عربی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
ولدت بينظير عام ۱۹۵۳ في مدينة كراتشي لعائلة سياسية شهيرة حيث كان والدها رئيسا لدولة باكستان ورئيسا للوزراء في السبعينيات. درست بينظير العلوم السياسية والاقتصاد في جامعتي هارفارد وأكسفورد، وتزوجت عام ۱۹۸۷ رجل الأعمال وعضو البرلمان آصف علي زارداري وأنجبت منه ثلاثة أبناء.
وُلِدَتْ بِينَظِير عَامَ ۱۹۵۳ فِي مَدِينَةِ كَرَاتْشِي لِعَائِلَةٍ سِيَّاسِيَّةٍ شَهِيرَةٍ حَيْثُ كَانَ وَالِدُهَا رَئِيسًا لِدَوْلَةِ بَاكِسْتَانَ وَرَئِيسًا لِلْوُزَرَاءِ فِي السَّبْعِينِيَّاتِ. دَرَسَتْ بِينَظِير الْعُلُومَ السِّيَاسِيَّةَ وَالِاقْتِصَادَ فِي جَامِعَتَيْ هَارْفَارْد وَأُكْسفُورْد، وَتَزَوَّجَتْ عَامَ ۱۹۸۷ رَجُلَ الْأَعْمَالِ وَعُضْوَ الْبَرْلَمَانِ آصِف عَلِي زَارْدَارِي وَأَنْجَبَتْ مِنُهُ ثَلَاثَةَ أبْنَاءٍ.

ماخذ
بے نظیر ۱۹۵۳ء میں شہرِ کراچی میں ایک مشہور سیاسی خانوادے میں متولد ہوئیں جس میں اُن کے والد ستر کے عشرے میں مملکتِ پاکستان کے صدر اور وزیرِ اعظم تھے۔ بے نظیر نے ہارورڈ اور آکسفورڈ جامعات میں سیاسیات اور اقتصادیات کے علوم کی تحصیل کی اور سالِ ۱۹۸۷ء میں وہ کاروباری آدمی اور رکنِ پارلیمان آصف علی زرداری سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئیں، جن سے اُنہوں نے تین بچوں کو جنا۔
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
عربی زبان کے وسیع ذخیرہ الفاظ کا دوسری زبانوں کے ذخیرہ الفاظ سے موازنہ

اس میں کتنی حقیقت ہے؟


 

حسان خان

لائبریرین
"أفادت مراسلة الجزيرة في القدس بأن قوات الاحتلال اعتدت بالضرب على مئات الفلسطينيين الذين تظاهروا بالقدس للمطالبة بجثامين شهدائهم المحتجزين لدى الاحتلال."
ماخذ: الجزیرة
تاریخ: ۲۶ دسمبر ۲۰۱۵ء
"الجزیرہ کے القدس میں موجود خبرنگار نےاطلاع دی ہے کہ [اسرائیلی] قابض قوتوں نے ایسے سینکڑوں فلسطینیوں کو زد و کوب کا نشانہ بنایا ہے جو اپنے شہیدوں کی قابضوں کے ہاتھوں ضبط شدہ لاشوں کے مطالبے کے لیے القدس میں مظاہرہ کر رہے تھے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هنأ الأمين العام لجامعة الدول العربية، نبيل العربي، في بيان رسمي صدر عن الجامعة، العراق حكومة وشعباً باستعادة مدينة الرمادي عاصمة محافظة الأنبار من سيطرة تنظيم "داعش" الإرهابي.
ماخذ
اتحادیۂ عرب کے معتمدِ عام نبیل العربی نے اتحادیے کی جانب سے صادر ہونے والے رسمی بیان میں دہشت گرد تنظیم 'داعش' کے قبضے سے صوبۂ انبار کے دارالحکومت رمادی شہر کے واپس لینے پر عراقی حکومت اور عوام کو مبارک باد دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاید جو تراکیب ا ور محاورات اردو میں بطور معیار مقبول ہیں ان کو ترجیح دی جانی چاہیئے۔ میری مراد بعد ازاں کو پس ازاں کہنے سے ہے۔اگر چہ پس ازاں خالص تر ترکیب ہے۔ایک رائے۔
برادرِ بزرگ و گرامیِ من!
خیالات کی ایک رَو آج مسلسل میرے ذہن میں گردش کر رہی تھی جسے اب میں آپ کی خدمت میں بصد نیاز عرض کر رہا ہوں۔ جب انگریزی، ہندی، مراٹھی، اور معلوم نہیں کن کن زبانوں کے الفاظ کی زبانِ اردوئے معلٌیٰ پر یلغار جاری ہے اور اس زبانِ عالی وقار کا جمال روز بہ روز کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے تو در ایں حال میرے فارسی الفاظ و ترکیبات کے اردو میں مجاہدانہ استعمال کو مستحسن بات ماننی چاہیے کہ میرا اس سے قصد صرف اپنی زبان کو دوبارہ اورنگِ علو پر متمکن کرنا ہے۔ ہمارے مستند اور کوثر و تسنیم سے شستہ زبان میں تحریر و تصنیف کرنے والے اردو نویس ادبی اسلاف نے تاریخ کے کسی دور میں بھی فارسی (اور عربی) الفاظ پر در بند نہیں رکھا اور نہ اُنہیں اردو سے جدا ہی مانا اور جس فارسی لفظ کو مناسب سمجھا اور جس وقت بھی مناسب سمجھا اُسے اپنی تحریر کی زیب و زینت بنایا۔ مثلاً غالب اور اقبال نے (خدا ان دونوں اور ان جیسے تمام فارسی دوست مرحومین پر رحمت نازل کرے) متعدد ایسے فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے جو اُن سے قبل کسی نے استعمال نہیں کیے تھے۔ بعد میں وہی نفیس الفاظ ہماری معیاری زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور آج ہم اپنی جس زبان پر ناز کرتے ہیں وہ انہیں جیسے ذی شعور و ذی شان ادباء کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور انہیں کی ساختہ ادبی زبان کو آج مثالی تصور کیا جاتا ہے۔
میرے لیے اردو صرف ابلاغ کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ یہ میری شناخت کا ایک جزء اور میرے اسلاف کی مجروح میراث بھی ہے، جسے میں التیام دے کر اپنی آیندہ نسلوں کے سپرد کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اپنی زبان کی زشتی سے قے، اس کی زبوں حالی پر افسوس، اور اس کی کم مایگی پر آہِ حسرت کرنے کی بجائے زبانِ اردوئے معلٌیٰ کی ملکیت اور اس سے وابستگی پر فخر کر سکیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو میری انفرادی و ملی شناخت کا بھی جزء ہے لہٰذا ایسی شخصی زبان کی ساخت بھی ہمیشہ میرے پیش نظر رہتی ہے جس میں میری انفرادی و ملی شناخت بخوبی منعکس ہو سکے۔ چونکہ فارسی ہمارے ادبی اسلاف، از جملہ خسرو، بیدل، فیضی، واقف، آرزو، غالب، ذوق، ناسخ، اقبال، شاہ ولی اللہ، انیس، دبیر، ولی، حالی، مولانا محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی وغیرہم کی ادبی و تمدنی و قلبی زبان رہی ہے، اور چونکہ میں خود اس زبانِ شیریں اور اس کے کہنہ ادب کو عزیز از جان رکھتا ہوں، اس لیے میں نے ایک لحظہ بھی فارسی الفاظ و تراکیب کی نسبت بیگانگی کا احساس نہیں کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب سے لکھنا شروع کیا ہے میں نے فارسی الفاظ سے ہرگز امتناع نہیں کیا اور میں اسی اصول پر عمل پیرا رہا ہوں کہ فارسی زبان کے ہر لفظ کا استعمال اردو میں جائز بلکہ بعض اوقات نیکوتر ہے۔ اردو کے عہدِ طلائی کے ادباء و شعراء کا یہی شیوہ تھا اور میں اُن کے وارث اور شاگرد کے طور پر اسی روش پر کاربند رہتا آیا ہوں۔
میں اگر آج ‘پس ازاں‘ جیسی کوئی ترکیب استعمال کرتا ہوں تو اس امید کے ہمراہ کرتا ہوں کہ ایامِ آتیہ میں یہ معیاری ادبی زبان کا حصہ بن کر اردو کی پُرمایگی و زیبائی کا سبب بنے گی۔
با کمالِ محبت و خلوص و احترام!
والسلام مع الاکرام!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
السعادة ليست الحصول على ما لا نملك بل هي أن نفهم و ندرك قيمة ما نملك.
جو چیز ہم نہیں رکھتے اُس کا حصول سعادت نہیں ہے بلکہ جو چیز ہم رکھتے ہیں اُس کی قدر کو فہم و درک کرنے کا نام سعادت ہے۔
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
السعادة ليست الحصول على ما لا نملك بل هي أن نفهم و ندرك قيمة ما نملك.
جو چیز ہم نہیں رکھتے اُس کا حصول سعادت نہیں ہے بلکہ جو چیز ہم رکھتے ہیں اُس کی قدر کو فہم و درک کرنے کا نام سعادت ہے۔
images
سر جی جو لکھا ہے اس پر بھی بات ہوسکتی ہے ...یا صرف ترجمے کی حد تک دیکھا جائے ....؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سألت جدي كيف كنتم تعيشون بلا تكنولوجيا (إنترنت،،هواتف ذكية،،إلكترونيات)؟!؟
أجابني:
كما تعيشون الآن بلا .. حب وصدق ووفاء وإنسانية۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے دادا سے پوچھا کہ آپ بغیر ٹیکنالوجی بغیر موبائل فون اور بغیر برقیاتی آلات کے کیسے رہتے تھے۔
انہوں نے مجھے جواب دیا ۔
ایسے ہی جیسے تم لوگ اب بغیر محبت بغیر وفا اور بغیر انسانیت کے زندہ رہتے ہو۔
ایک سوشل میڈیا کا گردش کرتا اقتباس۔ لیکن اندر ایک گہری اور تکلیف دہ حقیقت ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جَامِعَةُ الْقَرَوِيِّينَ مِنْ أَقْدَمِ الْجَامِعَاتِ فِي الْعَالَمِ، وهِيَ إِحْدَى أَبْرَزِ الْمَآثِرِ التَّارِيخِيَّةِ الَّتِي تَفْتَخِرُ بِهَا مَدِينَةُ فَاسَ الْعَاصِمَةِ الْعِلْمِيَّةِ الرُّوحِيَّةِ لِلْمَمْلَكَةِ الْمَغْرِبِيَّةِ.
بُنِيَتْ جَامِعَةُ الْقَرَوِيِّينَ عَامَ ۲۴۵ لِلْهِجْرَةِ الْمُوَافِقَ عَامَ ۸۵۹ مِيلَادِيَّةٍ -أَيْ قَبْلَ حَوَالَيْ مِئَةِ عَامٍ مِنْ إِنْشَاءِ جَامِعِ الْأَزْهَرِ فِي الْقَاهِرَةِ- عَلَى يَدِ فَاطِمَةَ الْفهْرِيّةِ، وَهِيَ ابْنَةُ مُهَاجِرٍ مِنْ عَرَبِ الْحِجَازِ يُسَمَّى مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْفِهْرِيَّ، أَقَامَ فِي الْقَيْرَوَانِ وَكَانَ تَاجِرًا ثَرِيًّا.
وَبَعْدَ وَفَاتِهِ قَرَّرَتْ فَاطِمَةُ الْإِنْفَاقَ عَلَى بِنَاءِ الْجَامِعِ وَتَوْسِعَتَهِ، لِيَتَحَوَّلَ مِنْ مَسْجِدٍ صَغِيرٍ إِلَى جَامِعَةٍ كَبِيرَةٍ. وَقَدْ مَارَسَ التَّدْرِيسَ فِي رِحَابِ الْجَامِعَةِ أَعْلَامٌ بَارِزُونَ مِثْلَ ابْنِ خَلْدُونَ، وَابْنِ الْخَطِيبِ، وَابْنِ حرَازم، وَابْنِ بَاجَةَ.
ماخذ

جامعۂ قرویین دنیا کی قدیم ترین جامعات میں شامل ہے، اور یہ جامعہ مملکتِ مراکش کے علمی و روحانی دارالحکومت شہرِ فاس کی ممتاز ترین اور افتخار کی موجب تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے۔
جامعۂ قرویین کی تعمیر سال ۲۴۵ ہجری مطابق بہ ۸۵۹ عیسوی میں - قاہرہ میں مسجدِ الازہر کی تاسیس سے تقریباً ایک صدی قبل - حجاز سے ہجرت کر کے قیروان میں سکونت اختیار کرنے والے ایک مال دار تاجر محمد بن عبداللہ الفہری کی دختر فاطمہ الفہریہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔
اپنے والد کی وفات کے بعد فاطمہ نے مسجد کی تعمیر و توسیع پر انفاق و خرچ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ ایک چھوٹی مسجد سے ایک بڑی جامعہ میں تبدیل ہو سکے۔ اس جامعہ کے صحن میں ابنِ خلدون، ابن الخطیب، ابنِ حرازم اور ابنِ باجہ جیسے معروف و ممتاز لوگ تدریس میں مشغول رہ چکے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قَرَّرَتْ فَاطِمَةُ الْإِنْفَاقَ عَلَى بِنَاءِ الْجَامِعِ وَتَوْسِعَتَهِ
یہاں 'بناء' مسجد کی عمارت کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا پھر مسجد کی تعمیر کے معنی میں؟
وَقَدْ مَارَسَ التَّدْرِيسَ فِي رِحَابِ الْجَامِعَةِ
'تدریس' عربی زبان میں درس دہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا پھر اس کا مفہوم درس حاصل کرنا ہے؟ اور یہ لفظ یہاں کس معنی میں استعمال ہوا ہے؟
سید عاطف علی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہاں 'بناء' مسجد کی عمارت کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا پھر مسجد کی تعمیر کے معنی میں؟
'تدریس' عربی زبان میں درس دہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا پھر اس کا مفہوم درس حاصل کرنا ہے؟ اور یہ لفظ یہاں کس معنی میں استعمال ہوا ہے؟
سید عاطف علی
تد ریس پڑھانا ہی ہوتا ہے اور یہاں بھی اسی معنی میں ہے ۔
درّس ۔یُدرِّسُ۔ تدریساََ۔تعلیم دینا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تد ریس پڑھانا ہی ہوتا ہے اور یہاں بھی اسی معنی میں ہے ۔
درّس ۔یُدرِّسُ۔ تدریساََ۔تعلیم دینا۔
اور یہان "مارس التدریس" ان اساتذہ کرام کے لیے استعمال ہوا ہے جن کا ذکر مرفوع شکل میں اعلام بارزون کے طور پر ہوا ہے۔ایک جگہ "کی وساطت سے" کے بجائے "کے ہاتھوں" ہو سکتا ہے جوں محاورۃََ بھی مطابق تر ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رسمی ترجمہ بہت مؤثر انداز میں کیا گیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین

حسان خان

لائبریرین
تد ریس پڑھانا ہی ہوتا ہے اور یہاں بھی اسی معنی میں ہے ۔
بناء یعنی تعمیر۔(میرے خیال میں عمارت کے لیے مبنی (تلفظ مبنا) جمع مبانی استعمال ہوتاہے ۔واللہ اعلم
درّس ۔یُدرِّسُ۔ تدریساََ۔تعلیم دینا۔
ایک جگہ "کی وساطت سے" کے بجائے "کے ہاتھوں" ہو سکتا ہے جوں محاورۃََ بھی مطابق تر ہو گا۔
جوابوں اور تجویز کے لیے بہت شکریہ۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
كان الليث بن سعد يتاجر في العسل
وذات يوم رست سفينة له محملة بالعسل وكان العسل معبأ في براميل فأتت له سيدة عجوز تحمل وعائا صغيرا وقالت له ، أريد منك أن تملأ هذا الوعاء عسلا لي فرفض وذهبت السيدة لحالها
ثم أمر الليث مساعده أن يعرف عنوان تلك السيدة ويأخذ لها برميلا كاملا من العسل فاستعجب الرجل وقال له:-
لقد طلبت كمية صغيرة فرفضت وها أنت الآن تعطيها برميلا كاملا
فرد عليه الليث بن سعد ، يا فتى أنها تطلب على قدرها وانا اعطيها على قدري
لو علم المتصدق حقّ العلم وتصور أن صدقته تقع في ( يد الله ) قبل يد الفقير ، لكانت لذّة المعطي أكبر من لذة الأخذ.

لیث بن سعد شہد کی تجارت کرتے تھے ۔
ایک دن ان کا شہد سے لدا ہوا کا جہاز کنارے سے لگا۔اس کے صندوقوں میں شہد بھرا ہوا تھا۔ان کے پاس ایک بوڑھی عورت ایک چھوٹا برتن لے کر آئی اور اس سے کہا ۔
اس برتن میں مجھے کچھ شہد چاہیئے۔انہوں نے انکار کر دیا۔اور وہ بڑھیا اپنا سا منہ لے کر چلی گئی۔
اس کے بعد تاجر نے اپنے کارندے سے کہا کہ اس بڑھیا کے گھر کا پتہ معلوم کرے اور ایک مکمل صندوق اس کے پاس پہنچائے۔کارندہ خیران ہوا اور کہنے لگا ۔
آپ نے اسے چھوٹے برتن پر تو انکار کیا اور اب اسے بڑا صندوق دے رہے ہیں ۔سعد نے جواب دیا ۔اس نے اپنی ظرف کے مطابق طلب کیا اور میں اسے اپنے ظرف کے مطابق دے رہا ہوں۔
۔ اگر دینے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کی عطا لینے والے فقیر کے ہاتھوں سے پہلے اللہ کے پاس پہنچ جاتی ہے تو دینے کی لذت لینے سے زیادہ ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"تُوُفِّيَ الممثل المصري ممدوح عبد العليم الثلاثاء في مستشفى بالقاهرة بأزمة قلبية مفاجئة."
"مصری اداکار ممدوح عبدالعلیم سہ شنبے کے روز قاہرہ کے ایک شفاخانے میں ناگہانی قلبی حملے کے باعث وفات پا گئے۔"
ماخذ
 
آخری تدوین:
Top