علامہ دانش کے کارنامے (۳۔ڈو ڈو کی تلاش)

ڈو ڈو کی تلاش
معراج
چائے پینے کے بعد ہم گپ شپ میں مصروف تھے۔ اچانک علامہ دانش نے ایک سوال پوچھا، "اچھا یہ بتائیے کہ وہ کون سا پرندہ ہے جس کی نسل تھوڑے عرصے پہلے ہی ختم ہوئی ہے؟"
مرشد نے الل ٹپ دو تین نام گنوائے۔ علامہ ہر بار مسکرا کر کہتے، "غلط، بالکل غلط۔"
آکر ہم نے درخواست کی کہ آپ خود ہی اس پرندے کا نام بتادیجیے۔ تب علامہ مسکرا کر بولے، "اس پرندے کا نام ڈوڈو ہے۔"
مرشد نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا، "یہ بھی کوئی نام ہوا؟ ڈو ڈو۔"
علامہ نے کہا، "اس پرندے کا یہ نام پرتگالیوں نے دیا۔ پرتگالی زبان میں ڈو ڈو کا مطلب ہے بےوقوف۔ یہ پرندہ بہت ہی بےوقوف ہوتا تھا۔ اگر کوئی اس پرندے کو پکڑنا چاہے تو یہ بالکل بھی مزاحمت نہیں کرتا۔"
یہ کہہ کر علامہ نے ایک موٹی سی کتاب نکالی اور ہمیں ڈوڈو کی تصویر دکھائی۔ یہ بہت ہی بھدا اور بےڈھنگا سا پرندہ تھا۔ یہ بطخ سے کچھ بڑا تھا ااور ٹرکی مرغ سے کچھ چھوٹا۔ اس کی ٹانگوں پر مچھلی کی طرح چھلکے تھے۔ دم مڑی ہوئی تھی۔ چونچ انڈے جیسی لمبوتری تھی۔ یہ شکل سے ہی احمق دکھائی دیتا تھا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے پر تھے مگر یہ اڑ نہیں سکتا تھا۔
علامہ نے بتایا، "یہ پرندہ صرف ماریشس کے ساحل کے نزدیک پایا جاتا تھا۔ ایک پرتگالی سیاح کا بیان ہے کہ اس جزیرے پر یہ پرندہ بہت بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا۔ جب آبادکار وہاں پہنچنے لگے تو انہوں نے اس پرندے کا بےحد شکار کیا۔ آخر ۱۷۰۰ء میں اس پرندے کی نسل مکمل طور سے ختم ہوگئی۔ دو تین ڈوڈو برطانیہ بھیجے گئے۔ وہ وہاں پہنچتے ہی مرگئے۔ ان پرندوں میں مصالحہ بھروا کر عجائب گھروں مین رکھ دیا گیا لیکن ناجانے نکس طرح یہ نمونے بھی غاءب ہوگئے۔ اب دنیا میں اس پرندے کا وجود نہیں۔ جو کچھ ہمیں معلوم ہوسکا ہے وہ صرف پرانی تحریروں اور تصویروں کے ذریعے ہی معلوم ہوسکا ہے۔
مرشد بولا، "کتنی حیرت ناک بات ہے کہ یہ پرندہ ایک صرف ایک مخصوص جگہ پر پایا جاتا تھا اور اچانک ہی اس کی نسل کا خاتمہ ہوگیا۔"
علامہ ہنس کر بولے، "بھئی یہ تو کتابی بات تھی، حقیقت کچھ اور ہے۔"
اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی۔ میں نے کہا، "علامہ صاحب! آپ تو پہیلیاں بھجوانے لگے۔"
علامہ بولے، "میری عقل میں بھی یہ بات آج تک نہ آ سکی کہ اس پرندے کی نسل ختم کیسے ہوگئی؟ اگر اس کے پر نہیں تھے اور یہ اڑنے کے قابل نہیں تھا تو کیا ہوا؟ جب آباد کاروں نے اس کا شکار شروع کیا تو یہ تیر کر کسی دوسرے جزیرے جا سکتا تھا۔ بحر ہند میں جزیرہ ماریشس کے آس پاس بہت سے چھوٹے چھوٹے غیرآباد جزیرے ہیں، جو ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج بھی کچھ ڈوڈو ان جزیروں میں رہتے ہیں۔"
یہ کہہ کر علامہ نے ایک بہت بڑا نقشہ میز پر پھیلادیا اور ایک جگہ انگلی رکھ کر بولے، "یہ ہے ماریشس اور یہ اس کے آس پاس بارہ کے قریب جزیرے ہیں، جن میں ڈوڈو کی موجودگی کا امکان ہے؟"
کپتان مرشد حیران ہو کر بولا، "کیا آپ کا ارادہ ان جزیروں میں جانے کا ہے؟"
علامہ بہت پرجوش لہجے میں بولے، "بالکل درست کہا۔ میں ان جزیروں کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔"
یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی۔ دراصل سیر و تفریح کیے ہوئے مدتیں گزر گئیں۔ پکنک منانے کے لیے ماریشس جیسے خوبصورت جزیرے سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔
اب اگر مین سفر کی تفصیل سنانے بیٹھون تو بہت وقت درکار ہوگا۔ مختصر یہ کہ ہم ان جزیروں پر گئے۔ ان میں سے بہت سوں کے نام بھی مجھے یاد نہیں رہے۔ کوئی کوہان کی شکل کا تھا، کوئی خنجر جیسا نوکدار اور لمبوترا، کوئی انڈےکی طرح بیضوی اور کوئی بالکل گول۔ کئی ہفتوں تک ہم ان جزیروں کی خاک چھانتے رہے لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ آخر ہم تھک ہار کر مایوس ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈوڈو واقعی اب ناپید ہوچکے ہیں اور ان کا وجود باقی نہیں رہا۔ علامہ کے عزم و ہمت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ ہم جزیرہ مڈغاسکر سے چلے۔ شروع شروع میں موسم بہت خوشگوار تھا۔ پھر اچانک موسم تبدیل ہونے لگا۔ آسمان پر گہرے بادل چھا گئے۔ سمندر ابھی تک پرسکون تھا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ طوفان آنے والا ہے۔ کپتان مرشد بہت فکرمند نظر آرہا تھا۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو وہ بولا، "ہمارے پاس بہت تھوڑا سا پٹرول بچا ہے۔ اگر بدقسمتی سے ہم بھٹک گئے تو ممکن ہے کہ ہم افریقہ پہنچ جائیں یا ہوسکتا ہے کہ جہاز کو سمندر میں اتارنا پڑے۔
اچانک ہمیں ایک جزیرہ نظر آیا۔ یہ کوئی ایک میل لمبا، دو یا تین سو گز چوڑا اور سطح سمندر سے دس بارہ فیٹ اونچا تھا۔ اس کی سطح بالکل ہموار اور سپاٹ تھی۔
یہ جزیرہ دیکھ کر مرشد پھر فکر و پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ نقشے میں اس جگہ کسی جزیرے کا نشان نہیں تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے راستے سے بھٹک گئے تھے۔ مرشد پیشانی سے پسینہ پونچھ کر بولا، "سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گڑبڑ کیسے ہوگئی۔ شاید قطب نما میں کچھ خرابی ہوگئی تھی۔ اب یہی مناسب ہے کہ ہم پٹرول ضائع کر کے کوئی خطرہ مول نہ لیں، بلکہ اسی جزیرے پر اتر جائیں اورآسمان کے صاف ہونے کا انتظار کریں۔"
ہم جزیرے کے پاس ہی سمندر میں اتر گئے۔ یہ جزیرہ بالکل صاف تھا۔ میرا مطلب ہے کہ اس جزیرے پر سبزہ یا گھاس وغیرہ بالکل نہیں تھا۔ مرشد نے جہاز کر جزیرے کے ساتھ لگا دیا۔ ہم کچھ دیر دم لینے کے بعد جزیرے پر اترے۔ تب وہ بات رونما ہوئی جس کا کوئی سان و گمان تک نہ تھا۔ شاید یہ درجہ حرارت میں فرق ہوجانے کے باعث ہوا یا ممکن ہے کہ اس کی کوئی اور وجہ ہو۔ ہوا یہ کہ اچانک ہی دھند چھا گئی۔ علامہ دانش بولے، "اس علاقے میں عام طور سے دھند نہیں چھایا کرتی۔"
مرشد نے کہا، "شکر کرو کہ ہم نے جہاز اتار لیا تھا، ورنہ اس دھند میں جہاز کو اتارنا بھی ناممکن ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ دھند جلد ہی دور ہوجائے گی اور سورج دکھائی دینے لگے گا۔"
میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ اتنی دیر ہم جزیرے پر چہل قدمی کریں اور پھر ایک ایک کپ گرما گرم چائے پئیں۔"
ہم جزیرے پر اتر گئے۔ کچھ دیر تک ادھر ادھر گھومنے پھرنے کے بعد ہم نے چائے پی۔ علامہ اور مرشد تو گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ میں ٹہلتا ٹہلتا دور نکل گیا۔ جزیرے پر کہیں کہیں سیپیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز موجود نہیں تھی۔
میرا خیال تھا کہ دھند تھوڑی دیر میں چھٹ جائے گی مگر یہ تو اور زیادہ گہری ہوگئی۔ کچھ دیر بعد یہ عالم ہوگیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں واپس لوٹا اور اندھوں کی طرح راستہ ٹٹولتا ہوا جہاز تک پہنچا۔ ہم جہاز پر سوار ہو گئے۔
مرشد جہاز کو چلا کر کسی نہ کسی طرح خشکی پر لے گیا۔ ہم دھند چھٹنے کا انتظار کرنے لگے۔ رات ہو گئی اور گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔
میں نے کہا، "اگر اس وقت سمندر میں طوفان آگیا تو بڑا غضب ہوگا۔"
کپتان مرشد نے کہا، "مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ طوفان سے پہلے تیز ہوا چلے گی جو اس دھند کو اڑا لے جائے گی اور ہمیں راستہ دیکھنے میں آسانی پیدا ہوجائے گی۔"
ہم نے رات کے وقت باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلے کپتان مرشد کی باری تھی۔ اس وقت تک کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
پھر آزونا کی باری تھی۔ صبح چار بجے کے قریب اس نے مجھے جگایا۔ وہ کچھ فکرمند دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بولا، "مجھے کچھ عجیب سی سرسراتی ہوئی آوازیں سنائی دیتی ر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سمندر کی لہروں کا شور نہیں تھا۔ اگر سمندر میں طوفانی لہریں اٹھتیں تو یہ شور مسلسل سنائی دیتا۔"
میں شش و پنج مین پڑ گیا کہ مرشد کو جگاؤں یا نہ جگاؤں۔ دھند ابھی تک چھائی ہوئی تھی۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا اور پہرا دینے لگا۔ موسم کچھ ٹھنڈا تھا۔ دھند اور تاریکی کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے مجھے شوں شوں شاں شاں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
پانچ بجے کے قریب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔ صبح ہونے والی تھی۔ ہوا کے جھونکوں میں تیزی آنے لگی اور اس کے ساتھ ہی سمندر کی لہریں جزیرے کے ساحل سے ٹکرانے لگیں۔ مین اپنی ٹانگیں سیدھی کرنے کی غرض سے جزیرے پر اترا۔ کوئی نرم و لطیف چیز میرے پاؤں تلے آگئی۔ اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ میرے ساتھیوں میں سے کسی کا کوٹ یا کمبل جزیرے پر پڑا رہ گیا ہے۔ میں نے دوسرا قدم زمین پر رکھا تو پھر کوئی نرم اور ملائم سی چیز میرے پاؤں تلے آگئی۔ یہ کیا ہوسکتی ہے؟ اچانک میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ کہیں یہ ہشت پا نہ ہو۔ یہ خیال میرے ذہن میں آنا تھا کہ میرا ایک ایک رواں کھڑا ہوگیا۔ مین جلدی سے جہاز پر سوار ہو گیا۔
خوش قسمتی سے اس وقت دھند بھی چھٹنے لگی اور صبح کی روشنی پھیلنے لگی۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اب کپتان مرشد اور دوسرے دوستوں کو بیدار کرنا چاہیے۔ اس خیال سے مین نے بتی جلائی۔ کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا سب ٹھیک ہے؟"
میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔"
مرشد نے حیران ہو کر پوچھا، "تمہاری بات کا کیا مطلب ہے؟"
میں نے کہا، "اب ہوا چل پڑی ہے دھند کا زور ٹوٹ رہا ہے اور سمندر میں تلاطم پیدا ہو چلا ہے لیکن جزیرے پر کوئی نرم نرم سی چیز پڑی ہے۔ میری سمجھ مین نہیں آتا کہ وہ کیا ہوسکتی ہے؟"
مرشد نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا، "میں سمجھا نہیں کہ تم کس نرم نرم چیز کا ذکر لے بیٹھے ہو۔"
میں نے کہا، "سمجھا تو میں بھی نہیں، اسی لیے تمہیں جگایا ہے۔ اب کافی روشنی ہے۔ ابگر تم پسند کرو تو ہم باہر چل کر دیکھ لیں؟"
مرشد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے جلدی سے اپنا سوئٹر پہنا اور میرے پیچھے پیچھے چل دیا۔
اب میں باہر کا نظارہ کیسے بیان کروں؟ تیز ہوا دھند اڑا لے گئی تھی۔ مشرق سے سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس کی کرنوں سے ہر چیز نظر آرہی تھی۔ ہم نے جزیرے پر نظر ڈالی تو ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ جزیرے پر دور دور تک ہزاروں کی تعداد مین سفید سفید رنگ کے سمندری پرندے موجود تھے۔ ان کی شکل ایسی تھی کہ دیکھتے ہی ہنسی آنے لگتی۔ ان کی بجلی کے بلب جیسی چونچ، مڑی ہوئی دم اور موٹا بھدا جسم تھا۔ وہ ہمارے جہاز کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ تعداد میں اتنے زیادہ سے تھے کہ جزیرے پر تل دھرنے کو جگہ نہیں رہی تھی۔
کپتان مرشد بولا، "یہ خواب ہے یا حقیقت؟ یہ پرندے تو ڈوڈو ہیں۔ ہم انہیں ڈھونڈنے نکلے تھے لیکن انہوں نے ہمیں ڈھونڈ نکالا۔ تم جاکر علمہ کو بلا لاؤ۔ کوءی شور نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ پرندے ڈر کر اڑ جائیں اور علامہ ان کی دید سے محروم رہ جائیں۔"
مین کیبن میں گیا اور علامہ اور آزونا کو جگا کر یہ بات بتا دی۔ علامہ کا جوش اور مسرت سے برا حال تھا۔ وہ جلدی سے اپنی ڈاءری لے کر باہر آئے اور بیس پچیس منٹ تک ڈوڈو کی ایک ایک چیز کی تفصیل لکھتے رہے۔
آخر کپتان مرشد بولا، "میں دخل اندازی کی معافی چاہتا ہوں۔ دراصل سمندری لہریں اب طوفانی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔ ہمین فوراً چل دینا چاہیے۔ ورنہ یہ لہریں ہمیں بہا لے جائیں گی۔"
میں نے تجویز پیش کی، "سب ڈو ڈو تقریباً ہم شکل ہیں۔ آپ دو تین ڈو ڈو پکڑ کر لے آئیے اور اطمینان سے ان کا مشاہدہ کرتے رہیے۔"
علامہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ انہوں نے ایک پرندے کو منتخب کیا اور اسے گردن سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ اس غریب پرندے نے کوءی شور شغب نہیں کیا۔ کپتان مرشد نے ہاتھ ہلا ہلا کر شور مچایا لیکن پرندوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ اسی طرح کھڑے رہے اور ہمیں دیکھتے رہے۔
ہم سب مل کر چیخے چلائے۔ آزونا ایک خالی پیپا اٹھا لایا۔ وہ بہت دیر تک پیپا پیٹ پیٹ کر شور مچاتا رہا۔ کپتان مرشد نے بندوق سے کئی ہوائی فائر کیے لیکن توبہ کیجیے، ان پرندوں پر تو ذرہ برابر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔
تب علامہ قہقہہ مار کے ہنسے اور بولے، "کسی نے اس کا نام ٹھیک ہی رکھا ہے، ڈو ڈو یعنی بےعقل اور بےوقوف جانور۔"
مین اور آزونا بھی قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ مرشد غصے سے چیخا، "آپ لوگوں کو ہنسی کی سوجھی ہے اور میری جان پر بنی ہوئی ہے۔ ان پرندوں کی وجہ سے راستہ رکا پڑا ہے۔ ادھر سمندر لمحہ بہ لمحہ چڑھتا جا رہا ہے۔"
تب ہمیں صورتحال کا اندازہ ہوا۔ معاملہ واقعی بہت نازک تھا۔ میں نے دو تیں ڈو ڈؤں کو ڈنڈے سے ہنکار کر دور کیا تو ان کی جگہ لینے کے لیے کچھ اور ڈو ڈو آگے آگئے۔
ہم سب نے ڈنڈے سنبھال لیے اور ان پرندوں کو ہانک ہانک کر دور کرنے لگے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی ہمیں ان کوششوں میں ناکامی حاصل ہوئی۔ آخر ہم تھک ہار کر پسینے پسینے ہوگئے۔ مرشد جھنجھلا کر بندوق اٹھا لایا اور بولا، "میں انہیں مار مار کر صفایا کروں گا۔"
علامہ تحمل سے بولے، "بےوقوف نہ بنو۔ دیکھتے نہیں کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ انہیں مارنے کے لیے تمہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں بار گولی چلانا پڑے گی۔"
ہم نے بہت خطرناک مہموں میں حصہ لیا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈالی لیکن یہ مہم تو سب سے زیادہ دشوار ثابت ہوئی۔
میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دیکھتا کیا ہوں کہ دو تین ڈو ڈو اچھل کر جہاز کے پروں پر سوار ہوگئے۔ آزونا نے انہیں گرانا چاہا تو ان کمبختوں نے جہاز پر اپنے پنجے گاڑ دیے۔ جب آزونا نے انہیں جہاز سے نیچے گرایا تو اس کے ساتھ ہی جہاز کا ٹکڑا بھی ٹوٹ کر گر پڑا۔
مرشد نے چلا کر کہا، "اللہ کے لیے انہیں کچھ مت کہو ورنہ یہ جہاز کے پڑخچے اڑا دیں گے۔"
اب ڈو ڈو جہاز پر چڑھنے شروع ہوگئے تھے۔ اب ایک اور خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے کہا، "اگر یہ پرندے جہاز پر سوار ہوگئے تو ہمیں ڈبو دیں گے۔"
ادھر سمندر کی موجوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی تھی۔ اب اگر جہاز کچھ دیر تک اور جزیرے پر رہتا تو موجیں اسے ساحل سے ٹکرا کر پاش پاش کر دیتیں۔
مرشد نے کہا، " دوستو! ہمارے پاس صرف پانچ میٹ کا وقفہ ہے۔ آپ سب لوگ ڈنڈے لے کر ان پرندوں کو دور ہنکائیے۔ میں جہاز کو آہستہ آہستہ آگے بڑھاتا جاؤں گا۔"
لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی۔ مرشد نے جہاز کا انجن اسٹارٹ کیا۔ پرندے یا تو انجن کے شور سے یا پھر ہوا کے زور سے ادھر ادھر ہٹنے لگے۔ پرندے ایک دوسرے پر بری طرح گرے پڑتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے دھنکی ہوئی روئی کے گالے ایک دوسرے پر گرے جاتے ہوں۔ میں زندگی بھر یہ منظر نہیں بھولوں گا۔ کچھ ڈو ڈو کمر کے بل اور کچھ اپنے سروں کے بل ایک دوسرے پر لڑھک لڑھک کر گر رہے تھے۔ دو تین منٹ میں ہی ہمارے سامنے کافی دور تک میدان بالکل صاف تھا۔
تب مرشد نے جہاز کو چلانا شروع کیا۔ اللہ کی مہربانی سے راستہ خود بہ خود صاف ہوتو چلا گیا۔ جو دو چار بےوقوف ڈو ڈو جہاز کے راستے میں حائل ہوئے ان کے پڑخچے اڑ گئے۔
جب ہم ڈو ڈو پرندوں سے کافی دور آگے نکل آئے، تب مرشد نے جہاز کو اڑان دی۔ میں نے جہاز سے جھانک کر دیکھا، جزیرے پر دور دور تک پرندے نظر آرہے تھے۔ کپتان مرشد نے قطب نما دیکھ کر راستہ متعین کیا اور ہمارا جہاز پرواز کرنے لگا۔ دو گھنٹے بعد ہم ماریشس پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم نے جہاز میں ایندھن بھروایا۔ اس کے بعد ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ ہماری منزل استنبول تھی۔ ہم نے یہ پرندہ ڈو ڈو، وہاں چڑیا گھر کو تحفے میں دے دیا۔
ڈو ڈو کو وہاں کی ٹھنڈی ہوا راس نہ آئی۔ وہ اگلے روز ہی مر گیا۔ علامہ نے اس میں مصالحہ بھروا کر اسے توپ کاپی کے عجائب گھر میں رکھوا دیا۔
بدقسمتی سے وہاں چوروں نے نقب لگائی۔ وہ ہیرے جواہرات کے ساتھ یہ نادر اور نایاب پرندہ بھی اٹھا کر لے گئے۔ علامہ کو اس کا بےحد صدمہ ہوا۔ وہ بار بار کہتے تھے، "میں ڈو ڈو کے بدلے بڑی سے بڑی رقم دینے کو تیار ہوں۔ کاش یہ چور یہ ڈو ڈو میرے حوالے کردے۔ ہیرے جواہرات کا کیا ہے؟ کھو جائیں گے تو اور بہت سے مل جائیں گے لیکن یہ گم شدہ ڈو ڈو پھر کبھی نہ مل سکے گا۔"
اخبار الجمہوریہ میں کئی دن تک اشتہار چھپتا رہا لیکن ڈو ڈو واپس نہ مل سکا۔ اس کے بعد ہم نے ماریشس کے آس پاس سینکڑوں بار پرواز کی مگر وہ جزیرہ نہ مل سکا اور نہ ڈو ڈو کہیں نظر آئے۔ آج بھی مرشد آزونا کو کبھی کبھی پیار سے ڈو ڈو یعنی بےوقوف کہہ کر پکارتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ آزونا اس بات کا برا بھی نہیں مانتا۔
 

محمد امین

لائبریرین
انگریزی مووی "The Expandables" سے مجھے علامہ کا جہاز یاد آجاتا ہے۔۔۔ اس مووی میں بھی علامہ کی طرح جہاز استعمال کیا گیا ہے نجی۔۔۔

تصحیح: The Expendables
 
آخری تدوین:
Top