شریر بیوی صفحہ 68

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200068.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 132

"میں اس عرصہ میں اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔" یہ کہکر سپاہی کو آواز دی۔

"آپ خوب سمجھ لیجئے کہ میری توہین ہو رہی ہے۔ اور آپ کو جب تک سپرنٹنڈنٹ پولیس کا جواب نہ آ جائے قانوناً رکنا پڑے گا۔" بیرسٹر صاحب نے کہا۔

"میں معافی چاہتا ہوں کہ میں انتظار نہیں کر سکتا اور بہتر ہوتا کہ آپ اس معاملہ کو طول نہ دیتے۔"

اتنے میں موٹر کی آواز آئی اور حامد صاحب وارد ہوئے۔ سیدھے کمرہ میں چلے آئے اور سب انسپکٹر صاحب اور بیرسٹر صاحب کو پایا۔ سب انسپکٹر صاحب نے حامد سے کہا۔ "یہ بہت اچھا ہوا کہ آپ آ گئے۔ براہ کرم بیرسٹر صاحب کو سمجھا دیجئے۔"

"آخر کیا معاملہ ہے؟" حامد نے دریافت کیا۔

"آپ خود بیرسٹر صاحب سے دریافت کر لیجئے۔ میں علٰیحدہ ہوا جاتا ہوں۔" یہ کہکر وہ باہر آ گئے اور برآمدہ میں بیٹھ گئے۔

حامد نے بناوٹ کے ساتھ تعجب سے بیرسٹر صاحب کو دیکھا جن کی عجیب ہی حالت تھی اور کچھ پوچھنے ہی والے تھے کہ تھانیدار صاحب پھر کمرہ میں گھس آئے۔ اور حامد صاحب سے کہا کہ میری ذرا بات سن لیجیئے۔ پہلے میں آپ کو سب حال سنا دوں۔ بیرسٹر صاحب کا بس نہ کہ وہ سب انسپکٹر صاحب کو اس سے باز رکھتے۔ سب انسپکٹر صاحب نے حامد کو ذرا علٰیحدہ لے جا کر سب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 133

حال سنایا اور خطوط دکھائے۔ بیرسٹر صاحب یہ سب بناوٹی کاروائی دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد پھر سب انسپکٹر صاحب کمرہ سے باہر چلے گئے۔

حامد کا جی تو چاہتا تھا کہ اس وقت بیرسٹر صاحب سے ان کی شکار والے روز کی حماقت کا بدلہ لے کر ان کو جھک کر سلام کرے۔ مگر اس طرح کھیل بگڑ جاتا۔ اس نے بیرسٹر صاحب کی صورت اور موقع کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔

"کوئی تدبیر تم ہی نکالو اور اس کو دفان کرو" کچھ خاموشی کے بعد بیرسٹر صاحب بولے۔

حامد سب انسپکٹر کے پاس آئے۔ اور پھر بیرسٹر صاحب کے پاس جا کر کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں کسی طرح بغیر وہ خطوط لئے نہیں جا سکتا۔ حامد نے بہت کچھ انسانی مروت اور ہمدردی کا واسطہ دیا تھا۔ اور سب انسپکٹر صاحب کو خود ہمدردی تھی۔ مگر وہ مجبور تھے کیونکہ یہ معاملہ خود افسر اول یعنی ان کے تھانے کے بڑے سب انسپکٹر کے ہاتھ میں تھا۔ دوسری تجویز بیرسٹر صاحب نے یہ کی تھی کہ بھئی رشوت دے کر ان کو ٹال دو۔ سب انسپکٹر صاحب بھی اب آ گئے۔ اور حامد نے بیرسٹر صاحب کے سامنے ان سے سفارش کی اور کہا کہ شہر کے ایک بڑے رکن کی عزت کا معاملہ ہے۔ آپ اس معاملہ میں نرمی اور رعایت سے کام لیجیئے۔ اور کہہ دیجیئے گا کہ تلاشی پر کچھ برآمد نہیں ہوا۔

"واہ جناب آپ مجھے پھنسانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ خطوط بیرسٹر صاحب کے لکھے ہوئے ہیں تو وہ خطوط یہاں نہ نکلیں یہ ناممکن ہے۔ اور ہر شخص میرے
 
Top