شریر بیوی صفحہ 72

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200072.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 140

آٹھواں باب

دوست کی حماقت

ہمارے پرانے اور لنگوٹیا یار صرف دو تین ہی تھے۔ ان میں سے ایک تو حامد تھے جن کے شہر میں ہم رہ آئے تھے۔ اور ایک کامل تھے۔ قسمت کی خوبی کہ اب ان کا ساتھ ہوا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت تھی اور جب ہم ان کے وطن میں آئے تو انہوں نے حامد سے بھی زیادہ ہماری اور چاندنی کی خاطر مدارت کی۔ حامد کی طرح یہ بھی رئیس زادے تھے مگر ان کے والد صاحب زندہ تھے۔ حامد میں اور ان میں اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ حامد کو سیر و شکار کا شوق تھا اور اپنی جائداد کا وہ خود انتظام کرتا تھا۔ اور ایل ایل بھی میں اگر فیل نہ ہو جاتا تو شائد وکالت کرتا ہوتا۔ مگر ارادہ ضرور تھا کہ پھر امتحان دے۔ لیکن کامل نے انٹرنس پاس کر کے ہی پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ اور ان کو اپنی جائداد وغیرہ کے کام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مگر ہمارے تعلقات دونوں سے ایک سے تھے۔ جس طرح حامد ہمارے اور ہماری بیوی کے لئے ایک لازمی چیز تھے۔ اسی طرح کامل بھی تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 141

جب سے ہم آئے تھے ہمیں اور چاندنی دونوں کو بغیر ان کے لطف ہی نہ آتا تھا۔ ہم کلب جایا کرتے تھے اور کامل چاندنی کو اپنی موٹر میں بٹھا کر اپنی بہنوں کے ساتھ ہوا کھلانے لے جاتے تھے۔ کبھی اپنی بہنوں کو بٹھا کر ہمارے یہاں آتے اور چاندنی ساتھ ہو جاتی۔ اور کبھی چاندنی کو گھر لے جاتے اور وہاں سے اپنی بہنوں کو لے آتے۔

(1)

کسی نے سچ کہا ہے کہ آدمی کی پرکھ اس کے برتنے سے معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ کامل کے مزاج میں بدنظمی اور آوارگی ہے۔ یہ سن کر افسوس ضرور ہوا مگر ہم نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا۔ دراصل ہمیں کبھی کچھ خیال بھی نہ ہوا اور ہم نے کبھی چاندنی سے یہ بھی نہ پوچھا کہ تو کہاں جا رہی ہے۔

ہماری معلومات میں اس بات سے اضافہ ہوئے زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ ایک روز چاندنی نے کامل کے ذکر پر محض تذکراً ہی کہا کہ کامل صاحب کچھ اچھے آدمی نہیں معلوم ہوتے اور مجھے ان کے ساتھ ہوا خوری کرنے جانا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔

ہم نے برسبیل تذکرہ ان کے چال چلن کو مدنظر رکھتے ہوئے چاندنی کی تائید کی۔ مگر یہ ضرور پوچھا کہ تم نے آخر ان کے چال چلن کے متعلق کس سے سنا۔

وہ مجھ سے ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں۔ اور بے تکلف بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ جو مجھ کو پسند نہیں۔
 
Top