شریر بیوی صفحہ 94

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200094.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 184

دیکھا اور کچھ سوچ کر پوچھا۔ "تم نے پھر مجھ کو کوئی خط بھی نہ لکھا۔ اگر چاہتیں تو خط لکھ سکتی تھیں۔"

"اگر میں چاہتی تو بجائے تہہ خانہ سے نکل کر کنویں میں گرنے کے تمہارے پاس آنے کی کوشش بھی کر سکتی تھی اور عجب نہیں کہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتی اور پھر اگر چاہتی تو تم سے اپنی ذلت کو چُھپا بھی سکتی تھی اور جھوٹ بھی بول سکتی تھی۔" معصومہ نے روتے ہوئے کہا۔ اس جملے نے اصغر پر عجیب اثر کیا۔ کیا یہ واقعہ نہ تھا کہ اگر وہ اس سے کچھ نہ کہتی تو اس کو اس کی ذلت کا علم بھی نہ ہوتا۔ خدا کی قدرت کہ اصغر ایسی شخصیت میں پرانے فلسفہ پر اسلامی فلسفہ عصمت و عفت غالب آیا۔ اور اس نے کچھ غور کر کے کہا " معصومہ " وہ چپ ہو گیا اور پھر بولا۔ "تمہاری اس میں ذرہ بھر خطا نہیں۔ دراصل مجھ کو آج نہیں بلکہ ابھی معلوم ہوا کہ دراصل پاک اور معصوم وہ ہے کہ جس کا دل تمام گندگی سے پاک ہے۔ خواہ اس کا جسم گندہ ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ جس کا جسم پاک ہے مگر دل اور روح پاک نہیں وہ دراصل کسی طرح بھی پاک نہیں۔ تیرے اوپر اگر کسی ملعون نے غلاظت ڈالدی تو تو نے اس کو اپنا گلا گھونٹ کر اور کنویں میں گر کر دھو ڈالا اور اب تک دھو رہی ہے۔ اگر تو چاہتی تو تو بیشک مجھ کو اپنی مصیبت کا علم ہی نہ ہوتا۔ اور وہ دراصل بہت ہی بُرا ہوتا۔ مگر چونکہ تو پاک اور صاف ہے اور معصوم اور سچی ہےلٰہذا تو نے سچ بولا۔ میں ہرگز بغیر ایسی بیوی کے زندہ نہیں رہ سکتا۔"

جملہ مشکل سے پورا ہوا تھا کہ معصومہ کے منہ سے ایک خوشی کی چیخ نکلی اور وہ وہیں اصغر کے قدموں میں بے ہوش ہو کر گر گئی۔ اصغر نے اٹھ کر اپنی عسمت مآب اور سچی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 185

بیوی کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

-*-*-*-*-*-*-*-*-*-​

ہم الگ کمرہ میں بیٹھے تھے اور سمجھے تھے کہ چاندنی اندر زنانکانے میں گئی ہے کہ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتی ہوئی آئی۔ ہم نے کہا "ارے یہ تجھے کیا ہوا" تو اس نے اپنی چوری کا قصہ سنایا کہ وہ کس طرح بے ایمانی سے دروازہ کے ایک سوراخ سے میاں بیوی کی ملاقات دیکھ اور سن رہی تھی۔ ہم نے اس کی کمزوری اور چوری پر اس کو بہت کچھ برا بھلا کہا۔ مگر وہ تو اب سن آئی تھی اور خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ قصہ مرتب ہو کر باعث عبرت ہو۔

(6)

حسین بخش غریب اب بھی خوش تھا۔ اور دراصل اس کو حقیقی خوشی ہوئی ہو گی۔ کیونکہ وہ شریف دل تھا۔ معصومہ نے اس کو اس کی خدمت کا یہ صلہ دیا کہ جس طرح اس کو بھائی کہتی آئی تھی۔ اسی طرح اس کو اب بھی بھائی سمجھا۔ اور اس صندوقچی کا پتہ دیا۔ جو اب تک اسی کنویں کی تہہ میں پڑی تھیں۔ جس میں سے اس نے معصومہ کو اپنی جان پر کھیل کر نکالا تھا۔ اس صندوقچی کو اب تک معصومہ ایک امانت سمجھی تھی۔ لیکن اب اس کو اسی طرح پڑا رہنے دینا بیکار معلوم ہوا۔ اس میں سے ساڑھے چار ہزار کی قمیت کی جھاڑ شاہی مہریں نکلیں۔ جو حسین بخش کی محبت اور خدمت کا بہترین صلہ تھیں۔

-*-*-*-*-*-*-*-*-*-​

بُرا وقت کسی پر کہہ کر نہیں آتا۔ اس دنیا کی جد و جہد میں کمزور اور بے بس ہونا کوئی قابل تعریف صفت نہیں۔ ہر مذہب و معاشرت نے شرم و حیا اور پردے
 
Top