شریر بیوی صفحہ 79

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200079.gif
 

زلفی شاہ

لائبریرین
تھی۔ کہ یہ سب شرارتیں بھول گئی اور اس کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔ تنہا کمرہ میں جہاں کوئی گھر کا ملازم تک بھی داخل نہ ہوتا ہو وہ ایک آوارہ اور بدچلن شخص کے ساتھ تھی۔ جس کو اس نے اپنی شرارت کا خود شکار بنانے کے لئے آنے کی اجازت دی تھی۔ اس نے کہا’’ میں منہ دھو کر ابھی حاضر ہوئی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے پردہ اٹھا کر نکل گئی۔ اس کا کلیجہ دھک دھک ہو رہا تھا۔ کامل رک گئے اور اس کے پیچھے نہ آئے۔ چاندنی نے منہ دھویا۔ وہ تولیہ سے منہ پونچھ رہی تھی۔ مگر اس کے تن بدن میں رعشہ موجود تھا اور اب تک دل قابو میں نہ آیا تھا اور وہ بے حد پریشان تھی۔ اس نے ایک گلاس سردپانی پیا۔ جس سے اس کا دل تھما۔ دل میں وہ اپنی کمزوری پر ہنسی اور اس نے کہا کہ وہ مردود میرا کیا کر سکتا ہے۔ وہ اب بالکل ٹھیک تھی اور بغیر کسی ڈر یا پریشانی کے ملنے والے کمرے میں پہنچی۔ اس نے کمرہ کے چاروں طرف دیکھا اور سب دروازے بجائے کھلے ہونے کے بند پائے۔ کیونکہ کامل نے سب دروازے مضبوط بند کر دیئے تھے۔ یہ دیکھ کر اس کی ہمت اور جرات پھر رخصت ہوتی معلوم ہوئی۔
نہ معلوم وہ کیوں اس قدر گھبرا رہی تھی۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بجنے میں آٹھ منٹ تھے۔ اس کو کامل کے ساتب اب اس کمرہ میں ڈر لگ رہا تھا۔ وہ کچھ ٹھٹکی کہ کامل نے مسکرا کر کہا۔
’’آیئے۔‘‘ یہ لفظ اس وقت اس کے کانوں میں ہتھوڑے کی چوٹ بن کر لگا۔ جس کی دھمل اس کے دل تک پہنچی اور معا اس نے کمزوری محسوس کی۔ مگرا س نے اپنے دل کو پھر مضبوط کیا اور ایک کرسی گھسیٹ کر علیحدہ بیٹھ گئی۔ کامل
 

زلفی شاہ

لائبریرین
نے خاموشی کو توڑا اور باتیں کرتے کرتے وہ آہستہ آہستہ اور رفتہ رفتہ اس کی کرسی کی طرف بڑھنے لگے۔
اس وقت چاندنی کی عجیب حالت تھی اس جانور کی مانند تھی جو شیر کو دیکھ کر بے بس ہو اجاتا ہے کہ وقت رفتار کھو بیٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ شیر آ رہا ہے مگر جنبش نہیں کر سکتا۔ وہ خاموش تھی اور اس سے کوئی جواب ہی نہ بن پڑتا تھا ۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور ہونٹ بالکل خشک تھے جب کامل بالکل ہیی قریب آگئے تو نہ معلوم کس کوشش سے اس نے کہا۔
’’پانی عنایت کیجئے گا۔‘‘ اور صراحی کی طرف ہاتھ اٹھا دیا۔ کامل نے پانی دیا ۔ پانی پی کر کامل کو گلاس واپس دیا۔ کامل نے دیکھا کہ چاندنی کے ہاتھ میں رعشہ ہے۔ جس کے انہوں نے شاید غلط معنی لئے اور گلاس کو میز پر رکھ کر کرسسی کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ چاندنی بت کی طرح خاموش تھی اور انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چاندنی کی جو حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔
ہاتھ برف کی طرح سرد تھے۔ کامل نے اور جرات کی اور اب وہ کرسی کے سامنے گھنٹوں کے بل اس طرح کھڑے ہو گئے کہ اٹھنے کا راستہ رک گیا۔ اس نے ارادہ کیا کہ چیخ کر بھاگ جاؤں۔ مگر وہاں اب وقت گفتار یا رفتار کہاں؟ کامل کی رفتار افعال اس قدر آہستہ تھی کہ کوئی بات کیا کی پیش ہی نہ آ رہی تھی۔ جو بجلی کی طرح گر کر اس جمود کو توڑتی اور طبیعت کی رفتار کو ہیجان میں لا کر وقت پیدا کرتی جو قریب قریب مفقود تھی۔ ایسے موقع پر اگر کسی چیز کے گرنے کا دھماکہ بھی ہوتا ہے تو طبیعت کی جنبش ہو جاتی ہے اور انسان
 
Top