شریر بیوی- صفحہ 7

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200007.gif
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
10 -11

آتے میں ہم کو ایک کھیت کے کنارے ایک ناریل کا حقہ رکھا ملا جس کا حقہ تھا وہ ذرا فاصلے پر کنویں کے پاس تھا ہم نے فوراََ حقہ اٹھالیا اور مزے میں اس وقت تک اس سے دلچسپی لیتے رہے جب تک اس نے کام دیا پھر پھینک دیا۔ وہاں سے واپسی میں ہم کو ایک درخت ملا جس پر کچےکیتہ لگے ہوئے تھے۔ رائے ہوئی کہ ان کو توڑنا چاہیے پھر کیا تھا سیکڑوں ہزاروں کیتہ گرا دیئے اتنے میں ایک آدمی آگیا۔ اس نے بدزبانی کی تو ہم نے اس کو فوراََاسی سادھو والے چمٹے سے مارنا شروع کیا قصہ مختصر اس کو ادھیڑ کر ڈال دیا مگر مارنا بند نہ کیا۔ اس کی خوش قسمتی تھی جو سامنے سے چار پانچ آدمی ہم کو لٹھ لیے غل مچاتے، شور کرتے آتے نظر پڑے ہم وہاں سے تیر کی طرح بھاگے۔ ہمارا بہت پیچھا کیا مگر بے کار۔ واپسی میں کسی نئی شرارت کا موقع ہی نہ ملا۔ سوائے اس کے کہ ایک ایک خوانچے والے کی مٹھائی اس طرح خراب کی کہ اس کے پاس والی نالی میں اس زور سے پتھر مارا کہ تمام چھینٹیں اُڑ کر اس کے اور اس کی خوانچہ پر پڑیں۔ ہوتے ہوتے وہاں سے اولن ملز کمپنی کے پاس سے ہوتے ہوئے ہم ینگ مین ایسوسی ایشن کلب پہنچے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ فٹ بال کا میچ ہورہا ہے اور کثرت سے ہجوم ہے۔ گوروں سے میچ ہورہا تھا۔ ہمارے سب ساتھی الگ ہوگئے تھے۔ صرف وہی رہ گئے تھے جو ہمارے بنگلے سے ہمارے ساتھ ہوئے تھے۔ اور ہم بھی تھکے ہوئے تھے۔ لہٰذا میچ میں جی نہ لگتا تھا بہت ترکیبیں سوچیں کہ کیا کریں مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ مجبوراََ وقت گزارنے کے لیے وہاں پہنچے جہاں بے شمار سائیکلوں کا ہجوم تھا۔ اور سیفٹی پن نکل کر پنکچر کرنا شروع کیے قصہ مختصر ایکوں ایک سائیکل بیکار کردی۔ اس سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ معاََ خیال آیا کہ میچ ختم کرانا چاہیے۔فٹ بال میدان سے باہر بھی آگرتی تھی اور لڑکے دوڑ کر اٹھا کر کھلاڑیوں کو واپس کردیتے تھے۔ ہم نے بھی ایک مرتبہ یہ خدمت انجام دی لیکن آہستہ سے اپنے سیفٹی پن کی نوک اس میں چبھو دی۔ مشکل ہی سے دو کک اس میں لگے ہوں گے کہ دوسرا فٹ جو موجود رہتا ہے مانگا گیا اس کا بھی ہم نے دہی حشر کیا۔ چلئے چھٹی ہوئی اور فٹ بال ہی نہ رہا۔ میچ گڑبڑ ہوگیا۔ مگر ساتھ ہی ہمارے اوپر شبہ سا کیا گیا اور ہم نے بہتر سمجھا کہ وہاں سے کھسک آئیں۔ میچ درہم برہم ہو گیا اور اصل لطف تو جب آیا، جب سب کے سب بائیسکل والے اپنی بائیسکلوں پر چڑھ کر فوراًً ہی اترنے پر مجبور ہوئے۔ عجیب لطف آرہا تھا۔ سب لوگ کہہ رہے تھے یہ کون شریر تھا۔ جس نے فٹ بال کو بھی بگاڑا، اور بائیسکلوں کو بھی میچ سے ہم واپس آکر اپنے بنگلہ میں داخل ہونے ہی کو تھے کہ ہم نے دیکھا کہ سامنے کے پریڈ کے میدان میں دو سانڈ لڑ رہے ہیں۔ یہ میدان چاروں طرف سے ایک نیچی دیوار سے گھرا ہوا ہے جس پر سلاخچے لگے ہوئے ہیں۔ ہم اس پر کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنے لگے لیکن کچھ لوگ اندر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ منجملہ اوروں کے ان میں ایک مٹھائی والا بھی تھا۔ سانڈوں میں ایسی ریل پیل ہوئی کہ خوانچہ والا دیوار اور سانڈوں کے بیچ میں اس طرح آگیا کہ اس کو دیوار پر خوانچہ کندھے پر رکھے رکھے اس طرح بیٹھنا پڑا کہ خوانچہ ہمارے سامنے مثل دستر خوان کے لگ گیا۔ ہم نے بھی خوب کھایا خوانچہ ولا دیکھ رہا تھا اور کچھ نہ کرسکتا تھا کیونکہ غل غپاڑہ اور ہلڑ بیحد تھا۔ افسوس کہ ہماری ہنسی نے ہم کو زیادہ نہ کھانے دیا اور لڑائی ختم ہونے سے پہلے ہی ہم بھاگ گئے۔ چراغ چل گئے تھے کہ اتنے میں ایک صاحب آئے۔ انہوں نے کہا کہ چلو کھلونوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
10 -11

آتے میں ہم کو ایک کھیت کے کنارے ایک ناریل کا حقہ رکھا ملا جس کا حقہ تھا وہ ذرا فاصلے پر کنویں کے پاس تھا ہم نے فوراََ حقہ اٹھالیا اور مزے میں اس وقت تک اس سے دلچسپی لیتے رہے جب تک اس نے کام دیا پھر پھینک دیا۔ وہاں سے واپسی میں ہم کو ایک درخت ملا جس پر کچےکیتہ لگے ہوئے تھے۔ رائے ہوئی کہ ان کو توڑنا چاہیے پھر کیا تھا سیکڑوں ہزاروں کیتہ گرا دیئے اتنے میں ایک آدمی آگیا۔ اس نے بدزبانی کی تو ہم نے اس کو فوراََاسی سادھو والے چمٹے سے مارنا شروع کیا قصہ مختصر اس کو ادھیڑ کر ڈال دیا مگر مارنا بند نہ کیا۔ اس کی خوش قسمتی تھی جو سامنے سے چار پانچ آدمی ہم کو لٹھ لیے غل مچاتے، شور کرتے آتے نظر پڑے ہم وہاں سے تیر کی طرح بھاگے۔ ہمارا بہت پیچھا کیا مگر بے کار۔ واپسی میں کسی نئی شرارت کا موقع ہی نہ ملا۔ سوائے اس کے کہ ایک ایک خوانچے والے کی مٹھائی اس طرح خراب کی کہ اس کے پاس والی نالی میں اس زور سے پتھر مارا کہ تمام چھینٹیں اُڑ کر اس کے اور اس کے خوانچہ پر پڑیں۔ ہوتے ہوتے وہاں سے اولن ملز کمپنی کے پاس سے ہوتے ہوئے ہم ینگ مین ایسوسی ایشن کلب پہنچے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ فٹ بال کا میچ ہورہا ہے اور کثرت سے ہجوم ہے۔ گوروں سے میچ ہورہا تھا۔ ہمارے سب ساتھی الگ ہوگئے تھے۔ صرف وہی دو رہ گئے تھے جو ہمارے بنگلے سے ہمارے ساتھ ہوئے تھے۔ اور ہم بھی تھکے ہوئے تھے۔ لہٰذا میچ میں جی نہ لگتا تھا بہت ترکیبیں سوچیں کہ کیا کریں مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ مجبوراََ وقت گزارنے کے لیے وہاں پہنچے جہاں بے شمار سائیکلوں کا ہجوم تھا۔ اور سیفٹی پن نکل کر پنکچر کرنا شروع کیے قصہ مختصر ایکوں ایک سائیکل بیکار کردی۔ اس سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ معاََ خیال آیا کہ میچ ختم کرانا چاہیے۔فٹ بال میدان سے باہر بھی آگرتی تھی اور لڑکے دوڑ کر اٹھا کر کھلاڑیوں کو واپس کردیتے تھے۔ ہم نے بھی ایک مرتبہ یہ خدمت انجام دی لیکن آہستہ سے اپنے سیفٹی پن کی نوک اس میں چبھو دی۔ مشکل ہی سے دو کک اس میں لگے ہوں گے کہ دوسرا فٹ جو موجود رہتا ہے مانگا گیا اس کا بھی ہم نے دہی حشر کیا۔ چلئے چھٹی ہوئی اور فٹ بال ہی نہ رہا۔ میچ گڑبڑ ہوگیا۔ مگر ساتھ ہی ہمارے اوپر شبہ سا کیا گیا اور ہم نے بہتر سمجھا کہ وہاں سے کھسک آئیں۔ میچ درہم برہم ہو گیا اور اصل لطف تو جب آیا، جب سب کے سب بائیسکل والے اپنی بائیسکلوں پر چڑھ کر فوراًً ہی اترنے پر مجبور ہوئے۔ عجیب لطف آرہا تھا۔ سب لوگ کہہ رہے تھے یہ کون شریر تھا۔ جس نے فٹ بال کو بھی بگاڑا، اور بائیسکلوں کو بھی ۔ میچ سے ہم واپس آکر اپنے بنگلہ میں داخل ہونے ہی کو تھے کہ ہم نے دیکھا کہ سامنے کے پریڈ کے میدان میں دو سانڈ لڑ رہے ہیں۔ یہ میدان چاروں طرف سے ایک نیچی دیوار سے گھرا ہوا ہے جس پر سلاخچے لگے ہوئے ہیں۔ ہم اس پر کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنے لگے لیکن کچھ لوگ اندر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ منجملہ اوروں کے ان میں ایک مٹھائی والا بھی تھا۔ سانڈوں میں ایسی ریل پیل ہوئی کہ خوانچہ والا دیوار اور سانڈوں کے بیچ میں اس طرح آگیا کہ اس کو دیوار پر خوانچہ کندھے پر رکھے رکھے اس طرح بیٹھنا پڑا کہ خوانچہ ہمارے سامنے مثل دستر خوان کے لگ گیا۔ ہم نے بھی خوب کھایا خوانچہ ولا دیکھ رہا تھا اور کچھ نہ کرسکتا تھا کیونکہ غل غپاڑہ اور ہلڑ بیحد تھا۔ افسوس کہ ہماری ہنسی نے ہم کو زیادہ نہ کھانے دیا اور لڑائی ختم ہونے سے پہلے ہی ہم بھاگ گئے۔ چراغ چل گئے تھے کہ اتنے میں ایک صاحب آئے۔ انہوں نے کہا کہ چلو کھلونوں
 
Top