علامہ اقبال اور ملالہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ندیم مراد

محفلین
واہ خلیل میاں۔ ملالہ بے چاری کو گلہری بنا دیا!!
ندیم مراد÷ شاید آپ صفحہ رفریش نہیں کر رہے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ پچھلے ہفتے میں کسی نے اپنی شاعری پوسٹ نہ کی ہو۔
تبصرے انی ترتیب میں ہی ہوتے ہیں۔ ہاں اگر دو سرا صفحہ ہو چکا ہو اور آپ پہلے پر ہی تبصرہ کریں تو فوری طورپر پیغام وہیں نظر آتا ہے،لیکن اگلی بار اپنی جگہ پر پہنچ جاتا ہے۔
ایک ہی شاعر کے دوسرے اشعار کا لنک راست تو تب ہی ملے گا جب شاعر نے اپنے نام کا ٹیگ دیا ہو۔ ورنہ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اس کے اوتار پر کلک کر کے اس کے شروع کردہ سارے مراسلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان میں اس کی شاعری کے مراسلوں کے علاوہ بھی دوسرت ہو سکتے ہیں۔
بہت بہت شکریہ جناب الف عین صاحب
آپ نے مدد اور رہنمائی فرمائی اور میرا مسئلہ سمجھا
بلکل ایسا ہی ہوا تھا
دراصل میں نے اپنی رائے کا اظہار تو پہلے صفحے پر ہی کیا تھا ۔اور وہ کلام تو پرانا تھا اس لئے یقیناََ میرا تبصرہ سب سے آخری تھا ، اور آخر میں ہی ہونا چاہیئے تھا، میں جب سے محفل میں داخل ہوا ہوں روزانہ ہی شاعری کا صفحہ کھولتا ہوں، تو ریفریش تو ہوجاتا ہے، لیکن آپ کے جواب کے بعد خاص طور پر ریفریش کیا، تب بھی کوئی نیا کلام پڑھنے کو نہیں ملا۔ تھوڑی سی حیرت ہوئی کیا نیا کلام اتنی سست رفتاری سے آتا ہے، شاید سب حضرات اپنی اپنی قربانیوں میں مصروف ہوں گے،
ایک بار پھر شکریہ امید ہے آئندہ بھی رہنمائی اور اصلاح فرماتے رہیں گے،
 
انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ اس کو مزاح کے طور پر ہی لیا جانا چاہئے کیونکہ اقبال کی روح کو اس پر ملال ہوگا۔ جب اقبال کو یہ معلوم ہو گا کہ اس کی نظم کو ایک ایسی متنازعہ شخصیت سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جو اسلام اور اپنی روایات سے ہٹ کر بلکہ ان پر دشنام طرازی کر کے سستی شہرت حاصل کر رہی ہے۔ سلمان رشدی جیسے ملعون کی تحریروں کو آزادی رائے سے تعبیر کرتی ہے۔ یہ ہرگز اسلام یا پاکستان کا اصلی چہرہ نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی ہزاروں بیٹیاں اپنے اپنے شعبوں میں نام پیدا کر رہی ہیں، ارفع کریم رندھاوا کی طرح جو اپنی محنت سے مقام حاصل کرتی ہیں بنا کسی دشنام طرازی کے اور اسلام سے بیزاری ظاہر کیے بغیر۔
رہی بات اس کو گولی لگنے کی تو معاملہ ایسے ہی ہے جیسے اسامہ کا ایبٹ آباد سے دریافت ہو جانا۔ انتہائی نکمے طالبان تھے جو اتنے قریب سے گولی مار کر بھی ایک بچی کو نہیں مار سکے۔ اصل روداد یہ ہے کہ آپ اسلام یا اسلامی روایات کے خلاف بات کریں اور شرمین اور ملالہ کی طرح ایوارڈ پر ایوارڈ حاصل کرتے رہیں۔ دنیا کبھی کشمیر، شام یا روہنگھیا میں مسلمانوں پر جو ظلم عظیم ہوا اس پر بنائی جانے والی کسی ڈاکومنٹری کو انتی پذیرائی نہیں دے گی، دنیا سے نہیں جناب شکوہ اپنوں سے ہوتا ہے جب جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے کرداروں کو سر پر بٹھا لیتے ہیں۔ حالانکہ ان کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے ،یہ لوگ اسلام، پاکستان یا خواتین کے حقوق کے لیے مخلص نہیں ہوتے۔ کہنا تو بہت کچھ ہے لیکن ایک تو طوالت کا ڈر ہے اور پھر نہ جانے اتنا ہے لکھنے پر معلوم نہیں کیا کیا سننے کو ملتا ہے۔
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب سے معذرت کے ساتھ کہ آپ کے اندزِ بیاں اور نظم سے قطع نظر مضمون کے حوالے سے کچھ عرض کرنا تھا، گستاخی کے لیے معذرت۔
 
ا
علامہ اقبال اور ملالہ


(محمد خلیل الرحمٰن)

کوئی جوان یہ کہتا تھا کل ملالہ سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے

تو لڑکی ذات ہے اور یہ غرور کیا کہنا
یہ ’’گُل مکئی ‘‘ کی سمجھ ، یہ شعور کیا کہنا

خدا کی شان ہے ، ناچیز چیز بن بیٹھیں
بس ایک آن میں سب کو عزیز بن بیٹھیں

تری بساط ہے کیا طالبان کے آگے
زمیں ہے پست جوانوں کی شان کے آگے

جو بات اُن میں ہے تُجھ کو بھلا نصیب کہاں
کہ طالبان کہاں اور تو غریب کہاں

کہا یہ سُن کے ملالہ نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا

جو میں قوی نہیں اُن کی طرح تو کیا غم ہے
میں لڑکی ذات ہوں ، یہ بات بھی بھلا کم ہے

ہر ایک جان سے پیدا خدا کی قدرت ہے
میں پڑھنے لکھنے کی شیدا، یہ اُس کی حکمت ہے

تجھے زمانے میں جاہل بنادیا اُس نے
مجھے کتاب جو پڑھنا سِکھادیا اُس نے

مجھے پڑھانے کی ہمت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دِکھا مجھ کو
یہ اِک کِتاب ذرا کھول کر دِکھا مجھ کو

نہیں ہے نار نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں

واہ کیا کہنے ، یوں لگا جیسے مزأح کے کان کھینچ کر ملالہ کو لگا دیئے گئے ہوں
 
انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ اس کو مزاح کے طور پر ہی لیا جانا چاہئے کیونکہ اقبال کی روح کو اس پر ملال ہوگا۔ جب اقبال کو یہ معلوم ہو گا کہ اس کی نظم کو ایک ایسی متنازعہ شخصیت سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جو اسلام اور اپنی روایات سے ہٹ کر بلکہ ان پر دشنام طرازی کر کے سستی شہرت حاصل کر رہی ہے۔ سلمان رشدی جیسے ملعون کی تحریروں کو آزادی رائے سے تعبیر کرتی ہے۔ یہ ہرگز اسلام یا پاکستان کا اصلی چہرہ نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی ہزاروں بیٹیاں اپنے اپنے شعبوں میں نام پیدا کر رہی ہیں، ارفع کریم رندھاوا کی طرح جو اپنی محنت سے مقام حاصل کرتی ہیں بنا کسی دشنام طرازی کے اور اسلام سے بیزاری ظاہر کیے بغیر۔
رہی بات اس کو گولی لگنے کی تو معاملہ ایسے ہی ہے جیسے اسامہ کا ایبٹ آباد سے دریافت ہو جانا۔ انتہائی نکمے طالبان تھے جو اتنے قریب سے گولی مار کر بھی ایک بچی کو نہیں مار سکے۔ اصل روداد یہ ہے کہ آپ اسلام یا اسلامی روایات کے خلاف بات کریں اور شرمین اور ملالہ کی طرح ایوارڈ پر ایوارڈ حاصل کرتے رہیں۔ دنیا کبھی کشمیر، شام یا روہنگھیا میں مسلمانوں پر جو ظلم عظیم ہوا اس پر بنائی جانے والی کسی ڈاکومنٹری کو انتی پذیرائی نہیں دے گی، دنیا سے نہیں جناب شکوہ اپنوں سے ہوتا ہے جب جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے کرداروں کو سر پر بٹھا لیتے ہیں۔ حالانکہ ان کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے ،یہ لوگ اسلام، پاکستان یا خواتین کے حقوق کے لیے مخلص نہیں ہوتے۔ کہنا تو بہت کچھ ہے لیکن ایک تو طوالت کا ڈر ہے اور پھر نہ جانے اتنا ہے لکھنے پر معلوم نہیں کیا کیا سننے کو ملتا ہے۔
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب سے معذرت کے ساتھ کہ آپ کے اندزِ بیاں اور نظم سے قطع نظر مضمون کے حوالے سے کچھ عرض کرنا تھا، گستاخی کے لیے معذرت۔
اللہ کا شکر ہے کہ علامہ اقبال آج کے پاکستان میں زندہ نہیں، ورنہ لوگ انہیں بھی "شکوہ" ، "جوابِ شکوہ" لکھنے پر گردن زدنی قرار دے چکے ہوتے اور اک جمِ غفیر انہیں قتل کرکے اپنی عاقبت سنوار چکا ہوتا۔
 
شاعری کی حد تک بہت زبردست اور لاجواب کاوش ہے سر آپکی ۔ اس کے لیے ڈھیروں داد
۔۔
باقی آپ کی اس بات سے میری طرح کئی مرد حضرات (شادی شُدہ مرد حضرات بھی کہہ سکتے ہیں )متفق نہیں ہوں گے ۔:D
بھائی ہم تو فیمنسٹ ہونے کے ناتے یہی کہیں گے کہ ہم بے شمار نکمے اور نکھٹو مرد حضرات دیکھے ہیں لیکن کوئی نکمی نار نہیں دیکھی۔ :):)
 

آصف اثر

معطل
اللہ کا شکر ہے کہ علامہ اقبال آج کے پاکستان میں زندہ نہیں، ورنہ لوگ انہیں بھی "شکوہ" ، "جوابِ شکوہ" لکھنے پر گردن زدنی قرار دے چکے ہوتے اور اک جمِ غفیر انہیں قتل کرکے اپنی عاقبت سنوار چکا ہوتا۔
محترم خلیل الرحمٰن صاحب معذرت کے ساتھ ذرا نظر دوڑائیے یہ کفر کے فتوے کہاں سے لگائے گیے تھے۔ اور اللہ سے گلہ کرنا اور اللہ کے احکامات کا مذاق اُڑانے میں فرق آپ کو سمجھ نہ آنا قابلِ تأسف ہے۔
ملالہ مغرب کا ایک اچھا ہتھیار ہے جو وہ موقع بہ موقع استعمال کرتے رہیں گے۔لوگوں کو بموں سے اُڑایا جارہاہے۔ بچوں کو ہواؤں میں بھسم کیا جارہاہے اور آپ کو ملالہ جیسے مضحکہ خیز ڈرامہ کا فخر ستارہاہے۔ اپنے نام سے کسی اور کے لکھے ہوئے اسکرپٹ کو چھپوانا معلوم نہیں کون سا کارنامہ تھا یا سوات میں انہوں نے کون سا تعلیمی انقلاب برپاکیا تھا جو مغرب میں اتنا سر آنکھوں پر بٹھایا جارہاہے۔ میرے خیبر پختون میں طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں میں اس وقت بھی لڑکیاں اسکول کالج جایاکرتی تھی لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ اب برقع لازم کردیا گیا تھا۔ ذرا سوات بونیر، شانگلہ دیر مردان چارسدہ جاکر معلوم کیجیے اس ڈرامے کی لوگوں کی نظروں میں کیا وقعت ہے۔ زرخرید ٹی وی ریڈیو چینلز پر پری پلانڈ چہل پہل دیکھ کر فیصلہ کرنا کوئی شعوری فعل نہیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
اللہ کا شکر ہے کہ علامہ اقبال آج کے پاکستان میں زندہ نہیں، ورنہ لوگ انہیں بھی "شکوہ" ، "جوابِ شکوہ" لکھنے پر گردن زدنی قرار دے چکے ہوتے اور اک جمِ غفیر انہیں قتل کرکے اپنی عاقبت سنوار چکا ہوتا۔
اگرچہ معاملات اس حد تک نہیں گئے لیکن مذہبی اعتراضات تو اس وقت بھی ہوئے تھے
 
اللہ کا شکر ہے کہ علامہ اقبال آج کے پاکستان میں زندہ نہیں، ورنہ لوگ انہیں بھی "شکوہ" ، "جوابِ شکوہ" لکھنے پر گردن زدنی قرار دے چکے ہوتے اور اک جمِ غفیر انہیں قتل کرکے اپنی عاقبت سنوار چکا ہوتا۔
انتہائی ادب سے گذارش ہے کہ اقبال مرحوم کے فلسفے اور اشعار کا لوگ دل کھول کر حوالہ دیتے ہیں، لیکن صرف اپنے مطلب کے لیے۔ مولوی حضرات کو صرف وہی اشعار نظر آتے ہیں جو قرآن کریم کی آیات کی تفیسر کے طور پر یا مذہبی رنگ میں کہے گئے ہیں اور دین سے بیزار طبقہ بھی اپنے مطلب کی چیزیں نکال ہی لیتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے (ذاتی خیال ہے، آپ اختلاف کر سکتے ہیں) کہ اقبال کی اپنی زندگی پر نظر دوڑائیے اور دیکھیے کہ وہ خود کن نظریات کے حامل تھے؟ اور اس وقت کے لبرلز ان کے حلقہ احباب میں زیادہ تھے یا علما؟ فتوے تو اقبال مرحوم پر ان کی حیات میں ہی لگ گئے تھے، کن لوگوں نے لگائے، کس بات پر لگائے، یہ سب تاریخ ہے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ فتوے لگنے کے بعد بھی کیا اقبال، ملا، مولوی اور دین سے بیزار ہوئے؟ میرے علم کے مطابق نہیں۔
میں نے خود اپنے استاد مرحوم جناب محمودالحسن صاحب رحمہ اللہ سے یہ بات سنی ہے کہ اقبال مرحوم ان کے دادا قاضی صادق صاحب رحمہ اللہ (جو بھاٹی گیٹ کی جامع مسجد میں خطیب تھے ) کے پاس قرآن کی تفسیر پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے اور آیات کا ترجمہ پڑھ کر روتے بھی تھے، وہ کرب اقبال کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ اب رہی بات ملالہ کی تو میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ان جیسے لوگوں کا اصل ایجنڈا کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ جان بوجھ کر یا انجانے میں اغیار کے ہاتھ کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ جو لوگ ملالہ کو سپورٹ کر رہے ہیں ان کی زبانیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں کیوں گنگ ہوجاتی ہیں؟ خیر یہ ضروری نہیں کہ جن خیالات کا میں ہامی ہوں، باقی بھی اسی طرح سوچیں۔ بس اقبال مرحوم کا نام اور پھر ملالہ کے ساتھ دیکھ کر صبر نہیں ہوا، اس لیے کچھ گزارشات لکھ دیں تھی، پہلے کہہ چکا ہوں پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی بات بری لگی ہو تو اس کے لیے معذرت۔
 
ملالہ اور عافیہ میں کوئی مقابلہ نہیں۔ کافی مختلف کیس ہیں
بھائی مقدمے کی نوعیت کی تو بات ہی نہیں ہوئی۔ میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو لوگ ملا لہ کو پاکستان کی بیٹی کا لقب دے کر اس کی ہمت اور شجاعت کی مثالیں دیتے ہیں انھیں یہ دوسری بیٹی کیوں یاد نہیں آتی؟ وجہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
پہلے عرض کر چکا ہوں پاکستان اور اسلام کی نمائندگی کسی صورت ملالہ کے سر نہیں۔ اس کو سر پر بیٹھانے والوں کا ایجنڈا اگر پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے کو بھی کی سمجھ میں نہیں آریا تو کم از کم مجھے حیرت ہے اس بات پر۔ پاکستان کی نمائندگی عالمی سطح پر یا خواتین کے حقووق کی آواز اٹھانے کے لیے مذہب یا مذہبی روایات سے بیزاری اور حدوداللہ کا مذاق اڑانے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ہی وہ صنف ہے جو عالمی منڈی میں ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے۔ کوئی بھی کیس اٹھا کر دیکھ لیں کم و بیش ایسی ہی صورتحال نظر آئے گی۔
میرا خیال ہے میں اپنا موقف بیان کر چکا ہوں مقصد بحث کرنا یا کسی کی دل آزاری ہر گز نہیں، لہذا میری طرف سے اس موضوع پر یہ آخری مراسلہ ہے۔ اللہ تعالی مجھ سمیت ہم سب کو حق سمجھنے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top