عربی شاعری مع اردو ترجمہ

فہد اشرف

محفلین
یا من بسط الارض و اجری الافلاک
ادراک کماله کمال الادراک
فی الارض و فی السماء لا رب سواک
ما نعبد یا واحد، الا ایاک
(محمد فضولی بغدادی)
بلغ العلیٰ بکماله
کشف الدجیٰ بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلّوا علیه وآله
(سعدی شیرازی)
نایاب بھائی یہ دونوں رباعی اگر کسی خوبصورت تصویر میں منتقل کر دیں تو بہت مہربانی ہوگی
 

نایاب

لائبریرین
اچھا ہوگا اگر خط نسخ میں ہو اور دونوں رباعی الگ الگ تصویر میں ہوں

2qkjig4.jpg

2aj5boy.jpg

میرے محترم بھائی کوشش کی ہے ۔
اور اپنا کیا کام تو سب کو ہی اچھا لگتا ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

حسان خان

لائبریرین
صفی الدین الحِلّی کے قصیدۂ 'الكافية البديعية في المدائح النبوية' سے ایک شعر:

قالوا اصْطَبِرْ قُلتُ صَبْرِي غَيْرُ مُتَّسِعٍ

قالوا اسلُهُم قُلتُ وُدّي غَيرُ مُنصَرِمِ

وزن: مُسْتَفْعِلُنْ فاعِلُنْ مُسْتَفْعِلُنْ فَعِلُنْ

ترجمہ:
اُنہوں نے کہا: صبر کرو۔ میں نے کہا: میرے صبر کی جولاں گاہ تنگ ہے۔ اُنہوں نے کہا: اُسے فراموش کر دو۔ میں نے کہا: [اُس کے ساتھ] میرا عشق ناقابلِ انقطاع ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فَإنَّكَ شَمْسٌ والمُلوكُ كَواكِبٌ
إذا طَلَعَتْ لم يَبْدُ مِنْهُنَّ كَوكَبُ
(النابغة الذُبْياني)

تو خورشیدی و شاهانِ دیگر ستاره؛ چون طلوع کنی ستاره‌ای دیده نخواهد شد.
فارسی مترجم: احمدرِضا یلمه‌ها

بے شک تم خورشید ہو اور شاہانِ دیگر ستارے ہیں؛ جب تم طلوع ہو گے تو کوئی ستارہ نظر نہیں آئے گا۔
 
آخری تدوین:
صفی الدین الحِلّی کے قصیدۂ 'الكافية البديعية في المدائح النبوية' سے ایک شعر:

قالوا اصْطَبِرْ قُلتُ صَبْرِي غَيْرُ مُتَّسِعٍ

قالوا اسلُهُم قُلتُ وُدّي غَيرُ مُنصَرِمِ

وزن: مُسْتَفْعِلُنْ فاعِلُنْ مُسْتَفْعِلُنْ فَعِلُنْ

ترجمہ:
اُنہوں نے کہا: صبر کرو۔ میں نے کہا: میرے صبر کی جولاں گاہ تنگ ہے۔ اُنہوں نے کہا: اُسے فراموش کر دو۔ میں نے کہا: میرا عشق ناقابلِ انقطاع ہے۔
فارسی شیریں ہے تو عربی شیریں تر ہے
کیا خوب کلام ہے
 
فَإنَّكَ شَمْسٌ والمُلوكُ كَواكِبٌ
إذا طَلَعَتْ لم يَبْدُ مِنْهُنَّ كَوكَبُ
(النابغة الذُبْياني)

تو خورشیدی و شاهانِ دیگر ستاره؛ چون طلوع کنی ستاره‌ای دیده نخواهد شد.
فارسی مترجم: احمدرِضا یلمه‌ها

تم خورشید ہو اور شاہانِ دیگر ستارے ہیں؛ جب تم طلوع ہو گے تو کوئی ستارہ نظر نہیں آئے گا۔
یہ شاید نبی ﷺ کے لیے کہا گیا ہے ۔۔؟؟؟
یا شاعر نے اپنے محبوب کے لیے کہا ہے ؟
 

حسان خان

لائبریرین
یہ شاید نبی ﷺ کے لیے کہا گیا ہے ۔۔؟؟؟
یا شاعر نے اپنے محبوب کے لیے کہا ہے ؟
نابغہ ذُبیانی دورِ جاہلیت کے شاعر تھے، اور اُن کا دین بہ احتمالِ اغلب مسیحیت تھا۔ وہ لَخْمیوں اور غسّانیوں کے دربار سے وابستہ تھے اور اُن کی بیشتر شاعری مدحیہ قصائد پر مشتمل ہے۔ لہٰذا یہ شعر یقیناً اُنہوں نے اپنے کسی ممدوح شاہ کے لیے کہا ہے، اور اِس میں اُس ممدوح کو دیگر شاہوں سے برتر بتایا ہے۔
 

ربیع م

محفلین
امام شافعی رحمہ اللہ کے مشہور زمانہ اشعار :

شَكَوْتُ إلَى وَكِيعٍ سُوءَ حِفْظِي
فَأرْشَدَنِي إلَى تَرْكِ المعَاصي
وَأخْبَرَنِي بأَنَّ العِلْمَ نُورٌ
ونورُ الله لا يهدى لعاصي​

میں نے وکیع(اپنے استاد) سے سوء حفظ کا شکوہ کیا.
تو انھوں نےگناہوں کو ترک کرنے کی جانب میری رہنمائی فرمائی
اور مجھے آگاہ کیا کہ یقینا علم نور ہے.
اور اللہ کا نور کسی گناہ گار کو نہیں دیا جاتا.
 

حسان خان

لائبریرین
إِذَا المَرْءُ أَفْشَی سِرَّهُ بِلِسَانِهِ
وَلَامَ عَلَيهِ غَيْرَهُ فَهُوَ أَحْمَقُ
إِذا ضَاقَ صَدْرُ المَرْءِ عَنْ سِرِّ نَفْسِهِ
فَصَدْرُ الَّذِي يَسْتَوْدِعُ السِّرَّ أَضْيَقُ
(الإمام الشافعي)


وزن: فَعُوْلُنْ مَفَاْعِيْلُنْ فَعُوْلُنْ مَفَاْعِلُ (بحر الطويل)

ترجمہ:
جب انسان بذاتِ خود اپنا راز فاش کر دے
پھر دوسروں کو ملامت کرے تو وہ احمق آدمی ہے
جب انسان کا اپنا سینہ راز چھپانے میں تنگ ثابت ہوا
تو جس کو راز حوالے کر رہا ہے اس کا تو اور بھی تنگ ثابت ہو گا
(مترجم: مولانا عبداللہ کاپودروی)


× دیوانِ امام شافعی کے ایک نسخے میں 'يَسْتَوْدِعُ' کی بجائے 'يُسْتَوْدَعُ' نظر آیا ہے جس سے یہ فعل مجہول میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اِس صورت میں مصرعِ رابع کے اِس حصے کا ترجمہ یہ ہو گا: 'جس کو راز سپرد کیا جا رہا ہے۔۔۔۔"
 

سید عاطف علی

لائبریرین
انی شممت من العطور جمیعھا
وعرفت اطیبھا علی الا طلاق
کل العطور سینتھی مفعولھا
ویدوم عطر مکارم الاخلاق
۔۔۔
میں نے تمام خوشبؤوں کو سونگھا
اور ان میں سب سے اچھی کوپہچان لیا
تمام عطر با الآخر ختم ہو جاتے ہیں
لیکن اخلاق کی خوشبو کبھی زائل نہیں ہوتی
 

حسان خان

لائبریرین
تُضِيءُ الظَّلامَ بِالعِشَاءِ كَأنَّهَا
مَنَارَةُ مُمْسَى رَاهِبٍ مُتَبَتِّلِ
(امرؤ القيس)
وہ شام کے وقت (اپنی زیبائی سے) تاریکیوں کو ایسے روشن کر دیتی ہے کہ گویا وہ تارکِ دنیا راہب کی شب (یا راہب کے دَیر) کا چراغ ہو۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ولدتك أمّك یابن آدم باكيًا
والناس حولك يضحكون سرورا
فاحرص علی عمل تكون إذا بكوا
في يوم موتك ضاحكًا مسرورا
-----------------------------------------

اے آدم کے بیٹے!تجھے تیری ماں نے روتا ہوا پیدا کیا۔
جبکہ تیرے گرد لوگ خوشی سے ہنس رہے تھے۔
سو (تو زندگی میں) اپنے صالح اعمال کی فکر کرتارہ۔
تاکہ تیری موت کے وقت جب لوگ رو رہے ہوں تو تو خود خوشی سے ہنس رہا ہو۔
-

مندرجہ بالا معروف اشعار کئی طرح منقول نظر آتے ہیں ۔ اور علی بن ابی طالب رض سے منسوب کیے جاتے ہیں ۔
اشعار البتہ کلام کا کمال ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
قبورنا تُبنى ۔ونُحن ما تُبنا
يا ليتنا تُبنا من قبل أن تُبنى
--------------
ہماری قبریں بنادی جاتی ہیں اور ہم توبہ نہیں کرتے
ای کاش ہم توبہ کرتے قبل اس کے کہ انہیں بنایا جاتا
--------------
علی بن ابی طالب۔رضی اللہ عنہ و ارضاہ
 

حسان خان

لائبریرین
[ادبی لطیفہ]

"جِرابُ الدّوله در کتاب خویش می‌آرد که درزیی یک چشم عمرونام را یکی از ظرفاء اهل فضل گفت که اگر مرا قبای دوزی که کس نداند که قباست یا جبّه من ترا بیتی گویم که کس نداند که مدح است یا هجو. عمرو آن قبا بدوخت. مرد ظریف نیز آن بیت بگفت. شعر:
خاط لی عمرو قبا

لیت عینیه سوا.
در این بیت هر دو چشم عمرو را یکسان خواسته است که کس نداند که در بینائی یکسان خواسته یا در کوری و هر دو معنی را محتمل است."
(ماخذ: حدائق السِحر فی دقائق الشعر، رشیدالدین وطواط)


ترجمہ:
"جراب الدولہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک اہلِ فضل ظریف شخص نے ایک عمرو نامی یک چشمی درزی سے کہا کہ اگر تم میرے لیے ایسی قبا سی دو کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ قبا ہے یا جبّہ تو میں تمہارے لیے ایک بیت کہوں گا کہ کوئی جان نہ پائے گا کہ مدح ہے یا ہجو۔ عمرو نے وہ قبا سی دی۔ مردِ ظریف نے بھی وہ بیت کہہ دی۔ شعر:
خَاطَ لِي عَمْرو قَبَا

لَيْتَ عَينَيهِ سَوَا
(عمرو نے میرے لیے قبا سی ہے؛ کاش اُس کی دونوں چشمیں یکساں ہوتیں۔)
اِس بیت میں اُس نے عمرو کی دونوں چشموں کو یکساں چاہا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اُس نے بینائی میں یکساں چاہا ہے یا نابینائی میں، اور اِس بیت میں دونوں معنوں کا احتمال ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لا تَجْزَعَنَّ، فَلَسْتَ أوَّلَ مُغْرَمٍ
فَتَكَتْ بِهِ الوَجْنَاتُ وَالأحْدَاقُ
(الشاب الظريف)
بے تابی مت کرو، کیونکہ تم [معشوق کے] رخساروں اور چشموں سے قتل و غارت ہونے والے اولین عاشق نہیں ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تونسی شاعر أبو القاسم الشابي (سالِ وفات: ۱۹۳۴ء) کے مشہور قصیدے 'إرادة الحياة' کے ابتدائی دو اشعار:

إذا الشَّعْبُ يَوْماً أرَادَ الْحَيَاةَ

فَلا بُدَّ أنْ يَسْتَجِيبَ القَدَرْ
وَلا بُدَّ لِلَّيْلِ أنْ يَنْجَلِي
وَلا بُدَّ لِلقَيْدِ أَنْ يَنْكَسِرْ

جب قوم کسی روز زندگی کا ارادہ کر لے تو تقدیر کے پاس قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا؛ شب کے پاس زائل ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا؛ اور زنجیروں کے پاس بجز شکستہ ہو جانے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔


یہ دو ابیات تونسی قومی ترانے میں بھی شامل ہیں۔
بیتِ بعدی:
وَمَنْ لَمْ يُعَانِقْهُ شَوْقُ الْحَيَاةِ

تَبَخَّرَ في جَوِّهَا وَانْدَثَر
(أبو القاسم الشابي)
اور جس شخص سے زندگی کا اشتیاق بغل گیر نہیں ہوتا، وہ زندگی کی فضا میں بخارات بن کر نابود ہو جاتا ہے۔
(یعنی شاعر کے نزدیک کسی شخص یا کسی قوم میں زندگی کا شوق و اشتیاق ہونا ہی اُس کی زندگی کا ضامن ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
صَدَّتْ بِلَا سَبَبٍ عَنِّي فَقُلْتُ لَهَا
یا أُخْتَ یوسُفَ مَا لِي صَبْرَ أيُّوبِ
(الشاب الظريف)
وہ بے سبب مجھ سے رُوگرداں ہو گئی، پس میں نے اُس سے کہا: اے خواہرِ یوسف! میں صبرِ ایوب نہیں رکھتا۔
(شاعر نے اپنی محبوبہ کو اُس کی زیبائی کی خاطر 'خواہرِ یوسف' کہا ہے۔ نیز، شاعر کا خیال ہے کہ اُس یوسف صفت محبوبہ کی دوری کو برداشت کرنے کے لیے حضرتِ ایوب جتنا صبر لازم ہے، جو شاعر کے پاس نہیں ہے۔)
 
آخری تدوین:
Top