عربی شاعری اندلس میں ایک طائرانہ جائزہ از ڈاکٹر خورشید رضوی

ربیع م

محفلین
عربی شاعری اندلس میں
ایک طائرانہ جائزہ
ڈاکٹر خورشید رضوی
اگر ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کی اس تازہ تحقیق سے اتفاق کر لیا جائے کہ مسلمان افواج طارق بن زیاد ے بہت پہلے 27ھ میں اندلس میں قدم رکھ چکی تھیں ۔ تو پھر یہاں کی فضاؤں میں اولین عربی اشعار بھی اسی زمانے میں گنگنائے گئے ہوں گے ۔ بعدازاں طارق بن زیادہ اور موسی بن نصیر کے ساتھ اندلس میں عربوں کی آمد اور پھر ان کے نسلی و گروہی تعصبات کے ہنگاموں میں ، ممکن نہیں کہ یاد ماضی اور فخر ومباہات کے جذبات کو شعر کی زبان میں ادا نہ کیا گیا ہو۔ لیکن ان ابتدائی ادوار کی رجز خوانی ہو یا غزل سرائی ، سب ہواؤں میں تحلیل ہو چکی ہے ۔ شاید اس لئے کہ یہ ادوار ایسی عملی کشاکش سے عبارت تھے جس میں ادبی آثار کی حفاظت کا اہتمام ممکن نہ تھا۔
سرزمین اندلس میں تخلیق ہونے والی عربی شاعری کا اولین قابل ذکر نمونہ ، جو محفوظ رہ سکا ہے غالبا صقر قریش عبدالرحمٰن الداخل (متوفی172ھ / 788ء) کے بعض اشعار ہیں جن پر یاد وطن یا فخر کا مضمون غالب ہے ۔ ان میں زیادہ شہرت چار شعر کے اس قطعے کو ملی جو ان نے رُ صافہ قرطبہ میں کھجور کے ایک تنہا درخت کو دیکھ کر کہا۔ کھجور کا درخت اندلس کی چیز نہ تھی یہ اسے اس کے وطن ، سرزمین شام ، اور وہاں امویوں کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا تھا ۔ شاید اسی لئے اس نے مسجد قرطبہ کے ستون اور ان کی درمیانی قوسیں اس وضع پر رکھوائیں کہ ایک نخلستان کا نمونہ پیش کریں ۔ اقبال نے اسی کیفیت کو محسوس کرکے کہاتھا:
تیری بنا پائدار ، تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل​
بہر کیف رصافہ میں کھجور کا پیڑ دیکھ کر عبدالرحمٰن کے دل کے تار جھنجھنا اٹھے اور اس نے اپنے اوراس کے درمیان غریب الوطنی کا اشتراک محسوس کرتے ہوئے کہا:
تَبَدَّت لَنَا وَسْطَ الرُّصافَةِ نَخْلةٌ
تَنَاءت بأرضِ الغَرْبِ عن بَلَدِ النَّخْل
فقُلتُ شَبِيهي في التَغَرُّبِ والنَّوَى
وطُولِ التَّنَاءي عن بَنِيّ وعن أهلي
نشَأتِ بأرضٍ أنتِ فيها غَريبةٌ
فمِثْلُكِ في الإقصاء والمُنْتأى مثلي
سَقَاكِ غَوَادِي المُزْنِ مِن صوبها الذي
يَسُحُّ ويستمرِي السِّماكَين بالوّبْلِ

"رصافہ کے وسط میں ایک کھجور ہمیں دکھائی دی
جو کھجوروں کی سرزمین سے بہت دور ارض مغرب میں کھڑی تھی ۔
میں نے اس سے کہا: اے کہ تو میری شبیہ ہے ۔
غریب الوطنی میں ، بعد مکانی میں ، اور اہل وعیال سے مدتوں کے فراق میں تو نے ایک ایسی زمین میں نشوونما پائی ہے جہاں تو غریب الدیار ہے۔
چنانچہ فاصلوں اور دوریوں کے حوالے سے تو میری مثال ہے
خدا کرے صبح کے بادل تجھے اپنے دھارے سے سیراب کریں جو کھل کر برستا ہے اور (آسمان کے ستاروں ) سماکین ، سے موسلا دھار بارش کھینچ کر لے آتا ہے "۔
اقبال نے بال جبریل میں ان اشعار کا آزاد ترجمہ " عبدالرحمٰن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت سرزمین اندلس میں " کے عنوان سے کیا ہے :
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں ناصبور ہے تو
غربت کی ہوا میں بارور ہو
ساقی تیرا نم سحر ہو
اندلس کے اموی حکمرانوں میں عبدالرحمٰن کا ذوق شعری نسل درنسل ظہور کرتا رہا ۔ ابن الابّار نے اس کے بیٹے ہشام اور پوتے الحکم کے اشعار نقل کئے ہیں ۔ اس کا پرپوتا عبدالرحمٰن الاوسط شعر وادب اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتا تھا اور گاہے گاہے خود بھی شعر کہتا تھا ۔ مشہور مغنی زریاب اسی کے دربار سے وابستہ تھا۔ اسی کے زیرسرپرستی یحییٰ بن الحکم الغزال جیسا شاعر ابھرا جس کے بارے میں روایت ہے کہ اس نے ایک مرتبہ اہل بغداد کو اپنے چند شعر یہ کہہ کر سنادئیے کہ یہ ابو نواس کے شعر ہیں تو کسی کو اس پر شک نہ گزرا ۔ الغزال نے اندلس کی منظوم تاریخ بھی لکھی ۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ بڑی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی تھا ، اور عبدالرحمٰن اس سے سفارتی کام بھی لیتا تھا ۔
عبدالرحمٰن کے درباری شعراء میں عبداللہ بن الشمر کا نام بھی نمایاں ہے ۔
شاعری کا یہ ذوق رفتہ رفتہ اندلسی ثقافت کی رگ و پے میں سرایت کر گیا ۔ صاحبان اقتدار خود شعر کہتے تھے اور شعراء کی سرپرستی کرتے تھے ۔ اگرچہ یہ سب شعراء قبول عام نہ پاسکے مثلا القلفاط محمد بن یحیی اور عبیدیس بن محمود ۔ امیر ابو الحکم المنذر بن محمد ، عبدالرحمٰن الداخل کی پانچویں پشت میں تھا اس کے دربار سے العکّی اور ابن عبد ربّہ وابستہ تھے ۔ تاہم ابن عبد ربہ کی شہرت بھی بطور شاعر کچھ زیادہ نہیں اور وہ " العقد الفرید " کی تالیف کے سبب زیادہ معرو ف ہے ۔ بہرحال وہ اندلس کے سب سے زیادہ پرشکوہ اموی حکمران عبدالرحمٰن الثالث ( الناصر) کے زمانے تک بطور شاعر دربار سے وابستہ رہا اور اس کے دور پر یوں تبصرہ کیا:
قدْ أوضحَ اللهُ للإسلامِ منهاجاً
وَالنَّاسُ قَدْ دَخَلُوا في الدِّينِ أَفْواجا
وقد تزينتِ الدنيا لساكنها
كأنما ألبستْ وشياً وديباجا

اللہ نے اسلام کا راستہ واضح کر دیا
اور لوگ دین میں جوق در جوق داخل ہوئے
اور دنیا اہل دنیا کیلئے بن سنور گئی
گویا اس نے منقش پیرہن اور دیبا کا لباس پہن لیا
رفتہ رفتہ عربی شاعری اہل اندلس کی گھٹی میں پڑ گئی اور امیر وفقیر ، شاہ وگدا ، خواص و عوام سبھی سخن گوئی و سخن فہمی میں شریک ہوگئے ۔ اس صورتحال کا اظہار کرنے کیلئے نکلسن نے قزوینی کی " آثار البلاد" کا ایک دلچسپ حوالہ دیا ہے ۔ قزوینی کے ہاں یہ اقتباس " شلب" کے تحت آیا ہے جس کے بارے میں اس نے وضاحت کی ہے کہ باجہ کے قریب اندلس کا ایک شہر ہے ۔ اصل عبارت یوں ہے :
"من عجائبها ما ذكره خلق لايحصي عددم انه قل ان يري من اهل شلب من لا يقول شعرا ولا يتعاني الادب ولو مررت بالحراث خلف فدانه و سالته الشعر لقرض في ساعته اي معني اقترحت عليه واي معني طلبت منه صحيحا"

یہاں کے عجائب میں سے ایک جس کا ذکر لاتعداد لوگوں نے کیا ہے ، یہ ہے کہ اہل شلب میں خال خال ہی کوئی ہو گا جو شعر نہ کہتا ہو اور ادب سے شغف نہ رکھتا ہو۔ تم اگر کسی ہل چلاتے ہوئے کسان کے پاس سے بھی گزرو اور اس سے شعر کی فرمائش کرو تو وہ فی الفور کسی بھی موضوع پر جو تم اسے تجویز کر دو یا کسی بھی مضمون پر جو تم اس سے طلب کرو ، ٹھیک ٹھیک شعر کہہ دے گا"
ایسی صورت حال میں ظاہر ہے کہ اس موضوع کا اجمالی احاطہ کرنے کیلئے بھی ایک ضخیم تصنیف درکار ہو گی ۔ زیر نظر مضمون کا مقصد اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اندلسی شاعری کے امتیازی خدوخال اور انہی کے حوالے سے ترتیب زمانی کی پابندی کئے بغیر ، محض آزاد تلازمِ خیال کے تحت ، چند سربر آوردہ شعراء کا ایک سرسری سا جائزہ لیا جاسکے جو قارئین کو اس موضوع پر مزید مطالعے کی تحریک بہم پہنچا سکے ۔
مجموعی طور پر اندلس کی شاعری ، بلاد مشرق میں ہونے والی عربی شاعری ہی کا ایک پرتو تھی ۔ شعر کے جو سانچے دور جاہلیت میں متعین ہو چکے تھے بیشتر قرطبہ واشبیلیہ میں بھی اسی طرح غالب رہے جس طرح بغداد و دمشق میں تھے ۔ روایت کی آہنی گرفت کو جو لفظ سے گزر کر مضامین معانی تک پر اثر انداز ہوئی اور جس نے صدیوں تک عربی شاعری میں تازگی احساس کو در آنے کا کم سے کم موقع دیا، خلاّ ق ذہنوں نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ محبوب کے اجڑے ہوئے دیار پر کھڑے ہو کر اشک باری کا مضمون جو امراؤ القیس کے " قفا نبک " سے شروع ہوا تھا ، بعد کے شعراء کیلئے ایک فریضہ مفروضہ بن کر رہ گیا ۔ ابو نواس کی باغی طبیعت اس پر جھنجھلائی چنانچہ اس نے دیار محبوب کے کھنڈر پر " کھڑے ہونے " کی اس فرسودہ روایت پر یوں پھبتی کہی :
قُلْ لمنْ يبْكي على رَسْمٍ دَرَسْ
واق۔ف۔اً ، م۔ا ضَرّ لو ك۔ان جلسْ

"جو شخص مٹے ہوئے نشانات دیار پر " کھڑا ہوا" رو رہا ہے اس سے کہو کہ وہ " بیٹھ " بھی جاتا تو کوئی خاص مضائقے کی بات نہ تھی "۔
اندلسی شاعری کے بعض ناقدین کو بھی روایت کی اسی آہنی گرفت کا شکوہ رہا ہے ۔ معاصر ہسپانوی ناقد Garcia Gomez کی رائے میں اندلس کی عربی شاعری کی بیشتر اصناف سخن میں فکر اور جذبے کی سچائی کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح "Schack کی رائے میں شعرائے اندلس کا بیشتر کلام شوکت ، حسن ِ آہنگ اور نیرنگئی خیال سے عبارت ہے جس میں ہمارے احساسات کو متاثر کرنے سے زیادہ ہماری نگاہوں کو خیرہ کردینے پر زور ہے ا ور اس اعتبار سے یہ شاعری آتش بازی سے مشابہ ہے جو اپنی چکا چوند دکھانے کے بعد تاریکی میں کھو جاتی ہے ۔اس کی چمک دمک ذرا دیر کیلئے ضرور حواس پر چھا جاتی ہے لیکن وہ طبیعت پر دیرپا اثر نہیں چھوڑتی ۔
اندلسی شاعری ( بلکہ من حیث الکل اس وقت کی تمام معاصر عربی شاعری ) پر یہ تنقید قابل لحاظ ضرور ہے مگر اس میں " بیشتر " کا لفظ خصوصیت سے قابل لحاظ ہے ۔ چنانچہ ہم دیکھیں گے کہ جس طرح اہل اندلس کے مشرقی معاصرین میں خلاّ ق طبیعتوں نے روایت کے اس آہنی جنگلے پر جابجا تازگئی احساس کے پھول کھلائے اسی طرح اہل اندلس کی طبیعت کی اُپج بھی تازہ کاری سے یکسر عاری نہ رہی اور انھوں نے روایت کی بنی بنائی شاہراہوں سے ہٹ کر اظہار کی نئی راہیں اور ہیئت و اسلوب کی نئی پگڈنڈیاں بھی نکالیں ۔ علاوہ ازیں مستشرقین کے زاویہ نظر سے مشرقی شعر وادب میں جو چیز " روایت کا جمود " قرار پاتی ہے وہ بسا اوقات مشرق کے اجتماعی لاشعور کے ان اعماق سے ذوقی لاتعلقی پر مبنی ہوتی ہے جو اس روایت کے بطون میں مضمر ہوتے ہیں چنانچہ ایک طرف غالب کی اس رائے کو سامنے رکھئے کہ
" شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے "
اور دوسری طرف شاہنامہ فردوسی پر Edward Browne کا تبصرہ دیکھئے ۔
اندلس میں عرب ثقافت کا آغاز مشرق کے عرب تمدن کی تقلید سے ہوا۔ انھوں نے وہاں کے شہروں کے نام تک مختلف بلادشرقیہ کے نام پر رکھے ۔ چنانچہ غرناطہ کو دمشق ، اشبیلیہ کو حمص ، شریش کو فلسطین اور جیان کو قِنِسرین کا نام دیا گیا ۔ رفتہ رفتہ تقلید نے منافست کی صورت اختیار کرلی ۔ چنانچہ محلات ، باغات ، درسگاہوں ، اور مساجد وغیرہ کی کثرت میں وہ اہل مشرق سے بازی لے جانے کیلئے کوشاں ہوئے ۔ یہی جذبہ شعروادب اور موسیقی وغیرہ کی سرپرستی میں بھی کارفرما ہوا۔ اندلس کےشعراء کو بلاد شرق کے اساتذہ کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا اور انہی کے القاب اور کنیتوں کے یاد کیا گیا ۔ چنانچہ ابن زیدون کو بُحتری اور ابن ہانی کو المتنبی قرار دیا گیا اور ان لوگوں نے اپنے مسلک شعری میں شعرائے عباسی ہی پیروی بھی کی ۔ مدح ، ہجو ، مرثیہ ، فخر و حماسہ ، خمریات ، تغزّ ل اور منظر نگاری وغیرہ اصناف مشرق پیروی میں یہاں بھی اختیار کی گئیں ۔ تاہم اہل اندلس کی زبان اہل مشرق کی طرح محکم نہ تھی اور اکثر قدیم اصناف میں ان کا کلام کلامِ مشارقہ کا ہم پلہ نہ تھا۔ ہاں بعض اصناف مثلا مناظر فطرت کا بیان ، اور مملکتوں کے زوال کا مرثیہ ایسی ہیں جن میں اندلسیوں نے اپنا رنگ پیدا کیا اور مشارقہ پر بازی لے گئے ۔
مرثیے کی روایت تو باقی سب اصناف کی طرح مشرق ہی سے آئی تھی اور افراد کی موت پر انہی روایتی اسالیب کی طرح رنج و غم کا اظہار کیا جاتا تھا جو شعرائے مشرق نے متعین کر دئیے تھے ۔ تاہم اندلس کی طوائف الملوکی کے زمانے میں مملکتوں کے پے درپے سقوط نے شعرائے اندلس کے دل میں درد مندی اور حب الوطنی کے سچے جذبات کو کروٹ دی اور انھوں نے افراد سے بالاتر ہو کر اجتماعی مرثیے یا شہر آشوب کی صنف پیدا کی۔ ایسے مرثیوں میں یوسف بن تاشفین کے ہاتھوں بنو عبّاد اور بنو الافطس کی مملکتوں کے زوال پر علی الترتیب ابن اللبّانہ اور ابن عبدون کے مرثیے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔ تاہم سب سے زیادہ درد انگیز ، غالبا ابو البقاء الرّ ندی کا وہ نونیہ ہے جو اندلس کے بعض علاقوں پر عیسائیوں کے قبضے اور مسلمانوں کی بیدخلی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ۔
ابن اللبّانہ کا مرثیہ بنو عبّاد کے زوال اور معتمد کی اسیری اور اشبیلیہ سے مراکش کی جانب بےبسی کے سفر سے متعلق تھا۔ اندلسی شعراء میں چونکہ معتمد کو خود ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے لہٰذا یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کی شخصیت اور فن پر ایک اجمالی نظر ڈالتے چلیں۔
ابوالقاسم محمد بن عبّاد المعتمدعلی اللہ (متوفی 488ھ/ 1095ء) اپنے باپ المعتضد باللہ کے بعد اشبیلیہ اور قرطبہ کا فرماں روا ہوا ۔ وہ طبعا شاعر آدمی تھا اور اس پائے کا کہ بقول ابن الابّار" لم یک فی ملوک الاندلس قبلہ اشعر منہ" " شاہان اندلس میں اس سے پہلے اس سے بہتر شاعرکوئی نہ تھا "
معتمد کی کمزوریاں وہی تھیں جو عموما شعراء میں ہوتی ہیں اور یہی غالبا اس کے زوال کا سبب بھی بنیں ۔ لیکن اس کی فطرت بلند تھی ۔ وہ نہایت سخی بھی تھا اورشجاع بھی ۔ جب کبھی میدان جنگ میں تلوار اٹھانے کا موقع آیا اس نے پامردی کی مثال قائم کی۔ حریر وپرنیاں کے ساتھ سیرتِ فولاد کا یہ امتزاج ایک دل کش امتزاج تھا ۔ چنانچہ معتمد کی شخصیت خاصی ہر دلعزیز شخصیت تھی ۔ شعر کا ذوق اسے ورثے میں ملا تھا ۔ بچپن ہی میں مؤذن کی اذان سن کر اس نے ارتجالا کہا تھا:
هذا الموذن قد بدا باذانه
يرجو الرضا والعفو من رحمانه
طوبي له من ناطق بحقيقة
ان كان عقد ضميره كلسانه


یہ موذن جو اپنی اذان کے ساتھ سامنے آیا ہے
اپنے ربِ رحیم کی خوشنودی و مغفرت کا طالب ہے
یہ شاد وآباد رہے اس کی زبان سے بڑے سچے الفاظ نکل رہے ہیں
بشرطیکہ اس کے ضمیر کی تہوں میں بھی وہی کچھ ہو جو اس زبان پر ہے ۔
معتمد کے شب وروز ، حسن وشباب ، صراحی وکتاب ، اور ندیمان باذوق و حاضروجواب سے عبارت تھے ۔ ایک روز دریا کی سیر کرتے ہوئے معتمد نے سطح آپ پر ہوا سے پیدا ہونے والے تموّج کو دیکھا تو برجستہ یہ مصرع کہا:
صَنَعَ الريحُ من الماءِ زَرَد

ہوا نے پانی پر زرہ سی بُن دی ہے
اس کا شاعر وزیر ابن عماّر بھی ہمراہ تھا ۔ معتمد نے اس سے فرمائش کی کہ گرہ لگائے ۔ ابن عمار نے بہت دماغ لڑایا مگر طبیعت نے راہ نہ دی ایک عورت قریب ہی کہیں بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی اس نے وہیں سے جواب دیا:
أَيُّ درعٍ لقتالٍ لو جمدْ
کاش یہ یہیں جم جائے تو جنگ کیلئے کیا خوب زرہ ثابت ہو
معتمد چونکا اور پہلی ہی نظر میں سو جان سے اس پر عاشق ہو گیا۔ یہ خاتون "رُ میکیّہ " اس کی چہیتی ملکہ بنی اور اسے ہمیشہ معتمد کے دل ودماغ پر وہی تصرف حاصل رہا جو نور جہاں کو جہاں گیر پر حاصل تھا۔ رمیکیہ کا اصل نام " اعتماد " تھا ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معتمد نے اپنا لقب اسی کے نام سے اخذ کیا ) اعتماد کی نازبرداریوں کے سلسلے میں معتمد کے بعض عجیب واقعات منقول ہیں ۔ مثلا یہ کہ ایک موقع پر اعتماد نے اشبیلیہ میں کچھ دودھ بیچنے والی بدو عورتوں کو دیکھا کہ مشکیزوں میں دودھ بھرے پنڈلیوں تک پائنچے اکسائے ، کیچڑ میں چل رہی ہیں ۔ اس پر اس نے اس عجیب وغریب خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنی خواصوں کے جلو میں اسی طرح چلنا چاہتی ہوں ۔
معتمد نے کافور اور مشک و عنبر کے ڈھیر عرق گلاب میں گندھوائے اور یہ " گارا" محل میں بچھا دیا گیا ۔ پھر ابریشم کی ڈوریاں اور مشکیزے تیار کئے گئے اور اعتماد اور اس کی خواصوں نے اس " گارے " میں چل کر یہ خواہش پوری کی ۔
اس دور میں معتمد کا کلام انہی آسائشوں کے گرد گھومتا تھا ۔ مثالیں اس کے دیوان میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مگر اسے معلوم نہ تھا کہ کیا کیا سنگینیاں ان رنگینیوں کی گھات میں ہیں ۔ اسی زمانے میں عیسائی قوتوں نے Alfonso کی سربراہی میں خود کو مجتمع کر لیا اور مسلمانوں کی طوائف الملکوکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو دبا لیا ۔ بعض حالات ۔ جن کی تفصیل میں جانا باعث طوالت ہو گا ۔ ایسے پیش آئے کہ معتمد اس بات پر مجبور ہو گیا کہ مراکش میں مرابطین کے طاقتور سربراہ یوسف بن تاشفین سے مدد چاہے ۔ اس کے خیرخواہوں نے اسے اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی لیکن اس کا جواب - جو کہ اس کی حمیت اسلامی کا آئینہ دار ہے – یہ تھا کہ رعی الجمال خیر من رعی الخنازیر " اونٹوں کا چرواہا بننا ( یعنی یوسف بن تاشفین کی غلامی ) سؤروں کا چرواہا بننے سے ( یعنی عیسائیوں کی غلامی )سے بہتر ہے ۔ علاوہ ازیں اس سلسلے میں غالبا مذہبی علماء و فقہاء کا دباؤ اس وقت اتنا زیادہ تھا کہ معتمد کے لئے اس رائے سے اختلاف شاید ممکن بھی نہ رہا ہو۔

بہرحال یوسف بن تاشفین اندلس آیا اور زلّاقہ کی جنگ میں الفانسو کو عبرت ناک شکست دے کر اس نے اندلس پر عیسائی تسلط کے امکانات کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا ۔ اس بار وہ اندلس کی پارہ پارہ حکومتیں جوں کی توں ان کے حکمرانوں کو سونپ کر واپس چلا گیا لیکن افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کے مقابلے میں اندلس کے شاداب علاقوں کی کشش نیز بعض مصاحبوں کے اکسانے نے اسے دوسری بار اس عزم کے ساتھ اندلس کا رخ کرنے کی تحریک فراہم کی کہ وہ ان سب کمزور مسلمان حکمرانوں کو اندلس کی بساط سے ہٹا کر خود وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کرے ۔ چنانچہ اس بار وہ ایک فاتح کی حیثیت سے آیا اور خود معتمد کو اس سے جنگ کرنا پڑی ۔ اس جنگ میں معتمد کی پامردی و بے جگری تاریخ کے صفحات میں یادگار ہے ۔ لیکن مقدر کا لکھا یہی تھا کہ اس کی تیغ دودم اب اس کی زنجیر بن جائے ۔ یوسف بن تاشفین نے اس کی جاں بخشی ضرور کردی لیکن اسے پابجولاں طنجہ لے گیا ۔ جب اسے اور اس کے اہل خانہ کو سفینے میں سوار کیا جارہاتھا ، اس کے محب کنارے پر کھڑے زاروقطار رو رہے تھے ۔ بالآخر اسے اغمات کے قید خانے میں ڈال دیا گیا جہاں سے نکلنا اس کے نصیب میں نہ تھا ۔ سیاسی کشمکش کے دوران میں تین بیٹوں کاداغ معتمد کے سینے پر پہلے سے تھا ۔ اب اس کا بیٹا ابوہاشم ، چہیتی ملکہ اعتماد اور اس کی بچیاں در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے رہ گئیں ۔ نازونعم کی پلی ہوئی یہ شہزادیاں اب اجرت پر لوگوں کیلئے سوت کاتتی تھیں ۔
قید خانے میں معتمد نے جو شاعری کی وہ فنی اعتبار سے اس کی بلند ترین تخلیقات سے عبارت ہے کیونکہ ذاتی احساس کی وہ کسک اس شاعری کی جان ہے جس کے فقدان کا شکوہ اندلسی شاعری کے بعض ناقدین کو رہا ہے ۔ ماضی کی بہار اور حال کے خارزار کا موازنہ اس کے نازک دل پر کیا کیا قیامت برپا نہ کرتا ہوگا۔ ایک موقع پر اس نے کہا:
تَبدلتُ مِن عزِّ ظلِّ البُنودِ
بذُلِّ الحَديدِ وَثِقَل القُيود
وَكانَ حَديدي سناناً ذَليقاً
وَعضبا دَقيقاً صَقيل الحَديد
فَقَد صارَ ذاكَ وَذا أَدهَما
يَعُضُّ بِساقيَّ عَضَّ الأُسود

پرچموں کے سائے کی عزت کے عوض
مجھے لوہے کی ذلت اور بیڑیوں کی گرانی نصیب ہوئی
لوہا میرے لئے نیزے کی تیز انی
اور باریک ، صیقل شدہ دھاروں والی شمشیر برّاں سے عبارت ہوا کرتا تھا
اب وہ اور یہ دونوں ایک بیڑی میں ڈھل گئے ہیں
جو میری پنڈلیوں کو شیروں کی طرح چباتی ہے '
انہی اشعار کی ترجمانی اقبال نے " قید خانہ میں معتمد کی فریاد " کے عنوان سے یوں کی ہے :
اک فغاں بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
سوز بھی رخصت ہوا، جاتی رہی تاثیر بھی
مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی
خودبخود زنجیر کی جانب کھچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جو مری تیغ دودم تھی اب مری زنجیر ہے
شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی
قید وبند کی انہی صعوبتوں میں وہ لمحہ جانگذار بھی آیا کہ عید کے روز اس کی بیٹیاں سلام کی غرض سے قید خانے میں حاضر ہوئیں ان کی زبوں حالی اور بوسیدہ لباس دیکھ کر معتمد کا دل پھٹ کر رہ گیا ۔ یہ اشعار انہی تاثرات کے امین ہیں ۔

فيما مَضى كُنتَ بِالأَعيادِ مَسرورا
فَساءَكَ العيدُ في أَغماتَ مَأسورا
تَرى بَناتكَ في الأَطمارِ جائِعَةً
يَغزِلنَ لِلناسِ ما يَملِكنَ قَطميراً
بَرَزنَ نَحوَكَ لِلتَسليمِ خاشِعَةً
أَبصارُهُنَّ حَسراتٍ مَكاسيرا
يَطأنَ في الطين وَالأَقدامُ حافيَةٌ
كَأَنَّها لَم تَطأ مِسكاً وَكافورا
قَد كانَ دَهرُكَ إِن تأمُرهُ مُمتَثِلاً
فَرَدّكَ الدَهرُ مَنهيّاً وَمأمورا
مَن باتَ بَعدَكَ في مُلكٍ يُسرُّ بِهِ
فَإِنَّما باتَ بِالأَحلامِ مَغرورا
ایک زمانہ تھا کہ عیدیں تیرے لئے خوشیاں لایا کرتی تھیں
ایک وقت یہ بھی ہے کہ اغمات کی اسیری میں عید تیرے دل پر بار ہے تو اپنی بیٹیوں کو بھوک کی کیفیت میں چیتھڑوں ملبوس دیکھتا ہے
وہ لوگوں کیلئے سوت کاتتی ہیں اور ان کی گرہ میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں وہ تیرے پاس اس کیفیت میں سلام کو حاضر ہوئی ہیں کہ ان کی نگاہیں نیچی اور تھکی تھکی اور جھکی جھکی ہیں وہ ننگے پاؤں مٹی پر قدم رکھ رہی ہیں
یوں لگتا ہے کہ یہ قدم کبھی مشک وکافور پر نہیں چلے تھے
وہ دن بھی تھے کہ تو اپنے زمانے کو اگر حکم دیتا تھا تو وہ اسے بجا لاتا تھا
اب زمانے نے تجھے اس حال کو پہنچا دیا کہ جب چاہے تجھےروک دے اور جب چاہے اپنے حکم پر چلائے
تیرے بعد جو کوئی کسی بادشاہی میں خوش ہو کر شب بسری کرتا ہے تو فقط خوابوں کے فریب میں رات گزارتا ہے ۔
معتمد کو اس بندغم سے نجات قید حیات کے ختم ہونے پر ہی نصیب ہوسکی ۔ جب اشبیلیہ کے خواب بالآخر اغمات میں پیوند زمیں ہوگئے ۔
سو یہ تھی دولت بنو عباد کے زوال کی وہ اندوہناک داستان جس پر ابن اللبّانہ نے وہ مرثیہ کہا جس کا مطلع ہے :
تَبْكِي السَّمَاءُ بِدَمْعٍ رَائِحٍ غَادِي
عَلَى البَهَالِيلِ مِنْ أَبْنَاءِ عَبَّادِ


آسماں صبح و شام ابر باراں سے آنسو بہاتا ہے
بنو عباد کے جامع صفات سرداروں پر
دوسرا مشہور مرثیہ ابن عبدون کا ہے جو بنو الافطس کے زوال پر کہا گیا:
الدّهرُ يفجع بعدَ العينِ بالأثرِ
فما البكاءُ على الأشباحِ والصُّوَرِ

زمانہ اصل کے بعد اس کی رہی سہی نشانیوں کا صدمہ بھی دکھاتا ہے
سو پرچھائیوں اور تصویروں پر آہ و بکا سے کیا حاصل ؟
اجتماعی مرثیوں کے سلسلے کی تیسری اور شاید سب سے زیادہ موثر مثال ابو البقاء الرُّندی کا وہ مرثیہ ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا۔ یعنی وہ نونیہ جو اس نے بعض بلاد اندلس پر عیسائیوں کے تصرف اور مسلمانوں کی بے دخلی کے غم میں کہا:
لكل شيءٍ إذا ما تم نقصانُ
فلا يُغرُّ بطيب العيش إنسانُ
هي الأيامُ كما شاهدتها دُولٌ
مَن سَرَّهُ زَمنٌ ساءَتهُ أزمانُ

ہر شے جب کمال کو پہنچ جائے تو پھر اس کیلئے زوال مقدر ہے سو کوئی شخص آسودگئی حیات کے فریب میں نہ آئے
یہ معاملات زیست جیسا کہ تم دیکھ چکے ، آنی جانی ہیں ایک گھڑی کا سکھ اگر کسی کو ملتا ہے تو کئی گھڑیوں کا دکھ اسے جھیلنا پڑتا ہے ۔
اس مرثیے میں دیار اسلام کے اجڑنے اور کفار کے غلبے کی تصویر شاعر نے اشک خون آلود سے یوں بنائی ہے :
حيث المساجد قد صارت كنائسَ ما
فيهنَّ إلا نواقيسٌ وصُلبانُ
حتى المحاريبُ تبكي وهي جامدةٌ
حتى المنابرُ ترثي وهي عيدانُ
بالأمس كانوا ملوكًا في منازلهم
واليومَ هم في بلاد الكفرِّ عُبدانُ
ولو رأيتَ بكاهُم عندَ بيعهمُ
لهالكَ الأمرُ واستهوتكَ أحزانُ
يا ربَّ أمّ وطفلٍ حيلَ بينهما
كما تفرقَ أرواحٌ وأبدانُ
وطفلةً مثل حسنِ الشمسِ إذ طلعت
كأنما هي ياقوتٌ ومرجانُ
يقودُها العلجُ للمكروه مكرهةً
والعينُ باكيةُ والقلبُ حيرانُ
لمثل هذا يذوب القلبُ من كمدٍ
إن كان في القلبِ إسلامٌ وإيمانُ


جہاں مسجدیں گرجوں میں تبدیل ہوچکی ہیں
ان میں ناقوسوں اور صلیبوں کے سوا کچھ نہیں
محرابیں تک گریہ وزاری کرتی ہیں حالانکہ وہ ایک وجود جامد ہیں
منبر تک مرثیہ خواں ہیں حالانکہ وہ محض چوب خشک ہیں
( مسلماں ) کل تک اپنے گھروں میں بادشاہ تھے
اور آج وہ بلاد کفر میں غلام ہیں
جس وقت انھیں فروخت کیا جاتا ہے اس وقت اگر تو ان کی آہ وبکا کو دیکھے تو یہ صورت حال تیرا دل دھلا دے اور غم و اندوہ تیرے ہوش اڑا دیں ۔
کتنی مائیں اور بچے ہیں جن کے درمیا ن سنگینی حالات حائل ہو گئی یوں جیسے روحوں کو جسموں سے جدا کردیا جائے
کتنی بچیاں ہیں ، چڑھتے سورج کی طرح حسین
یوں گویا وہ یاقوت اور مرجان ہوں
کافربے دین انھیں ناپسندیدہ صورتحال کی طرف زبردستی لئے جاتا ہے جبکہ آنکھ اشک بار ہے اور دل سرگشتہ و حیران ہے
یہ ایسی صورت حال ہے کہ غم و اندوہ سے دل اس پر پگھلا جاتا ہے
اگر دل میں کہیں اسلام اور ایمان کی رمق باقی ہو
سقوط ممالک پر اجتماعی مرثیے یا شہرآشوب کی یہ روایت جس کا آغاز اندلس کے المیوں سے ہوا بعد میں بھی باقی رہی چنانچہ سقوط بغداد پر سعدی نے بڑا درد انگیز نوحہ لکھا:
آسمان راحق بود گر خوں بگرید بر زمیں
بر زوال ملک مستعصم امیر المومنین
قریب کے زمانے میں حالی نے دہلی مرحوم کی بڑے دل گداز انداز میں مرثیہ خوانی کی
تذکرہ دہلئ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
اور اقبال کو جب صقلیہ (جزیرہ سسلی )میں تہذیب حجازی کا مزار نظر آیا اور انھوں نے اپنے دیدہ خوننابہ بار کو دل کھول کر رونے کی دعوت دی تو انھوں نے اجتماعی مرثیے کی اس روایت کے تسلسل کی طرف اشارہ بھی کیا:
نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر
آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
اجتماعی مرثیے کے علاوہ جس صنف سخن میں شعرائے اندلس نے اپنا خاص رنگ نکالا وہ وصف Descriptive Poetry ہے ۔ جنگی معرکوں کی منظر کشی ، سیر وشکار کی منظر کشی ، مجالس لہوولعب اور بزم ہائے جام وطرب کی منظر کشی وغیرہ وغیرہ مضامین میں انھوں نے اپنے دقیق مشاہدات کو پیکر شعر میں ڈھالا لیکن اس میدان میں سب سے بڑھ کر جہاں ان کے جوہر کھلے وہ مناظر فطرت کا بیان تھا جس میں وہ اہل مشرق پر بازی لے گئے ۔ سبزۂ و آب رواں ، اشجارو طیور ، چاندستارے ، محلّات اور ان کی آرائش وزیبائش جیسے موضوعات پر ان کے قلم نے موقلم کی سی باریکی دکھائی اور یہ اندلس کی حسین و جمیل فضاؤں کا طبعی تقاضا تھا۔ وصفیہ شاعری کے اس عظیم الشان ذخیرے سے انتخاب اور پھر اس کی چند نمائندہ مثالیں پیش کرنا بھی اس مختصر سے مضون میں ممکن نہ ہوگا ۔ ابن خفاجہ ابراہیم بن ابی الفتح (متوفی 533ھ / 1138 ء) کو چونکہ " وصف الطبیعۃ " یعنی مناظر فطرت کی عکاسی میں نمایاں حیثیت حاصل ہے اس لئے اس کے چند اشعار پر نظر ڈالتے چلیں کہ آب رواں کی تصوپر اس نے کس چابکدستی سے بنائی ہے اور اس میں کیا کیا رنگ صرف کئے ہیں :
متعطفٌ مثل السوار كأنه
والزهر يكنفه مجرًّ سماءِ
قد رق حتى ظُنَّ قرساً مفرغاً
من فضة في بردة خضراءِ
وغدت تَحف به الغصون كأنها
هدب يحف بمقلة زرقاءِ
والريح تعبث بالغصون وقد جَرى
ذهبُ الأصيل على لجين الماءِ
کنگن کی طرح بل کھایا ہوا
پھولوں میں گھرا ہوا(یہ پانی )
یوں لگتاہے جیسے آسماں کی کہکشاں
اس درجہ لطیف کہ سانچے میں ڈھلا ہوا چاندی کا ایک تھال معلوم ہوتاہے
جو ایک سبز چادر پر دھرا ہو
ڈالیاں اس کے گردا گرد یوں ہجوم کئے ہوئے ہوں
جیسے نیلگوں حلقہ چشم کے گرد پلکیں ہوں
اور ہوا ٹہنیوں سے اٹکھیلیاں کر رہی ہے
جبکہ شام کا سونا پانی کی چاندی پر رواں ہے
ابن خفاجہ ہی نے ایک اور موقع پر اندلس کی فضاؤں کو یوں خراج پیش کیا تھا:
يَأَهلَ أَندَلُسٍ لِلَّهِ دَرُّكُمُ
ماءٌ وَظِلٌّ وَأَنهارٌ وَأَشجارُ
ما جَنَّةُ الخُلدِ إِلّا في دِيارِكُمُ
وَلَو تَخَيَّرتُ هَذا كُنتُ أَختارُ
اے اہل اندلس تمہارے کیا کہنے ہیں پانی اور سایہ اور دریا اور درخت
باغ خلد اگر کہیں ہے تو تمہارے دیار میں ہے
مجھ سے اگر کہا جائے کہ دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کروں تو میں اسی کو اختیار کروں
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمین است وہمین است
اگر طوالت کاخوف نہ ہوتا تو یہاں علی بن حصن کے وہ شعر بھی نقل کرنے کے لائق تھے جس میں اس نے شاخ پر بیٹھے ہوئے فاختہ کے بچے کے بال وپر کے ایک ایک ریشے کی زندگی سے بھرپور تصویر بنائی ہے یا ابن شہید کے وہ اشعار جن میں اس نے ابروباراں کی منظر کشی کی ہے یا ابن زیدون کا وہ قصیدۂ قاضیّہ جو اس نے مدینۃ الزھراء میں ولّادہ کی یاد میں لکھا۔ ابن زیدون اور ولّادہ کا ذکر آگیا ہے تو اب ضروری ہےکہ ایک مختصر سی ملاقات ان دونوں سے ہو جائے کہ ان کے ذکر کے بغیر اندلسی شاعری کا تذکرہ نامکمل اور بے کیف ہے۔
ابو الولید احمد بن عبداللہ ، ابن زیدون ( م 463ھ / 1071 ء ) بعض نقادوں کی رائے میں اندلس کا سب سے بڑا شاعر تھا۔ جس زمانے میں اس نے نشوونما پائی وہ اندلس میں سخت سیاسی خلفشار کا زمانہ تھا ۔ جو بالآخر ابن زیدون کے وطن قرطبہ میں ابوالحزم ، ابن جہور کی بادلادستی پر منتج ہوئی ۔ حسن اتفاق سے ابن زیدون کا شمار ابن جھور کے حامیوں میں ہوتا تھا اور اس کے بیٹے ابوالولید سے اس کے دوستانہ روابط تھے ۔ نتیجہ یہ کہ ابن زیدون ۔جوبیس برس کی عمر ہی سے اپنے ملکہ شعر گوئی کا لوہامنوا چکا تھا۔ اب سیاسی اہمیت سے بھی بہرہ یاب ہوا ۔ ابن جہور نے اسے قلمدان وزرات سونپا اور سفارت کا کام بھی لیا ۔ معلوم یہ ہوتا تھا کہ وہ دنیوی کامرانیوں کے زینے بڑی تیزی سے طے کرے گا کہ عشق کے اندھے صیّاد نے اپنا تیر اس پر چلایا اور وہ ولّادہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا۔
ولّادہ اپنے دور کی قتّالۂ عالم ، ایک سابق خلیفہ المستکفی کی بیٹی تھی ۔ حسن و جمال کے علاوہ وہ ذہانت وفطانت اور شعر گوئی وادب شناسی میں یکتا تھی ۔ پروفیسر حتِّی نے اسے "ہسپانیہ کی سیفو" قرار دیا ہے ۔ قرطبہ میں اس کا مکان شعراء وادباء کا مرجع تھا۔ المقّری کے بقول تمام تر ظاہری بے حجابانہ انداز کے باوصف ، اس کی عفّت مسلم تھی۔ تاہم اگر وہ بعض اشعار جو خود مقّری نے اس سے منسوب کئے ہیں واقعی اس کے ہیں تو کم از کم گفتار کی حد تک اس کی بے حجابی فحش گوئی تک جا پہنچتی تھی ۔ بطرس البستانی کے تخیّل نے ولّادہ کی تصویر خوب بنائی ہے :
"وكانت ولادة اديبة مثقفة تميل الي الادباء وتعاشرهم و ماجنة لعوبا تعبث بالقلوب و تحطمها , تمنح مودتها لمن تشاء و تستردها متي تشاء , فلم تكن في ودها كاذبة ولا في رجوعها عنه غادرة وانما هو طبعها المرح الهازئ يستلذ خفقان القلوب فتبدل واحدا بعد آخر كما تنقل الفراشة من زهرة الي زهرة"
" ولّادہ اک شائستہ ادیب تھی ۔ ادیبوں سے دل چسپی اور ان سے میل جول رکھنے کا اس میں رجحان تھا ۔ بے باکانہ دل لگی اور ہنسنا کھیلنا اس کی طبیعت کا حصہ تھا۔ وہ دلوں سے کھلونے کی طرح کھیلتی تھی اور انھیں توڑ ڈالتی تھی ۔ جسے چاہتی اپنی سے محبت سے شادکام کرتی اور جب چاہتی یہ عنایات واپس لے لیتی ۔ نہ وہ اپنی محبت میں جھوٹی تھی اور نہ اس سے پھرجانے میں بے وفائی کو دخل تھا ۔ بس اس کی چونچال ، ہنسوڑ سرشت کا تقاضا یہ تھا کہ دلوں کو تڑپانے میں اسے مزا آتا تھا چنانچہ وہ یکے بعد دیگرے نئے دل پر کمند ڈالتی رہتی تھی جیسے کوئی تتلی ایک پھول سے اڑ کر دوسرے پر جابیٹھتی ہے "
ولّادۃ ابن زیدون پر بھی مہربان ہوئی چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ابن زیدون کے نام ایک موقع پر پیغام بھیجا :
ترقَّبْ إذا جنَّ الظَّلامُ زِيارتي
فإنّيرأيْتُ اللَّيلَ أكْتمَ للسِّر
وبِي مِنك ما لو كان بالبَدْرِ ما بَدا
وباللَّيل ما أدْجَى وبالنَّجمِ لم يَسْرِ

"جب اندھیرا خوب چھا جائے تو میری ملاقات کا منتظر رہنا کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ رات کا وقت رازداری کیلئے زیادہ موزوں ہے تیرے سبب سے میری جو کیفیت ہے اگر مہ کامل کی ہوتی تو وہ جلوگر نہ ہوتا اور اگر رات کی یہ کیفیت ہوتی تو تاریک ہونا اس کیلئے ممکن نہ رہتا اور اگر ستارے کی ہوتی تو سفر شب اس کیلئے دشوار ہو جاتا"
ادھر وزیر ابو عامر ابن عبدوس بھی ولّادہ کے دلدادگان میں تھا۔ اور ولّادہ کی عنایات سے سراسر محروم بھی نہ تھا۔ ابن زیدون کا دل رقابت کی آگ میں جلتا تھا مگر مجبور تھا ۔ وزیر ابن عبدوس کے لقب " الفار " (چوہا) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اپنے دل کو یوں سمجھایا:
عَيّرْتُمُونا بأنْ قَد صارَ يَخْلُفُنا
فِيمَنْ نُحِبّ وما في ذاكَ مِنْ عارِ
أكلٌ شهيٌّ أصبْنَا منْ أطايبِهِ
بَعْضاً وبَعْضاً صَفَحْنَا عَنهُ للفَارِ

"تم نے ہمیں یہ طعنہ دیا ہے کہ یہ شخص ہمارے بعد ہمارے محبوب کے پاس ہوتا ہے ۔ اس میں عار کی کیا بات ہے
ایک لذیذ غذا تھی جس کے بعض صاف ستھرے حصے ہمارے تصرف میں آئے اور بعض حصے ہم نے خود ہی "چوہے " کیلئے چھوڑ دئیے "۔
اسی رقیبانہ چپقلش میں ابن زیدون نے ولّادہ کی زبانی ابن عبدوس کے نام وہ مشہور مکتوب لکھا جو "رسالہ ابن زیدون " کے نام سے اندلس کے نثری ادب میں یادگار ٹھہرا اور بعد کے زمانے میں کئی ادیبوں نے اس کی شرح لکھی ۔ یہ مکتوب، نادر ادبی تلمیحات کا ایک مرقّع تھا جن کے حوالے سے ابن عبدوس پر سخت کیچڑ اچھالی گئی تھی ۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ابن عبدوس نے ابن زیدون کے بعض اورمخالفین سے ساز باز کر کے ابو الحزم ابن جہور کو اس سے بدگمان کر دیا۔ چنانچہ اس نے ابن زیدون کو جیل میں ڈلوا دیا ۔ ابن زیدون نے امیرابن جہور کے نام بہت سے قصیدے مدح وشکایت کے لہجے میں لکھے ۔ اس کے بیٹے ابوالولید کو درمیان میں ڈالنا چاہا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا اور کئی برس اس قید وبند کی صعوبت جھیلنا پڑی زندان کے انہی تلخ ایام میں وہ شاعری بھی تخلیق ہوئی جو ولّادہ کی شیریں یادوں سے عبارت تھی ۔
اس کے بعد کے واقعات میں اختلاف ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے ابوالولید نے بالآخر ابن زیدون سے حق دوستی نبھایا اور باپ سے سفارش کرکے اسے زنداں سے نکلوایا ۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ خود قیدخانے سے فرار ہوگیا۔ ہاں اس بات کا امکان ہوسکتا ہے کہ اس فرار میں ابوالولید نے اسے مدد دی ہو ۔ کچھ عرصہ وہ قرطبہ ہی میں روپوش رہا اور ولّادہ کی یاد میں پرسوز شاعری کرتا رہا اسی اثناء میں ابوالحزم ابن جہور کا انتقال ہوگیا اور ابوالولید نے خود مسند امارت سنبھال لی ۔ اب پھر ابن زیدون کے دن پھرے اور پرانی حیثیت بحال ہوئی ۔ اس سے سفارت کا کام لیا گیا اور جہاں جہاں وہ گیا اس نے بہت اچھا تاثر چھوڑا ۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ درمیان میں کچھ عرصے کیلئے ابوالولید بھی اس سے بدظن و سرگراں ہوگیا لیکن جلد ہی یہ گرہ جاتی رہی ۔ تاہم گمان یہ گزرتا ہے کہ شاید خود ابن زیدون کے آئینہ دل پر کچھ غبار رہ گیا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ اس نے اپنے سفارتی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھا کر اشبیلیہ کے حکمران معتمد کے والد " عبّاد بن محمد المعتضد باللہ " سے تعلقات استوار کرلئے اور قرطبہ کو چھوڑ کر – جوولّادہ کے بعد اس کیلئے دوسری عزیز ترین چیز تھی – المعتضد ہی کے دربار میں منتقل ہو گیا۔ عین ممکن ہے کہ اس میں ولّادہ کے ہرجائی پن اور اس کی سردمہری کو بھی دخل ہو کیونکہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس عشق کامنطقی انجام کیا ہوا۔
اشبیلیہ میں ابن زیدون نے اچھے دن دیکھے ۔ وہ معتضد کی مدح میں قصائد کہتا رہا۔ معتضد نے اس سے دوستانہ سلوک رکھا اور اسے بیک وقت وزارت عظمیٰ وسالاری افواج کے مناصب سونپ کر " ذوالوزارتین " دووزارتوں والا" (یعنی وزارت سیف وقلم ) کاخطاب دیا۔ معتضد کے بعد معتمد نے بھی اس کے ساتھ یہی حسن سلوک برقرار رکھا اور اس کے فن کی بڑی قدردانی کی ۔دونوں باہم جو ادبی حظ اٹھاتے تھے اس کاایک نمونہ وہ منظوم پہیلیاں ہیں جو وہ ایک دوسرے کو بھیجتے تھے اور پھر ان کاحل بھی نظم میں پیش کیا جاتا تھا۔ یہ پہیلیاں دیوان معتمد کے حصہ " المعمیات" میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔
ابن زیدون کو قرطبہ سے جو عشق تھا شاید اسی کے سبب وہ رفتہ رفتہ معتمد پر اثرانداز ہوا اور اسے عملا قرطبہ پر لشکر کشی کر کے اسے بنو جہور سے چھین لینے پر آمادہ کرلیا۔ اب معتمد کا دربار عارضی طور پر قرطبہ منتقل ہوگیا اور ابن زیدون اپنی فردوس گم گشتہ میں واپس پہنچ گیا۔ شاید یہ اس کی زندگی کا آسودہ ترین زمانہ تھا جس میں گرتی ہوئی صحت اور ولّادہ کی یاس انگیز یادوں کے سوا غالبا اور کوئی چیز خلل انداز نہ تھی ۔ لیکن سات آسمان رات دن گردش میں ہیں اور ابن آدم کو خبر نہیں ہوتی کہ یہ گردش کہاں اس کیلئے کیا جال بُن رہی ہے۔ معتمد کے قرب ، سیاسی وجاہت ، قرطبہ کو واپسی یہ سب ایسی نعمتیں نہ تھیں کہ بعض دلوں میں حسد کا کانٹا بن کر نہ چبھتیں ۔ معتمد کا دوسرا شاعر دوست اور سیاسی معتمد ، ابوبکر بن عماّر اور ابن مرتین درپردہ اس حسدمیں پیش پیش تھے ۔ شومئی قسمت سے اشبیلیہ میں انہی دنوں مسلمانوں اور یہودیوں میں فساد ہوگیا ۔ معتمد نے اس فتنے کو دبانے کیلئے اپنے بیٹے الحاجب سراج الدولہ کو ایک لشکر کی کمان دے کر قرطبہ سے اشبیلیہ روانہ کیا اور اس کے ہمراہ کچھ علماء اور بعض سربرآوردہ لوگوں کا ایک وفد بھی بھیجا ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ابن عمار اور ابن مرتین نے معتمد کو مشورہ دیا کہ ابن زیدون کو اشبیلیہ میں خاصا اثرورسوخ حاصل ہے لہذا اسے بھی وفد میں شامل کرنا مناسب ہوگا ۔ معتمد کے حکم پر چاروناچار اسے یہ سفر اختیار کرنا پڑا جو اس کی گرتی ہوئی صحت کے سبب اس کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا ۔ وطن کی خاک میں شاید کچھ ایسی کشش نہ تھی ۔ چنانچہ وہ اشبیلیہ ہی میں مدفون ہوا۔ قرطبہ سے دور جس کا وہ عاشق زارتھا اور جس کی یاد میں اس نے ایام اسیری کے دوران اپنی مشہور طویل ترین مخمّس کہی تھی :
أقرطبة الغراء هل فيك مطمع
وهل كبد حرى لبينك تنفع‏
وهل للياليك الحميدة مرجع
إذا الحسن مرأى فيك واللهو مسمع‏
إِذِ الحُسنُ مَرأىً فيكِ وَاللَهوُ مَسمَعُ
وَإِذ كَنَفُ الدُنيا لَدَيكِ مُوَطَّأُ

نَهارُكِ وَضّاحٌ وَلَيلُكِ ضَحيانُ.
وَتُربُكِ مَصبوحٌ وَغُصنُكِ نَشوانُ.
وَأَرضُكِ تُكسى حينَ جَوُّكِ عُريانُ.
وَرَيّاكِ رَوحٌ لِلنُفوسِ وَرَيحانُ.
وَحَسبُ الأَماني ظِلُّكِ المُتَفَيَّأُ.

" اے حسین ودرخشاں قرطبہ کیا تیری آرزو کرنے کی گنجائش ہنوز باقی ہے
اور کیا اس جگر کی پیاس بجھنے کا کوئی امکان ہے جو تیری جدائی کے سبب تشنہ ہے
اور کیا تیری مرغوب وپسندیدہ راتیں پلٹ کر آسکتی ہیں ۔
کہ جب تجھ میں حسن جنت نگاہ تھا اور ہنسی دل لگی کی باتیں فردوس گوش اور جب دنیا تیری فضاؤں میں ہموار وسازگار تھی ۔
جب تیرے دن چمکیلے تھے اور راتیں بے ابر
اور تیری خاک صبوحی پئے ہوئے تھی اور تیری شاخ سرمست اور تیری زمین لباس( سبزہ) میں مستور تھی جبکہ تیری فضا بے لباس تھی اور تیری مہکار دلوں کیلئے راحت ورزق کی حیثیت رکھتی تھی
اور تیرے سائے کی پناہ ، آرزووں کا منتہائے مقصود تھی"
ابن زیدون کی شاعری میں مدح ، مرثیہ ، عشقیہ کلام ، اور گلۂ دوستانہ کی اصناف زیادہ نمایاں ہیں ۔ شعرائے اندلس میں ممکن ہے ، مخمس گوئی میں اولیت اسے حاصل ہو لیکن مشرق میں اس صنف کے بعض نمونے پہلے سے موجود بتائے جاتے ہیں مثلا بشّار بن برد کے مخمسات جو اس نے محض دل لگی کے طور پرکہے ۔ لہٰذا ابن زیدون کو مخمس کا موجد قرار دینا مشکل ہے ۔ اس کی شاعری کابہترین حصہ وہ تصور کیا گیا ہے جو اس نے ایام اسیری میں یا قرطبہ کے فراق میں یا ولّادہ کی یاد میں تخلیق کیا ۔ زنداں سے فرار کے بعد اس نے ولّادہ کے نام ایک نونیہ قصیدہ لکھ کر بھجوایا تھا Garcia Gomez کی رائے میں یہ اندلسی مسلمانوں کی لکھی ہوئی سب سے خوبصورت عشقیہ نظم ہے ۔ اسی کے چند منتخب اشعار پر ہم ابن زیدون کا تذکرہ ختم کرتے ہیں (اشعار کی ترتیب میں ہم نے کچھ تقدیم وتاخیر سے کام لیا ہے ):
حَالَتْ لِفقدِكُمُ أيّامُنا، فغَدَتْ
سُوداً، وكانتْ بكُمْ بِيضاً لَيَالِينَا
إذْ جانِبُ العَيشِ طَلْقٌ من تألُّفِنا؛
وَمَرْبَعُ اللّهْوِ صَافٍ مِنْ تَصَافِينَا
وَإذْ هَصَرْنَا فُنُونَ الوَصْلِ دانية
قِطَافُها، فَجَنَيْنَا مِنْهُ ما شِينَا
أَنَّ الزَمانَ الَّذي مازالَ يُضحِكُنا
أُنساً بِقُربِهِمُ قَد عادَ يُبكينا
غِيظَ العِدا مِنْ تَساقِينا الهوَى فدعَوْا
بِأنْ نَغَصَّ، فَقالَ الدهر آمينَا
كأنّنَا لم نبِتْ، والوصلُ ثالثُنَا،
وَالسّعدُ قَدْ غَضَّ من أجفانِ وَاشينَا
سِرّانِ في خاطِرِ الظّلماءِ يَكتُمُنا،
حتى يكادَ لسانُ الصّبحِ يفشينَا
لا تَحْسَبُوا نَأيَكُمْ عَنّا يغيّرُنا؛
أنْ طالَما غَيّرَ النّأيُ المُحِبّينَا!
وَاللهِ مَا طَلَبَتْ أهْواؤنَا بَدَلاً
مِنْكُمْ، وَلا انصرَفتْ عنكمْ أمانينَا

"تم کیا بچھڑے ہمارے دن ہی پلٹا کھا گئے اور سیاہ فام ہوگئے حالانکہ تمہارے ہونے سے ہماری راتیں بھی درخشاں ہوا کرتی تھیں وہ زمانہ کہ جب ہماری یکجائی کے سبب پہلوئے زیست خوشگوار تھا اور ہمارے دلوں کی صفائے باہمی کے باعث چشمہ لطف وطرب صاف و شفاف تھا
جب ہم نے انس ومحبت کی ڈالیوں کو ، جن کےپھل ہماری دسترس میں تھے ، اپنی طرف جھکایا اور اپنی امنگوں کے مطابق جی بھر کر خوشہ چینی کی وہی زمانہ جو اب تک ہمیں تمہارے قرب مانوس میں ہنسایا کرتا تھا
اب ہمیں رلانے لگا ہے
ہمیں باہم جام محبت پیتے پلاتے دیکھ کر دشمنوں کے دل میں آتش غیظ بھڑک اٹھی انھوں نے بد دعا دی کہ ( اس جام سے ) ہمیں پھندا لگ جائے ؛ تو زمانے نے اس پر آمین کہا
یوں محسوس ہوتاہے کہ ہم دونوں نے وہ راتیں کبھی نہیں گزاریں جن میں اگر کوئی تیسرا تھا تو وہ خود " وصال تھا
اور بخت سازگار نے ہمارے بدخواہ کی نگاہیں نیچی کررکھی تھیں ہم دونوں شب تاریک کے ضمیر میں دو رازوں کی طرح ہوتے تھے جنہیں وہ پوشیدہ رکھتی تھی
تاآنکہ صبح کی زبان ان کے افشا پر آمادہ ہوجاتی تھی
یہ گمان دل میں نہ لانا کہ تمہاری جدائی سے ہماری محبت میں کچھ فرق آسکے گا
گو بسا اوقات جدائی سے عاشقوں کی محبتیں متاثر ہو جاتی ہیں
بخدا ہماری محبتوں نے تمہارا کوئی بدل تلاش نہیں کیا
اور نہ ہماری آرزوؤں کا رخ تمہاری طرف سے پھرا ہے" ۔
 

ربیع م

محفلین
اندلس کا ایک اور قابل ذکر شاعر محمد ابن ہانی (م 326ھ/ 963ء) ہے جسے متنبی الغرب " مغرب کا متنبی " کہا جاتا ہے ۔ اس کی پیدائش عبدالرحمٰن الثالث کے دور میں اشبیلیہ میں ہوئی ۔ تعلیم قرطبہ میں پائی عربی شاعری کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اس کے حافظے میں محفوظ تھا ۔ عقیدۃ ً غالی شیعہ تھا اور عملا لذت پرست ۔ عقلاً اس کا میلان فلسفیانہ افکار کی طرف تھا ۔ انہی اسباب سے اشبیلیہ میں فضا اس کے خلاف ہوگئی۔ امیر اشبیلیہ چونکہ اس پر مہربان تھا لہٰذا وہ بھی مطعون ہوا ۔ چنانچہ اسی کے مشورے پر ابن ہانی سمندر عبور کرکے مراکش آگیا۔ یہاں اس کا ربط ضبط فاطمیوں کے جرنیل جوہر سے ہوگیا اور رفتہ رفتہ وہ فاطمی خلیفہ المعز بن المنصور کی نظر میں آ گیا اور اس کی مدح کہتا اور انعام پاتا رہا ۔ فتح مصر کے بعد جب فاطمیوں نے اپنا پایہ تخت مصر منتقل کیا تو ابن ہانی کچھ دور مصاحبت کے بعد، اس ارادے سے واپس آیا کہ اہل وعیال کو ہمراہ لے کر پھر خلیفہ کے دربار سے مستقلاً منسلک ہو جائے ۔ چنانچہ تیار ہو کر چلا مگر " برقہ" کے مقام پر پہنچا تھا کہ پراسرار حالات میں اس کی موت واقع ہو گئی جس کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں ۔ ابن ہانی کی عمر اس وقت بعض روایات کے مطابق چھتیس اور بعض کے مطابق بیالیس سال تھی ۔ کہتے ہیں کہ خلیفہ المعز نے اس کی موت کی خبر سن کر بہت تاسف کیا اور کہا " اس شخص سے ہمیں یہ امیدیں تھیں کہ اسے فخریہ شعرائے مشرق کے مقابلے میں لا سکیں گے مگر قسمت نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔
ابن ہانی کے کلام میں معنی سے بڑھ کر لفظ پر توجہ ہے ۔ گھن گرج بہت ہے مگر مفاہیم بہت کم ہیں مثلاً
هذا الأغَرُّ الأزهَرُ المتألقُ الم۔
۔تَدَفِّقُ المُتَبَلِّجُ الوضّاء
للنّاس إجماعٌ على تفضيلهِ
حتى استَوَى اللُّؤماءُ والكُرَماء
واللُّكْنُ والفُصَحاء والبُعَداء وال۔
قرباءُ والخصماءُ والشُّهداء

" یہ درخشندہ جبیں ، روشن چہرے والا ، چمکتا ہوا ، رواں دواں ، دمکتا ہوا ، حسین ونظیف ، سبھی لوگ اس کی فضیلت پر متفق ہیں ، تاآنکہ اس ( اتفاق) میں یکساں طور پر شریک ہیں لئیم اور کریم اورژولیدہ بیاں اور فصیح اور غیر اوراپنے اور مخالف اور موافق"
غالبا اسی جزالت لفظی کی بنا پر اسے متنبی کا مثیل سمجھ لیا گیا ور نہ اس کے ہاں متنبی کی سی اختراعی صلاحیت نہیں پائی جاتی ۔ فطرت کی منظر نگاری اور حب الوطنی جو اندلسی شعراء کا عمومی امتیاز ہیں، ابن ہانی کے ہاں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اس کی توجہ ان موضوعات سے زیادہ سیاست یا شراب پر رہی ۔ وصفیہ (Descriptive) شاعری میں اس نے جنگوں ، لشکروں ، ہتھیاروں وغیرہ کا بیان اپنے مخصوص اسلوب میں کیا ہے ۔ مگر یہ کچھ نبھ نہیں سکا ۔ البتہ المعز کے بحری بیڑے کی تصویر کشی میں وہ کامیاب نظر آتا ہے ۔ ابن ہانی نے اپنے غلو عقیدہ کا اظہار خلیفہ المعز کے مدحیہ قصیدوں میں اس شدت سے کیا کہ بعض اوقات کفر و زندقت کی حدود کو جا چھوا۔
دقائق علمی ، مسائلِ فقہی اور لطائف شعری ایک سینے میں مشکل سے جمع ہوتے ہیں ۔ علماء اگر اپنی قادر الکلامی کی بنیادپر شعر کہتےبھی ہیں تو وہ عموما ً بوجھل قسم کی شاعری ہوتی ہے ۔
لیکن قرطبہ کی خاک نے علی بن احمد ، ابن حزم ( م 456ھ/ 1064ء ) جو جنم دے کر ابونواس کے اس قول پر مہر تصدیق ثبت کر دی :
ليس على الله بمستنكر
أن يجمع العالم في واحد
فلپ- کے ۔حتِّی نے ابن حزم کو اندلس کی اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا عالم اور سب سے اچھوتا مفکر نیز مجموعی اعتبار سے دنیائے اسلام کے دویا تین زرخیز ترین اذہان اور نہایت بھرپور مصنفین میں سےایک قرار دیا ہے ۔ اس کاباپ منصور الحاجب اور اس کے بیٹے کا وزیر تھا چنانچہ ابن حزم کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بہتر سے بہتر مواقع ملے اور اس نے خود بھی عبدالرحمٰن المستظہر اور ہشام المعتمد کا قلمدان وزارت سنبھالا ۔ سیاست کی راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے ابن حزم پر بھی گزری اور جاہ ومنصب کی حلاوت کے ساتھ ساتھ اسے جلاوطنی اور قید وبند کی تلخیاں بھی برداشت کرناپڑیں ۔ خلافت امویہ کے انحلال کے بعد اس نے خود کو صرف علمی وادبی مشاغل کیلئے وقف کر دیا جو ہمیشہ سے اس کی روح کا اصل تقاضا تھے ۔
ابن بشکوال نے قاضی ابوالقاسم صاعد بن احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن حزم تمام اہل اندلس میں اسلامی علوم کا سب سے بڑا امین تھا اور زبان دانی ، بلاغت ، شاعری ، سوانح اور تاریخی واقعات سے بہرۂ وافر پانے کے ساتھ ساتھ وہ عام وسعت علمی میں بھی سب سے بڑھ کر تھا۔ اس کے بیٹے ابورافع الفضل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس کے والد کے قلم سے لکھی ہوئی چار سو جلدوں کے قریب تالیفات تھیں جو تقریبا اسی ہزار اوراق پر مشتمل تھیں ۔ ان کتابوں کے موضوعات کا تنوع دیکھ کر ان کے مولف کی بے پناہ صلاحیتوں اور بوقلموں کا کچھ اندازہ ہوتا ہے ۔ فقہ ، حدیث ، تاریخ ، انساب ، تقابل ادیان ، منطق ، کیا ہے جو یہاں موجود نہیں ۔ فقہ میں کچھ عرصہ شافعی مسلک کی پیروی کے بعد وہ ظاہری مسلک کا پرجوش مبلغ بن گیا اوراسی نسبت سے ابن حزم الظاہری کے نام سے پہچانا گیا ۔ اپنی برّاقئ طبع کے زور میں اس نے فقہائے سلف پر اس قدر کڑی نکتہ چینی کی کہ اس کی زبان کو حجاج بن یوسف کی تلوار کا ہمزاد قرار دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ فقہائے وقت اس کے خلاف یک زبان ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی گمراہی پر اتفاق کیا۔اس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں جس پر اس کاتبصرہ یہ تھا:
فَإِنْ تَحْرِقُوا القِرْطَاسَ لاَ تَحْرِقُوا الَّذِي
تَضَمَّنَهُ القِرْطَاسُ بَلْ هُوَ فِي صَدْرِي
يسير معي حيث استقلت ركائبي
وينزل أن أنزل ويدفن في قبري

کاغذ کو تم اگر جلا بھی دو تو کیا ہے
جو کچھ کاغذ میں درج ہے اس کو تم نہیں جلا سکتے ، بلکہ وہ میرے سینے میں محفوظ ہے
جہاں جہاں میری سواری جاتی ہے یہ ( علم ) میرے ساتھ چلتا ہے اور جب میں پڑاؤ ڈالتا ہوں تو یہ بھی پڑاؤ ڈالتا ہے اور یہ میرے ساتھ ہی قبر میں دفن ہوگا"
بہرحال اس کے خلاف ردعمل کے دباؤ میں آکر امرائے عصر بھی اس کی حمایت سے دست کش ہوگئے ۔ بالآخر وہ "منت لیشم " نامی ایک دیہہ میں ، جو اس کی ذاتی جاگیر تھا ، فروکش ہو گیا اور وہیں وفات پائی ۔
لیکن علمی جاہ وجلال اور فقہی مناظرہ وجدال کی اس سنگین زرہ کے نیچے ابن حزم کے سینے میں کس قدر دردمند اور نرم وگداز دل دھڑک رہا تھا۔ اس کا اندازہ ہمیں اس کی کتاب"طوق الحمامہ " ( فاختہ کی کنٹھی ) سے ہوتا ہے جس کا انگریزی ، روسی ، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ اس کی اہمیت ومقبولیت پر روشنی ڈالتا ہے ۔ ابن حزم کے شعر میں وہ فطری سلیقہ ، گھلاوٹ ، شدت احساس اور روانی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ اسی ٹھیٹھ فقیہ کے اشعار ہیں جو " المحلیٰ " میں بولتا نظر آتا ہے ۔ شاعری سے اسے کیسی طبعی مناسبت تھی اس کا اندازہ ابوعبداللہ الحمیدی کے اس قول سے ہوتا ہے کہ :
"مارایتُ من یقول الشعرَ علی الندیھۃ اسرع منہ "
"میں نے فی البدیہہ شعر گوئی میں ابن حزم سے تیز کسی کو نہیں دیکھا "
اپنے دور کے عام شعری اسلوب کے برخلاف ابن حزم مجاز ، تشبیہ اور بلاغت کے دیگر ڈھلے ڈھلائے ، محسّنات ِ لفظی و معنوی پر ضرورت سے زیادہ زور نہیں دیتا ۔ نہ فکری مبالغے سے کام لیتا ہے اور نہ لفظی گھن گرج کو اپنا مقصود بناتا ہے جس کے پس منظر میں ایک عمیق احساس بولتا نظر آتا ہے ۔
اس کی کتاب " طوق الحمامۃ " کا پورا نام " طوق الحمامہ فی الاُلفۃ والاُلّاف"ہے ۔ کتاب کے حرف آغاز سے پتہ چلتا ہے کہ ابن حزم کے ایک پرانے دوست نے المریۃ سے اس کے نام شاطبہ کے دورِ سکونت میں ایک خط لکھا جس میں اس سے فرمائش کی گئی تھی کہ محبت ، اس کے مفاہیم اور اسباب و احوال پر ایک رسالہ ترتیب دے ۔
ابن حزم جس پر – تدین بے حد غالب تھا– اگرچہ آغا ز میں یہ کہا ہے کہ مدت عمر مختصر ہے جسے سوائے فکر آخرت کے کسی شے میں صرف کرنا مناسب نہیں ، تاہم اس دوست کی خاطر اسے بہت عزیز تھی چنانچہ بعض اقوال وروایات کا سہارا لے کر جن میں " لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے " کا مضمون بیان ہوا ہے اس نے اس فرمائش کو " طوق الحمامہ " کی صورت میں پورا کیا ہے ۔ اس کتاب کو مجموعی اعتبار سے نفسیات عشق کا ایک دقیق تجزیہ کہا جاسکتا ہے جو ابن حزم نے ذاتی تجربات و مشاہدات کی اساس پر پیش کیا ہے ۔ مختلف ابواب میں عشق و محبت کے مختلف مدارج و احوال و اقسام پر روشنی ڈالتے ہوئے بہت سے واقعات نقل کئے گئے ہیں جن کے لب لباب کو ابن حزم نے جابجا اپنے اشعار سے واضح کیا ہے اور اس طرح اس کے کلام کا ایک اچھا خاصا مجموعہ محفوظ ہو گیا ہے ۔ " طوق الحمامہ " ہر چند کہ تمام آپ بیتی نہیں تاہم ابن حزم کی اخلاقی جرات کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے گاہے گاہے آپ بیتی بیان کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اگرچہ دوسروں کے نام ظاہر کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے ۔ کتاب کی نظم ونثر دونوں اس کے ملکہ ادبی اور ذوق شعری کا ثبوت ہیں ۔ حتّی نے بجا طور پر کہا ہے کہ ابن حزم نے اس کتاب میں عشق پاکباز (Platonic Love) کی برتری پر زور دیا ہے ۔
چنانچہ آخری دو ابواب " قبح المعصیۃ " اور " فضل التعفف" میں عفت و پاک دامنی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور ہوسناکی کی بدانجامی پر ایک فقیہ و عالم دین کے انداز میں وعید شدید سنائی گئی ہے ۔ آخر کتاب میں ابن حزم کا لہجہ معذرت خواہانہ ہو گیا ہے کیونکہ اسے یہ احساس ہے کہ بعض کٹّر لوگ اس کتاب کی تالیف پر اعتراض کریں گے ۔
ایک مقام پر یہ بحث کرتے ہوئے کہ آیا " وصل میں مرگ ِ آرزو" کا تصور درست ہے وہ اس سے اختلاف کرتا ہے اور ذاتی تجربے کے حوالے سے بتاتا ہے کہ وصل سے تو آتشِ شوق اور تیز ہوتی ہے اور محب کا دل محبوب سے کبھی نہیں بھرتا ۔ اس ضمن میں اس نے اپنے یہ شعر نقل کئے ہیں ۔
وددت بأن القلب شق بمدية
وادخلت فيه ثم أطبق في صدري
فأصبحت فيه لا تحلين غيره
إلى مقتضى يوم القيامة والحشر
تعيشين فيه ما حييت فإن أمت
سكنت شغاف القلب في ظلم القبر

" میری خواہش ہے کہ میرا دل کسی دشنے سے چیرا جائے اور – ( اے محبوبہ ) تجھے اس کے اندر رکھ دیا جائے اور پھر اسے ( دوبارہ ) میرے سینے میں بند کر دیا جائے ۔
سوتو وہیں کی ہورہے اور قیامت وحشر تک ، کسی اور دل میں نہ اتر سکے
جب تک میں زندہ رہوں تو اسی میں زندہ رہے
اور اگر میں مر جاؤں تو تو قبر کی تاریکیوں میں بھی میرے نہاں خانہ دل میں ہی مقیم رہے "
ایک اور مقام پر بحث اٹھاتا ہے کہ شعراء نے " تصور محبوب " کو اس قدر اہمیت کیوں دی ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف آراء نقل کرنے کے بعد اپنے یہ شعر لاتا ہے جن میں محبوب کے خواب وخیال کو حقیقی وصل پر ترجیح دینے کی وجہ بیان کرتا ہے :
أغ۔ار ع۔ل۔ي۔ك من إدراك طرفي
وأش۔ف۔ق أن ي۔ذي۔ب۔ك ل۔م۔س ك۔في

ف۔أم۔ت۔ن۔ع الل۔ق۔اء ح۔ذار ه۔ذا
وأع۔ت۔م۔د ال۔ت۔لاقي ح۔ين أغ۔في

ف۔روحي إن أن۔م بك ذو إن۔فراد
من الأع۔ض۔اء م۔س۔ت۔تر وم۔خ۔في
ووصل الروح أل۔ط۔ف ف۔ي۔ك وق۔ع۔ا
من ال۔ج۔س۔م ال۔م۔واصل أل۔ف ض۔ع۔ف

" میں تو تیرے بارے میں یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ خود میری نگاہ تجھ پر پڑے
اور ڈرتا ہوں کہ تو میرے ہاتھ کے لمس سے پگھل نہ جائے
اسی خوف سے میں ملاقات سے باز رہتا ہوں
اوراسی ملاقات پر انحصار کرتاہوں جو نیم خوابی کی کیفیت میں ہوتی ہے کیونکہ ، اگر میں سو جاؤں ، تو میری روح کو تیرے ساتھ کامل خلوت میسر آتی ہے
اعضائے جسمانی سے مستور ومخفی ہو کر
اور روح کا وصال تجھ سے وہ حظ اٹھاتا ہے
جو جسم کے وصال سے ہزار گنا زیادہ لطیف ہے "
ابن حزم اپنے مسلک فقہ میں " ظاہری " ہو تو ہو کم ازکم شعر ومحبت کی دنیا میں تو وہ باطن کے بھی بطون میں نفوذ کرنا چاہتا ہے ۔
ظاہر اور باطن کا ایک اور امتزاج غریب ، ابن العربی کی شخصیت میں نظر آتا ہے ۔ ابن مسدّی کے بقول:
کان ظاہریّ المذھب فی العباداتِ ، باطنیّ النَظَر فی الاعتقادات
"وہ عبادات میں ظاہری مسلک کے قائل تھے اور اعتقادات میں باطن پر نظر رکھنے والے تھے "
ان کی شخصیت بھی عالم اسلام میں بہت اختلافی رہی ہے چنانچہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مندرجات کے مطابق :
"بعض لوگوں کی رائے میں وہ ولی کامل تھے ، قطب زمان تھے اور علم باطنی میں ایسی سند تھے جس میں کلام ہی نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف ایک ایسا گروہ تھا جس کے نزدیک وہ بدترین قسم کے ملحد تھے" ۔
محیی الدین محمد بن علی بن محمد، ابن العربی (م 638ھ / 1240ء) جو دنیائے تصوف میں " شیخ اکبر" کے نام سے معروف ہیں ، اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے ۔ نسبا ان کا سلسلہ حاتم طائی سے ملتا ہے جیسا کہ ان کی نسبتوں " الحاتمی الطائی " سے ظاہر ہے ۔ ان کے متداول دیوان میں بھی کہیں کہیں اس نسبت کا حوالہ ملتا ہے مثلاً:
لانني حاتمي الاصل ذو كرم
من طيئي عربي عن اب فاب

" کیونکہ میں حاتمی الاصل ہوں ، صاحب کرم ہوں ، قبیلہ طے سے تعلق ہے اور پشتینی عربی ہوں "
آٹھ برس کی عمر میں اشبیلیہ آگئے اور تیس برس تک وہاں کے مشاہیر علماء سے تحصیل علم کرتے رہے ۔ ایک نادر روایت کے مطابق، جو ابن الشعّار کی غیر مطبوعہ تصنیف " عقود الجمان " کے مخطوطے میں ملتی ہے ، ان کے خاندان امرائے بلاد کی فوجی ملازمت میں چلاآتا تھا اور وہ خود بھی ایک عرصہ فوجی خدمات انجام دیتے رہے تاآنکہ 580 ھ میں ( یعنی بیس برس کی عمر میں ) یہ مشغلہ ترک کر دیا ۔ اس کا سبب خود انھوں نے حلب میں ابن الشعار سے بدھ 6 ربیع الاول 635 ھ کو ہونے والی ملاقات میں یہ بتایا کہ وہ امیر ابوبکر یوسف بن عبدالمومن کی ملازمت کے زمانے میں ایک مرتبہ امیر مذکور کے ہمراہ مسجدقرطبہ میں گئے اور وہاں امیر کو رکوع و سجود کرتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا تے دیکھ کر انھیں یہ خیال آیا کہ اگر اتنے وسیع علاقے کا بادشاہ ہو کر بھی اس شخص کی اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ کیفیت ہے تو پھر دنیا کی کچھ حقیقت نہیں ، اسی دن ملازمت سے طبیعت اکھڑ گئی اور راہ طریقت پر گام زن ہو گئی ۔
بعد ازاں اندلس کےمختلف شہروں سے گزر کر ، مراکش ، تونس اور مصر کے راستے 598 ھ میں مکہ پہنچے جہاں طویل عرصے تک قیام کیا ۔ ان کا ضخیم شاہکار " الفتوحات المکیہ " اسی دور کے مکاشفات روحانی کا گویا ایک ریکارڈ ہے ۔ پھر موصل وبغداد اور قونیہ کی سیاحت کی ۔ 610 ھ میں دوبارہ مکہ مکر مہ گئے جہاں سے پھر قونیہ اور حلب ہوتے ہوئے بالآخر دمشق پہنچے اور وہیں کوہِ قاسیون کے دامن میں ان کا مزار ہے جس پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے :
في كل عصر واحد يسمو به
وأنا لباقي العصر ذاك الواحد


"ہرزمانے میں کوئی ایک فرد ہوتا ہے جو اسے بلندی عطا کرتا ہے اب جس قدر زمانہ باقی رہ گیا ہے اس کیلئے وہ فرد یکتا میں ہوں "
ابن العربی کی شاعری یوں تو ان کی کئی سو تصانیف میں – جن میں " الفتوحات المکیۃ " اور " فصوص الحکم " سب سے زیادہ شہرت رکھتی ہیں –جابجا بکھری ہوئی مل سکتی ہے لیکن خالص شعری مجموعے دو ہیں – ایک " ترجمان الاشواق " اور دوسرے ان کا "دیوان "-
" ترجمان الاشواق " کی شاعری ظاہری ہئیت کے اعتبار سے عربی کی روایتی عشقیہ شاعری ہے جو حسن نسوانی کے حوالے سے کی جاتی ہے ۔ابن العربی کے خود نوشت دیباچے سے یہ پس منظر سامنے آتا ہے کہ 598 ھ میں جب وہ مکہ گئے تو دیگر فضلاء و صلحاء کے علاوہ ان کا رابطہ شیخ ابو شجاع زاہر بن رستم سے بھی رہا جن سے انھوں نے حدیث پڑھی ۔ شیخ کی ایک ناکتخدا بیٹی ، "النظام " نام ، حسن و جمال ، فصاحت و بلاغت ، زہد وعفت اور عبادت وریاضت میں بے مثل تھی ۔ اسی کی ذات کو انھوں نے ترجمان الاشواق کی تشبیب ظاہری کا محور بتایا ہے تاہم ان اشعار کے باطن مفہوم کو بطریق رمز و ایما ، اعلی روحانی واردات سے متعلق قرار دیا ہے ، جن کی حقیقت کو وہ خاتون خوب سمجھتی تھی ۔ اشعار کی ہیئت ظاہری کے سبب حلب کے کسی فقیہ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ان میں اسرار الٰہیہ کی گنجائش نکالنا محض مصلحت کا ایک پردہ ہے ۔ چنانچہ ابن العربی کے دوشاگردوں نے درخواست کی کہ وہ اپنے کلام کی شرح خود لکھیں ۔ یہ فرمائش انھوں نے پوری کی اور یہ شرح اب " ترجمان الاشواق" کے ساتھ شامل ہے ۔ شرح کا کچھ حصہ فقہاء کی ایک جماعت کے سامنے پڑھا گیا تو معترض نے اپنے اعتراض سے رجوع کرلیا اور یہ تسلیم کیا کہ فقراء کے ہاں بادہ و ساغر کے پردے میں مشاہدہ حق کی گفتگو سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ابن العربی نے دیباچے میں ا پنے اس اسلوب خاص کی وضاحت میں کچھ اشعار بھی درج کئے ہیں جن میں آخری شعر کو نمائندہ حیثیت دی جاسکتی ہے ۔
فاصرف الخاطر عن ظاهرها
واطلب الباطن حتّى تعلما

" سو ذہن کو( ان مضامین شعر ) کے ظاہر سے ہٹا
اور باطن کا کھوج لگا تاآنکہ تجھے حقیقت معلوم ہو جائے "
ابن عربی کی شاعری میں ظاہراور باطن کی ان پرچھائیوں پر المقری نے بھی ان کے ایک شعر کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے ۔ اور ان کے کلام کے بارے میں حسن ظن کو لازم قرار دیا ہے ۔ شعر یوں ہے



" اے وہ کہ وہ مجھے دیکھتا ہے جبکہ میں اسے نہیں دیکھتا
بارہا یوں بھی ہوتا ہے کہ میں اسے دیکھتا ہوں جبکہ وہ مجھے نہیں دیکھتا "
ابن العربی کے کسی ساتھی نے یہ شعر سن کر کہا کہ تم یہ کیونکر کہہ سکتے ہو کہ وہ تمہیں نہیں دیکھتا؟ اس پر انھوں نے برجستہ کہا:
يا من يراني مجرما
ولا اراه آخذا
كم ذا اراه منعما
ولايراني لائذا

"اے وہ کہ وہ مجھے جرم کرتے دیکھتا ہے
جبکہ میں اسے گرفت کرتے نہیں دیکھتا
بارہا میں اسے نعمتیں بخشتے دیکھتا ہوں
جبکہ وہ مجھے اپنی پناہ ڈھونڈتے نہیں دیکھتا "
"ترجمان الاشواق " کی شاعری فنی اعتبار سے متقدمین کی پختہ گوئی ، اور الفاظ کے زورداردروبست ، کے ساتھ ساتھ متاخرین کی مناسبات لفظی اور صنائع بدائع کا ایک اچھا امتزاج پیش کرتی ہے ۔
چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے :
غازلتُ من غَزَلي منهن واحدة
حسناء ليس لها اخت من البشر
ان اسفرت عن محياها ارتك سنا
مثل الغزالة اشرافا بلاغبر
للشمس غرتها لليل طرتها
شمس و ليل معا من اعجب الصور
فنحن بالليل في ضوء النهار بها
ونحن في الظهر في ليل من الشعر

" میں نے اپنے کلام عاشقانہ سے گفتگوئے محبت چھیڑی
ان میں سے ایک حسینہ کے ساتھ جس کی مثال بنی نوع انسا ن میں موجود نہیں اگر وہ اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دے
تو تجھے سورج کی سی تابانی دکھائی دے ، جو ایک بے غبار ماحول میں چمک رہاہو
سورج کے پاس اس کی درخشاں پیشانی ہے اور رات کے پاس اس کی زلفیں
نہایت عجیب صورت ہے کہ سورج اور رات یکجا ہیں
سو اس کے سبب سے ہم رات کے وقت روز روشن میں ہوتے ہیں
اور دوپہر کے وقت زلفوں کی رات ہم پر محیط ہوتی ہے "
ان اشعار کی عارفانہ شرح میں شیخ نے " واحدۃ " یعنی " ایک " کا اشارہ توحید کی طرف بتایا ہے نیز مختلف حسیناؤں میں سے ایک سے مراد مختلف معارف میں سے ایک خاص بلند مقام یعنی معرفت ذات لی ہے ، جو مقام مشاہدہ سے متعلق ہے جس کی مثال آیت" لیس کمثلہ شیء " اس جیسی کوئی شے نہیں " کے مصداق کہیں نہیں ملتی ۔
دوسرے شعر میں چہرہ تاباں کی بے نقابی کا اشارہ حدیث " ترون ربکم کالشمس بالظہیرۃ لیس دونھا سحاب"
" تم اپنے رب کو یوں دیکھو گے جس طرح دوپہر کاسورج جس کے آگے بادل حائل نہ ہو" کی طرف بتایا ہے ۔ وعلی ھذاالقیاس
" ترجمان الاشواق" کے ایک اور قصیدے کے یہ چند اشعار مشہور ہیں :
لقد صار قلبي قابلا كل صورة
فمرعي لغزلان ش دير لرهبان
وبيت لاوثان و كعبة طائف
والواح توراة و مصحف قرآن
ادين بدين الحب اني توجهت
ركائبه فالحب ديني وايماني

" میرا دل ہر صورت کو قبول کرنے کا اہل ہوگیا ہے
سو وہ ہرنوں کی چراگاہ بھی ہے اور راہبوں کی خانقاہ بھی اور بتکدہ بھی اور طواف کرنے والے کیلئے کعبہ بھی
اور تورات کی الواح بھی اور مصحف قرآن بھی
میں دین محبت کی پیروی کرتاہوں
جس طرف بھی اس کا قافلہ روانہ ہو
کہ محبت ہی میرا دین وایمان ہے "
ان اشعار کی عارفانہ تفصیل بھی خاصی تفصیلی ہے ۔ ایک نکتہ یہ بیان ہوا ہے کہ " قلب " کی وجہ تسمیہ ہی اس کا تقلّب یعنی تنوع واردات و احوال ہے جو تجلیات الٰہیہ کے تنوع کے نتیجے میں واقع ہوتا ہے " الواح تورات " اور "مصحف قرآن " کا اشارہ " علوم موسویہ عبرانیہ " اور "معارف محمدیہ کمالیہ " کی طرف ہے جن کے حصول اور جن کی وراثت پانے کے اعتبار سے دل کو " الواح " اور " مصحف " کی حیثیت حاصل ہے ۔ "دین محبت " کا اشارہ آیہ مبارکہ " فاتبعونی یُحببکم اللہ " میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا " کی طرف ہے " انی توجھت " میں محبوب کے ہر ہر حکم پر سرتسلیم خم کرنے کی رمز ہے ۔ نیز یہ کہ دین محبت امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام سے مخصوص ہے کیونکہ آنحضور ﷺ کو گروہ انبیاء میں " مقام محبت " کا امتیاز حاصل ہے چنانچہ آپ " صفی " ، نجی اور خلیل ہونے کے علاوہ " حبیب" بھی ہیں جس میں " محب " اور " محبوب " دونوں کا مفہوم شامل ہے پس آپ کی وراثت پانے والے بھی اسی راہ پر گامزن ہیں ۔
دیوان ابن عربی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 629 ھ میں مرتب ہوا۔ ہسپانوی فاضل آنجل جنثالث پالنشیاAngel Genzalez Palencia نے اسے ترجمان الاشواق کے مقابلے میں فنی طور پر کمزور تصور کیا ہے ۔ دیوان خاصا ضخیم ہے ۔ ہمارے سامنے جو نسخہ ہے محمد بن اسماعیل شہاب الدین کی تصحیح متن کے ساتھ 1855 ء میں بولاق مصر سے شائع ہوا ۔ لیکن یہ کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس مخطوطے یا کن مخطوطات پر اس کی بنیاد ہے اشعار کو کسی بھی ترتیب پر مرتب نہیں کیا گیا نہ کوئی فہرست فراہم کی گئی ہے لہذا مطلوبہ اشعار کی تلاش ازحد دشوار ہے ۔ دیوان پر بیشتر غلبہ دینی اخلاقی اور متصوفانہ شاعری کا نظر آتا ہے جس کا عمومی مزاج " ترجمان الاشواق " کی شاعری کی طرح رمزی و علامتی نہیں ۔ دیوان میں کافی تعداد میں موشّحات بھی موجود ہیں ۔
الموشّح اور "الزّجل " لوک شاعری کی وہ اصناف ہیں جنہیں اہل اندلس نے اختراع کیا ۔ ہر چند کہ بعض اوقات موشحات کا رشتہ " مسمط " سے جوڑا جاتا ہے جس کی ایک مثال امرؤالقیس کے کلام میں بتائی جاتی ہے ۔ نیز ایک " موشّحہ " کی نشاندہی ابن المعتز کے دیوان میں بھی کی جاتی ہے لیکن یہ مثالیں تحقیقی اعتبار سے محل نظر ہیں ۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں صنفیں اندلس میں پیدا ہوئیں جہاں موشحات کا موجد مقدّم بن معافیٰ القبری کو قرار دیا جاتا ہے جو امیر ابو عبداللہ بن محمد المروانی کے دربار کا نابینا شاعر تھا۔ پھر " العقد الفرید " کے مصنف احمد بن عبد ربہ نے اس فن کو آگے بڑھایا تاہم ان دونوں کی موشحات زیادہ اہمیت نہیں پاسکیں اور غالباً ضائع ہو گئیں ۔ المریّہ کے حاکم المعتصم بن صمادح کا درباری شاعر عبادۃ القزّاز پہلا آدمی تھا جو اس فن میں چمکا ۔ ابن خلدون نے اس کا کچھ نمونہ کلام محفوظ کیا ہے۔
موشّحات ، خصوصاً ازجال اجتماعی لوک گیتوں کی حیثیت رکھتے تھے جنہیں لوگ گلی کوچوں میں ٹولیاں بنا کر باآواز بلند گاتے تھے ۔ ایک شخص "المنشد" یعنی مرکزی گانے والا ہوتا تھا جو تنہا ایک بند لے سے پڑھتا ۔ پھر ٹیپ کو سب لوگ مل کر دھراتے ۔ عود ، نے ، طنبور ، دف وغیرہ آلات موسیقی بھی اس موقع پر بجائے جاتے اور گاہے گاہے رقص بھی کیا جاتا۔ اس عوامی مزاج کے باعث ان اصناف کا فصیح عربی نیز عروض کے معروف اوزان میں ہونا مناسب نہ تھا۔ یہ عامی لہجے اور عوامی دھنوں میں ہوتےتھے ۔ زجل کا مزاج موشح سے زیادہ عوامی تھا چنانچہ اس میں دارجہ لہجہ زیادہ استعمال ہوا ہے جس میں مقامی لاطینی دارجہ کے الفاظ بھی شامل ہیں ۔ لفظ " زجل" کالغوی مفہوم عالم طرب میں گانا اور غل مچانا وغیرہ ہے ۔ لفظ " موشح " وشاح سے ہے جس کا مطلب وہ جڑاؤ پیٹی ہے جسے خواتین جنیو کے انداز میں ترچھا ، ایک طرف کر کے کاندھے سے دوسری طرف کے پہلو تک پہنتی تھیں ۔ غالبا " وشاح " کے رنگا رنگ موتیوں اور منکوں کی ترتیب اور موشح کے ابیات واقفال کی ترتیب میں ایک مشابہت قائم کی گئی ۔ موشحات کے مضامین بھی ہلکے پھلکے اور عوامی دلچسپی کے مطابق ہوتے تھے مثلا حسن وعشق ، بادوساغر ، اور منظرنگاری۔ ان میں بسا اوقات پھکّڑپن کی آمیزش بھی ہوتی تھی اور یہ بالعموم لونڈیوں ، غلاموں یا بدمستوں کی زبانی تصور کئے جاتے تھے۔ تاہم بعد میں انھیں مدح وہجو اور زہد وتصوف وغیرہ مختلف مضامین کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔
موشح وزجل کو سوقیانہ تصور کرتے ہوئے اول اول مستند شعراء نے انھیں درخوراعتنا نہ سمجھا چنانچہ ابن زیدون کے کلام میں موشحات نہیں ملتیں حالانکہ اس کے دور میں میں ان اصناف کا رواج ہو چکا تھا ۔ تاہم رفتہ رفتہ موشحات پر توجہ بڑھی ۔ انھیں فصیح لہجے کے قریب تر لایا گیا اور مروجہ اوزان کے سانچوں میں ڈھالنے کی بھی کوشش کی گئی اگرچہ اس فن کے لوگ مستند روایتی کلام موزوں کو اس صنف کے تقاضوں کے خلاف قرار دیتے ہیں چنانچہ شعوری طور پر کوئی ایسا ٹکرا لایا جاتا ہے جو اسے لگی بندھی بحر سے خارج کردے مثلا:
صبرت والصبر شيمة العاني ولم اقل للمطيل هجراني
معذبي كفاني
" میں نے صبر کیا اور صبر ہی اسیر محبت کا شیوہ ہے اور میں نے ہجر کو طول دینے والے ( محبوب) سے یہ نہیں کہا کہ اے میرے ستم گر بس بہت ہو چکی "
اب اس میں پہلے پورا شعر بحر منسرح میں آیا ہے لیکن " معذّ بی کفانی " کا ٹکڑا اس سے خارج ہے ۔ جو موشحات عروضی اوزان سے خارج ہیں ان میں کچھ تو ایسی ہیں جن کی بہرحال ایک دھن سی بن جاتی ہے جس ذوقی وسماعی ادراک ممکن ہے اور کچھ ایسی ہیں جن کی کوئی دھن یا آہنگ سمجھ میں نہیں آتا انھیں صرف عوامی گانے میں کھینچ تان کر ہموار کیا جاسکتا ہے ۔
یہ مسئلہ موشحات کے مختلف بند اصطلاحی طور پر کیا کہلاتے ہیں حتمی طور پر طے شدہ نہیں ۔ چنانچہ " بیت ( یعنی وہ حصہ جو وزن اور عدد ارکان میں تو باقی موشح سے یکساں ہوتا ہے لیکن قافیہ مختلف رکھتا ہے ) بعض کے خیال میں" جزء " بھی کہلاتا ہے ۔ " قفل " وہ بند ہے جو وزن کے علاوہ ایک خاص قافیے کا بھی پابند ہوتا ہے اور بار بار اسی قافیے کی طرف لوٹتا ہے اسے " قفلہ" بھی کہہ لیتے ہیں ۔ آخری ٹیپ " خرجہ " کہلاتی ہے ۔ ابتدائی بند کو "مطلع" یا "مذہب " یا "غصن " کہاجاتا ہے ۔ " قفل" کے مقابلے میں وہ " ابیات" جو قافیے میں " قفل " کی پابندی نہیں کرتے "دور" یا " سمط " بھی کہلاتے ہیں ۔ اگر آغاز ان "ابیات" سے ہوتو موشح "اقرع" کہلاتی ہے اور اگر آغاز"قفل " سے ہو تو "تام " وغیرہ وغیرہ۔ ان اصطلاحات کے طے شدہ نہ ہونے کے سبب اختلاف رائے اور ایک طرح کے ابہام کا پایا جانا فطری امر ہے ۔ ابیات واقفال میں تعداد ارکان بھی مختلف ہوسکتی ہے ۔
جب فصیح و مستند شعراء کی توجہ موشحات کی طرف مبذول ہوئی تو اس صنف میں معروف شعراء کے کلام کو تضمین کرنے کا رجحان بھی پیدا ہوا ۔ چنانچہ ابن الوکیل نے ابن زیدون کے مشہور قصیدے :
اضحي التنائي بديلا من تدانينا
کو موشح میں کھپایا ہے :
من هام بالغيد لاقي بهم هما
بذلت مجهودي لاحور المي
يهم بالجود وردما هما
وعندما قد جاد بالوصل اوقد كاد
اضحي التنائي بديلا من تدانينا

جو کوئی نازک اندام حسینوں پر مرتا ہے ان کی سے دکھ اٹھاتا ہے میں نے عنّابی ہونٹوں اور حسین آنکھوں والے (ایک محبوب) کی خاطر جو کچھ بھی بن پڑا کیا
وہ کرم گستری کا ارادہ کرکے پھر توڑ دیتا ہے
اور بالآخر جب وہ آمادہ وصل ہو گیا ، یاہونے ہی والا تھا تو " ہمارے قرب کی جگہ جدائی نے لے لی"
موشحات کے فن میں الاعمی التطیلی ، ابن بقی ، ابوبکر ابن الابیض ، ابوبکر ابن باجۃ ،ابوبکر ابن زھر محمد بن ابی الفضل وغیرہ اور آخر میں وزیر لسان الدین ابن الخطیب نمایاں نظر آتے ہیں ۔
مشرق میں بھی موشحات کی پیروی کی گئی اور اس سلسلے میں ابن سناء الملک مصری کا نام سب سے اہم ہے جس کی موشحات کو مشرق و مغرب میں یکساں شہرت ملی ۔ موشحات کے فن پر اس کی کتاب" دارلطراز فی عمل الموشحات " آج تک یادگار ہے ۔
زجل ، جیسا کہ بیان ہوا موشح سے زیادہ عوامی چیز ہے جس کی زبان غیر معیاری مقامی لہجوں پر مبنی ہوتی ہے ۔ زجل کے ارتقاء میں سعید بن عبد ربہ ابویوسف ہارون الرمادی ، عبادۃ بن ماء السماء ، ابوعثمان بن سعید البلینۃ ، وغیرہ بہت سے شعراء نے حصہ لیا۔ لیکن ابن قزمان ، ابوبکر محمد بن عبدالملک کو زجّالین میں نہایت نمایاں حیثیت حاصل ہے اس کی ایک معروف زجل کی ابتداء یوں ہوتی ہے :
يا مليح الدنيا قول
علي اش انت يا ابن ملول
اي انا عندك وجيه
يتمجج من وفيه ثم فاحلي ماتتيه
ترجع انسنك وصول

فصیح عربی میں اس کی جو شرح بتائی گئی ہے اس کا مفہوم کچھ یوں ہے ۔
اے دنیا کے ملیح ترین شخص یہ بتا
کہ آخر کیا سبب ہے کہ تو پیہم متغیر ہے کسی ایک حال پر ٹھہرتا نہیں مجھے تیرے ہاں بڑا مقام حاصل ہے
بھلا انسان اپنے وفادار سے کیونکر نفرت کر سکتاہے
جس قدر ناز کرنا ہے کرلے کہ بالآخر
تجھے اسی سے جاملنا ہے جس سے تجھے محبت ہے "
زجل کے عمومی موضوعات عوامی دلچسپیوں سے عبارت تھے جن پر پھکڑ پن اور فحش گوئی کا اثر بھی نمایاں تھا تاہم اسی صنف میں رفتہ رفتہ سیاسی ، مدحیہ بلکہ حزنیہ مضامین بھی جگہ پانے لگے ۔
زجل کا فن اندلس کے تمام گوشوں میں اس قدر مقبول ہوا کہ ان تمام شعراء کے نام گنوانا ممکن نہیں جنہوں نے اسے اپنا یا ۔ اندلس سے مشرق کی طرف ہجرت کرنے والے شعراء کے توسط سے زجل نہ صرف دیار مشرق میں پہنچی بلکہ فرانس ، انگلستان ، جرمنی ، اٹلی ، پرتگال وغیرہ مغربی ممالک پر بھی اس کا اثر دریافت کیا گیا ہے ۔
اندلس کی عربی شاعری کا یہ طائرانہ سا جائزہ بھی خاصا طویل ہوگیا حالانکہ وسعت موضوع کے اعتبار سے یہ ہنوز نہایت تشنہ ہے ۔ اس طویل مختصر افسانے کے انجام کا منظر دیکھنے کیلئے ہمیں غرناطہ چلنا ہوگا جہاں "الحمراء " کے درودیوار مغرب اقصی میں مسلم اقتدار کے ڈوبتے ہوئے سورج کے پرتو میں کچھ اور بھی لہو میں غرق دکھائی دیتے ہیں ۔ سنگ سرخ کی ان روشوں پر ، ان متناسب محرابوں میں لسان الدین ابن الخطیب اور ابن خلدون کے پیکر اہل نظر کو آج بھی متحرک نظر آتے ہیں ۔
لسان الدین ابن الخطیب محمد بن عبداللہ (م : 776 ھ / 1374ء) اپنے دور کا بہت نمایاں مورخ ، مصنف شاعر اور سیاست دان تھا۔ فن شعر میں اپنی قادر الکلامی کے سبب اسے بنوالاحمر کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی اور رفتہ رفتہ وہاں کا قلمدان وزارت سنبھال لیا اور سلطان ابوالحجاج یوسف پر اپنے زبردست رسوخ کے باعث بہت بااختیار ہوگیا۔ ابن خلدون سے اول اول اس کی دوستی تھی لیکن جب وہ غرناطہ آگیا تو ابن الخطیب ، بعض بدخواہوں کی لگائی بجھائی میں اس سے بگڑ گیا اوریہی بات ابن خلدون کی غرناطہ سے واپسی کاسبب بنی ۔
ابن الخطیب کی شاعری کلاسیکی رنگ میں قادر الکلامی اور پختہ گوئی کا اچھا نمونہ ہے ۔ ایک موقع پر وہ عیسائیوں کے خلاف امیر تونس سلطان ابوعنان حفصی سے مدد مانگنے کیلئے ایک وفد کو ساتھ لے کر گیا اور اپنا مدعا نظم میں یوں بیان کیا:
خليفة الله ساعد القدر
علاك ما لاح في الدجى قمر
ودافعت عنك كف قدرته
ما ليس يسطيع دفعه البشر
وجهك في النائبات بدر دجى
لنا وفي المحل كفك المطر
والناس طرا بأرض أندلس
لولاك ما أوطنوا ولا عمروا
وجملة الأمر أنه وطن
في غير علياك ما له وطر
ومن به مذ وصلت حبلهم
ما جحدوا نعمة ولا كفروا
وقد أهمتهم نفوسهم
فوجهوني إليك وانتظروا

" اے اللہ کے خلیفہ ، قسمت تیری بلندی کے ساتھ یاوری کرے جب تک تاریکیوں میں چاند چمکتا رہے
اور اللہ کا دست قدرت ان ( مصائب ) سے تیرا دفاع کرتا رہے
جنہیں دور کرنے کی طاقت انسانوں میں نہیں ہے ۔
تیرا چہرہ مصائب میں ہمارے لئے یوں ہے جیسے اندھیروں میں چودھویں کا چاند
اور قحط کے زمانے میں تیرا کف دست باران رحمت ہے
تو نہ ہوتا تو ارض اندلس کے تمام لوگ
نہ اسے وطن بناتے اور نہ وہاں بستے
مختصر یہ کہ وہ ایک ایسا وطن ہے
جسے تیری سربلندی کے سوا کوئی خواہش نہیں اور وہاں کے رہنے والے
جب سے تو نے ان کی دستگیری کی ہے ۔
کبھی کفران نعمت کے مرتکب نہیں ہوئے
اور اب جبکہ انھیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں
انھوں نے مجھے تیرے پاس بھیجا ہے اور خود منتظر ہیں "
سلطان یہ شعر سنتے ہی وجد میں آگیا اور جو جو کچھ مطلوب تھا سب کچھ دے کر ابن الخطیب کو واپس کیا۔
ابن الخطیب بے خوابی کا مریض تھا۔ اس کا دن سیاست کی گتھیاں سلجھانے میں اور رات پڑھنے لکھنے میں بسر ہوتی تھی چنانچہ اسے "ذوالعمرین" دوزندگیوں والا کا خطاب دیا گیا۔
اس نے ساٹھ کے قریب تصانیف چھوڑیں جن میں سے ایک تہائی کے لگ بھگ محفوظ رہ سکی ہیں ۔ ان میں " الاحاطۃ بتاریخ غرناطۃ " بہت مشہور ہے ۔ وہ بلاشبہ اپنے دور کے ممتاز ترین اہل قلم میں سے تھا ۔ تاہم سیاسی اقتدار اور جوڑ توڑ کے شوق میں اس نے بہت سے دشمن پیدا کر لئے اور بالآخر
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار
غرناطہ چھوڑ کر دیار مغرب کی طرف نکلنا پڑا ۔حاسدوں اور دشمنوں کی ریشہ دوانیاں یہاں بھی جاری رہیں جس میں رفتہ رفتہ وہ کامیاب ہو گئے۔ ابن الخطیب پر زندقت کا الزام لگا ۔ سرعام اسے رسوا کیا گیا ۔ اور جیل کے اندر ہی گلا گھونٹ کر ہلاک کرا دیا گیا۔
دفن ہوجانے کے بعد ایک مرتبہ اس کی لاش بھی قبر سے نکال کر اسے جلانے کی کوشش کی گئی اور اس کے جسد نیم سوختہ کو دوبار سپرد خاک کیا گیا۔
ایک بار اس نے معتمد کی قبر پر کھڑے ہوکر کچھ شعر کہے تھے جن میں سے چند یہ ہیں
قد زرت قبرك عن طوع بأغمات ... رأيت ذلك من أولى المهمات
لم لا أزورك يا أندى الملوك يدا ... ويا سراج الليالي المدلهمات
وأنت من لو تخطى الدهر مصرعه ... إلى حياتي لجادت فيه أبياتي
"میں دلی رغبت کے باعث اغمات میں تیری قبر کی زیارت کو حاضر ہوا ہوں میں نے اس کام کو اہم ترین کام تصور کیا ہے
میں تیری زیارت کیونکر نہ کروں ، توکہ بادشاہوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھا
اور تاریک راتوں میں چراغ کی حیثیت رکھتا تھا
تو وہ تھا کہ اگر زمانہ تیری موت کومیری زندگی تک مؤخر کر دیتا تو تیرے لئے میری شاعری وفور کا عالم دکھاتی "
اس وقت اسے معلوم نہ تھا کہ اس کا اپنا انجام معتمد سے کہیں زیادہ سنگین ہوگا ۔ یہ سنگینی کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ سنتے ہیں کہ اس کے شاگرد ابن زمرک نے بھی اس سلسلے میں بروٹس کا کردار ادا کیا۔
ابن زمرک ، ابوعبداللہ محمد بن یوسف ( م تقریبا 793ھ / 1390 ء) کواندلس میں عربی شاعری کا آخر ی ستون کہاجاسکتا ہے ۔ وہ ایک اچھا نثر نگار بھی تھا ۔ سیاست کی وادی میں قدم رکھا اور اپنے استاد لسان الدین ابن الخطیب کے المناک انجام کے بعد وزارت کے منصب تک پہنچا۔ اگریہ درست ہے کہ وہ اپنے استاد کے قتل کی سازش میں شریک تھا تو پھر اس کے اپنے المناک انجام کو پاداش عمل بھی کہا جاسکتا ہے ۔ مرتبہ ومنصب کے ساتھ جو رنجشیں پیدا ہوجاتی ہیں ان کے نتیجے میں بالآخر اسے اسی کے گھر میں قتل کروادیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے جو بیٹے اور ملازمین موجود تھے وہ بھی قتل ہوئے ۔ روایت کے مطابق قتل ہوتے وقت ابن زمرک نے قرآن ہاتھوں میں بلند کررکھا تھا۔
بطور شاعر ابن زمرک کو ابن خفاجہ کے رنگ کا کامیاب شاعر سمجھا جاتا ہے چنانچہ مناظر فطرت کی عکاسی میں اسے زبردست ملکہ حاصل تھا ۔ الحمراء کے درودیوار ، باغات اور وہاں کی محفلوں کا نقشہ اس نے بڑا خوبصورتی سے کھینچا ہے ۔ اس کے بعض اشعار آج تک الحمراء کی دیواروں پر نقش ہیں اور ان کی بے مثال مینا کاری کاحصہ ہیں ۔ ایک قصیدے میں اس نے جلتے ہوئے چراغ کی منظر کشی کی ہے جو اس کی دقّت مشاہدہ اور قدرت اظہار ، کے ساتھ ساتھ اس کی داخلی شخصیت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ انہی چند شعروں کو ہم اس کے نمونہ کلام کے طور پر درج کرتے ہیں دیکھئے اس نے کس خوبی سے چراغ کی لو اور سوز محبت کو باہم دگر پیوست کر دیا ہے ۔
لقد زادني وجدا واغرى بي الجوى
ذبال بأذيال الظلام قد التفا
تشير وراء الليل منه بنانة
مخضبة والليل قد حجب الكفا
تلوح سنانا حين لا تنفح الصبا
وتبدي سوارا حين تثني له العطفا
قطعت به ليلا يطارحني الجوى
فآونة يبدو وآونة يخفى
إذا قلت لا يبدو أشال لسانه
وإن قلت لا يخفى الضياء به كفا
إلى أن أفاق الصبح من غمرة الدجى
وأهدى نسيم الروض من طيبه عرفا
لك الله يا مصباح اشبهت مهجتي
وقد شفها من لوعة الحب ما شفا

" بلاشبہ میری کسک میں اضافہ کردیا ہے اور درد محبت کو بھڑکا دیا ہے ایک فتیلے نے جو ظلمت کے دامن سے الجھ رہا ہے
اس کی ایک حنائی انگشت رات کے ماورا اشارہ کرتی ہے
جبکہ باقی ہاتھ پر رات نے پردہ ڈال رکھا ہے ۔
جب بادصبا نہیں چلتی تو یہ (انگشت) نیزے کی انی کی طرح دمکتی ہے
اور جب صبا اس ( فتیلے ) کا پہلو دباتی ہے تو یہ ایک کنگن کی صورت دکھائی دیتی ہے
اس کے سہارے میں نے رات گزاری دی
درد محبت مجھ سے مصروف کشاکش رہا
وہ ( اس لو کی طرح ) کبھی کھل کر سامنے آتا تھا اور کبھی روپوش ہو جاتا تھا۔
جب میں یہ سمجھنے لگتا تھا کہ اب وہ ظاہر نہیں ہو گا تو وہ اپنی زبان بلند کردیتا تھا
اور جب میں یہ تصور کرنے لگتا تھا کہ اس کی روشنی اب نہ بجھے گی تو وہ مدہم پڑجاتا تھا
( یہ سلسلہ جاری رہا) تاآنکہ صبح ، تاریکیوں کی کٹھنائی سے آزاد ہوئی اور باغوں کی ہوانے اپنے مہکار کی لپٹ کا ہدیہ بھیجا اللہ تیرا بھلا کرے ، اے چراغ تو میری روح سے مشابہ ہے جسے سوز عشق نے بے حد زار ونزار کررکھا ہے ۔
روایت ہے کہ 2 جنوری 1492 ء کو جب غرناطہ پر ہلال کی جگہ صلیب سایہ فگن ہوگئی اور اندلس کا آخری مسلمان حکمران ابو عبداللہ بوجھل دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ ، اپنے اہل خانہ اور جان نثار ہمراہیوں کے جلو میں ہمیشہ کیلئے غرناطہ کو چھوڑ کر چلا تو پتھریلے پہاڑی راستے پر گھوڑا بڑھاتے ہوئے مغلوب سلطان نے مڑ کر الحمراء پر ایک نگاہ واپسیں ڈالی جس کے درودیوار پر جابجا " ولا غالب الا اللہ" کانقش جگمگا رہا تھا ۔ شدت جذبات سے اس نے ایک سرد آہ بھری اور اس کی آنکھوں میں تھما ہوا طوفان بہہ نکلا ۔ اس مقام کو آج تک ہسپانیہ میں
El Ultimo Suspiro del Moro
یعنی " مسلمان کی آخری آہ سرد " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی آہ سرد کو ہم اندلس میں عربی شاعری کا مقطع تصور کرتے ہیں ۔ کیا ضروری ہے کہ شاعری الفاظ ہی میں کی جائے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے​
 
بھائی، یہ سب آپ نے خود ٹائپ کیا ہے؟
اللہ اجر دے۔ میں نے ابھی سرسری نظر سے دیکھا ہے۔ توجہ سے پڑھتا ہوں اپنے بھائی کے تحفے کو ان‌شاء‌اللہ۔ بہت بہت شکریہ!
 

عینی مروت

محفلین
ماشاءاللہ۔۔۔بہت زبردست مقالہ شریک بزم کیا ہے
خصوصا شعراء کا کلام اور ترجمہ تحریر کی دلکشی دوچندکرگیا ہے۔۔۔۔
عربی شعر و ادب سے متعلق دیگر تحریروں کی امید کے ساتھ۔۔۔بہت سی دعائیں اور نوازش ۔۔
 
Top