مکمل عروج و زوال کا فلسفہ ۔ ڈاکٹر مبارک علی

فرخ منظور

لائبریرین
عروج و زوال کا فلسفہ
(تحریر:ڈاکٹر مبارک علی)

قوموں کا عروج و زوال دنیا کی تاریخ میں ایک پیچیدہ ، پراسراراور غم و اندوہ سے بھرپور عمل ہے ۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جو انسانی ذہن کو افسردہ کردیتا ہے اور وہ اس اُتار چڑھائو کے عمل سے یاس و نا امید کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ انسانی ذہن نے قوموں کے عروج و زوال کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے ، مگر اس کے لیے اب تک یہ ایک نہ حل ہونے والا معمہ ہے کہ ایک قوم کن حالات میں عروج حاصل کرتی ہے ، تہذیب و تمدن میں کمال تک پہنچتی ہے اور پھر ایک شاندار ماضی کو چھوڑ کر زوال پذیر ہوجاتی ہے ۔
ابن خلدون نے حکومتوں ، شاہی خاندانوں اور قوموں کے عروج و زوال کو پہلی مرتبہ سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ، اور اس عمل کے پس منظر میں جو قوانین کارفرما ہیں انہیں دریافت کرنے اور ان کے اثرات کو متعین کرنے کی کوشش کی ۔ وہ عروج و زوا کے اس عمل کو انسانی زندگی سے تشبیہ دیتا ہے کہ جس طرح ایک انسان بچپن ، جوانی اور بڑھاپے کے درجات طے کرکے موت سے ہم آغوش ہوجاتا ہے ، اسی طرح سے قومیں بھی ان مرحلوں سے گذر کر زوال پذیر ہوجاتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موت سے دوچار ہونا ہر قوم کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے اور ایسی کوئی صورت نہیں کہ قومیں خود کو موت سے بچا سکیں اور اپنی زندگی کو طول دے سکیں ۔ ابن خلدون کے فلسفہ میں مجبوری اور تقدیر کے تابع ہونا قوموں کی زندگی ہے ۔
ابن خلدون کے بعد اور دوسرے مفکروں نے اس مسئلہ پر سوچ و بچار کی ، ان میں دو نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ اوسوالڈ اشپنگلز ، اور آرنلڈ ٹوائن بی اشپینگلز نے اپنی کتاب ’’زوال مغرب‘‘ میں تہذیبوں کے عروج و زوال کا مطالعہ کیا ہے اور ان قوانین کی نشاندہی کی ہے جو اس ڈرامہ کے پس منظر میں عمل پیرا ہیں ۔ اس کے نظریے کے تحت ایک تہذیب جن مرحلوں سے گذرتی ہے اس کی مثال موسموں کی طرح ہے یعنی گرمی ، سردی ، بہار اور خزاں ۔ جب تہذیب خزاں کے موشم میں داخل ہوتی ہے تو اس کے بعد موت اس کا مقدر ہوجاتا ہے لہذا موت سے خوف اور ڈرنے کی بجائے اس کو تسلیم کرلینا چاہیے ۔ یہاں اشپنگلز کے لہجہ واضح اور صاف ہوجاتا ہے وہ یونانی المیہ پہ یقین کرتے ہوئے آخری دور میں بہادری سے موت کو قبول کرنے پر زور دیتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ایک تہذیب اعلی کلچر تخلیق کرلیتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی تخلیقی قوتیں ختم ہوجاتی ہیں اور وہ خستگی کے اس مرحلہ پر پہنچ جاتی ہےئ کہ جہاں موت ہی اس کے لیے نجات کا ذریعہ بن کر آتی ہے ۔
اور دیکھا جائے تو اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہے ، کیونکہ جب کوئی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ، تو زوال کے دور میں اس کی زندگی انتہائی تلخ ہوجاتی ہے ۔ عزت و توقیر کے بعد ذلت و خواری قوموں کو نفسیاتی مریض کردیتی ہے ۔ ایک طرف اس کا ماضی ہوتا ہے تو دوسری طرف حال ،ایسی صورت حال میں قومیں کبھی ماضی کی شان و شوکت میں ڈوب جاتی ہیں تو کبھی حال کی پسماندگی میں ۔ ان کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ خود کو اس دلدل سے نکال کر اپنے لیے کوئی نئی راہ تلاش کریں ۔
آرنلڈ ٹوائن بی وہ تیسرا مورخ ہے کہ جس نے ابن خلدون اور اشپنگلز کے بعد تہذیبوں کے عروج و زوال کے بارے میں ایک نئی راہ دریافت کی ہے ۔ وہ تہذیبوں کے اتار چڑھائو میں جس عمل کو دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر تہذیب کو مسلسل چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اگر وہ چیلنج کا موثر جواب دیتی رہتی ہے تو اس کے نتیجہ میں آگے بڑھتی رہتی ہے ، لیکن جیسے ہی اس کا ردعمل کمزور ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی اس میں زوال کے آثار شروع ہوجاتے ہیں ۔ لہذا اس کی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی تہذیب اس وقت تک زندہ رہ سکتی ہے کہ جب تک اس میں چیلنج کا جواب دینے صلاحیت ہے ۔ ٹوائن بی کے ہاں تہذیبوں اور قوموں کی بقا کی امید اس امر پہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ رکھ کر حالات کا مقابلہ کریں ۔
تہذیبوں اور قوموں کے عروج و زوال کے عمل کو سمجھنے کے لیے ان تینوں فلسفیوں کے افکار مدد کرتے ہیں ، مگر انسانی تاریخ اس قدر پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے کہ ہم ان قوانین کا اطلاق تمام تہذیبون پہ نہیں کرسکتے ہیں ، عام طور پر ان پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے یہ ایک فریم بناتے ہیں ، اورپھر اس میں تاریخ سے واقعات کو چن کر اس میں جڑ دیتے ہیں ، اس لیے ان کی دریافت شدہ قوانین پوری طرح سے تمام تہذیبوں اور قوموں کی تاریخ پر پورے نہیں اترتے ہیں۔
مثلاً اشپنگلز یورپ کے عروج کو فیڈول ازم اور اس کے کلچر سے منسل کرکے دیکھتا ہے ، اس کے نزدیک فیوڈل ازم کے خاتمہ کے ساتھ ہی اعلی کلچر کی تخلیق ختم ہوگئی اور اس کی جگہ عمومی کلچر پیدا ہوا کہ جوانتہائی کم تر اور ناقص ہے ۔ لہذا اس کے لیے زوال مغرب یہی ہے کہ کلچر کی گہرائی کی جگہ عمومیت لے رہی ہے اس طرح یہ زوال ایک طبقاتی نقطہ نظر ہے ۔
ان فلسفیوں کے علاوہ مختلف مورخوں نے قوموں کی تاریخ لکھتے ہوئے ان کے زوال کے اسباب کی نشاندہی کی ہے ۔ مثلاً جب کوئی قوم اپنے ذرائع آمدن سے زیادہ خرچ کرنے لگے ۔ جیسا کہ رومی سلطنت میں ہوا۔ جب کوئی چھوٹی ریاست امپیریل پاور بنتی ہے تو اس کے نتیجہ مٰں اس کا پھیلائو ہوجاتا ہے اور بعد میں آنے والی نسلیں سامراجی عادات اختیار کرلیتی ہیں جس کے نتیجہ میں سماجی راسخ العقیدگی پیدا ہوتی ہے ، معاشرہ تعلیم و تجارت میں ٹھٹر کر رہ جاتا ہے ، انتظامیہ جدیدیت کے خلاف ہوجاتی ہے ۔
جب ریاست امپائر بنتی ہے تو اپنے ذرائع سے آگے بڑھ کر دوسروں کے ذرائع پر انحصار کرنے لگتی ہے اور اس کے ساتھ ہی خود انحصاری کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔
امپائر اپنی محکوم قوموں کے قومی جذبات کو نظر انداز کرکے اس پر زور دیتی ہے کہ وفاداری صرف مرکز سے رہے ، اس کے نتیجہ میں جب محکوم قوموں کی طرف سے مزاحمت ہوتی ہے تو یہ خانہ جنگی کو پیدا کرتی ہے ، ایک وقت تو امپیریل طاقت ان خانہ جنگیوں سے نمٹ سکتی ہے ، مگر ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب مرکزی طاقت کمزور ہوجاتی ہے اور وہ ان بغاوتوں کو کچل دینے مٰن ناکام رہتی ہے ، ہہذا اس کے نتیجہ میں وہ لاقانونیت پھیلتی ہے ، شاہراہیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں ، تجارت و صنعت و حرفت میں کمی آجاتی ہے ، زراعت کے متاثر ہونے سے ریوینو کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ اس صورت حال میں کرپشن اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے ، اور بدعنوان افراد دولت مند ہوجاتے ہیں جبکہ ریاست غریب سے غریب تر ہوجات چلی چلی جاتی ہے ۔ ان حالات میں امپائر کے خاتمہ کے بعد قومیں اپنی سرحدوں پہ واپس آجاتی ہیں۔
اگر اس نقطہ نظر سے قدیم اور جدید قوموں کے عروج و زوال کو دیکھا جائے تو اس عمل کو پوری طرح سے سمجھا جاسکتا ہے ، خصوصیت کے ساتھ یہاں پر دو جدید امپیریل طاقتوں کا ذکر ضروری ہے ترکی اور برطانیہ ۔
سلطنت عثمانیہ کو جب پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی اور ترکی میں مصطفی کمال اتاترک نے جمہوریت قائم کی ، تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ عثامنی سلطنت اور اس کے تمام سامراجی اداروں کو ختم کردیا جائے اور ترکی کو اس کی اصل سرحودوں میں محفوظ کرکے آئندہ سے جنگ سے دور رکھا جائے ، کیونکہ صرف اسی صورت میں ترکی خود کو محفوظ رکھ سکتا تھا ، اس کے بعد ہی سے ترکی میں ایک علیحدہ قومیت کا احساس پیدا ہوا اور انہوں نے ترکی کلچر کی ترقی کی طرف توجہ دی ۔
دوسری مثال برطانیہ کی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس بات کو محسوس کرلیا کہ اس کی محکوم قوموں میں قومیت کے جذبات اس قدر شدید ہوگئے ہی کہ ان پر اب حکومت کرنا مشکل ہے ، اس لیے انہوں نے آہستہ آہستہ ان ملکوں کو آزاد کرنا شروع کردیا اور خود اپنی سرحدوں پر واپس چلے گئے ۔
اگرچہ امپیریل طاقتوں کی واپسی رضاکارانہ نہیں ہوتی ہے تو اس صورت میں محکوم قومیں مزاحمت کے ذریعے انہی مجبور کرتی ہیں کہ وہ شکست تو تسلیم کرلیں اور اپنی حاکمیت کو ختم کردیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تتمام تہذیبوں کے عروج و زوال کی ایک مدت مقررنہیں کی جاسکتی کیونکہ ہر تہذیب اپنے عروج وزوا کے کئی درجے رکھتی ہے ۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ زوال پذیر تہذیب ایک دم زوال پذیر نہیں ہوتی بلکہ اس عمل کے دوران اس میں ٹھرائو بھی آجاتا ہے اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عالمی ریاست یا امپیریل طاقت وحشی قبائل کے حملوں کے نتیجہ میں تباہ ہوجاتی ہے ، اس کے برعکس ان حملوں کے نتیجہ میں یہ طاقتیں ایک نئی توانائی بھی حاصل کرتی ہیں اور ان قبائل کو اپنے اندر ذب کرکے دوبار سے تازہ دم ہوجاتی ہیں جیسے مصر میں ہئس کوس اور اسلام میں ترکوں اور منگولوں نے انہیں ایک نئی زندگی دی ۔ مگر جب معاشرہ یا تہذیب ان وحشی قبائل کو اپنے میں ضم نہیں کرسکے تو اس صورت میں یہ اسے تباہ کردیتے ہیں ، جیسے کہ جرمن قبائل نے رومی سلطنت کو ختم کردیا ۔
اس مرحلہ پر عروج و ترقی اور زوال و پسماندگی کی اصطلاح کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ اور اس ضمن میں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ شاہی خاندان ، قوم اور تہذیب میں کیا فرق ہے ؟ جب تک شاہی خاندانوں کی حکومت ہوتی تھی اس وقت تک ایک قوم یا ملکی و قومی سرحد کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ حکمران خاندان اپنی سیاسی طاقت کو بڑھاتے ہوئے نئے علاقے پر قبضہ کرتے تھے اور نئی اقوام کو محکوم کرتے تھے ، ان کی یہ سرحدیں وقت کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی تھیں ۔ لیکن جب یورپ میں تحریک اصلاح مذہب اور فرانسیسی انقلاب کے بعد قوم کا تصور آیا تو اس کے ساتھ ہی ملکی و قومی سرحدیں بھی متعین ہونا شروع ہوگئیں ۔ اگرچہ اس میں رد بدل ہوتا رہا ، مگر قوم کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کے بارے میں تعین ہوگیا ۔ اسی طرح یورپ تہذیب کے اندر قومی تہذیبیں ہیں اور ان سب نے مل کر یورپی تہذیب کو تخلیق کیا ہے ۔ اگرچہ ان قومی تہذیبوں کے اندر برابری نہیں ہے ۔ کچھ سماجی و معاشی طور پر ترقی یافتہ ہیں اور کچھ پسماندہ ، مگر مجموعی طور پر تمام یورپ کو ایک تہذیب کے دارئے مین لایا جاتا ہے ۔
کسی قوم یا تہذیب کے عروج کو ایک زمانہ تک سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا تھا، جن قوموں نے فتوحات کے ذریعہ نئے ملکوں پر قبضہ کیا ہوتا تھا اور دوسری قومون کو محکوم بنایا ہوتا تھا ، اسے عروج کا زمانہ کہا جاتا تھا، اور جب ان کی سیاسی قوت ٹوٹتی تھی تو اسے زوال سے تعبیر دیا جاتا تھا ، جیسے یونانی ، رومی اور عربوں کی سیاسی طاقت کے عروج و زوال کو تاریخ میں دیکھا جاتا ہے ۔ اور نوآبادیاتی دور میں یورپی طاقتوں کے اُتار چڑھائو کو بھی اسی سیاسی پھیلائو کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔
موجودہ دور میں یہ صورت حال بدل گئی ، اب قوموں کی ترقی کو ان کی معاشی ترقی کے پیمانے سے جانچا جاتا ہے ، عالمی منڈی میں ان کی ساکھ اور ان کا مالی استحکام ، ان کی حیثٰت کو متعین کرتا ہے ۔
جہاں تک کسی تہذیب کے عروج کو جانچنے کا مسئلہ ہے ، تو اس کی حیثیت اس سے متعین ہوجاتی ہے کہ اس نے علمی و ادبی و سائنسی لحاظ سے دنیا کو کیا دیا؟ اگر کوئی تہذیب تخلیقی و ذہنی لحاظ سے دوسری تہذیبوں سے برتیر ہے ، تو اس کا احترام و وقار مستحکم رہتا ہے ، مگر جیسے ہی اس کے تخلیقی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں اور اس کے پاس عالمی معاشرے کو دینے کے لیے کچھ نیہں رہتا اس طرح سے وہ زوال پذیر ہوجاتی ہیں ۔
یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کے اثرات کو صرف حکمراں طبقے اور امرا ہی محسوس کرسکتے ہیں یا ان سے عوام بھی متاثر ہوتے ہیں ؟ یہ ضرور ہے کہ جب بھی سیاسی و معاشی طور پر قوموں کا عروج ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں سب سے زیاد فائدہ طبقہ اعلی کے لوگ اٹھاتے ہیں اور ان کا معیار زندگی بلند ہوجاتا ہے ۔ عام آدمی کو صرف اس صورت میں فائدہ ہوتا ہے کہ جب وہ حکمران طبقوں کے متوسلین میں شامل ہوجائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ہو ، جیسے انجنیئر و معمار ان کے لیے محلات و باغات و عالیشان عمارات بناتے تھے ، صنعت کار و دست کار اور ہنر مند ان کے لیے اسلحہ ، ہتھیار اور اوزار و آلات بناتے تھے ۔ عالم و سائنس دان ان کی ذہنی و جسمانی ضروریتات کے لیے تخلیقات کرتے تھے ، اور جب تک یہ سیاسی و معاشی طور پر مستحکم رہتے تھے معاشرہ میں ان کی سرگرمیوں سے ہنر مند لوگوں کے طبقات مالی فائدہ اٹھاتے رہتے تھے ، مگر زوال کے زمانہ میں جب ان کے ذرائع آمدن جیسے جیسے کم ہوتے جاتے تھے اسی طرح سے ان کی ضروریات بھی گھٹتی جاتی تھیں ، اور جب یہ نوبت پہنچ جاتی تھی کہ ان کے لیے اپنے اور اپنے خاندان کی بقا مشکل ہوجتی تھین تو اس کے نتیجہ میں ان کے متوسلین طبقات بے روزگاری کا شکار ہوکر مالی پریشانیوں میں الجھ جاتے تھے۔
زوال کے عہد کی علامات سب سے زیادہ عمارتوں میں نظر آتی ہیں ، کیونکہ عروج کے زمانہ میں عالیشان عمارتی تعمیر ہوتی تھیں اور یہ تصور ہوتا تھا کہ عمارت ان کے عروج کو اپنی وسعت و بلندے سے ظاہر کرے ۔ ان عمارات کی عروج کے زمانہ تک تو دیکھ بھال ہوتی رہتی تھی۔ مگر زوال کے آتے ہی یہ بے حسی کا شکار ہونا شروع ہوجاتے تھے ۔ ان کے مالکان کے پاس اس قدر سرمایہ نہیں رہتا تھا کہ جس سے وہ ان کو بہتر رکھ سکیں ، چناچہ اس کی مثال پرتگال سے دی جاسکتی کہ جس نے اپنی سلطنت کے عروج کے زمانہ میں چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی عالیشان چرچ تعمیر کرائے ، مگر زوال کے زمانہ میں یہ خستگی و کہنگی کا شکار ہوگئے کیونکہ ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی روپیہ پیسہ نہ حکومت کے پاس تھا اور نہ ہی لوگوں کے پاس ، اور یہی کچھ آخری عہد مغلیہ میں ہوا کہ مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات ٹوٹنا شروع ہوگئیں ، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاہی قلعہ میں کہ جہاں بادشاہ معہ خاندان کے رہتا تھا، خستہ ہونا شروع ہوگیا۔
جب حکمران طبقے ذرائع آمدن کے ساتھ ساتھ غریب و مفلس ہونا شروع ہوجاتے تو اہل فن کی سرپرستی بھی ختم ہوجاتی تھی ۔ اور معاشرہ میں وہ لوگ کہ جنہوں نے کسی فن کو تخلیق کیا تھا اور اسے عورج پر پہنچایا تھا وہ فن آہستہ آہستہ مرجاتا ہے ، اور آنے والی نسلوں میں اس کا ماہر اور استاد کوئی باقی نہیں رہتا ہے ۔ اور ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب اسی قوم کے لوگ اپنے ماضی کی یادگاروں کو دیکھ کر حیرت میں پڑجاتے ہیں اور ان کی تعمیر کو معجزے سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔
 
Top