شریر بیوی صفحہ 85

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200085.gif
 

ذیشان حیدر

محفلین
دُرَہ تو بڑی چیز ہے ، روٹی کا گالا تک نہیں مارا جاسکتا۔ وہ پاک ہے، اور عصمت مآب ہے۔ اور اپنے شوہر اور خدا کے سامنے نڈر ہو کر علی الاعلان اپنی معصومیت کا دعویٰ کرسکتی ہے وہ بغیر آنکھ جھپکائے ہوئے اپنے شوہر سے آنکھ ملا سکتی ہے ظالم کو سزا قانون دے گا ورنہ خدا۔
(۱)
آگرہ سے گئے ہوئے عرصہ ہوگیا تھا کہ ہم اور چاندنی الہٰ آباد سے آگرہ جا رہے تھے قسمت کی خوبی کہ آج پھر قریب دوسال کے بعد ہمارا اور اصغر صاحب کا سفر میں ساتھ ہوا ۔ گھر سے تو چاندنی شرارتوں کا پورا پروگرام تیار کر کے چلی تھی مگر یہاں دوسرا ہی معاملہ درپیش تھا ۔
پہلا سوال جو ہم دونوں نے اصغر صاحب سے پوچھا ۔ وہ ان کی بیوی کے بارے میں تھا۔ وہ اب تک لاپتہ تھیں بلکہ اصغر صاحب لکھنئو سے اپنی دوسری شادی کے سلسلہ میں جا کر واپس آرہے تھےدراصل دنیا بھی عجیب جگہ ہے ان کی حالت ایسی تھی کہ کوئی نہ کہہ سکتا تھا کہ اصغر کبھی دوسری شادی کریں گے مگر یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی چہل پہل اور بار دوستوں کی گھما گھمی اور خوش مذاقی میں دنیا کے تمام رنج خود بخود محوہوجاتے ہیں یہی حال اصغر کا تھا ۔ مگر پھر بھی اس ذکر نے ان کا غم ایسا تازہ کر دیا کہ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اور لطف یہ کہ چاندنی بھی محض ان کی حالت دیکھ کر رو رہی تھی بات آئی گئی ہوگئی اور تھوڑی ہی دیر بعد ہم بھی بھول گئے۔ دراصل ہمیں اور چاندنی دونوں کو اصغر صاحب سے ایک قدرتی ہمدردی ہوگئی تھی جس کے ظاہر کرنے کا موقع ہم کو سال بھر وا آگرہ ہی میں مل چکا تھا۔
ٹونڈلہ کے اسٹیشن پر چاندنی تو گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی اور ہم اور اصغر صاحب باہر کھڑے تھے۔
’’ذرہ اس بچے کو دیکھئے‘‘ اصغر نے ایک بچہ کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ یہ کوئی ڈیڑھ یا پونے دوسال کا بچہ معلوم ہوتا تھا نیانیا چلنا سیکھاتھا اور بے طرح ہنسی کا گول گپا بنا ہوا ڈگمگاتا چلا آرہا تھا خوب گورا چٹا، سرخ و سفید اور تندرست تھا ۔ صرف ایک کرتہ پہنے ہوئے تھا اس کا غریب ریبائی باپ ہنستا آتا تھا ۔ ایک دم سے بھاگھنے میں اصغر کے قریب آکر یہ ڈگمگایا کہ اصغر نے اسے اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کے سامنے کیا ۔ بچہ نے غور سے اصغر کو دیکھتے دیکھتے ان کے منہ پر ہاتھ مارا۔ کہ دیکھنے والوں کا ہنسی کے مارے برا حال ہوگیا ۔ اصغر نے ہنستے ہوئے چھوڑ دیا اور پھر ڈگمگاتا ادھر اُدھر دوڑنے لگا بار بار گرتا اور پھر ہنس کر دوڑتا پھرتا تھا ۔ چاندنی نے کہا ’’واقعی بڑا پیارا بچہ ہے: پھر اصغر صاحب سے کہا ’’اصغر صاحب اس بچہ کی آنکھیں اور ماتھا ہوبہو آپ کا سا ہے۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی؛
اصغر صاحب ہنسنے لگے اور بچہ کو دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں اس نے پھر اسی طرف رخ کیا اوراس کا باپ اس کے پیچھے لپکا تووہ آکر اصغر کی ٹانگوں سے لپٹ گیا اور ہنسی کے مارے اس کا برا حال ہوگیا۔ اصغر نے پھر اُٹھا لیا اوراسی طرف دیکھنے لگے۔
ہم نے غور سے دیکھا اور کہا واقعی اصغر اس کی آنکھیں اور
 
Top