"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی۔۔۔۔" (۔۔۔۔۔THE LIFE OF SUPER-EARTHS)

زہیر عبّاس

محفلین
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو تمامجہانوںکا مالک ہے۔ اور درود و سلام ہو رحمت للعالمین جناب حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔


آج کل میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس کا نام ہے "عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی"

" THE LIFE OF SUPER-EARTHS How the Hunt for Alien Worlds and Artificial Cells Will RevolutionizeLife on Our Planet"


اس کتاب کے مصنف دیمیتر سیسی لوف "DIMITAR SASSELOV" ہیں جو ایک بلغارین نژاد امریکی ہیں۔ اصل میں اس مختصر سی کتاب میں انہوں نے حیات کے ماخذ کی تلاش کو نئےجہانوں کی دریافت سےمدد لیتے ہوئے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب دو حصّوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلے حصّے میں انہوں نے "فوق ارض سیاروں" یا "مہا چٹانی سیاروں" (Super Earths) پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جبکہ دوسرے حصّے میں وہ حیات کے ماخذ کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جب حیات کے ماخذ کے بارے میں بیان کیا جائے گا تو "نظریئے ارتقا" کا بھی ذکر ہوگا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں ایک موحد ہوں اور اللہ اور اس کے رسول پر مکمل ایمان رکھتا ہوں۔

سائنس آسمانی صحائف میں لکھی ہوئی اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ہماری خلقت "خاک" سے ہی ہوئی ہے چاہے وہ خاک ستاروں ہی کی کیوں نہ ہو۔ میری ناقص رائے میں مذہب میں کہیں بھی ارتقائی عمل کا انکار نہیں کیا گیا ہے۔بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ارتقا کا عمل جاری و ساری ہے۔ بگ بینگ میں پیدا ہونے والی توانائی نے اوّلین ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے جوہروں کی تخلیق کی۔ جنہوں نے بعد میں ستاروں کے قلب میں جل کر اور سپرنووا دھماکوں میں مزید عناصر تالیف کئے اور ان عناصر کو خلاء میں بکھیر دیا۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس بکھری ہوئی گرد و غبار سے ہمارے سورج اور زمین نے جنم لیا۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق شاید ہمارا سورج تیسری نسل کا ستارہ ہے۔ بہرحال ارتقا کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں بھی کرتے ہیں۔ نطفے سے بچہ پیدا ہونا بھی تو ایک ارتقائی عمل ہے جس میں غذا ماں کے پیٹھ میں مختلف تغیرات کے بعد نطفے کو توانائی و غذا پہنچاتے ہوئے بچے کی شکل دیتی ہے۔لیکن بہرحال ڈارون کا عموماً جانے والا نظریہ ارتقا جس میں بندر کو انسان کا جد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مجھ سے ہضم نہیں ہوتا۔ظاہر ہے کہ جب ہر چیز اصل میں توانائی کی ہی مختلف ڈھلی ہوئی شکل ہے تو سب کی اصل تو ایک ہی ہوگی یعنی کہ جوہر ۔

بہر کیف میرا مطلب یہاں پر کسی بحث و مباحثے کو جنم دینا نہیں ہے بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ اس کتاب میں کافی چیزیں شایدایسی ہوں جو ایک موحد کے خیالات سے (حیات کے ماخذ کے بارے میں) متصادم ہوں۔

بہر حال مجھے تو یہ کتاب کافی دلچسپ اور معلوماتی لگی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ کرنا شروع کیا ہے۔ جیسے جیسے مکمل ہوگا۔ ویسے ویسے یہاں پوسٹ کرتا رہوں گا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی" از دیمیتر سیسی لوف

تمہید
حیات کا بھید


صرف چند ہی ایسے عظیم سوالات ہیں جو اس سوال کا مقابلہ کر سکتے ہیں مثلاً حیات کیا ہے اور اس کی شروعات کیسے ہوئی ؟ یہ ہمیشہ سے صرف اکیلی سائنس کے لئے ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر بھی ایک عظیم سوال رہا ہے ۔ اس کے جواب میں ہمیشہ سے کئی نمونے ، منظر نامے ، قیاس آرائیاں اور مفروضات پیش کئے گئے جس میں سے افسوس کہ زیادہ تر ناکام ہی ہوئے ۔ انیسویں صدی کا وسطی حصّہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ لیکن شمالی بحر اوقیانوس کی گہرائی میں ٹیلی گراف کے تاروں کے پہلو سے نکلی ہوئی چکنی کیچڑ شاید کچھ تبدیلی کا عندیہ دے سکتی تھی۔


١٨٥٧ء کو ایک ایسے موقع کی مناسبت سے منایا جا سکتا ہے جب انسانیت اپنا پہلا عملی قدم اس سیارے پر عالمگیریت کی جانب اٹھا رہی تھی - ایک عالمگیر باخبر دنیا کی طرف جس میں ہم آج رہتے ہیں ۔ تاروں کے گچھوں سے لدے ہوئے برطانوی اور امریکی جنگی جہاز پہلا بین البر اعظمی ٹیلی گراف بحر اوقیانوس کی تہ میں یورپ اور امریکہ کے درمیان بچھا رہے تھے ۔ان خبروں کا عہد اب ختم ہونے کو تھا جو ننگے پاؤں یا پھر گھوڑوں کی پیٹ پر بیٹھ کر یا کبوتروں کے ذریعہ بھیجی جاتی تھیں۔ پیغام رسانی کے طریقوں کو بالآخر روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ذرائع ابلاغ سے بدل دیا جانا تھا جو خبر کو فوری طور پر پہنچا سکتے تھے ۔دن اور ہفتے گھنٹوں اور منٹوں میں بدل گئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ جن سمندروں نے انسانوں کو ہزار ہا برسوں تک ایک دوسرے سے دور رکھا تھا "یکدم سوکھ گئے تھے ۔"


ٹیلی گراف کے تاروں کو بچھا نے کی تیاری میں بحری جہاز جیسا کہ ایچ ایم ایس سائیکلو پس اور یو ایس ایس آر کٹک بحر اوقیانوس کی تہ میں سمندری مٹی کے نمونے جمع کر رہے تھے ۔ ١٨٦٨ء میں ایک برطانوی ماہر حیاتیات تھامس ہنری ہگزلی نے بحر اوقیانوس سے لئے جانے والے نمونوں میں ایک بے رنگ و شکل کا مادّہ جیلا ٹین دریافت کیا جس کو اس نے ایک نئے حیات کی شکل کے طور پر لیا ۔اس برطانوی ماہر حیاتیات کی تقابلی تشریح الاعضا میں کافی نمایاں کاوشیں ہیں (اگرچہ آج وہ ڈارون کے نظریئے ارتقاء کو پھیلانے والے انسان کے طور پر زیادہ پہچانا جاتا ہے )۔ ہگزلی نے جیلا ٹین کو قدیمی بے ہئیت پروٹوپلازم نامیاتی مادّہ سمجھا جس سے اس کے خیال میں حیات جنم لیتی ہے ۔


یہ ایک جرت مندانہ خیال اس تند و تیز دور کے لئے تھا جس میں حیات اور اس کے ماخذ کو سمجھنے کی مہمات شروع ہو گئیں تھیں اور ہگزلی اس دور کے وسط میں موجود تھا ۔ پہلے ١٨٥٩ ء میں چارلس ڈارون کا منوی انواع کے ماخذ اور نظریئے ارتقا کی اشاعت کی ، اور نظریہ ارتقاء ایک گرما گرم بحث کا موضوع بن گیا تھا ۔ ١٨٦٠ ء اور ١٨٦٣ ء کے درمیان ، لوئیس پاسچر ، نے اپنا شہرہ آفاق تجربہ "جراثیم کشی " کو مکمل کیا ۔ اس عرصے کے دوران لمبے عرصے تک حکومت کرنے والے حیات کے ماخذ کی حکمرانی کا تختہ الٹا جا چکا تھا۔


ڈارون اور پاسچر سے پہلے ، مغربی سائنس حیات کے ماخذ کو ازخود اور روحیت کے مجموعہ کی حیثیت سے بیان کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔ ازخود پیدا ہونے والے نسل کے نظریئے کا خیال تھا کہ حیات گلنے سڑنے والے مادّے سے نمودار ہوئی ہے ، اور پھر بعد میں روح (جو تمام نامیاتی مادّے اور ہوا میں عام ہے ) اس میں پھونک دی گئی تھی ۔ روح کو کیمیا کی جانب سے پہلے ہی سے مخالفت کا سامنا ہے ۔ اپنی ابتدائی پیش رفت میں ، کیمیا نے غیر نامیاتی مادّوں کو نامیاتی مادّوں سے الگ کرلیا تھا ۔ موخّرالذکر کو غلط طور پر فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ زندہ چیزوں سے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ ١٨٢٨ ء میں ایک مرتبہ جب نامیاتی مرکبات کو تجربہ گاہ میں تالیف کرلیا گیا تو روح کی ضرورت باقی نہیں رہی (ہرچند کے نامیاتی کیمیا میں اس کا نام اب تک موجود ہے )۔


ازخود حیات کی پیداوار میں پائے جانے والے مغالطوں کا بھانڈا ان تجربات میں پھوڑا گیا جس میں گوشت کے شوربے کو جراثیم سے پاک کرنے سے پہلے خوب ابالا گیا تھا ، لیکن خوش اسلوبی سے کئے گئے ان تجربات میں ہوا کو رسائی دی گئی اس طرح سے ثابت ہوا کہ حیات صرف حیات سے ہی نمودار ہو سکتی ہے ۔ لمبے ہنس کی گردن جیسا جار جس کا استعمال اس نے شوربے کو ابلنے کے لئے کیا تھا اس جار نے جراثیم (جرثوموں اور تخمک ) کو جراثیم سے پاک محلول میں داخل ہونے سے روک دیا تھا لیکن ہوا کو اندر آنے دیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ پاسچر نے سب کو قائل کرلیا تھا ۔


ان میں سے کسی بھی چیز نے سائنس دانوں کو حیات کے ماخذ کو سمجھنے میں مدد نہیں دی بجز اس کے کہ وہ مسئلہ پر اپنا سوال واضح طور پر پیش کر سکیں ۔ پاسچر اور ڈارون دونوں نے ماخذ کو بطور اکلوتا غیر حیاتی تولیدی عمل کے طور پر بیان کیا : یعنی کہ حیات کی پہلی شکل بے جان بے روح مادّے سے نمودار ہوئی اور ایسا صرف ایک ہی دفعہ ہوا تھا ۔ پاسچر کے مطابق یہ ایک خدائی عمل تھا جبکہ ڈارون نے اپنے ١٨٧١ء میں لکھے گئے خط کے مطابق اس کو "گرم چھوٹے تالاب " پر چھوڑ دیا تھا ۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہگزلی نے اس طریقے کے بر خلاف سوچا تھا کہ شاید اس کے ہاتھ کوئی بڑا ثبوت لگ گیا ہے ۔ درحقیقت اس نے اس دریافت کا نام "بیتھیبیس ہیکیلی " (Bathybius haeckelii)ایک جرمن حیات دن ارنسٹ ہیکل کے نام پر رکھا تھا جس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام حیات ایک قدیمی کیچڑ سے پیدا ہوئی ہے جس کا نام اس نے جرمن میں "اورشلیم" رکھا تھا جس کا مطلب "قدیمی کیچڑ" ہے ۔ درحقیقت ہگزلی کو اس بات پورا یقین تھا کہ اس نے قدیمی کیچڑ کی دریافت کر لی ہے ، اس دریافت نے ایچ ایم ایس چیلنجر کو دنیا کے سمندروں کی گہرائی کی منظم کھوج کے لئے بروقت بھیجنے میں مدد کی ۔ قدیمی کیچڑ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ؛ جہاز پر موجود کیمیا دانوں نے ہگزلی کے پرتجسس مادّے کو ایک سادہ سا غیر حل پذیر کیمیکل(آبیدہ کیلشیم سلفیٹ ) پایا۔ ۱۸۷۵ء میں ہگزلی نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ۔


ہگزلی کی غلطی کے باوجود حیات کی ابتداء کی کھوج کبھی رکی نہیں۔ بیسویں صدی کانظریاتی دریافتوں کا کچھ سنگ میلوں کو حاصل کرنے میں اپنا حصّہ ہے لیکن بہرحال اکثر ایسا لگتا ہے جیسے کہ انیسویں صدی کو ہی بس سالماتی پیمانے پر دہرایا جا رہا ہے یعنی کہ جرثومے اور خرد بینی حیات سالماتی حیات سے بدل گئی ہے ، لیکن حیات کے گرد لپٹی ہوئی پراسراریت ویسی ہی موجود ہے ۔


١٩٥٣ء میں اسٹینلے ملر نے ہیرالڈ یوری کی تجربہ گاہ میں کام کرتے ہوئے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ تمام پروٹین کو بنانے والے امینو ایسڈ اور ڈارون کے "چھوٹے گرم تالاب " میں کیمیائی طور پر بن جانے والے پروٹین کے مرکبات کی تالیف ایک ایسے جار میں کی جا سکتی تھی جس میں امونیا ، میتھین ، پانی اور برقی بار موجود ہو ۔ یہ پہلا بہترین قدم تھا ! اسی برس واٹسن اور کرک نے ڈی این اے سالمہ کی ساخت کو حل کر لیا تھا ۔ بحیثیت مجموعی یہ بیسویں صدی کی حیاتیات کا نقطہ عروج تھا لیکن اس وقت بھی حیات کے ماخذ کی جانب ہونے والی تحقیق نہ ہونے کے برابر تھی یعنی کہ کس طرح سے قدیمی حیات اتنے پیچیدہ سالمات کے ساتھ وجود میں آ گئی تھی ؟


اگلا تحفہ من و سلویٰ کی طرح آسمان سے اس وقت نازل ہوا جب ستمبر ١٩٦٩ء میں آسٹریلیا میں ایک شہابیہ گرا ۔ نظام شمسی کے اولین دور میں بنے ہوئے اس ان چھوٹے قدیمی مادّے کے ٹکڑوں کے فوری تجزیئے نے زرخیز نامیاتی سالموں اور ان میں موجود کئی امینو ایسڈ کو ڈھونڈ لیا - یہ ملر اور یوری کے تجربات میں حاصل کئے گئے تالیفی امینو ایسڈ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے ۔ یہاں ہمارے پاس وہ چٹانی مادّہ تھا جس نے کبھی کسی بڑے سیارے یا سیارچے کی صورت اختیار نہیں کی تھی ، بہرصورت یہ اتنا بڑا ٹکڑا تھا جو بس اتنا گرمایا ہو گا کہ اس میں موجود پانی کچھ عرصے کے لئے مائع کی شکل اختیار کر سکے اور اس قدیمی مادّے نے پروٹین کو بنانے والے اجزاء کو خالص کیمیا کے ذریعہ بنایا تھا۔ ٢٠٠٨ء اور ٢٠١٠ء میں ہونے والی تحقیق نے لگ بھگ چودہ ہزار مختلف نامیاتی مرکبات کو ظاہر کیا ہے جس میں دو مرکزے اساس (نیوکلو بیس) بھی شامل ہیں ۔


یہ دریافتیں چاہے جتنی بھی دلچسپ ہوں لیکن یہ اب بھی ہمارے بڑے سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں ۔ زمین پر حیات کا اصل ماخذ اب بھی ویسا ہی پوشیدہ ہے جیسے ہمیشہ سے تھا اور ہم اس سے اب بھی کافی دور ہی ہیں ۔ بہرصورت یہ ایک ایسا تاریخی سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس ماحول کو جاننے کی ضرورت ہے جو زمین کے ارضیاتی نامچہ میں درج نہیں ہے ۔ مزید عمومی سوال - کیمیا سے حیات کے ممکنہ راستے کے بارے میں - عصر حاضر کی سائنس کی پہنچ میں دکھائی دیتے ہیں ۔


فلکیات اور ماورائے شمس سیاروں(Exoplanet) – جو دوسرے ستاروں کے گرد چکر کاٹتے ہیں - کی تلاش مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ پیش کرتی ہے۔ دوسرے ارضی سیاروں (Rocky Planets)کی کھوج ہمیں اس بات کا موقع دیتی ہے ہم حیات کے نمودار ہونے سے پہلے ان سیاروں کے حالات کی جانچ کر سکیں جو ہماری کرہ ارض سے ملتے جلتے ہیں ۔ یہ طریقہ فلکیات کی دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ہم ستاروں کی تحقیق بطور نائب کے کرتے ہیں ، ہم سورج کی حیات کے مرحلے اس جیسے دوسرے ستاروں کا تجزیہ کرکے جانتے ہیں ۔ لہٰذا ایک طرح سے ہم حیات کے ماخذ کے عمومی سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ حیات کیا ہے اور ماحول اس کی صورت گری پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کے لئے ہمیں صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا دوسرے سیاروں پر حیات موجود ہے ؟ کائنات میں ستاروں کی تعداد زمین کی ساحلی ریت کے ذرّوں کی تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔ کم از کم اتنی تعداد میں سیارے موجود ہیں جتنے کہ ستارے ۔ اگر ان میں سے صرف ایک فیصد بھی زمین جیسے ہوئے تو کیا وہاں پر حیات کا پایا جانا ناگزیر نہیں ہوگا؟


فلکیات ہمیشہ سے بڑے اعداد - فلکیاتی اعداد - اور بڑے اعداد کے تجربے کا کھیل رہا ہے۔ اس نے ہمیں سیکھا دیا ہے کہ ناگزیر ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ ہمیں خود سے جانا اور ڈھونڈنا ہوگا۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ زمین جیسے دوسرے سیاروں پر ہم حیات کے نشان پا لیں گے ۔ جب ہم نئی دنیا دریافت کریں گے - ایک ایسا سیارہ جس کو ہم اپنا گھر کہہ سکیں - تو کثیر جہانوں کا سوال ہمارے سامنے اٹھ کھڑا ہوگا اور ہمیں اس بات کا احساس دلائے گا کہ ہماری کائنات میں کیا اہمیت ہے ۔ کوپرنیکن کے انقلاب نے یہ کام پہلے ہی کر دیا ہے جس میں زمین کے بجائے سورج کو ہمارے سیارگان کے نظام کے مرکز میں رکھا گیا تھا ۔ اس تبدیلی نے ہی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی داغ بیل ڈالی ہے ۔آج کے دور میں کی جانے والی دو کوششوں نے ہمیں کوپرنیکن کے انقلاب کی معراج پر بیٹھا کر اس کو مکمل کر دیا ہے ۔ ایک تو نئی دنیا کی دریافت ہے ۔ دوسری تالیفی حیاتیات کا دور ہے ۔ یہ دونوں سنگ میل ہمیں کائنات میں ہماری جگہ اور اہمیت بتانے اس طرح سے جا رہے ہیں جس کا ہم نے کبھی تصوّر بھی نہیں کیا ہوگا۔ کیا آپ ان واقعات کو جاننے کے لئے صف اول میں بیٹھنا چاہتے ہیں؟ تو چلئے ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں ہم اسی طرف جائیں گے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی" از دیمیتر سیسی لوف

باب اوّل


ماورائے شمس سیارے

یہ اکتوبر ١٩٩٥ء کی بات ہے جب میں اطالوی شہر فلورینس میں ایک کانفرنس میں شرکت کر رہا تھا۔ یہ وہی شہر ہے جہاں سترویں صدی کے دوران میڈیچی فلکیات کے مربّی و سرپرست تھے۔ میرا اس کانفرنس میں شرکت کا مقصد اپنے کچھ رفقائے کاروں کے ساتھ کچھ نئی چیزوں کے بارے میں تبادلۂ خیال اور غور و فکر تھا۔ جیسا کہ اکثر اس قسم کی کانفرنسوں میں ہوتا ہے کہ لوگ غیر رسمی گفتگو شروع کر دیتے ہیں ، اسی قسم کی ایک غیر رسمی گفتگو کے دوران ایک نیا اچھوتا خیال میرے گمان کی گہرائیوں سے نکل کر سامنے کھڑا ہو گیا۔


دن کے اختتام پر ، کانفرنس کے شرکاء میں سے کچھ سوئس ماہر فلکیات "مچل میئر" (Michel Mayor) کی دریافت کے بارے میں گفت و شنید کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا ساتھی سیارہ جو لگ بھگ مشتری کے حجم کا تھا؛ ایک ستارے جس کا نام پگاسی ٥١ تھا اس کے گرد دریافت کیا تھا۔ یہ دعویٰ کوئی ایسا بھی حیرت انگیز نہیں تھا۔ ایسے کئی دعوے پچھلی دہائیوں میں کئی آئے اور گزر گئے تھے۔ اصل بات جس نے مجھے حیرت زدہ کیا تھا وہ اس سیارے کا مدار کے گرد وقت تھا جو مچل اور اس کے طالبعلم دیدیر کیو لوز نے امیدوں کے برخلاف برسوں کے بجائے دنوں میں ناپا تھا۔ نیا سیارہ اپنے مورث یا مرکزی ستارے کے گرد صرف ٤٠٠ دنوں میں ایک چکر مکمل کر رہا تھا۔


میں یہ بات سن کر تذبذب کی کیفیت میں تھا۔


یہ بات ٹھیک ہے کہ میں سیاروں کے بجائے ستاروں کا ماہر تھا لیکن مجھے سیاروں کے بارے میں بھی بنیادی چیزیں معلوم تھیں اور اس علم کی بنیاد پر یہ بات مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ میں اپنے کالج کے آخری سال کے وقت سے ہی کانٹ –لا پلاس کے نظام شمسی کے تشکیل کے نمونے کو جانتا تھا۔ اگرچہ آپ ایما نیول کانٹ کو ایک فلسفی کے طور پر جانتے ہوں گے مگر نوجوانی کے دور میں وہ ایک ماہر فلکیات اور آئزک نیوٹن کے رفقائے کاروں میں سے ایک تھا۔ وہ یونیورسٹی آف کوئنگس برگ میں تھا۔ اس یونیورسٹی کا نام تبدیل ہو کر اب کیلن انگارڈ ہو گیا ہے جو بحیرہ بالٹک میں واقع ہے ، اور اس نے نیوٹن کے تازہ بنائے ہوئے علم الا احصاء اور نظری میکانیات کی مدد سے نظام شمسی کا ایک واضح مگر ناقابل بیان خاصیت کو دریافت کیا تھا۔


کانٹ سے پہلے کے تمام ماہرین فلکیات یہ بات درج کر چکے تھے کہ تمام سیارے سورج کے گرد ایک ہی سطح اور ایک ہی سمت میں چکر لگاتے ہیں اور یہ وہی سمت ہے جس میں سورج خود گھوم رہا ہے۔ زیادہ تر سیارے بھی اسی طرح سے گھومتے ہیں۔ کانٹ نے اس کا ایک نفیس حل زحل کے حلقوں کی مماثلت سے پیش کیا تھا۔ سیارے ان ذرّات سے بنے تھے جو سورج کے گرد ایک چپٹی قرص میں گھوم رہے تھے اور بقائے زاویائی معیار حرکت اس کے چپٹے ہونے کی وجہ بیان کرتا ہے۔

(معیار حرکت ، کمیت ، سمتی رفتار اور گھومتے ہوئے جسم کے حجم کا حاصل ضرب ہوتا ہے جواس میں باقی رہ جاتی ہے ، جسم اپنی معیار حرکت کا بچا لیتا ہے۔ اگر اس جسم کا حجم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ جسم تیزی سے گھومنا شروع کر دیتا ہے تاکہ حجم میں کمی کا ازالہ کر سکے۔ گرد و غبار کی کمیت جو کسی نوجوان ستارے کے گرد موجود ہوتی ہے اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے سکڑتی ہے اور ایک چپٹی قرص کی شکل حاصل کر لیتی ہے۔)


[کانٹ کا ناشر دیوالیہ ہو گیا تھا اس وجہ سے اس دور میں اسے اس کھوج کا سہرا نہیں دیا گیا ، یہ حقیقت میرے پرانے استاد چارلس وہائٹنی نے" دی ڈسکوری آف آورگیلیکسی" میں بیان کی ہے ] پیئری سائمن لا پلاس نے ریاضی کے اصول کو کانٹ کے پیش کردہ خیال میں ١٧٩٦ء میں شامل کر دیا۔ کانٹ -لا پلاس کا پیش کردہ خیال ٢٥٠ برسوں کی تنقید ، تبدیلی اور بہتری کے ساتھ اپنے بنیادی ستونوں کو بچانے میں کامیاب رہا ہے۔

1.1 by Zonnee, on Flickr

خاکہ ١.١ : نیا پیدا ہوا ستارہ گھومتی ہوئی گیس و گرد کی قرص جس کے مادّے سے سیاروں نے تشکیل پانا ہے اس میں گھرا ہوا ہے۔ قرص کو ستارہ گرم کر رہا ہے اور وہاں ایک خم فاصلے پر موجود ہے جہاں اس قرص کا درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے نیچے ہے جس کو ہم برفیلے خط سے جانتے ہیں۔ اس خط کےباہر برف کے گالے گرد سے مل کر سیاروں (مثلاً گیسی دیو مشتری ) کی تشکیل میں مدد دے رہے ہیں۔



کچھ اور بھی ایسا تھا جس کے نتیجے میں مچل کی دریافت پر بھروسہ کرنا میرے لئے کافی مشکل تھا۔ کانٹ –لا پلاس کے جدید ورژن کے مطابق زمین کے سورج سے فاصلے کے دو سے تین گنا دور ایک ایسا خم موجود ہوتا ہے جہاں ستارے کے گرد موجود گیس کی قرص کا درجہ حرارت ١٧٠ کیلون یا صفر فارن ہائیٹ سے ١٥٠ ڈگری نیچے تک گر جاتا ہے جس نقطے پر اس کمیاب ماحول میں پانی اور امونیا کے سالمات برف کے ذرّات اور گالوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ دونوں ہلکے مادّے ، ہائیڈروجن کے ساتھ مل کر گرد کے ذرّات سے جڑ کر گیسی دیو ہیکل سیاروں کی شکل اختیار کرنا شروع کر لیتے ہیں جو سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ خود ساختہ برف کے خط کے اندر موجود گرد کے ذرّات ، برف کے دانوں اور گالوں کے بغیر ہی ان سیاروں کی بڑھوتری میں اضافہ کرنے کا سبب بن گئے تھے۔ انہوں نے چھوٹے سیاروں کے ساتھ مل کر کثیف سیارے بنانے شروع کر دیئے تھے۔(ملاحظہ کیجئے خاکہ نمبر ١۔١ )۔ ہمارے نظام شمسی کی تخلیق کی یہ بہت ہی خوبصورت اور سادہ سی توضیح ہے جس میں گیسی دیو سورج سے دور مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں اور اپنے اس سفر کو مکمل کرنے میں برسوں کا وقت لیتے ہیں جبکہ چھوٹے چٹانی سیارے سورج کے اندرونی مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کیوں میں مچل کے دعوے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا۔ کوئی بھی ایسی صورت نہیں تھی جس میں مشتری کے جیسے گیسی دیو سیارے اس برفیلی خط کے اندر تشکیل پا سکیں۔ پگاسی ٥١ جو ہمارے سورج کے جیسا ہی سیارہ تھا اس جیسے کسی سیارے کے اتنے قریب صرف ٤٠٠ دنوں میں مدار میں چکر لگانا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔


اگلی صبح پریس کانفرنس میں مجھے معلوم ہوا کہ میں نے ٤٠٠ دنوں کے بارے میں غلطی کی ہے۔


وہ چار دن تھے !


اصل میں کسی طرح سے میرا دماغ اس ناقابل یقین عدد میں الجھ گیا تھا اور میں نے اس کو سو سے ضرب دے دیا تھا۔ اس کے باوجود مچل اپنے تمام تر ثبوتوں سے اپنے دعوے میں ثابت قدم تھا اور اس نے نئے سیارے کے مدار کا چکر4.2دن بیان کیا !


میری پہلے سے قائم کی ہوئی رائے ایسے ہوا میں تحلیل ہوئی جیسے کہ برف کے ذرّات اور گالے سورج میں گر جانے کے بعد تحلیل ہوں۔ یہ ایک طاقتور اور منکسر المزاج بنانے والا سبق تھا جو میں نے حاصل کیا تھا۔


پگاسی ٥١ ب کی طرح دوسرے اور سیاروں کی دریافت کی بھی خبریں آنی شروع ہو گئی تھیں۔ مچل کی پہلی کھوج کے کچھ ہی مہینوں بعد کیلی فورنیا میں موجود جیفری مارسی اور پال بٹلر اس قسم کے پہلے ہی سے موجود ایک منصوبے اور فنی مہارت کی مدد سے کئی دلچسپ ماورائے شمس نظام ہائے سیارگان میں دریافت کر چکے تھے جس کے نتیجے میں وہ شکوک و شبہات کافی کم ہو گئے تھے جس میں سیارہ ٥١ پگاسی ب اپنے مرکزی ستارے کی غیر معمولی خاصیت سمجھا جاتا۔ یہ بھی ایک آسان سی بات تھی کہ ماضی میں جا کر پہلے سے موجود ایک کھوج کو HD 114762 ستارے کا ممکنہ سیارہ مان لیا جائے جس کو میرے ایک رفیق اور ممتاز سیارہ کھوجی ڈیوڈ لاتہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ١٩٨٩ء میں تلاش کیا تھا۔ اس بات اندازہ لگانا بھی ممکن تھا کہ آیا کیوں وہ کینیڈا کی یونیورسٹی آف وکٹوریا کے گورڈن واکر کی سربراہی میں اس تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ایک بھی ماورائے شمس سیارے کو ڈھونڈھنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ انہوں نے ایک انتہائی منظم طریقے سے ١٩٨٦ء سے لے کر ١٩٩٥ء تک سیاروں کی تلاش کی تھی مگر ان کا ہدف وہ سیارے تھے جن کے مدار کا وقت دس برس یا اس سے بھی زیادہ لمبا ہوتا اور اسی بات نے ان کے ستاروں کی تعداد کو محدود کر دیا تھا۔ وہ قسمت کے ہاتھوں مجبور تھے اور اس طرح سے یہ تلاش خالی ہی ثابت ہوئی۔

دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیارے جن کو اب ہم ماورائے شمس سیارے کہتے ہیں ، ان کی دریافت شدہ تعداد یہ کتاب لکھنے کے وقت تک ٦٠٠ کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ یہ تمام کے تمام ہماری کہکشاں ملکی وے میں ہی پائے گئے ہیں ، اس میں زیادہ تر ہم سے کافی نزدیک صرف ٥٠٠ نوری برس کے فاصلے پر واقع ہیں اگرچہ کافی تعداد میں سیارے پانچ ہزار نوری برس کے فاصلے پر بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ٦٠ سے زیادہ سیارے پگاسی ٥١ ب جیسے ہی ہیں جن کو اکثر تپتے ہوئے مشتری کہا جاتا ہے۔ دریافت شدہ ماورائے ارض سیاروں کی یہ تعداد اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ سیارے تلاش کرنا ایک آسان سی بات ہے۔ یہ سیارے جو شروعات میں خلاف قاعدہ لگ رہے تھے ( کیسے یہ اپنے مورث ستارے کے نزدیک اتنی گرمی میں تخلیق ہو سکتے ہیں ؟) انہوں نے اپنی وجود کی توضیح پیش کردی تھی جس کے نتیجے میں کانٹ – لا پلاس کے نمونے کو رد کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ تپتے ہوئے مشتریوں نے ہماری آنکھیں سیاروں کی ہجرت کے مظہر کے بارے میں کھول دیں ، یہ ہجرت نئے تشکیل پائے ہوئے سیارے کے مدار میں اس کے گرد و گیس کے قرص کے تعامل کے نتیجے میں سست رفتار تبدیلی کا نتیجہ تھی۔ مدار میں چکر لگاتے ہوئے سیارے کی قرص میں بڑھتی کثافتی موجوں کے ساتھ اس کا مدار اندرونی یا بیرونی طرف مرغولے کھاتا ہوا بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر موقعوں میں نتیجہ اندرونی تبدیلی کی طرف تپتے ہوئے مشتریوں کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
1.2 by Zonnee, on Flickr
  • · پہلے تپتے ہوئے مشتری کا مدار جس کا نام پگاسی ٥١ ب ہے۔ دونوں مداروں کو ایک ہی پیمانے پر دکھایا گیا ہے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ نو کروڑ تیس لاکھ میل ہے ، جبکہ پگاسی ٥١ کا فاصلہ پگاسی ٥١ ب سے صرف پچاس لاکھ میل تک ہی ہے۔

اس خوبصورت پرانے میڈ یچی کے شہر نے اپنے آپ میں غرق کرنے میں میرا کچھ وقت لے لیا تھا اس کے باوجود میں ان سوالات کے جوابات کی کھوج میں گہری سوچ میں غلطاں تھا ۔ان سوالات کو میں کچھ دن پہلے تک میں انتہائی ہلکا ہی لیتا تھا۔


تیرا سال بعد میں اور مچل اسی کانفرنس میں ملے۔ اس دفعہ مچل نے ان چھوٹے زمین جیسے سیاروں کو بیان کیا جو اس نے دریافت کئے تھے۔ میں نے کمپیوٹر کے کچھ حساب کتاب کی مدد سے اس امکان کو ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ عجیب دنیائیں زمین جیسی ہی ہوں۔ یہ چھوٹے سیارے کافی تعداد میں اور ہماری امید سے بھی زیادہ انتہائی متنوع فیہ اقسام کے تھے۔ کچھ تو اتنے گرم تھے کہ وہاں پر لوہے کی برسات ہو رہی تھی ، ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے ان کے کرۂ فضائی میں ہوائیں چل رہی تھیں ، دو ستاروں والے سیاروی نظام بھی تھے ، ایک ایسا سیارہ بھی تھا جو درحقیقت اپنے مورث ستارے کی ہر تین مہینے کے بعد ایک مہین سی پرت اتار لیتا تھا اور اسی طرح کے مزید کچھ عجیب برتاؤ والے سیارے تھے۔


آج ہم ایک ایسے جہاں کی سرحد پر کھڑے ہیں جس کو ہم اپنا گھر کہہ سکیں ، وہ سیارے جن کو شاید کوئی اور ہم سے پہلے ہی اپنا گھر کہہ چکے ہوں۔ ان کی تلاش نے ایک نئی خلائی دوڑ شروع کردی ہے۔ ایک ایسی دوڑ جس میں کرۂ ارض کا جڑواں سیارہ دریافت کیا جا سکے۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی کوششیں اور جوش عجیب اور بلا جواز لگے۔ یہاں تک کہ سائنس دانوں کے مطابق زمین کے جیسے جڑواں سیارے کی تلاش کا کوئی فوری فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ زمین جیسے سیارے کی خاصیت کا تجزیہ کرنے کے لئے ان کو بڑے سیاروں پر انحصار کرنا ہوگا جن کی تلاش کافی آسان ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہر شخص اس بات کو مانتا ہے کہ ایسی کوئی بھی دریافت ایک تاریخی لمحہ ہوگی۔


اس دوڑ میں غیر معمولی جوش و جذبات انسانی چاہت کی منشاء اور یکجہتی کے عکاس ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے پرانے دور کا سوال "دوسروں " کے بارے میں ہے مگر یہ سوال کافی بڑے پیمانے پر ہے۔


دوسروں کے بارے میں سوال یہ ہے کہ ایک شعوری انسان کس طرح سے اپنی شناخت کا ادرک کرتا ہے : میں کون ہوں اور میں کس طرح سے دوسرے سے تعلق رکھتا ہوں ؟ یہ سوال اوّلین اور پہلی بحث میں ہی پیدا ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ ایسے مباحثوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہومو سیپین کا ٹکراؤ ہومو نیندرتھل سے آج کے یورپ کے کسی حصّے میں ہوا تھا ، مایا ؤں کا ٹکراؤ ہسپانوی فاتح سے وسطی امریکہ میں ہوا تھا اور اسی طرح کے دوسرے ٹکراؤ۔ ہمارے سیارے پر پہلے ٹکراؤ کا وقت گزر چکا ہے۔ یہ بات چاہئے اچھی ہو یا بری ہو ، ہم انسان آپس میں ایک دوسرے کو جان گئے ہیں۔ بنی نوع انسان کی موجودہ نسل ایک عالمگیری واقفیت ، ایک معاشرتی جڑاؤ کا احساس اور مشترکہ موروثیت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام نے اس طرح کے کئی دروازے وا کر دئیے ہیں۔


دور دراز ستاروں کے گرد چکر لگانے والے ان جہانوں کی دریافت نے پہلے ٹکراؤ کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے ہمیں تازہ موقع فراہم کیا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ انسان بے صبر تجسس اور خوف کی حالت میں زبردست جذبات کے ساتھ ایسے ٹکراؤ سے نمٹتا آیا ہے۔ جیسا کے ماضی میں – حیرت انگیز طور پر ہماری تمام جدید تیکنیکی صلاحیتیں اور اسٹار ٹریک سے حاصل کردہ مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت کے باوجود - نئے جہانوں کو ہم نے ابھی دریافت کرنا شروع کیا ہے یہ نئے جہاں مکمل طور پر اسراریت اور حیرت سے بھرپور ہیں۔ اور ہم کبھی بھی ان کی تلاش نہیں روکیں گے جیسا کہ ٹی ایس ایلیوٹ نے مشہور زمانہ فقرہ لکھا ہے " ہمیں کبھی بھی کھوج کو ختم نہیں کرنا چاہئے۔ ہماری تمام جستجو اسی جگہ پہنچے گی جہاں سے ہم نے شروعات کی تھی اور ہم پہلی دفعہ اس جگہ کے بارے میں جانیں گے۔"

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی" از دیمیتر سیسی لوف

باب دوم - حصّہ اوّل

سیاروں کی دنیا

نوے کی دہائی کے وسط میں ، سیاروں کی دنیا بہت ہی چھوٹی اور صرف نظام شمسی کے نو سیاروں پر مشتمل تھی ؛ پلوٹو کی سیاروی حیثیت کو ابھی تک کسی نے نہیں للکارا تھا ۔ اس چھوٹی سی دنیا کے باوجود یہ سیارے جس قسم کے متنوع فیہ قسم کے ماحول رکھتے تھے اس کا ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ خلائی جہازوں کے بیڑوں پر نصب کیمرے نظام شمسی کی کھوج کرتے ہوئے ہم پر اجنبی دنیائیں آشکار کر تے ہوئے ہمیں سیارہ شناسی سکھا رہے تھے۔ حیات کی تو بات ہی چھوڑ دیں ، ہم تو کائناتی پیمانے پربھی اس وقت سیاروں کی اہمیت ہی سے آگاہ نہیں تھے۔ دور حاضر میں پہلی دفعہ سائنس دان سیاروں اور حیات کو کائنات اور اس کی تاریخ کا لازم و ملزوم حصّہ سمجھ کر دیکھ رہے ہیں ۔ اس کھوج میں ہم سے جو کچھ بن پڑ رہا ہے وہ ہم کر رہے ہیں ۔

ہمارے نظام شمسی میں سیارے دو قسم کے گروہ کو بناتے ہیں - گیسی دیو اور ارضیاتی سیارے ۔ مشتری اپنے نام اور جسمانی ساخت کے بل بوتے پر تمام سیاروں پر حکمرانی کر رہا ہے ۔ قدیمی لوگوں نے نہ جانے اس بات کو کیسے سمجھا تھا یہ اب تک ایک راز ہی ہے، کیونکہ سائنس دانوں کو اس کی کمیت اور حجم کی تصدیق کرنے میں لگ بھگ ڈھائی ہزار برس کا عرصہ لگ گیا تھا ۔ چار سو برس پہلے پڈووا (Padua)میں گلیلیو گلیلی نے پہلی دفعہ اپنے غیر معمولی بصری آلے یعنی کہ دوربین کا استعمال کرتے ہوئے مشتری کی طرف دیکھا تھا ۔ گلیلیو نے کونے نکلے ہوئے ستارے کے بجائے ایک سیارہ دیکھا تھا جس کے گرد چار چاند گردش کر رہے تھے ۔ اس نے انہیں میڈیچین(Medicean) ستارے کا نام دیا۔ یہ نام اس نے اپنے فلورینٹین کے مربی میڈیچی کے نام پر دیا تھا۔ اس وقت تک ستاروں اور سیاروں کے درمیان فرق واضح نہیں تھا ۔ اب ہم ان کو مشتری کےگلیلائی مہتابوں کے نام سے جانتے ہیں ؛ ان مہتابوں کے مداروں نے ہمیں سیاروں کے جاذبی کھنچاؤ اور ان کی کمیت کو ناپنے میں مدد کی ہے ۔(یہاں میں نے لفظ کمیت کا استعمال کیا ہے ۔ کسی بھی جسم کی کمیت اس میں موجود مواد (ایٹموں یا مادّے ) سے ناپی جاتی ہے ۔کمیت اور قوّت ثقل ایک دوسرے سے متصل ہیں :قوّت ثقل کی طاقت کا انحصار کمیت پر ہوتا ہے - زیادہ ضخیم جسم قوی قوّت (یا کھنچاؤ )پیدا کرتا ہے ۔ عام بول چل میں ہم اکثر وزن یا بھاری کے الفاظ کمیت یا ضخامت کے لئے استعمال کر لیتے ہیں ۔ یہ درست نہیں ہے اور اس کے استعمال سے پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے ، لہٰذا میں کمیت یا ضخامت کے لفظوں کا ہی استعمال کروں گا ۔ ) یہ ناپ تول آئزک نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون کی جیت تھی جو ان نسل کے سائنس دانوں کے لئے رہنما تھی جنہوں نے گلیلیو کی پیروی کی تھی۔ اسی نے نوجوان ایما نیول کانٹ(Immanuel Kant) کو سیاروں کی تشکیل کے عمل کو سلجھانے میں مدد کی تھی۔ اس کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوا کہ مشتری کی کمیت تین سو زمینوں یا تمام سیاروں کی کل کمیت سے بھی دو گنی ہے ۔ مشتری واقعی میں ایک دیوہیکل سیارہ ہے اس کے مد مقابل صرف دور دراز واقع حلقوں والا سیارہ زحل ہے ۔

مشتری ایک گیسی دیو ہے یہ بات ہم اس کی اوسط کثافت کی بدولت جانتے ہیں ۔ اس کا نصف قطر زمین سے دس گنا زیادہ ہے جس کی وجہ سے مشتری کا حجم ایک ہزار گنا زیادہ بڑا ہے ۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مشتری کی کمیت زمین سے صرف تین سو گنا زیادہ ہے ، اندازہ لگایا گیا کہ یہ لازمی طور پر ایسے مادّے سے بنا ہوگا جو ہماری چٹانی زمین سے ہلکے ہوں گے ۔ درحقیقت مشتری اور زحل زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہیں جو کائنات میں سب سے وافر مقدار میں موجود ہیں اور یہ سب سے ہلکے عنصر بھی ہیں ۔ یہ کافی حد تک سورج اور ستاروں جیسے مادّے سے بنے ہیں ۔(خاکہ نمبر2.1 )۔
2.1 by Zonnee, on Flickr

ہمارے نظام سیارگان کے سب سے بڑے سیارے ایک اور طرح سے سورج سے مماثلت رکھتے ہیں - ان کی کوئی ٹھوس سطح یا جغرافیہ نہیں ہے۔ ہمیں آنکھوں سے دکھنے والے کرۂ فضائی سے نیچے اترتے ہوئے صرف بادل اور بادل ہی ہیں جو گہرائی میں جاتے ہوئے کثیف اور گرم تر ہوتے جاتے ہیں ۔ مشتری کے اندرون میں اکثر ہائیڈروجن اور ہیلیئم اس فضائی دباؤ کو زمین کے مقابلے میں دس لاکھ گنا زیادہ طور برداشت کرتے ہیں ۔ اس قدر زبردست دباؤ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جتنا بڑا سیارہ ہوگا اس کی کھینچنے کی طاقت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ میرا وزن مشتری پر2.4 گنا زیادہ ہوگا ۔ اگر ہم سیارے کی گہرائی میں جانے کا جوکھم اس طرح اٹھائیں جس طرح سے سمندر میں ڈبکی مارتے ہیں تو دباؤ بھی بڑھ جائے گا۔ اس بات میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہئے کہ مشتری کے اندر چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں گی ۔یہاں ہائیڈروجن گیس دھاتی مائع میں بدل جاتی ہے ۔یہ برق کی موصل ہے اسی لئے ہم اسے دھاتی مائع ہائیڈروجن کہتے ہیں؛ ورنہ تو اس مادّے کی شباہت آپ کے بغل میں رکھے چراغ کے تانبے کی تاروں جیسی بالکل بھی نہیں ہے۔ اس طرح کے کسی بھی اجنبی مادّے کی خصوصیات کو تجربہ گاہ میں جانچنا ایک بڑا مسئلہ بنا رہتا ہے ۔ زمین پر اس کو آج سے دس سال پہلے بنا لیا گیا تھا ۔کمپیوٹر سے لگائے گئے تخمینا جات کی مدد سے آج ہم مشتری اور زحل کے اندرون میں پائے جانے والے مادّے کی خصوصیات کو اعتماد کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کافی حد تک جان چکے ہیں نتیجتاً ہم تپتے ہوئے مشتریوں مثلاً پگاسی ٥١ ب جیسے سیاروں کے اندرون کو بھی بیان کر سکتے ہیں ۔

مشتری اور زحل دونوں کا قلب چھوٹا ہے ( چھوٹا ان کی کے حجم کی مناسبت سے ہے ، ورنہ زمین کے لحاظ سے وہ بہت بڑا ہے ) جو ایسے عناصر سے بنا ہوا ہے جو ہائیڈروجن ، ہیلیئم اور نیون سے بھاری ہیں۔ کسی بھی سیارے کا قلب اس کی پیدائش اور شروع کے برسوں کے بعد بچ جانے والے مادّے سے ہی بنتا ہے ۔ سیاروں کی بہ نسبت ستارے بغیر کسی قلب کے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے بغیر بھی ایک لمبے عرصے تک جی سکتے ہیں ۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ستاروں میں بھی قلب بننا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ہلکے عنصر بھاری عناصر میں ڈھلتے ہوئے اس کے قلب میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر ، زحل کا قلب جو زمین کی کمیت کا پندرہ گنا ہے وہ مشتری کے قلب سے تین سے دس زمینی کمیت کے برابر بڑا ہو سکتا ہے۔ کم از کم ہمارا اندازہ تو یہی ہے۔ مشتری اتنا بڑا ہے اور اس میں اتنی زیادہ دھاتی ہائیڈروجن ہے جو اس کے قلب کے بارے میں اندازہ لگانے میں مشکل کا سبب بنتی ہے۔ اگر اس کا قلب زحل سے چھوٹا ہوا تو وہ پیدائشی چھوٹا ہوگا یا پھر وہ وقت کے ساتھ بتدریج چھوٹا ہوتے ہوئے اوپری پرتوں کے ساتھ گھل مل گیا ہوگا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مشتری اور زحل دونوں میں بھاری عناصر کی تعداد سورج میں موجود بھاری عناصر کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ سیاروں کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی" از دیمیتر سیسی لوف

باب دوم - حصّہ دوم (آخری حصّہ)

سیاروں کی دنیا

یورینس اور نیپچون کی کہانی مختلف ہے ۔ سورج کی طرح مشتری اور زحل دونوں زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہیں ، یورینس اور نیپچون کی کل کمیت میں صرف دس فیصد ہی ہائیڈروجن اور ہیلیئم ہے ،دونوں کی باقی مانندہ کمیت میں بہت زیادہ آکسیجن ، کاربن اور نائٹروجن ؛ منجمد پانی ، امونیا اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی صورت میں موجود ہے ۔ اگرچہ یہ دونوں دس سے بیس فیصد مشتری اور زحل سے کم ضخیم ہیں اس کے باوجود وہ زمین کے مقابلے میں دیوہیکل سیارے ہیں اسی وجہ سے وہ برفیلی دیو کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ پلوٹو بھی کافی حد تک یورینس اور نیپچون جیسا ہی ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بہت ہی چھوٹا ہے ۔

سورج سے کافی نزدیک ارضیاتی سیاروں کا علاقہ ہے جہاں زمین (نیز خاک ) اپنے حجم اور کمیت کی بدولت عطارد ، زہرہ اور مریخ پر حکمرانی کر رہی ہے ۔ یہاں پر ہائیڈروجن- کل کمیت کا صرف 0.1فیصد- یعنی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ ہیلیئم تو مجازی طور پر ہے ہی نہیں ۔ ارضیاتی سیاروں پر زیادہ تر آکسیجن ، لوہا اور سلیکان موجود ہے ، عطارد پر اگرچہ لوہے کا غلبہ ہے ۔ زیادہ تر لوہا سیاروں کے قلب میں موجود ہے ۔ سیاروں کی تشکیل کے دور میں لوہا (اور چند دوسری دھاتیں جیسا کہ نکل جو چٹانوں کا حصّہ نہیں بن سکتے تھے ) بڑے قطروں کی صورت میں سیارے کے قلب میں ٹپک گئے تھے ۔ ان کے برخلاف پانی کچھ تو چٹانوں میں پھنس گیا تھا جبکہ زیادہ تر غرق ہونے کے بجائے سطح پر ہی موجود رہا تھا ۔ اگر درجہ حرارت اور ماحولیاتی دباؤ درست ہو تو ارضیاتی سیاروں پر مائع پانی کے سمندر موجود ہوں گے۔

ان مختلف نظر آنے والے سیاروں کے گروہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایک ہی ذخیرے سے وجود میں آئے ہیں ۔ جدید کانٹ – لاپلاس (Kant-Laplace) کا نمونہ ہمیں یہ بات سکھاتا ہے کہ سیارے ستارے کے پیدا ہونے کے بعد بچ جانے والے مادّے سے بنتے ہیں نتیجتاً ان میں بھاری اور ہلکے عناصر اسی مقدار میں موجود ہونے چاہئیں۔ ہبل خلائی دوربین اور زیریں سرخ اشعاع والی اسپٹزر خلائی دوربین سے حاصل ہونے والی تصاویر اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ سیاروں کی تشکیل کرنے والی قرص صرف اپنے ستارے کی بہ نسبت ایک فیصد ہی زیادہ ضخیم ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری تمام عناصر کی کمیت اس قرص کی صرف دو فیصد سے بھی کم ہے ۔ لہٰذا چھوٹے سیاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کیوں نہیں ہوتی ؟ ان کی کمیت کی وجہ سے ۔ ان دونوں ہلکی گیسوں کو پکڑے رہنے کے لئے بہت بڑے سیاروی بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے سیارے جیسا کہ زمین اور پلوٹو ان کو پکڑ کر نہیں رکھ سکتے اور درمیانی کمیت کے برفیلے دیو قرص سے اتنی دور پیدا ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی نشوونما میں کافی وقت لگتا ہے۔ جب تک جب وہ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو پکڑ میں رکھ سکیں اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلیئم منتشر ہو چکی ہوتی ہیں ۔

اب ہم اپنے سیاروں سے حاصل کردہ معلومات کو بنیاد بنا کر دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے دریافت شدہ سیاروں پراس کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ان سیاروں کے درمیان ہم مشتری اور زحل کو دیکھ چکے ہیں، چھوٹے اور بڑے قلب والے سیاروں کو بھی دیکھ لیا ہے ، جبکہ ہم نیپچون کو بھی جان چکے ہیں ۔ اور ہم نے سیاروں کی دنیا میں جتنی تنوع دیکھی ہے اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تھے ۔ جس طرح سے ہم اپنی دریافت کرنے والی ٹیکنالوجی کو ترقی دے رہے ہیں اور چھوٹے سیاروں کا مطالعہ اور مشاہدہ کر رہے ہیں ویسے ہمارے سامنے اور مزید حیرت کدے انتظار میں پلکیں بجھائے بیٹھے ہیں ۔

کائنات میں موجود اجسام اور ساختوں کے درجات میں سیارے اس سلسلے میں نچلی سطح پر پائے جاتے ہیں جس کی شروعات کہکشاؤں کے جھرمٹ سے ہوتی ہوئی کہکشاؤں اور ستاروں کے درمیان چلتی ہے ۔ یہ تمام ساختیں قوّت ثقل کی کھینچ کے زیر اثر اکٹھی اور ارتقاء پذیر ہوتی ہیں اور ان کا وزن ہی ان کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے ۔ ماسوائے سیاروں کے ان تمام ساختوں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا غلبہ ہے۔ لہٰذا سیاروں نے اس یکسانیت کو توڑتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ وہ قوّت ثقل کے زیر اثر بننے والی دوسری تمام چیزوں سے کچھ بڑھ کر ہیں : وہ ان تمام عناصر سے پر ہیں جس کی بنیادی کیمیا کو ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک ایسے سیارے کا تصوّر کریں جو زمین سے تو بڑا اور ضخیم ہو تاہم یورینس سے چھوٹا ہو ۔ کیا ایسے کسی سیارے پر گہرے سمندر اس کو پانی کا جہاں بنا رہے ہوں گے یا پھر وہ ایک خشک سیارہ ہوگا جس کے جسیم آتش فشاں اپنے دھوئیں کو اس کی مہین فضاء میں اڑا رہے ہوں گے ؟ اسی چیز کی ہم تلاش کریں گے ۔ سب سے پہلے تو ہمیں خود انہیں ڈھونڈنا ہے ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی" از دیمیتر سیسی لوف

باب سوم - حصّہ اوّل


کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل


١٥٤٣ء میں نکولس کوپرنیکس (Nicolaus Copernicus)نے کچھ ایسی چیزوں کی بنیاد ڈالی جس نے سائنس ، ٹیکنالوجی اور انسانی سماج پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس کی بصیرت نے کائنات کی بناوٹ کو انتہائی سادہ کر دیا تھا جس میں نظام ہائے سیارگان میں زمین کے بجائے سورج کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ اس کی یہی بصیرت آنے والے سائنس دانوں کی دو نسلوں(خاص طور پر گلیلیو اور نیوٹن ) کے لئے مشعل راہ بننی تھی اور اسی نے آگے چل کر جدید طبیعیات کی بنیاد ڈالنی تھی ۔ کوپرنیکن انقلاب سیدھا اس سوال کے قلب میں جا کر اترتا تھا جس میں کائنات میں بنی نوع انسان کی حیثیت کے بارے سوال کیا گیا تھا ۔کافی سارے مفکرین خاص طور پر مشہور ڈچ طبیعیات دان کرسچن ہائیگنز (١٦٢٩ء – ١٦٩٥ء ) [Christiaan Huygens]نے کوپرنیکن کے زمین کے بطور ایک سیارے کے تصوّر سے آگے چھلانگ لگاتے ہوئے دوسرے سیاروں پر زندگی کے امکانات کا خدشہ ظاہر کیا ۔١٦٨٦ء میں برنارڈ ڈی فونٹنیلی (Bernard de Fontenelle)نے ماورائے ارض حیات کے خیال کو کثیر جہانوں کی بحث میں کافی مقبول بنا دیا تھا۔ یہ تمام کام تین صدیوں بعد کہانیوں اور فلموں کی شکل میں جیسا کہ اسٹار وارز اور اسٹار ٹریک میں جا کر منتج ہوا ۔

امیدوں کے برخلاف دوسرے سیاروں کی موجودگی کے ان خیالات نے ساڑھے چار صدیوں تک حقیقت کا روپ نہیں دھارا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قریبی ستارے بھی ہم سے بہت ، بہت دور واقع ہیں ؛ ان ستاروں کے گرد چکر کاٹتے چھوٹے سیاروں کی تمیز کرنے کے لئے چار صدیوں پر محیط ٹیکنالوجی میں ترقی و جدت درکار تھی ۔ آخر کار اب ہم کوپرنیکن کے انقلاب کو مکمل کرنے کے دوراہے پر پہنچ ہی گئے ہیں جس میں ہم زمین جیسے سیاروں اور دوسرے نظام ہائے شمسی کی دریافت کر سکیں۔

ماورائے شمس سیاروں کو ڈھونڈنے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کا زبردست فاصلہ اور اس حقیقت کا سامنا ہے کہ وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے اور روشن ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۔ کم از کم بصری روشنی میں کوئی بھی ستارہ اپنے سیارے سے ایک ارب سے لے کر دس ارب گنا زیادہ تک روشن ہو سکتا ہے۔ یہ تناسب بہت ہی زیادہ بڑا ہے ۔ فاصلے کی وجہ سے کیونکہ شاہد بہت دور ہوتا ہے لہٰذا دوربین سے دیکھنے پر ستارہ اور سیارہ آپس میں بہت زیادہ نزدیک نظر آتے ہیں اس لئے مصیبت اور بڑھ جاتی ہے ۔ ستارے اور سیارے کی قربت اور دونوں کا بلند تقابلی فرق کا تناسب اگر علیحدہ علیحدہ لیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ناقابل شناخت ہوتے ہیں ۔

پچھلے بیس برسوں میں استعمال ہونے والی دوربینیں بشمول ہبل خلائی دوربین میں اس بات کی صلاحیت و قابلیت موجود ہے کہ وہ قریبی روشن ستارے سے دس ارب گنا دھندلے اجسام کی روشنی کو جمع کر سکتی ہیں ۔ یہ بعینہ ایسے ہی کام کرتا ہے جیسے فوٹوگرافر شام کے دھندلکے میں کیمرے کے شٹر کو دیر تک اٹھا کر رکھتا ہے ۔ زیادہ دیر تک شٹر کھلا رکھنے سے کیمرے کے اندر موجود سراغ رساں کو روشنی کو زیادہ جمع کرنے کا موقع ملتا ہے جس کے نتیجے میں دھندلے اجسام کی تصویر حاصل ہو جاتی ہے ۔ ہبل ڈیپ فیلڈ سے حاصل کردہ شہرہ آفاق تصویر کو حاصل کرنے میں تینتیس گھنٹے لگے تھے جس کے دوران اس نے بصری روشنی کو جمع کرکے ہزار ہا دور دراز کی کہکشاؤں کی تصویر حاصل کرکے ان کو ہم پر منکشف کیا تھا۔

آج جانے والے کئی ماورائے شمس سیاروں کا سراغ بھی اسی طرح کے لمبے عرصے تک لی جانے والی تصاویر کے نتیجے میں لگا تھا بس اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تصویر کے بیچ میں ستارہ بہت ہی روشن دھبہ لگ جاتا ہے ۔ فوٹوگرافر کی زبان میں ستارہ زیادہ ایکسپوز ہو جاتا ہے اور اس کی روشنی پوری تصویر پر پھیل جاتی ہے ۔ حقیقت میں یہ سراغ رساں آلے کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے ۔ نجمی منتشر روشنی میں کہیں سیارے کی مدھم سی روشنی بھی کھوئی ہوئی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی عام ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیارے کو ڈھونڈھنا اتنا بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے کچھ حل بھی پیش کئے گئے ہیں ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ستارے اور اس کے سیارے کا مشاہدہ الگ قسم کی روشنی کے طیف میں کیا جائے ۔ ستارے کی سیارے کی بصری روشنی کے مقابلے میں نسبت ایک ارب کے مقابلے میں ایک یا دس ارب کے مقابلے میں ایک ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ روشنی مختلف رنگوں اور مختلف طول امواج کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ ان موجوں کو جب طول موج کے مطابق پھیلایا جاتا ہے (مثال کے طور پر جیسا کہ منشور ( پرزم) میں کیا جاتا ہے ) تو روشنی ہمیں طیف پر مشتمل نظر آتی ہے ، بعینہ جیسے پانی کی بوند سورج کی روشنی کو قوس و قزح میں توڑ دیتی ہے ۔ نتیجتاً پرزم کا استعمال کرتے ہوئے ستارے اور سیارے سے آنے والی طول موج کا استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں ستارے اور سیارے کی روشنی میں اتنا زیادہ نسبتی فرق نہیں ہوگا اور یہ بات ہمارے لئے سیارے کا سراغ لگانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔

کچھ موقعوں پر یہ کام کر جاتی ہے ۔ بہت زیادہ گرم سیارے جیسا کہ پگاسی ٥١ ب ہے ، اس ضمن میں جب اسے زیریں سرخ اشعاع میں دیکھا جاتا ہے تو ستارے اور سیارے کی نسبت ایک ہزار گنا تک بہتر ہو جاتی ہے(اور فرق صرف دس لاکھ گنا تک رہ جاتا ہے)۔ زیریں سرخ اشعاع طویل اور طویل تر طول موج ہوتی ہیں اس کے بعد ہماری آنکھیں سرخ روشنی دیکھتی ہیں ، جبکہ ہماری جلد اس کو حرارت کی صورت میں محسوس کرتی ہے۔ ایک گرم سیارہ ، زیریں سرخ اشعاع میں اپنے ستارے کے سامنے ہونے کے باوجود ہمیں اس بات کا بہتر موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس کا مشاہدہ کر سکیں کیونکہ وہ اپنی گرمی سے بھی چمکتا ہے ۔ تپتے ہوئے مشتری(Hot Jupiter) کا درجہ حرارت پندرہ سو سے دو ہزار کیلون ہو سکتا ہے جو زمین کے٢٨٧ کیلون کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تاہم اس درجہ حرارت کا مقابلہ سورج کے درجہ حرارت ٥٨٠٠ کیلون سے کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر 107 کی نسبت اب بھی بہت زیادہ ہے ۔ حالیہ دنوں میں زیریں سرخ اشعاع میں کئی پہلے سے دریافت شدہ سیاروں کا مشاہدہ کرنے سے کچھ مخصوص حالتوں میں کامیابی تو حاصل ہوئی ہے تاہم ان سے کسی قسم کی تصاویر حاصل نہیں ہو سکیں اور یہ طریقہ اب بھی نئے سیاروں کی دریافت کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی" از دیمیتر سیسی لوف

باب سوم - حصّہ دوم

کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل


دوسری وہ کونسی ستارے اور سیاروں کے درمیان موجود نسبتیں ہیں جن کا ہم استعمال کر سکتے ہیں ؟ پہلی چیز تو کمیت اور حجم ہے ، دونوں کی ستارے اور سیارے کی نسبت روشنی کی نسبت سے کافی سود مند ہے ۔ مثال کے طور پر سورج ، مشتری سے ١٠٥٠ گنا زیادہ ضخیم ہے ، ان دونوں کا ستارے اور سیارے کے حجم کی نسبت 10^3ہے ۔ یہ 10^7 کی گنا تھوڑی بہتر ہے ۔ حجم کے ساتھ چیزیں اور بہتر ہو جاتی ہیں ۔ سورج ، مشتری کے حجم سے صرف دس گنا زیادہ ہے (اور زمین کے حجم سے صرف ١٠٣ گنا زیادہ ہے)! یہ نظری طور پر تو سننے میں کافی اچھا لگتا ہے ، تاہم اس کا عملی دنیا میں کس طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

چلیں ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کو دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ اب تک استعمال ہونے والا سب سے مقبول و کامیاب طریقہ ہے ۔ کسی بھی جسم کی کمیت اس کی قوّت ثقل کی قوّت کا تعین کرتی ہے ۔ جو جسم جتنا زیادہ ضخیم ہوگا اس کی اتنی زیادہ مضبوط قوّت (یا کھینچنے کی طاقت )ہوگی ۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ مشتری سورج کے گرد ابد تک چکر لگاتار ہے گا ۔ لیکن ذرا رکیے ! کیا مشتری سورج کے گرد کسی گمنام غلام کی طرح چکر کاٹ رہا ہے یا سورج اور مشتری ملکی وے کہکشاں میں ڈگمگاتے اپنے مقررہ راستے پر رواں دواں ہیں؟

وہ سنگ میں رقص کرتے ہوئے اپنے راستے پر رواں دواں ہیں ! ہر طاقت کے لئے ایک برابر کی مخالف طاقت موجود ہوتی ہے ، لہٰذا سورج اور مشتری ایک دوسرے کو مرکز کمیت(Center of Mass) کے گرد سہارا دیئے ہوئے ہیں ۔ مرکز کمیت ایک ایسا مجازی نقطہ ہے جو اس خط پر موجود ہے جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر رکھتا ہے ۔ وہ دونوں اپنے مرکز کمیت کے گرد ایک محو رقص جوڑے کی طرح چکر لگاتے ہیں۔ سورج ہزار ہا گنا زیادہ ضخیم ہونے کے باوجود ، اپنا مرکز کمیت اپنے آپ سے کافی قریب تو رکھتا ہے ، اس کے باوجود وہ مرکزی کمیت سورج کے اندر موجود نہیں ہے ۔سورج اور مشتری کا مرکز کمیت سورج کے نصف قطر کا لگ بھگ ٧ فیصد ہے جو سورج کی سطح سے اوپر واقع ہے ۔ دور دراز کے ستارے پر موجود ایک لا پرواہ شاہد کے لئے یہ بات ناقابل شناخت ہو سکتی ہے کہ مشتری صرف سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔لیکن ایک ماہر اور تیز نظر فلکیات دان اس مقررہ راستے پر ان کو اس وقت ڈگمگاتا ہوا دیکھ سکتا ہے جب سورج مشتری کے ساتھ مرکز کمیت کے گرد چکر لگا رہا ہو ۔ اس طریقے کی خوبصورتی یہ ہے کہ فلکیات دان سورج کی ڈگمگاہٹ کا اس وقت بھی مشاہدہ کر سکتا ہے جب وہ مشتری کو کسی بھی طرح سے دیکھنے کے قابل بھی نہ ہو! کسی بھی سیارے کی دریافت کا یہ ایک بلا واسطہ طریقہ ہے ۔

کئی عملی طریقے موجود ہیں جس کے نتیجے میں ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کی مدد سے ماورائے شمس سیاروں کو دریافت کیا جا سکتا ہے ۔ ان طریقوں میں سے تین ایسے ہیں جو مرکزی یا مورث ستارے کی ڈگمگاہٹ کا سراغ لگاتے ہیں جبکہ ایک کمیت کی نسبت کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔کسی ستارے کی ڈگمگاہٹ کا سراغ دوسرے ستاروں کی نسبت سے اس کے محل و وقوع کا احتیاط کے ساتھ براہ راست مشاہدہ کرکے لگایا جا سکتا ہے ۔ اس مشاہدہ کے لئے درکار وقت لازمی طور پر فرضی سیارے کے مدار میں چکر لگانے کے وقت سے زیادہ ہونا چاہئے ۔ نجوم پیمائی(astrometry) کا یہ طریقہ ہماری اس طرح مدد کرتا ہے کہ بجائے ہم کائنات کو بڑے پیمانے پر ناپیں ہم فرضی سیارے کے اپنے مورث ستارے کے برتاؤ پر پڑنے والے اثر کو الگ کر لیں۔ اس طریقے کا استعمال کافی عرصے سے کیا جا رہا ہے کم از کم بیسویں صدی کی شروعات سے تو اس کا استعمال ہور ہا ہے لیکن اب اس طریقے کے استعمال کی مانگ کافی بڑھ گئی ہے ۔ حال ہی میں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری نے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے ۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میںنجوم پیمائی کرتے ہوئے انتہائی درستگی کے ساتھ سیاروں کی کھوج کی جا سکتی ہے لہٰذا یہ طریقہ مستقبل میں کافی اچھے نتائج دے سکتا ہے ۔

ایک اور ڈگمگاہٹ والا طریقہ موجود ہے جس کی مدد سے پہلے ماورائے شمس سیارے کو تلاش کیا گیا تھا ۔ یہ ستارے سے آتی ہوئی روشنی کے طیف پر ڈوپلر اثر پر انحصار کرتا ہے ۔ ڈوپلر اثر جس کو ١٨٤٢ء میں ایک آسٹریا کے طبیعیات دان کرسچین ڈوپلر(Christian Doppler) نے بیان کیا تھا اور اس اثر کو یقینی طور پر آپ نے بھی اکثر و بیشتر محسوس کیا ہوگا ۔ یہ اثر اس وقت واقع ہوتا ہے جب کوئی جسم بیک وقت حرکت کرتے ہوئے آواز کی لہریں خارج کرے ۔ آواز کی موجیں ہوا میں سے گزر کر ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں جس سے ہمیں آواز سنائی دیتی ہے ۔ لہٰذا گزرتی ہوئی گاڑی (یا ایمبولینس کا سائرن ) کی آواز اپنی اوج کو ڈوپلر کے اثر کی وجہ سے تبدیل کرتی ہے یعنی کہ سائرن کی آواز ہمیں اس وقت زیادہ تیز سنائی دیتی ہے جب ایمبولینس ہماری قریب آتی ہے اور اس کے دور جانے کے ساتھ ہی اس کی آواز بھی آہستہ ہوتی جاتی ہے ۔ مزید براں حرکت کی نسبت ہی اہم چیز ہے۔ لہٰذا اگر رکی ہوئی ایمبولینس کا سائرن بج رہا ہے اور آپ اس کے پاس سے گزریں گے تو بھی آپ کو وہی ڈوپلر اثر ملے گا ۔ ڈوپلر کے اثر کو عملی طور پر اجسام کی رفتار کو ناپنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ، مثال کے طور پر جب موٹر وے کی پولیس تیز رفتاری کرتے ہوئے کسی بھی ڈرائیور کو اپنے ریڈار کی مدد سے پکڑ لیتی ہے یا جب ماہر موسمیات طوفان کا سراغ لگانے کے لئے ہوا کی رفتار میں ہونے والے بدلاؤ کو ناپتے ہیں ۔

روشنی برقی مقناطیسی موجوں پر بھی مشتمل ہوتی ہے جو آواز کی موجوں سے چھوٹی ہوتی ہیں ۔ لہٰذا روشنی پر بھی ڈوپلر کا اثر ایسے ہی پڑتا ہے جیسا کہ آواز پر ، اس طرح سے ہم ستاروں ، کہکشاؤں اور دوسری چیزوں کی اضافی رفتار کو ناپ سکتے ہیں۔ اس بات کی فلکیات کی دنیا میں بہت زیادہ اہمیت ہے جہاں ہمارے پاس ان دور دراز کے اجسام کی حرکت کو ناپنے کا کوئی اور دوسرا طریقہ نہیں ہے ۔

ڈوپلر اثر کو جاننے کے لئے سائنس دان دوربین ، پرزم اور ایک کیمرے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ستارے سے آتی ہوئی روشنی کے طیف کو درج کر سکیں۔ پھر وہ طیف میں نشان کو دیکھتے ہیں ۔ اگر جس ستارے کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں اس سے آتی ہوئی روشنی کے طیف لمبی طول موج (سرخ روشنی )کی طرف ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ستارے آپ سے دور جا رہا ہے ۔ جتنی تیز رفتاری سے ستارہ آپ سے دور جا رہا ہوگا اتنا ہی اس کا طیف سرخ روشنی کی جانب مائل ہوگا ۔ اگر ستارہ ہماری طرف آ رہا ہوگا تو اس کا الٹ ہور ہا ہوگا ۔ ستاروں سے آنے والی زیادہ تر بصری روشنی بعینہ تاباں روشنی کے بلب جیسی ہی ہوتی ہے اور جب وہ طیف میں تقسیم ہوتی ہے تو قوس و قزح کی ہی طرح دکھائی دیتی ہے ۔لیکن جب سائنس دان اس کوپرزم کے ساتھ دیکھتے ہیں تو اس میں ان کو کئی اور نشان بھی نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر ستاروں کے طیف میں یہ نشان تو تنگ تاریک خطوط کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں جو اس جانب اشارہ ہوتا ہے کہ مخصوص طول موج اس میں سے غائب ہے ۔ یہ خطوط ، طیفی جذبی لکیریں ستارے کی سطح کے قریب موجود جوہروں اور برق پاروں کی وجہ سے پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب روشنی جوہروں سے بنی گیس میں سے گزرتی ہے تو جوہر اس کی کچھ روشنی کو جذب کر لیتے ہیں ؛ یہ مظہر ہم اپنے روز مرہ زندگی میں بادلوں کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں ۔ ہرچند کہ ہم اپنی چشم عریاں سے اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ روشنی مخصوص طول موج یا رنگوں میں جذب ہوتی ہے۔ یہ جذبی لکیریں اور ان کا طول موج؛ جوہر(برق پاروں اور سالموں ) کے گرد چکر لگانے والے الیکٹران کی بدولت ایسا برتاؤ کرتا ہے۔ الیکٹران کی کئی مخصوص توانائی کی حالتیں اور مدار ہوتے ہیں اور یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں روشنی غائب ہوتی ہے ۔ کیونکہ توانائی کی یہ حالتیں بہت ہی مخصوص ہوتی ہیں اسی لئے جذبی لکیریں اور ان کا طول موج بھی بہت ہی مخصوص ہوتا ہے ۔ اسی لئے ہر معلوم عنصر ، ہلکے ترین ہائیڈروجن سے لے کر بھاری ترین معلوم دھات تک ، ان کے جوہر ایک مخصوص اور ناقابل تردید انفرادی خصوصیت جو ہزار ہا جذبی لکیروں کی صورت میں ہوتی ہے رکھتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
بڑی ریسرچ کی ہے گڈ۔

بھائی میری تحقیق نہیں ہے یہ دیمتر کی لکھی ہوئی کتاب کا ترجمہ ہے۔ہم لوگوں میں کہاں اتنادم خم ہے کہ ایسی معرکتہ آلارا کتاب لکھ سکیں۔ ہاں مختلف جگہوں سےنقل کرکے تالیف ضرور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو بھی اپنے نام سے پیش کرنے میں نہیں ہچکچاتے۔ بہرحال عمومی سائنسی میدان میں اس کا بھی فقدان ہے۔ پسندیدگی کا شکریہ۔ اپنی قیمتی رائے سے نوازتے رہا کریں آپ لوگوں کی قیمتی رائے مجھے مزید کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
 
آخری تدوین:

bilal260

محفلین
جس نے بھی لکھا ہے یا جو کچھ بھی ہے کہ تحریر ہم تک تو آپ کے توسط سے پہنچی اس پر بہت شکریہ۔
انتہائی معیاری اور اہم تھریر ہے۔اس پر اسے ایورارڈ ملنا چاہئے۔قسم سے رمضان ہے ۔شکریہ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
جس نے بھی لکھا ہے یا جو کچھ بھی ہے کہ تحریر ہم تک تو آپ کے توسط سے پہنچی اس پر بہت شکریہ۔
انتہائی معیاری اور اہم تھریر ہے۔اس پر اسے ایورارڈ ملنا چاہئے۔قسم سے رمضان ہے ۔شکریہ۔
شکریہ۔ اردو کے قلب میں ڈھالنے کی تو میری ہی ادنی سی کوشش ہے۔ پسند کرنے کا شکریہ۔ آگے کے باب بھی کافی دلچسپ ہیں۔ کم از کم مجھے تو ترجمہ کرتے ہوئے ایسے لگے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب سوم - حصّہ سوم (آخری حصّہ)

کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل


یہی طیف کی جذبی لکیریں وہ نشان ہیں جن کے استعمال سے ہم ستاروں میں ڈوپلر کا اثر ناپتے ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے ہم ستاروں کی رفتار میں معمولی تبدیلی میں بھی امتیاز کر سکتے ہیں۔ اس میں ستاروں کی ڈگمگاہٹ بھی شامل ہے۔ مزید براں ڈوپلر کے اثر کو اس طرح سے ناپنے میں ہم ستارے کی اصل رفتار کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنے مدار میں رہ کر مرکز کمیت کے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے۔ یہ مدار کی رفتار ، مدار کے وقت کے ساتھ مل کر - جو ستارے اور سیارے دونوں کی ایک ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے مرکز کمیت کے گرد چکر لگا رہے ہوتے ہیں - ہمیں دونوں کی کمیت معلوم کرنے کے قابل کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ستارے کی کمیت کس طرح سے اس کے طیف کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے ؛ یہ جذبی لکیریں معلومات کا بھنڈار ہوتی ہیں ۔ لہٰذا ہم سیارے کی کمیت معلوم کر سکتے ہیں ۔ بہرحال اس میں ایک قباحت ہے : ہم اس زاویہ کو نہیں ناپ سکتے جس زاویے پر وہ مدار ہماری طرف جھکا ہوا ہے کیونکہ ڈوپلر کے اثر سے ہم صرف اضافی حرکت ہی ناپ سکتے ہیں نتیجتاً کمیت کے اندازے کے بارے میں کچھ بے یقینی اپنی جگہ موجود رہتی ہے ۔ اس بے یقینی کا خاتمہ کرنے کے لئے ہمیں سیاروں کی دریافت اور ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دوسرے طریقوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے مثال کے طور پر عبوری طریقہ (اس کے بارے میں ہم مزید تفصیلات آگے چل کر دوسرے باب میں فراہم کریں گے۔)

ڈگمگاہٹ کے سراغ لگانے کا تیسرا عملی طریقہ وقت کا دورانیہ ہے ۔اگر کچھ مخصوص وقتی اشاروں اور وقت کو ہم انتہائی درستگی کے ساتھ ناپ لیں ، تو سیارے کی وجہ سے ستارے کی چال میں ہونے والی ڈگمگاہٹ اشارے کے وقت کے دوران مخصوص مدت میں ظاہر ہوگی ۔ ایسے مخصوص مدت کے گردشی اشارے کیا ہو سکتے ہیں ؟ یہ اشارے نابض] (پلزار )[Pulsar –ایک نیوٹران ستارہ جو انتہائی تیزی کے ساتھ گھومتا ہوا ریڈیائی لہریں چھوڑ رہا ہوتا ہے - سے بھی نکل سکتے ہیں یا دو ستاروں سے بھی آ سکتے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد مدار میں بہت ہی نزدیک چکر لگا تے ہوئے ایک دوسرے کو وقفے وقفے سے گرہن لگا رہے ہوتے ہیں (یہ گرہن کا وقفہ چند گھنٹوں یا دنوں کا ہو سکتا ہے )۔ یہی وجہ ہے کہ ١٩٩٢ء میں ریڈیائی فلکیات دانوں اے وولز چن(A. Wolszczan) اور ڈی فریل(D. Frail) نے PSR 1257112 نابض کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیاروں کو دریافت کیا تھا ۔ یہ ایک غیر معمولی دریافت تھی مگر اس کو وہ توجہ نہیں ملی جو ١٩٩٥ء میں پگاسی ٥١ ب کو ملی تھی اس کی دو وجوہات تھیں ۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ نابض سیارے ، دونوں طرح سے بطور سیارہ اور نظام ہائے سیارگان اجنبی تھے ۔ دوسرے نابض سیارے بہت ہی کمیاب تھے ۔ ہم صرف چند ہی ایسے نظاموں کو جانتے ہیں ، ان کا مطالعہ کرنے کے لئے کچھ زیادہ مواد نہیں تھا اور وہ اپنے ماخذ کو سمجھنے میں ہماری بہت ہی تھوڑی سی مدد کر سکتے تھے ۔

میعادی ٹیکنالوجی کو بھی اس وقت بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جب ایک سیارہ اپنے قریب میں موجود دوسرے سیارے کی وجہ سے کھینچا اور دھکیلا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی نظام میں کوئی تپتا ہوا مشتری ہوتا اور ہم اس تپتے ہوئے مشتری پر اس وقت مستقل نظر رکھے ہوئے ہوتے جب وہ اپنے مورث ستارے کے گرد مدار میں قاعدے سے چکر لگا رہا ہوتا (جیسا کہ گرہن یا عبوری مرحلے کے مواقع کو نشان زدہ کر لینا ؛ مزید تفصیلات کے لئے اگلا باب ملاحظہ کیجئے )، تو ہم اس کے باضابطہ مدار میں کچھ تبدیلی محسوس کرتے جو دکھائی نہ دینے والے سیارے کی وجہ سے ہوتی ۔بعض اوقات اس قسم کی وقتی تبدیلیوں سے دوسرے سیارے کا سراغ لگانا ستارے کی ڈگمگاہٹ کو دیکھنے کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ سیاروں کی کھوج کا یہ طریقہ کیپلر سیارے کی کھوج کے منصوبے کے شروع میں انتہائی کامیاب رہا ہے ۔ مثال کے طور پرکیپلر ١١ کے نظام میں پانچ گزرتے ہوئے سیاروں کی تصدیق کی جا سکتی تھی اور ان کی کمیت صرف عبوری وقت کی تبدیلیوں سے ہی حاصل کی جا سکتی تھی ۔

سیاروں کی کھوج کا ایک اور ایسا طریقہ موجود ہے جو ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کا فائدہ اٹھا تا ہے - ثقلی عدسے کا اثر، ایک ایسا اثر جس کی پیش گوئی آئن سٹائن نے کی تھی اور جس کو اس نے عمومی نظریہ اضافیت کی تصدیق کے لئے بھی استعمال کیا تھا ۔ نظریاتی کام کے پہل کار ، پرنسٹن کے آنجہانی فلکی طبیعیات دان بودن پیکزنسکی (Bohdan Paczynski)نے آئن سٹائن کی پیش گوئی کو عملی طور پر کرکے دکھایا یوں کئی بین الاقوامی منصوبے، ستاروں کے ثقلی عدسے کے اثر کی نگرانی کے لئے شروع ہوئے ۔ اس اثر کو دیکھنے کے لئے روشنی کے منبع کی ضرورت ہوتی ہے، جو عام طور سے دوسرا ستارہ مہیا کرتا ہے جو مذکورہ ستارے کے پیچھے موجود ہوتا ہے ۔ جب ہم اس پیچھے والے ستارے کی روشنی کی طرف دیکھتے ہیں تو اس سے آتی ہوئی روشنی آگے والے ستارے کی ثقلی قوّت کی وجہ سے خم کھاتی ہے ۔ اگر آگے والے ستارے کے ساتھ کوئی سیارہ بھی موجود ہے تو وہ عدسی اثر کو قابل ذکر طور پر تبدیل کر دے گا۔ ٢٠٠٥ء میں جے پی بولیو(J. P. Beaulieu) اور ان کے رفقائے کاروں نے ایک سیارہ دریافت کیا جو زمین کی کمیت کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ کا تھا جس کو ہم "ارض عظیم "(Super Earth) کہتے ہیں ۔ اس سیارے کا نام انتہائی مشکل OGLE-2005-BLG-390Lb تھا ، اور یہ ایک چھوٹے سے ستارے کے گرد کم از کم زمین کے سورج کے فاصلے کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ دور چکر کاٹ رہا تھا ۔ صرف یہی بات ہم OGLE-2005-BLG-390Lb سیارے کا بارے میں اب تک جانے ہیں کیونکہ ثقلی عدسے کے اثر کے طریقے کے استعمال سے ہمیں صرف ایک ہی مرتبہ موقع ملتا ہے کہ اس میں جھانک کر فوری تصویر حاصل کر سکیں۔ اپنی نوعیت کی بدولت مشاہدے کو دہرایا نہیں جا سکتا۔

بہرحال ثقلی عدسے کے طریقے کی اہمیت ماورائے شمس سیاروں کی دریافت میں شماریات کی شکل میں موجود ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طریقے میں عظیم مشتری اور عظیم ارض دونوں کے دریافت ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے ۔ اگرچہ ابھی تک اس طریقے کا استعمال کرتے ہوئے چند ہی سیارے دریافت ہوئے ہیں ، مگر شماریات کی زبان میں دیکھا جائے تو یہ لہر واضح طور پر نظر آتی ہے کہ چھوٹے سیارے بھی اتنی ہی تعداد میں موجود ہیں جتنی تعداد میں بڑے سیارے اور ممکن ہے کہ وہ بڑے سیاروں کی نسبت زیادہ تعداد میں موجود ہوں ۔

ماورائے شمس سیاروں کی کھوج کی پہلی دہائی میں دریافت کے کئی طریقوں میں بالیدگی نظر آئی ہے۔ ان میں سے کچھ طریقے ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ہمیں دریافت شدہ سیاروں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔ یہ ہماری اس مہم کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل اس لئے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہم جان سکیں گے کہ کیا ہمارا نظام شمسی ، کرۂ ارض ، اور ارضی حیات منفرد اور نایاب ہیں یا پھر یہ کائنات میں عام پائی جانے والی چیزیں ہیں ۔ ایک دفعہ ہمیں یہ بات معلوم ہو جائے تو ہم کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل کر لیں گے ۔ان طریقوں کے آخری طریقے کا نام "عبوری طریقہ"(Transiting Method) ہے جس میں ہم ستارے اور سیارے کے حجم کی نسبت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ طریقہ اب تک کا سب سے آسان طریقہ نظر آتا ہے ۔ بہرصورت ستارے اور سیارے کے حجم میں واضح فرق کافی نمایاں ہوتا ہے جو حجم کی نسبت دس سے سو گنا تک ہو سکتا ہے۔ درحقیقت ہماری مہم میں عبوری طریقہ ایک خاص کردار ادا کرتا ہے ۔ لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے اس طریقے میں بھی ایک قباحت ہے ۔

نوٹ: عنوان کا نام "عظیم ارضی سیاروں" سے "فوق ارضی سیاروں" محمد سعد کی تجویز پر تبدیل کردیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب چہارم - حصّہ اوّل

عبور کا تعاقب


یہ کوئی پانچ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اور میں تیزی کے ساتھ ایک خالی جگہ پہنچنے کی جلدی میں تھا ۔ مجھے چارلس ریور جو کیمبرج ،میسا چوسٹس میں واقع ہے اس کے ساتھ موجود جگہ پر پہنچنا تھا ۔ ہارورڈ اسکوائر کے پل کو پار کرتے ہوئے میں بے چینی سے مشرقی افق پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا جہاں پر ابھرتا ہوا سورج آسمان کے ایک ٹکڑے پر بادلوں سے نبرد آزما تھا ۔ میری منزل - ہارورڈ سائنس سینٹر کے پاس تھی جو بالکل ہی ہارورڈ کے شمالی پچھواڑے میں واقع تھی، ایک عجیب میلہ سا لگا ہوا تھا ۔ داخلے کے ساتھ ہی ، ہارورڈ کا مارچنگ بینڈ ایک غیر معروف دھن بار بار بجا رہا تھا جبکہ سینکڑوں لوگ چھت پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ہر کوئی یہاں پر وہ نظارہ کرنے کے لئے بیتاب تھا جو بنی نوع انسان نے پچھلے ١٢٢ برسوں سے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ ٨ جون ٢٠٠٤ء کا دن تھا اور وینس سورج کو عبور کر رہا تھا ۔

اس عبوری مرحلے جس میں زہرہ ایک کالی قرص کی شکل میں سورج کی عظیم درخشانی قرص کے سامنے سے گزر رہا تھا ، ان شاندار نظاروں میں سے ایک تھی جس میں ہم نظام شمسی کے اندرونی حصّہ کو ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ زہرہ کا سورج کو عبور کرنے کا یہ واقعہ شاندار لیکن انتہائی نایاب بھی ہے ۔یہ نسل خوش قسمت تھی : زہرہ کا یہ عبوری مرحلہ اس مرتبہ دو مرتبہ جوڑے کی صورت میں ہونا تھا ۔ دوسرا عبوری مرحلہ اب ٦ جون ٢٠١٢ء کو ہونا تھا ۔

دور حاضر میں زہرہ کے اس عبوری مرحلے کی اہمیت فلکیاتی محققین کے لئے کچھ زیادہ نہیں ہے ، لیکن اس جڑواں عبوری مرحلے کے مشاہدے کی سائنس کی دنیا میں ١٧٦٩ء اور اس سے پہلے کے دور میں کافی اہمیت تھی ۔ ولیم شیہان(William Sheehan) اور جان ویسٹ فال (John Westfall) کے مطابق سترویں صدی میں زہرہ کے عبوری مرحلے کا مقابلہ بیسویں صدی میں چاند پر قدم رکھنے سے کیا جا سکتا ہے ۔ سورج کے سامنے سے زہرہ کے گزرنے کے اس عبوری مرحلے سے سائنس دانوں کو زمین سے سورج کے درست فاصلے کو ناپنے کا ایک نایاب موقع ملتا ہے اور یوں وہ پورے نظام شمسی کا فاصلہ ناپنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔ اس بات کی اہمیت صرف سائنس کی دنیا میں ہی نہیں ہے ، برٹش ٹرانزٹ کمیٹی نے ایک رقعہ ١٧٦٧ء میں بادشاہ جارج سوم کے نام لکھا جس میں اس کی اہمیت کو راستوں کو سمجھنے کے لئے بیان کیا گیا تھا ۔ اس کی اہمیت اتنی تھی کہ بادشاہ نے اس مہم کی تائید کی تھی ۔ ٢٥ مئی ١٧٦٨ء، کپتان جیمز کک(James Cook) کو اس کام کی ذمہ داری سونپی گئی جس سے اس کے جنوبی بحرالکاہل کے شہرۂ آفاق سفر کا آغاز شروع ہوا ۔

اصل میں عبور کرنے کا مرحلہ ایک طرح سے سورج گرہن ہوتا ہے ۔ اس گرہن کو عطارد یا زہرہ لگاتا ہے ،بہرصورت یہ واقعہ اتنا ڈرامائی نہیں ہوتا جتنا کہ سورج گرہن چاند کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ سیاروی عبور سورج سے آتی ہوئی روشنی پر بہت معمولی انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں ، یہ سورج کی روشنی کے ایک فیصد کے بھی کچھ حصّے کو کم کر پاتے ہیں ، یہ اتنا کم ہوتا ہے کہ ہم اس کو زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتے ، اس کے باوجود یہ ہمارے اور ستارے کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک کالا سا نقطہ بنا تے ہیں ۔ تاریخ میں عبور کی اصطلاح صرف عطارد اور زہرہ کے لئے استعمال کی جاتی تھی ، مگر دور حاضر میں دوسرے ستاروں کے گرد سیاروں کی کھوج میں اس اصطلاح کا اطلاق کافی وسیع ہو گیا ہے ۔ جیسا کہ عطارد اور زہرہ سیارے صرف ایک فیصد سے بھی کم سورج کی روشنی کو ہمارے پاس پہنچنے سے روک پاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر 4.1 )۔
4.1 by Zonnee, on Flickr
4.1 ایک تصوری عبوری سیاروی نظام کا خاکہ ۔ عبوری سیارہ اپنے مدار میں تین مختلف جگہوں پر نظر آ رہا ہے ۔ جب وہ عبور کر رہا ہوتا ہے ، تو سیارے کا تاریک حصّہ ہماری جانب ہوتا ہے ، لیکن ہم اس کے کرۂ فضائی میں نجمی روشنی کی مدد سے اس کے گزرتے وقت جھانک سکتے ہیں۔ جب سیارہ اس طرف ہوتا ہے (الٹی طرف )، تو اس کی رویت ہمیں نظر آتی ہے ، جس طرح سے ہم چاند کی رویت کرتے ہیں ۔ عبور کے آدھے حصّے کو مدار میں طے کرنے کے بعد سیارہ اپنے ستارے کے پیچھے سے گزرے گا جس کو ہم گرہن کے نام سے جانتے ہیں ۔

جیسے ہی وہ اپنے مورث ستارے کی قرص کے سامنے سے گزرتے ہیں ، سیارہ اپنے ستارے کی روشنی کو مدھم کر دیتا ہے روشنی میں یہ کمی سیارے کے عکس ڈالنے والے حصّے کے مقابلے میں سورج کے روشن حصّے کی کسر کے برابر ہوتا ہے ۔ دائرے کا رقبہ اس کے نصف قطر پر انحصار کرتا ہے یعنی رقبہ اس کے نصف قطر کے مربع کے برابر ہوتا ہے ۔ لہٰذا ستارے کی روشنی (rp/rs)² کلیہ کے مطابق ہی مدھم ہوگی جس میں rp اور rs سیارے اور ستارے کے بلترتیب نصف قطر ہیں ۔ کوئی سیارہ جو مشتری جتنا بڑا ہو اور کوئی ستارہ جو سورج کے حجم کا ہو، تو اس صورت میں سیارے کا ستارے کی روشنی کو مدھم کرنے کا یہ اثر ایک فیصد ہوگا جس کو آسانی سے شوقیہ آلات کی مدد سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ بہرحال زمین جو سورج سے ١٠٩ گنا چھوٹی ہے ، وہ سورج کے سامنے اس کو عبور کرتے وقت اس کی روشنی کو صرف 1/(109)² یعنی کہ صرف0.008فیصد تک ہی کم کر پائے گی۔ اس معمولی اثر کو دیکھنا مشکل ضرور ہے تاہم ناممکن نہیں ہے ۔

سیاروں کی دریافت میں عبوری طریقہ اس لئے کام کرتا ہے کیونکہ سیارے کی وجہ سے ستارے کی روشنی میں ہونے والی کمی کو ستارے کی تابانی ناپ کر کی جا سکتی ہے جس کو ضیا پیمائی ](ضیا ئیوں یعنی فو ٹونوں کو ناپنا )[Photometryکہتے ہیں۔ ضیا پیمائی ، طیف بینی (Spectroscopy) سے مختلف ہوتی ہے۔ طیف بینی میں روشنی کے رنگوں کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ ضیا پیمائی کے لئے کیمرے کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر چھوٹی دوربین کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے ۔ اس میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ سیاروں کے مدار کو ستارے کے مشاہدے کے وقت بالکل ابھار پر ہونا چاہئے ، جس کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ ہماری کہکشاں میں موجود نظام ہائے سیارگان اٹکل پچو تمام ممکنہ سمتوں میں بکھرے ہوئے ہیں (خاکہ نمبر4.2)۔ لہٰذا ہماری فوقیت والی جگہ سے کسی سیارے کو ستارے کو عبور کرتا ہوا دیکھنے کا امکان نجمی نصف قطر کا سیارے کے مدار کے حجم کی نسبت کے برابر ہوگا۔ یہ عام طور پر ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے ۔
4.2 by Zonnee, on Flickr
4.2 سیاروی نظام اٹکل پچو زاویوں پر موجود ہیں ۔ جب ہم زمین سے ان کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے صرف چند ہی ہماری طرف ترتیب میں ایسے موجود ہوتے ہیں کہ ہم ان کے عبور کو دیکھ سکیں ۔ جتنا زیادہ سیارہ اپنے ستارے سے قریب ہوگا ، اس کے عبور کے وقت میں دیکھے جانے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

اتنے کم امکان کے ساتھ ، ہزار ہا ستاروں کی نگرانی انتہائی صبر کے ساتھ کرنی ہوگی تاکہ سیاروں کی وجہ سے روشنی کی میعادی کمی کو عبوری وقت میں آسانی سے پکڑا جا سکے۔ عبوری مرحلے کا مقابلہ صرف ثقلی عدسے کا طریقہ ہی کر سکتا ہے ۔ عبوری مرحلے کو بے عیب بنانے کے لئے اور اس کے عملی استعمال کے لئے بہت زیادہ سعی کرنی پڑتی ہے ، لیکن یہ تمام تر جدوجہد اس طریقے سے حاصل کردہ فوائد کے مقابلے میں کافی نتیجہ خیز ہوتی ہے: جب ہم عبوری اور ڈوپلر ڈگمگاہٹ دونوں طریقوں کے ذریعہ پیمائش کرتے ہیں تو ہم سیارے کا نصف قطر ، کمیت اور اس طرح سے اس کی اوسط کثافت بھی اخذ کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہ تو صرف ایک اضافی معلومات ہوتی ہے ! عبوری طریقہ عظیم ارض یا ارض جیسے چھوٹے سیاروں کی دریافت کے لئے بہت ہی بہترین طریقہ ثابت ہوا ہے ۔

١٩٩٩ء تک ٢٥ سے زیادہ ماورائے شمس سیارے ڈوپلر تبدیلی کے طریقے سے دریافت کیے جا چکے تھے جن میں سے زیادہ تر تپتے ہوئے مشتری تھے ۔ کیونکہ تپتے ہوئے مشتری اپنے مورث ستارے کے گرد انتہائی نزدیک ہوتے ہیں لہٰذا ان کا ستارے کو عبور کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ خاکہ نمبر 4.2 اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سے اندرونی حصّے میں موجود سیارہ ستارے کو دور دراز میں واقع سیارے کی بہ نسبت زیادہ دفعہ عبور کر سکتا ہے۔ کسی بھی ستارے کے نزدیک موجود ایسے سیارے کو عبوری طریقے میں پانے کا موقع پانچ سے دس فیصد ہوتا ہے۔ با الفاظ دیگر ڈوپلر تبدیلی کے طریقے سے دریافت ہوئے ان بیس سے زیادہ تپتے ہوئے مشتری میں سے کم از کم ہم کسی ایک کو اپنے مورث ستارے کو عبور کرتا ہوا دیکھ سکتے تھے ۔ عبوری سیارے کو کھوجنے کا نسبتاً زیادہ امکان ان کی کھوج کو زیادہ مسابقتی بنا دیتا ہے ۔ سیارہ شناس(Planet Hunter) ٹیمیں جو نئے سیاروں کی کھوج میں لگی رہتی ہیں ، وہ اپنے دریافت شدہ سیاروں کو اس وقت تک راز میں رکھتی ہیں جب تک ان کی تسلی نہیں ہو جاتی کہ سیارہ ستارے کو عبور کر رہا ہے ۔

خوش قسمت تپتا ہوا مشتریHD 209458b نکلا ، جو ایک عام سے نظام ہائے سیارگان کا حصّہ تھا جو سورج جیسے ستارے کے گرد 3.5 دن میں زمین سے ١٥٠ نوری برس کے فاصلے پر چکر لگا رہا تھا ۔ یہ سیارہ ڈوپلر منتقلی کے طریقے سے ١٩٩٩ء کی موسم گرما میں جنیوا رصدگاہ اور ہارورڈ – سمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے سیارہ شناسوں کے اشتراک سے دریافت کیا گیا تھا ۔١٩٩٩ء تک انہوں نے اپنے اعداد و شمار ہارورڈ کے سند یافتہ طالبعلم ، ڈیوڈ شر بونو (David Charbonneau) کے حوالے کیا جو اس وقت بولڈر ، کولوراڈو میں اپنا وقت چھوٹی ضیا پیمائی دوربینوں کے ساتھ گزار رہے تھے جس کو ان کے لئے نیشنل سینٹر فار ایٹموسفیرک ریسرچ کے ٹم براؤن(Tim Brown) نے بنایا تھا ۔ ڈیوڈ اور ٹم نے عبور کا سراغ لگا لیا تھا اور اسی طرح سے جیوف مارسی(Geoff Marcy) اور پال بٹلر (Paul Butler) کی ٹیم نے بھی اس کا پتا چلا لیا تھا یہ دونوں بھی اسی دوڑ میں شامل تھے ۔انہوں نے اپنا ڈوپلر منتقلی کا مواد ٹینیسی اسٹیٹ یونیورسٹی کے گریگوری ہینری (Gregory Henry) کے حوالے کیا جو ضیا پیمائی کو ایریزونا میں واقع خودکار دوربینوں کے ذریعہ ناپ رہے تھے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب چہارم - حصّہ دوم

عبور کا تعاقب


یہ کامیابی دو طرح سے ایک سنگ میل ثابت ہوئی تھی : اس نے بغیر کسی شک کے ان ماورائے شمس سیاروں کی موجودگی کی تصدیق کی تھی جن کو ڈوپلر منتقلی کے طریقے سے ١٩٩٥ء سے بالواسطہ طور پر دریافت کیا گیا تھا ، اور اس نے عبوری طریقے سے سیاروں کو دریافت کرنے کے لئے حوصلہ افزائی بھی کی تھی ۔

٢٠٠٠ء کی شروعات میں ، عبوری طریقے نے واضح طور پر سیاروں کی دریافت کے لئے ایک مقام بنا لیا تھا ( ١) اس طریقے کے استعمال سے دسیوں ہزار ستاروں کی بیک وقت ضیا پیمائی ہو سکتی تھی اور (٢) اس وقت تک کا انتظار کرنا ہوتا تھا جب تک آپ کو کوئی ستارہ ایک مستقل صورت میں جھلملاتا ہوا نظر نہیں آتا تھا ۔ اگر ستارے کی روشنی کئی گھنٹوں تک، کچھ دنوں کے بعد لگاتار لگ بھگ ایک فیصد تک کم ہو جاتی، تو آپ نے ایک عبوری تپتا ہوا مشتری مثلاً HD 209458b جیسا سیارہ ڈھونڈھ لیا ہے ۔ اس میں دو چیزیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں :کافی زیادہ تعداد میں ستاروں کو بیک پیمائش کرنا اور اس پیمائش کو ایک فیصد سے بھی بہتر انداز میں انتہائی درستگی کے ساتھ ناپنا ۔ اول الذکر کا مطلب ہے کہ چھوٹی دوربین کا استعمال کرنا جو آسمان کا زیادہ تر حصّہ دیکھ سکے یا پھر عام دوربین کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی مدھم ستاروں کی پیمائش کرنا ۔ موخر الذکر کا مطلب یہ کہ سافٹ ویئر اور ضیا پیمائی کی جزئیات کو بہتر بنانا ۔

کئی فلکیات دان عبوری طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سیارے کی دریافت میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان کی امیدیں کافی زیادہ ، اور پیش گوئیاں کافی خوش گمان ہوتی ہیں ۔ روشنی میں کمی کو ناپنا ہی سیارے کی دریافت کی تصدیق سمجھ لیا جاتا ہے ۔ نتیجتاً وہ ٹیمیں جن کے ذرائع انتہائی محدود ہوتے ہیں وہ جنیوا میں موجود مچل میئر(Michel Mayor) کی ٹیم اور کیلی فورنیا میں موجود جیوف مارسی کی ٹیم کا مقابلہ نئے سیاروں کی دریافت میں کر سکتی ہیں ۔ نسخہ بہت ہی آسان ہے ؛ لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ HD 209458b کی دریافت ہونے کے بعد تین سال کا عرصہ گزر گیا اور کوئی دوسرا سیارے ستارے کو عبور کرتا ہوا دکھائی نہیں دیا ۔

مسئلہ یہ تھا کہ چند ستارے جھلملاتے تو تھے تاہم ان کی وجوہات دوسری ہوتی تھیں ۔ مثال کے طور پر دو ستارے جو ایک دوسرے کے نزدیک مدار میں موجود ہوں وہ ایک دوسرے کو گرہن لگاتے ہیں اور اسی وقت ایک تیسرا ستارہ اس اثر کو کم کر دیتا تھا جس کے نتیجے میں اس گہرے گرہن کا اثر کم ہو جاتا تھا اور وہ مہین ہو کر ایک سے دو فیصد رہ جاتا تھا بعینہ جیسے کہ چھوٹے سیارے کے اپنے مورث ستارے کے عبوری وقت میں ہوتا ہے ۔ہم اپنی بہترین دوربینوں کا استعمال کرنے کے باوجود ان تینوں ستاروں کو زمین سے روشنی کے ایک نقطہ کی مانند دیکھتے ہیں ۔ یا ایک بہت ہی چھوٹا ستارہ ہمارے سورج سے تھوڑے سے بڑے ستارے کے گرد چکر لگا سکتا ہے جس کے نتیجے میں گرہن دو فیصد تک گہرا ہو سکتا ہے اور اس گرہن کو سیارے کے گرہن سے ممتاز کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے ۔ اسی طرح مختلف صورتحالوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے ۔ یہ احساس بتدریج نمودار ہوا کہ ایسے غلط اشارے کافی آسانی سے اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ہارورڈ – سمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے ڈیوڈ لاتھم(David Latham) جو سیارے شناسی کے اختراع اندازوں میں سے ایک ہیں ، وہ بہت ساری ان ٹیموں کی مدد کر رہے ہیں جنہوں نے ممکنہ عبوری امیدواروں کی تصدیق کی ہے ۔ یہ ان کی مدد تیزی سے دیکھنے والی چھوٹی دوربین کے ذریعہ ضیا پیمائی سے کر رہے ہیں ۔ وہ سیاروں کے بجائے عبوری ضیا پیمائی میں سے غلط امیدواروں کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔

مسئلہ ٢٠٠٢ء میں سامنے آیا ۔ اوگلی ](او جی ایل ای )[OGLE ٹیم جس سے ہم پہلے ملے تھے انہوں نے چلی میں واقع اپنی دوربین کو نئے بڑے کیمرے سے ایک برس پہلے ہی لیس کیا تھا۔ کہکشاں میں نجمی ثقلی عدسے کی تلاش کرنے سے پہلے جو ان کا بنیادی مقصد تھا انہوں نے اپنی دوربین کا رخ جنوبی آسمان کی جانب کیا جو ستاروں سے لبریز تھا اور سیاروں کے ستاروں کو عبور کرنے کے سراغ کو حاصل کرنے کی امید میں انہوں نے لگا تار چار ہفتے بغیر کسی وقفے کے ہر رات اس کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ چند مہینے تک اس دوران کچھ گیگا بائٹ مواد انہوں نے جمع کرلیا تھا۔ جب اس حاصل کردہ اعداد و شمار کی چھان بین کی تو اس میں سے انہوں نے ساٹھ کے قریب جھلملاتے ستارے ملے ۔ جھلملاہٹ دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کہ سیارے ستاروں کو عبور کر رہے ہوں ، کیونکہ ستاروں کی روشنی صرف ایک سے تین فیصد کے قریب کم ہو رہی تھی ، اصل مرحلہ اس بات کا یقین کرنا تھا کہ اس میں سے کون سے اشارے غلط تھے ۔

اوگلی دوربین سے حاصل کردہ ضیا پیمائی کا مواد بذات خود اس قابل نہیں تھا کہ وہ ان ستاروں کی نشاندہی کر سکے جو باقاعدہ روشنی کو ہلکا کرتے ہیں ۔ مزید معلومات جیسا کہ نجمی ضیا پیمائی کے اعداد و شمار یا زمین سے فاصلہ دستیاب نہیں تھا کیونکہ یہ تمام ستارے بہت ہی مدھم اور دور تھے اور ہم ان کو پہلے سے نہیں جانتے تھے ۔ اوگلی کی ٹیم نے عبوری امیدواروں کی پوری فہرست انٹرنیٹ پر(کسی بھی جریدے میں چھپنے سے پہلے ہی ) شایع کردی اور دنیا بھر کے فلکیات دانوں اور سیارہ شناسوں کو دعوت دی کہ وہ ان میں سے سیاروں کو تلاش کریں ۔ مقابلہ شروع ہو گیا تھا ۔

جیسے ہی اوگل کی پہلی فہرست انٹرنیٹ پر نمودار ہوئی ، میرے نوجوان رفیق کار کرس اسٹانیک (Kris Stanek)چلتے ہوئے میرے دفتر تشریف لائے اور مجھے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیاروں کی دریافت کا چیلنج دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں یہ کام ہو سکتا ہے کیونکہ ہارورڈ –ا سمتھ سونین سینٹر فارایسٹرو فزکس کے پاس شاید ذرائع بھی تھے بلکہ زیادہ اہم ان کا تجربہ تھا۔ تجربے کے معاملے میں تو میں نے ان کی تائید کی تھی کیونکہ صرف دو سال قبل ہی پہلے عبوری سیارے HD 209458b کی دریافت ہماری مقامی کھوج ہی تھی ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اوگل کی فہرست میں موجود سیاروں کی تصدیق کے لئے ایک بالکل نئی طریقے کی ضرورت تھی ۔ درحقیقت عبوری طریقے سے سیارہ شناسی کو مکمل طور سے از سر نو ترتیب دینا تھا ۔ ١٩٩٠ء کے عشرے کے اس سادہ طریقہ جس میں ضیا پیمائی کا استعمال کرتے ہوئی ستاروں کی جھلملاہٹ کو تلاش کیا جاتا تھا کوئی قابل ذکر نتیجہ فراہم نہیں کر سکا تھا۔

سب سے پہلا کام جو کرنے کا تھا وہ اس فہرست نے خود ہی بتا دیا تھا ۔ ان میں سے کچھ عبوری امید وار اپنی روشنی میں یکے بعد دیگر جھلملاہٹ میں تبدیلی دکھا رہے تھے ۔ میں اس جھلملاہٹ کو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا تھا ، مگر ان کا سیاروں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ جب دو ستارے جن کو ہم ثنائی ستارے بھی کہتے ہیں اور جن کا حجم اور مدار مکمل کرنے کا وقت بھی تپتے ہوئے مشتری سیاروں جتنا ہی ہوتا ہے؛ ایک دوسرے کے گرد انتہائی نزدیک مدار میں چکر لگاتے ہیں تو درحقیقت وہ ایک دوسرے کو کھینچتے ہوئے آڑو کی شکل کا کر دیتے ہیں ۔ ان کی غیر متشاکل(Asymmetric) ساخت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک دور دراز شاہد کے لئے ان کی سطح کی شکل مدار میں چکر لگاتے ہوئے مختلف ہو سکتی ہے یوں ان سے آنے والی روشنی بھی تبدیل ہوتی نظر آسکتی ہے ۔ مزید براں ستارے ایک دوسرے کو منور بھی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بھی ان سے آتی روشنی میں فرق آ جاتا ہے ۔ اب اگر اتفاق سے مدار میں چکر لگاتے ہوئے دو ستارے ایک دوسرے کی بالکل صحیح ترتیب میں آ گئے ہوں تو ہمیں ستارے ایک دوسرے کو گرہن لگاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ صرف ایک مسئلہ یہ ہے کہ ستارے بڑے ہوتے ہیں اور ان کے گرہن کافی گہرے ہوتے ہیں (اتنے گہرے کہ پہلا ثنائی ستارہ چشم عریاں سے ١٧٨٢ء میں جان گڈریک[John Goodricke] نے دریافت کیا تھا )۔ اوگل گرہن اس سے دس گنا زیادہ چھوٹا ہوتا ہے ؛ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟

اس جگہ پر میرا نجمی طبیعیات کا پیش منظر بہت کام آ سکتا تھا ۔ یہ اوگل امیدوار یقینی طور پر گرہن لگتے ہوئے ستارے تھے ، ممکنہ طور پر یہ ثنائی ستاروں سے دو طرح سے مختلف ہو سکتے تھے ۔ یا تو ایک تیسرا ستارہ ان کے درمیان موجود تھا ، یا پھر کوئی بہت ہی چھوٹا ستارہ کسی بہت بڑے ستارے کے مدار کے ساتھ موجود تھا ۔ پہلی صورت میں تیسرا ستارہ گرہن کی گہرائی کو صاف کر دیتا تھا جس کے نتیجے میں وہ دھندلا ہو جاتا تھا ؛ دوسری صورت میں گرہن اتھلا ہو کر شروع ہوتا ہے ۔اوگل کی فہرست میں موجود ایک یا دو ستارے ،ستاروں کے بے جوڑ نشان کے غماز بھی تھے، کیونکہ چھوٹے ستارے کی وجہ سے اس میں مشکل سے ہی کوئی گرہن تھا ۔ مسئلہ اس بات کی تلاش کا تھا کہ کیا اوگل کی فہرست میں موجود باقی ستارے بھی گرہن لگے ہوئے ثنائی ہیں یا نہیں ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب چہارم - حصّہ سوم

عبور کا تعاقب


ہمارے بنیادی مسئلے کا حل یعنی غلط امیدواروں کو اصل عبوری سیاروں سے الگ کرنا، ستاروں کے کام کرنے کے طریقے کی سمجھ کے پچاس سالہ تجربے میں موجود تھا جس کو نظریہ نجمی ارتقاء کہتے ہیں ۔ مختلف کمیت کے ستاروں کا درجہ حرارت اور ان کی تابانی کا اندازہ ان کے ارتقاء کے مختلف ادوار میں کافی درستگی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے اور ثنائی ستارے بھی اسی عمر کے ہوتے ہیں ۔ اس یقین ہو جانے کے بعد کہ یہ نجمی ارتقاء کا بنیادی علم ہی اس مسئلہ کا حل ہو سکتا ہے ، میں نے مرحلے وار اقدام اٹھانے کی منصوبہ بندی کی جو جھلملاتے ستاروں کی روشنی میں، عبوری سیاروں کی وجہ سے ہونے والی، کمی کی تصدیق کے لئے ضروری تھی ۔

میں ستاروں کا نظریہ کار تھا اور اگرچہ مجھے دوربین اور اس کے ذیلی آلات کے استعمال میں بہت سرور حاصل ہوتا تھا تاہم میں اوگل چیلنج سے نمٹنے کے لئے خود سے انتظام نہیں کر پا رہا تھا۔ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت تھی ۔ گئیےمو ٹورس ](عرف عام میں ولی)[Guillermo Torres، جو ثنائی ستاروں اور ضیا پیمائی کے مشاہدے کے ماہر تھے وہ اس کام کو کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور ہم اس بات پر بھی رضا مند ہوگئے تھے کہ اپنے کسی ایسے سند یافتہ طالبعلم سے بات کریں گے جو دھندلے ستاروں کی ضیا پیمائی یا پھر ستاروں کے پھٹتے وقت ان سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ وہ طالبعلم سورابھ جھا(Saurabh Jha) تھا ، جو اس وقت دور دراز سپرنووا کی جاسوسی میں لگا ہوا تھا تاکہ تاریک توانائی کو سمجھ سکے ۔ سورابھ ماورائے شمس سیاروں کے بارے میں پہلے سے ہی کافی پرجوش تھا ؛ اس نے ہمارے سینیئر سند یافتہ طالبعلم ڈیوڈ چر بونو کے ساتھ HD 209458b کے عبوری مشاہدے میں تعاون کیا تھا ۔ اسی دوران ڈیو نے کالٹک میں رہتے ہوئے عبوری سیاروں کو دیکھنے کے لئے اپنی دوربینخود بنانی شروع کردی ۔

ولی ، سورابھ اور مجھے تو فوراً کام شروع کرنا تھا ۔ ہمارے اس نئے طریقے میں کئی درجے تھے ۔ ممکنہ عبور کی شناخت کی ضیا پیمائی کرنے کے بعد ہم نے اکلوتے ہلکے یا درمیانی ریزولوشن کے ستارے کا طیف لیا تاکہ اس بات کا پتا لگا سکیں کہ آیا وہ کوئی ضخیم ستارہ تو نہیں ہے ۔ اگر وہ ضخیم ستارہ ہوتا تو ہم اس کو چھوڑ دیتے ۔ اگر وہ ضخیم نہیں نکلتا تو ہم اس کا مزید طیف حاصل کرتے تاکہ ایک بڑے ڈوپلر منتقلی کا اثر اس میں دیکھ سکیں ۔ ایک بڑی ڈگمگاہٹ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ "عبور " سیارے کے بجائے ستارے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا ہے ۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی دوربین کی ضرورت تھی جس کے ذریعہ سب سے بہتر ضیا پیمائی ہو سکتی ہو۔ اگر ہمیں چھوٹی ڈگمگاہٹ ملتی ، تو اگلے قدم کے طور پر ہم طیف کا تجزیہ کرتے تا کہ دیکھ سکتے کہ آیا جذبی طیفی خطوط مسخ تو نہیں ہو رہے تھے۔ اگر ایسا کوئی بگاڑ موجود نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی دوسرے طیفی خطوط نظر آتے تو ہم تمام مشاہدات کو ایک ساتھ جمع کرتے اور پھر ان کا مقابلہ مختلف نجمی ارتقائی نمونوں سے اندازہ لگائے ممکنہ پیش منظر اور پس منظر کے ستاروں سے پیدا ہوئے بگاڑ سے کرکے دیکھتے۔ سب کچھ کر لینے کے بعد اگر یہ غیر متزلزل طور پر متحد نظر آتے تو نہ صرف سیارے کی تصدیق ہو جاتی بلکہ اس کا حجم اور کمیت بھی کافی درستگی کے ساتھ معلوم ہو سکتی تھی ۔ ولی اور مجھے ایک نجمی اور ثنائی ستارے کا نمونہ بنانا تھا تاکہ ہم نظام کا تجزیہ کرکے اس بات کا تعین کریں کہ آیا وہ ستارے ہیں کہ سیارے۔

تاہم ہارورڈ میں ہمارے پاس ایسی بڑی دوربین تک رسائی نہیں تھی جس کا استعمال کرکے ہم انتہائی درستگی کے ساتھ اوگل کے بہت ہی دھندلے ستاروں کی ضیا پیمائی اور ڈوپلر منتقلی کے طریقے کو ناپنے سکتے۔ صرف سب سے بڑی دوربین کیک ہی ایسا کر سکتی تھی مگر اس کے استعمال کا زیادہ تر وقت معاون اداروں یعنی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور کالٹک کے پاس تھا جنہوں نے اسے بنایا تھا ۔ خوش قسمتی سے میرا چلتا ہوا اشتراک کیک کی دونوں دوربینوں کے رفقائے کاروں سے تھا جو کالٹک میں موجود تھے اور وہ بصری فلکیات کے جادوگر تھے ۔ کالٹک میں ، ماچی کوناکی (Maciej Konacki) – ایک نوجوان محقق جو میرے رفیق کار شری کلکرنی (Shri Kulkarni)کے ساتھ کام کر رہے تھے اور پول (Pole)بھی (اوگل کی باقی ٹیم کی طرح ) - بہت زیادہ پرجوش تھے اور کیک کو اس مہم کے آخری مرحلے میں شامل کرنے کے لئے تیار تھے۔ کیک کا آلہ - پرانا قابل بھروسہ ہائرس (ایچ آئی آر ای ایس )ضیا پیما اسٹیو ووگٹ(Steve Vogt) نے بنایا تھا اور اس کا استعمال کرتے ہوئے جیوف مارسی نے بہت سے ماورائے شمس سیارے ڈوپلر منتقلی کے طریقے کے ذریعہ سے دریافت کیے تھے ، یہ ہمارے لئے استعمال کے لئے دستیاب تھا اور ماچی نے اس بات کا پورا اطمینان کرلیا تھا کہ ہم سیاروں کی دریافت کے آخری اور اہم مرحلے کو یقین کے ساتھ مکمل کر سکیں ۔

موسم گرما بہت مصروف گزرا ، پہلے ہم نے چلی اور ہوائی میں مشاہدے کیے ، جہاں کیک رصدگاہ موانا کیا کے بڑے جزیرے کی چوٹی پر نصب ہے ، اور اس کے درمیان حاصل ہونے والے مواد کا تجزیہ جتنا جلدی ممکن ہو سکا کیا ۔ ہم صرف اس لئے جلدی میں نہیں تھے کہ ہم جانتے تھے کہ یہاں پر ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور مقابلے کانٹے کا ہے ، بلکہ اس لئے تھے کہ ہمارے کام کا مقصد صحیح طرح سے ان مرحلوں کو پورا کرنا تھا جس میں ہمیں غلط اشاروں کو شناخت کرکے ساتھ ساتھ الگ کرنا اور کیک میں ملے قیمتی وقت کا درستگی سے استعمال کرنے کا تھا ۔چلی میں ملنے والے شروع کے ابتدائی مرحلوں سے حاصل کردہ نتائج بہت ہی زبردست تھے :اوگل کے امیدواروں میں سے اکثریت عبوری نہیں تھے یعنی کہ وہ سیارے نہیں تھے جس کے نتیجے میں نوے فیصد اوگل کی فہرست سے امیدوار خارج ہو گئے تھے ۔

خوش قسمتی سے ہمارے پاس پانچ امیدوار کیک میں مشاہدے کے لئے باقی بچ گئے تھے ۔ ہم خوش گمان تھے ، لیکن یہ بات پہلے ہی واضح ہو گئی تھی کہ شروع کی ہماری بلند توقعات جس میں ہم سمجھ رہے تھے کہ آدھے سے زیادہ عبوری سیارے ہو سکتے ہیں ، بری طرح سے مجروح ہو چکی تھیں۔ اب بھی مزید کم از کم دو امتحان باقی تھے جس میں سے ان بچے ہوئے امیدواروں کو گزرنا تھا ۔ یہ بات ممکن نہیں تھی کہ تمام ہی امیدواروں کو فہرست سے خارج کر دیا جائے ۔ یاد ماضی میں ہم اس بات پر کافی خوش تھے کہ ہمارا عبوری طریقہ ابھی تک کام کر رہا تھا اور پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہمیں دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل ہے اور ہم ان سب سے آگے ہیں ، دوسرے لوگ غلط اشاروں کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے ۔ اگر غلط اشارے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتے ، تو لازمی طور پر مقابلے کی دوڑ میں شامل دوسرے لوگ فہرست میں موجود کسی سیارے کو قسمت سے پا لیتے اور ہمیں کم از کم ایک مہینے یا اس سے بھی کم میں مات دیتے ہوئے سیارے کی دریافت کا اعلان کر دیتے!

کیک سے کئے گئے مشاہدے زبردست رہے ، اور ہمیں واضح طور پر ایسا لگ رہا تھا کہ جن چار امید واروں کا ہم نے مشاہدہ کیا تھا ان میں سے ایک صاف طور پر سیارہ ہی تھا: OGLE-TR-33۔ اس کو یہ عجیب نام اس لئے ملا تھا کہ فہرست میں موجود کوئی بھی ستارہ اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا ، لہٰذا اس کو فہرست میں ملی جگہ کی مناسبت سے نام دے دیا گیا۔ یہ فہرست اس ٹیم کی تیار کی تھی جس نے اس کا سب سے پہلے مشاہدہ کیا تھا ۔ ستارہ ٣٣ میں واضح ڈگمگاہٹ موجود تھی جس کا حیطہ یا فراز موج کافی بڑے سیارے یا شاید ایک بھورے بونے سے مطابقت رکھتی تھی۔ بھورے بونے ناکام ستاروں کو کہتے ہیں ۔ عبوری بھورے بونے کو تلاش کرنا بھی اتنا ہی جوش سے بھرا تھا جتنا کہ ایک بڑے سیارے کو ۔ لہٰذا ہم نے OGLE- TR-33 کو جلدی سے جانچنا شروع کیا ، تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ آیا یہ ہمارے آخری مرحلہ امتحان میں بھی کامیاب ہوگا یا نہیں ۔ ہمیں یقین نہیں آیا - ہم نے تو نیچر جریدے کے لئے ایک مقالہ بھی اپنی جانچ کے دوران لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ اب ہمیں اس کو چھوڑنا پڑا تھا ۔ اسی دوران ، ایک اور امید وار جو سر فہرست تھا وہ بھی تمام امتحانات سے سرخ رو ہو گیا تھا ۔ شروع میں ہم نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی کیونکہ OGLE- TR-33 میں ہمیں واضح طور پر ایک بڑی ڈگمگاہٹ نظر آئی تھی اور وہ ایک آسان ہدف لگ رہا تھا ۔ یہ دوسرا ستارہ OGLE-TR-56 تھا اور یہ مشتری کی کمیت جتنا لگ رہا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب چہارم - حصّہ سوم

عبور کا تعاقب


نومبر ختم ہونے کو تھا ، بالآخر ہم نے OGLE-TR-33 کی نوعیت جان لی : یہ تین ستاروں پر مشتمل نظام تھا ، جس میں سے دو ایک دوسرے کے مدار میں انتہائی نزدیک چکر لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو گرہن لگا رہے تھے ، جبکہ ایک بڑا قریبی ستارہ ، جو اس نظام میں جسیم اور زیادہ روشن تھا ، وہ ان گہرے گرہن کی شدت کو کم کر رہا تھا ۔ تیسرے ستارے کی اپنی کوئی ڈگمگاہٹ نہیں تھی ، لیکن نظام میں موجود ایک دوسرے ستارے کی بڑی ڈگمگاہٹ (جس کے طیفی خطوط میں زیادہ ڈوپلر منتقلی کا اثر تھا ) تیسرے ستارے کے طیفی خطوط میں گڑبڑ کر رہی تھیں ۔ کیونکہ تیسرا ستارہ بہت تیزی سے گھوم رہا تھا اور اس کے طیفی خط کافی چوڑے تھے ، لہٰذا یہ تھوڑی سی گڑبڑ ہی اتنی تھی کہ ہمیں ایک ایسی چھوٹی ڈگمگاہٹ کا تاثر دیتی جو کوئی سیارہ ہی دے سکتا تھا یہ اثر گرہن کو دھو کر اتھلا کرنے جیسے ہی تھا۔OGLE-TR-33 ایک بہت ہی چالباز قسم کا غلط اشارہ تھا !

اب ہم نے اپنی پوری توجہ صرف OGLE-TR-56 پر مرتکز رکھی ہوئی تھی ۔ یہ ہمارے لئے ہوئے تمام امتحانوں سے سرخ رو ہو کر نکل گیا تھا ، جس میں طیفی خطوط کی جانچ بھی شامل تھی جو ہم نے OGLE-TR-33 کے غلط اشارے سے حاصل کی تھی ۔ ہمیں اس بات پر پورا اعتماد تھا کہ OGLE-TR-56b ایک سیارہ ہی تھا کیونکہ ہمارا OGLE-TR-33 اور دوسرے غلط اشاروں سے حاصل کردہ تجربہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ۔ ہمارا طریقہ کام کر رہا تھا اور ہمارے لکھے ہوئے مقالے کو جلد ہی نیچر جریدے نے قبول کرلیا تھا ۔ جنوری ٢٠٠٣ء کے پہلے ہفتے میں ، سیٹل میں امریکن ایسٹرو نومیکل سوسائٹی میں اپنی دریافت کو دکھانے کے لئے میں نے جہاز لیا ۔ ٢٣٥ برس پہلے کپتان جیمز کک کی طرح جب ہم نے بحرالکاہل کو پار کرتے ہوئے ، عبور میں جھانکا تھا اور ہم کامیاب ہوئے تھے ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ OGLE-TR-56b ایک اجنبی سیارے تھا - اس کے پاس کئی طرح کے امتیازات تھے : سب سے کم مدار میں چکر لگانے کا وقت (صرف ٢٩ گھنٹوں کا )، سب سے گرم سیارہ (٢ ہزار کیلون کے لگ بھگ درجہ حرارت )، جبکہ یہ سب سے دور کا ماورائے شمس سیارہ بھی تھا (زمین سے پانچ ہزار نوری برس کے فاصلے پر )۔ اس کی اجنبی خصوصیات نے ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کر لی تھی ، جبکہ ہمارے اور سیارہ شناسوں کے لئے سب سے بڑی خوشی سیاروں کی دریافت کے لئے عبوری طریقے کا آخر کار وضع ہونا تھا ۔ مختصراً غیر متوقع بڑے غلط اشارے سب سے بڑا مسئلہ تھے ، اور ہمارے جانچنے کے مراحل اور نجمی نمونوں نے ان مسائل کو حل کر دیا تھا ۔ اگلے تین برسوں میں ہمارے ساتھ دوسری کئی ٹیموں نے ، ہماری وضع کیے ہوئے طریقے کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ ایک درجن سے زائد عبوری نئے سیارے دریافت کیے تھے ۔ ایک اصلی کرۂ ارض جیسے سیارے کی تلاش کا راستہ اب کھلا ہوا تھا ۔ کھوج کا ایک نیا دور کھل گیا تھا ۔

تلاش کا پہلا دور پندرہویں صدی میں شروع ہوا تھا ۔ ١٤٨٤ء میں ایک آدمی جس کی کوششوں نے اس دور کو ممتاز مقام دلوایا وہ جینووا کا کرسٹوفر کولمبس(Christopher Columbus) تھا جس نے ولندیز یوں کے بادشاہ جوا دوم (João II)کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ وہ اس کی بحر اوقیانوس کو پار کرنے کی مہم میں مالی تعاون کرے۔ بادشاہ تذبذب کا شکار تھا ، اس وجہ سے نہیں کہ وہ زمین کو چپٹا سمجھتا تھا ، بلکہ اس لئے کہ کولمبس اس بات پر مصر تھا کہ زمین خط استواء پر صرف دس ہزار میل پر پھیلی ہوئی ہے اور پچھم کی طرف ہندوستان اور مصالحوں کے جزیرے کی طرف جانے والا راستہ مختصر ہے ۔ ولندیزی ملاحوں (جن کو شہزادہ ہنری کا شکر گزار ہونا چاہئے ، جواس صدی کے شروع کے جہازراں تھے۔ انہوں نے افریقی ساحل کے ساتھ اوپر اور نیچے کی جانب بحر اوقیانوس میں جہاز چلایا تھا ) نے قطب سے قطب تک کرۂ ارض کے حجم کا بہت زیادہ اندازہ لگایا تھا۔ لیکن ان کا حاصل کردہ حجم قریب قریب ٢٥ ہزار میل تھا جو اصل کے آس پاس ہی تھا ۔(تین صدی قبل مسیح پہلےایراتوستینیز (Eratosthenes)، جو ایک یونانی ریاضی دان تھا ، اس نے بھی اسی حجم کا اندازہ پہلے سے لگا لیا تھا ۔) اسی لئے جب کولمبس نے اسپین کو چھوڑا تو بادشاہ جوا نے اس کو روپیہ نہیں دیا۔ اس کے پاس غلط اعداد و شمار تھے مگر قسمت کی دیوی اس پر مہربان تھی اور اس نے ایک نئی دنیا کھوج لی تھی ۔ اسی دوران پرتگالی افریقہ سے گھومتے ہوئے ہندوستان پہنچ گئے۔

ایک نئے ارض جیسے سیارے کی تلاش کی بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی ۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے اواخر سے سیاروں کو کھوجنے کے لئے ہمارے پاس علم اور فن دونوں ہی موجود تھے۔ اب ہم سفر پر روانہ ہو گئے تھے اور اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ دن کب آئے گا جب ہم میں سے کوئی ایک نئی "ارض" کو تلاش کر لے گا!

پرتگالی ملاحوں کی طرح جنہوں نے شروع میں آس پاس کی جگہوں کو کھنگالا تھا ، سیارہ شناسوں کو بھی ایسا ہی کرنا تھا ۔ ملاحوں نے بحر اوقیانوس کا جوکھم اٹھا کر آزورس (Azores)جیسے جزیرے کو تلاش کیا تھا یا افریقہ کے ساحل سے دور ، یا شاید ایک ابتدائی جھلک جنوبی امریکہ کی برازیل کے ساحل کی صورت میں دیکھ لی تھی۔ ہماری ٹیم نے بھی شروع میں "سونے کی تلاش " کی طرح سیاروں کی دریافت کی جانب قدم اٹھایا ۔ سب سے زیادہ خاص ہماری ہنگری کی بنی ہوئی خود کار دوربین ، جو ہیٹ منصوبے کے نام سے یا نیٹ ورک (یا مختصراً ہیٹ نیٹ) سے جانی جاتی ہے ۔ ہیٹ نیٹ کو میرے ایک نوجوان رفیق نےایک ساتھ جوڑ کر بنایا جس کا نام گسپر باکوس (Gaspar Bakos)تھا ۔ گسپر ہارورڈ –اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس میں بطور سند یافتہ طالبعلم کے طور پر آیا تھا جس کی سفارش پرجوش طور پر میرے استاد محترم (جو گسپر کے بھی استاد تھے ) یعنی پرنسٹن کے بو دان پیک زنسکی(١٩٤٠-٢٠٠٦ء) نے کی تھی۔ اس کی سفارش کے پیچھے جو وجہ یہ تھی کہ گسپر وہ شخص تھا جو ڈیجیٹل انقلاب(جیسا کہ کسی بھی ڈیجیٹل کیمرے میں موجود سستی سی سی ڈی ) اور تصویروں کو پراسیس کرنے کا فائدہ اٹھانا جانتا تھا ۔ ان دونوں ٹیکنالوجیوں کے استعمال کا مطلب ہے کہ ہم "ہر وقت سارے آسمان "کو دیکھ سکتے تھے ۔ یا کم از کم کافی سارا آسمان تو اکثر دیکھ ہی سکتے تھے ۔ بودان کو یقین تھا کہ اس سے فلکیات کی دنیا میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔ پہلے کی طرح اس دفعہ بھی اس کا اندازہ ٹھیک ہی نکلا ۔

"تمام آسمان ہر وقت " طریقے کو اختیار کرکے کافی کام کی چیزیں کی جا سکتی ہیں مگر عبوری طریقے سے سیاروں کی ڈھونڈنے کا تو اپنا ہی مزہ ہے ۔ میرا اور میرے رفیق کار رابرٹ نویز(Robert Noyes) کا تو یہی خیال تھا اور گسپر بھی کسی حد تک ہم سے متفق تھا ۔ لہٰذا ہیٹ نیٹ کی پیدائش دو بر اعظموں میں انتہائی قلیل بجٹ سے شروع ہوئی ۔ اس میں دوربین کے لئے تصویر کشی کے آلات اور شوقیہ درجے کی سی سی ڈیز مگر پیشہ ور صورت گری اور مشین ہارڈویئر ( جو ہنگری گسپر کے آبائی وطن میں بنی ہے ) اور سافٹ ویئر موجود ہے ۔

ہیٹ نیٹ چھ چھوٹی دوربینوں پر مشتمل ہے (یہ دوربینیں ان بڑے کیمروں سے زیادہ الگ نہیں ہیں جس میں پیشہ ور فوٹوگرافر زوم کرنے کے لئے عدسے استعمال کرتے ہیں )، ان میں سے چار جنوبی ایریزونا میں ماؤنٹ ہوکینس میں نصب ہیں اور دو موانا کیا میں ۔ یہ خود کار ہیں ، جو ایک انتہائی ہوشیار لکھے ہوئے کمپیوٹر پروگرام کے احکامات کو مانتی ہیں ۔ کمپیوٹر پروگرام میں ان پٹ (جیسا کہ ،اس بات کو اولیت دینا کہ کس چیز کا مشاہدہ کرنا چاہئے ) دن کے دوران فلکیات دانوں سے حاصل کیا جاتا ہے ؛ پھر وہ پوری رات روبوٹ کی طرح کام کرتی ہیں ۔ ہیٹ نیٹ اس وقت کام کرنا بند کر دیتی ہے جب بہت زیادہ بادل یا درشت قسم کا موسم ہوتا ہے اور ایریزونا اہم معلومات ہوائی کو دیتی رہتی ہے ۔ لہٰذا ہیٹ نیٹ کی دو دوسری دوربینیں جو ہوائی میں موجود ہیں وہ اپنا کام رات میں شروع کرکے اس کے کام کو آگے بڑھاتی ہیں جو ایریزونا کی دوربینیں اس وقت نہیں دیکھ سکتی ہیں ۔ ایریزونا اور ہوائی میں نظریں جمائے ہوئے ، ہیٹ نیٹ موثر طور پر اپنا کام بارہ سے پندرہ گھنٹے تک کرتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ زیادہ عبوری سیاروں کو دیکھ اور پکڑ سکتی ہیں ۔ہیٹ نیٹ کو مشتری اور زحل کے حجم کے سیاروں کو ڈھونڈنے کے لئے بنایا گیا ہے جو قریبی ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۔ ابھی تک اس نے تیس کے قریب سیارے دریافت کئے ہیں ، جس میں سے کچھ (مثال کے طور پر HAT-P-11b) نیپچون کے حجم کے ہیں؛ اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ، ہیٹ نیٹ اور اس جیسے دوسرے منصوبوں نے سیاروں کو عبوری طریقے سے ڈھونڈنے کا "سونے کی تلاش " جیسا رجحان جنم دے دیا ہے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب چہارم - حصّہ چہارم

عبور کا تعاقب


جس طرح کوئی بھی کھرپی اور مٹی چھاننے کا برتن (جس سے مٹی میں سے سونا نکالا جاتا ہے) لے کر کیلی فورنیا پہنچ جاتا ہے اسی طرح فلکیات دان بننے کے شوقین مکمل کامیابی کے ساتھ اپنے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے سیاروں کی کھوج کر لیتے ہیں (تفنن برطرف کوئی بھی ایسا نہیں کرتا)۔صرف قلیل بجٹ کی بات نہیں تھی ، اگرچہ بڑے مرغے جیسا کہ ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی اس دوڑ میں شامل ہونے کے لئے زیادہ انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔ اگرچہ عبوری شکار کا طریقہ محدود بجٹ میں رہ کر بھی بنایا جا سکتا ہے ، بڑے اداروں کو اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنے آلات کو خلاء میں لے جا سکتے ہیں ۔ ستارے زمین پر سے مشاہدہ کرتے ہوئے ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ ہوا مستقل حرکت میں رہتی ہے ، اور وہ صرف ایک ہی سمت میں حرکت نہیں کرتی ، ہوا کی رو مختلف بلندیوں پر مختلف ہوتی ہے ۔ ہوا کی رو ایک طرح سے کثیر عدسوں کی طرح سے کام کرتی ہے جو نقطے نما ستاروں کی شکل کو بدل دیتی ہے ، بعینہ ایسے جیسے کہ سورج کی روشنی سوئمنگ پول کی تلی میں کھیل کرتی ہے ۔ زیادہ تر جھلملاہٹ بلند تعدد ارتعاش (High Freuqncy)پر ہوتی ہے - ایک سیکنڈ کے سینکڑویں حصّہ میں ایک دفعہ ۔ اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ کسی بھی زمین جیسے سیارے کا سورج جیسے ستارے کو عبور کرتے وقت پتا چلانا عملی طور پر بڑی دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی ناممکن ہے ۔ خلاء میں موجود دوربین کے اپنے مسائل ہیں (اگرچہ ہبل خلائی دوربین نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ وہ مشکلات بھی ناقابل تسخیر نہیں ہیں )، مگر چھوٹے سیاروں کو تلاش کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ۔

یوروپی پہلے سے ہی ایک منصوبہ بنائے ہوئے ہیں جو با آسانی سیاروں کی تلاش میں کام آ سکتا ہے ۔ایصال حرارت(Convection) اور ستارے کے گھماؤ کو دیکھ کر (جس کو کوروٹ یعنی سی او آر او ٹی بھی کہتے ہیں ، اور یہ شہرہ آفاق تاثراتی مصوّر کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے )، دوربین ستاروں کی ہزار ہا تصاویر حاصل کر سکتی ہے ، جو تاثراتی تصاویر جیسے ہوں گی ، تاکہ ان کی سبک روشنی میں ہونے والی تبدیلی کا مطالعہ کیا جا سکے۔ یہ ستاروں کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھنے میں ہماری مدد کریں گی جیسا کہ ان کا گھماؤ اور ان کے اندرونی ایصال حرارت ۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوروٹ اس عمل کے دوران عبوری سیاروں کا سراغ لگانے کے لئے بہترین کام کر سکتی ہے اس کا نام اب ایصال حرارت، گھماؤ اور عبور کے الفاظ کا مخفف ہو گیا ہے جس کو انگریزی میں "سی او آر او ٹی"( یعنی کوروٹ ) کہتے ہیں۔

اسی دوران شروع میں ہی ناسا نے ایک خلائی دوربین کی مالی معاونت کرنے کا موقع گنوا دیا تھا یہ دوربین صرف عبوری سیاروں کو دریافت کرنے کے لئے مخصوص ہوتی ، ایک ایسی دوربین جس کا مقصد زمین جیسے چھوٹے سیاروں کی دریافت کرنا ہوتا اور یہ اس بات کا تعین بھی کرتی کہ ہمارے جیسے سیارے کائنات میں کتنے عام ہیں ۔ کیلی فورنیا میں واقع ناسا ایمز ریسرچ سینٹر کے ولیم بوروکی (William Borucki) نے ادارے کو کافی قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس کا تجربہ کامیاب ہوگا ۔ یہاں تک کہ اگر ہم کوئی زمین جیسا سیارہ دریافت بھی نہ کر پائے تب بھی اس مہم کا فائدہ ہی ہوتا ۔ یعنی زمین جیسے عبوری سیارہ کی دریافت نہ ہونے کا مطلب اس بات کا ثابت ہونا ہوتا کہ ہمارے جیسے سیارے کائنات میں نایاب ہیں۔ ناسا کے پینل نے اس کی تجویز کو رد کر دیا تھا، لیکن ١٩٩٩ء میں بل بوروکی نے دوبارہ سے اپنے عملے کو جمع کرکے اس کی تجویز پیش کی ؛ اس نے مجھے اور دوسرے درجنوں رفقائے کاروں کو اپنے ساتھ مل جانے کی دعوت دی ۔ڈوپلر منتقلی کے طریقے کو استعمال کرتے ہوئے کئی ماورائے شمس سیاروں کی کامیاب دریافت ایک زبردست تحریک تھی ۔

ہرچند کہ اس وقت میں نے اس مسئلہ پر کچھ زیادہ کام نہیں کیا تھا ، میں نے سب سے پہلے ایسے سیاروں کی دریافت پر١٩٩٩ء میں اس وقت توجہ دی تھی ، جب ہمارے گروہ نے مل کر ناسا کو ایک اختراعی قسم کی خلائی دوربین بنانے کی تجویز پیش کی تھی جس کا مقصد سیاروں کی کھوج تھا ،یہ گروہ زیادہ تر ہارورڈ –اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس پر مشتمل تھا، اور اس میں زیادہ تر شاہد اور انجنیئر تھے ۔ اس دوربین میں گول کے بجائے مربع کی شکل میں آئینے لگے ہوئے تھے ۔ میرے رفیق کار کوسٹاس پاپا لیولیوس(Costas Papaliolios) اور پیٹر نیسن سن(Peter Nisenson) نے اس عجیب دوربین کو ڈیزائن کیا تھا تاکہ نجمی چمک کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جا سکے اس طرح سے ستارے کے نزدیک سمٹے ہوئے سیارے کی جھلک مل سکتی ہے ۔ بیس ماہرین کی ٹیم کے ساتھ ہم نے ایک مفصل سائنٹفک انجینئرنگ کی تجویز پیش کی جس کی رہنمائی ہمارے تجربہ کار خلائی مہم کے سائنس دان گیری میلنک (Gary Melnick) کر رہے تھے ۔

اس ٹیم میں میری ذمہ داری اس بات کی تلاش تھی کہ ہماری دوربین کس قسم کے سیاروں کو دریافت کر سکتی ہے ۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ عظیم ارض ہماری پہنچ میں ہیں ۔(میں مختصراً ان کو عظیم ارض اور عظیم زہرہ کہنا پسند کرتا تھا، کیونکہ فلکیات کی دنیا میں "عظیم " صفت نئی دریافت یا کسی ایسے جسم کا تصوّر کرنا جو حجم میں بہت ہی زیادہ بڑا ہو یا توانائی جو معلوم توانائی سے کہیں زیادہ ہو کے آگے لگانے کی ریت تھی ۔ مثال کے طور پر ستارے جو جسیم ستاروں سے بڑے ہوتے ہیں ان کو عظیم دیو ہیکل کہتے ہیں ، اسی طرح سے وہ دھماکے جو نوتارے سے بڑے ہوں ان کو عظیم نوتارا (یا سپرنووا ) کہتے ہیں اور اسی طرح علی ہذا القیاس۔) یہ مختصر نام چپک ہی گیا جیسا کہ آپ نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا ہوگا۔

آخر کار دسمبر ٢٠٠١ء، ایک مشن جو اب کیپلر مشن کے نام سے جانا جاتا ہے منظور ہوا۔ مارچ ٢٠٠٩ء میں سات سال کے بعد کیپلر کو کیپ کنویرل سے خلاء میں بھیجا گیا جو فلوریڈا میں واقع ہے جس نے دو مہینے بعد زمین پر تصویروں کو بھیجنا اور انتہائی نفاست سے ان ستاروں اور سیاروں کو ناپنا شروع کیا جو ہم سے سینکڑوں برس کی دوری پر تھے۔ کیپلر ناسا کا پہلا مشن تھا جس میں اس بات کی اہلیت تھی کہ وہ زمین کے حجم اور چھوٹے سیاروں کو سورج جیسے ستاروں کے گرد قابل رہائش حصّوں میں ڈھونڈ سکے (یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے )۔ یہ ایک مناسب اوسط درجے کی دوربین ہے ، اس کا حجم ہبل سے آدھا ہے ، مگر اس میں موجود عدسے زیادہ بڑی منظر کشی سب سے بڑے کیمرے کی مدد سے کر سکتے ہیں ۔ یہ کیمرہ ناسا کی کسی بھی سائنسی مہم میں استعمال ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا کیمرہ ہے - ایک ٩٥ میگا پکسل کا عفریت جو لاکھوں ستاروں کی تصویر ایک ہی دفعہ میں اتار سکتا ہے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Top