عربی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
"تُوُفِّيَ الممثل المصري ممدوح عبد العليم الثلاثاء في مستشفى بالقاهرة بأزمة قلبية مفاجئة."
"مصری اداکار ممدوح عبدالعلیم سہ شنبے کے روز قاہرہ کے ایک شفاخانے میں ناگہانی قلبی حملے کے باعث وفات پا گئے۔"
ماخذ
حسان بھائی ہارٹ اٹیک کے لئے حملہء قلب زیادہ معروف اور مستعمل ہے ۔ قلبی حملہ تو شاید قلبی لگاؤ اور قلبی تعلق جیسے الفاظ کے ذیل میں آ جائے گا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
كان الليث بن سعد يتاجر في العسل
وذات يوم رست سفينة له محملة بالعسل وكان العسل معبأ في براميل فأتت له سيدة عجوز تحمل وعائا صغيرا وقالت له ، أريد منك أن تملأ هذا الوعاء عسلا لي فرفض وذهبت السيدة لحالها
ثم أمر الليث مساعده أن يعرف عنوان تلك السيدة ويأخذ لها برميلا كاملا من العسل فاستعجب الرجل وقال له:-
لقد طلبت كمية صغيرة فرفضت وها أنت الآن تعطيها برميلا كاملا
فرد عليه الليث بن سعد ، يا فتى أنها تطلب على قدرها وانا اعطيها على قدري
لو علم المتصدق حقّ العلم وتصور أن صدقته تقع في ( يد الله ) قبل يد الفقير ، لكانت لذّة المعطي أكبر من لذة الأخذ.

لیث بن سعد شہد کی تجارت کرتے تھے ۔
ایک دن ان کا شہد سے لدا ہوا کا جہاز کنارے سے لگا۔اس کے صندوقوں میں شہد بھرا ہوا تھا۔ان کے پاس ایک بوڑھی عورت ایک چھوٹا برتن لے کر آئی اور اس سے کہا ۔
اس برتن میں مجھے کچھ شہد چاہیئے۔انہوں نے انکار کر دیا۔اور وہ بڑھیا اپنا سا منہ لے کر چلی گئی۔
اس کے بعد تاجر نے اپنے کارندے سے کہا کہ اس بڑھیا کے گھر کا پتہ معلوم کرے اور ایک مکمل صندوق اس کے پاس پہنچائے۔کارندہ خیران ہوا اور کہنے لگا ۔
آپ نے اسے چھوٹے برتن پر تو انکار کیا اور اب اسے بڑا صندوق دے رہے ہیں ۔سعد نے جواب دیا ۔اس نے اپنی ظرف کے مطابق طلب کیا اور میں اسے اپنے ظرف کے مطابق دے رہا ہوں۔
۔ اگر دینے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کی عطا لینے والے فقیر کے ہاتھوں سے پہلے اللہ کے پاس پہنچ جاتی ہے تو دینے کی لذت لینے سے زیادہ ہوتی ہے۔
عاطف بھائی بہت ہی عمدہ انتخاب ہے ۔بامحاورہ ترجمہ اس پر مستزاد!!
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی ہارٹ اٹیک کے لئے حملہء قلب زیادہ معروف اور مستعمل ہے ۔ قلبی حملہ تو شاید قلبی لگاؤ اور قلبی تعلق جیسے الفاظ کے ذیل میں آ جائے گا ۔
ظہیر بھائی، میں نے فارسی کے 'حملۂ قلبی' اور عربی کے 'نوبۃ قلبیۃ' پر قیاس کرتے ہوئے اردو میں 'قلبی حملہ' کا استعمال کیا تھا۔ آپ کا نکتہ معقول ہے کہ شاید اردو میں 'قلبی حملہ' کے مقابلے میں 'حملۂ قلب' زیادہ معنائی وضوح کا حامل ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
"اتفقت المملكة العربية السعودية وباكستان على بذل جهود منسقة لتعزيز التعاون متعدد الأوجه والعمل معاً لمكافحة الإرهاب والتطرف، الذي يعتبر عدواً مشتركاً للبلدين."
ماخذ

"مملکتِ سعودی عربستان اور پاکستان کے مابین کثیر جہتی تعاون کی تقویت کے لیے منظم کوششیں کرنے اور دہشت گردی و شدت پسندی - جنہیں ہر دو ملکوں کا مشترک دشمن مانا جاتا ہے - کے خلاف مبارزے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔"
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
في عهد عمر بن الخطاب جاء ثلاثة أشخاص ممسكين بشاب وقالوا يا أمير المؤمنين نريد منك أن تقتص لنا من هذا الرجل فقد قتل والدنا
قال عمر بن الخطاب: لماذا قتلته؟
قال الرجل : إني راعى إبل وماعز.. واحد من جمالي أكل شجره من أرض أبوهم فضربه أبوهم بحجر فمات فامسكت نفس الحجر وضربت ابوهم به فمات
قال عمر بن الخطاب : إذا سأقيم عليك الحد
قال الرجل : أمهلني ثلاثة أيام فقد مات أبي وترك لي كنزاً أنا وأخي الصغير فإذا قتلتني ضاع الكنز وضاع أخي من بعدي
فقال عمر بن الخطاب: ومن يضمنك
فنظر الرجل في وجوه الناس فقال هذا الرجل
فقال عمر بن الخطاب : يا أبا ذر هل تضمن هذا الرجل
فقال أبو ذر : نعم يا أمير المؤمنين
فقال عمر بن الخطاب : إنك لا تعرفه وأن هرب أقمت عليك الحد
فقال أبو ذر أنا أضمنه يا أمير المؤمنين
ورحل الرجل ومر اليوم الأول والثاني والثالث وكل الناس كانت قلقله على أبو ذر حتى لا يقام عليه الحد وقبل صلاة المغرب بقليل جاء الرجل وهو يلهث وقد أشتد عليه التعب والإرهاق و وقف بين يدي أمير المؤمنين عمر بن الخطاب
قال الرجل : لقد سلمت الكنز وأخي لأخواله وأنا تحت يدك لتقيم علي الحد
فاستغرب عمر بن الخطاب وقال : ما الذي أرجعك كان ممكن أن تهرب ؟؟
فقال الرجل : خشيت أن يقال لقد ذهب الوفاء بالعهد من الناس
فسأل عمر بن الخطاب أبو ذر لماذا ضمنته ؟؟؟
فقال أبو ذر : خشيت أن يقال لقد ذهب الخير من الناس
فتأثر أولاد القتيل
فقالوا لقد عفونا عنه
فقال عمر بن الخطاب : لماذا ؟
فقالوا نخشى أن يقال لقد ذهب العفو من الناس


عمر بن خطاب کے زمانے میں تین لوگ ایک شخص کو پکڑ کرلائے اور کہنے لگے ۔ اس شخص سے ہمارے لیے قصاص لیا جائے کہ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔
عمر بن خطاب نے کیا : تم نے اسے قتل کیوں کیا ۔
آدمی نے بتایا کہ میں اونٹ بکری چرانے والاہوں ۔ میرے اونٹوں میں سے ایک نے ان کے باپ کی زمیں سے سبزہ چر لیا تو ان کے باپ نے اسے ایک پتھر دے مارا جس سے وہ مر گیا ۔ میں نے وہی پتھر ان کے باپ کو ماردیا جس سے وہ مر گیا ۔
عمر بن خطاب نے کہا ۔ پھر تو تم پرقصاص کی حد جاری ہو گی۔
آدمی نے کہا کہ مجھے تین دن کی مہلت دے دیں ۔ میرے باپ نے مرنے پر ایک خزانہ میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے لیے چھوڑا ہے۔اگر آپ نے مجھے قتل کیا تو اس طرح خزانہ ضائع ہو جائے گا اورمیرے بعد میرا چھوٹا بھائی بھی ۔
عمر بن خطاب نے کہا تمہاری ضمانت کون دے گا۔
آدمی نے مجمع پر نظر ڈالی اور کہا یہ شخص۔
عمر بن خطاب نے کہا اے ابو ذر کیا تم اس شخص کی ضمانت دیتے ہو۔
ابو ذر نے کہا ۔ جی ہاں امیرالمومنین۔
عمر بن خطاب نے کہا ۔ لیکن تم تو اسے نہیں جانتے ۔اگر یہ بھاگ گیا تو یہی حد تم پر جاری کی جائے گی۔
ابو ذر نے کہا ۔ میں اس کی ضمانت دیتا ہوں اے امیرالمومنین۔
آدمی چلا گیا اور پہلا ، دوسرا اور تیسرا دن گزر گیا۔ سب لوگ ابو ذر کے لیے پریشان تھے کہ کہیں ان پر قصاص کی حد جاری نہ ہو جائے اچانک مغرب کی نماز سے ذرا سی دیر پہلے وہ شخص ہانپتے ہوے لوٹ آیا۔ وہ طویل سفر کی تھکن سے چور تھا۔ امیر المومنین عمر بن خطاب کے سمنے پیش ہو گیا اور
کہنے لگا۔ میں امانت کا خزانہ اپنے بھائی کے سپرد کر چکا ہوں اورآپ کے سامنے تابع اور حاضر ہوں کہ حد جاری کی جائے۔
----
عمر بن خطاب نے حیرت سے کہا ۔ وہ کیا چیز ہے جو تمہیں واپس کھینچ لائی ہے جب کہ تم فرار ہو سکتے تھے۔
آدمی نے کہا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں یہ نہ کہا جائے کہ زمانے کے لوگوں سے وفا اٹھ گئی ہے۔
پھر عمر بن خطاب نے ابو ذر سے کہا ۔ تم نے اس کی ضمانت کیوں دی ۔
ابو ذر نے کہا ۔ مجھے خوف ہوا کہ کہیں یہ نہ کہاجائے کہ لوگوں سے خیر خواہی رخصت ہو گئی ہے۔
مرنے والے آدمی کے لڑکے متاثر ھوے۔ اور کہنے لگے کہ بے شک ہم نے اسے معاف کیا ۔
عمر بن خطاب نے کہا ۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں یہ نہ کہا جائے کہ لوگوں میں معاف کرنے کا جذبہ ختم ہو گیاہے۔
---
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تعهدت باكستان بالدفاع عن السعودية في حال تعرض أمنها وسيادتها للخطر، وأعربت عن استعدادها للعب دور الوساطة لحل الخلاف المتفاقم بين السعودية وإيران عندما يحين الوقت المناسب.
وجاء التعبير عن هذه المواقف عقب زيارة رسمية لباكستان قام بها الأمير محمد بن سلمان ولي ولي العهد السعودي وزير الدفاع.

ماخذ
پاکستان نے سعودیہ کی سلامتی اور حاکمیت کے معرضِ خطر میں ہونے کی صورت میں اُس کے دفاع کا عہد کیا ہے، اور ساتھ ہی پاکستان نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ مناسب وقت آنے پر سعودیہ اور ایران کے مابین بد سے بدتر ہوتے اختلاف کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
ان موقفوں کا اظہار سعودی وزیرِ دفاع اور جانشینِ ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی جانب سے انجام دیے گئے پاکستان کے سرکاری دورے کے بعد سامنے آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فِي قديمِ الزَّمانِ اجْتَمَعَتِ الحَيَوَاناتُ الَّتي تَعِيشُ في الغابة؛ لِتَخْتارَ مَلِكاً يَجْلِسُ عَلَى عرشِها، ويَحْكُمُ بينَها بِالعدل. وبعدَ المُشاوَرَةِ اخْتارُوا الأسَدَ ووَضَعُوا التَّاجَ عَلَى رأسِه؛ وذلِكَ لِأَنَّهُ شُجاعٌ وقويٌ وصَرِيح. لَكِنَّ الخِنزيرَ كانَ يَطْمَعُ في المُلْك، فَلَم يُوَافِق، وثَارَ وغَضِب.
بہت زمانے پہلے جنگل میں رہنے والے حیوانات ایک بادشاہ کا انتخاب کرنے کے لیے جمع ہوئے جو اُن کے تخت پر بیٹھے اور عدل کے ساتھ اُن پر حکمرانی کرے۔ مُشاوَرَت کے بعد اُنہوں نے شیر کو منتخَب کیا اور اُس کے سر پر تاج رکھ دیا، اور ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ بہادر، طاقت ور اور مخلص تھا۔ لیکن خنزیر کو بادشاہی کی طمع تھی، لہٰذا وہ متفق نہ ہوا، اور ناآرام و غضب ناک ہو گیا۔
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
قيل لحكيم: أي الأشياء خير للمرء؟


قال: عقل يعيش به


قيل: فإن لم يكن


قال: فإخوان يسترون عليه


قيل: فإن لم يكن


قال: فمال يتحبب به إلى الناس


قيل: فإن لم يكن


قال: فأدب يتحلى به


قيل: فإن لم يكن


قال: فصمت يسلم به


قيل: فإن لم يكن


قال: فموت يريح منه العباد والبلاد

کسی دانشور شخص سے پوچھا گیا : کون سی چیزیں انسان کیلئے فائدہ مند ہیں؟

اس نے جوابا کہا: عقل جس کے ذریعے وہ زندگی گزار سکے.
کہا گیا :اگر نا ہو تو؟
کہا:ایسے بھائی جو اس کی پردہ پوشی کریں.
کہا گیا اگر وہ بھی نا ہوں تو؟
کہا: مال جس کے ذریعے لوگ اس کی محبت حاصل کریں.
کہا گیا : اگر وہ بھی نا ہو.
کہا : ادب جس کے ذریعے وہ آراستہ ہو.
کہا گیا:اگر وہ بھی نا ہو.
کہا خاموشی جس کے ذریعے وہ محفوظ رہ سکے.
کہا گیا: اگر وہ بھی نا ہو تو.
کہا :پھر موت جس سے انسان اور شہر اس سے راحت پا جائیں.
 

ربیع م

محفلین
صعد خطيبٌ المنبرَ وكان كثير الخطإِ في الإعراب فقال:
ظهر الفسادُ فى البرُّ والبحرُ " بالرفع "
فقال له أعرابيٌّ : وعلى المنابرِ أيضًا !

ایک خطیب منبر پر چڑھا جس کے اعراب میں بے شمار اغلاط تھیں، کہنے لگا :
ظهر الفسادُ فى البرُّ والبحرُ "
بر و بحر میں فساد ظاہر ہو گیا(بر اور بحر پر رفع کے ساتھ جب کہ یہاں یہ مجرور ہیں)
ایک بدو کہنے لگا : اور منبروں پر بھی!
 

ummargul

محفلین
السلام علیکم
بہت شکریہ لیکن اس کے لیے ایک صوتی پروگرام بھی بتائیں کہ عربی کے صحیح تلفظ ادا ہوسکے تاکہ آئند ہ بغیر زیر زبر کے بھی الفاظ ادا کئے جا سکے
 

ربیع م

محفلین
"فلا أدبٌ يفيدُ ولا حليب "

يحكى أن اعرابيةً وجدت في البادية ذئب صغير قد ولد للتو
فحنّت عليه وأخذته وربته ..

وكانت تطعمه من حليب شاةٍ عندها .. وكانت الشاة بمثابة الام لذلك الذئب
وبعد مرور الوقت عادت الاعرابية يوما لبيتها فوجدت الذئب قد هجم على الشاة واكلها ..
فحزنت الاعرابية على صنيع الذئب اللئيم الذي عرف طبعه بالفطرة ..

فأنشدت بحزنٍ تقول :

أكلتَ شويهتي وفجعت قلبي
وأنت لشاتنا ولدٌ ربيبُ

غُذيتَ بدَرِّها ورَبَيت فينا
فمن أنباكَ أن اباكَ ذيبُ ؟!!

إذا كان الطباع طباعُ سوءٍ
فلا أدبٌ يفيدُ ولا حليب

پس نا تربیت کرنا مفید ہے نا ہی دودھ پلانا

کہا جاتا ہے ایک بدوی عورت کو جنگل میں بھیڑئیے کا بچہ ملا جو کچھ دیر قبل ہی پیدا ہوا تھا.
اس نے اسے گود میں اٹھایا اور اپنے ساتھ لا کر اس کی تربیت شروع کر دی...
اسے اپنے پاس موجود بکری کا دودھ پلاتی...
چنانچہ یہ بکری اس کی ماں کی جگہ تھی.
کچھ عرصہ بعد ایک دن یہ بدوی عورت گھر لوٹی تو پایا کہ اس بھیڑئیے نے بکری پر حملہ کر کے اسے کھا لیا...
بدوی عورت بھیڑئیے کی اس حرکت پر شدید غمگین ہوئی جو اپنی طبعی فطرت جان چکا تھا...
اور غم میں اس نے یہ اشعار کہے:
تو نے میری بکری کھائی اور میرے دل کو صدمہ پہنچایا
جبکہ تو ہماری بکری کی رضاعی اولاد تھی.
تجھے اس کے دودھ سے غذا ملی اور تو نے ہم میں پرورش پائی.
تجھے کس نے آگاہ کر دیا کہ تیرا باپ بھیڑیا تھا؟!!
اگر فطرتِ اصل ہی بری فطرت ہو تو
نا ہی ادب سکھانا مفید ہوتا ہے اور نہ ہی دودھ پلانا.
 

ربیع م

محفلین
جلس شيخ بين شابين فاتّفقا ان يسخرا منه : فقال احدهم : يا شيخ انت احمق ام جاهل؟ فقال : انا بينهما #

ایک بوڑھا دو نوجوانوں کے درمیان بیٹھا تھا انھوں نے آپس میں طے کیا کہ اس سے مذاق کیاجائے، چانچہ ایک نے کہا
یا شیخ: آپ جاہل ہیں یا احمق؟

بوڑھے نے جواب میں کہا: ان دونوں کے درمیان!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سأل رجل زوجته :
ماذا تعرفين عن الصَّرف والنّحو ؟
قالت : هو صرفُ راتبك على النّحو الذي يُرضيني !
-------------------------------------
ایک آدمی نے اپنی بیوی سے سوال کیا
تم صرف و نحو (زبان کے قاعدے)کے بارے میں کیا جانتی ہو؟
اس نے جواب دیا۔
تمہاری تنخواہ کو اپنی مرضی کے قاعدے سے صرف کرنا ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مکالمہ ۔
رأی رجل امرأۃ ، فقال لھا۔
"کم أنتِ جمیلۃ"۔
فقالت لہ۔
"
لیت کنت جمیلا ، لأبادلک نفس الکلام"
فقال لھا الرجلُ۔
"لا بأس
اکذبی کما کذبت"

کسی آدمی نے ایک عورت کو دیکھا اور اس سے کہا ۔
"تو کتنی خوبصورت ہے۔ "۔
عورت نے آدمی کو جواب دیا ۔ "کاش تو بھی خوبصورت ہوتا تو میں تجھے بھی یہی بات کہتی۔"
آدمی نے اس سے کہا۔
"کوئی بات نہیں ، میں نے جھوٹ بولا تو تو بھی جھوٹ بول دے۔"۔​
 

ربیع م

محفلین
أحد الرجال كان من أكرم العرب في زمانه ..
فقالت له زوجته يومًا : ما رأيت قوما أشدّ لؤْمًا من إخواتك و اصحابك !
قال : و لم ذلك؟
قالت : اراهم إذا اغتنيت لزمُوك ، و إذا افتقرت تركوك !
فقال لها هذا والله من كرمِ أخلاقِهم ، يأتوننا في حال قدرتنا على إكرامهم ، ويتركوننا في حال عجزنا عن القيام بواجبهم….


اہل عرب میں ایک شخص اپنے زمانے میں جود وکرم میں مشہور تھا۔۔
ایک دن اس کی بیوی نے کہا : میں نے تمہارے بھائیوں اور ساتھیوں سے زیادہ قابل ملامت کوئی نہیں دیکھا!
اس نے کہا: وہ کس طرح؟
بیوی نے کہا: جب تو مالدار ہو جائے تو تیرے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور جب تجھ پر فقر آ جائے تو تجھے چھوڑ دیتے ہیں!
اس نے کہا :اللہ کی قسم یہ تو ان کا ہم سے اعلی اخلاق ہے کہ وہ ہمارے پاس اس وقت آتے ہیں جب ہم ان کے اکرام کی قدرت رکھتے ہیں، اور جب ہم اپنے فرائض ادا کرنے سے عاجز آ جائیں تو ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔!
 

ربیع م

محفلین
كان للرشيد جارية سوداء يُحبها كثيراً، اسمها خالصة.
وفي يوم من الأيام دخل أبو نُواس على الرشيد ومدحهُ بأبيات بليغة, وكانت الجارِية جالِسة عنده وعليها من الجواهر والدُرر ما يُذهِل الأبصار، فلم يلتفت الرشيد إليه.
فغضب أبو نُواس وكتب لدى خروجه على باب الرشيد:
لقد ضاعَ شِعري على بابكُم...كما ضاعَ دُرَّ على خالِصة
ولما وصل الخبر إلى الرشيد حنق (أشتد غيظه) وأرسل في طلبه.
وعند دخوله من الباب محا تجويف العين من لفظتي "ضاع" فأصبحت "ضاء".
ثم مثل أمام الرشيد، فقال له: ماذا كتبت على الباب؟
فقال:
لقد ضاءَ شِعري على بابكم...كما ضاءَ دُرَّ على خالِصة

فأعجب الرشيد بذلك، وأجازه. فقال أحد الحاضرين: هذا شِعرٌ قُلِعَت عيناه فأبصَر.

رشید کی ایک سیاہ رنگ لونڈی تھی جس سے اسے شدید محبت تھی۔ ایک دن ابو نواس رشید کے پاس آیا اور بڑے بلیغ اشعار سے اس کی مدح سرائی کی، رشید کے پاس خالصہ نگاہوں کو خیرہ کرنے والے جواہرات زیب تن کئے بیٹھی تھی، رشید نے ابو نواس کی جانب کچھ توجہ نہ کی، ابو نواس غضبناک ہو گیا اور نکلتے وقت رشید کے دروازے پر یہ شعر تحریر کیا!
لقد ضاعَ شِعري على بابكُم...كما ضاعَ دُرَّ على خالِصة
میرا شعر تمہارے دروازے پر اس طرح ضائع ہوا جیسے خالصہ پر موتی جواہرات

رشید تک جب خبر پہنچی تو اسے شدید غصہ آیا اور اسے طلب کیا۔
نواس نے دروازے سے داخل ہوتے وقت عین حرف کی گولائی مٹا دی، چنانچہ ضاع سے ضاء ہو گیا س
جب اسے رشید کے سامنے پیش کیا گیا تو رشید نے پوچھا تم نے دروازے پر کیا تحریر کیا؟
نواس نے کہا :
لقد ضاءَ شِعري على بابكم...كما ضاءَ دُرَّ على خالصة
میرا شعر تمہارے دروازے پر ایسا روشن ہوا جیسے خالصہ پر موتی۔
رشید کو شعر پسند آیا اور اسے اجازت دے دی، حاضرین میں سے ایک نے کہا اس شعر کی آنکھیں نوچ لی گئیں تو بصیرت والا ہو گیا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top