ رہا ہے۔!” شہزاد نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ “میرا بہت پرانا یار ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی سٹک جاتا ہے۔!” وہ دونوں بائیں جانب والے گوشے میں سرک گئے۔
“یہ ہوئی نا بات پیار کی۔!” عمران بولا اور ریوالور کنپٹی سے ہٹا کر گدی پر رکھ دیا اور اس طرح کھڑا ہو گیا کہ باہر سے کسی آنے والے کی نظر ریوالور پر نہ پڑ سکے۔
جلدی ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی اور عمران بلند آواز میں بولا تھا۔ “آ جاؤ۔”
دروازہ کھلا اور صفدر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا تھا۔
“ان دونوں کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال لو۔” عمران نے شہزاد کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
صفدر نے ان کے ہاتھ دیوار پر رکھوائے تھے اور ہولسٹروں سے ریوالور نکال لئے تھے۔
“تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو؟” شہزاد نے اپنی آواز میں کرختگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
“معاملے کی بات۔ لیکن کسی کھلے میدان میں، جہاں میرے اور تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔!”
“میں تیار ہوں۔!”
“تو اٹھو۔۔۔۔ اور جس طرف میں لے جانا چاہتا ہوں اسی طرح چلو۔!”
شہزاد چپ چاپ اٹھا تھا۔ عمران کا ریوالور کوٹ کی جیب میں چلا گیا اوراس کی نال شہزاد کے پہلو میں چبھنے لگی۔
“تمہارے ریوالور شہزاد صاحب کے ساتھ واپس آ جائیں گے۔!” عمران نے اس کے آدمیوں سے کہا تھا۔
پھر وہ شہزاد سے لگ کر چلتا ہوا باہر آیا۔ صفدر اس کے پیچھے تھا اور پوری ہوشیاری سے عمران کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔
وہ عمارت سے نکل آئے تھے۔ عمران شہزاد کو صفدر کی گاڑی تک بڑھا لایا۔ صفدر نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تھا۔ عمران کے ریوالور کا دباؤ ‌شہزاد کے پہلو پر کسی قدر بڑھ گیا۔۔۔۔
“ڈیڑھ لاکھ بہت ہیں۔ میں پہلے ہی آگاہ کئے دیتا ہوں۔!” شہزاد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
عمران اس کی طرف توجّہ دیئے بغیر صفدر سے بولا۔ “ہیڈ کوارٹر۔!”
“کک۔۔۔۔ کیا مطلب!” شہزاد چونک پڑا۔
“چپ چاپ بیٹھے رہو۔” عمران ریوالور کا دباؤ بڑھاتا ہوا بولا۔ “پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں کہہ رہا۔ میرے گرگے پاگل خانے کو ہیڈ کوارٹر کہتے ہیں۔!”
“تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ تم میری قوّت سے واقف نہیں ہو۔!”
“تمہاری قوّت سے واقف نہ ہوتا تو سیدھا تمہارے پاس کیوں آتا۔!”
“لیکن جو حرکت تم نے اس وقت کی ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارے باپ کا اثر و رسوخ بھی کام نہ آ سکے گا۔”
“باپ کا تو نام ہی نہ لو۔ ہر بلیک میلر اس بھری پُری دنیا میں تنہا ہوتا ہے۔۔۔۔ باپ کے لائق ہوتا تو گھر کیوں چھوڑتا۔ ویسے کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر میں ان ساتوں کو پولیس کے حوالے کر دوں تو کس کی گردن پھنسے گی؟”
شہزاد کچھ نہ بولا۔ اب اس کی آنکھوں میں فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔
“میں نے پوچھا تھا کہ کس کی گردن پھنسنے والی ہے۔!” عمران نے پھر سوال کیا۔
“زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک حماقت سر زد ہوئی ہے۔!” شہزاد آہستہ آہستہ بڑبڑایا۔
“کیسی حماقت؟”
“مجھے تم کو نظر انداز کر دینا چاہئے تھا۔!”
“میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تم مجھے نظر انداز کر دو۔ کر ہی نہیں سکتے تھے جبکہ میں نے پہلی بار تمہارے ہوٹل میں قدم رکھا تھا۔!”
شہزاد خاموش رہا۔
“البتہ تمہیں معاملے کی بات فوراً ہی نہیں شروع کر دینی چاہئے تھی۔” عمران ہی بولتا رہا۔ “بہرحال ان میں براہِ راست صاحبِ معاملہ ہی سے بات کروں گا۔!”
“صاحبِ معاملہ تم کسے سمجھتے ہو؟”
“تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ تم سے حماقت ہی سرزد ہوئی ہے۔!”
“مجھے اعتراف ہے۔۔۔۔ جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئے تھا۔۔۔۔ تم نے دام بڑھا دیئے۔!”
“کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں ان ساتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے؟” عمران نے سوال کیا۔
“کسی بلیک میلر کو پولیس والوں کے سے انداز میں سوالات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔!”
ٹھیک اسی وقت ایک تیز رفتار موٹر سائیکل بائیں جانب اتنے قریب سے گزری تھی کہ صفدر گڑبڑا گیا تھا اور عمران کے کان جھنجھنا اٹھے تھے۔
شہزاد اگلی سیٹ کی پشت گاہ پر ڈھلک گیا۔۔۔۔ اس کی بائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ چھوٹ رہا تھا۔ صفدر نے پورے بریک لگائے۔ گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔
“احمق۔!” عمران دھاڑا۔ “چلو ورنہ وہ ہاتھ سے جائے گا۔!”
“کک۔۔۔۔ کیا ہوا۔!” صفدر ہکلایا۔
“فائر کر گیا ہے۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔ ختم ہو گیا۔!”
صفدر نے ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ گاڑی نے چھلانگ سی لگائی تھی۔
چالیس۔۔۔۔ پچاس۔۔۔۔ ساٹھ۔۔۔۔ اور پھر سپیڈو میٹر کی سوئی ساٹھ اور ستّر کے درمیان جھولنے لگی۔
“اور تیز۔۔۔۔!” عمران غرّایا۔
لیکن موٹر سائیکل کا کہیں پتا نہ تھا۔
پندرہ منٹ بعد عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔! “بے کار ہے وہ کچّے راستے پر مڑ گیا۔۔۔۔ تم بھی گاڑی سڑک سے اتار کر کسی ٹیلے کی اوٹ میں لے چلو۔!”
اور پھر جب گاڑی رکی تھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ شہزاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار کے فائر سے اس کی بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا۔
“باڈی پر پڑے ہوئے خون کے دھبّے صاف کرو۔۔۔۔!” عمران نے صفدر سے کہا۔ “اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اس لاش کو انتہائی احتیاط سے سائیکو مینشن لے چلیں اور سرد خانے میں رکھ دیں۔!”
“وہ کون ہو سکتا ہے؟” صفدر بڑبڑایا۔
“کیا تم اس کا چہرہ دیکھ سکے تھے۔!”
“نہیں۔!”
“میں بھی نہیں دیکھ سکا تھا۔!” عمران بولا۔

***​
 

جوزف کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ دونوں بے غیرت تھوڑی دیر بعد پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگے تھے اور سلیمان کا لپٹا ہوا بستر دوبارہ کھل گیا تھا۔
جوزف تو سمجھا تھا کہ اس بار ذرا کچھ نا مناسب سی ہوئی ہے لہٰذا سلمان ضرور بھاگ نکلے گا۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سلیمان اس حد تک ڈھیٹ ہو گیا ہے کہ کسی ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے پر بھی اس کی انا کوٹھیس نہ لگے گی۔
“بے غیرت۔۔۔۔! بے غیرت۔۔۔۔!” اس کے ذہن نے تکرار شروع کر دی اور وہ اکتا کر گھر سے نکل بھاگا۔ عمران بھی موجود نہیں تھا۔ صرف انہی دونوں کے قہقہے پورے فلیٹ میں گونج رہے تھے۔ جوزف نے سوچا تھا کہ جیمسن کی طرف جانکلے گا اور کچھ دیر کے لئے اس کی عقل مندی کی باتوں سے جی بہلانے کی صورت نکال لے گا۔
کئی منٹ تک سڑک کے کنارے کھڑا رہا لیکن کوئی خالی ٹیکسی نہ ملی لہٰذا جھلا کر پیدل ہی چل پڑا۔ ویسے اگلے موڑ پر ٹیکسی مل جانے کی بھی توقع تھی۔
دفعتاً ایک گاڑی اس کے قریب ہی رکی۔ بریک چڑچڑائے تھے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ گاڑی سے اس کا فاصلہ بمشکل دو فٹ کا رہا ہو گا۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے اس کی نظریں چار ہوئی تھیں اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھوں میں دبے ہوئے کپڑے کے بنڈل سے کوئی سیاہ چیز جھانک رہی ہے۔
پستول کا سائلنسر پہچان لینے میں کتنی دیر لگتی۔ اس نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
“چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھ جاؤ۔!”
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی نے سرد لہجے میں کہا تھا اور زبان انگلش استعمال کی تھی۔ گویا اس سے اچھی طرح واقف تھا لیکن جوزف کو اس کی شکل شناساؤں کی سی نہیں لگی تھی۔
“اچھا مسڑ۔!” اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا اور اگلے دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھادیا لیکن اس سے پہلے ہی دروازہ کھل گیا تھا۔
جوزف نے بے چارگی سے تعمیل کی پچھلی سیٹ والا بے حد ہوشیار آدمی معلوم ہوتا تھا۔
گاڑی چل پڑی۔۔۔۔ اور پچھلی سیٹ والے نے کہا۔ “میں جاگ رہا ہوں اسے اچھی طرح ذہن نشین رکھنا۔!”
“لیکن مسڑ۔۔۔۔ قصہ کیا ہے؟ میں تو بہت شریف آدمی ہوں۔ کبھی غنڈہ گردی وغیرہ میں بھی ملوث نہیں رہا۔!”
“باتیں بھی نہیں کرو گے۔!” پچھلی سیٹ والا غرایا۔
“تمہاری مرضی۔۔۔۔ میرے ہاتھ صاف ہیں۔!”
“لیکن بغلی ہولسٹر میں ریوالور موجود ہے۔!”
“دو ریوالور بیک وقت رکھ سکتا ہوں۔ اجازت نامہ ہے میرے پاس مسڑ علی عمران کا باڈی گارڈ ہوں۔!”
“ٹھیک ہے زبان بند رکھو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر سر پر رکھ لو۔!”
“میری توہین نہ کرو۔ معاملات کو سمجھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ وعدہ کرتا ہوں۔ ویسے سر پر ہاتھ رکھ کر چلنے پر مرجانے کو ترجیح دوں گا۔!”
پچھلی سیٹ والے نے خاموشی اختیار کر لی۔ وہ عقب نما آئینے سے جوزف کا چہرہ بغور دیکھتا رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی۔ گاڑی شہر کی متعد د سڑکوں سے گذرتی ہوئی شاہ دارا والی سڑک پر ہو لی۔ پھر کچھ دیر بعد ایک کچے راستے پر مڑ گئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے درمیان خاصا کشادہ راستہ تھا۔ سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی سال خودرہ عمارت کے سامنے ہوا۔۔۔۔ ابھی فضا میں اتنی اجلاہٹ موجود تھی کہ عمارت کی ساخت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔
جوزف سے اترنے کو کہا گیا۔ پچھلی سیٹ والا پہلے ہی نیچے اتر گیاتھا اور پستول کی نال جوزف کی کھوپڑی کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
“اب ہاتھ اٹھالو اُوپر۔ یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔!” پستول والے نے کہا۔
“مجھے کوئی اعتراض نہیں۔!” جوزف ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔ “لیکن ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے گھنٹوں ہاتھ اٹھائے رہ سکتا ہوں۔!”
“دائیں مڑو۔۔۔۔! اور چل پڑو۔۔۔۔!”
“مجھے بات تو پوری کر لینے دو۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر چلنے میں مجھے دشواری ہوتی ہے۔ اگر گر پڑا تو خواہ مخواہ تمہیں دشواری ہو گی۔!”
“چلو۔!” وہ دہاڑا۔ اور جوزف سال سوا سال کے کسی بچے کے انداز میں لڑکھڑاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھنے لگا اور پھر سچ مچ گر ہی پڑا ہوتا، اگر پستول والے نے آگے بڑھ کر اپنے بائیں ہاتھ سے سہارا نہ دیا ہوتا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ جوزف نے پلٹ کر اس کے پستول پر ہاتھ ڈال دیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے سٹین گن کا قہقہہ سنا تھا اور اس کے قریب ہی زمین سے دھول کا مرغولہ فضا میں بلند ہونے لگا تھا۔۔۔۔ بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر اس نے پھر ہاتھ اٹھا دیئے۔ صدر دروازے کے قریب ایک تاریک ہیولٰی سٹین گن سنبھالے کھڑا تھا۔ جوزف ہاتھ اٹھائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
“اندر چلو۔۔۔۔!” پستول والے نے اسے دھکا دیا۔ وہ چل پڑاتھا لیکن چال میں پہلے ہی کی سی لڑکھڑاہٹ تھی۔
جوزف کو ایک کمرے میں لایا گیا جہاں تین بڑے کیروسین لیمپ روشن تھے۔
وہ چند ھیائی ہوئی سی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔
سٹین گن والا ساتھ نہیں آیا تھا۔ جوزف نے ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھایا تھا جو اسے یہاں تک لائے تھے۔
“کیا بات ہے؟” پستول والے نے غصیلے لہجے میں ‌کہا۔ “اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے رکھو۔!”
پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ وہ جوزف کے ہولسٹر سے ریوالور نکال لے۔۔۔۔
جوزف نے بے چون و چرا اسے ریوالور نکالنے دیا تھا۔ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ آدمی غافل نہ ہو گا جس نے سٹین گن سے فائر کئے تھے۔
“نہیں۔!” دفعتاً وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “تم سمجھتے ہو گے کہ شائد میں نے تم سے پستول جھپٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا۔!”
“کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔۔؟”
“پینے کو کچھ ہو تو لاؤ۔۔۔۔ میرا نشہ اکھڑ رہا ہے۔!”
“کیا تم اسے کوئی سوشل وزٹ سمجھتے ہو؟” پستول والا ہنس کر بولا۔
“میں سرے سے کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ یہ تو اب تم لوگ سمجھاؤ گے کہ اس تکلیف دہی کا مقصد کیا ہے۔!”
“وہ ساتوں کہاں ہیں؟” کسی نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔ جوزف بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا لیکن کوئی دکھائی نہ دیا۔
“کیا مجھ سے کچھ پوچھا جا رہا ہے؟” جوزف نے راز دارانہ انداز میں پستول والے سے سوال کیا۔
“ہاں۔۔۔۔ جواب دو۔!” پستول والا بولا۔
“کن ساتوں کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے؟ میں کچھ نہیں سمجھا۔!”
“وہ ساتوں طالب علم جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔!”
“یقین کرو۔۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔!”
“اچھی بات ہے۔۔۔۔ تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔!” نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔
“لیکن میں خواہ مخواہ مارا جاؤں گا۔ اگر جانتا ہوتا تو نہ بتا کر مجھے جتنی خوشی ہوتی اس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔!”
“عمران کہاں ہے؟”
“جب میں گھر سے نکلا ہوں اس وقت کہیں گئے ہوئے تھے۔!”
“اس کے دوسرے ٹھکانوں کے پتے دو۔!”
“ان کے ٹھکانے؟” جوزف کے لہجے میں حیرت تھی۔ پھر وہ غمناک آواز میں بولا۔ “جب سے باورچی کی شادی ہوئی ہے بالکل ہی بے ٹھکانہ ہو گئے ہیں۔!”
“اگر تم نے نہ بتایا تو تمہارے سارے ناخن ایک ایک کر کے کھینچ لئے جائیں گے۔!”
“سنو بھائی! اگر مجھے علم بھی ہوتا تو مقصد معلوم کئے بغیر ہرگز نہ بتاتا۔ ویسے اگر تم کہو تو خود ہی اپنے سارے ناخن کھینچ کر تمہاری ہتھیلی پر رکھ دوں۔!”
“تم شاید زندہ درگور ہی ہونا چاہتے ہو؟”
“میں صرف ان کے دو ٹھکانوں سے واقف ہوں۔ ایک فلیٹ اور دوسرا۔۔۔۔” جوزف جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔
“ہاں دوسرا؟”
“ٹپ ٹاپ نائٹ کلب۔۔۔۔!”
“وہاں رہنے کا انتظام نہیں ہے؟”
“میرا مطلب تھا جس رات گھر پر نہیں ہوتے، کلب میں ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کوئی اور ٹھکانا ہو تو مجھے علم نہیں۔!”
“تمہاری حیثیت کیا ہے؟”
“میں ان کا باڈی گارڈ ہوں۔!”
“اسے باڈی گارڈ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟”
“نام کا باڈی گارڈ ہوں مسڑ۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے پال رکھے ہیں۔!”
“اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے؟”
“میں نے کبھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔!”
“کیا یہ غلط ہے کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے اور اگر وہ اس کے مطالبات پورے نہیں کرتے تو وہ پولیس کو ان کی راہ پر لگا دیتا ہے۔!”
جوزف کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی اور وہ سر ہلا کر بولا تھا۔ “تمہارا خیال اس حد تک درست ہے کہ ہرقسم کے لوگوں کو نہیں بلکہ صرف ان مجرموں کو بلیک میل کرتے ہیں جو بظاہر اچھی سوشل پوزیش کے حامل ہوتے ہیں۔!”
ٹھیک اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی تھی اور ایک بار پھر سٹین گن کے فائر ہوئے تھے۔ جوزف نے جھرجھری سی لی۔ اس کے دونوں نگران بھی کسی قدر متوحش سے نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ دھما دھم چھت پر کودے ہوں۔
سٹین گن کے فائروں کی آوازیں پہلے کی نسبت اب کچھ دور کی معلوم ہونے لگی تھیں۔ ریوالوروں کے بھی فائر سنائی دیئے اور پھر جوزف نے اس آدمی پر چھلانگ لگادی جس نے اس کے ہولسٹر سے ریوالور نکالا تھا۔ ریوالور ابھی تک اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔
“خبردار۔۔۔۔ خبردار۔۔۔۔!” پستول والا جوزف کو دھمکیاں دیتا ہوا پیچھے ہٹا لیکن اتنی دیر میں وہ نہ صرف اپنے ریوالور پر قبضہ کر چکا تھا بلکہ دوسرے آدمی کو ڈھال بناتا ہوا پستول والے سے بولا تھا۔ “پستول زمین پر ڈال دو۔”
وہ دشواری میں پڑ گیا۔ جوزف پر فائر کرنے کے لیے اپنے ساتھی ہی کو چھیدنا پڑتا۔
دفعتاً باہر سناٹا چھا گیا۔ نہ سٹین گن کے فائر سنائی دیئے تھے اور نہ کسی اور قسم کی آواز۔۔۔۔
“کیا تم نے سنا نہیں۔۔۔۔؟” جوزف غرایا اور ریوالور کی نال اپنے شکار کی کنپٹی پر رکھ دی۔
“پھپھ۔۔۔۔ پھینک دو پستول۔۔۔۔” شکار ہکلایا۔
بالآخر اس نے پستول فرش پر ڈال دیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیئے تھے۔
اچانک کوئی اس کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔ اور یہاں کی سیچویشن دیکھ کر دروازے کے قریب ہی رک گیا۔
“سنبھل کر مسڑ صفدر۔۔۔۔!” جوزف نے دانت نکال دیئے۔
صفدر نے سب سے پہلے فرش پر پڑا پوا پستول اٹھایا تھا۔
جوزف نے اپنے شکار کو دھکا دیا اور وہ دوسرے آدمی سے جا ٹکرایا۔
“سٹین گن کس نے چلائی تھی؟” صفدر انہیں گھورتا ہوا بولا۔
“ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔!” جوزف بولا۔ “کیا وہ تیسرا آدمی ہاتھ نہیں آیا؟ اسی کے پاس سٹین گن تھی۔!”
“انہیں لے چلنا ہے۔!” صفدر ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔
انہی کی ٹائیوں سے ان کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔
“کیا تم تنہا ہو مسڑ۔!” جوزف نے صفدر سے پوچھا۔
“نہیں۔ چلو نکلو جلدی۔۔۔۔ وہ لوگ تیسرے آدمی کی تلاش میں ہیں۔!”
اس کمرے سے نکل کر وہ صدر دروازے کی طرف بڑھے تھے۔ صفدر نے پہلے باہر نکلنا چاہا تھا لیکن جوزف نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔ “ٹھہرو مسٹر! اتنی جلدی بھی ٹھیک نہیں ہے۔!”
“کیا بات ہے؟” صفدر جھنجھلا گیا۔
“پہلے ان دونوں‌ کو باہر نکالو۔ تم دیکھتے نہیں کہ کتنا اندھیرا ہے۔!”
“اوہ۔۔۔۔!” صفدر کو عقل آگئی۔
“ہم نہیں نکلیں گے۔!” ان میں‌ سے ایک بولا۔
“کیوں۔۔۔۔؟” صفدر غرایا۔
“تم شاید زندہ رہنے دو۔ لیکن وہ۔۔۔۔!”
“پوری بات کرو۔!”
“ہمارا باس اپنے آدمیوں کو دوسروں کے قبضے میں زندہ نہیں رہنے دیتا۔!”
“تو وہ تمہارا باس تھا جس نے سٹین گن سے فائرنگ کی تھی؟” جوزف نے پوچھا۔
“ہاں باس ہی تھا۔!”
“وہ کون ہے؟”
“مالک ہے۔۔۔۔!”
“میں نام پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔!”
“شہروز۔۔۔۔!”
“نام نیا ہے۔۔۔۔!”
“نام لینے کا حکم نہیں صرف باس کہلاتا ہے۔۔۔۔!”
“کہاں رہتا ہے۔۔۔۔؟”
“ہم نہیں جانتے۔۔۔۔!”
“چلو۔۔۔۔ نکلو باہر۔۔۔۔ ہمارے آدمی بھی ہیں۔!”
“یہ باڈی گارڈ آپ سے زیادہ تجربہ کار ہے۔۔۔۔ باس کہیں آس پاس ہی موجود ہو گا۔ وہ ہمیں تم لوگوں کے ہتھے نہیں چڑھنے دے گا۔ آج تک اس نے اپنے کسی آدمی کو بے بس نہیں ہونے دیا۔ کہتا ہے کہ بے بسی سے موت اچھی۔!”
صفدر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ ایسا ہی زبردست دھماکہ تھا۔ وہ سب ایک کے اوپر ایک ڈھیر ہوتے چلے گئے تھے اور کسی کو اس کا ہوش نہیں رہا تھا کہ اس کے اوپر چھت کا کتنا ملبہ گرا تھا۔
کسی پر کچھ بھی بیتی ہو لیکن جوزف نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے صفدر کو آواز دی تھی اور اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی تھی۔ آنکھوں سے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ مدھم سی روشنی کا احساس ہوا تھا اور یہ روشنی بتدریج تیز ہوتی گئی تھی۔ پھر وہ کراہنے لگا تھا کیونکہ بات پوری میں سمجھ آگئی تھی۔۔۔۔ وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں تھا۔ قریب ہی نرس کھڑی نظر آئی۔
“اٹھنے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔!”
“ہاں۔۔۔۔ شاید۔۔۔۔ کیا کئی ٹکڑے ہو گئے ہیں ٹانگ کے۔۔۔۔؟”
“نہیں‌ ایک سمپل فریکچر ہے۔ پریشانی بات نہیں۔!”
“اور میرے ساتھی۔۔۔۔؟”
ایک صاحب اور ہیں جن کے بازو کا گوشت ادھڑ گیا ہے۔!”
“مسڑ صفدر۔۔۔۔!”
“اور وہ دونوں۔۔۔۔؟”
“بس یہاں آپ ہی دونوں ہیں۔!” نرس نے کہا تھا اور قریب ہی رکھے ہوئے فون پر کسی کو جوزف کے ہوش میں آ جانے کی اطلاع دی تھی۔
اور پھر پندرہ یا بیس منٹ بعد جوزف عمران کی شکل دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔
“سب ٹھیک ہے۔!” عمران سر ہلا کر بولا۔ “تیری خواہش تھی نا کہ فلیٹ سے نکل بھاگے۔ بس اب یہیں پڑا رہ۔۔۔۔!”
“لیکن یہ سب کیا تھا باس؟ اس بار تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔!”
“بس ہے ایک خطرناک جانور۔۔۔۔ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔!”
“کیا وہ دونوں زندہ ہیں؟”
“بالکل محفوظ ہیں۔ جسموں پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ صرف بیہوش ہو گئے تھے۔!”
“ہم دونوں کے نیچے تھے نا۔ سارا ملبہ تو ہمیں دونوں پر گرا تھا۔!”
“ایک ترچھے گرنے والے شہیتر نے ملبے کا زیادہ حصہ نیچے نہیں آنے دیا تھا ورنہ کوئی بھی نہ بچتا۔!”
“لیکن تم ٹھیک اسی جگہ کیسے آ پہنچے تھے۔۔۔۔؟”
“فلیٹ کی نگرانی کراتا رہا تھا۔۔۔۔ نہ صرف فلیٹ کی بلکہ تیری اور سلیمان کی بھی۔!”
“تو گویا تمہیں پہلے ہی سے شبہہ تھا۔۔۔۔؟”
“حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں میری کہ خود ہی اپنا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے۔ بہر حال پہلے وہ سٹین گن سے فائرنگ کرتا رہا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد دستی بم پھینکنے شروع کر دیئے تھے۔!”
“میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی۔!” جو زف نے کہا۔ “صرف آواز سنتا رہا تھا۔ وہ تمہیں بلیک میلر سمجھتا ہے۔ تمہارے ٹھکانے پوچھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جو مجرم تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر تیار نہیں ہوتے انہیں تم پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔۔۔۔!”
“یہ بڑی اچھی اطلاع ہے میرے لئے۔!”
“انہوں نے اس کا نام شہزور بتایا تھا۔!”
“اور خاصی خوفناک شکل والا ہے۔ کوئی خونخوار قسم کا ہیپی معلوم ہوتا ہے ان دونوں کے بیان کے مطابق۔!”
“تو تم بھی اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے؟”
“نہیں۔۔۔۔ لیکن شاید جلد ہی دیکھ سکوں۔!”
“محتاط رہنا باس۔۔۔۔! بے حد خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔!”
“فکر نہ کرو۔۔۔۔!”
“اس کا ٹھکانہ بھی معلوم ہوا ان لوگوں سے۔۔۔۔؟”
“نہیں۔۔۔۔! ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل قیام گاہ سے کوئی بھی واقف نہیں ہے اور وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آتا ہے۔!”
“خاصا اسلحہ بھی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس۔!”
“ہاں تباہ ہو جانے والی عمارت سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے غار میں اسلحے کا ذخیرہ ملا ہے۔۔۔۔!”
جوزف خاموش ہو کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے گہری فکر مندی ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔
“بس اب یہیں پڑا رہ ہفتے بھر تک۔۔۔۔!” عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
“لیکن باس۔ میری بوتلوں کا کیا ہو گا؟”
“کیوں شامت آئی ہے۔۔۔۔ ہسپتال میں پئے گا جہاں ہر وقت ملک الموت کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔!”
“یہ نہیں ہو سکتا باس۔۔۔۔ اس سے تو بہتر یہ ہوتا کہ گردن ہی کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔!”
“یہاں ناممکن ہے۔۔۔۔ بکواس مت کرو۔!”
“خدا کے لئے باس۔!”
“میں کچھ نہیں کر سکتا۔!” کہتا ہوا عمران کے کمرے سے نکل گیا۔
جوزف کا دماغ چکرانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہاں کے دوران قیام میں شراب نہیں ملے گی۔ قریباً آدھے گھنٹے بعد اسے آنکھیں کھولنی پڑی تھی۔ کوئی آیا تھا۔
“آہا ٹم ڈونوں۔۔۔۔؟” جوزف کے دانت نکل پڑے۔
“ہائے کالئے بھیا۔ تجھے میری بھی عمر لگ جائے۔” گلرخ روہانسی ہو کر بولی تھی۔
ایک وزنی سی باسکٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔ شاید جوزف کے لئے پھل لائی تھی۔ سلیمان سر جھکائے کھڑا تھا۔
“ارے بیٹھو ٹم ڈونوں۔۔۔۔!” جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
“بیٹھ جائیں گے۔۔۔۔!” سلیمان بُرا سا منہ بنا کر بولا۔ “سالے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ کھانا پکانا سیکھ لے۔ کہیں باورچی لگوا دوں گا۔۔۔۔ ایسے کاموں میں تو یہی ہوتا ہے۔ کسی دن بڑے صاحب کا بھی شامی کباب بنا پڑا ہوگا۔!”
“چپ رہ کیسی بد فال زبان سے نکالتا ہے۔۔۔۔!” گل رخ بگڑ گئی۔
“چوپ۔۔۔۔ چوپ۔۔۔۔ یہاں نہیں لڑے گا ٹم ڈونوں۔” جوزف گھگھیایا۔
اتنے میں گل رخ نے قریباً ایک فٹ لمبی اور چپٹی سی پلاسٹک کی بوتل باسکٹ سے نکالی تھی۔
اور جوزف سے بولی تھی۔ “چپکے سے بستر کے نیچے رکھ لو۔!”
“یہ کیا ہے؟”
“تمہاری دو بوتلیں اسی میں الٹ لائی ہوں۔ صاحب کو نہ معلوم ہونے پائے۔۔۔۔!”
جوزف نے بوتل اسی کے ہاتھ سے جھپٹ کر چادر میں چھپائی تھی اور پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔!
“میں نے سلیمان سے کہا تھا کہ بے موت مر جائے گا کالیا بھیا کوئی تدبیر کرو۔۔۔۔!”
“ٹم میرا سسٹر ہے ٹم میرا بیٹی ہے۔!” جوزف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے تھے۔
“ابے۔۔۔۔ ابے یہ کیا!” سلیمان بولا۔
“سلیمان بھائی میرے کو معافی ڈو۔!”
“ابے کا ہے کی معافی۔۔۔۔!”
“میں ٹم پر جوگسا کرٹا۔۔۔۔!”
“ابے چل سب ٹھیک ہے۔ بہت بڑا ہے دل میرا۔۔۔۔ لیکن بیٹا ذرا ذرا سی پینا۔۔۔۔ اور بڑی احتیاط سے ورنہ اگر بھانڈا پھوٹ گیا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔۔۔۔!”
“ہم چوری چوری پیئے گا۔ ذرا سی پیئے گا۔!”
گل رخ میز پر پھل رکھ رہی تھی۔ جوزف نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔ تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہا۔۔۔۔!

***​
 
سلام مسنون!

باوجود تین تین پروف ریڈنگ کے 24 گھنٹوں سے زائد کی مشقت کے بعد یہ اس حال کو پہونچا ہے۔

مجھے سطر سطر تبدیلیوں کی ضرورت پیش آئی۔ اور اس سے جو نتائج اخذ کئے انھیں اپنے تاثرات میں کسی وقت بیان کروں گا۔ ابھی دعوت عام ہے اس میں غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی۔

ایک جو سب سے واضح گڑبڑ ہے وہ ہے واوین کی جو کہ چاچو کے باعث ایسی ہوئی۔ یعنی ابتدائی اور اختتامی واوین کی جگہیں آپس میں تبدیل ہو گئیں۔ میرا سسٹم اس وقت کچھ ایسے انداز مین بیہیو کر رہا تھا کہ میں اپنے اور چاچو کے رائے کے تضاد میں الجھ کر رہ گیا۔ اور انھیں کو ثقہ مان بیٹھا۔ خیر یہ تو صرف تین عدد فائنڈ اینڈ ریپلیس کا مسئلہ ہے جسے اپنی لوکل فائل میں درست بھی کر چکا۔ واضح رہے دو بار کے ریپلیس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ تین بار کرنا ہوگا۔

- ابتدائی واوین کو کسی اجنبی کیریکٹر میں تبدیل کرنا۔
- اختتامی واوین کو ابتدائی واوین میں تبدیل کرنا۔
- اجنبی کیریکٹر کو اختتامی واوین مین تبدیل کرنا۔

نوٹ: انشاء اللہ کل کسی وقت یہاں یہ درستگی کرکے پوسٹ کر دوں گا۔ ابھی سونا ہے۔ صبح ہو گئی! :)

والسلام!

--
سعود ابن سعید
 

ابو کاشان

محفلین
میں نے بھی 3 ابتدائی صفحات ms word پر تقل کیئے تھے اور یہی مسئلہ درپیش آیا۔
ابتدائی واون سطر کے آخر میں ظاہر ہو رہا تھا۔
پھر آپ کا خیال آیا تو کام چھوڑ دیا کہ آپ کر لو گے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب کیا بات ہے آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے یہ تو بہت مشکل تھا اگر مجھے دیا جاتا تو پھر دس دن لگ جاتے بہت شکریہ میں آپ کو مبارک ویسے ہی نہیں دیتا ہوں کچھ تو بات ہے آپ میں
 
ویسے میرے خیال میں اس کتاب کی کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کا کام بہت جلدی اور مختصر سے وقت میں مکمل ہوا ہے جس پر ساری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
 
میں نے بھی 3 ابتدائی صفحات Ms Word پر تقل کیئے تھے اور یہی مسئلہ درپیش آیا۔
ابتدائی واون سطر کے آخر میں ظاہر ہو رہا تھا۔
پھر آپ کا خیال آیا تو کام چھوڑ دیا کہ آپ کر لو گے۔

چونکہ آپ کے ایم ایس ورڈ میں ٹیسٹ فلو کا ڈائریکشن لیفٹ ٹو رائٹ ہوگا اس لئے یہ دقت آئی ہوگی۔ اردو یا عربی متن کے لئے اسے رائٹ ٹو لیفٹ کر لیجئے تو یہ مسئلہ نہیں آئے گا۔ :)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top