شریر بیوی- ص 49

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200049.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 94

ان حضرت کے پاس کوکین برآمد ہوئی۔

تھوڑے ہی دنوں بعد چاندنی کے نام بریلی کے ریلوے مجسٹریٹ کی عدالت سے سمن آیا کہ فلاں فلاں دن ھاضر ہو کر ملزم کو شناخت کرو۔ اور گواہی دو۔ وہ اس عدالت کی پیشی سے چکرائی اور کہنے لگی کہ " میں تو نہ جاؤں گی۔ " ہم نے کہا شائد تیری شامت آئی ہے۔ کیونکہ اگر تو نہ جائے گی تو وارنٹ جاری ہو گا۔ اور پکڑی جائے گی۔ اور پھر مقدمہ کے وکیل تجھ سے جرح کر کے سب تیری شرارتوں کی اکٹھی کسر نکالیں گے۔" سمن کو تو لینا پڑھا۔ مگر وہ سخت پریشان تھی۔ اگر ہم چاہتے تو اس جھگڑے سے اس کو نکلا سکتے تھے۔ مگر دراصل ہمارا خیال تھا کہ کچھ تجربہ حاصل کر کے تو اچھا ہی ہے۔ اور ہم نے اس کہ کہ "بیوی گھبراؤ نہیں ہم تمہارے ساتھ چلیں گے۔"

ریلوے مجسٹریٹ ایک ڈپٹی کلکٹر تھے اور جب ہم اپنی بیوی کو لے کر خود حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے قریب کرسی دی۔ ملزم کی شناخت وغیرہ ہوئی۔ا ور چاندنی کے مجسٹریٹ نے بیان لئے۔ ہم نے چپکے سے یہ اس کے کان میں کہہ کر بوکھلا دیا کہ وکیل تجھ سے جرح کرے گا۔ اور اگر کہیں تو نے ذرا بھی جھوٹ بولا تو بس سمجھ لے کہ دروغ حلفی کا مقدمہ تیرے اوپر قائم کر کے تجھے جیل کی ہوا کھلائی جائے گی۔

جب اس سے ملزم کے وکیل نے جرح کی تو وہ سخت گھبرائی۔ مجبورا اس کو اقبال جرم کرنا پڑا کہ ملزم کو بطور سزا کے اس نے کونین ڈال کر پان دیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 95

اتفاق کی بات کہ واقعہ تازہ تھا۔ دن اور تاریخ جو مجسٹریٹ نے پوچھی تو معلوم ہوا کہ جس روز بریلی کے اسٹیشن پر تمام چیزیں کڑوی ہو گئی تھیں۔ وہی دن اس کی موجودگی کا بھی تھا۔ اس معاملہ کی تحقیقات پولیس پہلے ہی کر چکی تھی۔ تمام کڑوی چیزوں کا ڈاکٹری امتحان بھی ہو چکا تھا۔ اور ممتحن نے بتایا تھا کہ تمام اشیا کونین سے کڑوی کر دی گئی ہیں۔ ہر جگہ تحقیقات سے ثابت ہو چکا تھا کہ کوئی عورت تھی۔ کیونکہ پان والے نے کہا کہ میں نے ایک عورت کے ہاتھ پان فروخت کئے۔ اور یہی خونچہ والے نے کہا اور اس پر طرہ یہ کہ ہوٹل والے کا بیان۔ ان سب باتوں کو ملا کر جو مجسٹریٹ نے دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نظر آیا۔ علاوہ اس کے تحقیقات میں جو لوگوں نے بیان دیئے تھے اس میں چاندنی کا حلیہ درج تھا۔

مجسٹریٹ بیچارے بڑے نیک آدمی تھے۔ انہوں نے کچھ تو ہمارا لحاظ کیا اور کچھ ہماری بیوی کا۔ کیونکہ وہ اس وقت بے طرح گھبرا رہی تھی۔ انہوں نے ایک طرف تو وکیل کو بہت سے ایسے سوالات کرنے سے روکا کہ ان کا جواب دینے سے پیشتر ہی وہ شاید رو دیتی اور دوسرے طرف بے موقع کڑواہٹ کا تذکرہ بند کیا۔ عدالت سے اس نے فراغت پائی تو اس کی جان میں جان آئی۔ لیکن ڈبل فرسٹ کلاس کا کرایہ کا پروانہ جو اس کے ہاتھ آیا۔ پھر اس کی وہی کیفیت ہو گئی۔ ہم نے کہا کیوں جی آدھے دام پر ہمارے ہاتھ فروخت کرتی ہو۔ اس نے کہا کہ انہی داموں میں سے تو کونین خریدی جائے گی۔
 
Top