علامہ دانش کے کارنامے (۱ ۔نارنجی بیل)

نارنجی بیل
معراج
باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم سب برآمدے میں کھڑے بارش کا نظارہ کررہے تھے۔ ایک ٹیکسی ہمارے دفتر کے باہر آ کر رکی اور اس میں سے ہمارے معزز دوست علامہ دانش اترے۔ انہوں نے حسبِ معمول برساتی کوٹ پہنا ہوا تھا، سر پر ترکی ٹوپی، پاؤں میں فل بوٹ، ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چھتری تھی۔
علامہ کمرے میں داخل ہوئے، آزونا نے برساتی اتاری اور کھونٹی پر لٹکا دی۔ نصر نے پوچھا، "علامہ صاحب! خیریت تو ہے؟"
علامہ نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور مرشد کی طرف بڑھا دیا۔
مرشد بلند آواز سے خط کا مضمون پڑھنے لگا۔؎"محترم علامہ صاحب!
ایک مریض جس کا نام رشید نوری ہے، سخت بیمار ہے اور وہ آپ سے ملنے کا بہت آرزومند ہے۔ مہربانی فرماکر آپ جلد تشریف لے آئیں۔
داروغہ پاگل خانہ فوزیہ، قاہرہ"
مرشد نے مسکرا کر کہا، "اللہ خیر کرے۔ اب تو پاگل خانے سے بھی خطوط آنے لگے۔"
علامہ نے تیز نظروں سے مرشد کو گھور کر دیکھا اور بولے، "رشید نوری ان لوگوں میں سے ہے جو تحقیق اور مطالعہ میں اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ میں تحقیقات کر رہے تھے کہ اچانک لاپتا ہوگئے۔ ڈیڑھ سال بعد اطلاع ملی کہ یہ پاگل خانے میں بند ہیں۔"
کپتان مرشد نے پوچھا، "اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟"
علامہ نے کہا، "اب ہمیں قاہرہ چلنا ہے۔"
موسم خوشگوار ہوتے ہی ہم قاہرہ کی طرف پرواز کرنے لگے۔ دو گھنٹے بعد ہمارا ہیلی کاپٹر قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترا۔ ہم رشید نوری سے ملے تو اس کاحال بہت خراب تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ تھوڑی دیر کا مہمان ہے۔
رشید نوری نے کہا، "علامہ صاحب! میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ کو وسطی افریقہ کےسفر کا حال سنا سکوں۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش رہا۔ پھر اس نے اپنی داستان شروع کی:
"میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ کے جنگلوں میں کام کر رہا تھا کہ راستہ بھٹک کے غیر آباد اور سنسان صحرا کی طرف جا نکلا۔ صحرا کے اندر ایک پہاڑی سلسلہ تھا۔ میرے ساتھ جو قلی تھے ان میں عجیب طرح کی بےچینی پیدا ہوگئی۔ ایک قلی نے سواحلی زبان میں مجھے بتایا کہ ان پہاڑوں پے بھوت پریت رہتے ہیں جو لوگوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے آگے جانے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں ہر صورت آگے جانا چاہتا ہوں تو ان جنگلی لوگوں نے سامان پھینک دیا اور وہاں سے بھاگ گئے۔ میں یہ صورت حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور پہاڑیوں کے پاس جا پہنچا۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ پہاڑی کے پاس دور دور تک خار دار پودے اگے ہوئے تھے، جو چھو جائیں تو جسم میں شدید جلن پیدا ہوجاتی ہے۔ میں ابھی ان پودوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہاچانک کہیں سے عجیب الخلقت لوگوں کا ایک غول برآمد ہوا اور ان لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان لوگوں کا رنگ سفید تھا، سنگ مرمر کی طرح سفید۔ لیکن اس میں زندگی کی گرمی کے بجائے موت کی زردی پائی جاتی تھی۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ شاید وہ اتنی دیر بولتے بولتے تھک گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا، "وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گئے۔ وہاں زمین بالکل ہموار تھی اور وہاں پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ یہ لوگ ڈابو قبیلے کے تھے اور دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے کاشتکاری میں کمال حاصل کرلیا تھا اور ایسے ایسے پودے اور جڑی بوٹیاں دریافت کرلی تھیں جن کا علم دنیا والوں کو بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ایسی طاقت بخش دوائیں تیار کرلی تھیں جن کے استعمال سے انسان کی صحت اور قوت بحال رہتی اور وہ بہت عرصے تک بڑھاپے سے محفوظ رہتا ہے۔"
یہ کہہ کے رشید نوریکچھ دیر کے لیے پھر خاموش ہوگیا۔
اس نے پھر کہا، "پھر ان کا بڑا پجاری آگیا۔ اس نے ایک تیز نوکدار چیز میرے ماتھے میں چبھودی۔ میں درد کی شدت سے بےہوش ہوگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو پجاری نے کہا، "اب تم ہمیشہ کے لیے ہمارے غلام بن کر رہو گے۔ میں نے تمہارے سے مین ایک بیج کاشت کردیا ہے۔ صرف ایک خاص عرق اس پودے کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ جب تک تم یہ عرق پیتے رہو گے اس بیج کی نشونما رکی رہے گی۔ جب تم عرق پینا چھوڑ دوگے تو یہ پودا جڑ پکڑ لے گا۔ اس کی جڑیں تمہارے دماغ میں پیوست ہوجائیں گی اور تم سے پٹخ پٹخ کر مرجاؤ گے۔"
میں ایک سال تک ان لوگوں پاس مقیم رہا۔ مین نے ان لوگوں کے طور طریقے دیکھے۔ وہ جو عجیب و غریب پودے کاشت کرتے تھے۔ میں ان کی قید سے فرار ہوگیا۔ میں بہت تکلیفیں ا ٹھا کر ساحل تک پہنچا۔ وہاں سے ایک کشتی میں سوار ہو کر قاہرہ پہنچ گیا۔
یہاں پہنچتے ہی میرے سر میں تکلیف ہونے لگی۔ میں جان گیا کہ پجاری نے میرے سر مین جو بیج اگایا تھا، اس نے جڑ پکڑ لی ہے۔ میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن یہ مرض کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔ ایک ڈاکٹر نے فیصلہ دے دیا کہ جنگلوں میں مارے مارے پھرنے سے میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ چناں چہ لوگوں نے نے مجھے پاگل خانے میں بند کروادیا۔"
یہ کہہ کے رشید نوری کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ علامہ کا دل بھی بھر آیا۔ وہ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے رہے اور رشید نوری کو تسلی و تشفی دیتے رہے۔
جب ہم وہاں سے لوٹے تو علامہ کا مزاج بہت برہم تھا۔ داروغہ پاگل خانے نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو علامہ جھڑک کر بولے، "دنیا کے سب سے بڑے پاگل! اپنا ناپاک ہاتھ دور رکھ۔ تمہیں تو پاگل اور ہوش مند کا فرق تک معلوم نہیں ہے۔"
رشید نوری کو علامہ نے ایک بوٹی کھلائی جس سے اس بیج کا اثر زائل ہوگیا۔
راستے میں علامہ نے بار بار یہ مصرعہ پڑھا، "خرد کا م جنوں پڑگیا جنوں کا خرد"
علامہ دانش نے کہا، "میرا ارادہ ہے کہ میں وسطی افریقہ جاکر خود تحقیق کروں۔ مجھے نباتات سے بہت دلچسپی ہے اور پھر وہاں عجیب و غریب لوگ بھی تو ہیں جو کئی سو سالوں سے وہاں آباد ہیں۔"
آزونا نے دبی دبی آواز میں کہا، "کہیں ہمارا حشر بھی رشید نوری جیسا نہ ہو۔"
کپتان مرشد نے ڈانٹ کر کہا، "چپ نالائق! ایسی فضول باتیں نہیں کرتے۔"
کئی دن بعد ہم وسطی افریقہ پہنچے۔یہ سفر خاصا دشوار ثابت ہوا۔ ہم بہت سا ضروری اور غیرضروری سامان اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ رشید نوری نے بہت اچھی طرح ہمیں راستہ سمجھا دیا تھا۔ اس لیےصحرائی پہاڑیوں تک پہنچنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ پہاڑی کے چاروں طرف دلفریب گھنا جنگل تھا۔ درختوں اور پودوں کا رنگ بہت گہرا سبز تھا۔ ہم نے پہاڑی کے اوپر پرواز کی۔ اس پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ اس کے درمیاںن ایک مندر تھا۔ علامہ دانش نے کہا، "رشید نوری کی کہانی کا یہ حصہ تو صحیح ثابت ہوا۔ اب بستی کے لوگوں کے متعلق تحقیقات کرنا باقی ہیں۔"
ہم نے اپنا جہاز ریگستان میں اتار لیا۔ ہم جہاز سے نیچے اترے۔ ہمارے نزدیک ہی پہاڑی تھی۔ اس کے آس پاس بہت اونچے اونچے درخت اور بےحد سنز رنگ کے پودے اگے ہوئے تھے۔ علامہ دانش نے جیب سے نوٹ بک نکالی اور کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے سامنے ناگ پھنی کے بڑے بڑے پودے تھے جن کے کانٹے ایک گز لمبے تھے۔ بعض پودے تو اتنے بڑے تھے کہانہیں دیکھ کر دہشت ہوتی تھی۔
میں ناگ پھنی کے پودوں کی طرف چلا۔ اچانک علامہ نے چیخ کر کہا، "ٹھہرجاؤ، آگے خطرہ ہے۔"
میں ٹھٹھک کر ٹھہر گیا۔ علامہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور زمین کی طرف اشارہ کرکے بولے، "یہ بھی دیکھا ہے تم نے؟"
میں نے غور سے زمین کی طرف دیکھا۔ اللہ کی پناہ، یوں لگتا تھا کہ جیسے بےشمار برچھیاں زمین سے سر نکالے کھڑی ہیں۔ علامہ دانش نے کہا، "اس کا نام ہسپانوی خنجر ہے۔ ویسے تو یہ ایک قسم کی گھاس ہےمگر تیزی میں خنجر و تلوار سے کم نہیں ہے۔ یہ موٹے سے موٹے چمڑے کو کاغذ کی طرح پھاڑ دیتا ہے۔ اگر تم ان پر پاؤں رکھ دیتے تو ایسا زخم پڑ جاتا جو بہت مشکل سے ٹھیک ہوتا۔ یہ گھاس پہاڑی کے دامن میں بیس فٹ چوڑائی میں پھیلی ہوئی تھی۔
میں نے کہا، "یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پودے خود نہیں اگے، بلکہ انہیں باقاعدہ کاشت کیا گیا ہے۔"
مرشد نے کہا، "یہاں کسی ٹینک میں بیٹھ کر ہی گزرا جاسکتا ہے۔"
علامہ بولے، "ایک راستہ ان ہی کانٹے دار پودوں اور خنجر کھاس کے درمیان سے ہوتا ہوا پہاڑی کے اوپر جاتا ہے۔"
بہت مشکل سے ہم نے یہ راستہ تلاش کرلیا۔ یہ بہت ٹیڑھا ترچھا اور تنگ سا راستہ تھا۔ مرشد بولا، "میں ان پہاڑی لوگوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی فوج بھی پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرے تو اسے ایک قطار بنا کر یہاں سے گزرنا ہوگا۔"
علامہ بولے، "پھر اسے کاردار پودوں کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ ان کے کانٹے ایسے زہریلے اور خطرناک ہیں کہ اگر کسی کو چبھ جائیں تو وہ تڑپ تڑپ کر مرجائے گا لیکن اس کا علاج نہیں ہو سکے گا۔"
میں نے پوچھا، "اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟"
علامہ بولے، "زہر آلود گل لالہ، جو دیکھنے میں بےحد خوبصورت پھول ہے لیکن اس سے زہریلی گیس نکلتی ہے۔ ان کے پاس سے گزرنے والا چند منٹ میں بےہوش ہوکر گر پڑے۔ اس کے علاوہ آدم خور درخت ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے پاس سے گزرنے کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی شاخیں اسے چکڑ لیں گی اور ذرا سی دیر میں اس کا گوشت پوست کھا جائیں گی۔ بچھوا بوٹی ہے جو ڈنک مار کر ہلاک کردیتی ہےاور۔۔۔"
مرشد گھبرا کر بولا، "آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں ان باتوں سے آگاہ کردیا۔ میرا ابھی خودکشی کا ارادہ نہیں ہے۔ میرا ارادہ تو یہ ہے کہ آپ ابھی جہاز پر تشریف لے چلیے۔"
علامہ دانش بولے، "کاش ہم ان لوگوں کو کسی طرح سمجھا سکتے کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔"
ہم نے خنجروں کی باڑ کے ارد گرد پھر دیکھا، لیکن ہمیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔
آزونا کانپتے ہوئے بالا، "مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہجیسے لوگ ہماری نگرانی کر رہے ہیں اور چھپ کر ہماری باتیں سن رہے ہیں۔"
رات کے وقت ہم بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ جب نیند نے غلبہ کیا تو ہم سونے کے لیے بستروں پر لیٹ گئے۔ ارے صاحب! بستر کیسے؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جہاز کے نیچے نرم نرم ریت پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے۔ ہم نے باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔
سب سے پہلے آزونا کی باری تھی۔ اس نے آدھی رات کے وقت ہمیں جگایا۔ وہ بولا، "مجھے بےچینی محسوس ہورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ لیکن کیا؟ یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔"
جب علامہ نے دریافت کیا تو وہ بولا، "مجھے ایسی آواز سنائی دی کہ جیسے اولے پڑ رہے ہوں، حالاں کہ مطلع صاف ہے۔"
اس پر مرشد جھنجلا کر بولا، "تم نرے وہمی ہو۔"
آزونا قسم کھا کر بولا، "میری منہ پر مٹر کے دانے کے برابر کوئی چیز بہت زور سے ٹکرائی، پھر یوں محسوس ہوا جیسے اولے گر رہے ہوں۔"
ہم نے ٹاچ کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا لیکن ہمیں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ اب مرشد کی باری تھی۔ وہ صبح تین بجے تک پہرا دیتا رہا۔ پھر اس نے مجھے جگایا۔ اس نے بھی کوئی بات نہیں دیکھی اور نہ کوئی آواز سنی۔ وہ بستر پر لیٹ کر سوگیا۔ اب میری باری تھی۔ میں ایک گھنٹے سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا۔ صبح سے ذرا دیر پہلےمیں نے عجیب سی آواز سنی۔ پتوں میں ہوا کے گزرنے سے جو سرسراہٹ ہوتی ہے، یہ آواز اس جیسی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ سرسراہٹ چاروں طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ پھر کوئی چیز میرے پاؤں پر رینگنے لگی۔ میں نے جھک کر دیکھا، یہ کوئی کیڑا سا تھا، جو زمین سے باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اسے کیچوا سمجھا اس لیے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ اب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اللہ کی پناہ، ایک دو نہیں ہزاروں کیڑے زمین سے نکل رہے تھے۔ میں نے جھک کر غور سے دیکھا تب معلوم ہوا کہ جنہیں مین کیڑے سمجھ رہا تھا وہ پودے تھے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودے بڑھنے لگے اور ان سے شاخیں اور پتیاں پھوٹنے لگیں۔ میں نے کئی پودے دیکھے ہیں جو تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ بانس کا پودا ایک دن میں ڈیڑھ دو فٹ تک بڑھ جاتا ہے لیکن ہمارے جہاز کے ارد گرد جو بیل اگ رہی تھی اس کے بڑھنے کی رفتار تو حیرت انگیز تھی۔ پہلے تو مین کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیلیں دو تین فٹ سے زیادہ لمبی ہوگئیں۔ کچھ بیلیں تو ہمارے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
پھر اچانک مجھے ہوش آگیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آزونا نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔اس نے جو ژالہ باری کی آواز سنی تھی وہ ان بیجوں کا چھڑکاؤ تھا جو پہاڑی باشندوں نے اوپر سے پھینکے تھے۔
جب یہ بیج زمین پر گرے تو انہوں نے جڑ پکڑلی اور اب یہ بیلیں طوفانی رفتار سے بڑھتی جاہی تھیں۔تھوڑی دیر بعد یہ جہاز کو اپنی لپیٹ مین لے لیں گی اور اس کا اڑنا ناممکن ہوجائے گا۔ مین نے ایک چیخ ماری جسے سن کر سب بیدار ہوگئے اور میری طرف دوڑنے۔
اب روشنی کافی پھیل چکی تھی اور ہر چیز صاف نظر آرہی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی یہ نارنجی رنگ کی بیل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے دیوانوں کی طرح بیل اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکنا شروع کیا لیکن ادھر ہم ایک طرف سے بیل اکھاڑتے یہ دوسری طرف سے جہاز پر چڑھنے لگتی۔ مرشد چلا کر بولا، "جہاز پر سوار ہوجاؤ۔ ہمیں فوراً پرواز کرنا ہے۔"
سب لوگ جہاز پر سوار ہوگئے۔ بدقسمتی سے میرا پاؤں بیل میں الجھ گیا اور میں دھڑام سے زمین پر جا گرا۔ اس سے پہلے مین زمین سے اٹھ کھڑا ہوتا، بیل کی شاخیں مجھے جکڑنے لگیں۔ میں نے بیل کو اکھاڑ اکھاڑ کے پھینکا اور گرتا پڑتا جہاز کی طرف بھاگا۔ مین بہت مشکل سے جہاز پر سوار ہوسکا۔
پیل کی لچھے دار شاخیں ابھی تک میرے گلے کا ہار بنی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے میں کوئی بہادر سورما ہوں اور کسی جنگ سے فتح یاب ہو کر لوٹا ہوں۔
بہرحال، ہم جہاز پر سوار ہوگئے۔ کپتان مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا۔ جب جہاز نے پرواز کی تو اس کے طاقتور انجن نے ان بیلوں کے پڑخچے اڑا دیے۔ ہم نے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نارنجی بیل دور دور تک پھیل چکی تھی اور اب پہاڑی کی طرف سیلاب کی طرح بڑھ رہی تھی۔
علامہ دانش نے کہا، "تم نے وہ مثل سنی ہوگی کہ چاہ کن راہ درپیش۔ یعنی جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود اس میں گرجاتا ہے۔ اب اگر تم ان لوگوں کی تباہی کا منظر دیکھنا چاہو تو کچھ دیر کے لیےاور رک جاؤ۔"
میں نے پوچھا، "پھر کیا ہوگا؟"
علامہ بولے، "یہ طوفانی بیل اب کسیسے رکنے والی نہیں ہے۔ ذرا دیر بعد یہ پہاڑی پر چڑھ جائے گی اور۔۔۔" علامہ دانش کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ پھر بولے، "یہ تباہی انہوں نے خود اپنے ہاتھوں مول لی ہے۔"
کچھ دیر بعد جب ہم ایک چکر کاٹ کر واپس لوٹے تو ہم نے عجیب دہشت ناک منظر دیکھا۔ بیلوں نے پہاڑی پر چڑھ کر پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں سے لوگوں میں ایک عجیب سی بےچینی اور دہشت پائی جاتی تھی۔ ذرا دیر بعد بیلیں پہاڑی کے اوپر پھیلنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بیل آدمیوں سے لپٹنے لگی۔ وہ لوگ بےبسی کے عالم میں چیخ و پکار کر رہے تھے لیکن اب ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ علامہ ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بولے، "افسوس، یہ لوگ خود ہی اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں۔"
جب ہم واپس لوٹے تو دور دور تک نارنجی بیل پھیلی ہوئی تھی۔
 
Top