ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے 136 سے 140

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے​
میر صاحب پھر بولے۔ "تمہیں ماننا پڑے گی۔ نہیں تو پھر آجاؤ۔۔۔۔ابھی۔۔۔۔قسم توٹوٹے ہی گی۔۔۔خیر لیکن بازی۔"​
میں نے کچھ سوچا یہ واقعہ تھا کہ اگر کھیلوں تو میر صاحب بھلا کیا جیت سکتے تھے۔ لٰہذا میں نے میر صاحب سے طے کرلیا کہ بس ایک بارزی پر معاملہ طے ہے۔ میں ہار جاؤں یا وہ ہاریں تو ہمیشہ ہارے کہلائیں گے۔ سودا اچھا تھا۔ لہٰذا میں نے سائیکل موڑلی۔​
خان صاحب کے اخلاق کو دیکھئے۔ کنڈی کھٹکھٹاتے ہی کھانا کھانے سے اٹھا کر آئے اور "بھئی واللہ!" کہہ کر پھر اندر گس گئے اور پھر جو آئے تو لالٹین اور کھانے کی سینی ہاتھ میں لئے بہت کچھ معذرت کی۔ مگر بیکار' خان صاحب نے زبردستی کھلایا' اور پھر شاباش ہے خان صاحب کی بیوی کو۔ انڈے جلدی سے تل کر فوراََ تیار کئے۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم دونوں نے اپنا معاملہ خان صاحب کے سامنے پیش کیا۔ قصہ مختصر شطرنج جم گئی۔ مجھے جانے کی بڑی فکر تھی کہ خانم کیا کہے گی' مگر ایک بازی کا کھیلنا ہی کیا۔​
شروع ہی سے میری بازی چڑھ گئی اور تابڑ توڑ دو چار تیز چالیں نکال کے اپنے رخ سے میر صاحب کا وزیر عروب میں لے لیا۔ میر صاحب نے یہ کہہ کر مہرے پھنک دیے کہ یہ "اتفاق کی بات ہے نظر چوک گئی۔" میں اٹھ کر چلنے لگا کہ دیر ہو رہی ہے۔ خان صاحب نے ہاتھ پکڑا کہ ایک بازی اور سہی۔ میر صاحب چپ تھے کہ میں نے کہا۔ "اب ہم دونوں برابر ہوگئے' اب کوئی ضرورت نہیں۔' خان صاحب ہنس کر بولے کہ " واہ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کون زبردست کھلاڑی ہے' برابر رہنا ٹھیک نہیں۔" ادھر میر صاحب نے کہا کہ اب اس اتوار والی بازی کو پھر شمار کر لیا جائے ' جس سے وہ دستبردار ہوگئے تھے' اور کہنے لگے ہیں کہ ایک اب بھی مجھ سے جیتے ہیں۔ ادھر خانم کا ڈر لگا ہوا' ادھر میر صاحب کی ضد اور خان صاحب کی کوشش۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بس ایک بازی اور ہو اور طے ہو جائے۔ قسمت کی خوبی کہ بازی جمائی جو قائم اٹھی۔ پھر دوسری بازی بچھی اس کومیں بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا اور میں نے سوچا پیدل کی مات کروں گا۔ پورا مہرہ زائد تھا' مگر بدقسمتی سے میر صاحب کا بادشاہ زچ ہوگیا اور یہ بھی قائم اٹھی۔ میں گھبرا گیا۔ بڑی دیر ہوگئی تھی۔ جاڑوں کے دن تھے۔ گھڑی پر نظر کی' ساڑے بارہ بجے تھے۔​
(4)​
میں گھبرا کر اٹھا۔ بڑی دیر ہوگئی۔ اب کیا ہوا؟ خانم کیا کہے گیَ خوب لڑے گی۔ بڑی گڑبڑ کرے گی' غالباََ صبح تک لڑتی رہے گی۔ کیا کیا جائے؟ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ ایک تڈبیر سمجھ میں آ گئی' سیدھا بزاز کی دکان پر پہنچا۔ دوکان بند تھی۔ مکان معلوم تھا' رات کو لالہ کو جاکھٹکھٹایا۔ لالہ گھبرائے ہوئے باہر نکلے۔ میں نے مطلب بیان کیا کہ"وہ عمدہ والی ساڑی دے دو۔ ابھی ابھی چاہئے۔" لالہ صاحب گھبرائے' کہا۔ "خیر تو ہے؟" مگر میں نے کہا کہ ابھی دو۔ لالہ نے بہانے کے' مگر میں کب ماننے والا تھا۔ لالہ نے اپنے دو آدمی ساتھ لئے اور میں نے وہی عمداہ والی ساڑی لے لی اور جو پہلے لے گیا تھا وہ واپس کر دی۔ اب سیدھا گھر کا رخ کیا۔ جیسے ہی پھاٹک میں داخل ہوا انجن روک دیا اور پیدل گاڑی کو گھسیٹتا لے چلا۔ گاڑی کھڑی کر کرے اور چپکے سے دراوزے کا رخ کیا کہ اپنے ہی کتے نے ٹانگ لی۔ اسے چپکا کیا اور برآمدے میں پہنچ کر راستہ تلاش کیا۔ سب درازے بند تھے۔ خیال آیا کہ غسل خانے کی چٹنخی ڈھیلی ہے، مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ صحن کی دیوار پر چڑھنے کی ٹھانی۔ نیم کے نیچے بھینس بندھتی تھی۔ اس کی ناندپر کھڑے ہو کر ایک پیر دروازہ پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کا سہارا لے کر اندر داخل ہوا۔ دھیرے دھیرے سونے کے کمرے کی طرف چلا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور میں چپکے سے کپڑے بدل کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ اور بڑی پھرتی سے لحاف کے اندر گھس گیا۔​
میں سمجھا کہ خانم سورہی ہے، مگر وہ جاگ رہی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ کھانسی گویا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ"میں جاگتی ہوں، ادھر میں کھنکارا کہ جاتی ہو تو کیا کر لو گی۔ میرے پاس بڑھیا والی شاڑی ہے۔ ایک اور کروٹ انہوں نے لی اور پھر بڑبڑائیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں بھلا کب دبنے والا تھا۔ میں نے کہا۔ " کیوں ، کیا جاگتی ہو؟"​
وہ بولیں۔ "تمہاری بلاسے۔ تم شطرنج کھلنے جاؤ، میں کل جاتی ہوں۔"​
"تم بھی عجیب عورت ہو!" میں نے ڈانٹ کر کہا۔ "بزاز کے یہاں گیا وہاں پر خان صاحب مل گئے اور زبردستی انہوں نے وہی پیازی رنگ والی ساڑی دلوا دی۔ بہت کچھ میں نے کہا کہ دام نہیں مگر۔۔۔۔"​
"پھر؟" خانم نے بات کاٹ کر کہا۔ "پھر وہ ساڑی کیا ہوئی؟" اٹھ کر وہ لحاف میں بیٹھ گئیں۔​
"ہوئی کیا۔۔۔ وہاں سے ساڑی لے کر خان صاحب کے یہاں گیا، کھانا انہوں نے کھلایا، دو چار آدمی۔۔۔"​
"ہوگا۔" خانم نے کہا۔"ہوںگے آدمی،پھر وہ ساڑی وہی پیازی رنگ والی۔"​
"یہ لو۔" یہ کہہ کر میں نے بنڈل لا پرواہی سے خانم کے لحاف پر مارا ۔ لیمپ کی روشنی فوراََ تیز کر کے انہوں نے تیزی سے بنڈل کھولا۔ ساڑی کو کھول کر جلدی سے دیکھا پھر میری طرف بجائے غصہ کے ان کی آنکھوں سے محبت آمیز شکریہ ٹپک رہا تھا۔ شطرنج پر اعتراض تو کجا نام تک نہ لیا۔ "وہ مارا اناڑی کو۔" میں نے دل میں کہا۔​
بہت دن تک تو جناب اسی ساڑی کی بدولت خوب دیر کر کے آیا۔ خوب شطرنج ہوتی رہی جیسے بیشتر ہوتی تھی۔ فرق تھا تو یہ کہ بجائے میرے گھر کے اب خان صاحب کے گھر پر جمتی۔​
مگر رفتہ رفتہ غیر حاضری اور شطرنج بازی پر پھر بھویں چڑھنے لگیں۔ بجائے ملائمت کے ترش روئی اور سختی! دراصل استانی جی خانم کو بھڑکاتی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ خانم نے پیچ کسنا شروع کیا۔ مگر شطرنج کسی نہ کسی طرح ہوتی ہی رہی۔​
ساری خدائی ایک طرف، خانم کا بھائی ایک طرف۔ وجہ شاید اس کی یہ تھی کہ خانم کے بھائی اصلی معنی میں بھائی تھے۔ یعنی صورت شکل ہو بہو ایک، بالکل ایک ذوہ بھر بھی فرق نہ تھا۔ صرف گھنٹہ بھر بڑے تھے۔ جڑواں بہن بھائیوں میں بیحد محبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے خانم کی مناسبت سے مجھے بھی خانم کے بھائی بیحد عزیز ہیں۔ پلی مرتبہ بہن کے یہاں آئے۔ بہن کا نام سنتے ہی یہ حال ہوگیا کہ ننگے پیر دوڑ کر بھائی سے لپٹ گئی، بھائی خود بیتاب تھا، سینہ سے لگا کر بہن کی گردن کو بوسہ دیا۔ بھائی بہن نے گھنٹوں جم کر یکسوئی کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ دونوں دیوانے ہیں۔ بہن اپنے بھائی کو کتنا چاہتی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ میں خانم کو بائی سے محبت دیکھ کر رشک کر رہا تھا۔​
یہ شائد بھائی کی محبت کا ہی تقاضا تھا کہ خانم نے مجھے کونے میں لے جا کر بڑے پیار سے کہا کہ " دیکھو اب دو چار روز شطرنج نہ کھیلنا۔"​
میں نے خانم کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔ کس طرح اس نے محبت سے مجھ سے کہا۔ " شاید اسی طرز و انچاز نے بت پرشتی و شرک کی بنا ڈالی ہے! مظلوم غریب کیا کرے، ظالم کے کہنے کو کیسے رد کرے؟ خانم کی آنکھ کے نیچے کسی چیز کا ذرہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو ہٹانے کے لیے انگلی بڑھائی۔ آنکھیں جھپکا کر خانم نے خود رومال سے اس کو پاک کیا، پھر ہاتھ پکڑ کر اور بھی زیادہ صفائی سے زور دے کر شطرنج کو منع کیا۔​
قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں۔ خانم کے بھائی پکارے۔ بجو۔۔"​
بیتاب ہو کر خانم نے کہا۔"بھیا۔۔" اور بے تحاشہ مجھ سے توڑا کہ بھاگی کہ بھیا خود آگئے۔ "کیا کر رہی ہو؟ خانم کے بھائی نے اپنے خوبصورت چہرہ کو جیب جنبش دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔​
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خانم نے اس طرح کہا جیسے کوئی دکھ بھری داستان کا حوالہ تھا۔ "شطرنج کو منع کر رہی ہوں۔۔ شطرنج۔۔"​
"کیوں؟""دن دن بھر کھیلتے ہیں۔ رات رات بھر کھیلتے ہیں اور وہ کم بخت خان صاحب ہیں کہ ۔۔"​
"بھائی خدا کے واسطے شطرنج چھوڑیے۔ آپ برج نہیں کھیلتے؟۔۔۔ برج کھیلا کیجئے۔" بھیا نے کہا۔ " ہاں برج کھیلیں مگر یہ شطرنج تو۔۔"​
"بڑی خراب چیز ہے بھائی۔" بجو (بہن سے اپنی مخاطب کر کے کہا) تو ان کی شطرنج جلا ڈال۔"​
"رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔" میں نے کہا۔ "بھیا میرے پاس۔۔۔" خانم ذرا چیخ کے بولی۔ "وہ کم بخت خان صاحب ایسے ہیں کہ ان کے ہاں جاجا کر کھیلتے ہیں۔۔۔"​
مجھ سے مخاطب ہو کر خانم نے کہا۔ "وعدہ کیجئے جب تک بھیا ہیں بالکل نہ کھیلئے گا۔" چنانچہ پختہ وعدہ کر لیا، پختہ!​
(5)​
چلتے وقت خانم نے مسکرا کر انگلی گھما کر کہا تھا۔ "ادھر سے جائے گا۔۔ ادھر سے ۔۔ "بھیا کی طرف میں نے مسکرا کے دیکھا۔ "دیکھتے ہو تم ان کا پاگل پن۔"​
بھیا کچھ نہ سمجھے کہ ان باتوں کا یہ مطلب ہے کہ خان صاحب کی طرف ہو کے مت جانا۔ میں تو چل دیا۔ بہن اپنے بھائی کو سمجھاتی رہی ہوگی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔​
"وہ بھئی واہ! غضب کرتے ہو۔" یہ کہتے ہوئے خان صاحب ہاتھ کا سگنل سامنے کئے ہوئے کھڑے تھے۔ " ایسا بھی کیا کہ پھٹ پھٹ کرتے بھاگتے جاتے ہو، سنتے ہی نہیں۔"​
میں نے گاڑی تو روک لی، مگر اترا نہیں اور ویسے ہی کنارے ہوکر کہا۔"کام سے جا رہا ہوں، کام سے۔"​
"ایسا بھی کیاہے!" خان صاحب نے بازو پکڑے ہوئے کہا۔ "ذرا بیٹھو۔"​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
"اماں مرزا صاحب۔۔۔ مرزا جی۔۔۔" میر صاحب بیٹھک میں سے بولے۔ "واللہ دیکھو۔۔ تمہیں واللہ۔ اماں سنتے نہیں۔۔۔" ہاتھ سے بلا کر بولے۔ "تمہیں واللہ ذرا آ کر تماشا تو دیکھو، کیسا لالہ جی کا وزیر گھیرا ہے۔۔ ارے میاں ذرا۔۔۔"​
"نہیں تمہیں ہم نہ چھوڑیں گے۔" یہ کہہ کر خان صاحب نے گھسیٹا۔​
"بخدا مجھے بڑے ضروری کام سے جانا ہے۔ کل صبح تڑکے ہی موٹر چاہیے۔۔۔ اتوار کا دن ہے۔ ویسے ہی موٹر خالی نہیں ہوتا۔۔۔"​
"بیر سٹر صاحب کے یہاں جا رہے ہوں گے۔۔ موٹر لینے ۔۔۔ کیوں ۔۔۔ کیا کرو گے؟"​
میں نے خان صاحب کو بتایا کہ خانم اور ان کے بھائی دونوں کو کل دن بھر مختلف مقامات کی سیر کرانا ہے۔​
"لاحول والاقوۃ" خان صاحب نے مجھے گھسیٹتے ہوئے کہا۔ "اماں ہم سمجھے کوئی کام ہوگا۔۔۔ واللہ تم نے تو غضب ہی کر دیا۔ ذرا غور کرو۔۔۔ بھئی اندر چلو ذرا۔۔"​
"میں رک نہیں سکتا۔"​
"بخدا ذرا دیر کو۔۔۔ بس دو منٹ کو۔۔ بس پان کھاتے جاؤ۔"​
یہ کہہ کر خان صاحب نے آخر گھیٹ ہی لیا۔ بیٹھک میں پہنچا تو میر صاحب مارے خوشی کے بے حال تھے۔​
"واللہ۔۔۔۔ بھئی مرزا کیا بتاؤں تم نہ آئے۔ دیکھو ان کا وزیر یہاں تھا۔۔۔ میں نے پیدل جو آگے بڑھایا تو۔۔۔"​
"تو مہرے آپ کیوں جگہ سے ہٹاتے ہیں۔ کھیلنا ہو تو کھیلئے۔۔۔"​
یہ کہہ کر لالہ صاحب نے میر صاحب کو چپ کیا اور ادھر خان صاحب نے اپنا سلسلہ کلام شروع کیا۔​
"تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ آپ کیا کہہ رہے ھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو بات یہ ہے میاں تم ابھی نا تجربہ کار ہو۔ بھلا عورتوں کو موٹروں کی سیر سے کیا تعلق؟ خدارا کچھ سیکھو، جب ہی تو ہے نا کہ آپ کی "گھر میں" آپ شطرنج بھی نہیں۔۔۔"​
"نقشہ دیکھو۔۔۔۔۔ ارے رے!" میرے صاحب نے زور سے پکڑکر خان صاحب کو ہلا ڈالا۔ "وللہ ! بادشاہ کو گھیرا ہے۔۔۔ اپنا وزیر پٹا کر۔۔۔۔؟ مخالف سے مخاطب ہو کر۔ "مارئیے وزیر، لالہ صاحب۔۔۔۔ وزیر مارنا پڑے گا۔۔۔ مارو تو مات، نہ مارو تو مات۔۔۔۔ یہ لو مہرے اور بنو۔۔۔ بوندیں آ گئیں۔۔۔ اور بنو ۔۔۔ ہٹاؤ چرخہ ۔۔۔ یہ لو۔"​
میر صاحب نے واقعی خوب مات کیا تھا، اور میں اٹھنے لگا۔​
"بھئی ہم نہ جانے دیں گے۔۔ بغیر پان کھائے ہوئے۔۔۔" ارے پان لانا۔ خان صاحب نے زور سے آواز دی اور پھر کہا۔ " بھئی کوئی بات بھی ہے۔ عورتوں کو اول تو سیر کرانا ہی منع ہے اور پھر تم دیکھ رہے ہو کہ روز بروز تمہارے گھر کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ آج شطرنج کو منع کرتی ہیں کل کہہ دیں گی کچہری نہ جایا کرو۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو، اور سہی تو ایک بازی میرے صاحب کی دیکھ لو، چلے جانا، جلدی کاہے کی ہے۔"​
"میر صاحب کا کھیل میں نے بہت دیکھا ہے۔" میں نے کہا۔ "مجھے جلدی جانا ہے۔"​
"میرا کھیل؟" میر صاحب بولے۔ "میرا کھیل دیکھا ہے۔۔۔ یہ کہو مذاق دیکھا ہے، تمہارے ساتھ کھیلتا تھوڑی ہوں۔ مذاق کرتا ہوں۔"​
"اس روز زچ ہوگئی۔۔۔ بازی زچ ہوگئی ہوگی۔ ورنہ پیدل ہوتی اور وہ بھی پیدل پسند۔""بازی تو آپ کی خوب چڑھی ہوئی تھی۔" خان صاحب نے تائید کی۔​
"جی ہاں۔" میر صاحب بولے۔ 'ڈھیل دے کر کاٹتا ہوں۔۔۔ "اناڑی کو بڑھاکر مارتا ہوں اور ایک میری اب بھی چڑھی ہوئی ہے۔"​
"مرگئے چڑھانے والے۔" میں نے ترش روئی سے کہا۔ "میر صاحب یہ شطرنجہے۔"​
پھر آجاؤنا۔۔۔ تمہیں آجاؤ۔۔۔"​

بھائی ہوگی۔۔۔ ہوگی ۔۔۔ ہٹو ۃٹو۔۔۔" خان صاحب نے شطرنج میری طرف گھسیٹتے ہوئے کہا۔
ہوگی۔۔۔ بس ایک بازی ہوگی۔"​
"نہیں صاحب مجھے جانا ہے۔۔۔ضروری کام سے۔" میں نے کہا۔​
"ہم آدمی بھیج دیں گے۔۔۔ دیکھا جائے گا۔ اماں بیٹھو۔۔ رکھو۔۔ بس، ایک۔"​
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔ جماہی لے کر کہا۔ "اچھا لائیے۔ ایک بازی میر صاحب کو مات دے ہی دوں۔ آؤ بس ایک ہوگی۔"​
ایک بازی میر صاحب پر نظر کی چوک سے ہوگئی اور بڑی جلدی ہوگئی تو میں اٹھنے لگا۔ لیکن خاں صاحب نے آستین پکڑلی کہ "بھئی یہ اتفاق ہے یہ کچھ نہیں ایک اور کھیل لو۔" میں نے کہا کہ " خیر اچھا کھیلے لیا ہوں۔" اور بیٹھ گیا۔​
مگر اتفاق تو دیکھئے کہ یہ اس سے بھی جلدی چٹ پٹ ہوگئی۔ میر صاحب کا چہرہ فق ہوگیا۔ غضب ہے دس منٹ میں دو بازیاں۔ خان صاحب نے پھر پکڑ لیا اور کہا کہ یہ کوئی بات نہیں۔ غرض اسی طرح پانچ بازیاں میر صاحب پہ ہوگئیں۔ اب میں بھلا کیسے جا سکتا تھا۔ کیوں نہ ساتھ بازیاں کر کے میر صاحب کی لنگڑی باندھوں اور پھر دو بازیاں اور یعنی پورے نوکر کا " نوشیرواں" کردوں۔ ضروری کروں گا، ابھی تو بہت وقت ہے۔​
میں نے کہا کہ " میں جانتا ہوں ورنہ لنگڑی کے لیے رسی منگائے، میر صاحب غصہ میں خود چارپائی کی اودان کھولنے لگے۔ خان صاحب نے فوراََ رسی منگادی اور اب زور شور سے شطرنج شروع ہوگئی۔​
ایک بج گیا اور میں اب گویا چونک سا پڑا۔ بلامبالغہ سینکڑوں بازیاں ہوئیں مگر مجھے لنگڑی نصیب نہ ہوئی۔​
میں شطرنج چھوڑ چھاڑ کر سیدھا گھر بھاگا۔ پھاٹک پہ جب سائیکل روکی ہے تو آدھی رات گزر کر سوا بج کا عمل تھا۔​
"یا اللہ اب کیا کروں؟" میں نے پرشان ہو کر کہا۔ "خانم کیا کہے گی، لاحول والاقوۃ۔ میں نے بھی کیا حماقت کی۔ بھیا کیا کہے گا؟ بڑی لڑائی ہوگی۔ "شش و پنج میں کھڑا سوچتا رہا، مگر اب تو جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔​
اسی روز کی طرح بھینس کی ناند پر سے دیوار پار کی۔ استانی جی کے کمرے کے سامنے ہوتا ہوا تیزی سے نکل گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ ٹٹول کر کپڑے اتارے سلیپر بغل میں دابے برابر والے کمرے میں داخل ہوا جس میں بھیا کا پلنگ تھا۔ بڑی ہوشیاری سے چاروں ہاتھ پاؤں پر چلتا ہوا گویا جانور کی طرح جانے کی ٹھہرائی۔ آدھے کمرے میں جو پہنچا تو ماتھے میں میز کا پایہ لگا اوپر سے کوئی چیز اس زور سے گردن پر گری کہ اس اندھیرے میں آنکھوں تلے اندھیرا آگیا۔ میں دبک کر بیٹھ گیا۔ میں جانتا ہی تھا کہ بھیا غافل سونے والے ہے، خانم سے بھی نمبر لے گیاہے۔ بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ یہ کیا گردن زونی چیز تھی جو میری گردن پر گری، رینگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اور اتھ کر اب خانم کے کمرے کے دراشے پر پہنچا۔ خدا کا شکر ہے کہ اندھیرا گھپ تھا۔ اسی طرح پھر چاروں ہاتھ پاؤں کے بل رینگنا شروع کیا، کیونکہ اس روز خانم اٹھ بیٹھی ۔ چپکے چپکے پلنگ تک پہنچا اور غراپ سے اپنے بچھونے میں لحاف تان کے دم بخود پڑے پڑے سوگیا۔​
صبح دیر سے آنکھ کھلی، اٹھا جو سہی تو کیا دیکھتا ہوں کہ خانم مع بسترا غائب۔ ارے! نکل کر دوڑا تمام معاملہ ہی پلٹ گیا۔ نہ بھیا ہیں نہ خانم، نہ استانی جی! نوکر نے کہا کہ رات کی بارہ بجے کی گاڑی سے سب گئے۔ غضب ہی ہوگیا۔​
نہ تو ناشتے میں جی لگا اور نہ کسی اور طرف۔ سخت طبیعت پرشان تھی۔ اندھیرا ہوگیا، جن کمروں میں بھیا اور خانم کی مزیدار باتوں اور قہقوں سے چہل پہل تھی ان میں سناٹا تھا۔ ادھر گھوما، ادھر گوما، گھر ایک اجڑا مقام تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بادلوں کی طرح گھومنے لگا۔ ایک دم سے غصہ آیا کہ چلو خان صاحب کے یہاں پھر جمے گی۔ کپڑے آدھے پہنے تھے کہ پھر طبیعت پہ خلجان سوار ہوگیا۔​
خدا خدا کر کے تین بجے، اب خانم گھر پہنچنے والی ہوگی، لہٰذا تاردیا۔ "جلدی آؤ اور فوراََ تار سے جواب دو۔" مگر جواب ندارد۔ وقت گزر گیا۔ دوسرا جوابی تار دیا کہ "جلدی آؤ۔" جواب آیا۔ " نہیں آتے" پھر جواب دیا۔ "اب شطرنج کبھی نہیں کھیلیں گے، جواب رات کو آیا۔ " خوب کھیلو۔"​
رات کے بارہ بجے کی گاڑی سے خود روانہ ہوگیا۔​
خانم کے گھر پہنچا۔ خانم کی ماں اور باپ دونوں خانم سے بیحد خفاتھے۔ مگر خانم جب چلنے پر راضی ہوئی جب خدا اور رسولﷺ اور زمین و آسمان معہ قرآن مجید اور خود خانم کے سر اور بھیا اور خود خانم کی محبت کی قسم کھائی۔ وہ بھی بڑی مشکل سے وہ دن اور آج کا دن، جناب میری شطرنج ایسی چھوٹی ہے کہ بیان سے باہر، مگر سوچ میں رہتا ہوں کہ کون سی تدبیر نکالوں۔ شائد کوئی شاطر بتا سکے۔​
رموز خاموشی
میں چار بجے کی گاڑی سے گھر واپس آ رہا تھا۔ دس بجے کی گاڑی سے ایک جگہ گیا تھا اور چونکہ اسی روز واپس آنا تھا لہٰذا میرے پاس اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا۔ صرف​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک اسٹیشن رہ گیا تھا۔ گاڑی رکی تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے اترے۔ ان کا قد بلا مبالغہ چھ فٹ تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں رعب دار چہرے پر ہوا سے ہل رہی تھیں۔ نیکر اور قمیض پہنے ہوئے پورے پہلوان معلوم ہوتے تھے۔ یہ کسی کا انتظار کر رہے تھے ۔دور سے انہوں نے ایک آدمی کو ۔۔۔ جو کہ غالباََ ان کا نوکر تھا دیکھا۔ چشم زون میں ان کا چہرہ غضبناک ہوگیا۔ میں برابر والے ڈیوڑھے درجے میں بیٹھا تھا۔ ایک صاحب نے ان خوفناک جوان کو دیکھا اور آپ ہی کہا۔ "یہ خونی معلوم ہوتاہے۔" میں نے ان کی طرف دیکھا اور پھر ان خوفناک حضرت کے غضب ناک چہرے کو دیکھا اور دل ہی دل میں ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ آپ یقین کریں کہ ان کی آنکھیں شعلہ کی مانند تھیں اور نوکر کے آتے ہی اس زور سے انہوں نے اس کو ایک قدم آگے بڑھا کر ڈپٹا کہ وہ ڈر کر ایک دم سے پیچھے ہٹا اور گارڈ صاحب سے جو اس کے بالکل ہی قریب تھے لڑتے لڑتے بچا۔ گارڈ صاحب سیٹی بجانا ملتوی کر کے ایک طرف کو ہوگئے۔ انہوں نے ایک نگاہ التفات ملازم پر ڈالی اور پھر ان حضرت کی طرف دیکھا۔ دونوں مسکرائے گاڑی چل دی۔​
(1)​
گاڑی اسٹیشن پر رکی اور میں اترا۔ یہ حضرت بھی اترے۔ آپ یقین مانیں کہ میں سمجھا کہ مجھے کوئی بلا لپٹ گئی جب انہوں نے ایک دم سے مجھ۔ "باؤ" کر کے چپٹالیا۔ عاصل انہوں نے کہا تھا۔ "تم کہاں۔" اگر ان کی توند کچھ نرم نہ ہوتی تو شاہد میری ایک آدھی پسلی ضرور شکست ہو جاتی۔ چھوٹتے ہی ہاتھ پکڑالیا اور ہنس کر کہا: "اب تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔"​
یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ کو فضول گوئی سے جتنی نفرت تھی۔۔۔(اب نہیں ہے)۔۔۔ اتنی کسی چیز سے نہ تھی۔ دیکھتا تھا کہ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ خواہ مخواہ ایک دوسرے کی بات کاٹ رہا ہے اور ہر شخص کی یہ کوشش ہے کہ دم بخود ہو کر میری ہی بات پر سب کان دھریں۔ بسا اوقات میری غیر معمولی خاموشی پر اعتراض ہوتا۔ مجھ سے شکایت کی جاتی کہ میں باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ میں کوئی جواب نہ دیتا اور دل میں چچا سعدی کے اشعار پڑھنے لگتا​
چور کار بے فضول من بر آید​
مراروئے سخن گفتن نہ شاید​
دگر بینم کہ نابینا و چاہ است​
اگر خاموش بشینم گناہ است​
ایسی صورت میں کہ میرے شعار یہ ہوں جب انہوں نے مجھ پکڑ کر کہا " اب تمہیں نہیں چھوڑیںگے۔" تو ممکن تھا میں خاموشی سے کام لیتا۔ لیکن یہں تو بغیر بولے کام نہ چل سکتا تھا۔ مگر قبل اس کے کہ میں کہوں کہ حضرت آپ کون صاحب ہیںاور مجھ کو کیوں پکڑا ہے اور آخر مجھ کو کیوں نہ چھوڑیں گے اور کیسے نہ چھوڑیں گے۔ اہوں نے بغیر میرا جواب یا میری بات سننے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا۔​
"تم بہت دنوں بعد ملے ہو۔۔۔ کہاں تھے ۔۔۔ کیسے ہو۔۔۔ والد صاحب تو بخیرت ہیں ۔۔۔۔ اور لوگ کہاں ہیں۔۔۔؟" ابے نالائق۔۔۔ نامعقول۔۔۔یہ دیکھ۔۔۔ یہ دیکھ! آنکھیں کھول۔۔۔ ارے آنکھیں کھول کر۔"​
ملازم پر کھڑے دانت پیس رہے تھے۔ میرا شبہ کہ مجھے تو نہیں کہہ رہے ہیں زائل ہوچکا تھا۔ دراصل نہ انہیں میرے جوابات کی ضرورت تھی اور نہ مجھ میں ہمت بعض واقعی حاضر جواب ہوتے ہیں، کاش میں بھی ایسا ہی ہوتا تو شاید ان کو والات کے جواب دے کر مزے سے بیٹھا ہوا گھر کی طر ف جارہا ہوتا۔ میں اب ذرا اپنے آپ کو سنبھال کر ان کی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہا تھا اور اس میں مجھے کامیابی ہوتی بھی معلوم ہوتی تھی، یونکہ " معاف کیجئے گا میں نے ہپچانا نہیں۔" تو نہایت مناسب الفاظ تھے جو مجھ کو مل گئے تھے اور میں نے کہنا شروع کیا۔:​
"معاف کیجئے گا۔۔۔"​
مگر انہوں نے بات کاٹ کر فوراََ کہا۔ " جی نہیں۔۔ یہ ناممکن ہے۔" اور پھر اسی سلسلے میں کہاَ "اسباب نہیں ہے؟" اور بغیر جواب کا انتظار کئے ہوئے پھر خود ہی انہوں نے کہا" "شائد دن بھر کے لیے آئے ہوگئے۔ خیر کوئی ہرج نہیں، اب دو تین دن تمہیں نہ چھوڑوں گا۔" ایک قہقہ لگایا اور بڑے زور سے کہا۔ "میں نہیں چھوڑوں گا۔ نہیں چھوڑ سکتا۔"​
میں نے دل میں سوچا کہ بھاگوں۔۔۔ہاتھ چھڑا کر۔ مگر اول تو میری پتلی کلائی گویا پنجہ آہنی میں تھی اور پھر اسٹیشن کی بھیڑ۔ یہ خیال خام تھا۔​
(2)​
میرا ہاتھ پکڑے مجھ کو لے جا کر انہوں نے اپنے ساتھ گاڑی پر بٹھایا۔ گاڑی پر بیٹھتے وقت میں ذرا رکا کہ کہوں "جناب آپ مجھ کو کیوں اور کہاں لے جاتے ہیں؟" میں نے ذرا گلا صاف کر کےکہنا چاہا کہ انہوں نے گویا جبراََ ہاتھ پکڑ کر گاڑی میں بٹھا دیا اور خود بھی بیٹھ گئے اور بیٹھتے بیٹھتے کہا۔​
" میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔۔ والد صاحب تو بخریت ہیں؟"​
میں نے کہا: "بخریت ہیں اور۔۔۔"​
وہ بات کاٹ کر بول اٹھے۔ "اور سب؟" اور پھر کہا۔ "سب اچھی طرح ہیں؟" ارے میاں یہ کیا واہیات ہے، سنا ہے کہ تمہارے والد نے ایک اور شادی کر لی۔ یہ خبر کہاں تک صحیح ہے؟"​
"الہٰی خیر۔" میں نے دل میں کہا کیونکہ میری والدہ صاحبہ عرصہ ہوا مر چکی تھیں، لیکن پھر بھی بحمدللہ " دو والدائیں موجود تھیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ والد صاحب قبلہ کی آبادی پسند طبعت نے ۔۔ یا پھر مجھی حال زار پر رحم کرتے ہوئے دو مائیں نزول شفقت مادرانہ کے لیے ناکافی سمجھتے ہوئے ایک کا اور اضافہ فرمایا ہو!!​
حضرت کو شاہد میں نے پہچانا نہیں اور ان کی تمام جارحانہ کاروائی حق بجانب تو نہیں؟ آخر کیوں نہ معذرت کر کے دریافت کروں اور آئندہ کے لیے تعارف کرلوں؟ مگر میری کم گوئی۔۔۔(اب تو باتونی ہوں)۔۔۔ اور سوالات کرنے سے بچنے کی عادت۔۔۔( بحمدللہ اب تو فورا سوال کرتا ہوں)۔۔۔ کا خدا بھلا کرے کہ یہ مجھ میں کمزوری تھی۔ میں نے فوراََ محسوس کیا کہ یہ تو عجیب بات ہے۔ دست تاسف ملتا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا مگر یا تو بولا ہی نہ جاتا اور اگر ہمت کر کے بولنے کو ہوتا تو فوراََ ہی وہ سوال کردیتے۔​
میں یہی کہتا رہا کہ اب ان سے معاملہ صاف کروں اور اب پوچھوں کہ گاڑی ایک کوٹھی میں داخل ہوگئی۔ مجھے بہانہ ملا اور سوچا کہ اب اطمینان سے ان سے معذرت کروں گا کہ حضرت میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ گاڑی باغ میں داخل ہوئی اور یہ حضرت بولے۔ 'پچھلی مرتبہ جو تم آئے تھے تو تم نے وہ انگور کی بیل نہ دیکھی ہوگی۔۔ اس کی جڑ میں تین بندروں کے سرگڑوائے ہیں۔"​
میں بھلا اس کا کیا جواب دیتا۔ کیونکہ عمر میں پہلی مرتبہ یہاں آیا اور وہ بھی پکڑا ہوا مگر زبان سے لفظ" بندر" نکل گیا۔​
 
Top