شریر بیوی صفحہ 66

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200066.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 128

اس درخت کے پاس پہنچے۔ اوپر جو نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو بیرسٹر صاحب معلق ہیں۔ تعجب سے ہم نے تصنع کے ساتھ چلا کر بیرسٹر صاحب کو پکار اور ساتھی بھی دوڑ کر آئے۔ بیرسٹر صاحب سے ہم نے اور حامد نے کہا کہ کیوں جناب آپ تو شہر میں کسی سے ملنے جلنے والے تھے۔ آخر یہ کیا خلاف شرع معاملہ ہے کہ درخت پر آویزاں ہیں۔ خدا کے واسطے جلد اس معمہ کو حل کیجئے۔ بیرسٹر صاحب خفت کی مسکراہٹ سے کام لے رہے تھے۔ کہنے لگے کہ بھئی میں دراصل آج کل سیاروں کی نقل و حرکت پر بھی غور کر رہا ہوں۔ چنانچہ زحل کا طلوع دیکھنے چڑھا تھا۔ ہم لوگوں نے ایک قہقہہ لگایا اور مختلف رائیں قائم کیں۔ بیرسٹر صاحب نہ معلوم کس مصبیت سے چڑھے ہوں گے۔ کیونکہ جوتہ پہنیں ہوئے تھے۔ ہم لوگوں نے امداد دے کر اتارا۔ اب سنجیدگی اور خاموشی سے جو ان سے وجہ دریافت کی تو پھر وہی کہنے لگے کہ زحل کا طلوع دیکھ رہا تھا۔ بیرسٹر صاحب کو چاندنی نے ایسا زحل دکھایا کہ انکا لوگوں نے ناطقہ بند کر دیا۔ یار دوست ملنے والے جن کو اصل وجہ معلوم نہ تھی۔ سب یہی کہتے تھے کہ نہ معلوم کیا معاملہ ہو گا۔ کلب میں اور کچہری میں غرض جہاں بھی کوئی کسی سے بہانہ کرے تو آپس میں یہ محاورہ استعمال ہونے لگاکہ کہیں زحل دیکھنے تو نہیں جا رہے ہو۔ غرض بیرسٹر صاحب کا ناک میں دم آ گیا۔

غرض اسی طرح ہمارے چاندنی نے بیرسٹر صاحب کو کئی جگہ دوڑایا ایک مرتبہ لکھدیا کہ پرانے قلعہ کے دروازہ کے سامنے موٹر پر ٹھیک ساڑھے پانچ بجے ملئے گا۔ میں ٹہلنے آؤں گی۔ مگر براہ کرم تنہا ہوئیے گا۔ ہم لوگ چہل
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 129

قدمی کو نکل گئے اور ٹھیک سوا پانچ بجے وہاں پہنچے۔ بیرسٹر صاحب موجود تھے۔ ہم، حامد اور ایک صاحب اور تھے، فوراً دوڑ کر موٹر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ بھئی خوب ملے۔ بیرسٹر صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا بھئی تم لوگوں کا کیا منشا ہے۔ ہم نے کہا یہ کہ ہوا خوری کریں اور گھر واپس چلیں۔ بیرسٹر صاحب بولے کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔ کہ تم لوگوں کو سیدھا تمہارے گھر پہنچا دوں اور بس۔ کیونکہ مجھ کو کسی دوسرے جگہ جانا ہے۔ ہم نے کہا نہیں صاحب معاف کیجئے۔ ہم لوگ اترے جاتے ہیں۔ یہ کہکر ہم لوگ اتر کر ایک پُل پر بیٹھ گئے۔ اب بیرسٹر صاحب بڑے چکرائے کہ ہم لوگ یہاں سے ٹلتے ہی نہ تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ ہم لوگوں کو موٹر پر لاد کر کہیں پھینک کر واپس آ جائیں۔ دوبارہ آئے اور ہمیں راضی کرنے لگے کہ چلو گھر پہنچا دیں۔ مگر ہم بھلا کاہے کو مانتے تھے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے چھ بجائے۔ بیرسٹر صاحب مجبوراً چلے گئے۔ ہم کیا بتائیں کہ بیرسٹر صاحب نے اس اتفاقیہ ملاقات کا کن الفاظ میں بذریعہ خط چاندنی سے تذکرہ کیا۔

غرض خوب خوب بیرسٹر صاحب سے چاندنی نے قواعد کرائی۔ کبھی رات کو اسٹیشن پر دوڑایا تو کبھی میلوں پیدل چلایا۔ شکار کے لئے کبھی تیار کیا تو ایسی گڑبڑی کر دی کہ خود نہ جا سکی۔ اور بیرسٹر صاحب نے ناشتہ کا انتظام کیا وہ یاروں نے چکھا۔
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔
بہت جلد ہی اس لغو خط و کتابت سے جی بھر گیا۔ اور ہماری سمجھ ہی
 
Top