شریر بیوی صفحہ 78

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200078.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۲​
وجہ ضرور ہو جاتی۔ ہم سے بالکل بدستور سابق مل جُل رہے تھے۔​
چاندنی خاموش تھی اور ان سے کسی قسم کی شرارت نہ کرتی تھی۔ مگر وہ منتظر تھی کہ اب کامل صاحب کچھ پھر شرارت کریں تو بدلہ لوں۔​
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------​
حالانکہ کامل کو اب چاندنی کے ساتھ تنہائی کا بالکل موقعہ نہ ملتا تھا مگر انہوں نے اتنا کہنے کا موقعہ آسانی سے نکال لیا کہ کیا میں کل دوپہر کو آؤں؟ چاندنی نے کچھ نہ کہا۔ انہوں نے پھر گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا اور جب اس نے پھر جواب نہ دیا تو پھر کہا۔ مجبور ہو کر چاندنی نے کہا کہ موٹر پر نہ آئیے گا۔ خوش ہو کر انہوں نے کہا کہ میں ایک بجے آؤں گا۔ یہ باتیں کر کے وہ فوراً ہی چلے گئے گو کہ ہم نے ان کو روکا۔ مگر وہ نہ مانے۔​
ہم سے چاندنی نے کہا کہ تم کچہری سے کل ڈیڑھ بجے ضرور گھر پہنچ جانا۔ ہم نے کہا کہ "ہم تیری حماقتوں میں کہاں تک شرکت کریں۔ تو ان کو غسلخانہ میں بند کرے گی اور ہم کو خواہ مخواہ اس قسم کی باتوں سے دلچسپی نہیں۔" مگر ہم کو مجبور ہو کر پختہ وعدہ کرنا پڑا۔​
دوسرے روز ہم کچہری ذرا پہلے چلے گئے۔ اب چاندنی کی کارستانی سنئے۔ ہمارے چلے جانے کے بعد نہ معلوم کہاں سے اس نے ایک زبردست گدھا منگایا۔ اس کے کان میں کیل سے سوراخ کیا گیا۔ اور اس میں ایک لمبا سا تار باندھ کر گدھے کو غسلخانہ میں لے جا کر اس طرح کھڑا کیا کہ وہ چوکی اور دیوار کے بیچ میں پھنس گیا۔ اس طرح کھڑا کر کے غسلخانہ کی موری میں سے اس تار کو نکالا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۳​
جو گدھے کے کان میں بندھا تھا اور تار کے سرے کو ایک کیل گاڑ کر اس سے مضبوط باندھ دیا۔ کہ اگر گدھا ذرا بھی جنبش کرے تو اس کو سخت تکلیف ہو۔​
کامل حسبِ وعدہ ہمارے مکان پر ایک بجے پہنچے۔ وہ پیدل تھے اور بجائے صدر دروازے سے آنے کے بنگلہ کی احاطہ والی کچی دیوار پھاند کر اس طرح آئے کہ ملازم وغیرہ کوئی ان کو آتا ہوا نہ دیکھ سکے۔ وہ سیدھا ملنے والے کمرے میں گھس گئے۔ انہوں نے کمرہ خالی پایا۔ اور وہ بیٹھ گئے۔​
کسی نے سچ کہا ہے نیند نہ آئے تو ریشم کے گدوں پر اور آئے تو پھانسی کے تختہ پر۔ بعض اوقات ایسی بے موقعہ نیند آتی ہے کہ تعجب ہوتا ہے۔ یہی حال چاندنی کا ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ کامل آتے ہوں گے اور ان کے انتظار اور اپنی کارستانی کے سوچ میں وہ اندر والے سونے کے کمرہ کے قریب والے صوفہ پر تکیہ لگا کر لیٹ گئی۔ لیٹے لیٹے اس کو نیند آ گئی اور وہ سو گئی۔​
یکایک اس کی کچھ آہٹ سے جو آنکھ کھلی تو اپنے منہ کے قریب کامل کا منہ پایا۔ وہ اس پر جھکے ہوئے تھے۔ بے اختیاری کے عالم میں اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی اور وہ تڑپ کر اٹھی۔ کامل کچھ گھبرا گئے۔ اپنے کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے چاندنی نے کہا۔ "چلئے ملنے والے کمرہ میں چلئے۔ میں ابھی آتی ہوں۔​
"مگر سنئے تو۔" یہ کہہ کر کامل چاندنی کی طرف بڑھے۔​
چاندنی نے بڑی پامردی اور ہمت سے کام لیا۔ وہ اس قدر گھبرا گئی​
 
Top