شریر بیوی- ص 48

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200048.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 92

ہم نے کہا، "جناب آپ نے انتہائی پردہ کرا کے یہ حال کر دیا ہے اگر آپ اپنے ساتھ بٹھائیں۔ تو کیا مضائقہ ہے۔" مگر یہ سب بے سود تھا کیونکہ ہمارے اور ان کے خیالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

ہماری بیوی پر شرارت کا جن پھر سوار ہو گیا۔ اس نے پہلے تو ہمارے دوست کی بیوی کی بزدلی پر خفا ہر کر بطور سزا کے ایک کڑوا پان کھلایا۔ نہ معلوم ایسی سیدھی عورت کے تنگ کرنے میں کیا مصلحت تھی۔ اس کے اس نے دیکھا کہ وہ حضرت آ رہے ہیں۔ وہ کھڑکی کی طرف منہ کھولے بیٹھی تھی اور پان کی ڈبیہ اس کے ہاتھ میں تھی۔ جیسے وہ قریب آیا ویسے ہی اس نے ڈبیا کھولی۔ وہ غنڈا مسکرا کر بولو " اکیلے ہی اکیلے" چاندنی نے فورا ایک پاس اسے دے دیا جو اس نے فورا لے لیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ یہ حضرت نل پر کھڑے تھوک تھوک کر اپنی چونچ صاف کر رہے ہیں کیونکہ سارا منہ کڑوا ہو رہا تھا۔

یہ حضرت جلے بُھنے پھر لوٹ کر آئے اور چاندنی سے پان کی کڑواہٹ کے بارے میں ایک سخت ناشائستہ اور بیہودہ لفظ کہا۔ اس نے ڈانٹ کر کہا "شریفوں کی سی باتیں کرو۔" اس کو بے حد غصہ آ رہا تھا۔ ہمارے دوست کی بیوٰ کا یہ باتیں دیکھ کر جو حال ہوا وہ بیان سے باہر ہے جب اس نے پان دیا تو کہنے لگھیں کہ "تمہارے میاں دیکھ لیتے تو کیا ہوتا۔" اس نے کہا "کچھ نہیں اس میں کیا ہرج ہے۔" غرض وہ کہتی تھیں کہ " خدا کے لئے رہنے دیجیئے۔ ورنہ وہ اور بھہ پیچھے لگ جائے گا۔" اتنے میں وہ پھر آیا۔ اور اس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 93

مرتبہ پیشتر سے زیادہ بیہودہ گوئی سے کام لیا۔ چاندنی مارے غصہ کے کانپنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ نینی تال پر ہن نے اسے ایک نہایت ہی نازک سی ساڑھے سات روپے کی سیپ کے دستے کی چھتری دلا دی تھی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چھتری لے کر اور گاڑی سے اتر کر پیچھے سے اس غنڈے کے سر پر ایک ہاتھ زور سے مارا۔ اس نے جو مڑ کر دیکھا توزور کی ڈانٹ بتا کر جو چھتریاں مارنا شروع کیں تو ایک غل مچا۔ لوگوں نے سمجھا کہ نہ معلوم اس شخص نے کونسی ناشائستہ حرکت کی لٰہذا دوڑ کر آئے اور ایک انگریز مسافر جو پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اس پکڑ لیا۔ ایک ہُلڑ ہو گیا۔ وہ اپنے ڈبہ میں لوٹ گئی۔ یہ حضرت پکڑ کر پولیس کے ہاتھوں میں دے دیئے گئے۔ ہم اپنی بیوی کے پاس جو مارے غصہ کے جنگ کے بعد کانپ رہی تھی اور اس کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ ہمارے دوست کی بیوی سہمی ہوئی کونے میں منہ دیئے بیٹھی تھی۔ ہم نے بیوی کی پیٹھ ٹھونکی اور کہا "واہ شاباش! کیا کہنا ہے۔ تم بڑی بہادر ہو۔" غرض شاباش دے کر ہم لوٹ آئے۔

(6)

بریلی کے اسٹیشن پر ہمارے دوست ہمارے بہادر بیوی کی تعریف مگر اعتراض کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ اتنے میں ایک پولیس سب انسپکٹر صاحب آئے۔ اور انہوں نے ہمارا پتہ وغیرہ لکھ لیا اور کہا کہ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو آپ کی بیوی کا نام بھی گواہوں میں لکھ لوں۔ معلوم ہوا کہ
 
Top