عبداللہ حسین عبداللہ حسین کے ساتھ بعد از مرگ ایک گفتگو از مستنصر حسین تارڑ

عبداللہ حسین کی شخصیت کو بیان کرنے کے لیے آپ محض یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایک لاابالی، لاپرواہ، کسی حد تک کھردرا، یاروں کا یار، خواب دیکھنے والا، سرابوں اور خرابوں کا مسافر، کبھی ناقابلِ اعتبار اور کبھی اعتبار میں اعتبار، گہری دانش کا پیغمبر یا مرنجاں مرنج قسم کا ایک انسان تھا۔ آپ ہرگز اسے ان لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے کہ یہ سب گھسے پٹے اور محاوراتی نوعیت کے اظہار ہیں اور عبداللہ حسین ان سب سے ماورا کچھ اور تھا۔ اُس کی ذات کی تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے اظہار کے ایسے رنگ درکار ہیں جو کم از کم میرے رنگوں کے پیلٹ میں موجود نہیں ہیں۔ بیشتر نامور ادیب ایک مخصوص سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں۔ عبداللہ حسین کسی بھی سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ وہ ہر لمحے اپنے لیے خود ہی ایک سانچا ساخت کرتا تھا۔ اُس میں ڈھل جاتا تھا اور پھر اگلے لمحے اُس سانچے کو توڑ دیتا تھا۔ ایک نیا آدم ہو جاتا تھا وہ کسی سانچے میں قید نہ ہو سکتا تھا کہ آزادی، انصاف، بے راہروی اور بغاوت اس کا منشور تھا۔ مجھے کبھی نہ کبھی عبداللہ کے عشقِ جنوں کے بارے میں لکھنا ہے کہ اُس کی عمر بھی عشقِ بتاں میں بیتی اور وہ آخری وقت میں بھی مسلمان نہ ہوا تھا لیکن یہ ابھی نہیں پھر کبھی سہی کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں اور میں یہ مضمون اس کی زندگی میں لکھنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کہ وہ بھی تو میرا رازداں تھا۔میرے سب پول کھول دیتا تو میں اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ کم از کم اپنی بیوی کو۔ چنانچہ اب کبھی میں بے خطر ہو کر اُس کے متعدد رومانوی سانحات کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھ ڈالوں گا لیکن ابھی نہیں پردہ نشیں ابھی زندہ ہیں۔

عبداللہ حسین کی مانگ بہت تھی۔ وہ اپنی حیات میں ہی ایک لیجنڈ ایک داستان ہو گیا تھا۔ چنانچہ ہر کوئی، وہ ٹیلی ویژن کا کوئی میزبان ہو یا کسی ادبی جریدے کا مدیر، اس کے انٹرویو کے لیے منت سماجت کرتا رہتا تھا اور وہ مانتا نہ تھا اور جب بمشکل مان جاتا تھا تو انٹرویو پینل کے لیے میرا نام سرفہرست رکھ دیتا تھا اور میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ انٹرویو کے دوران میں اپنی جاٹ خصلت سے مجبور کوئی اعتراض کر بیٹھوں کہ خان صاحب کیا آپ صرف ایک ناول کے ناول نگار ہیں، ایک ناول تو کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ کیا ’’اداس نسلیں‘‘ کی توصیف اور عظمت کی کہانیاں سنتے سنتے اب آپ بور نہیں ہو جاتے۔ اور یوں خواہ مخواہ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جائیں۔ چنانچہ میں نے کبھی عبداللہ حسین سے کسی ادبی جریدے یا اخبار کے لیے گفتگو نہ کی۔ ہمیشہ اجتناب کیا۔ اس کی ناراضی کا خطرہ مول نہ لیا۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا تھا، لیکن یہ جو دن آگئے ہیں جب اُس کی جانب سے کوئی پیغام نہیں آتا، نہ کوئی خط نہ کوئی سندیسہ آتا ہے نہ ہی ٹیلی فون پر اس کی گہری گونج والی عبداللہ حسینی آواز ایک مدت سے سنائی دی ہے کہ ہاں جی اور سنائو گوپیوں کا کیا حال ہے؟

فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کے دوران جب میں اپنے سیشن سے فارغ ہو کر کافی کے ایک کپ کے لیے لائونج میں چلا آیا اور وہاں آگ اور پانی ساتھ ساتھ بیٹھے چہلیں کر رہے تھے یعنی انتظار حسین اور عبداللہ حسین شیروشکر ہو رہے تھے تو متعدد خواتین میری کتابوں پر آٹوگراف حاصل کرنے کے لیے میرے پیچھے پیچھے چلی آئیں تو انتظار حسین نے کہا: لو جی تارڑ کی گوپیاں آ گئی ہیں۔عبداللہ حسین نے میری چھیڑ بنالی۔ کسی بھی ادبی فیسٹول کے دوران اگر کوئی ایک خاتون مجھ سے رجوع کرتی تو وہ قہقہہ لگا کر کہتا: لو جی، ایک گوپی آ گئی ہے۔

عبداللہ حسین کو بھٹہ چوک کے قبرستان میں دفن ہوئے جولائی کے مہینے میں ایک برس ہو جائے گا چنانچہ اب مجھے خدشہ نہیں کہ وہ میرے سوالوں سے ناراض ہو جائے گا اور میں اسے کھو دوں گا کہ وہ تو خود فنا میں کھویا جا چکا … مزید کیا کھویا جائے گا۔ چنانچہ میں بے خطر آج بعد از مرگ اس کا انٹرویو کروں گا۔ بے دریغ سب سوال پوچھوں گا۔ وہ مجھ سے پہلے مر کر دغا کر گیا تو میں بھی اُس سے وفا نہیں کروں گا۔

امرتا پرتیم نے وارث شاہ سے فریاد کی تھی کہ اٹھ قبراں وچوں بول… تو عبداللہ حسین تُو بھی اٹھ اور اپنی قبر میں سے بول۔ اگرچہ تُو نے کہاں مرنا ہے کہ تُو اردو ادب کا ایک بلھے شاہ ہے۔ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور۔ اگرچہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے تو نہیں اپنی آنکھوں سے تمہیں دفن کیا تھا لیکن کیا یہ واقعی تم تھے یا گور پیا کوئی ہور۔

میرے سامنے سٹڈی ٹیبل پر عبداللہ حسین کی تحریر کے کچھ بے جان ہو چکے پرندے پڑے ہیں، کچھ خط پڑے ہیں، یہ ایک ایسا انٹرویو ہے جس کے جواب خطوط میں موجود تھے اور اُن کے سوال بعد میں وجود میں آئے۔ سوالوں میں کچھ ترتیب نہیں ہے۔ عبداللہ حسین کے خطوط کو سامنے رکھے ہوئے ہوں اور وہ بعد ازمرگ اُن بے ترتیب سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ ہیلو عبداللہ حسین، کیا تم سن رہے ہو، ویسے تمہارے بغیر میں تو اجڑ گیا ہوں تو اس اجاڑ پن میں دفن تم سے سوال کر رہا ہوں۔

————-

تارڑ: ’’عبداللہ تم فیصل آباد چلے گئے ہو جسے تم لائل پور کہتے ہو کہ سریندر پرکاش بھی اسی شہر کا تھا تو واپس کب آئو گے؟‘‘

عبداللہ: ’’184، سرفراز کالونی، فوارہ چوک، فیصل آباد‘‘ اب میں سولہ تاریخ کو آپ کے لاہور واپس آنے پر آئوں گا۔ ‘‘

آپ کا عبداللہ!

تارڑ: ’’میں نے تمہیں اپنا ناول’’راکھ‘‘ بھیجا تھا۔ تم نے کہاں پڑھا ہو گا۔‘‘

عبداللہ: ’’میں آج کل ’’راکھ‘‘ پڑھ رہا ہوں تقریباً آدھا پڑھ لیا ہے۔ یہاں تک بہت پسند آیا ہے(کالے رنگ کی سکینڈے نیوئن ایک نئی محبت ہے) پاکستان آ کر مفصل بات ہو گی۔‘‘

تارڑ: ’’سنگ میل کے نیازاحمد لنڈن گئے تھے ملاقات ہوئی؟‘‘

عبداللہ: ’’نیازصاحب آئے ہوئے تھے، وعدہ کرتے رہے کہ میرے پاس آئیں گے مگر نہیں آئے ناسازیٔ طبیعت کی شکایت کرتے رہے(میرا خیال ہے ان کے آنے میں جو ناسازیٔ طبیعت مانع تھی وہ ان کی بیگم صاحبہ تھیں)۔ ویسے اب تو تمہارا رشتہ دار مولوی صدر ہو گیا ہے(محمدرفیق تارڑ) تم سے اب کوئی پوچھ گچھ نہیں کر سکتا، ویسے پاکستان کا … اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘

’’اور پھر انتظارحسین؟‘‘

’’تم نے لکھا تھا کہ انتظار حسین نے کہا ہے کہ یہ عبداللہ حسین کو کیا ہو گیا ہے، ان سے عرض کر دینا کہ کچھ نہیں ہوا۔ میں پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ میں نہ مرنجاں مرنج آدمی ہوں اور نہ ہی ویسی زندگی گزارنے کا عادی ہوں ایک انگریزی کا قول ہے جس کا میں قائل ہوں۔

If you do not fight your corner, you end up being ruled by your Inferior.

یہ انتظار کو سنا دینا۔‘‘ ’’یحییٰ امجد کی وفات کا دُکھ ہوا۔ میرا بہت اچھا دوست تھا۔‘‘

تارڑ: خاں صاحب، یعنی محمدخان صاحب، کہاں ہو، اتنی مدت سے نہ کوئی خط پتر اور نہ کوئی سندیسہ۔

عبداللہ: 7 Ely Close, Stevenage Herts, SGI 4NN(U.K)

’’ڈیئرمستنصر… سب سے پہلے تو اس خط کو معافی نامہ سمجھ کر اتنی دیر سے تمہیں لکھا…… دراصل میں کچھ ایسی کیفیت میں چلا گیا تھا کہ کسی کو بھی خط نہیں لکھا۔ بہت سا کام اپنے ذمے لے لیا ’’اداس نسلیں‘‘ کا ترجمہ رہا ایک طرف… انگریزی کا ناول ریوائز کر کے پبلشر کو بھیجا ہے۔ پھر پچھلے چند سالوں میں آٹھ دس کہانیوں کے نوٹ بنائے تھے اُنہیں آہستہ آہستہ لکھ رہا ہوں۔ ایک فلم کا سکرپٹ لکھ رہا ہوں… نادار لوگ کے پہلے پروف میں تقریباً تین ہزار غلطیاں تھی۔ میرا ایک مہینہ تو اس پر لگ گیا۔ اب تصحیح شدہ کاپی میں دیکھیں کیا گل کھلاتے ہیں……

تارڑ: اچھا ایسا کیوں ہے کہ عشقیہ کہانیاں لکھتے ہوئے ہی تم مجھے یاد کرتے ہو؟

عبداللہ: جب میں کبھی کام میں مصروف ہوتا ہوں اور اپنے کرداروں کی عشقیہ کہانی لکھ رہا ہوتا ہوں تو تمہیں یاد کر کے رشک کرنے لگتا ہوں کہ زندگی کی اس سٹیج پر پہنچ کر بھی دو دو عورتیں(جن میں سے ایک تو بہت ہی عمدہ ہے) تمہاری محبت میں مبتلا ہیں۔ اس سے زیادہ قابلِ رشک اور ساتھ ہی اس سے زیادہ کڑا واقعہ اورکیا ہوسکتا ہے(کڑا اس لیے کہ یہ دو دھاری تلوار ہے، دل کے علاوہ زندگی کو بھی کاٹ کے رکھ سکتی ہے۔ اچھی کوالٹی کی عورت کی کشش جان لیوا شے ہے۔) اقبال کا مجھے ایک ہی شعر پسند ہے۔

کون سی منزل میں ہے، کون سی وادی میں ہے

عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں

تارڑ: خان صاحب خیریت ہے کبھی مدتوں ہومر کے لوٹس آئے لینڈ میں اونگھتے رہتے ہو، خط لکھنا بھول جاتے ہو اور ان دنوں دھڑا دھڑ مجھے خط لکھتے چلے جا رہے ہو…… بہت بیکاری ہے کیا؟

عبداللہ: یار تم کہو گے کہ یہ عجیب آدمی ہے، معاملہ یہ ہے کہ میں اکیلا گھر میں بیٹھا انگریزی لکھتا رہتا ہوں اور بور ہو جاتا ہوں۔ ایک تم ہی ہو جسے میں خط لکھ سکتا ہوں (اور کسی سے میری خط و کتابت نہیں ہے۔ کچھ ایرہ وغیرہ لوگ ہیں جن کے خطوں کا میں جواب ہی نہیں دیتا)۔ بہرحال تمہارا ناول ’’راکھ‘‘ پڑھ رہا ہوں، رات کو سونے سے پہلے دس صفحے پڑھتا ہوں۔ ابھی تک تو صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ کہانی میں ایک ’’مِسٹری‘‘ ہے جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ خواہ کیسا ہی تھکا ہوا کیوں نہ ہوں، مگر آگے پڑھوں کہ کیا ہونے والا ہے۔

خاور زماں کے بارے میں اخبار میں پڑھا تھا کہ وہ ڈی جی ایف آئی اے تعینات ہو گیا ہے(اُس سے کہو کہ ایک غیرشاعر اور ایک غیرناول نگار ہمیں تکلیف دے رہے ہیں۔ اپنے بندے بھیج کر جاوید شاہین اور انیس ناگی کو ’’غائب‘‘ کرا دے۔)

عطا قاسمی سنا ہے ناروے میں سفیر ہو گیا ہے۔ اللہ کی شان ہے کیسے کیسے لوگ کہاں کہاں کی خاک چھانتے کہاں پہنچتے ہیں۔

تارڑ: ان دنوں کیا شراب خانہ ہی چلایا جا رہا ہے یا کسی خمارِ ناول میں بھی مبتلا ہو؟

عبداللہ: ویسے تمہارا خط بسنت کی مستی سے بھرا ہوا تھا، پڑھ کر مزا آیا۔ مارچ کا مہینہ ہے تو وہاں تو موسم بدل چکا ہو گا۔ میں افغانستان کی جنگ کے بارے میں انگریزی ناول لکھ رہا ہوں۔ مئی کے آخر میں The Weary Generations(اداس نسلیں کا ترجمہ) آ رہی ہے۔ تارکین وطن والا ناول بھی اکتوبر نومبر میں آ جائے گا۔ یاد آیا کہ تم نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میری انگریزی میری اردو سے بہتر ہے، پڑھ کر میں تم سے خفا ہو گیا تھا ۔ اب میری لٹریری ایجنٹ نے لکھا ہے :

You write so well in English that I find it amazing that this is your first Urdu novel which you have translated……

وغیرہ وغیرہ یہ پڑھ کر میں ٹھنڈا ہو گیا ہوں (ویسے ’’نادار لوگ‘‘ کی نثر تم نے پڑھی ہے؟؟)

ویسے تم میرے قریب ترین ادبی و غیرادبی دوست ہو۔ سلجوق کی کامیابی کا سن کر خوشی ہوئی۔ اسے میری جانب سے مبارک باد دینا۔ قرۃ العین اور سمیر کو بھی مبارک ہو۔ ویسے سب سے زیادہ مبارک باد کی مستحق مونا ہے جس نے تمہارے جیسے شخص کے ساتھ اٹھائیس برس گزار لیے ہیں۔

تارڑ: کمال ہے آپ خود تو اپنے عشق کو بیچ منجدھار چھوڑ گئے۔ بے وفائی کی حد کر دی اور دوسروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ سر دھڑ کی بازی لگا دو۔ آپ لوگوں کو مروانا چاہتے ہیں۔

عبداللہ: تارڑ! پاکستان ناکام عاشقوں سے بھرا پڑا ہے جن کی چیخ و پکار نے پہلے ہی ہمارے ادب کا بھٹہ بٹھایا ہوا ہے۔ اب تو ہمیں ایک کامیاب عاشق کی ضرورت ہے جس کا سر کٹا ہوا اُس کے ہاتھ پر رکھا ہو اور وہ بھوت کی طرح گلیوں میں پھر رہا ہو اور لوگ چھوٹے بچوں کو لے کر گھروں میں گھس جائیں اور دروازے بند کر لیں۔ خدا کی فالتو فنڈ کی خدائی کے اوپر ایسی دہشت کوئی زندگی کی توانا قوت ہی طاری کر سکتی ہے رونے رلانے والے ابھی ٹک سو گئے ہیں اور امید ہے اب سوئے ہی رہیں گے۔ اب یہ نیا دور ہے اس میں پرانے MYTH نہیں چلیں گے۔ خطبہ ختم۔

تارڑ: میں بے دھیانی میں کسی پردہ نشین کا حوالہ دے بیٹھا، مجھے کیا خبر تھی کہ تمہارے خطر سنسر ہوتے ہیں۔

عبداللہ: تریپولی ، لیبیا… فرحت عموماً میرے خط نہیں پڑھتی مگر یہاں لیبیا میں اور کوئی کام ہی نہیں چنانچہ اُس نے بے خیالی سے اٹھا کر تمہارا خط پڑھنا شروع کر دیا۔ اسے اور کوئی عتراض نہ تھا صرف یہ تھا کہ مستنصر نے یہ کیوں لکھا ہے کہ وہ تمہارے ذکر سے Blush ہو گئی تھی۔ نکتہ اُس کا یہ تھا کہ ہوسکتا ہے وہ Blush نہیں ہوئی ہو یا کسی اور بات پر ہوئی ہو مگر مردوں کی یہ پُرانی عادت ہے کہ ایک دوسرے کے Ego کو سہارا دینے کے لیے ایسی باتیں گھڑ لیتے ہیں۔ بہرحال میں نے بڑی مہارت سے بات کو سنبھال لیا۔ تکنیک یہ تھی کہ تم بالکل درست کہتی ہو، ممکن ہے کہ وہ Blush نہ ہوئی ہو یا کسی اور بات پر ہوئی ہو، وغیرہ وغیرہ…



(جاری ہے)

(بشکریہ تسطیر)
 
تارڑ: خان صاحب! آپ خوش بخت ہیں کہ معمر قذافی ایسے انقلابی ڈکٹیٹر کے مُلک میں سلطنت کے ’’غلام‘‘ ہیں اور خوش بخت ہم بھی ہیں کہ ضیاء الحق ایسے اسلامی ڈکٹیٹر کے عہد میں کوڑے کھا رہے ہیں تو آپ نظامِ مصطفیٰ کے بارے میں کیوں تشویش میں مبتلا ہیں؟

عبداللہ: میں تو اس تشویش میں مبتلا ہوں کہ بھئی یہ نظامِ مصطفیٰ میں لوگ شراب کیسے پی لیتے ہیں، مل جاتی ہے؟ کس مقدار میں ملتی ہے، کس قیمت پر ملتی ہے۔ ان سب باتوں کی اطلاع فوراً کر دو… لیکن ایک ناول ختم کرنے کے لیے لیبیا سے اچھی اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے چنانچہ یہیں رُک رہا ہوں۔ سلیم نے لکھا ہے کہ کراچی ٹیلی ویژن کے لیے سلیم احمد ’’اداس نسلیں‘‘ کا سکرپٹ تیار کر رہا ہے۔ مجھے تو اس بارے میں کچھ علم نہیں تمہیں کچھ ہے؟ اگر نہیں تو تفتیش کرو… مجھے ایک بار واپس آلینے دو پھر اگر کہو گے تو تمہارے سارے کام پر مضمون لکھ دوں گا۔

تارڑ: اگر میں تمہیں پڑھتا ہوں تو تم مجھے کیوں نہیں پڑھتے۔ ’’اُندلس میں اجنبی‘‘ کو یونیسکو نے اس برس کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ٹھہرایا ہے تم نے کیوں نہیں پڑھی؟

عبداللہ: میں نے پورے تین دن لگا کر اسے پڑھا، میں یونہی نہیں چھوڑ رہا واقعی میرے خیال میں یہ اچھا سفرنامہ ہونے کے علاوہ بھی نہایت اچھی کتاب ہے پڑھ کر لطف آ گیا’’اندلس میں اجنبی‘‘ کا آخری حصہ بہت ہی اچھا ہے بلکہ میں نے محمد سلیم الرحمان کا ریویو بھی دیکھا اور یہ کتاب اُسے خاصی پسند آئی ہے۔

تارڑ: تو لنڈن شہر میں ان دنوں ملاقاتیں کن کن سے ہوئیں؟

عبداللہ: کل مجھ سے سی ایم نعیم (شکاگو والے) ملنے کے لیے آئے تھے ان سے تمہاری خیریت کا علم ہوا۔ میں نے اپنی دکان میں ایک اور چھوٹا سا ڈیپارٹمنٹ کھول لیا ہے جس کی وجہ سے مصروفیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ایک جگہ پر محمدعلی صدیقی سے تعارف ہوا تھا مگر میں جلدی میں تھا، بات نہیں ہو سکی۔ فیض سے بھی کوئی تیس سیکنڈ کی ملاقات ہوئی تھی اُسی جگہ پر۔

تارڑ: ان دنوں کیا مصروفیت ہے، صرف دکانداری کر رہے ہو یا کچھ دنیا داری بھی؟

عبداللہ: یہاں کی مصروفیت: ’’واپسی کا سفر‘‘ کی فلم کا کام تیزی سے چل رہا ہے کوئی ہندوستانی ایکٹر ہے رام پوری*(میں تو واقف نہیں ہوں مگر سنا ہے اچھا ہے) وہ حسین شاہ کے رول کے لیے کاسٹ کیا گیا ہے۔ مَیری کے رول کے لیے ایک بہت اچھی انگریز ایکٹریس Rudi Davies وہ لے لی گئی ہے۔ میں نے ’’سیاہ آنکھ میں تصویر‘‘ کی سولہ میں سے دس کہانیاں پڑھ لی ہیں۔ مجھے ’’بابابگلوس‘‘ اور ’’بادشاہ‘‘ بہت پسند آئی ہیں۔ ’’پریم‘‘ بھی بہت دلچسپ ہے، تمہاری نثر بھی پہلے سے بہت چُست ہو گئی ہے۔

تارڑ: عبداللہ ڈیئر ڈارلنگ (کہیں لیبیا میں نظامِ مصطفیٰ کے تحت اگر ایک مرد دوسرے مرد کو ڈارلنگ کہہ دے تو اُسے سنگسار تو نہیں کر دیا جاتا) تو وہاں کی کیا خبریں ہیں، تمہاری رہائش گاہ سے صحرا کتنی دور ہے؟

عبداللہ: ہمیں یہاں وہی خبریں ملتی ہیں جو مقامی ریڈیو سناتا ہے۔ میری پاکستان میں خط و کتابت صرف سلیم سے ہے مگر وہ کلاسیکل طبیعت کا آدمی ہے چنانچہ اُس کے خط انتہائی مختصر، ’’درست‘‘ اور ’’بے خبر‘‘ ہوتے ہیں۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ سوائے اس احساس کے کہ دنیا کوئی پندرہ ملین سال سے چلتی آ رہی ہے اور شاید اتنا ہی عرصہ اور چلتی جائے گی۔ روزمرہ کی چھوٹی موٹی باتوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مگر ہم تو بہت نرم گوشت پوست کے آدمی ہیں۔ ہمیں ان باتوں سے بہت فرق پڑتا ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ بھائی ایک تم تھے وہ بھی خط لکھنا چھوڑ گئے۔ تفصیل سے لکھو، جو بات دل میں آئے لکھ دو۔ ادبی، سیاسی، اخلاقی، بداخلاقی وغیرہ۔ بھٹو کو تو اب یہ لوگ شاید پھائے لگا دیں۔ ہمارے ہاں کیا زمانۂ جہالت آ گیا ہے۔ کیا اب ’’بدکاری‘‘ کے لیے واقعی سنگ سار کر دیں گے (اصل میں کوشش ہونی چاہیے کہ گواہ کوئی پیدا نہ ہو، اگر کوئی ہو تو اسے پرائیویٹ طور پر پتھر وغیرہ مارمار کر ٹھکانے لگا دیا جائے)۔

(*وہ ہندوستانی ایکٹر رام پوری نہیں اوم پوری تھے۔ خان صاحب کی جہالت کا یہ عالم تھا کہ اس فلم ’’برادرز اِن ٹربل‘‘ کے پریمئر پر نصیرالدین شاہ آئے تو خان صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ )

(عبداللہ حسین کے دو چار خط انگریزی میں ہیں ان سے رجوع کرتا ہوں اور کچھ سوال پوچھتا ہوں اور واقعی اس کی انگریزی اُس کی اردو سے بہت بہتر ہے اگرچہ اس کی اردو بھی کسی خوش بدن عورت کی مانند ایک شہوت انگیز کشش رکھتی ہے، نصابی، حسابی اور بامحاورہ ہر گز نہیں ہے۔)

تارڑ : ویسے تم انگلستان کی سرسبز چراگاہیں چھوڑ کر لیبیا کے صحرائوں کی جانب کیوں کوچ کر گئے۔ کوئی تُک ہے؟

عبداللہ: میں لیبیا میں ہوں اور کیوں ہوں، اس کی وجہ نہیں جانتا، سوائے اس کے کہ میری بیوی پچھلے کچھ ماہ سے یہاں کسی ہسپتال میں اپنی ڈاکٹری کر رہی ہے۔ میں یہاں اخباروں، کتابوں، ٹیلی ویژن، سنیما، الکوحل اور عورتوں کے بغیر زندگی گزار رہا ہوں۔ یہاں زیتون اور کھجوروں کے باغ ہیں، سمندر ہے۔ میں یہاں سارا دن کیا کرتا ہوں۔ میں لکھتا ہوں، غوروفکر کرتا ہوں اور مجبوراً اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرتا ہوں بس اسی تواتر کے ساتھ۔

تارڑ: لائل پور میں شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟

عبداللہ: تم میرا مذاق نہیں اڑانا۔ میں جانتا ہوں کہ صرف بوڑھے اور بچے ایسی حرکت کرتے ہیں۔ میں سیڑھیوں سے گر گیا تھا۔ ویسے اب میں صحت مند ہوچکا ہوں اور میری بیوی کا یہ خواب کہ میرے مرنے پر وہ کروڑوں کی جائیداد کی مالک بن جائے گی ادھورا رہ گیا ہے۔

میں اپنے ناول کو دوبارہ لکھ رہا تھا، کہانی کوئی نہیں لکھی اگرچہ بہت سی دماغ میں گردش کر رہی ہیں۔ یہ کیفیت بہت اذیت ناک ہے۔ ان کہانیوں کو زخموں کی مانند لیے پھرنا(مجھے شمار کرو، میرے بھائی، ایک زخم خوردہ چلتے پھرتے شخص کے طور پر… مایا کووسکی)۔

اور ہاں میں تمہاری شباہت سے بہت متاثر ہوا ہوں میں عام طور پر ٹیلی ویژن نہیں دیکھتا لیکن مجھے فوری طور پر ساتھ والے کمرے میں طلب کر لیا گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ تم میرے دوست ہو اور میں نے تمہیں دیکھا (اداکاری کرتے ہوئے) اور میرے خیال میں تم بہت کمال کے اداکار ہو یعنی حقیقت کو چھوتی ہوئی اداکاری کی روایت میں۔ اگر سب سے اونچے درجے پر نہ بھی پھر بھی بلند ترین میں سے ایک… تم ایک ایسے شخص ہو جو سراسر قانع اور قدرتی طور پر مطمئن حالت میں ہے اور المیہ اداکاری کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اگرچہ اس کے اندر المیے کی ایک گہری حِس اور دُکھ ہے، جو میرے نزدیک ہر شے کے فانی اور عارضی ہونے کی علامت ہے۔ یہ تو تمہارا سامنے والا چہرہ ہے یعنی ’’فرنٹ ایلی ویشن‘‘ اور اب تمہاری ’’سائڈایلی ویشن‘‘ یعنی ایک رُخ سے دکھائی دینے والا چہرہ… میری بیوی کا خیال ہے کہ یہ ایک رومن پروفائل ہے۔ جب کہ اکثر لوگوں کا پروفائل سامی شباہت کا ہوتا ہے یعنی ’’سی میٹک‘‘ قدرے یہودی۔ میں نے اپنی بیوی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایڈورڈ گبن سے رجوع کرے اور کھوج کرے کہ کیا وہاں کوئی رومن قبیلہ ’’تارڑ‘‘ نام کا ہے؟ (کیا ہم ’’تاراس بلبا‘‘ کے بارے میں غور کر سکتے ہیں لیکن وہ تو ایک منگول قبیلہ تھا جو رومن ایمپائر کے زوال کے بعد بکھر گیا) چنانچہ تم ایک ’’زوال پذیررومن‘‘ ہو سکتے ہو، کیا خیال ہے؟ اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک زوال پذیر پاکستانی ہونے سے یہ کہیں بہتر ہے۔ میں تمہیں اگلے ہفتے ملوں گا۔ میں تمہارے لیے خوشی کی آرزو کرتا ہوں۔

تارڑ: تم لائل پور سے آئے اور تم نے لاہور دیکھا اور فتح کر لیا۔ میں نے اپنی زندگی کے کچھ یادگار لمحے تمہاری شراکت میں بسر کیے۔ میں تمہیں اپنی سرخ ہونڈا 175سی سی موٹرسائیکل پر لیے لیے پھرا اور تمہارے گھٹنے سٹیئرنگ تک آتے تھے اور مجھے ڈرائیور کرنے میں مشکل ہوتی تھی۔ ویسے میں تمہاری ہوس پرستی کی قبیح خصلت سے بہت بیزار ہوں۔ تمہیں جو شکل نظر آتی تھی، تصویر نظر آتی تھی۔ ان دنوں بارشیں بہت اتریں، بہت تباہی ہوئی، تم خیریت سے ہو؟

عبداللہ: بارشیں برسیں اور پھر چلی گئیں ہمیشہ کی طرح۔ ان خطوں میں ہزیمت اور گہرے دکھ باقاعدگی سے چلے آتے ہیں گویا کہ وہ ایک موسم ہوتے ہیں اور صرف ذلتوں کے مارے لوگ ان موسموں کا شکار ہوتے ہیں(چہرے ایک آرزو کی مانند، بال ایک جھکڑ میں، اُڑتے ہوئے) اور جب آپ اخباروں میں تصویریں دیکھتے ہیں وہ افراتفری اور حیرت کی تصویریں ہوتی ہیں۔ ’’کوئی ایک پتا بھی میرے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا۔‘‘ خدا نے کہیں کہا تھا … محض کاٹھ کباڑ… اور یہ کہنا کہ غریب اور نادار اس دنیا کے وارث ہوں گے ایک پروپوگینڈا ہے۔ نادار لوگ، ذلتوں کے مارے لوگ، اس دنیا میں کاٹھ کباڑ کی مانند آتے ہیں اور کاٹھ کباڑ کی مانند ہی رخصت ہو جاتے ہیں اور نہ ان میں کچھ غصہ ہوتا ہے اور نہ کوئی احتجاج… مجھے معاف کر دو میں بہت غصے میں ہوں، انکار کر رہا ہوں، عزت نفس کہاں ہے۔

میں شاید اس لیے ایک ذہنی انتشار اور ناآسودگی میں چلا گیا ہوں کہ میری جنسی زندگی میں خلل آ رہا ہے۔ یہاں کی (پاکستانی)عورتیں بے حد بیکار ہیں۔ ان کے کوئی اعلیٰ اصول نہیں ہیں، کوئی تصور یا انصاف کی حِس نہیں ہے۔ یہ بہت حقیقت پسند، دہقان ذہنیت کی عورتیں ہیں اگرچہ وہ قدرے پرکشش ہیں لیکن ایک ٹریکٹر کی مانند (تم اس پر سواری کر سکتے ہو۔ بہت عرصہ سوار رہ سکتے ہو، بیج بو سکتے ہو اور پھر گھر واپس آ کر تنہائی میں سوچ میں پڑ جاتے ہو) بیکار عورتیں ہیں۔ کیا میں اِدھر اُدھر کی ہانک رہا ہوں۔ ہاں واقعی میں ایسا کر رہا ہوں۔ میں تم سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں شاید تم سے جلد ہی ملوں گا۔ تم میری محبت ہو!!

تارڑ: عبداللہ! اب کب ملو گے… وہ کیا کہتے ہیں کہ مورا تم بن جیا اداس رے… کب آئو گے؟

عبداللہ: (اور مجھے اُس کا بلند بانگ تہہ در تہہ کھلتا قہقہہ سنائی دیتا ہے لیکن اب اس میں فنا کی گونج میری حیات کے گنبدِ بے در میں گونجتی ہے) اب میں تو نہیں آنے والا… میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو… میں جا کے واپس نہیں آ سکتا، تم چلے آئو…… آنا تو ہے تو جب بھی آنا ہو، چلے آئو۔

عبداللہ حسین کے ساتھ بعد از مرگ ایک گفتگو (2) - ہم سب
 
Top